Tuesday, June 20, 2023

لائٹ، کیمرا اور ایکشن

  لائٹ، کیمرا اور ایکشن

کردار اداکاری

وامق ضیا

آداب ننھے ساتھیو! ’’بچوں کا ماہنامہ اُمنگ‘‘کی جون کی قسط میں میں آپ کا استقبال کرتا ہوں۔ ہم ایک بار پھر سے آپ کے لیے سنیما اور تھیٹرسے جڑی مزیدار باتیں لے کر آپ کے پسندیدہ سلسلے ’’لائٹ، کیمرااور ایکشن‘‘میں حاضر ہیں۔ آپ کے خطوط ہمیں ملتے رہتے ہیں اور ان سے ہمیں اور بہتر کرنے کا حوصلہ ملتا رہتا ہے۔ خطوں کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ آپ مستقبل میں بھی یوں ہی ہمارا مضمون پڑھتے رہیں گے اور ہماری حوصلہ افزائی بھی کرتے رہیں گے۔ اگر آپ کو ہمارے سلسلہ وار مضامین اور ’’بچوں کا ماہنامہ اُمنگ‘‘کے اور مضامین پسند آتے ہیں تو یہ رسالہ اپنے دوستوں کو تحفتاً ضرور دیں اور انھیں اُمنگ پڑھنے کی رائے بھی دیں۔

پیارے بچو! جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ جب سے اس سلسلے ’’لائٹ، کیمرااور ایکشن‘‘کا آغاز ہوا تب سے ہم سنیما اور تھیٹرسے جڑے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے رہے ہیں۔ کبھی ہم ان اداکاروں کی بات کرتے ہیں جو ہیرو (Hero) کے کردار میں نظر آئے ہیں اورہم نے آپ سے ان اداکاروں کے بارے میں بھی بات کی ہے جو منفی کرداروں (Villain) میں نظر آتے ہیں۔ ہم نے ہدایت کاروں کا ذکر بھی کیا ہے، یہاں تک کہ موسیقاروں، سنگیت کاروں اور گلوکاروں کی بھی بات کی ہے۔ ان سب کے علاوہ ہم نے تھیٹر سے جڑی کچھ عظیم شخصیات سے بھی آپ کی ملاقات کرائی ہے،لیکن آج ہم سنیما سے جڑے ایک ایسے پہلو کے بارے میں بات کریں گے جس کے بغیر کوئی بھی فلم ادھوری ہے، لیکن اس پہلو کے بارے میں زیادہ بات نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ پہلو زیادہ مشہور ہے۔ تو آج ہم سنیما کے ان اداکاروں کا ذکر کریں گے جو فلموں کے ہیرو (Hero) یا ہیروئن (Heroine) نہیں بنتے یعنی کہ مرکزی کردار نہیں ہوتے لیکن وہ اہم کردار ادا کرتے ہیں جو فلموں کی کہانی کا بے حد اہم حصہ ہوتے ہیں اور جن کے بغیر فلم کا تصور کرنا بھی ناممکن ہوتا ہے، ان اداکاروں کو کردار اداکار (Character Artist) بھی کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں فلم ’’منابھائی ایم بی بی ایس‘‘(Munna Bhai MBBS)اس فلم میں سنجے دت، ارشد وارثی اور گریسی سنگھ مرکزی کردار میں نظر آتے ہیں، لیکن اس فلم میں ڈا استھانا کا کردار بھول پانا مشکل ہے، یہ کردار ادا کیا تھا جناب بومن ایرانی (Boman Irani) نے۔ حال کے دور میں ڈا استھانا کا کردار سب سے اہم کرداروں میں سے ایک بن گیا اور بومن ایرانی اس دور کے سب سے اہم کردار اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ سنہ ۱۹۵۹ء  میں پیدا ہونے والے بومن نے ۴۱ سال کی عمر میں سنہ ۲۰۰۰ ء میں پردے پر اداکاری کی شروعات چند اشتہاری  فلموں (Ad Films) کے ساتھ کی، بچو! کریک جیک  بسکٹ میں ان کی اداکاری بہت مقبول ہوئی تھی اور آپ کے والدین کو وہ اشتہار آج بھی یاد ہوگا۔ بومن کے سنیمائی سفر کا آغاز سنہ ۲۰۰۳ء میں آئی جناب رام گوپال ورما کی فلم ’’ڈرنا منع ہے‘‘ سے ہوئی لیکن ان کو مقبولیت ملی اسی فلم ’’منابھائی ایم بی بی ایس‘‘ سے، جو سنہ ۲۰۰۳ء  میں ہی آئی تھی۔

