Tuesday, July 11, 2023

ٹرّم ٹوں بھئی ٹرّم ٹوں

ٹرّم ٹوں بھئی ٹرّم ٹوں

ڈاکٹر بانو سرتاج

 

کردار ایک کسان۔ ایک پنڈت۔ کسان کی پتنی۔ کسان کا چھوٹا بچہ۔ چند بچے جو ٹٹہری، کوے، بیل اور چوہے کے مکھوٹے لگاکر جانوروں اور پرندوں کے کردار نبھائیں گے۔

مقام:       گائوں

وقت:      شام کا

(پردہ اٹھتا ہے۔)

(پیچھے پردے پر گائوں کا منظر۔ چھوٹے چھوٹے مکانات اور گلیوں،سڑکوں پر گائوں والے چلتے پھرتے نظر آرہے ہیں۔ اسٹیج پر داہنی طرف ایک بڑا پیڑ ہے۔۔۔ ایک کسان کا داخلہ۔ اس نے ہاتھ پر رسی لپیٹی ہوئی ہے۔ جس کا دوسرا سرا ایک ٹٹہری کی گردن میں بندھا ہوا ہے۔ ٹٹہری پائوں میں بندھی ہوئی رسی کی وجہ سے اچھل اچھل کر چل رہی ہے۔ کسان چلتے چلتے رکتا ہے۔ سامنے سے اس کی پتنی آتی ہے۔

کسان:                  پاروتی! کہاں جارہی ہو؟

پاروتی:        ابھی آتی ہوں۔ اپنا ببوا کھیلنے جاتا ہوں بول کر نکلا تو ابھی تک اس کا پتہ نہیں۔۔۔ شام ہورہی ہے۔ابھی پکڑ کر لاتی ہوں۔۔۔(تیز تیز چلتی ہوئی نکل جاتی ہے)

ٹٹہری:       (روتی ہوئی کسان سے)

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

تم نے مجھ کو پکڑا کیوں؟

ننھی سی اک چڑیا ہوں

روئی کا جیسے گالا ہوں

غلطی مجھ سے کیا ہوئی

رسی سے جو باندھی گئی

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

کسان:      (ٹٹہری کو گھور کر)

چڑیوں کی تو لیڈر ہے

ڈاکے ڈالا کرتی ہے

دانے کھاکر بھٹوں کے

نقصان فصل کا کرتی ہے

آج سزا میں تجھ کو دوں گا

آسانی سے تو نہ چھوڑوں گا

ٹٹہری:     (روتی ہے)

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

ہاتھ جوڑ کر معافی مانگوں

چاہتی ہوں کہ یہاں سے بھاگوں

دانے نہ اب میں کھائوں گی

نہ کسی کو کھانے دوں گی

غصہ غصہ معاف کرو

مجھ دکھیا کو آزاد کرو

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

(پنڈت جی کا داخلہ)

کسان:                  پائے لاگو مہاراج!

پنڈت جی:(خوش ہوکر) جیتے رہو۔ (ٹٹہری کی طرف دیکھ کر) کیوں بھائی! اس ننھی سی چڑیا کو کیوں باندھ رکھا ہے۔ بے زبان پرندہ ہے۔ بددعا لگ جائے گی۔

کسان:                  اس نے اپنی سہیلیوں کے ساتھ میری فصل خراب کردی ہے۔ بھُٹے کھوکھلے کردیے ہیں۔ شیطان کی خالہ ہے پوری۔

پنڈت جی: یہ کیا بات ہوئی؟ بھگوان جیسے انسان کو رزق دیتا ہے ویسے ہی چرند پرند کو بھی دیتا ہے۔ فصل میں اس کا بھی حصہ رہتا ہے۔

کسان:      (غصہ سے) پنڈت جی! آپ تو اپنے مریدوں کے گھر حلوہ پوری کھاتے ہیں۔ آپ محنت کرنا کیا جانیں؟ محنت تو ہم کسان کرتے ہیں۔

پنڈت جی: (ناراض ہوکر) کچھ تو شرم کرو۔ منہ سنبھال کر بات کرو۔ ٹٹہری مار خان! تم نے کب مجھے حلوہ پوری کھلایا؟

کسان:      (تیوریاں چڑھاکر) تو لیجیے۔ زبان سنبھال کر بولتا ہوں۔ میں کسان ہوں۔ پہلے زمین تیار کرتا ہوں۔ پھر بیج بوتا ہوں۔ کونپلیں پھوٹنے پر گڑائی کرتا ہوں تب جاکر فصل تیار ہوتی ہے۔ تو یہ شیطان ٹٹہریاں اسے چٹ کرجاتی ہیں اور آ پ ان کی طرفداری کررہے ہیں۔

پنڈت جی:   (بھڑک کر) میں نے کیا کہا؟

کسان:      یہی کہ فصل میں ان کا بھی حصہ ہے۔ آپ کا اُپدیش سن کر میں نے ٹٹہری کو آزاد کردیا تو کل ہی یہ اپنی پلٹن کے ساتھ میرے کھیت پر ہلہ بول دے گی۔

پنڈت جی:   مورکھ ہو تم۔ دانے دانے پر کھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔

کسان:      (ہاتھ جوڑ کر) مہربانی کرکے آپ یہاں سے جائیں۔ میں اس ٹٹہری کو سزا دے کر رہوں گا۔ اسے پیڑ کی ٹہنی سے لٹکاکر پھانسی دوں گا۔

پنڈت جی:   میں جارہا ہوں۔ تم جیسے بے وقوف کے ساتھ سر کون پھوڑے؟ جاتے ہیں۔

کسان:      (ٹٹہری کو آنکھیں دِکھاتے ہوئے) چل! اب بول۔ بڑی لیڈر بننے چلی تھی۔ ٹھہر اب تجھے مزہ چکھاتا ہوں۔

