Wednesday, June 14, 2023

تزویر

تزویر

 احمد صغیر

آفتاب کب کا طلوع ہو چکا تھا۔ اُجالا چاروں طرف پھیل چکا تھا۔ شاملی کی جب آنکھ کھلی تو دھوپ آنگن میں پھیل چکی تھی۔ وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی۔جیسے ہی آنگن میںآئی۔ اس کی ماں چولہے پر بھات کا ادھن چڑھا چکی تھی۔ ضروریات سے فارغ ہو کر جلدی سے گھر سے باہر آگئی۔ تقریباً لپکتے ہوئے افضل خاں کے گھر میں داخل ہوئی اور جھاڑو اُٹھا کر صفائی میں لگ گئی۔

’’کاہے شاملی آج دیر ہو گئی۔‘‘—— افضل خاں نے گہری نگاہوں سے گھورتے ہوئے پوچھا۔ شاملی نے بغیر افضل خاں کی طرف دیکھے ہی جواب دیا۔

’’مالک آج جرا آنکھ لگ گئی تھی۔ اس واسطے دیر ہو گئی۔‘‘

افضل خاں اخبار پڑھنے میں ایک بار پھر محو ہو گئے۔ وہ مزید کچھ نہیں بولے۔ شاملی روز سورج نکلتے ہی آ جاتی تھی۔ گھر کا دروازہ منشی دھرم پال کھولتے تھے اور شاملی صاف صفائی میں لگ جاتی۔ پہلے جھاڑو لگاتی، پھر پونچھا لگاتی اور برتن دھو کر واپس چلی جاتی۔شاملی کے جھاڑو دینے کی آواز سے ہی گھر کی عورتیں جاگتی تھیں۔ جب وہ کام ختم کرکے جانے لگتی ، رات کا جو بھی بچا ہوا کھانا رہتا اسے مل جاتا۔ ویسے چاول ، گیہوں، دال ، آلو، پیاز ہفتے میں ملتے تھے۔ اسے افضل خاں کے گھر سے کھانے کا اتنا سامان مل جاتا تھاکہ اس کی ماں اور اس کا باپ شکم بھر کھاتے تھے۔پہلے شاملی کی ماں افضل خاں کے گھر میںیہ کام کرتی تھی لیکن اکثر وہ بیمار رہنے لگی اور شاملی پندرہ برس کی ہو گئی تو اسے کام پر لگا دیا۔ اب وہ دن بھر گھر پر ہی رہتی ۔ اس کا باپ نگینہ محنت مزدوری کرکے اتنے پیسے کما لیتا کہ دو کمرے کے چھپر کے مکان کی مرمت اور بدن پر پہننے کو کپڑے میسر آجاتے تھے۔

یہ زندگی کیا ہے۔ مانگی ہوئی روشنی... اور اس روشنی کو حاصل کرنے کے لیے انسان کیا کیا جتن نہیں کرتا ہے۔ کوئی اپنی محنت بیچتا ہے...کوئی اپنی رات... کوئی دن...کوئی اپنا دماغ...کوئی اپناقلم...جب بیچنے والے تیار ہیں تو خریدنے والے بھی موجود ہیں۔ افضل خاں شاملی کے گھر کی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔ یہ کم بڑی بات نہیں تھی۔ شاملی کی ماں ایسا سمجھتی تھی لیکن شاملی نہیں چاہتی تھی کہ وہ افضل خاں کے گھر میں بے گاری کا کام کرے لیکن ماں کی ضد کے سامنے وہ ہتھیار ڈال دیتی۔ 

شاملی نے ادھر کئی دنوں سے محسوس کیا کہ کام کرتے وقت افضل خاں کی آنکھیں اُسے گھورتی رہتی ہیں۔ اس کے جسم کے نشیب و فراز کو اپنی ننگی آنکھوں سے اس طرح گھورتے ہیں جیسے شاملی کوئی کپڑا نہیں پہنے ہوئے ہے بلکہ عریاںہے اور افضل خاں کی آنکھیں اسے اندر تک ٹٹول رہی ہیں۔

گرمی کے دن تھے۔لُو بہت تیز چل رہی تھی۔ گھر کے لوگ اپنے اپنے کمرے میں آرام فرما رہے تھے۔ مالکن نے شاملی کو کچھ کپڑے دھونے کے لیے دیے تھے جس کی وجہ سے دیر ہو گئی۔ کچھ سوکھے ہوئے کپڑے لے کر جب وہ افضل خاں کے کمرے میں رکھنے گئی تو افضل خاں بستر پر نیم دراز تھے۔

