Monday, June 5, 2023

شکیل الرحمن : کشف جمال کا نقاد

شکیل الرحمن : کشف جمال کا نقاد
پروفیسر قدوس جا وید

معاصر اردو تنقید کا معیار، ،جن شخصیتوں کی تنقیدی کاوشوں کے سبب بلند و باوقار ہوا ہے ان میں پروفیسر شکیل الرحمن ایک منفرد مقام اور مرتبہ کے حامل ہیں ۔ کلیم الدین احمد ،احتشام حسین،آل احمد سرور ،محمد حسن اور قمر رئیس کے کچھ بعد ،کچھ ساتھ ساتھ اردو کے تنقیدی منظر نامے میں ، گوپی چند نارنگ ،شمس الرحمن فاروقی ، حامدی کاشمیری ، وہاب اشرفی،عتیق اللہ ،شمیم حنفی،وہا ب اشرفی، ش اختر اورابوالکلام قاسمی وغیرہ کئی نام نمایاں ہوئے ہیں۔ ان ناقدین نے مختلف و متنوع قدیم و جدید صنفی اور نظریاتی موضوعات اور شخصیات پر اپنی نگارشات سے اردو تنقید کے سرمائے میں بے شک گراں قدر اضافے بھی کیے ۔ انھیں ان کی خدمات کے لیے شہرت و عز ت بھی ملی اور انعام و اکرام بھی ۔یقیناً یہ اس کے حقدار تھے اس پر کو ئی انگلی نہیں اٹھا سکتا،لیکن اردو کے سنجیدہ حلقوں کو انتہائی حیرت اور تکلیف اس بات سے ہوئی کہ نام نہاد ’’اردو کا بہی خواہ طبقہ‘‘،’’ہَما شُما‘‘ کو تو مقامی اور بین الاقوامی انعامات و اکرامات دلواتا رہا ،لیکن پروفیسر شکیل الرحمن کو، جن کی خدمات کسی بھی معروف نقاد سے ہرگز کمتر نہیں،مسلسل نظر اندازہی کیا جاتا رہا۔ کسی بھی معروف ادارے نے شکیل الرحمن جیسے جینوین اور غیر معمولی نقاد اور دانشور کو اس کا وہ جائزمقام اور مرتبہ دینے کا فریضہ ادا نہیںکیا جو ان پر واجب تھا۔ پروفیسر شکیل الرحمن عصر حاضر کے ایک ایسے نقاد تھے، جن کی تنقید میںانسانی نفسیات و جنسیات، ہندوستانی تہذیب،ہند و دیو مالااور ہند اسلامی ثقافت ، فلسفہ  اور فنون لطیفہ وغیرہ کے حوالے سے ،فارسی، سنسکرت اور اردو شعریات کے تناظر میں، امیر خسروؔ ، ولیؔ، میرؔ اور غالب ؔ سے لے کر اقبالؔ ،فراقؔاور فیضؔ تک کم و بیش تمام اہم شاعروں کے جمالیاتی امتیازات کی تہوں اور طرفوں کو بہ انداز دگر کھولا گیا ہے۔ دوسرے ناقدین کی طرح ،شکیل الرحمن کی تنقید میں اردوشاعری اور فکشن کے حوالے سے تنقیدی مطالعات پیش کیے گئے ہیں۔ ان کے پیش نظر اکثر و بیشتر مشہور ومعروف ناقدین اپنے اپنے طرف داروں کی حمایت کے باوجود ، بحیثیت نقاد ،شکیل الرحمن سے بہت بلندثابت نہیں ہوتے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس حقیقت کو تنقیدکے ان بے تاج بادشاہوں کے حواریین اسے تسلیم نہیں کریں گے لیکن جو واقعی سخن فہم ہیں اور شکیل الرحمن کی تنقید کی دنیا سے گزرے ہوں وہ اس سچ کو ماننے کی جسارت کریںگے، ہر شخص جانتا ہے کہ شکیل الرحمن اردو کے ایسے واحدنقاد ہیں جنھوں نے ہر جا و بیجا موضوع پر قلم اٹھانے کے بجائے اپنے آپ کو شعر و ادب کے’’ جمالیاتی ‘‘مطالعہ و محاسبہ پر ہی توجہ مرکوزرکھا ۔’’جمالیات‘‘ کے حوالے سے شکیل الرحمن نے جتنا لکھا ہے اتنا ہمارے اکثر مستند ناقدین نے جمالیات کے موضوع پر شاید پڑھا بھی نہیں ہوگا۔ اردو میں’’ آرکی ٹائپل تنقید‘‘ اور ’توتمی تنقید‘‘(Totemic Criticism) پر بھی سب سے پہلے شکیل الرحمن نے ہی ۱۹۶۵ء کے آس پاس قلم اٹھایا تھا ۔ غالباًًوزیر آغا سے بھی پہلے ۔کلیم الدین احمد نے بھی ’’ادبی فرہنگ‘‘ میں توتم پرستی (Totemism ) کے معنی و مفہوم کی وضاحت کی ہے ۔شکیل الرحمن نے اساطیر کی جمالیات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا :

 ’’اساطیر کی جڑیں ماقبل تاریخ میں جانے کب سے پیوست ہیں ۔رفتہ رفتہ جڑیں پھیلتی گئی ہیں ۔دنیا کے مختلف علاقوں کے قبیلوںمیں مختلف انداز سے اساطیر کا ارتقا ہوتا رہا اور انسانی ذہن کے کرشموں کی ایک عجیب و غریب پُراسرار دنیا وجود میں آتی گئی...شعوری اور غیر شعوری طور پر اساطیر کی بنیاد قائم کرنے اور اس میں فکر اور جذبے اور احساس کی روشنی اور رنگ وآہنگ کو شامل کرنے میں ’توتم‘(Totems )نے بھی ایک بڑا کردار ادا کیا ہے’توتمیت ‘(Totemism)مذہب کی طرح مقدس ہے ۔اساطیر فنون لطیفہ کی سب سے قدیم پُراسرار روایت ہے،انسان کے نسلی لا شعور Collective Unconsciousness))میں سیال پگھلی ہوئی، سرسراتی ہوئی روایت ،رقص،مجسمہ سازی،مصوری اور لٹریچر کی اس قدیم پُر اسرار روایت نے عمدہ اور عمد ہ تر ین تخلیقات عطا کی ہیں۔ ‘‘

(اساطیر کی جمالیات شکیل الرحمن ،ص:۲۰،۱۹)

شکیل الرحمن کی تنقیدی تحریروں سے اس طرح کی پچاسوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر شکیل الرحمن کی ’’جمالیاتی تنقید‘‘ کی قدر و قیمت کا اعتراف تو کیاگیا لیکن اردو تنقید کے بڑے لوگوں نے،خواہ وہ گوپی چند نارنگ ہوں یا شمس الرحمن فاروقی سب نے شکیل الرحمن کی خدمات کو نظر انداز ہی کیا ۔پھربھی اردو میں ایسے غیر جانبدار ناقدین کی بھی کمی نہیں جنھوں نے شکیل الرحمن کی قدر و قیمت کا بڑی ایمان داری کے ساتھ اعتراف کیا ہے۔ پروفیسر شین اختر نے شکیل الرحمن کی ہمہ جہت شخصیت کے بارے میں لکھا ہے :