ننھے بچو! آئیے اب آپ کو ایسے ہی چند اداکاروں کے بارے میں بتاتے ہیں جنھوں نے ایسے ہی کردار ادا کر کے سنیما کی تاریخ میں اپنا ایک اہم مقام بنایا۔

جگدیش راج (Jagdish Raj)

سنہ ۱۹۲۸ء میں پیدا ہوئے جناب جگدیش راج ہندی سنیما کے سب سے اچھے اداکاروں میں سے ایک گنے جاتے ہیں۔ جگدیش راج صاحب پولیس والے کا کردار ادا کرنے کے لیے مشہور ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی پیشہ ور زندگی میں تقریباً ۱۴۴ فلموں میں پولیس والے کا کردار ادا کیا تھا اور اسی عمل کے لیے ان کے نام کا اعلان Guinness Book of World Recordsکی جانب سے عالمی ریکارڈ کے طور پر کیا گیا تھا۔ جگدیش صاحب اس اعزاز کو حاصل کرنے والی چند اہم سنیمائی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ سنہ ۱۹۳۹ء میں فلم ’’ایک ہی راستہ‘‘ (Ek hee Raasta) سے اپنا سنیمائی سفر شروع کرنے والے جگدیش صاحب نے دیوار (۱۹۷۵ء), ڈان (۱۹۷۸ء), شکتی (۱۹۸۲ء) اور مزدور (۱۹۸۳ء) جیسی تاریخی فلموں میں کام کیا ہے۔

افتخار (Iftikhar)

صوبۂ پنجاب کے شہر لدھیانہ سے آنے والے عظیم اداکار سید افتخار احمد شریف کی پیدائش سنہ ۱۹۲۴ء میں ہوئی تھی ۔سنہ ۱۹۴۴ء میں آئی فلم ’’تکرار‘‘ سے اپنے فلمی سفر کا آغاز کرنے والے اس اداکار کو ہم سب افتخار کے نام سے جانتے ہیں۔ برِ صغیر کے سب سے جذباتی سانحات میں سے ایک یعنی کہ ہندوستان کے بٹوارے کے دور ان والدین سمیت ان کا خاندان پاکستان  چلا گیا تھا اور جناب افتخار نے روزی روٹی کی تلاش میں اپنے شہر کلکتہ (Kolkata) سے ممبئی (Mumbai) ہجرت کی۔ ممبئی میں اپنے دوست اور مشہور اداکار جناب اشوک کمار کی مدد سے انھوں نے اپنے فلمی سفر کو دوبارہ زندہ کیا، جہاں انھوں نے اشوک کمار جس کمپنی میں ملازمت کرتے تھے، اُسی بامبے ٹاکیز (Bombay Talkies) کی فلم مکدر (۱۹۵۰ء) میں کام کیا۔ اس کے بعد وہ لگ بھگ ہر تاریخی فلم میں نظر آئے جن میں سے اگر چند فلموں کا نام لیا جائے توہ وہ ہیں دیوار (۱۹۷۵ء)،زنجیر (۱۹۷۳ء)،ڈان (۱۹۷۸ء)،خاموشی (۱۹۶۹ء) اور سفر (۱۹۷۰ء)۔

 ڈیوڈ ابراہم (David Abraham)

جناب ڈیوڈ ابراہم چیؤلکر (David Abraham Cheulka) کی پیدائش سنہ ۱۹۰۹ء میں ہوئی تھی۔ ہندوستان کے سنیما کے ابتدائی دور کے سب سے مشہور چہروں میں سے ایک اس اداکار کو ’’ڈیوڈ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اتنا عظیم اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ڈیوڈ ایک بے حد اچھے تقریب پیش کرنے والے بھی تھے۔ آج تک سنیما کے سب سے عظیم اعزاز میں سے ایک فلم فیئر (Filmfare) کو ابتدائی دور میں یہی ڈیوڈ پیش کیا کرتے تھے۔ سنہ ۱۹۴۱ء  کی فلم نیا سنسار (Naya Sansaar) سے اپنی پیشہ ور زندگی میں ۱۱۰ سے زیادہ فلموں میں کام کیا ہے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کے پہلے وزیرِ اعظم جناب جواہر لعل نہرو (Jawaharlal Nehru) نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ہندوستان میں ہونے والی کوئی بھی تقریب جناب ڈیوڈ کے بغیر ادھوری ہے۔ جناب ڈیوڈ نے اپنے دور کے تمام عظیم ہدایت کاروں کے ساتھ کام کیا ہے، یوں تو ان کی تمام فلموں میں سے چند کا انتخاب بہت مشکل ہے لیکن اگر ہم کو کچھ نام ان کے کام کا جائزہ لینے کے لیے بتانے ہوں تو وہ ہیں بوٹ پولش (۱۹۵۴ء)،باتوں باتوں میں (۱۹۷۹ء) اور گول مال (۱۹۷۹ء)۔