’’مالک کچھ کپڑے ہیں‘‘—— اس نے دروازہ کے پاس کھڑے ہو کر گویا اندر آنے کی اجازت مانگی۔

’’اندر رکھ دو‘‘——شاملی کپڑے رکھ کر جب کمرے سے باہر جانے لگی تو افضل خاں نے آواز دی۔ 

’’شاملی تیرے لیے شہر سے ایک ساڑی منگوائی ہے۔ ٹیبل پر رکھی ہے لیتی جا۔‘‘ — —شاملی نے ساری اٹھائی اور بغیر کچھ کہے کمرہ سے باہر نکل گئی۔ گھر پہنچ کر اس نے ساری ماں کو دکھائی۔ ماں بے حد خوش ہوئی۔

’’اسے رکھ دے...تیرے بیاہ میں دینے کے کام آئے گی ۔ مہنگی لگتی ہے۔‘‘

شاملی نے ساڑی کو ٹین کے صندوق میں ڈال دیا لیکن وہ سوچنے لگی کہ مالک نے اتنی مہنگی ساڑی کیوں دی۔

افضل خاں کے ذریعہ تحفہ دینے کا یہ سلسلہ بڑھتا ہی گیا۔ کبھی کپڑے، کبھی چاندی کا کوئی زیور، کبھی ناک کی لونگ، کبھی میک اپ کا سامان۔

شام کی ہلکی سی بارش واقعی خوشگوار ہوتی ہے۔ فضا میں ایک نئی زندگی بکھیر دیتی ہے۔ روح سیراب ہو جاتی ہے۔ گاؤں کی کچی سڑک کے دونوں طرف قطار در قطار پانی میں بھیگ رہے تھے۔ چھوٹے بڑے پتے ہوا کے ساز پر رقص کر رہے تھے۔ پتیوں سے بارش کے قطرے اس طرح گر رہے تھے جیسے کسی بھیگی ہوئی الہڑ لڑکی کے گورے گال سے پانی کے قطرے گر کر اس کے بلاؤز میں پیوست ہو گئے ہوں۔ شاملی بھی اس بارش میں بھیگنا چاہتی تھی۔ اس کا کنوارا من آج اس بارش میں شرابور ہو جانے کو بےتاب تھا۔وہ خود کو روک نہ پائی اور پانی میں بھیگنے لگی۔ اس کا تن بدن سب بھیگ گیا۔ اس کا ایک ایک انگ بھیگ گیا۔ اس کے اندر کے کنوارے ارمان جاگ گئے۔ وہ پانی میں بھیگتی ہوئی بہت دور نکل گئی۔ اتنی دور کہ جہاں سے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس نے دیکھا سامنے سے افضل خاں چھاتا لیے چلے آ رہے ہیں۔ افضل خاں اس طرح بھیگی جوانی کو دیکھ کر مچل اٹھے۔ وہ شاملی کے پاس آکر رک گئے۔ شاملی افضل خاں کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی، اور اپنے آپ کو سمیٹنے لگی، لیکن بارش کی وجہ سے اس کے کپڑے، اس کے بدن سے چپک گئے تھے اور جسم دعوت نظارہ دے رہا تھا۔ افضل خاں بے تاب ہو گئے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر شاملی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ شاملی نے ایک بار افضل خاں کو دیکھا اور ہاتھ چھڑا کر بھاگ جانا چاہا لیکن جوانی کی ترنگوں نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ افضل خاں اس کا ہاتھ پکڑ کر کھیت کی طرف بڑھ گئے۔ یہ کھیت ان ہی کا تھا اور کھیت کے ایک طرف ایک کمرہ بنا ہواتھا جس میں کھیتوں کی رکھوالی کرنے والا رہتا تھا۔ چونکہ فصل کٹ چکی تھی۔ اس لیے وہاں کوئی نہ تھا۔ افضل خاں اسے کمرہ میں لے کر چلے گئے۔ شاملی کوئی احتجاج نہ کر سکی اور افضل خاں اس کے بھیگے جسم کو اپنی گرمی سے خشک کرنے لگے۔

