Wednesday, June 7, 2023

نسائی افسانے کی منفرد آواز

نسائی افسانے کی منفرد آواز 

 پروفیسر نجمہ رحمانی

کوئی تیس پینتیس برس ادھر کی بات ہے جب سرحد کے اُس طرف سے لکھنے یا تخلیق کیے جانے والےادب پر پہرہ نہیں تھا اور ہم لوگوں کو وہاں سے آنے والی کتابیں آسانی کے ساتھ دستیاب ہوجاتی تھیں۔ عطیہ داؤد، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، حبیب جالب، احمد فراز، زاہدہ حنا جیسے خلّاق ذہن حالات کی اس کچی مٹی کو اپنے تخلیقی چاک پر رکھ کر دلگدازاور دلسوز کہانیاں اور نظمیں گھڑ رہے تھے۔انہی دنوں کسی دوست کی وساطت سے ’زاہدہ حنا‘ کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’راہ میں اجل ہے‘‘حاصل ہوا۔ موضوع اور زبان دونوں نے دل کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ میں دو تین نشستوں میں ہی ساری کہانیاں پڑھ گئی ۔ انہی کہانیوں میں ایک کہانی’’زمیں آگ کی آسماں آگ کا‘بھی شامل تھی، جس کا مرکزی کردار شہنشاہ بانو بیگم جودراصل شاہ بانو کو سامنے رکھ کر تخلیق کیا گیا تھا۔ کہانی نے ذہن کو اپنی گرفت میں لےلیا۔ شاہ بانو کیس کی گرد ابھی دراصل پوری طرح بیٹھی نہیں تھی۔ تصویر کا جو رخ اس کہانی میں پیش کیا گیا تھا اسے عوام کے سامنے تو کبھی لایا ہی نہیں گیا تھا۔ آخر ہمارے دانشور اور علمااس حقیقت سے نظر کیوں چراتے ہیں۔ اتفاق سے چند ہی دن بعد آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس سے فون آیا، پاکستانی کہانیوں کے کسی نسایٔ کردار پر ایک فیچر پر لکھنا تھا۔ افسانہ ذہن میں تازہ بھی تھا اور دل کو بھی لگتا تھا ۔ میں نے اس افسانے کے مرکزی کردار کو موضوع بنا کر اس پر فیچر لکھ ڈالا، لیکن میرا وہ فیچر کسی جہ سے ن شر نہیں ہوسکا۔ سوالات کا ایک سلسلہ تھا جس نے زاہدہ حنا کی مزید کہانیوں کو پڑھنے کے شوق کو ہوا دی۔ کئی برس بعد ’ قیدی سانس لیتا ہے‘ بھی سامنے آئی۔ اور اس کے بعد ایک طویل خاموشی۔ شاید ادھر اُدھر کچھ کہانیاں چھپی ہوں، لیکن میری نظر سے نہیں گزریں۔ چندبرس بعد زاہدہ حنا ایک سمینار کے موقع پر ملیں تو اپنے دونوں مجموعوں کا ایک سیٹ ’تتلیاں ڈھونڈنے والی،بھی ان کے ساتھ تھا۔ عرصے بعد کہانیاں دوبارہ پڑھیں تو ذہن میں وہی تاثر پھر ابھر آیا۔ 

یہ مختلف موضوعات پر لکھی کہانیاں ، کہیں نہ کہیں کسی ایک دھاگے میں پروئی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، جس میں انسانی احساسات و جذبات کے رنگ بھی شامل ہیں، وقت کا جبر بھی اور سیاست کی سفاکی بھی اور ان سب کے درمیان ابھرتا ہوا اور اپنے آپ پر اصرار کرتا ہوا انسانی وجود بھی۔ مجموعے میں شامل اٹھارہ کہانیوں میں امن سے مذہب اور عشق ،سیاست اور صنعتی تشدد تک انسانی زندگی کی کلفتوں اور برکتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ شاید کچھ عجیب ہو کہ وہ ادب جو سماج کے پرفریب رویوں سے نقاب اٹھاتا ہے،بھلا برکتوں کی بات کیسے کرسکتا ہے، لیکن زاہدہ حنا کے یہاں تشدد اور مکر کی سیاہ پرتوں کو چیرتی، لمحہ بہ لمحہ روشن ہوتی تصویریں ہمیں صاف نظر آتی ہیں۔ایک دوسرے سے متصادم افسانوں میں بظاہر مجبور و بے بس انسان کی قوت ارادی کا ادراک اور احساس کا گھنا پن ان کے یہاں نمایاں ہے، جس کے حوالے ان کی کہانیوں میں جابجا بکھرے پڑےہیں۔