’’...ایک ہمہ جہت شخصیت ،ذی علم فرد اور منفرد لب و لہجے کا پورے اردو ادب میں صرف ایک ہی فنکار ہے...شکیل الرحمن کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کی تخلیقی تنقید کی پہچان کا شعور اب تک عام نہیں ہواہے۔میرے نزدیک وہ تخلیق کار پہلے ہیں ہندوستانی تہذیب و تمدن کے ایک بڑے شناسااور ہندوستانی کلچر اور ہزاروں برسوں کی جمالیاتی تاریخ کے پہلے بڑے ترجمان ہیں ۔خسرو ؔ کے بعد ہندوستان میں اردو کا کوئی دوسرا ایسا باکمال فنکار پیدا نہیں ہوا جس نے اس سر زمین سے اتنی محبت کی شکیل الرحمن کی دنیا تنقید کے محدود دائرے کے گرد نہیں گھومتی اپنی خدا داد قوت تخیل سے وہ اپنی جگہ خود ایک انجمن ہیں ۔یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ اردو کے وہ ناقدین جنھوں نے تنقید کے علاوہ کوئی دوسری تخلیق نہیں پیش کی ،محض تنقیدی کتابیں لکھتے رہے اور پھر بیسا کھیوں پر چلتے چلتے اعلیٰ ادب کی اونچی کرسیوں پر براجمان ہو گئے ۔‘‘

(پروفیسر شین اختر ؛شکیل الرحمن کی جمالیاتی تنقید ۔ص:۹)

 بہر حال تاریخ میں شکیل الرحمن خاص طور پر ایک ’’جمالیاتی نقاد کی حیثیت سے پوری دنیا میں عزت واحترام کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں ۔ مضامین سے قطع ِ نظر شکیل الرحمن پر اب تک کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔جن میں ش اختر کی ’’شکیل الرحمن کی جمالیاتی تنقید‘‘ اور حقانی القاسمی کی ’’شکیل الرحمن کا جمالیاتی وجدان ‘‘ نہایت اہم کتابیں ہیں۔ حقانی القاسمی نے شکیل الرحمن کے تنقیدی انفراد و امتیاز کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

 ’’ شکیل الرحمن کی تنقید در اصل باز تخلیق ہے ۔تنقید اور تخلیق کے مابین وصل اور وحدت کی اسی کیفیت کی وجہ سے ان کی تنقید’’تخلیقی تنقید ‘‘کہلاتی ہے ۔اس کے جملہ اوصاف اور ممیزات ان کے یہاں موجود ہیں ۔مغائرت کے وہ رشتے جو دوسری تنقیدوں میں عام ہیں،ان کے یہاں وہ مواصلت میں بدل جاتے ہیں ...۔تخیل کی نئی زمینوںاور تحیر کے نئے آفاق کی جستجو نے شکیل الرحمن کی تنقید کو نشان امتیاز عطا کیا ہے ۔ان کی تحریروں سے’ جمالیاتی انبساط‘ کے ساتھ قاری کا ’کرہ علم‘ وسیع سے وسیع تر ہوتا ہے کیونکہ اردو کے متداول ادب میں انہوں نے کچھ نئے علاقوں کا اضافہ کیا ہے ۔ان علاقوں کی نسبت بشری علوم کی مختلف شاخوں سے ہے۔ نفسیات، اجتماعی لا شعور ،نسلی لاشعور ،اساطیر اور بھی بہت کچھ ہے اور یہ اضافہ بھی رہین منت ہے ان سات عجوبوں کا جو ادب کا افضل جمالیاتی معیار پیش کرتے ہیں اور یہ سات عجوبے ہیں، شیکسپیئرؔ،گوئٹے ،ؔدانتےؔ،،رومیؔ ،حافظ ا ؔور غالبؔ ۔‘‘

(شکیل الرحمن کا جمالیاتی وجدان:حقانی القاسمی،ص:۱۵-۱۶)

واقعہ یہ ہے کہ شکیل الرحمن کی تنقیدی تصنیفات ،روشن چراغوں کا ایک سلسلہ ہیں جو اردو تنقید میں باوقار، بصیرت زا اور لطیف راہوں کی نشاندہی کرتے ہیں ۔یوں تو جمالیات کے حوالے سے شکیل الرحمن کی ہر تحریر اردو تنقید میں ایک اضافے کا حکم رکھتی ہے لیکن جمالیاتی تنقید سے متعلق ان کی تصنیف ’’مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات ‘‘کسی معجزاتی کارنامے سے کم نہیں ۔اس شاہکار کے خد وخال نہ جانے کتنے برسوں سے شکیل الر حمن کے وجود کے اندر پل رہے تھے،لیکن اس شاہکار کی تخلیق کے محرکات میںذاتی مطالعہ، سیکولر طبیعت ، کشمیر کی علمی و ادبی تاریخ کی آگہی اور غالب سے عشق کے علاوہ کشمیر میں ان کی طویل سکونت کا بھی اہم ترین کردار رہا ہے ۔’’مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات‘‘کی تصنیف کے خواب سے لے کر تعبیر تک کے سارے مرحلے کشمیر میں ہی طے ہوئے اور یہ بات طے ہے کہ اگر شکیل الرحمن کشمیر میں نہ ہوتے تو شاید اردو تنقید (ادب)ایسے نادر الوجود’’ صحیفے ‘‘سے محروم ہی رہتی اور جس طرح عالمی سطح پر اس جمالیاتی کارنامے کی پذیرائی ہوئی ،وہ اگر نہ ہوا ہوتا تو یہ بھی ممکن تھا کہ شکیل الرحمن اردو میں جمالیا تی تنقیدکی زمین کو آسمان نہ کرپاتے۔ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ شکیل الرحمن نے برسوں جس ماحول میں اپنے شب و روز گزارے اس میں اگر’’ مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات‘‘ جیسی تصنیف وجود میں نہ آتی تو حیرت ہوتی ۔ ہزاروں برس سے کشمیر کے مئے خانے میں کشمیری ،سنسکرت، فارسی، عربی اور اردو علم و ادب،فکر و فلسفہ ،ہندومت ، بُدھ مت اور اسلام کے پیمانے چھلکتے رہے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا حساس بشر ہو جو اس ماحول سے فیضیاب نہ ہوا ہو ۔

