Saturday, June 3, 2023

غزلیں اور ںظمیں

غزلیں اور ںظمیں 

وقارؔ مانوی

ظلمت تمام مٹ گئی، سب دھند چھٹ گئی

بیمار پر جو رات تھی بھاری وہ کٹ گئی

دنیا وسیع تر تھی مری تم جو ساتھ تھے

تم دور کیا ہوئے مری دنیا سمٹ گئی

اُس عمر کے دنوں کا بھی نعم البدل ملے

جو عمر احتیاط پسندی میں کٹ گئی

زخموں بھرا یہ جسم چھپاؤں میں کس طرح

رونا یہ ہے کہ تن پہ جو چادر تھی پھٹ گئی

کشتی میں جو سوار تھے کس کو پکارتے

دریا کے بیچوں بیچ تو کشتی پلٹ گئی

ہم سے تو آس کا بھی نہ کھایا گیا فریب

عمرِ عزیز یاس کی چادر میں کٹ گئی

جو جس کے ہاتھ آیا وہ بس لے کے چل دیا

اک زندگی تھی جو کئی حصوں میں بٹ گئی

خود کو تکلفاً بھی بچانے نہ پایا میں

آفت جو راہ میں ملی مجھ سے لپٹ گئی

وہ کھیل چل رہا تھا جو شہ اور مات کا

اس کھیل کھیل میں مری بازی پلٹ گئی

خوش تھے کہ جشن سالگرہ کا منا لیا

سوچا نہ یہ کہ عمر تو اک سال گھٹ گئی

میں بڑھ رہا تھا جانبِ منزل مگر وقارؔ

میں کیا کروں کہ راہ سے منزل ہی ہٹ گئی

 

1711، دوسری منزل، گلی تخت والی

سوئیوالان، دریا گنج، نئی دہلی۔110002

موبائل نمبر: 9582059820

 

پی پی سریواستورندؔ

 

میں تو اکثر بھیڑ میں رہتا ہوں تنہا کون ہے

میرے اندر چیخنے والا اکیلا کون ہے

 

کون ہے جو جگمگا دیتا ہے ساری کائنات

اور بلندی سے اندھیروں کو گراتا کون ہے

 

اک روایت، ایک ہی تہذیب میں رہتے ہوئے

یہ مرے اپنے گھرانے میں الگ سا کون ہے

 

کون ہے جو روٹھ جاتا ہے ذرا سی بات پر

اور اگر خوش تو پھر موتی لٹاتا کون ہے

 

جھلملاتی آرزو، بے ربط وعدوں کے چراغ

اونگھتی راتوں کے حجرے میں جلاتا کون ہے

 

رات آتی ہے تو لاوارث پرندے کی طرح

خواب بن کر میری آنکھوں میں اترتا کون ہے

 

رندؔ یہ گونگے فقیروں کا لبادہ اوڑھ کر

شام ہی سے میرے دروازے پہ بیٹھا کون ہے

 

16-R ،سیکٹر - 11 ، نوئیڈا - 201301

موبائل:  9711422058

 

 

 

 

ڈاکٹر رونق شہریؔ

 

قاعدے سے کوئی تہمت بھی نہیں ڈال سکے

شیشے میں چہرہ سلامت بھی نہیں ڈال سکے

 

قید ہوکر رہے افلاس کی دیواروں میں

میرؔ جی سر پہ کوئی چھت بھی نہیں ڈال سکے

 

مدتوں جس نے کیا بوجھ ہمارا ہلکا

نام سے اس کے کوئی خط بھی نہیں ڈال سکے

 

مدعا ہوگیا روشن تو ہے اس میں حکمت

ہم تو از راہ سماعت بھی نہیں ڈال سکے

 

آبلہ پائی سے بے چین نہ تھے غم زد گاں

راہ میں خیمۂ راحت بھی نہیں ڈال سکے

 