(اچانک پس منظر سے چیخیں سنائی دیتی ہیں۔۔۔ ’’ببوا کے باپو، دوڑو۔۔ بھاگ کر آئو۔۔ ببوا گِر گیا ہے۔ کسان گھبرا کر اپنے ہاتھ کی رسی کھول کر پیڑ کی نچلی شاخ سے باندھتا ہے اور رسی کا دوسرا سرا ٹٹہری کی ایک ٹانگ سے باندھ کر دروازے سے باہر چلا جاتا ہے۔ اسی دروازے سے کوا کا مکھوٹا لگائے، کالے کپڑے پہنے ایک لڑکا داخل ہوتا ہے۔ ٹٹہری زور سے چیختی ہے)

ٹٹہری:

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

پھنس گئی ہوں مشکل میں بھاری

تم بھائی میں بہن تمھاری

راکھی کی لاج نبھائو تم

مجھ کو قید سے چھڑائو تم

کوا:        

نہ ہوگا مجھ سے یہ نہ ہوگا

کسان مجھے مارے گا ڈنڈا

بہنا مجھ کو معاف کرو

جھگڑا جھگڑا معاف کرو

(فوراً پلٹ کر چلا جاتا ہے) ایک موٹا بیل اسٹیج پر آتا ہے۔ ٹٹہری کے نزدیک جاکر ہاتھ کے اشارے سے پوچھتا ہے؟

بیل:       (اشاروں سے) کیا معاملہ ہے؟

            (زور سے) کیا ہوا بولتی کیوں نہیں؟ یہ پیڑ سے کیوں لپٹی ہوئی ہو؟ رو کیوں رہی ہو؟

ٹٹہری:    

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

مشکل میں میں پھنس گئی ہوں

جھولنے کھیلنے کے دن گئے

مرنے کے دن ہیں آگئے

رکھ لو تم راکھی کی لاج

کرو مورکھ کسان کا علاج

بیل:       (نفی میں سر ہلاکر) میں ایسا نہیں کرسکتا۔

کسان میرا مالک ہے

ظالم نمبر ایک ہے

مدد تمھاری کرنے پر

بیل نہیں بھرتہ کہلائوں گا

ہاں کسان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہوسکتا ہے میری بات مان کر وہ تمھیں آزاد کردے۔۔۔( تیزی سے پلٹ کر چلا جاتا ہے۔)

(ٹٹہری زور زور سے روتی ہے۔۔ کون ہے؟ کون رو رہا ہے؟ کہتا ہوا ایک چوہا اسٹیج پر آتا ہے۔ ٹٹہری کو پیڑ سے بندھا دیکھ کر فوراً اس کے پاس پہنچتا ہے۔)

چوہا:        ٹٹہری بہن؟ کس نے تمھارا یہ حال کیا ہے؟ جلدی بتائو۔

ٹٹہری:

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

دو بھائی تو چھوڑ کر بھاگے

تم آئے تو نصیب جاگے

بھائی کا تم فرض نبھائو

کسان سے مجھ کو تم بچائو

ظالم کسان آتا ہی ہوگا

آتے ہی مجھ کو پھانسی دے گا

چوہا:        نہیں ایسا کچھ نہ ہوگا۔ تم صبر سے کام لو۔ میں کچھ کرتا ہوں۔

(چوہا پیڑ کے چاروں طرف گھوم کر رسی کی گانٹھ تلاش کرتا ہے اور اپنے تیز دانتوں سے گانٹھ کھولنے لگتا ہے۔ اس دوران ہلکی موسیقی بجتی رہتی ہے۔ گانٹھ کھلتی ہے ٹٹہری پٹ سے زمین پر پسر جاتی ہے۔ پھر تیزی سے اٹھ کر کپڑے ٹھیک کرتی ہے۔ چوہے کے پاس جاکر اس کے ہاتھوں کو چومتی ہے۔)

ٹٹہری:     (نم آنکھوں سے)

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

احسان تمھارا مانتی ہوں

جان بچاکر بھاگتی ہوں

چھوٹے ہوکر بھی تم نے

کام بہت بڑا کیا ہے

راکھی کی لاج رکھی ہے

انسانیت کی مثال دی ہے

(کسان اور اس کی پتنی کا داخلہ: ٹٹہری کسان کو دیکھتے ہی پیڑ کے پیچھے چھپ جاتی ہے۔ کسان کو ٹٹہری نظر نہیں آتی وہ حیرت سے کہتا ہے: ارے! کہاں گئی؟ میں تو اسے پیڑ سے باندھ گیا تھا۔)

چوہا:         (سامنے آکر) باندھ کر گئے تھے۔۔ اسے پھانسی پر چڑھانے والے تھے تم؟

کسان:      (ببوا کو پتنی کی گود میں دے کر) تم اسے اندر لے جائو۔ دودھ گرم کرکے پلائو۔ اسے کچھ نہیں ہوا۔ صرف دہشت سے بے ہوش ہوگیا ہے۔

               (کسان کی پتنی ببوا کو لے کر اندر جاتی ہے۔)

کسان:      اوہ! تو تم نے ٹٹہری کو آزاد کیا ہے؟

چوہا:        (سینے پر ہاتھ رکھ کر ڈرامائی انداز میں جھکتے ہوئے) جی ہاں! اوپر والے نے مجھ سے یہ عظیم کام کروایا ہے۔

کسان:      جانباز چوہے! میں تمھیں سلام کرتا ہوں۔ ٹٹہری اب آزاد ہے۔

(ٹٹہری خوشی سے رونے لگتی ہے۔)

کسان:      نہیں ننھی بہن روئو نہیں میں اب تمھیں کھیت میں آنے سے نہیں روکوں گا۔ کل تم اپنی ساری سہیلیوں کو لے کر کھیت میں آنا۔ جتنا چاہے اتنے دانے کھانا۔

ٹٹہری:     میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ ہم دانے برباد نہیں کریں گے، جتنی بھوک ہوگی اتنے ہی دانے کھائیں گے۔

(ٹٹہری اورچوہا خوشی سے ناچنے لگتے ہیں۔ کسان کا ببوا بھی آجاتا ہے۔ وہ ٹٹہری کا ہاتھ پکڑ کر اچھلنے کودنے لگتا ہے۔)