اخیر کے چند برسوں میں دلی میں سکونت سے قطع نظر شکیل الرحمن نے نوجوانی سے بڑھاپے تک کا سفر اسی کشمیر میں ہی گزارا۔ ۷۹-۱۹۷۸ء تک سرینگر کے لا ل چوک کے عقب میں واقع کالونی راج باغ کے سرکاری کوارٹر سے (د س بارہ کلومیٹر دور )،حضرت بل مسجد کے بالمقابل واقع،یونیورسٹی کیمپس تک آتے جاتے ،کوہ سلیمان کے قدیم شنکر آچاریہ مندر ’،جھیل ڈل ‘اورحسن پرست ، مغل بادشاہوں کی تعمیر کردہ سیر گاہوں ، شالیمار، نشاط باغ اور ہاری پربت اور دارا شکوہؔ کے قائم کردہ علمی مرکز ’پری محل اور کئی دیگر زیارات،باغات اور تعمیرات کے روح پرور نظارے،چاہے اَن چاہے،آنکھوں سے دل وجود میں اترکر کشمیر میں تصوف اور بھکتی کی روایات ، بلبل شاہ ، امیر کبیر سید علی ہمدانی ،لل دیداور ُنند رشی کی خدمات،سب کی یادوں کو زندہ اور متحرک کر دیتی تھیں ۔ حضرت بل کی پُرشکوہ مسجدکے قدموں میں کشمیر یونیورسیٹی کا کیمپس ،ملکہ نور جہاں کے قائم کیے ہوئے ’’نسیم باغ‘‘ میں ہی بنایا گیا تھا۔ پھلوں اور پھولوں کے جھنڈ کے بیچ واقع ایک عمارت میں شعبۂ اردو تھا۔ شکیل صاحب ایک خوبصورت کمرے میں بیٹھتے تھے جس کی کھڑکیوں سے سفیدے اور چنار کے درختوں اور برف سے ڈھکی پہاڑیوں کے مناظر صاف نظر آتے تھے ۔در اصل یہی وہ ماحول تھا جس نے شکیل الرحمن کی تخلیقی قوت اور تنقیدی شعور کو رنگ جمال سے شرابور کیا اور ’’مرزا غالب اور ہند مغل جمالیا ت اور کئی دیگر جمالیاتی مطالعے منصہ شہود میں آئے ۔

یہ حقیقت ہے کہ ’’مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات‘‘ جیسی تنقیدی تصنیف اُردو میں غالباً آج تک نہیں لکھی گئی ہے ۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ غالب اُردو اور فارسی کے ایک عظیم شاعر ہیں جس پر علامہ اقبال کے بعد سب سے زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں اور متواتر لکھی جارہی ہیں ۔ اُردو کا شاید ہی کوئی نقاد ہو جس نے کسی نہ کسی پہلو سے کلام غالب کا تنقیدی جائزہ نہ لیا ہو لیکن پروفیسر شکیل الرحمن نے جن زاویوں سے غالب کا مطالعہ ، محاسبہ اور جائزہ پیش کیا ہے وہ یقیناً سب سے الگ ہے ۔ غالب پر، پروفیسر گوپی چند نارنگ کی تصنیف ’’غالب؛معنی آفرینی ،جدلیاتی وضع،شونیتا اور شعریات ‘‘(۲۰۱۳ء) بھی بے شک غالب شناسی کا ایک نیا سنگ مِیل ہے ،لیکن نارنگ صاحب کی اس تصنیف کو شکیل صاحب کی تصنیف پر فوقیت دینا ،اتنا ہی دشوار ثابت ہے جتنا دبیرؔ کے مراثی کو انیس کے مرثیوں پر ترجیح دینا مشکل ہے۔ پروفیسر نارنگ اور شکیل الرحمن ، دونوں نے عرفان و ادراک کے الگ الگ مقامات سے غالب سے رشتہ قائم کیا ہے ۔شکیل الرحمن ،غالب کے بارے میں خود لکھتے ہیں :

 ’’مرزا غالب اپنے عہد میں ہندوستانی ادبیات کے نٹراج (شیو)اور نٹور(کرشن)بھی ہیں ایسے نٹ ؔراج اور نٹورؔ جو رقص کے جوہر کو احساس و شعور سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ،نئے جذبوں کی پیش کش کے لیے ’’مُدرائوں ‘‘ کی تخلیق بھی کرتے ہیں ۔رقص کی کیفیتوں کو شدت سے بھینچ کر تیسری جہت کا احساس دیتے ہوئے ،چوتھی جہت بھی نمایاں کر دیتے ہیں اور نئے حسی تاثرات سے آشنا کرتے ہیں ۔غالب تصوف کی جمالیات کے سب سے بڑے شاعر ہیں ۔غالب اردو کے پہلے شاعر ہیں جوتصوف کےSuper sensory Experience کی جانب تیزی سے لپکے اور ان تجربوں سے اپنے اپنے تجربے کے چراغ روشن کیے۔‘‘

( غالب اور ہند مغل جمالیات)

 شکیل الرحمن اور پروفیسر گوپی چند نارنگ غالب کا ا نفراد ان الفاظ میں قائم کرتے ہیں :

 ’’غالب کا کلام جام جہاں نما ہے ۔غالب کے اشعار میں نہایت دقیق ،دور رس اور پیچ در پیچ معانی کی ایک حیرت زا اور عمیق دنیاآباد ملتی ہے ۔غالب کے بارے میں سب سے بڑا سوال جس کا کوئی آسان جواب نہیں ،یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو کوندے کی طرح لپکتی ہے اور شبستان معنی کو روشن کرتی چلی جاتی ہے ،اس طور کہ پڑھنے والا دم بخود رہ جاتا ہے۔قاری تحلیل کرنا چاہتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک جمالیاتی واردات سے بھی گزرتا ہے جس کا بیان آسان نہیں ...غالب کئی بار اس مقام پر ملتے ہیںجہاں عام زبان میں گفتگو کرنا محال ہے یا جہاں آبگینہ تندیٔ صہبا سے پگھلنے لگتا ہے ۔عام زبان تعینات و ثنویت کی شکار ہے غالب اپنے ارضی احساسات و کیفیات کی واردات میں اس سے ماورا ہونا چاہتے ہیں ۔‘‘

( غالب:معنی آفرینی ،جدلیاتی وضع،شُو نیتا اور شعریات۔ گوپی چند نا رنگ، ص:۱۳ )

 صاف ظاہر ہے کہ شکیل الرحمن کا طریق نقد جمالیاتی ہے جبکہ گوپی چند نارنگ نے غالب شناسی کے لیے اسلوبیاتی طریقِ کار اختیار کیا ہے ۔ذکر ہوچکا ہے کہ شکیل الرحمن واضح طور پر ایک ایسے منفرد نقاد ہیں جن کی تنقیدنمایاں طور پر ’’جمالیات مرکز ‘‘(AestheticBased) تنقید ہے بلکہ وہ برصغیر کے واحد ایسے نقاد ہیں جن کے بارے میں وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جمالیاتی زاویے سے اُردو شعر و ادب کا تنقیدی جائزہ ہی ان کی شناخت ہے ۔ اس کا اندازہ جمالیات کے حوالے سے ان کی کتابوں کی فہرست سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:

۱             مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات

۲             ہند وستانی جمالیات

۳             اساطیر کی جمالیات

۴             تصوف کی جمالیات

۵             نظیر اکبر آبادی کی جمالیات

۶             بارہ ماسہ کی جمالیات

۷             کلاسیکی مثنویوں کی جمالیات

۸             فراق کی جمالیات

۹             فیض کی جمالیات

۱۰           سعادت حسن منٹو: ٹریجڈی کی جمالیات

                (میموریل لکچر )

 اس کے علاوہ بھی امیر خسرو ، میر تقی میرؔ، کبیر ، اقبال اور دیگر شاعروں اور ادیبوں کے تنقیدی جائزے شکیل الرحمن نے جمالیاتی زاویے سے ہی پیش کیے ہیں،لیکن شکیل الرحمن کے تحریروں کی بالاستیعاب مطالعہ کیا تو معلوم ہوگا کہ شکیل الرحمن کے یہاں جمالیاتی کشف وکرامات کے علاوہ برصغیر کے تہذیب و تمدن پراور خصوصاًًشورسینی اپ بھرنش کے بطن سے پیدا ہونے والی زبانوں(جن میں اردو بھی شامل ہے )کی شعری جمالیات پر آریائی اور ویدک نظریۂ حیات اور بودھ مت اور شیو مت تک کے فلسفیانہ اور متصوفانہ افکار و مفروضات تک کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں شکیل الر حمن نے انھیں اپنی تنقید میں کمال تاریخی، تہذیبی اور جمالیاتی بصیرت کے ساتھ برتا ہے ۔یہ خصوصیت اردو کے کسی اور نقاد کے یہاں ناپید ہے۔ حالی ؔ اور شبلی سے لے کر ’’مِراۃُالشعر‘‘ کے مصنف مولوی عبد الرحمن دہلوی (۱۸۷۳ء...۱۹۵۴ء)تک نے اردو تنقید کے مزاج و منہاج کے حوالے سے مغربی تنقید کے علاوہ عربی اور فارسی تنقید اور اسلامی نظریۂ جمال کے اثرات کا ذکر تو کیا ہے، لیکن سنسکرت شعریات اور بودھ اور ہندو فکر و فلسفہ تک ان کی رسائی نہ تھی البتہ گوپی چند نارنگ ،ش ۔ اختر، شمیم حنفی اور شمیم طارق وغیرہ کی بعض تصنیفا ت میں ان جہات کو مَس کیاگیا ہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہندو ازم بر عظیم کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے۔ فن شعر اور دیگر فنون لطیفہ سے متعلق ہندو علما کی تصنیفات ز مانہ دراز سے شعری و جمالیاتی اقدار و روایات کی تشکیل و ترتیب میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں ،خاص طور پر بھرت مُنی کی ’’ناٹیہ شاستر‘‘رُودرت کی ’’کاویہ النکار‘‘اور ہیم چندر کی ’’شبد انوشاسن‘‘ایسی تصنیفات ہیں جنھیں ’’علم الشعر ‘‘کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے ۔ان کتابوں میں شاعری کی اہمیت ،غرض و غایت، اقدار، تقاضوں اور امکانات وغیرہ کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اسلامی اساطیر کے ساتھ ساتھ ہندو دیومالا سے بھی روحانی رشتہ رکھنے والے شکیل الرحمن نے اپنی وسیع المشربی کا اطلاق اپنی تنقید میں فراخ دلی سے کیا ہے۔ ان کا عقیدہ تھاکہ ، شیو ؔ اور پاربتی ؔہی ہندوی جمالیات کا مرکز و محور ہیں ۔شکیل الرحمن کے مطابق :

 ’’ ہندوستانی اساطیر میں اجتماعی لاشعور کا یہ پیکر (شیو)... دراوڑ تہذیب کی روح طلوع ہوتا محسوس ہوتاہے اور آہستہ آہستہ ’نٹراج ‘ کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔شیو پاربتی، کالی، شیولِنگ اور ترشول کے حولے سے ہندوستان کی ہندو تہذیب اور جمالیات کے بنیادی افکار کو سمجھا جا سکتا ہے ۔‘‘

( اساطیر کی جمالیات ۔شکیل الرحمن )

شکیل الرحمن نے شاعری اور شعرا کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے سنسکرت جمالیات کے’’نظریۂ رس‘‘ کوبھی ایک حربے کے طور پر استعمال کیا ہے ۔شکیل الرحمن یہ مانتے ہیں کہ’’حیات وکائنات میں حسن اور آہنگ کی وحدت کا منبع وماخذ شیو(نٹ راج) ہے ۔نٹراج نے ،جسے ’’اردھ ناریشور‘‘ (نصف مرد،نصف عورت ) بھی کہتے ہیں اپنے رقص میں ۱۰۸۔کیفیتوں کو پیش کیا ہے ان کیفیتوں کو ان کے حسی و جذبی تجربات و انسلاکات کی بنا پر الگ الگ خانوںمیں رکھا گیا ہے اور ہر خانہ ’’رس‘‘یعنی جمالیاتی جذبہ کہلاتا ہے ۔ہر رس کے الگ الگ نام ہیں جو انسان کے الگ الگ جذبات و کیفیات کے مظہر ہیں۔مثلاً:

(۱)شرنگار رس (۲)رودر رس (۳)بھیانک رس (۴)بِبھتس رس (۵)ادبھُت رس (۶)شانت رس (۷)ہاسیہ رس(۸)کرونڑ رس(۹)ویر رس ۔

در اصل یہی وہ بنیادی جذبات و کیفیات ہیں جن کاتخلیقی و جمالیاتی اظہار شاعر ،ذات،حیات یا کائنات کے حوالے سے اپنی شاعری میں کرتا ہے لیکن شاعر کے کسی بھی متن کے طلسم خانے میںداخل ہونا ، اس متن کے جمالیاتی (شعری یا تخلیقی)’’ جوہر‘‘کو گرفت میں لینا اور پھر اپنی زبان اور متعلقہ صنف کی شعریات،روایات ،رسومیات اور اجتہادات کی روشنی میںاُس متن (شعر، نظم ...۔) کا جمالیاتی تجزیہ کرناایک انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے ۔معتبر نقاد حقانی القاسمی نے شکیل الرحمن کی جمالیاتی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے بجا طور پر لکھا ہے ،

 ’’ادب کا جمالیاتی جائزہ ایک جان لیوا عمل ہے ۔ جمالیات ایک ایسا جزیرہ ہے جس تک پہنچنے کے راستے دشوار گزار اور دقت طلب ہیں ۔سندباد جیسی صفات کا حامل ہو وہاں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔اس راہ کو جو ریاضت مطلوب ہے اس سے بہتوں کا جی گھبراتا ہے۔یہ راہ پُر خار ہے......شکیل الرحمن نے اس وادئی پُر خار کو کیسے طے کیا یہ سمجھ پانا میرے لیے مشکل ہے ۔‘‘