ایک مٹھی گرے چاول کو اٹھانے کے لیے

آنکھ میں بھوک کی شدت بھی نہیں ڈال سکے

 

اس کے ہی آنسوؤں میں بہتی ہے غم کی دنیا

اور تصویر میں عورت بھی نہیں ڈال سکے

 

نزد کڈس گارڈن اسکول، جھریا،دھنباد (جھارکھنڈ)-828111

موبائل: 8434707170

 

ڈاکٹر مخمورؔ کاکوروی

 

جب میں سورج کی طرح شام کو ڈھل جاؤں گا

غازۂ غم ترے رخسار پہ مَل جاؤں گا

 

دارِ فانی سے تہی دست سکندر کی طر ح

میں بصد شوق ترے ساتھ اجل جاؤں گا

 

اک نہ اک روز تو دنیا سے سفر کرنا ہے

وہ اگر آج گیا ہے، تو میں کل جاؤں گا

 

شرمساری کے سوا ہاتھ نہ ہوگا کچھ بھی

حشر میں لے کے میں کیا فردِ عمل جاؤں گا

 

یوں ہی بڑھتا رہا گر جوشِ محبت کا جنوں

خاک چھانوں گا، کبھی دشت و جبل جاؤں گا

 

لاکھ کوشش کرے وہ مجھ کو گرانے کی مگر

میں ہنر ور ہوں بہر حال سنبھل جاؤں گا

 

قدر کر میری محبت کی وگرنہ اک دن

’’میں دبے پاؤں ترے دل سے نکل جاؤں گا‘‘

 

لوگ مخمورؔ فراموش نہ کر پائیں گے

دے کے دنیا کو کوئی ایسی غزل جاؤں گا

 

68،چودھری محلہ، کارکوری ،لکھنؤ (یوپی)

موبائل : 9450097299

 

سلطان شمسیؔ

 

جو قافلہ رواں تھا متاعِ گراں کے ساتھ

گم ہوگیا وہ قافلہ سیلِ رواں کے ساتھ

 

میں ہوں سفر میں تنہا بارگراں کے ساتھ

’’مشکل ہے وقت آؤ چلیں کارواں کے ساتھ‘‘

 

ہجر و وصال، رتجگا، حسنِ طلب وہی

ملتی ہے داستان اسی داستاں کے ساتھ

 

خونِ جگر سے سینچا تھا جس نے بھی چمن کو

نسبت کہاں کسی کو ہے اس باغباں کے ساتھ

 

جو کشتیاں لگی تھیں گناہوں کے بحر میں

توبہ سے بہہ گئی ہیں وہ آبِ رواں کے ساتھ

 

طوفانِ حوادث سے دو چار ہوں مگر

شمسیؔ سفر ہے جاری عزم جواں کے ساتھ

 

مقام و پوسٹ برداہا، شمسی چوک، ویاکمتول

ضلع مدھوبنی، (بہار)-847304

موبائل : 9534775330

 

 

 

 

عامر عطاؔ

 

خوشی کا ایک لمحہ چاہیے تھا

گھڑی بھر ساتھ تیرا چاہیے تھا

ملا تھا میں مہینوں بعد تم سے

تمہیں سینے سے لگنا چاہیے تھا

میں دنیا گھومنے بیکار نکلا

تری آنکھوں کو تکنا چاہیے تھا

ہمیشہ ہم نے کی تیری تمنا

ہمیں کب ’’تیرے جیسا‘‘ چاہیے تھا

تجھے سونپا تھا اپنا آپ میں نے

تو پھر محفوظ رکھنا چاہیے تھا

سبھی اچھے ہوں کب چاہا تھا میں نے

مجھے اک دوست اچھا چاہیے تھا

پھنسے ہیں اب وہی مشکل ڈگر میں

جنہیں آسان رستہ چاہیے تھا

کوئی بیوہ کے دکھ کو کیا سمجھتا

سبھی کو گھر میں حصہ چاہیے تھا

میں سمجھا وہ مری خاطر کھڑی ہے

مگر اس کو تو رکشا چاہیے تھا

T-248 ، بارابگان لین، پوسٹ برتالا ، پی ایس راجا بگان،کولکاتہ-700018

موبائل: 8100460148

 

 

سفر نقوی 

بڑھے گا دن نہ چلے گی ہوا ہمارے بعد

سمیٹ لے گا یہ دنیا خدا ہمارے بعد

ہمارا صدقہ اتارو اے برچھیو، بھالو!