جب بارش تھم گئی تو شاملی کی اگنی کنڈ بھی ٹھنڈی ہو گئی۔ وہ ہڑبڑا کر بیٹھ گئی۔ افضل خاں بغیر کچھ کہے چلے گئے۔ شاملی اپنے کپڑے درست کرنے لگی۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر اسے کیا ہو گیا تھا کہ افضل خاں کو ایسا کرنے سے روک نہیں سکی۔ اس کے احسانات تو پابہ زنجیر نہیں بن گئے یا جوانی کی آگ اتنی تیز روشن تھی کہ اس وقت اسے کوئی بھی مل جاتا تو اس آگ کو بجھا لیتی۔

افضل خاں کے لیے نفرت کی ایک لہر سی شاملی کے دل میں اُٹھی ۔ وہ لہر اُس کے من کے سمندر میں ہچکولے لیتی رہی۔ اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔ ایک بار پھر سارا منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے رقص کر گیا—— ’’ہے بھگوان تیری دنیا کتنی مطلب پرست ہے۔ کتنی کھود گرج اور مکار ہے...!

شاملی کئی دنوں تک افضل خاں کے یہاں کام کرنے نہیں گئی۔ اس نے ماں کو بھیج دیا۔ ماں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ آخر شاملی نے جانا کیوں بند کر دیا لیکن اُس نے طبیعت خراب ہونے کا بہانہ بنا دیا۔ کئی روز اسی طرح گزر گئے تو شاملی نے من مار کرپھر سے افضل خاں کے یہاں جانا شروع کیا۔ وہ افضل خاں سے نظریں ملانا نہیں چاہ رہی تھی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب ان کا دیا ہوا کوئی تحفہ نہیں لے گی لیکن جیسے ہی افضل خاں اس کے ہاتھ پر کوئی سامان رکھتے وہ انکار نہ کر پاتی۔

شاملی کی ماں نے اُس کی شادی طے کر دی۔ جب افضل خاں کو شاملی کی شادی کی بات معلوم ہوئی تو انھوں  نے شاملی کی ماں کو بلا بھیجا اور ایک موٹی رقم دی۔ بہت سارے کپڑے اور چاندی کے زیور بھی دیے اور یہ بھی وعدہ کیا کہ براتی کے کھانے کا ذمہ اس کا ہوگا۔

جب شاملی کی ماں نے شاملی کو یہ سب بتایا تو وہ کچھ لمحے کے لیے خوش ہو گئی۔ نگینہ کا تو سارا مسئلہ ہی حل ہو گیا تھا۔ طے شدہ تاریخ کو شاملی کی شادی سہدیو سے ہو گئی۔ سہدیو بھی اسی گاؤں کا رہنے والا تھا اور آٹھویں جماعت پاس بھی تھا۔ وہ ایک مال میں دربانی کا کام کرتا تھا۔ اس کی ڈیوٹی بدلتی رہتی تھی۔ کبھی اس کی ڈیوٹی دن میں لگتی اور کبھی رات میں۔ شاملی بے حد خوش تھی کہ اس کا پتی اسے بے حد خوش رکھتا ہے۔ ڈیوٹی سے لوٹتے ہوئے اکثر کچھ کھانے کا سامان ضرور لے کر آتا اور شاملی کو اپنے ہاتھوں سے کھلاتا۔

کچھ مہینوں کے بعد شاملی اُسی طرح افضل خاں کے یہاں کام پر جانے لگی۔ شادی کے بعد آج اس کا پہلا دن تھا۔ ہلکے گلابی رنگ کی ساری میں وہ بے حد حسین معلوم ہورہی تھی۔ اس کی مانگ میں سیندور جھلملا رہا تھا۔ شادی کے بعد اس کا حسن دوبالا ہو گیا تھا۔ اس کی زندگی کے ارمان کی تکمیل ہو گئی تھی۔ اسے پیار کرنے والا پتی مل گیا تھا۔ افضل خاں اسے دیکھتے رہ گئے۔

’’آج تو بڑی سندر لگ رہی ہے شاملی۔‘‘

’’شاملی شرما گئی اور اپنے سر کو آنچل سے ڈھک لیا‘‘

’’مجھ سے گھونگھٹ کیسا؟ میں تو تیرا...‘‘ جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