کسان:      (چوہے کو کندھے پر اٹھا لیتا ہے) سچ ہے کہ اوپر والے کی مہربانی سے اُگنے والے اناج میں سب کا حصہ ہوتا ہے۔ دیکھو سب کتنے خوش ہیں۔ انھیں خوش دیکھ کر ہم بھی خوش ہیں۔ اچھے کام کرنے سے خوشی ملتی ہے۔۔

(پس منظر سے موسیقی کے بول ابھرتے ہیں۔ اے مالک تیرے بندے ہم۔۔۔ پردہ گرتا ہے۔)

'Sartaj House' Jindran Nagar,

Near 1st MSEB Tower, Pandharkawada Road,

Yavatmal (Maharashtra) - 445001

Mob.: 9423418497

کامیابی

کامیابی

ایم۔اے کنول ؔجعفری 

ہائی اسکول کا رزلٹ آچکا تھا۔ اپنا رزلٹ دیکھنے کے لیے ارشد سائبر کیفے پہنچ گیا۔ وہاں زیادہ بھیڑ نہیں تھی۔ اُس نے جیب سے اپنا رول نمبر نکال کر آپریٹر کو دے دیا۔ کمپیوٹر پر نمبر ڈالتے ہی رزلٹ کھل کر سامنے آگیا ۔آپریٹر نے پاس ہونے کی مبارک باد دیتے ہوئے سلپ نکال کراُس کے ہاتھ میں تھما دی۔ اُس نے مارک شیٹ کو کئی بار الٹ پلٹ کر دیکھا۔ہائی اسکول پاس کر لینے کا یقین ہونے پر اُس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔وہ اپنی کامیابی پر اُچھل پڑا۔پچیس برس بعد چہرے پر آئی کامیابی کی خوشی دیکھنے لائق تھی ۔ اُس نے آپریٹر کوسلپ نکالنے کا محنتانہ ا داکیا اورپھرکچھ اس انداز میں سینہ تان کر گھر کی جانب چل دیا ،جیسے کوئی معرکہ فتح کر کے آرہا ہو ۔

حامد نے اپنے بیٹے ارشد کا داخلہ بیسک پرائمری اسکول کی پہلی جماعت میں کرا یا تھا۔اسکول کے راستے میں ایک فیکٹری پڑتی تھی۔اس کے گیٹ پر وردی پہنے ایک شخص اپنے کندھے پر بندوق لٹکائے پہرہ دیاکرتا تھا۔فیکٹری کے اندر جانے والے شخص کو اس سے اجازت لینے کے علاوہ میز پر رکھے رجسٹر پر اپنے دستخط بھی کرنے پڑتے تھے۔ اُسے وردی پہنے گیٹ مین اچھا لگتا تھا۔

گزشتہ برس ارشد اپنے والد کے ساتھ عیدالفطر کی نماز پڑھنے عید گاہ گیا تھا۔ راستے کے دونوں کناروں پر کئی لوگوں نے بچوں کے لیے کھلونوں کی دُکانیں سجا رکھی تھیں۔اُن میں پستول اور بندوقیں بھی تھیں۔ وہ بندوق خریدنا چاہتا تھا،لیکن اس کے پاس بندوق کے لیے پیسے نہیں تھے۔نماز سے واپسی میںاُس نے والد سے اپنی خواہش کا اظہار کیا ۔

حامد نے بیٹے کی خوشی کے لیے اُسے بندوق خرید کر دے دی۔ بندوق پاکر وہ بہت خوش ہوا۔ اُس نے اپنے دوستوں کو بندوق دکھائی۔سب نے بندوق کو پسند کیا۔ وہ اکثر بندوق سے کھیلتا اور اپنے دوستوں کو بھی کھیلنے کے لیے دے دیتا۔ ارشد اکثر کندھے پر بندوق ڈال کر اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا ہوتا۔

ارشدایک روز گھر کے باہر کھڑ ا  بسکٹ کھا رہا تھا۔ تبھی ایک کتا اُس کی طرف لپکا۔ اُس نے جھٹ کندھے سے بندوق اُتاری اور کتے کی طرف تان دی۔کتا برابر بھونکے جا رہا تھا۔ اُس کے پاس بندوق میں چلانے والے کارک یا پٹاخے نہیں تھے۔وہ تو کافی پہلے ختم ہو گئے تھے۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا ،’ کیا کرے؟‘اُس نے کتے سے بچنے کے لیے بندوق کی نال ہاتھ میں پکڑی اور پوری طاقت سے اُس کی بٹ کتے کے منہ پر مار دی۔ کتا بٹ کی چوٹ برداشت نہیں کر سکا اور بھونکتا ہوا بھاگ گیا۔

کتا تو بھاگ گیا،لیکن بندوق ٹوٹ گئی۔ یہ بندوق کئی مہینے سے اُس کے پاس تھی۔ راشد کو بندوق ٹوٹنے کا بڑا ملال ہوا۔اُس نے بندوق ٹوٹنے کا واقعہ والد سے بتایا۔

والد نے کہا: ’’کوئی بات نہیں ۔گاؤں میں جب نومی کا میلہ لگے گا، تب اُسے دوسری اور مضبوط بندوق خرید کر دیں گے۔اب وہ اپنا دل پڑھائی میں لگائے،تاکہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہو سکے۔‘‘

 نئی بندوق ملنے کی اُمید میںراشد بہت خوش ہوا۔اُس نے پڑھائی کے لیے محنت کا یقین دلایا۔یہ سن کر والد بھی خوش ہوگئے۔وہ اس لیے بھی پڑھنا چاہتا تھا کہ بڑا ہو کر اُسے گیٹ مین بننا تھا،جس کے پاس ہر وقت بندوق ہوتی ہے۔

ارشدپڑھائی لکھائی میںکمزور تھا۔ اس کے باوجود وہ ہر درجہ پاس کرتا ہوا ہائی اسکول تک پہنچ گیا ۔ ہائی اسکول کو عصری تعلیم کی پہلی سیڑھی مانا جاتا ہے۔اُس نے سن بھی رکھا تھا جو طالب علم ہائی اسکول میں کامیاب ہو جاتا ہے ، اُس کے لیے آگے کی پڑھائی آسان ہو جاتی ہے۔گارڈ کی نوکری کے لیے ہائی اسکول کی سند کا ہونا لازمی تھا۔