کہ کون رکھے گا ذوق قضا ہمارے بعد

ہمیں ہیں سنگ حفاظت بقائے شیشہ گری

کہ ٹوٹ جائے گا ہر آئینہ ہمارے بعد

ہم ایسے جائیں گے لے کر بلائیں دنیا کی

کہیں نہ ہوگا کوئی حادثہ ہمارے بعد

دیوں کو جاؤ خبردار کرکے آجاؤ

کہ سرکشی پہ تلےگی ہوا ہمارے بعد

مسافران مصیبت یہ کہتے جاتے ہیں

لٹے نہ ایسے کوئی قافلہ ہمارے بعد

جہاں پہ بچھڑے تھے ہم تم وہ ہو گیا دلدل

کہ اتنا رویا وہ اک راستہ ہمارے بعد

ہمیں بھی کوئی خموشی نہیں پکارے گی

تمہیں بھی کوئی نہ دےگا صدا ہمارے بعد

مقام پہلو ترا مسندوں سے اعلیٰ ہے

کسی کو دینا نہ یہ مرتبہ ہمارے بعد

روم نمبر 86 عثمانیہ لودر ہاسٹل ،سید ہال نارتھ

علی گڑھ- 202002

موبائل : 9119088404

 


نفیس نادرؔ 

جہاں ظلم و ستم کا راستہ ہموار ہوتا ہے

وہاں حق بولنا شاید بڑا دشوار ہوتا ہے

بشر کی مختصر سی زندگی ہوتی تو ہے لیکن

اُسی میں بعض لوگوں کا بڑا کردار ہوتا ہے

شہادت کس کی ہوتی ہے سیاست کون کرتا ہے

فضا میں زہر کا یوں گھولنا ہر بار ہوتا ہے

یہ عہد نو کی خوبی ہے یا ہے انسان کی فطرت

جو اپنے خاص ہوتے ہیں انہی کا وار ہوتا ہے

حقیقت کو بیاں کردے ادیبوں کا قلم جس دن

اُسی دن سر قلم ان کا سر بازار ہوتا ہے

خدا کی رحمتوں سے آشنا ہر شخص ہے نادرؔ

عبادت تب کیا کرتا ہے جب بیمار ہوتا ہے

بلال ہاؤس ،مقام و پوسٹ باگا ،تھانہ، عظیم آباد

ضلع، بھوجپور (آرہ) بہار - 802164

موبائل : 7250985680

 

 

 


ڈاکٹر جو ہی بیگم شاماؔ 

احساس سے خالی ہو بیکار وہ سینہ ہے

انساں کے نہ کام آئے کیا خاک وہ جینا ہے

پتھر کی حویلی کے بے درد مکینوں نے

مظلوم کی آنکھوں کے ہر خواب کو چھینا ہے

آنسو نہیں آنکھوں سے تیزاب ابلتا ہے

پتھر کا جگر کر لو اشکوں کو جو پینا ہے

اس رمز کو سمجھیں کیا ایوان و محل والے

انسان کی عظمت کا، کردار ہی زینہ ہے

انساں کو بلندی سے پستی کی طرف لائے

اس دور ترقی کا کیا خوب قرینہ ہے

اک تیرے سوا مولا فریاد کریں کس سے

بے درد ہوائیں ہیں طوفاں میں سفینہ ہے

میں خواب نئے شاماؔ پلکوں پر بُنوں کیسے

ٹوٹے ہوئے خوابوں کا اس دل میں دفینہ ہے

شعبۂ اردو، الہ آباد ڈگری کالج،پریاگ راج

موبائل: 7985982665

 