(حقانی القاسمی ۔شکیل الرحمن کا جمالیاتی وجدان ،ص:۹)

حقانی القاسمی کی یہ بات بھی غلط نہیں کہ ’’شکیل الرحمن کی تنقید محض تخلیق کے جمالیاتی اوصاف کا اظہار نہیں ہے بلکہ اطلاقی جمالیات کی بلند ترین مثال ہے ۔ جمالیاتی تصورات کے اطلاقات کی کئی صورتیں ان کی تحریروں میں کچھ اس طرح نمایاں ہوئی ہیں :

 ۱ ۔          میر’’ ؔ شرنگار رس‘‘ کے ایک ممتاز شاعر ہیں ۔عشق میر کی شاعری کا مرکزی نقطہ ہے اور عشق محبت کا جمالیاتی جذبہ ہے ۔عشق ہی شرنگار کا مرکزہے ۔

 ۲ ۔          نشاطیہ رجحان امیر خسرو کی رومانیت اور جمالیات کا سب سے اہم رجحان ہے۔

 ۳۔           مرزا غالب ہمہ گیر اور تہہ دار ہند مغل اور اس تہذیب کی جمالیا ت کی تابندہ علامت ہیں ۔اسی تہذیب نے ان کی شخصیت کی تشکیل کی ہے اور اسی تہذیب کی جمالیات نے انہیں ’’وژن‘‘عطا کیا ۔غالب رنگ اور آواز اور حرکت اور رقص کے دلدادہ ہیں ۔اردو شاعری میں حسی لذتوں کے سب سے بڑے شاعر ہیں ان کے جمالیاتی لاشعور میں سومنات کا حسن اور تقدس ہے۔اردو ادب میں غالب’’فینتاسی‘‘کے سب سے بڑے تخلیقی فنکار ہیں ،ایسی تخلیقی شخصیت ایسے ہمہ گیر وژن کے ساتھ شاید ہی دنیا کے کسی ادب کو نصیب ہوئی ہو۔

یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ کسی بھی ادبی تخلیق کے معیار اور مرتبہ کا تعین اس ادبی تخلیق کی فنی و تکنیکی لوازمات کے ساتھ ساتھ اس کے جمالیاتی محاسن کی بنیاد پر ہی کہا جاتا ہے، اسی لیے ہر باشعور نقاد ، کسی بھی ادبی تخلیق کار کا تنقیدی جائزہ لینے سے پہلے فنی اور جمالیاتی اقدار و روایات کی آگہی بھی لازمی طور پر حاصل کرتا ہے چنانچہ جمالیات کے حوالے سے تنقیدی نگارشات کے ایک جہان تازہ کی تشکیل کرتے ہوئے شکیل الرحمن نے افلاطون سے کروچےؔ تک کا ذہنی اور علمی سفر طے کیا ہے ۔اس سفر میں کئی الجھنیں پیدا ہوئی ہیں ۔ گاہے گاہے ہے گمان ہوتا ہے کہ تضادات نے ناقد کے فیصلے کو پیچیدہ بنادیا ہے ۔ دراصل جمالیات اور وہ بھی،امیر خسروؔ، میرؔ ، غالبؔ،نظیرؔ،اقبالؔ اور فیضؔ،جیسے مختلف المزاج شاعروں کے جمالیاتی امتیازات کا جائزہ آسان نہیں ہے۔تنقید و تجزیہ کے عمل مسلسل میں بار بار تنقیدی اور تجزیاتی شعور کو ایک نئی ترتیب کے ساتھ ،شعر اور شاعر کے جمالیاتی محاسن و معائب کا’’ سمُدر منتھن ‘‘کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔پھر بھی شکیل الرحمن اپنی قوت تخیل اور حکمت ودانائی سے ان کی تشریح کی اور تنقید کے تجزیاتی عمل کے ذریعے اپنے مقاصد کی بر آوری تک پہنچے ۔ ارسطو کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے شاعری اور ادب کے مختلف پہلوؤں پر زور دیا۔ وہ سماجی تناظر ات کے وجود سے انکار نہیں کرتا مگر فن پارے میں جمالیاتی تقاضوں کے ماہرانہ برتاو پر اصرار کرتا ہے ۔ ادب اور آرٹ کے اس کلاسیکی تصور نے شکیل الرحمن کو افلاطونی نقطۂ نظر سے دوراور ارسطو کے نظریہ جمال سے قریب کر دیا ۔مشہور عربی نقاد قدامہ بن جعفر (۳۳۷ھ)نے بھی اپنی تصنیف ’’عقدالسحرفی نقد الشعر ‘‘میں ارسطو کے جمالیاتی تصورات کے زیر اثر عربی تنقید کو ایک نیا رخ دیا ۔شکیل الرحمن کوبھی ارسطو کی بوطیقانے ہی فن پارے میں جمالیاتی عناصرکی تلاش و تجزیہ اور حسن کی فنکارانہ پیش کش کی تعین قدر کی طرف مائل کیا۔ان کے مزاج اور ان کی شخصیت میں جو ’’نرگسیت‘‘ پوشیدہ تھی۔اس نے بھی ان کے جمالیاتی تصورات کے فروغ و استحکام میں اہم کردار ادا کیا۔

شکیل الرحمن اُردو کے واحد ناقد ہیں جنہوں نے بطور خاص جمال، فلسفہ جمالیات اور جمالیاتی تنقید پر بہت کتابیں لکھی ہیں اور یہ کتابیں اُردو تنقید کی تاریخ کا یقیناً گراں قدر حصہ ہیں ۔ بہت پہلے مجنوں گورگھپوری نے اپنی چھوٹی سی کتاب میں جمالیات کی تشریح کرتے ہوئے ایک جملہ لکھا تھا کہ’’ جمالیات فلسفہ ہے حسن اور فنکاری کا ‘‘، اگرچہ یہ بے حد مبہم سی بات لگتی ہے لیکن یہ اتنا بلیغ جملہ ہے کہ اس کے جلوے ہر جگہ بکھرے ہوئے ملیں گے ۔ اس کائنات کی ہر شے میں رب العالمین کے جمالیاتی مظاہر کی جلوہ سامانیاں روشن ہیں ۔ وہ درخت کی پتیاں ہوں یا مور کے خوبصورت پنکھ یا قوس قزح کے سات رنگ ۔ دریا کی روانی ہو یا سمندر کی گہرائی ، آبشار سے نکلتی ہوئی موسیقی ہو، مندر کی گھنٹی ہو یا صحرا میں اذان صبح کا سماں ہو یا شفق کی لالی ، غرض کائنات کی ہر شے خواہ وہ نباتات کا حصہ ہو یا جمادات کا یا اشرف المخلوقات کا ، بنانے والے کے جمالیاتی معیار کا انداز ہوتا ہے ۔ کوئی شے ایسی نہیں اور کوئی فرد وبشر ایسا نہیں جو اس کے دائرے میں نہ آتا ہو۔ اس طرح ہم یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پوری کائنات کی تخلیق میں جو حسن و فنکاری نظر آتی ہے وہ بنانے والے کے اعلیٰ ترین ذوق جمال اور معیار کی عکاسی کرتا ہے ۔ شکیل الرحمن نے اپنے جمالیاتی مطالعات میں مظاہر فطرت کی حسن آفرینی کا رشتہ،انسان،خدا،مذہب اور فنون لطیفہ کی تخلیق کے اسرار، ابعاد اور امکانات سے جوڑنے کی غیر معمولی،زندہ اور متحرک مثالیں پیش کی ہیں، وہ شکیل الرحمن سے پہلے (اور بعد بھی)کسی اور اردو نقاد کے یہاں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ملتا۔ ایک دو اقتباسات دیکھیے خود اندازہ ہو جائے گا۔