نوید،ساجد اور راحت سے اس کی دوستی تھی۔ایک روزدوپہر میں چھٹی کے بعد اسکول سے لوٹتے ہوئے ارشد نے دوستوں سے گارڈ بننے کی خواہش کااظہار کیا ۔اس پرتینوں نے حیرت سے اس کی جانب کچھ اس طرح دیکھا،جیسے اُس کی زبان سے کچھ غلط نکل گیا ہو۔

نوید نے کہا:’’ دوست!یہ تو ادنیٰ سی خواہش ہے ۔ اَرے بھائی بی اے یاایم اے کرنے کی بات کرو۔ گریجویشن کے بعدکسی اَچھے عہدے پرفائز ہوکر دفتر میں کام کرنے یا اسکول میں پڑھانے کا ارادہ کرو۔ کوئی بڑا خواب دیکھو ۔ بڑا خواب دیکھنے والوں کو آگے چل کر بڑا بننے اور ملک و ملت کی خدمت کرنے کا موقع ملتا ہے۔‘‘

ارشد کی خواہش پرساجد نے طنزیہ الفاظ میں کہا:’’ بی اے،ایم اے کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے ۔یہ ہائی اسکول ہی پاس کر لے تو بڑی بات ہے۔ہائی اسکول اور اس کے بعد کے امتحانات ہنسی کھیل نہیں ہوتے۔ بہت محنت درکار ہوتی ہے۔امتحان کی تیاری میںرات دن ایک کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا ہے۔وہ رات بھر جاگ کر پڑھتے رہتے تھے۔ رہی بات گارڈ یا گیٹ مین بننے کی،تو یہ نوکری بھی اسے تب ہی مل پائے گی ،جب یہ ہائی اسکول پاس کرلے گا۔‘‘

’’میں ہائی اسکول کیوں نہیں پاس کر سکتا؟ کیا میں اتنا کمزور ہوں کہ ہائی اسکول بھی نہ کر سکوں ؟‘‘ ارشد نے سوال کیا۔

’’تم پڑھائی میں بہت کمزور ہو۔ اب تک تو لوکل امتحان تھے۔ان میں سب پاس ہو جاتے ہیں۔ ہائی اسکول بورڈ کا امتحان ہوتا ہے۔ سینٹر بھی دوسرے اسکول میں جاتا ہے۔آگے پیچھے دوسرے اسکول کے لڑکے بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہاں ٹیچر نہ تو نقل کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے لڑکے سے کچھ معلوم کرنے دیتے ہیں۔‘‘ ساجد نے باریکیاں بتانے کی کوشش کی۔

’’تم دیکھ لینا! میں ہائی اسکول پاس کروں گا اور گارڈ بھی بن کر  دکھاؤں گا۔انشاء اﷲ!!‘‘ارشد نے اپنے ارادے کا دم دارمظاہرہ کرتے ہوئے کرارا جواب دیا۔

راحت نے کہا:’’ بھائی! آپس میں تکرار کیوں کرتے ہو؟ کچھ بننے یا حاصل کرنے کی تمنا کوئی بھی کرسکتا ہے۔ خوشحال زندگی کے لیے مستقبل کا پلان بنانا ہر شہری کا حق ہے۔میرا بھی،تمھارا بھی اورارشد کا بھی۔ہمیں ایک دوسرے کے لیے دل سے دعا اور نیک خواہشات کا اظہار کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سب کی آرزواور تمناؤں کو پورا کر دے۔آمین! ثم آمین!!‘‘

راحت کے تبصرے کے بعد خاموشی چھاگئی۔کسی نے کوئی بات نہیں کی۔چاروں چپ چاپ آگے بڑھتے گئے۔جس کا گھر آجاتا وہ بغیر کچھ کہے سنے اپنے گھر میں داخل ہوجاتا۔پہلے نوید،پھر ساجد اورپھر راحت اپنے گھرجا چکے تھے۔ارشد کاگھر آخر میں پڑتا تھا۔کچھ دیر بعد وہ بھی اپنے گھرکے اندرچلا گیا ۔

ارشدنے اپنی کاپی کتابوں کا بیگ الماری میں رکھا۔اس کے بعد اس نے ہاتھ منھ دھویا، دوپہر کا کھانا کھایااورپھر چارپائی پرجاکر لیٹ گیا۔ دوستوں کی باتیں ابھی بھی اس کے دل و دماغ میںگونج رہی تھیں ۔ ساجد کے تلخ الفاظ اُسے بے چین کر رہے تھے۔کبھی اپنے اور کبھی دوستوں کے بارے میں سوچتے سوچتے اسے ہائی اسکول کا خیال آگیا۔اس امتحان کے بارے میں وہ سنجیدگی سے سوچنے لگا۔کیا ہائی اسکول کا امتحان اتنا مشکل ہے کہ وہ اس میں پاس نہیں ہو سکتا؟جب دوسرے طلبا امتحان دے کر کامیاب ہو سکتے ہیں،تو وہ کیوں نہیں ہو سکتا؟وہ بھی کامیاب ہوگا۔ضرور کامیاب ہو گا۔وہ ساجد کو ہر حال میں ہائی اسکول پاس کر کے دکھائے گا۔

ہر حال میں امتحان پاس کرنے کی اُمید پرارشد روزانہ اسکول جاتا۔ کلاس ورک کے علاوہ ہوم ورک بھی پورا کرنے کی کوشش کرتا۔کچھ دنوں کے بعد اسکیم جاری ہو گئی۔وہ پڑھائی میں زیادہ وقت دینے لگا ۔وہ ہر مضمون کی بھرپور تیاری کر رہا تھا۔

 امتحان شروع ہو گئے۔پہلا پیپر ہندی کا تھا۔ وہ رول نمبر کے مطابق کمرے میں اپنی سیٹ پر جاکر بیٹھ گیا۔ٹیچر نے لڑکوں کو کاپیاں تقسیم کیں۔لڑکوں نے کاپی کے اُوپر درج تحریر کے مطابق خالی مقامات پرضروری معلومات کا اندراج کیا۔ گھنٹہ بجتے ہی ٹیچر نے پیپر بانٹ دیا۔