 نظیر حسین (Nazir Hussain)

سنہ ۱۹۲۲ء میں پیدا ہوئے اداکار جناب نظیر حسین، ایک بے حد دلچسپ شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اداکار تھے، ہدایت کا ر تھے اور مصنف تھے۔ فلمی دنیا میں آنے سے پہلے وہ برطانوی (British) فوج کا حصہ تھے اور اس نوکری کے دوران وہ ملیشیا (Malaysia) اور انڈونیشیا (Indonesia) میں تعینات رہے، انڈونیشیا میں انھیں قید بھی ہوئی اور وہ جنگی قیدی بھی بنے، اس کے بعد وہ جناب سبھاش چندر بوس سے متاثر ہوکر آزاد ہند فوج کا حصہ بھی بنے جہاں سے پھر وہ فلم میں آئے جہاں انھوں نے باقی کی زندگی بسر کی۔ سنہ ۱۹۵۰ء کی فلم پہلا آدمی (Pehla Aadmi) سے اپنے فلمی سفر کی شروعات کرنے والے نظیر صاحب نے ۵۰۰ سے زیادہ فلموں میں اداکاری کی ہے جن میں سے کچھ اہم فلمیں تھیں آرزو (۱۹۶۵ء)، دو بیگھہ زمین (۱۹۵۳ء)، دیوداس (۱۹۵۵ء) اور نیا دور (۱۹۵۷ء)۔

 اے کے ہنگل (A.K.Hangal)

جناب اوتار کشن ہنگل (Avtar Kishen Hangal) کی پیدائش سنہ ۱۹۱۴ء میں ہوئی تھی۔ کم عمری سے ہی وہ جنگ ِ آزادی کے ساتھ جڑے اور مجاہد ِ آزادی بنے اور آزادی ملنے تک آزادی کے لیے لڑتے رہے۔ اس کے بعد وہ رنگ منچ سے جڑ گئے لیکن ڈراموں میں بھی ان کی سیاسی شخصیت نمایاں رہی۔ وہ جناب بلراج سا  ہنی اور جناب کیفی اعظمی کے ساتھ تختی پسند ڈرامے کی تنظیم اِپٹا (IPTA) سے جڑگئے جس کے ساتھ وہ تاعمر جڑے رہے۔ انھوں نے اپنے فلمی سفر کا آغاز ۱۹۶۶ء میں آئی باسو بھٹاچاریہ  (Basu Bhattacharya) کی فلم تیسری قسم (Teesi Qasam) سے کیا تھا۔ اس وقت ہنگل صاحب کی عمر ۵۲ سال کی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے ایک سے بڑھ کر ایک عظیم فلموں میں کام کیا جیسے کہ آئینہ (۱۹۷۷ء)، شوقین (۱۹۸۲ء)، منزل (۱۹۷۹ء) اور سنہ ۱۹۷۵ء میں آئی تاریخی فلم شعلہ کا وہ مشہور مکالمہ ’’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی‘‘ہنگل صاحب نے ہی ادا کیا تھا۔

 نروپا رائے (Nirupa Roy)