مجموعے کا پہلا افسانہ ’ناکجا آباد‘ ماضی کی دھند میں لپٹےایک ایسے کردار کی کہانی ہے، جو بیک وقت حال اور ماضی میں ایک ساتھ سفر کررہی ہے۔ ہجرت کے عذاب سے گزر کر آیا یہ کردار اپنی روایات کی خوشبو کےحصار میں قید ہے اور زمانہ اس سے بہت آگے نکل گیا ہے، اتنا آگے کہ خود اس کے سامنے کی نسل ریاکاری اور منافقت کے نقاب اوڑھے محبتوں سے نہیں مصلحتوں سے خاندانی رشتوں کو نبھا رہی ہے۔ ایک دوسری سے نفرت کے باوجود اپنے کاروبار کی ترقی کے لیے ایک دوسرے سے محبت کا ڈھونگ رچا رہی ہے، لیکن کہانی محض ماضی کی محبت کا بیان نہیں ہے، بلکہ اس کے تاروپود میں ان گمنام مجاہدوں کی شہادت بھی بُنی ہے جن کے نام ملکوں کی سیاست نے تاریخ کے صفحات سے نوچ کر پھینک دیے۔ مغلوں سے راجپوتوں تک ، تصوف کی پُرپیچ راہوں سے مارکس کے جدلیاتی مادّیت تک جانے کتنے اشارے ہیں جو ہمیں اس دور کی تاریخ پر سوالیہ نشان لگانے پر مجبور کرتے ہیں، تحریکِ آزادی میں مذہب اور اقتدار کے گٹھ جوڑ کی جانب اشارے کرتے ہیں اور جو مذہب اور روحانیت کے فرق کو واضح کرتے ہیں اور عشق کے نئے تصور کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ایک ایسا تصور جو بظاہر دو متضاد مکتبۂ فکر کو ایک دھاگے میں پرودیتا ہے:

’’راہِ محبت وہ راہ ہے کہ جو کوئی عشقِ دوست میں اس پر آیا بے نام و نشاں ہوا۔‘‘

’’وہ رک کر اپنے لکھے ہوئے جملے کو دوبارہ پڑھتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ سلوک کی منزلیں عشقِ حقیقی میں مبتلا صوفیوں کے علاوہ عشقِ بشر میں گرفتارعارفوں نے بھی طے کی ہیں۔یہ وہ عارف تھا کہ جس کی سطحیات کچلے ہوئے مظلوم انسانوں کوحیات نو کی نوید دینے والی تھیں۔ پروہ تھا کہ جو مراتب طریق کے پانچوں علم، عمل، نیت، صدق اور عشق سے سربلند و سرخرو گزرا۔‘‘

عشق کی تعریف ان وسیع تر معنوں کی حامل ہے جہاں شش جہتِ عالم عاشق کے سامنے آئینہ ہوجائے۔ کہانی کہیں کھلتی اور کہیں اشارے کرتی اپنے پڑھنے والے کونا معلوم منزلوں کا مژدہ سناتی ہوئی اختتام پذیر ہوتی ہے۔ 

’’دریائے جہلم کے کنارے پیپل کا ایک پیڑ سر اٹھائے جھومتا ہے۔ اس کی شاخوں پر نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ شکر گزاروں اور فرمانبرداروں میں سے نئے لوگ اٹھ رہے ہیں۔ یہ مستقبل کو پہنچیں اور قرمزی مسافتوں کو طے کریں گے۔ یہ اپنی اپنی راہ جائیں گے اور میں ’ناکجا آباد‘ کا راستہ ڈھونڈتی ہوں۔‘‘