پیپر پڑھنے کے بعد لڑکے سوالات کے جواب لکھنے میں مشغول ہوگئے۔ارشد نے بھی لکھنا شروع کر دیا۔آپ جانتے ہیں اس نے کاپی میں خوب لکھا۔وقت پورا ہوتے ہی ٹیچر نے کاپیاں جمع کیں اور لڑکے امتحان گاہ سے باہر آگئے۔اسکول سے باہر لڑکے اپنے ہاتھوں میں پیپر لے کرجواب ملا رہے تھے۔

ارشد ان کے درمیان نہیں رُکا اور سیدھا گھر آگیا۔اسی طرح اس نے پورا امتحان دے دیا۔طے تاریخ پر رزلٹ آیا،لیکن کاپیوں میں خوب لکھنے کے باوجود رزلٹ اُمید کے خلاف آیا۔وہ امتحان میں فیل ہو گیا۔اُسے فیل ہونے کا بڑا صدمہ تھا۔ ساجد کی بات پوری ہو گئی۔ اس کا چہرہ لٹکا ہوا تھا۔ چیلنج میں ناکامی کی وجہ سے وہ ساجد کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔        

رفتہ رفتہ وقت گزرتا رہا۔ہر سال اُس کے اور ساتھیوں کے درمیان ایک جماعت کا فاصلہ ہوتا رہا۔تینوں دوست جماعت در جماعت آگے بڑھتے ہوئے کہیں سے کہیں پہنچ گئے،لیکن وہ اپنی جماعت کے حصار کو توڑ پانے میں ناکام رہا۔ تین برس فیل ہونے کے بعد وہ ریگولر طالب علم نہیں رہا تھا،اس لیے اب پرائیویٹ فارم بھر رہا تھا۔

نویدکو پڑھائی مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ انٹر کالج میں ٹیچر کی نوکری مل گئی۔ ساجد ڈاکٹر بن گیا ۔ عوام کی خدمت کے جذبہ کے تحت اس نے شہر میں اپنا اسپتال کھول لیا۔تعلیم کے معاملہ میں راحت سب سے زیادہ سنجیدہ تھا۔ اُسے اس کا پھل بھی ملا۔وہ آئی اے ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کرکے ضلع کلکٹر بن گیا۔

عزم محکم اور نئے جذبے کے ساتھ وہ ہر برس ہائی اسکول کا امتحان دیتا اور اُمید کرتا کہ اس بار وہ ضرور بالضرور پاس ہو جائے گا،لیکن ہر سال آنے والا رزلٹ اس کا منھ چڑاتارہتا۔ بیٹا کفیل بھی ہائی اسکول میں آچکا تھا۔اس برس باپ اور بیٹے کا سینٹر ہی ایک نہیں تھا،بلکہ دونوں کی سیٹیں بھی ایک ہی کمرے میں آگئیں۔ امتحان کے دوران بیٹے نے باپ کی مدد کرنے کی کوشش کی،لیکن ارشد نے اسے منظور نہیں کیا۔نتیجہ میں بیٹا پاس ہو گیااور باپ کو ایک بار پھر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔

 ارشدنے ہائی اسکول کا امتحان پاس کرلیا۔ اُس کے دل کی مراد پوری ہو گئی۔اُسے ایک فیکٹری میں گارڈ کی نوکری بھی مل گئی۔ گارڈ بننے کا اُس کا خواب پورا ہو گیا۔ وہ گارڈ کی وردی پہن کرپنی بیٹی کا داخلہ کرانے اسکول گیا۔پرنسپل آفس کے باہر اُس کا ساجد سے آمنا سامنا ہو گیا۔

’’ارشد! یہ تم ہو۔وہ بھی گارڈ کی وردی میں!!‘‘ساجد نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’ہاں! میں ہی ہوں!! تمھارے طعنے نے مجھے گارڈ بنا دیا۔ میرا دیرینہ خواب پورا ہوگیا۔‘‘ارشد نے جواب دیا۔

’’ارشد! میرے طعنے کے پیچھے کوئی غلط منشا نہیں تھا۔تم کلاس میں سب سے کمزور تھے۔میں تو صرف اتنا چاہتا تھا کہ میرے الفاظ تمھیں چبھ جائیں۔تمھارے دل کو لگ جائیں،تاکہ تم پڑھائی میں جی جان سے جٹ جاؤ۔ تم نے یہ ثابت کر دیا کہ کوئی کام بھی مشکل نہیں ہے۔بس ہمت اور لگن ہونی چاہئے ۔ ‘‘

’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو ساجد! انسان کے لیے کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہے۔اگر وہ ٹھان لے تو سب کچھ آسان ہے۔ہمت اور حوصلے کے ساتھ قدم بڑھانے والے کو ایک نہ ایک روز منزل مل ہی جاتی ہے۔‘‘ ارشد نے مسکراتے ہوئے ساجد سے ہاتھ ملایا اور بیٹی کے ساتھ پرنسپل کے آفس میں داخل ہو گیا ۔

پیارے بچو!دیکھا آپ نے!! ارشد پڑھائی میں کمزور تھا۔وہ ہائی اسکول پاس کر کے ارڈ بننا چاہتا تھا۔حالانکہ منزل تک پہنچنے میں اُسے پچیس برس لگ گئے،لیکن کامیابی حاصل کرکے ہی دم لیا۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کام کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔ ہمت اور لگن کے ساتھ اُسے سر کیا جا سکتا ہے۔

 

127/2, Jama Masjid,

NEENDRU, Tehsil Dhampur,

Distt. Bijnor (U.P.) 246761,

Mob.: 9917767622

 