اب ہم ان عظیم اداکارہ کی بات کریںگے جنھیںساری دنیا جناب امیتابھ بچن کی ماں کے طور پر یاد کرتی ہے کیونکہ انھوں نے بچن صاحب کی زیادہ تر عظیم فلموں میں ان کی ماں کا کردار ادا کیا، آپ میں سے کئی لوگ تو پہچان بھی گئے ہو ں گے کہ ہم بات کر رہے ہیں میڈم نروپا رائے کی۔ دو بیگھہ زمین (۱۹۵۳ء) ہندوستان میں سنیما کی تاریخ کی سب سے عظیم فلموں میں سے ایک گنی جاتی ہے۔ اس فلم میں نروپا رائے نے جناب بلراج سا  ہنی کے کردار کی اہلیہ کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ میڈم نروپا کی پیدائش سنہ ۱۹۳۱ء میں ہوئی تھی۔ ۲۵۰ سے زیادہ فلمیں کرنے والی میڈم نروپا نے اپنے فلمی سفر کا آغاز سنہ ۱۹۴۶ء کی گجراتی فلم رنکدیوی سے کیا تھا، اس کے بعد وہ سنہ ۱۹۹۹ء تک فلموں میں کام کرتی رہیں۔ سنہ ۲۰۰۴ء میں اپنی عظیم فلمی پیشہ ور زندگی کے لیے انھیں فلم فیئر (Filmfare) نے لائف ٹائم اچیومنٹ (Lifetime Achievement) اعزاز سے نوازا تھا۔ ویسے تو ان کی تمام فلمیں خوبصورت ہیں لیکن دو بیگھہ زمین کے ساتھ ان کی جو چند فلمیں یاد کی جا سکتی ہیں وہ ہیں منی مجی (۱۹۵۵ء)، شہید (۱۹۶۵ء)، رام اور شیام (۱۹۶۷ء) اور دیوار (۱۹۷۵ء)۔

 قادر خان (Kader Khan)

جناب قادر خان کو تو شاید ہم سب ہی پہچانتے ہو ں گے اور جناب گووندا کے ساتھ نبھائے ان کے مزاحیہ کرداروں سے توشاید آپ سب نے لطف بھی حاصل کیا ہوگا، لیکن ایک عظیم اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ہنر مند مصنف اور مکالمہ نگار بھی تھے۔ ہندی سنیما کے کئی یادگار مکالمے جناب قادر خان نے ہی لکھے تھے۔ سنہ ۱۹۳۱ء میں ایک افغانی گھرانے میں پیدا ہونے والے جناب قادر خان ابتدائی دور میں ایک کالج میں پڑھاتے تھے اور پڑھانے کے ساتھ ساتھ وہاں ڈرامے بھی کرواتے تھے۔ وہیں سے ان کاہنر انھیں فلمی دنیا میں لے آیا جہاں انھوں نے ۳۰۰ سے زیادہ فلموں میں اداکاری کی اور ۲۵۰ سے زیادہ فلموں میں مکالمہ نگاری کی۔ انھوں نے سب سے پہلے منموہن دیسائی کی ہدایت میں بنی فلم روٹی (۱۹۷۴ء) کے لیے مکالمہ نگاری کی جبکہ ان کی اداکاری سب سے پہلے نظر آئی سنہ ۱۹۷۳ء میں آئی فلم داغ (Daagh) میں، اتفاقاً ان دونوں ہی فلموں کے مرکزی کردار میں جناب راجیش کھنہ موجود تھے۔ ان کے علاوہ جناب قادر خان کی کچھ یادگار فلمیں تھیں مقدر کا سکندر (۱۹۷۸ء)،مسٹر نٹورلال (۱۹۷۹ء)، آنکھیں (۱۹۹۳ء)، تقدیر والا (۱۹۹۵ء) اور باپ نمبری بیٹا دس نمبری (۱۹۹۰ء)۔

ننھے بچو! مجھے اُمیدہے کہ ان تمام اداکاروں کے بارے میں جان کر آپ کو اچھا لگا ہوگا اور آپ کے علم میں اضافہ ہوا ہوگا۔ ہمیں اُمید ہے کہ جب آپ ان لوگوں کو کسی فلم میں دیکھیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ آپ کتنے ہنرمند اداکاروں کا کام دیکھ رہے ہیں۔ ان تمام لوگوں کے بارے میں آپ اپنے والدین، بھائی بہنوں اور دوستوں کو بھی بتائیں گے۔ شکریہ۔

آپ آپ سے جولائی ماہ کی قسط میں ملاقات ہوگی۔ خدا حافظ

B-1, 2nd Floor, Thokar No.7, Shaheen Bagh,

Abul Fazal Enclave-II, Jamia Nagar, New Delhi-110025

Mob.: 9891522760

 

 

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...