چند صفحات میں ذات سے کائنات، ماضی سے مستقبل اور تاریخ سے فلسفے تک واقعات اور جملے برق کی مانند روشنی کرتے ہیںاور پھر غائب ہوجاتے ہیں۔

ماضی کی باز گشت زاہدہ حنا کے اکثر افسانوں کا غالب حصہ ہے۔ اپنے اجداد کی مٹی سے ذہنی اور روحانی وابستگی نے ان کی تحریروں کو ایک جداگانہ رنگ دیا ہے۔ تقسیمِ ہند سے وابستہ مسائل و نتائج لکھتے ہوئےان کا قلم بے اختیار ہوجاتا ہے۔’آخری بوند کی خوشبو‘ تقسیم اور بعد از تقسیم کی زمین پر زندگی کرنے والے ’سائیں فیض بخش‘ کی زندگی کی کہانی ہے، جن کا چولا آخری بوند کی خوشبوسے بسنتی ہوا اور وہ ایمان کی سلامتی کے ساتھ رخصت ہوئے۔ فیض بخش سندھ کے گاؤں کا تاریخ کا ایک سادہ سا استاد ہے جس نے اپنی بساط بھر فرنگی راج کی مخالفت کی اور طلبا کوتاریخ کا وہ سبق پڑھایا جو اقتدار کی تاریخ کی نفی کرتا تھا اوراس جرم کی پاداش میں نوکری گنوائی۔ عملی طور پر کبھی انقلابی نہ بن سکا مگر اس کا دل انقلابیوں کے ساتھ رہا۔ بظاہر بزدل اور بے عمل، یہ فیض بخش جس کا دل صوفی بھی تھا اور انقلابی بھی، اس کی آنکھوں نے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو دیکھا ۔ متحدہ ہندوستان میں آزادی کے لیے جان گنوانے والے جیالوں کی صحبتوں میں بیٹھا تھا۔ وہی فیض بخش اتحاد کو انتشار میں بدلتے دیکھتا ہے، زمینوں کے بدلتے ہوئےچہرے دیکھتا ہے، اپنی ازلی محرومی دیکھتا ہے، لیکن یہ سب ضمنی چیزیں ہیں افسانے کا اصل کچھ اور ہے۔ اس کردار کی آنکھوں سے افسانہ نگار ہمیں جو دکھانا چاہتا ہے ہر دور میں اقتدار کی ریشہ دوانیاں ،ظلم اور اس کے سامنے سینہ سپر ہوتے جسم ہیں۔ بھگت سنگھ اور محمد جام متحمل ایک ہی باطن کے ہیں، جو ظاہر نہیں ہیں،جو اپنے اپنے زمانے میں ہر قسم کی ناانصافی اور ظلم کے خلاف اٹھنے والی آوازیں جو دل و جان سے حصولِ مقاصد کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے ہیں:

’’اس کی بغل میں ہر وقت کتابیں اور رسالے دبے رہتے کسی دن گریک ٹریجڈی ‘‘اور ’’رومن ہسٹری‘‘ پر کتابیں ہوتیں اور کسی دن مارکس ار اینگلز کے پشتارے...‘‘

سائیں آپ سے کیا چھپانا، ہمارے پاس ایران سے کچھ رسالے آتے ہیں ، کتابچے آتے ہیں، وہ سب فارسی میں ہوتےہیں۔ ان کا ترجمہ ہمیں درکار ہوتا ہے۔باہر کے کسی آدمی سے ہم یہ کام نہیں کراسکتے، اس لیے میری ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ فارسی پڑھوں۔‘‘سائیں فیض بخش کو محسوس ہوا کہ جیسے یہ محمد جام کی نہیں سکھ دیو یا ہنس راج کی آواز ہے۔ وہی جملے، وہی راز داری، ویسی ہی صورتحال...‘‘