ٹسٹ کرکٹ میں ایک اننگ میں دو بلے بازوں کی ڈبل سنچریاں

ٹسٹ کرکٹ میں ایک اننگ میں      دو بلے بازوں کی ڈبل سنچریاں

سید پرویز قیصر 

آئر لینڈ کے خلاف گول میں کھیلے گئے دوسرے ٹسٹ میں سری لنکا کی پہلی اننگ میں دو بلے باز ڈبل سنچریاں بنانے میں کامیاب رہے۔نشان مدھو شاکا نے۳۳۹ بالوں پر۲۲ چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے۲۰۵رن بنائے جبکہ کوسل مینڈس ۲۹۱ بالوں پر۱۸ چوکوں اور گیارہ چھکوں کی مدد سے۲۴۵رن بنانے میں کامیاب رہے۔ کوسل مینڈس کے گیارہ چھکے سری لنکا کے لئے ایک اننگ میں ٹسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ ہیں۔ان کو ملاکر سات بلے بازوں نے ٹسٹ کرکٹ میں ایک اننگ میں گیارہ یا اس سے زیادہ چھکے لگائے ہیں۔

وسیم اکرم نے زمبابوے کے خلاف شیخو پورہ میںاکتوبر ۱۹۹۶ء میں اپنی آئوٹ ہوئے بغیر۲۵۷ رن کی اننگ کے دوران بارہ چھکے لگائے تھے جو ایک اننگ میں سب سے زیادہ چھکے تھے۔ اس ٹسٹ میں سری لنکا نے۱۵۱اوور میں تین وکٹ پر ۷۰۴ رن بناکر اپنی پہلی اننگ ڈکلیر کردی تھی اور ٹسٹ میں ایک اننگ اور دس رن سے جیتا تھا۔

 سری لنکا کے لئے۳۱۱ ٹسٹ میچوں میں یہ پانچواں اور کل ملاکر۲۵۰۳ٹسٹ میچوں میں انیسواں موقع تھا جب ٹسٹ کرکٹ میں ایک اننگ میں دو بلے باز ڈبل سنچریاں بنانے میں کامیاب رہے۔

ٹسٹ کرکٹ میں ایک اننگ میں دو بلے باز پہلی مرتبہ ڈبل سنچریاں اوول میں اگست ۱۹۳۴ء میں ہوئے ٹسٹ میچ میں بنانے میں کامیاب رہے تھے۔ آسٹریلیا کی جانب سے انگلینڈ کے خلاف بل پونسفورڈ ۴۶۰ منٹ میں۴۲۲بالوں پر۲۷چوکوں کی مدد سے۲۶۶رن بنانے میں کامیاب رہے تھے جبکہ ڈان بریڈ مین نے۳۱۶منٹ میں۲۷۱بالوں پر۳۲چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے ۲۴۴ رن بناکر آئوٹ ہوئے تھے۔ آسٹریلیا نے  ۲ء۱۷۱ اوور میں۷۰۱ رن بنائے تھے اور میچ ۵۶۲ رن سے جیتا تھا۔

سڈنی میں دسمبر۱۹۴۶ء میں ہوئے ٹسٹ میچ میں آسٹریلیا نے انگلینڈ کو ایک اننگ اور۳۳ رن سے شکست دی۔ آسٹریلیا نے اپنی واحد اننگ ۱۷۳ اوور میں آٹھ وکٹ پر ۶۵۹رن بناکر ڈکلیر کردی تھی۔ آسٹریلیا کی اس اننگ میں سڈنی بارنیز اور ڈان بریڈ مین ڈبل سنچریاں بنانے میں کامیاب تھے۔ دونوں نے۲۳۴ ۔۲۳۴ رن بنائے تھے۔ سڈنی بارنیز نے۶۴۹منٹ میں۶۶۷ بالوں پر۱۷ چوکوں کی مدد سے یہ رن بنائے تھے جبکہ ڈان بریڈمین۳۹۷منٹ میں۳۹۶بالوں پر۲۴چوکوں کی مدد سے یہ رن بنانے میں کامیاب رہے تھے۔

ویسٹ انڈیز نے پاکستان کے خلاف کنگسٹن میں فروری۔ مارچ ۱۹۵۸ء  میں ہوئے ٹسٹ میں ایک اننگ اور۱۷۴رن سے کامیابی حاصل کی تھی۔ ویسٹ انڈیز کی واحد اننگ میں کونراڈ ہنٹ اور گیری سوبرس دو سو سے بڑی اننگیں کھیلنے میں کامیاب رہے تھے۔ کونراڈ ہنٹ نے ۲۸ چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے۲۶۰رن بنائے تھے جبکہ گیری سوبرس۶۱۴ منٹ میں۳۸ چوکوں کی مدد سے۳۶۵رن بناکر ناٹ آئوٹ رہے تھے۔ انکا یہ اسکور کافی عرصہ تک ٹسٹ کرکٹ میں سب سے بڑا انفرادی اسکور رہا تھا۔ ویسٹ انڈیز نے اپنی واحد اننگ۱ء۲۰۸ اوور میں تین وکٹ پر۷۹۰ رن بناکر ڈکلیر کی تھی۔

ویسٹ انڈیزکے خلاف برج ٹائون میں مئی ۱۹۶۵ء میں کھیلے گئے ٹسٹ میں آسٹریلیا کی جانب سے بل لاری۲۱۰رن بنائے تھے جبکہ بابی سمپسن نے۲۰۱رن بنائے تھے۔آسٹریلیا نے اپنی اننگ۱۸۹اوور میں چھ وکٹ پر۶۵۰ رن بناکر اپنی اننگ ڈکلیر کردی تھی۔ یہ ٹسٹ کسی فیصلہ کے بغیر ختم ہوا تھا۔

ہندوستان کے خلاف حیدرآباد، پاکستان میںجنوری  ۱۹۸۳ء میں کھیلے گئے ٹسٹ میں پاکستان نے ایک اننگ اور۱۱۹رن سے کامیابی حاصل کی تھی۔ پاکستان نے اپنی واحد اننگ ۱۶۶ اوور میں تین وکٹ پر ۵۸۱ رن بناکرڈکلیر کی تھی جس میں مدثر نذر نے۶۲۷منٹ میں۴۴۴بالوں پر ۲۱ چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے۲۳۱رن بنائے تھے جبکہ جاوید میاںداد ۶۹۶منٹ میں۴۶۰بالوں پر۱۹چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے آئوٹ ہوئے بغیر۲۸۰رن بنانے میں کامیاب رہے تھے۔