جبیں نازاں

شب کے آنچل میں ماہتاب نہیں

صبح کے دامن میں آفتاب نہیں

گود میں آ مزے سے شب سوئی

میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں

اب یہ موسم خزاں سا لگتا ہے

تم نہیں ہو تو پھر شباب نہیں

میری آنکھوں کو غور سے پڑھئے

میرا چہرہ کھلی کتاب نہیں

فیصلہ سوچ کر کرو لوگو!

وقت ہی وقت ہے شتاب نہیں

آنکھیں اس کی اداس کہتی ہیں

’’میکدہ ہے مگر شراب نہیں‘‘

غم کسی کا ہو، سن کے روتی ہوں

ہوئی دنیا ابھی خراب نہیں

سامنا سچ کا بھی کبھی کر لے

مجھ سے نظریں ملا لے، تاب نہیں

ناز کیوں نہ کرے جبیں نازاں

تیرے شعروں کا بھی جواب نہیں

سیکنڈ فلور، J-23، گلی نمبر-12، نزد عبد اللہ مسجد، رمیش پارک، لکشمی نگر،نئی دہلی-110092

موبائل: 9801315572

 

 

 

 

 

 

علی شاہدؔ دلکش

 

ماہیے

 

وہ کتنی سیانی ہے

میرے دل و جاں پر

اس کی سلطانی ہے

 

باتوں میں جولانی ہے

چہرے پر اس کے

پنجاب کا پانی ہے

 

محبوب کی فرقت میں

جلتا رہوں کب تک

موسم کی تمازت میں

 

کچھ یاد نہیں رہتا

بھول سا جاتا ہوں

تو پاس نہیں رہتا

 

کیسی ہے یہ بیماری

تم سے جدا ہو کر

دل رہنے لگا بھاری

 

گل وہ بناتا ہے

نغمہ محبت کا

جس وقت سناتا ہے

 

203/1/387 ویسٹ پرواسا ،شری پارہ روڈ، ملا زور روڈ،

نزد پرباشا مسجد بلال پوسٹ: کانکی ناڑہ ،

ضلع 24 پرگنہ نارتھ ویسٹ بنگال - 743126

موبائل: 8820239345

 

 

مرغوب اثرؔ فاطمی

 

دو پہلو

 

اپنے جیسا چاہیے بھی اور نہیں بھی

میں کہ دنیا کا حسین ترین شخص ہوں

آئینہ دے گا گواہی اس کی

رنگ روپ، چہرے کے نقش، بالوں کے شیڈس

میں ہی ممتاز ہوں، اپنے خطۂ ارض میں

وہ ولایتی جلد والے

کھرچے ہوئے بدن والے

ذرا مجھے پسند نہیں

بالکل جدا مخلوق ہیں وہ

وہ افریقی حبشی، مستور سے

کالے کلوٹے اور رنجور سے

بدہیئت کس لائق ہیں؟

ناک چپٹی منحنی

چاؤں چاؤں کرتے ہوئے

نا مکمل سے وہ کس شمار میں ہیں؟

ان سے کیا تقابل؟

مجھے تو اپنے جیسا چاہیے

لیکن اپنےجیسا بھی کیوں

میرا کیامقابلہ؟

میں تو حسین ترین شخص ہوں

اثرؔتو کیوں شش و پنج میں ہے

تیرا کیا بننا بگڑنا ہے؟

چپ سادھ لے، سوچتا رہ

کہ کمال ہے! اپنے جیسا چاہیے بھی

اور نہیں بھی!!

 

روڈ نمبر7 ،علی گنج، گیا - 823001

موبائل: 9431448749

 

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...