مجموعےمیں دو افسانے ویتنام کی صورتحال سے متعلق ہیں، لیکن موضوعاتی اعتبار سے دونوں ایک دوسرے سے مختلف کیفیتوں کو پیش کرتے ہیں۔ ’’زیتون کی شاخ‘‘ ملکوں اور سرحدوں کی حدبندیوں کو توڑتی ہوئی ایسے انسان کی آواز ہے جو رنگ و نسل اور امریکہ ویتنام سے اوپر اٹھ کر انسان کے درد کا شریک ہوتا ہے۔ کہانی کے آغاز میں راوی کی ملاقات ویتنام کی میٹنگ پر جانے والے ایک امریکی لڑکے سے ہوتی ہے۔دوسرے فوجیوں کے ساتھ اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا ہوا ہے۔ اس لڑکے کے تعلق سے راوی کا پہلاتاثر نفرت انگیزہے۔وہ نفرت جو وہ امریکہ کے خلاف محسوس کرتی ہے اور یہ بھول جاتی ہے امریکہ ہو ویتنام یا کوئی اور ملک انسانی رویّے اور انسانی محبتیں ہر جگہ ایک ہی رنگ کی ہوتی ہیں۔ ان کے کھلکھلاتے چہرے دیکھ کر اس کا دل دکھ سے بھرجاتا ہے، لیکن اگلے ہیں لمحے شمالی ویتنامیوں کی لاشوں پر قہقہہ لگاتے امریکی فوجیوں اور نیپام بم سے جُھلسے ہوئے چہروں کا خیال اس کے دل کو پھر اسی نفرت سے بھردیتے ہیں، لیکن نفرت کے اس بھنور میں کہانی کا مرکزی کردار خود احتسابی کے عمل سے گزرتا ہے۔ وائس آف امریکہ اردو سروس کی پروگرام پرڈیوسر اپنی کمزوری اور بزدلی پر مجبوری کا پردہ ڈالتی ہوئی اس امریکہ کے نقطۂ نظر سے فیچر اور اسکرپٹ لکھتی ہے۔ کہانی کے کردار کے حوالے سے یہ منافقانہ مروجہ روش دراصل سماج کے اس عام رویے کی عکاسی کرتی ہے جو ہم روزمرہ زندگی میں اپنے گردوپیش دیکھتے ہیں۔ ہمارے دل کچھ اور کہتے ہیں اور ہماراجسم و ذہن کچھ اور کرتا ہے۔جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے۔ راوی پر اس امریکی لڑکے کی زندگی کے دیگر پہلو روشن ہوتے جاتے ہیں۔اسے پتا چلتا ہے کہ لڑکا بھی جنگ کا اتنا ہی مخالف ہے، جتنی وہ خود، وہ محاذ پر جانا نہیں چاہتا، لیکن زبردستی بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے لیکن جنگ کی آگ میں جھونک دیا جاتا ہے۔ایک سیدھا سادہ انسان جسے امریکی قومیت کا لبادہ اڑھادیا گیا، جو ایک دردمند دل رکھنے والا بیٹا جو اپنی ماں سے بہت پیار کرتا ہے۔ ایک عام بزدل انسان جو محاذ پر جانے سے انکار نہیں کرسکتا ہے۔کہانی کے دونوں کردار بزدل اور منافق، لیکن ان کے رویے پڑھنے والے کے دل میں ان کے خلاف نفرت پیدا نہیں کرتے ،بلکہ ان سے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ بہ حیثیت انسان ان کی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں جتنا یہ اس لیے کہ ہم میں سےاکثر لوگ مصلحتوں اور منافقتوں کے ساتھ زندگی کرتے ہیں۔سو ہماری آپ کی دنیا کے یہ کردار بھی پابہ زنجیر اورکم ہمت ہیں۔ اپنے جیسے بہت سوں کی نمائندگی کرتے ہوئے آگہی کے عذاب میں مبتلا لوگ جو سماجی دباؤ برداشت نہیں کرسکتے۔ نہ اپنے ذہن کے دروازوں کو بند کر سکتے ہیں۔