اس ٹسٹ کے لگ بھگ دو سال بعد یعنی جنوری۱۹۸۵ء میں ہندوستان کے خلاف ایک اننگ میں دو ڈبل سنچریاں اسکور ہوئیں۔ اس مرتبہ انگلینڈ کے بلے بازوں نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا، چنئی میں ہوئے ٹسٹ میں انگلینڈ کی پہلی اننگ میںگریم فولر۵۶۳منٹ میں۴۰۹بالوں پر ۲۲ چوکوں اور تین چھکوں کی مدد سے۲۰۱رن بنانے میں کامیاب رہے تھے جبکہ مائیک گیٹنگ نے۵۰۴منٹ میں۳۰۹بالوں پر۲۰چوکوں اور تین چھکوں کی مدد سے ۲۰۷  رن بناکر آئوٹ ہوئے۔ انگلینڈ نے اپنی پہلی اننگ ۱۷۵ اوور میں سات وکٹ پر ۶۵۲ رن بناکر ڈکلیر کی تھی اور میچ نو وکٹ سے جیتا تھا۔

فیصل آباد میں دسمبر ۱۹۸۵ء میں ہوئے ٹسٹ میں پاکستان کے بلے باز دوسری مرتبہ ایک اننگ میں دو سنچریاں بنانے میں کامیاب رہے تھے۔ سری لنکا کے خلاف اس ٹسٹ میں پاکستان کی جانب سے قاسم عمر(۲۰۶ رن) اور جاوید میاں داد (۲۰۳ ناٹ آئوٹ ) ڈبل سنچریاں بنانے میں کامیاب رہے تھے۔ پاکستان نے اپنی واحد اننگ میں۵ء۱۶۲ اوورمیں تین وکٹ پر۵۵۵رن بنائے تھے۔یہ ٹسٹ برابری پر ختم ہوا تھا۔

سری لنکا کے لئے ٹسٹ کرکٹ میں پہلی مرتبہ ایک اننگ میں دو بلے باز ہندوستان کے خلاف کولمبو میں اگست ۱۹۹۷ء  میں ہوئے ٹسٹ میں ڈبل سنچریاں بنانے میں کامیاب رہے۔ سنتھ جے سوریہ ۷۹۹منٹ میں ۵۷۸ منٹ میں۳۶چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے۳۴۰رن بناکر آئوٹ ہوئے تھے جبکہ روشن ماہنامہ نے۷۵۳منٹ میں۵۶۱ بالوں پر۲۷ چوکوں کی مدد سے۲۲۵رنوں کی اننگ کھیلی تھی۔ سری لنکا نے اپنی اننگ۲۷۱اوور میں چھ وکٹ پر۹۵۲ رن بناکر ڈکلیر کی تھی جو ٹسٹ کرکٹ میں سب سے بڑا اسکور ہے۔ یہ ٹسٹ برابر رہا تھا۔ ہندوستان نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے اپنی اننگ ۳ء۱۶۷ اوور میں آٹھ وکٹ پر ۵۳۷ رن بناکر ڈکلیر کی تھی۔

ڈھاکہ میں مارچ ۱۹۹۹ء  میں سری لنکا کے خلاف ایشیائی ٹسٹ چمپئن شپ کے فائنل میں پاکستان نے ایک اننگ اور ۱۷۵ رن سے کامیابی حاصل کی تھی۔ پاکستان نے اپنی واحد اننگ میں۵ء۱۸۴  اوور میں۵۹۴ رن بنائے تھے جس میں اعجاز احمد نے۵۱۹منٹ میں۳۷۲بالوں پر۲۳چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے۲۱۱رن بنائے تھے جبکہ انضمام الحق۵۳۵منٹ میں ۵۳۵ بالوں پر۲۳ چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے ۲۰۰ رن بناکر ناٹ آئوٹ رہے تھے۔

زمبابوے کے خلاف بلاوایو میں مئی ۲۰۰۴ء  میں کھیلے گئے ٹسٹ میچ میں سری لنکا کی واحد اننگ میں مارو ن اتا پتو اور کمار سنگا کارا ڈبل سنچریاں  بنانے میں کامیاب رہے تھے۔ مارون اتاپتو نے۵۱۶منٹ میں۳۲۴بالو ں پر۳۶ چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے۲۴۹رن بنائے تھے جبکہ کمار سنگا کارا۴۶۸منٹ میں۳۶۵بالوں پر ۳۶ چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے ۲۷۰رن بنانے میں کامیاب رہے تھے۔اس ٹسٹ میں سری لنکا نے ایک اننگ اور ۲۵۴ رن سے کامیابی اپنے نام کی تھی۔

جارج ٹائون میں مارچ۔اپریل ۲۰۰۵ء میں ہوئے ٹسٹ میں جنوبی افریقہ کے خلاف ویسٹ انڈیز کی جانب سے دو بلے باز ڈبل سنچریاں بنانے میں کامیاب رہے تھے لیکن وہ اپنی ٹیم کو ٹسٹ جتا نہیں سکے تھے۔ ویسٹ انڈیز نے اپنی واحد اننگ۱ء۱۵۲ اوور میں پانچ وکٹ پر ۵۴۳ رن بناکر ڈکلیر کی تھی جس میں واویل ہنڈس نے۴۵۵ منٹ میں۲۹۷ بالوں پر۳۴ چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے۲۱۳ رن بنائے تھے جبکہ شیو نارائن چندر پال۵۴۱ منٹ میں۳۷۰ بالوں پر۲۳ چوکوں کی مدد سے۲۰۳ رن بناکر ناٹ آئوٹ رہے تھے۔