شاملی جھٹ ان کے کمرے سے جھاڑو لے کر نکل گئی۔

شاملی اب بہت کم وقت افضل خاں کے گھر پر گزارتی۔ صبح بھی دیر سے آتی اور جلدی جلدی کام نپٹا کر چلی جاتی۔ حالانکہ وہ معمول کے مطابق بستر چھوڑ دیتی۔ گھر کی صاف صفائی کرکے سہدیو کے لیے ناشتہ تیار کرتی۔ ناشتہ کرانے کے بعد چار روٹی اور سبزی ایک ڈبے میں اسے دے کر ہی افضل خاں کے گھر جاتی۔ افضل خاں کے گھر کی عورتیں بخوبی سمجھ رہی تھیں کہ شاملی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ اس لیے پتی کو بھی وقت دیتی ہے۔

اس درمیان اس کے پتا اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے۔ شاملی کو افسوس تو بہت ہوا لیکن اس کے سر پر سہدیو کی مضبوط چھت تھی۔ کچھ ہی دنوں میں اس غم سے وہ ابھر آئی اور روزمرہ کی زندگی جینے لگی۔

افضل خاں نے ایک دن شاملی کو سہدیو کو ساتھ لانے کو کہا۔ دوسرے دن سہدیو جب افضل خاں کے گھر گیا تو اس نے کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ وہ جھجکا لیکن افضل خاں نے کہا——’’بیٹھ جاؤ، میں ذات پات نہیں مانتا...‘‘

سہدیو جھجکتے ہوئے بیٹھ گیا۔ افضل خاں نے کہنا شروع کیا۔

’’سہدیو گاؤں میں سرکاری راشن کی ایک دکان کھلنے والی ہے اور یہ دکان کسی دلت پریوار کو ہی ملے گی۔ میں نے ڈی۔ ایم۔ صاحب سے کہہ کر تمھارا نام منظور کرا لیا ہے۔ یہ سارے کاغذات میں نے بھر دیے ہیں۔ جہاں جہاں کہتا ہوں۔ وہاں دستخط کر دو اور جہاں جہاں فوٹو چپکانا ہے۔ چپکا کر کل مجھے لا کر دے دینا۔کل ہی شہر جا کر اسے جمع کروا دوں گا اور ایک مہینے کے اندر تمھارے نام دکان الاٹ ہو جائے گی۔‘‘

’’لیکن مالک راشن اٹھانے کے لیے روپے کہاں سے لاؤں گا‘‘—— سہدیو حیرت میں پڑ گیا۔

’’وہ میں جمع کر دوں گا۔ تم بعد میں دیتے رہنا۔‘‘

’’مالک بڑا اپکار ہوگا۔‘‘

’’کوئی اپکار کی بات نہیں ہے...یہ دکان تو کسی دلت پریوار کو ہی ملنی تھی ...میں نے سوچا شاملی کی ماں نے اتنے دنوں تک ہم لوگوں کی خدمت کی اور شاملی بھی کر رہی ہے تو کیوں نہ میں بھی تم لوگوں کے کام آؤں۔‘‘

’’مالک ہم تو احسان کے نیچے دب گئے۔‘‘—— اس بار شاملی بولی۔

’’شاملی میں تھیں بھی کسی سرکاری یوجنا میںلگوا دوں گا۔ تھوڑا انتظار کرو۔‘‘

’’جی مالک...‘‘

’’سہدیو...یہ پیپر لیتے جاؤ اور جہاں جہاں میں نے بتایا ہے اپنا فوٹو چپکا کر کل صبح ہی مجھے دے جانا۔‘‘

’’جی مالک...سہدیو اور شاملی بے حد خوش ہو کرافضل خاں کے گھر سے رخصت ہوئے۔ دونوں گھر آکر افضل خاں کی تعریف میں قصیدہ پڑھتے رہے۔ شاملی کی ماں یہ سن کر بے حد خوش ہوئی۔

ایک مہینہ کے اندر دکان الاٹ ہوگئی۔ سہدیو نے اپنے گھر پر ہی آگے کا حصہ کھول کر اسے دکان کی شکل دے دی تھی۔ شاملی بھی غلہ وغیرہ تولنے میں اس کی مدد کرتی۔ دونوں بے حد خوش رہتے۔

افضل خاں کے کسی رشتہ دار کے یہاں شادی تھی۔ گھر کی عورتیں ایک ہفتے کے لیے چلی گئی تھیں۔ گھر پر صرف افضل خاں رہ گئے تھے۔ وہ برات کے دن جانے والے تھے۔ گھر کی بوُا افضل خاں کے لیے کھانا بنا کر چلی جاتیں۔ افضل خاں نے شاملی کو اب شام میںبھی برتن صاف کرنے کے لیے بلا لیا تھا۔ اب وہ شام کو بھی دیر تک رہتی۔