’’ تم صحیح کہہ رہی ہو۔میں جنگ سے نفرت کرتا تھا۔ اس کے باوجود مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ویتنام جانے سے انکار کروں اور دوسروں کے استہزا اور تمسخر کا نشانہ بنوں اور سرکاری دباؤ برداشت کروں۔ میں بہت بزدل ہوں، محض خواب دیکھنے والا ایک سست الوجود انسان اور کچھ بھی نہیں ۔‘‘ (زیتون کی شاخ)

 یہ الفاظ حاکم قوم کے ایک فردکے دل کی آواز ہے جو راوی کے دل پر نقش ہوتےہیں اور ایک مختصر قیام کے بعد رخصت کے لمحات میں اسے اس عذاب میں مبتلا کرتے ہیں۔ مظلوموں کی جان لینے کے لیے جاتے ہوئے ایک فوجی ،اکلوتے بیٹے اور دوست کو کیا دعا دے:

’’جنہیں آپ دوست جانیں ان کی زندگی کے لیے دعا تو بےساختہ نکلتی ہےاور اس لمحے میں ،میں نے جانا کہ انسان کیسے عذاب میں مبتلا ہے اور ناکردہ گناہوں کی سزا پاتا ہے اور اس سزا اور عذاب کا خاتمہ نہیں۔‘‘

جنگ عذاب کی وہ شکل ہے جو جسموں سے ہوتی ہوئی دلوں اور روحوں کو جھلساتی چلی جاتی ہے جو زندوں اور مردوں کے درمیان حدفاصل کو مٹادیتی ہے، جو رہ جانے والوں کو زندگی کے جہنم میں جھونک دیتی ہے۔ ایک لمحے کی چنگاری جو برسوں کو راکھ کےڈھیر میں بدل دیتی ہے، جو ’ماسومی‘ کی شکل میں انسانوں کے درمیان انسان اور محبتوں کے قرب سے محروم رہ جانے پر مجبور ہے۔ تنہائی کے مکان میں اور ایٹم بم سے حملے سے بچی ہوئی اس ویتنامی لڑکی ماسومی کی کہانی ہے، جس کے بچپن کی ننھی سی آنکھوں نے جنگ کی ہولناکیوں کا نظارہ کیا۔ جس نے نیلے، گلابی، سرخ، زرد، کاسنی رنگوں کی پھلجھڑیوں میں اپنوں کو گم ہوتے دیکھا۔ انسانی تاریخ کا سفاک ترین ایٹمی حملہ جس نے اُس کے دل پروہ داغ چھوڑا جس کی سیاہی اس کی آئندہ نسلوں کی قسمت ہوگئی ۔ اس حملے سے متاثر ہونے والی ماسومی جس کے جوان جسم میں گھُلا زہر اُسے اور اس جیسے کتنوں کو وصل کے ذائقوں اور لذتوں سے کبھی ہمکنار نہ ہونے دے گا۔بہ حیثیت مجموعی یہ دونوں کہانیاں انسانوں کے غیر انسانی رویوں اور ان غیر انسانی رویوں کے شکار مظلوم انسانوں کی کہانیاں ہیں۔ ماسومی کی زندگی ’ایڈگر کی موت‘ دونوں قارئین کو ایک ہی جذباتی سطح پر متاثر کرتی ہیں۔ ان دونوں کرداروں کے اردگرد بُنے ہوئے دوسرے ضمنی کردار ہیں جو بظاہر ان کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات کا حصہ نہیں ہیں، مگر ان کے لیے درد محسوس کرتے ہیںاور اس حوالے سے ہمیں بھی ان کی تکلیفوں میں شریک کرتے ہیں۔ درد کی شراکت یہی عالمی برادری کا تصور ہے۔ یہ وابستگی وسائل و کاروبار نہیں بلکہ دردمندی کے احساس کی وابستگی ہے۔