 ’’ جنگل کی تہذیب نے درختوں اور پودوں کے اسرار کو سمجھایا اور انسان نے درختوں اور پودوں کی عبادت کی، زندگی،ارتقا اور موت کے ابتدائی تصورات ان سے وابستہ ہیں۔درختوں کی عبادت اگر ابتدائی مذہب ہے تو بلا شبہ اس سے ذہنی او رجذباتی وابستگی انسان کے جلال و جمال کے اظہار کی اولین صورت بھی ہے...عورت تخلیق کی علامت ہے لہٰذا وہ صرف درخت کا استعارہ یا امیج نہیں ،بلکہ خود درخت ہے۔ درخت کا حسن عورت میں ہے اور عورت کا کا حسن درخت ہے ۔ماںکی کوکھ اس کی شفقت اور محبت ،اس کی رحمتوں کا سایہ ،اس کا تقدس ،اس کی تخلیقی قوت ،سب درخت کی علامت میں جذب ہیں ۔اسی طرح عورت کا حسن اور اس کے جلوے، اس کا پیار ،اس کی جنسی کشش،چاہے جانے کی آرزو اور جنسی ہم آہنگی سب درخت میں نظر آئے۔‘‘

(شکیل الرحمن:ہندوستانی جمالیات ؛جلد دوم،ص:۱۳۸)

 شکیل الرحمن کا ایک اوربے مثل جمالیاتی مشاہدہ اس اقتباس میں نظر آئے گا :

 ’’ندیاں لاشعور کی علامتیں ہیں ،آرزو ،خواہش ،تمنا، محبت ،خوف ،وحدت کی سیال کیفیت میں گُم ہو جانے کی خواہش،گیان دھیان ،پاکیزگی اور تقدس سب ان پیکروں سے وابستہ ہیں ۔دریا وہ روح ہے جو لا شعور بن گئی ہے ۔اس کے نیچے زندگی کی بیش قیمت نعمتیں ہیں ،اس کی گہرائیاںانسان کے وجود کی گہرائیاں ہیں۔تاریک اور پُر اسرار زمین سے اس کا رشتہ گہرا ہے ۔یہ جبلتوں کی سیال صورت ہے ۔جذبات اور احساسات کا سر چشمہ ہے ۔‘‘

(شکیل الرحمن ؛ ہندوستانی جمالیات ،ص:۲۰۸ )

جمالیات ایک Normative Science ہے، اسے فلسفہ فنون لطیفہ (Philosophy Of Finr Arts بھی کہا جاتا ہے ۔ اسی لیے فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والے ناقدین نے اپنے اپنے مطالعہ و مشاہدہ ،ذوق اور ظرف ،ادبی نظریات و مفروضات اور وجدان کے معیار کے مطابق جمالیات کی توضیح و تعبیر کی ہے ۔جمالیات کو انسان ،فطرت اور فنون کے رموز و علائم کے حوالے سے فلسفہ سے تعبیر کرنا،واقعتاًً اس بے حدا ہم حقیقت کی طرف اشارہ کر نا ہے کہ خالق کائنات نے صرف انسانوں کو حسن شناس نہیں بنایا بلکہ ساری مخلوق کو حسن شناسی کا جوہر عطا کیا ۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہمارے صوفیوں کو جمالیات کی طرف لے گئی اور شعرا کو یہ کہنے پر مجبور کیا:

دہر جز جلوہ ٔ یکتائی معشوق نہیں

 ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں

غالبؔ

صوفی کائنات میں بکھری ہوئی حقیقتوں کو خدا کے حسن اور اس کی فن کاری کا ایک بنیادی پہلو مانتا ہے ۔شاعر ،صوفی ہو یہ ضروری تو نہیں لیکن شاعر بھی معشوق حقیقی ،ایشور یا رب العالمین کے مظاہر حسن کو اپنے عالم ِمحسوسات میں سمیٹتا ہے اور پھر انھیں لفظ و معنی کے سانچے میں ڈھال دیتا ہے ۔ احساس حسن کی نہ کوئی تعریف کی جاسکتی ہے اورنہ اس کی حدیں متعین کی جا سکتی ہیں۔ کسی بھی فرد یا قوم کے معیارحسن کی کسی ادنیٰ یا اعلیٰ ترین صورت کی تعریف یا توضیح ممکن نہیں ہے لیکن حسن کو دیکھنے ، اس سے متاثر ہونے اسے قبول کرنے کی صلاحیت انسانوں کی اپنی تہذیبی بساط کے مطابق ہوتی ہے اور کہیں یہ ابدی مسرت کا نام ہے اور کہیں دیکھنے والوں کی نظر کے اپنے حسن سے عبارت ہے ۔

دوسری بات یہ کہ گر چہ دیگر فنون لطیفہ کی طرح شاعری کی روح بھی حسن و جمال ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ شاعر اپنی شاعری میں حسن و جمال کی یہ کیفیت کیوںکر پیدا کرتا ہے؟ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ براہ راست کسی حسین شے کو دیکھ کر پہلے تو خود محظوظ و مسرور ہوتا ہے پھر اپنے اس حظ اور سرور کو اس حسین شے کے حوالے سے،شعر کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے ۔اس کی ایک ادنی مثال میر ؔکا یہ شعر ہے :

نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

ایک اور بات یہ بھی ہے کہ ’حسن کے کسی مظہر کے مشاہدہ کے بعد اکثر شاعر کو کسی اور’ شے‘ (یا حقیقت) کابھی وجدان Perception)ہو سکتا ہے /ہوتا ہے۔ اس کی عمدہ مثال اقبال کی نظم ’’مسجدِقرطبہ‘‘ ہے اقبال کو مسجد قرطبہ کے نظارہ کے بعد محض فن تعمیر کے اسرار و رموز ہی نہیں یاد آتے بلکہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی پوری تاریخ بھی یاد آجاتی ہے ۔اسی طرح شاعری میں حسن و جمال کی کیفیت پیدا کرنے کی تیسری صورت یہ ہے کہ جب کبھی شاعر کے’ حواس ‘اور ’وجدان‘کی ملی جلی تحریک سے شاعر کے بطون میں ایک سلسلہ ادراک قائم ہو جاتا ہے اور وہ اس کا اظہار اپنی کسی تخلیق میں ،فنی و جمالیاتی در و بست کے ساتھ کرتا ہے تو اس تخلیق کو پڑھ کر شاعر کے سلسلۂ ادراک کے سارے مرحلے آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں ۔اس کی بہترین مثال بھی ہمیں اقبال کے یہاں ہی ،ان کی تخلیق ’’جاوید نامہ ‘‘میں ملتی ہے جس میں اقبال پیر رومیؔکی رہنمائی میں مختلف افلاک کی سیر کرتے ہیں اور متعدد عظیم شخصیتوں سے ملاقات کرتے ہیں۔جاوید نامہ کی قرأت ان ملاقاتوں کا سماں آنکھوں کے سامنے تخیل اور وجدان کے ایک پورے سلسلے کوزندہ اور متحرک کر دیتی ہے ۔

شکیل الرحمن ، فلسفۂ جمال ،ادب و فن کی جمالیاتی تشکیل اور اور ادبی متون کی جمالیاتی تنقید ،توضیح و تعبیر کے اسرار و آداب کی غیر معمولی بصیرت رکھتے ہیں،اس کا ثبوت جمالیاتی تنقید سے متعلق ان کی تصنیفات ہیں ۔ ان میں ’’مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات‘‘ ان کی وہ شاہکار تنقیدی کتاب ہے جس میں غالب کی جمالیات کے ان پہلوئوں کو منکشف کیاگیا ہے جو اب تک اردو میں ’’غالب شناسی ‘‘کے حوالے سے نادیدہ اور نا شنیدہ تھے ۔ ۔انہوں نے غالب کے تجزیہ و تحلیل سے اپنی جمالیاتی تنقید کی ابتدا کی ۔کہنے کی ضرورت نہیں کہ غالب سے بڑا اُردو کا کوئی شاعر نہیں اور نہ ہی جمالیاتی قدروں کی پاسداری کے باب میںان کا کوئی ثانی ہے ۔ شکیل الرحمن کی اس شاہکار تصنیف میں، ’’روایات اور غالب ، داستانی روایات اور نئی داستانیت ، داستانیت اور غالب کی بصیرت ، علامت ، استعارہ اور پیکر ، صحرا نوردی کے جمالیاتی تجربے ، ہند مغل مصوری کا عرفان ، جلوہ صدرنگ اور روشنی رقص و تحرک ، احساس ذ ات کا وژن اور فنون نشاط، مثنوی چراغ دیر ، تحیر کی جمالیات کی ایک مثال، کلاسیکی روایات کا عرفان ، سائکوڈرامے کا ایک آتشی کردار ۔ جیسے عنو انات کے تحت شکیل الرحمن نے غالب کی جمالیاتی کائنات کو قارئین سامنے بے پردہ کر دیا ہے ۔ شکیل الرحمن کو پتہ تھا کہ غالب کو سمجھنے کے لیے صرف جمالیاتی علم وآگہی ہی کافی نہیں ہے بلکہ علم نفسیات ،خصوصاً شعور اور لا شعور سے تخلیق کے رشتے کی وضاحت اور تفہیم بھی ضروری ہے اور وسط ایشیا اور ایران،عرب اور دیگر اسلامی ممالک کی تہذیب وتمدن کی تاریخ سے واقفیت بھی ناگزیر ہے کیونکہ بقول پروفیسر شین اختر اس خطۂ زمین کے تہذیبی سفر میں انسانی تجربات کی ایک طویل داستان پوشیدہ ہے یہ تجربات جمالیاتی بھی ہیں اور تہذیبی و تمدنی بھی ۔ ان سے مختلف زبانوں کی تہذیبی تاریخ مرتب ہوتی ہے اور وہ تمام تہذیبی قدریں سامنے آتی ہیں جو ِقوس قزح کی طرح مختلف رنگ پیش کرتی ہیں ۔ اسی طرح ہندوستانی تہذیب اور وسط ایشیائی تہذیب کے مختلف نمونے بھی ہماری نگاہوں کے سامنے ابھرتے ہیں اور اس حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ عالمی تہذیب کا سفر کسی ایک فرد یا ایک قوم یا ایک ملک کامرہون منت نہیں بلکہ اس میں پوری دنیا کی رنگینیاں پوشیدہ ہیں ۔ ہم جب کبھی ہندوستانی تہذیب کی بات کرتے ہیں تو ویدک کال سے آج تک مختلف قوموں، زبانوںاور مذہبوں کی بے حد رنگیں اور زندہ تصویریں سامنے نظر آتی ہیں ۔ یہ تصویریں مختلف زبانوں کو ہمارے سامنے اس طرح اجا گر کرتی ہیں جیسے وہ آج کی ہوں ۔ یہی وہ سچائی ہے جو شکیل الرحمن کو غالب کی جمالیات کی طرف لے گئی یا جس نے ان کے وژن اور تصورات کوغالب کی جمالیاتی کائنات کی طرف مائل کیا ۔ شکیل الرحمن نے غالب کی جمالیات کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے غالب کی شاعری کے کئی نئے گوشوں کی نشاندہی کی ہے ،مثلاًًشکیل الرحمن کے مطابق، غا لب کی اُردو ،فارسی شاعری ، ان کے خطوط اور دیگر نثری تحریروں کا بالا ستیعاب مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ غالب کے یہاں’’ روشنی‘‘ کا استعارہ مختلف شکلوں میں بار ہا آیا ہے ۔ نور ، آتش ، شعلہ اور آگ ، وغیرہ ایسے پیکر ہیں جو غالب کی شاعری کی جمالیاتی ’’تشکیل‘‘(Construction ) میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔کائنات کی تمام اشیا سے روشنی کا کوئی نہ کوئی رشتہ لازماًہے۔روشنی کا یہ استعا رہ شکیل الرحمن کو غالب کے خاندانی حالات ، مغل عہد کی تاریخ ، غالب کے آباواجداد کے نشانات اور ان کی ذاتی اور سماجی زندگی کے نشیب و فراز کی طرف لے گیا اور جو حقیقتیںسامنے آئیں وہ انہیں ایران کی مذہبیت کی طرف مائل کر گئیں آتش پر ستوں کا یہ ملک غالب کے آباواجداد کاملک تھا۔ زرتشت سے ہوتے ہوئے غالب کا شجرہ غالب کے آباوجداد تک پہنچتا ہے ۔ روشنی کے اس رمزکو سمجھنے کے لیے شکیل الرحمن کی علم نفسیات نے رہنمائی کی اور وہ غالب کے انفرادی لاشعور سے اجتماعی لاشعور تک بہ آسانی پہنچ گئے ۔مشہورمصور( Picaso )کی تصویروں میں بھی اس کے آبا و اجداد کے وطن اسلامی اسپین کی تاریخ اور تہذیب و تمدن کے اثرات نمایاں ہیں ۔۔ ٹھیک اسی طرح شکیل الرحمن نے کلام غالب کے کلیدی الفاظ ،استعاروں اور علامتوں کی تہذیبی اور لاشعوری تہوں کو کھول کرغالب کی جمالیات کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کی ہے اور اردو تنقید کو غالب شناسی کے نئے امکانات سے روشناس کروایاہے ۔