ایک دن بُوا جلدی کھانا بنا کر چلی گئیں۔ان کو کچھ کام تھا ۔ جب شاملی آئی اور افضل خاں کے کمرے میں گئی تو دیکھا۔ وہ ابھی تک لیٹے ہوئے ہیں۔

’’کا مالک...ابھی تک لیٹے ہیں...طبیعت ٹھیک ہے نا‘‘—— شاملی نے ہمدردی سے پوچھا۔

’’شاملی ذرا سر میں درد ہو رہا ہے‘‘

’’مالک بولیے تو دبا دوں‘‘

’’اگر تم چاہو‘‘

شاملی افضل خاں کے سرہانے کھڑی ہو کر سر دبانے لگی۔ افضل خاں نے اسے پلنگ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ جھجکتی ہوئی بیٹھ گئی۔ افضل خاںپر غنودگی چھا گئی۔ کچھ لمحے کے بعد ہی انھوں نے شاملی کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’مالک ای کا کر رہے ہیں‘‘——افضل خاں نے کچھ نہیں کہا۔ بس اسے اپنی جانب کھینچتے چلے گئے... اس نے بھی کوئی احتجاج نہیں کیا۔ شاملی اب ان کے بستر کا ایک حصہ بن گئی تھی۔

شاملی نہ جانے کیوں افضل خاں کے سامنے خود کو کمزور محسوس کرتی۔ مدافعت کی ساری کوششیں بے کار چلی جاتیں۔ وہ چاہ کر بھی خود کو روک نہیں پاتی۔آج دوسری مرتبہ وہ افضل خاں کو روک نہیں پائی تھی۔ گھر پہنچ کر سہدیو سے وہ نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔ اس کے اندر ایک خلش تھی جس کا اظہار وہ کرنا نہیں چاہ رہی تھی۔آج وہ بغیر کھانا کھائے ہی سو گئی۔ سہدیونے سمجھا افضل خاں کے یہاں کچھ زیادہ وقت دینا پڑ رہا ہے۔ اس لیے تھک گئی ہوگی۔ 

کچھ دنوں کے بعد شاملی کواحساس ہو گیا کہ وہ حمل سے ہے۔ سہدیو بے حد خوش تھا کہ وہ باپ بننے والا ہے اور وقت مقررہ پرشاملی نے ایک بچی کو جنم دیا۔ بے حد خوبصورت گوری چٹی۔ شاملی نے جب اسے دیکھا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا، لیکن سہدیو اس بچی کو پا کر بے حد خوش تھا۔

افضل خاں کی وجہ سے ہی اندرا آواس یوجنا کے تحت شاملی کاگھر پختہ ہو گیا اور شاملی سیویکا کے کام پر لگ گئی۔ اب وہ لال باؤڈر کی سفید ساڑی پہن کر گاؤں گاؤں گھومتی اور سرکاری یوجناؤں کے بارے میں عورتوں کو آگاہ کرتی۔

شاملی کی ماں کچھ دنوں کے بعد پرلوک سدھار گئی مگر شاملی کی زندگی مزید بہتر سے بہتر ہوتی گئی۔ سہدیو راشن کی دکان کے ساتھ ہی اس میں دوسری چیزیں بھی فروخت کرنے لگا، جس سے اس کی اچھی آمدنی ہونے لگی۔ اب اس نے ایک موٹر سائیکل بھی خرید لی تھی۔

ادھر افضل خاں بھی دنیا سے کوچ کر گئے۔ ان کے بیٹے اکرم خاں نے افضل خاں کے سارے بزنس، کھیت ، کھلیان سنبھال لیے لیکن وہ اوباش قسم کا لڑکا تھا۔ اکثر گاؤں کی لڑکیوں کو چھیڑتا پھرتا ۔ چونکہ افضل خاں کے گاؤں کے بہت سے لوگوں پر احسان تھے۔ اس لیے اکرم خاں کو کوئی کچھ نہیں بولتا تھا۔