 موضوعات کی فہرست میں عشق کا موضوع کہیں بہت نیچے چلا جاتا ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ افسانہ تفصیلی صنف ہے اور جس عہدکی پیداوار ہے اس میں سماجیات کو باطنی کیفیات پر فوقیت حاصل ہے۔ ویسے بھی عشق ایک کیفیت ہے اور محض کیفیت کو کہانی کی شکل دینا خاصا دشوار کام ہے۔ شاعری میں یہ موضوع تسلسل و تواتر کے ساتھ استعمال ہوا، اس لیےاس میں نئے پن کا احساس نہیں ہوتا۔نثر بیانیہ صنف ہے اس وجہ سے اس میں کیفیت بیان کے لیے بہت کم گنجائش نکلتی ہے۔ زاہدہ حنا کے افسانوں میں بیانیہ کی سطح پر محسوس کیا جانے والا شعری عنصر اس موضوع کو اپنے اندر بہ آسانی سمیٹ لیتا ہے۔ ’’صرصرِ بے اماں‘‘ اور ’’آنکھوں کے دیدبان‘‘ میں بیان کی شعریت کے سرے بعض مقامات پر نثری نظم سے ملتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس جذبے سے وابستہ وارفتگی کی جو کیفیت ساتویں رات اور آنکھوں کا دید بان میں ہے، ارتفاع کا وہ رنگ ’’صرصرِ بے اماں‘ ،،’زرد آوازیں ‘ میں کم ہی نظر آتا ہے۔افسانوں کا بنیادی فرق یہ ہےکہ پہلے افسانوں میں جذبہ واقعات کی وقوع پذیری میں نہاں ہے۔ اس لیے قاری کا تارِ نظر واقعات کی بنت میں الجھ الجھ جاتا ہے۔البتہ تیسرا افسانہ ایک پر قوت فوکسڈ بیانیہ ہے۔ جو قرنہاقرن تک پھیلی ہوئی کائنات کی فضاؤں پر محیط ہے، منزل کا نہ ہونا ہی جس کی منزل ہے۔ فراق کی مقدس آگ جو وجود کے آتشکدے کو روشن رکھتی ہے، ان افسانوں کا مرکز ہے۔ ان بھید بھرے الفاظ میں سلگتا ہوا سا کچھ ہے جو اندر اترتا جاتا ہے۔ خصوصاً ساتویں رات کے اسلوب میں نیند اور خواب کی سی کیفیت ہےجو عشق سریت کو گہرا کرتی ہے۔

وجود پراصرار ، مذہبی انتہا پسندی اور اسی احساس کی دوسری سطح سیاسی موضوعات پر لکھے گئے افسانوں میں ، اقتدار کی منفی قوتوں سےٹکراؤاور پاکستان میں فوجی آمریت کے تشدد پر مبنی کہانیوں میں دکھائی دیتی ہے۔ ان کہانیوں کا بنیادی عنصرتشدد کے براہ راست بیان کے بجائے اپنے ہونے پر اصرار اور ٹکراؤ کی صورتِ حال کو پیش کرتا ہے، جس کارنگ کہانی ’تتلیاں ڈھونڈنے والی‘میں موجود ہے۔زاہدہ حنا کی کہانی کا اس لیے بھی بہت چرچا رہا کہ یہ کہانی قاری کو جذباتی سطح پر جھنجھوڑتی ہے۔اس کہانی کے مختلف کردار اپنے عمل کے ذریعے مرکزی کردارکے علاوہ باقی کردار بظاہر حکومت کے احکامات کے سامنے سرخم کیے ہوئے ہیں، مگر مرکزی کردار نرجس کے تئیں ان کا دردمندانہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کہیں نہ کہیں اس کے موقف سے اتفاق رکھتے ہیں۔ نوجوان مجسٹریٹ اور مریم دونوں ہی کردار نئی نسل اور عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے اس افسانے کو زمان و مکان کی حد سے نکال کر وہ آفاقی جہت دیتے ہیں، جو ہر ملک اور عہد میں حاکم اور محکوم کے درمیان خاموش کشمکش کا استعارہ بن جاتی ہے۔ کمزور اور طاقتور کے درمیان کشمکش کے چند دیگر رنگ تانیثی موضوعات پر لکھے گئے افسانوں مثلاً ’زمیں آگ کی آسماں آگ کا‘، ’جل ہے سارا جال‘ ، جیسی کہانیوں میں پیش کیا گیا ہے، مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ سیاسی موضوعات پر لکھے گئے افسانوں کے برعکس ان افسانوں کا اختتام کرداروں کی سربلندی کے بجائے ان کی شکست پر ہوتا ہے۔حالانکہ زاہدہ حنا کے پیش کردہ افسانے ’انکار کی قوت‘ سے بھرپور ہیں۔ 