 غالب کی شاعری کا بالا ستیعاب مطالعہ قاری کو ’’ رب عظیم‘‘ کے بے پناہ حسن کے قریب لے جا تا ہے اور قاری کائنات میں بکھری ہوئی ہر ایک شے میں قدرت کی فن کارانہ حسن کاری(Beutification ) کو شدت سے محسوس کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ یہ غالب کی خود شناسی ہے تعلّی نہیں کہ وہ اپنی شاعری میں الفاظ کی دنیا کو’’ گنجینۂ معنیٰ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے ۔ معنیٰ کا طلسم ہمیں ان عقدوں کی طرف موڑ دیتا ہے جو ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ یہی شاعری کا کمال ہے اور اسی لیے شاعری کو سحر کاری سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ۔آج کا قاری بھی کلام غالب کے جس پہلو کی طرف سب سے زیادہ توجہ دیتا ہے وہ پہلو غالب کی شعری کائنات کی،اسرار سے بھرپور طلسمی فضا ہی ہے یہی وجہ کہ غالب کے اشعار کی کوئی ایک شرح کافی و شافی تسلیم نہیں کی جاتی ۔ حالیؔ ،بجنوری،مجنوںؔ اور نند لال کول طالبؔ کے بعد یوسف حسین خاں ہوں یا ،شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ ہوںکہ حامدی کاشمیری یا وہاب اشرفی ،ابوالکلام قاسمی ہر ایک نے اپنے اپنے طور پر غالب کے طلسم خانۂ معنی کے بھید کھولنے کی کوشش کی ہے لیکن اس باب میں شکیل الرحمن نے جن گوشوں تک رسائی حاصل کی ہے وہ دوسروں کو کم ہی نصیب ہوئی ہے۔

شکیل صاحب نے بڑی دیدہ ریزی ، دیدہ وری، ریاضت اور فکر و تخیل کی بلندی سے کام لے کر غالب کو ایک نئے رنگ میں دیکھا اور دکھایا ہے جس سے اردو دنیا ابھی تک نابلد تھی ۔ شین اختر نے بجا طور پر لکھا ہے کہ غالب شناسی کے حوالے سے شکیل الرحمن کے اس طریق نقد نے اردو میں پہلی بار Inter Disciplinary تنقید کو متعارف کروایا ہے  اور یہ ثابت کیا ہے کہ غالب شناسی کا بنیادی نقطہ غالب کی جمالیات ہے لیکن جس کی تفہیم کے لیے غالب کی نفسیاتی بنیادوں ،ہند مغل جمالیات کی تہہ داریوں اور ہند ایشیا کے تہذیبی لیل و نہار کی آگہی بھی ضروری ہے۔ شکیل الرحمن کی جمالیاتی تنقید کی تفہیم کے لیے ان کے دیگر جمالیاتی مطالعات مثلاً ہندوستانی جمالیات، اساطیر کی جمالیات، تصوف کی جمالیات اور میرؔ،کبیرؔ،اور نظیرؔ کے علاوہ منٹو؛ ٹریجڈی کی جمالیات وغیرہ سے بھی گزرنا ہوگا ۔اس ضمن میں پروفیسر شین اختر کی اس دانشورانہ رائے کو ماننا ہوگا :

 ’’شکیل الرحمن کا مطالعہ محض اردو تنقید کی تاریخ کا مطالعہ نہیںہے ۔یہ ضروری ہے کہ ہم ہندوستانی تہذیب ،کلچر، زبان اور اپنی ادبی تاریخ کا گہرا شعور رکھیں ۔شکیل کی شناخت کے لیے ضروری ہے کہ ہم انہیں ادب کے فرسودہ تصورات سے آگے بڑھ کر دیکھنے کی کوشش کریںاور ان رموز تک پہنچنے کی تگ ودو میں مصروف ہو جائیں جس نے شکیل کی تخلیقی صلاحیتوں کو کئی اہم کتابوںکی شکل میں پیش کیا... شکیل الرحمن ایک بڑے ’شلپ کار‘ ہیں، بے پناہ تخلیقی قوت کے مالک ہیں ۔ان کا علم محض غالب کی جمالیاتی بلندیوں تک محدود نہیں بلکہ وہ جمالیاتی تنقید کے ایک بڑے مفسر بھی ہیں۔وہ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ ادبی تنقید کا وجود اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ادبی تخلیق وجود میں نہ آئے ۔‘‘

(پروفیسر شین اختر؛شکیل الرحمن کی جمالیاتی تنقید، ص:۹)

شکیل الرحمن کی شخصیت کی طرح ان کی تنقید نگاری بھی ایک بھید بھراطلسم خانہ ہے اور اس طلسم خانے میں روایتی تنقیدی رویے، نظریات اور اسالیب کے دروازے سے داخل نہیں ہوا جا سکتا بلکہ اس کے لیے شکیل الرحمن کی ’’تخلیقیت ‘‘کی کنجی استعمال کرنی ہوگی۔جاننے والے جانتے ہیں کہ شکیل الرحمن محض جمالیاتی تنقید کے میدان کے ہی شہ سوار نہیں تھے بلکہ انہوں نے ناول، افسانے، خود نوشت، سفرنامہ، ریڈیائی ڈرامے اور ٹی وی سیریل وغیرہ میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے ۔ شکیل الرحمن کے ِکِن کِن امتیازات کو نظر انداز کیا جاتا رہے گا اور کب تک ؟ اردو دنیا اب ادب اور ادیبوں کی ’’ خیمہ سازی‘‘ کرنے والوں کی ریشہ دوانیوں کو سمجھ چکی ہے اور لوگوں کو اندازہ ہوگیا ہے کہ کون اردو ادب کو کعبے کی طرف لے جارہاہے اور کون ترکستان کی طرف ۔اب تو اردو کا ہر سنجیدہ قاری غالب کی زبان میں ہی یہ کہنے لگا ہے :

 دکھائوں گا تماشا دی اگر فر صت زمانے نے

مرا ہر داغ ِ دل اک تخم ہے سروِ چراغاں کا

....

77، گرین ہلز کالونی، بھٹنڈی، جموں-181152

موبائل: 9419010472

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...