شاملی کی بیٹی پارو بھی اب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی۔ وہ اتنی خوبصورت نکلی تھی کہ دلت پریوار کا ہر آدمی اس پر رشک کرتا۔ سہدیو کبھی کبھی سوچتا۔ پارو اتنی خوبصورت کیسے ہو گئی۔ نہ ہی اس کا رنگ صاف ہے اور نہ شاملی بہت گوری ہے۔ شاملی کا ناک نقشہ بھی عام عورتوں جیسا ہی ہے لیکن پارو کا ناک نقشہ تو کسی رئیس زادی کی طرح نکھرا ہوا ہے۔ چلو بھگوان جو کرتا ہے اچھا ہی کرتا ہے۔

پارو اور افضل خاں کی بیٹی خوشبو ایک ہی اسکول میں پڑھتی تھیں۔ کبھی کبھی پارو، خوشبو کو بلانے کے لیے اس کے گھر چلی جاتی تو افضل خاں کی بیوی اسے اپنے پاس بلاتیں اور دیر تک نہارتی رہتیں۔ پارواتنی خوبصورت کیسے ہو سکتی ہے۔ 

اکرم خاں نے جب سے پارو کو دیکھا تھا۔ اس کی خوبصورتی کا دیوانہ ہوگیا تھا۔ جب کبھی وہ خوشبو کو بلانے کے لیے اس کے گھر آتی اس سے بات کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈتا رہتا لیکن پارو اس کی طرف دیکھتی بھی نہیں تھی۔ اس کا طور طریقہ بالکل علیحدہ تھا۔ ناپ تول کر بات کرتی۔ چلتی بھی ایسی کہ جیسے امیرزادی چلتی ہے۔ کپڑے بھی نئے فیشن کے پہنتی اور پڑھنے میں بھی بے حد ذہین تھی۔

پارو اور خوشبو نے میٹرک اوّل درجے سے پاس کر لیا اور کالج میں داخلہ لے لیا۔ اکرم خاں نے اپنی بہن خوشبو کے لیے آٹو رکشہ ریزرو کر دیا تھا جس پر پارو بھی بیٹھ کر جاتی تھی۔

 ایک دن سہدیو شہر سے لوٹتے ہوئے ایک ٹرک کی زد میں آگیا اور بری طرح زخمی ہو گیا۔ اسے اسپتال لے جایا گیا لیکن جاں بر نہ ہو سکا۔ شاملی اور پارو پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اکرم خاں اس کی برادری کے لوگوں کے ساتھ مل کر سہدیو کی ارتھی شمشان گھاٹ لے گیا اور انتم سنسکار کر دیا ۔

اُس رات شاملی نہیں سوئی۔ پارو بھی جاگتی رہی۔ شاملی جب بھی آنکھیں بند کرتی سہدیو کا چہرہ ابھر آتا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ٹوٹتی بکھر تی رات اس کے پاس سے گزرتی گئی۔ یادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ اسے اندر تک شکستہ کررہا تھا۔ پھر رات گزر گئی اور سورج نمودار ہوا۔ شاملی اٹھ کر بوجھل قدموں سے آنگن میں آگئی۔ اسے لگا ابھی سہدیو اُسے آواز دے گا اور وہ پانی کا لوٹا لے کر اس کے پاس چلی جائے گی، لیکن وہاں سہدیو نہیں تھا۔ سہدیو ہی اس کے ہر درد کامداوا تھا لیکن اب اس کے دکھ سکھ میں کون کام آئے گا۔ اس کا درد بڑھتا ہی گیا۔ درد کی شدّت میں اضافہ ہوتا گیا۔

وقت گزرتا رہا شاملی نڈھال گھر کے کسی گوشے میں پڑی رہتی۔ پارو نے کچھ دنوں کے بعد کالج جانا شروع کر دیا۔ 

ایک دن اکرم خاں نے شاملی کے دروازے پر دستک دی۔ جب وہ باہر آئی تو اس نے بتایا ——

’’ جو راشن کی دکان سہدیو کے نام سے تھی، میں نے اب اسے تمھارے نام سے ٹرانسفر کرنے کی عرضی تمھاری طرف سے ڈی۔ایم۔ صاحب کو دے دی ہے۔ یہ کچھ کاغذات ہیں۔ اس پر انگوٹھے کا نشان لگا دو۔‘‘

’’چھوٹے مالک آپ کا بہت اپکار ہے۔‘‘

’’کوئی اپکار نہیں۔ تم بالکل گھبرانا مت ۔ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔‘‘