ان کی بیشتر کہانیوں میں ہمیں قدم قدم پر ماضی کے سائے ڈولتے نظر آتے ہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ حال کی جڑیں ماضی میں ہی پیوست ہیں اور مستقبل کا نمو اس ماضی اور حال پر منحصر ہے۔ قوموں اور عالمی تاریخ سے واقفیت نے ان افسانوں کو ایک انفرادیت دی ہے، جس کے حوالے کہانی کی معنویت کو گہرا کرتے ہیں۔تاریخ اور سیاست علاقائی حدوں سے گزر کر عالمی سطح تک وسعت اختیار کر گئی ہے۔

اسلوبیاتی اعتبار سے یہ کہانیاں خوابناک کیفیت سے گزرتی ہوئی نامعلوم اداسی کا احساس کراتی ہیں۔ موضوع عشق ہو یا سیاست، تشدد یا عالمی حالات ،ان کے کردار ہر جگہ اپنے وجود پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں:

 ’’ا للہ اللہ میں اپنے وجود پر کس قدر مصر ہوں، وہی انا کی جنگ ، لب و لہجے کا طمطراق لاموجود الا اللہ جب خدا کو اپنے وجود پر اتنا اصرار ہے تو پھر یہ اصرار مجھے کیوں نہ ہو میں بھی تو موجود ہوں۔‘‘ (نا کجا آباد)

بیان پر ان کی مضبوط گرفت قاری کو اپنے سحر سے آزاد نہیں ہونے دیتی۔ اپنے وجود پر یہ اصرار اس انکار کا نتیجہ ہے جو ہجوم طاقت کے سامنے سرخمیدہ ہونے کے بجائے سربریدہ ہونا بہتر سمجھتا ہے۔ وہ ’انکار ‘جس کے ساتھ عرفان وآگہی کے در وا ہوتے ہیں۔ یہ انکار اور اصرار ایک دوسرے کی طاقت ہیں:

’’انکار کا علم میرے وجود کی انتہائی بلندیوں پر نصب ہے۔ اس علم کے وسط میں نقطہ ہے اور تقوے کے سینے میں عرفان کی روشنی ہے...یہ آگ مری تشنگی بجھاتی ہے اور میں جان لیتی ہوں کہ انکار میں نجات ہے اور انکار میں مری آخری پناہ گاہ ہے۔‘‘(شیریں چشموں کی تلاش)

’زاہدہ حنا‘ اپنے تاریخی و سیاسی شعور ، افسانوں کے موضوعات اور اسلوب ہر دو اعتبار سے اپنے ہم عصروں سے مختلف نظر آتی ہیں۔ان افسانوں کی موضوعاتی و سعت اور اسلوبیاتی انفرادیت قاری کے ذہن اور دل دونوں پر گہرا نقش مرتسم کرتی ہے، مگر کئی مقامات پر شاعرانہ اسلوب کھٹکتا بھی ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ ان کے افسانے انکار، اصرار ،احتجاج افسانوں کے درمیان دردمندی اور وابستگی کے جذباتی مرقعے ہیں۔

.....

صدر شعبۂ اُردو، دہلی ئونیورسٹی

موبائل:  9953429211


No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...