کولمبو میں جولائی ۲۰۰۶ء  میں جنوبی افریقہ کے خلاف ہوئے ٹسٹ میں سری لنکا کی واحد اننگ میں کمار سنگا کارا اور مہیلا جے وردھنے دو سو سے بڑی اننگیں کھیلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ سنگا کارا نے۶۷۵ میں میں۴۵۷بالوں پر۳۵چوکوں کی مدد سے۲۸۷رن بناکر آئوٹ ہوئے تھے۔ اگر وہ اپنی ٹریپل سنچری مکمل کرلیتے تو ٹسٹ کرکٹ میں یہ پہلا موقع ہوتا جب ایک اننگ میں دو بلے باز ٹریپل سنچریاں بنانے میں کامیاب ہوئے۔ مہیلا جے وردھنے ۷۵۲منٹ میں۵۷۲ بالوں پر۴۳ چوکو ں اور ایک چھکے کی مدد سے۳۷۴ رن بناکر آئوٹ ہوئے تھے۔اس ٹسٹ میں سری لنکا نے ایک اننگ اور۱۵۳  رن سے کامیابی حاصل کی تھی۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے ایک اننگ میں دو ڈبل سنچریاں ایک ہی مرتبہ ماری گئی ہیں۔ بنگلہ دیش کے خلاف چٹاگانگ میں فروری۔مارچ ۲۰۰۸ء  میں کھیلے گئے ٹسٹ میں جنوبی افریقہ نے اپنی واحد اننگ ۱ء۱۶۱ اوور میں سات وکٹ پر ۵۸۳ رن بناکر ڈکلیر کی تھی اور ٹسٹ ایک اننگ اور۲۰۵رن سے جیتا تھا۔ جنوبی افریقہ کے لئے دونوں افتتاحی بلے باز ڈبل سنچریاں بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ نیل میکنزی نے۵۱۸منٹ میں۳۸۸بالوں پر۲۸چوکوں اور تین چھکوں کی مدد سے۲۲۶رن بنانے میں کامیاب رہے تھے جبکہ گریم اسمتھ نے۴۰۶ منٹ میں۲۷۷بالوں پر۳۳ چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے۲۳۲رن بنانے میں کامیاب رہے تھے۔

دہلی میں اکتوبر۔نومبر۲۰۰۸ء میں آسٹریلیا کے خلاف ہندوستان کی پہلی اننگ میں گوتم گمبھیر اور وینکٹ سائی لکشمن ڈبل سنچریاں بنانے میں کامیاب رہے تھے۔ گوتم گمبھیر نے۵۵۰ منٹ میں۳۸۰بالوں پر۲۶چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے۲۰۶رن بنائے تھے جبکہ وینکٹ سائی لکشمن نے ۴۶۵منٹ میں۳۰۱بالوں پر۲۱ چوکوں کی مدد سے آئوٹ ہوئے بغیر۲۰۰رن بنائے تھے۔یہ ٹسٹ برابر رہا تھا۔

مہیلا جے وردھنے اورتھیلن سماراویرا پاکستان کے خلاف کراچی میں فروری ۲۰۰۹ء  میں ڈبل سنچریاں بنانے میں کامیاب رہے تھے۔ مہیلا جے وردھنے نے سری لنکا کی پہلی اننگ میں۵۳۱ منٹ میں۴۲۴ بالوں پر۳۲ چوکوں کی مدد سے۲۴۰ رن بنائے تھے جبکہ تھیلن سمارا ویرا۴۵۴منٹ میں ۳۱۸  بالوں پر۳۱ چوکوں کی مدد سے۲۳۱ رن بناکر آئوٹ ہوئے تھے۔ یہ ٹسٹ کسی فیصلہ کے بغیر ختم ہوا تھا۔

ہندوستان کے خلاف ایڈیلیڈ میں جنوری  ۲۰۱۲ء  میں آسٹریلیا نے ۲۹۸ رن سے کامیابی حاصل کی۔ آسٹریلیا نے اپنی پہلی اننگ ۱۵۷ اوور میں سات وکٹ پر ۶۰۴ رن بناکر ڈکلیر کی تھی جس میں ریکی پونٹنگ ۵۱۶ منٹ میں۴۰۴بالوں پر۲۱چوکوں کی مدد سے۲۲۱رن بنانے میں کامیاب رہے تھے جبکہ مائیکل کلارک نے ۳۸۰ منٹ میں۲۷۵بالوں پر۲۶چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے۲۱۰رن بنائے تھے۔

اس ٹسٹ کے لگ بھگ دس سال بعد نومبر۔دسمبر۲۰۲۲ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف آسٹریلیا کی پہلی اننگ میں مارنس لبو شنگھے ۴۸۳ منٹ میں،۳۵۰بالوں پر۲۰چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے ۲۰۴رن اور اسٹیو اسمتھ آئوٹ ہوئے بغیر۴۱۹منٹ میں۳۱۱بالوں پر۱۶چوکوں کی مدد سے۲۰۰رن بنانے میں کامیاب رہے۔ آسٹریلیا نے اپنی پہلی اننگ ۴ء۱۵۲ اوور میں چار وکٹ پر ۵۹۸ رن بناکر ڈکلیر کی تھی اور ٹسٹ۱۶۴رن سے جیتا تھا۔

نیوزی لینڈ کی جانب سے ٹسٹ کی ایک اننگ میں د و ڈبل سنچریاں پہلی مرتبہ سری لنکا کے خلاف ویلنگٹن میں مارچ ۲۰۲۳ء  میں ہوئے ٹسٹ میں بنائی گئی تھیں۔ اس ٹسٹ میں نیوزی لینڈ نے ایک اننگ اور۵۸ رن سے جیت حاصل کی تھی۔ اس نے اپنی واحد اننگ۱۲۳ اوور میں چار وکٹ پر ۵۸۰رن بناکر ڈکلیر کی تھی جس میں کین ولیمسن نے۳۹۰منٹ میں ۲۹۶ بالوں پر۲۳چوکوں اور دو چھکوں کی مدد سے ۲۱۵ رن بنانے میں کامیاب رہے تھے جبکہ ہنری نکولس۳۹۳منٹ میں۲۴۰بالوں پر۱۵ چوکوں اور چار چھکوں کی مدد سے۲۰۰رن بناکر ناٹ آئوٹ رہے تھے۔

 

1407, Qasim Jaan Street,

Ballimaran, Delhi-110006

 

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...