دھیرے دھیرے شاملی کی زندگی معمول پر آگئی۔ اکرم خاں پارو کے کالج کی فیس اور ٹیوشن فیس بھی ادا کردیتا۔ پارو اب اس کی گرویدہ ہو گئی تھی۔ 

اور ایک دن جب اکرم خاں اپنے کمرے میں بیٹھا ٹی۔وی۔ دیکھ رہا تھا۔ پارو خوشبو سے کوئی کتاب لینے آگئی۔ اس وقت خوشبو اپنی ماں کے ساتھ کہیں گئی تھی۔ پارو خوشبو کو تلاش کرتے ہوئے اکرم خاں کے کمرے میں چلی گئی۔

’’خوشبو نظر نہیں آ رہی ہے۔‘‘

’’وہ امی کے ساتھ کہیں گئی ہے...آؤ اندرآؤ‘‘——پارو نہ چاہتے ہوئے بھی اندر آگئی۔

’’بیٹھو پارو...‘‘

پارو بیٹھ گئی۔اس کی نگاہ بھی ٹیلی ویژن کے اسکرین پر چلی گئی۔ کوئی فلم چل رہی تھی۔ اکرم خاں نے پارو کی طرف دیکھا۔ پھر اُٹھ کر وارڈ روب کھول کر دس ہزار روپے نکالے اور پارو کے قریب آیا۔

’’پارو میں کچھ مہینوں کے لیے باہر جا رہا ہوں۔یہ دس ہزار روپے رکھ لو تمھاری پڑھائی میں کام آئیں گے۔‘‘

’’آپ کے پہلے ہی بہت احسان ہیں۔‘‘

’’تم میری اپنی ہو۔ اس لیے تو مدد کرتا ہوں۔‘‘

اکرم خاں بالکل قریب بیٹھ گیا اور روپے اس کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ وہ احسان کے نیچے دبتی چلی گئی۔

’’پارو کبھی میری آنکھوں میں بھی جھانک کر دیکھا کرو۔‘‘

پارو نے اکرم خاں کی طرف دیکھا پھر اس نے آنکھیں نیچی کر لیں—— ’’کیا دیکھوں؟‘‘—— پارو نے سوال کیا۔

’’یہی کہ میری آنکھوں میں تمھارے لیے کتنا پیار ہے۔‘‘

پارو کچھ نہیں بولی۔ اکرم خاں نے بڑھ کر اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ پارو کسمسائی۔

’’یہ کیا کر رہے ہیں؟‘‘

’’پیار...‘‘

’’لیکن یہ غلط ہے‘‘

’’پارو کچھ مت بولو...صرف میری آنکھوں میں دیکھو۔‘‘—— اکرم خاں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر ثبت کر دیے۔ پارو نے بھاگ جانا چاہا لیکن اکرم خاں نے اسے بانہوں میں دبوچ لیا۔ وہ اکرم خاں کی بانہوں میں مچل کر رہ گئی۔ بہت زور لگایا لیکن اکرم خاں کی گرفت مضبوط ہوتی گئی اور پارو کی طاقت کمزور پڑتی گئی۔ اتنی کمزور کہ اکرم خاں نے اسے بستر پر لٹادیا۔

پارو گھر پہنچ کر شاملی سے لپٹ کر رونے لگی۔ جب شاملی نے وجہ پوچھی تو ساری بات بتا دی۔ شاملی فوراً اکرم خاں کے گھر گئی اور دندناتی ہوئی اکرم خاں کے کمرے میں داخل ہو گئی۔ اکرم خاں سمجھ گیا کہ پارو نے جاکر ساری بات ماں کو بتا دی ہے۔ وہ خوف زدہ ہو گیا۔

’’شا...شا...شاملی...تم...‘‘

’’ہا...ہا...ہا...‘‘——اس نے زوردار قہقہہ لگایا۔

’’شاملی...میں...‘‘ اکرم خاں کی آواز لڑکھڑا گئی۔

’’کچھ مت بولو اکرم خاں ...میں صرف یہ بتانے آئی ہوں کہ تم نے اپنے ہی گھر کی عزت پر ڈاکہ ڈالا ہے...‘‘

یہ کہہ کر شاملی اکرم خاں کے کمرے سے نکل گئی۔

..



حنیف منزل،کوئلی پوکھر، پولیس لین، گیوال بگھہ 

گیا-823001 (بہار)

موبائل:  09931421834


No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...