انصار احمد معروفی
حقہ کچھ دہائی پہلے مجلسی
ضیافت کا ایک ضروری حصہ تھا ، انفرادی طور پر بھی لوگ اپنے گھروں میں اس کا
استعمال کرتے تھے ، نئی تہذیب اور قدروں نے بہت سی چیزیں نگل لیں اور کچھ اشیا اس
کے بدلے میں ایسی دیں جن میں فائدہ کم ، نقصان زیادہ ہے ، آج بہت سے لوگ حقہ ، اس
کی شکل ، پینے کا طریقہ اور اس کی افادیت سے بے گانہ ہیں ، انھیں معلوم نہیں کہ
حقہ اجتماعیت کا ذریعہ، گیس باہر کرنے کا وسیلہ اور اتحادی طاقت کے اظہار کا سستا
آلہ تھا ، حقہ نوشی کے ذریعے کتنے اجنبی رشتہ دار بن گئے اور بہت سے دور والے
قریب ہوگئے ، یہ ایسی کسی بڑی جگہ میں پیا جاتا تھا جہاں صبح و شام لوگ بغیر پردہ کیے آ جا سکیں اور
جہاں دوست احباب ، محلہ کے ہم عمر اور ساتھی جمع ہوکر گاؤں سے لے کر دور نزدیک ؛
بلکہ دوسرے ملکوں کی باتیں بے دھڑک کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے کے حال احوال سے
جانکاری رکھتے تھے ، کیونکہ اس مجلس میں ہر موضوع پر باتیں ہواکرتی تھیں ، اس لیے
اس کے ذریعے وہ لوگ ایک دوسرے کے غم اورخوشی میں شریک رہا کرتے تھے ۔ اس کی وجہ ان
میں اتحاد کی قوت موجود تھی ، کوئی اگر حقہ نوشی سے بیگانہ ہوتا تو وہ بھی کچھ
نہیں تو لوگوں کی باتیں سننے ہی کے لیے اس مجلس کا حصہ بن جاتا تھا ،مگر حقہ ہوتا
کیسا تھا؟ اور وہ کیوں آج ختم ہونے کے قریب ہے؟
آج کتنے
لوگ اس سے ناواقف ہیں ، بلکہ اس کے نام سے بھی بے خبر ہیں ، یہی حال رہا تو اگر
کہیں حقہ کا لفظ آجائے گا ، وہ اس کی قرأت نہیں کرسکیں گے ، بہت ممکن ہے کہ
پڑھنے کی کوشش کریں تو ’’حقہ‘‘ کو ’’کما حقہ‘‘ کا لاحقہ سمجھ لیں اور یہ سوچ لیں
کہ ممکن ہے کتاب کے سہو سے ’’کما‘‘ چھوٹ گیا ہوگا ۔ اگر چہ عربی زبان میں اس سے
ملتا جلتا ایک اور لفظ ’’حِقہ‘‘ آتا ہے ، یہ لفظ پرانے شعرا کے دیوانوں میں بھی
آیا ہوا ہے ، کیونکہ یہ ماحول میں تھا ، اور مردوں کے ساتھ عورتیں بھی اس سے شغل
رکھتی تھیں ، یہ ایک مقبول شے تھی ، یہ بیڑی سگریٹ کی طرح منھ سے لگاکر کھینچنے کی
ہوتی ہے ، ایک ہنڈیا نما برتن لوٹے کی طرح ہوتا تھا ، اس میں پانی بھرا رہتا ، اسے
روزانہ صاف کیا جاتا ، پھر اس کے اوپری سرے منڈیر پر ’’چلم‘‘ ہوتی ، جس میں نیچے
سے سوراخ ہوتا تھا اور حقے کے ہنڈیا والے برتن میں بھی دو طرف سوراخ ہوتا ، اوپر
والے پر چلم ، پھر اس پر تمباکو اور تمباکو کے اوپر شعلے رکھے جاتے تھے ، نیچے کی
طرف ایک پائپ ؛ جسے ’’نے‘‘ کہا جاتا ہے ، وہ اس ہنڈیا کے سوراخ سے جڑی ہوتی اور
اسی کو منھ سے لگا کر پیا کرتے تھے ، جس سے دھواں نکلتا اور تمباکو کا مزہ ملتا
اور حقہ سے ’’گُڑ گُڑکی آواز‘‘ نکلا کرتی
تھی ۔ مجلس میں لوگ دو ، دو تین ، تین کش لے کر دائیں طرف بڑھا دیتے یا جس کا حق
مقدم ہوتا ، مجلس میں اس کے ذریعے ایک دوسرے کے حق کو پہچاننا آتا اور بہت سے
معاشرتی اور اجتماعی آداب کی معلومات کے ساتھ لوگوں میں گھل مل کر رہنے کا سبق
بھی ملتا اور مفت میں دنیا جہان کی خبر سے آشنائی ہوجاتی تھی۔حقے کا پائپ مجلس
میں گھومتا رہتا اور حقہ ایک جگہ پڑا رہتا ۔
یہ ہنڈیا
مٹی کی ہوتی ہے ، مگر بہت سی جگہوں پر وہ پیتل کی بنی ہوتی ہے اور مراد آباد کے برتنوں میں اس کی خاص
اہمیت ہوا کرتی ہے ، یہ بڑی خوبصورت ہوا کرتی تھی اور باہر کے ملکوں میں بھی
سپلائی ہوتی ہے ،شاہی دور میں یہ چیز چاندی کی ہوا کرتی تھی ، ہندوستان کے مسلم
حکمرانوں کے دور میں اس کا بہت رواج تھا ، شاہی دربار میں اس کا ہونا لازمی تھا ،
عہد وسطیٰ میں چلم بھی چاندی یا سونے کی بنی ہوتی تھی ، پہلے کے زمانے میں جو حقہ
اور تمباکو استعمال ہوتا ، اس سے ہاضمہ کے درست ہونے اور گیس باہر کرنے کا کام بھی
لیا جاتا تھا ، اگر چہ اس کے پینے سے دھواں نکلتا ہے ، مگر بیڑی سگریٹ کی طرح اس
سے منھ میں بدبو پیدا نہیں ہوتی ۔
دور شاہی
میں حقہ کو خس سے ٹھنڈا کیا جاتا تھا اور اس کو عطر سے باسا بھی جاتا تھا ، خوشبو
دار تمباکو استعمال کیا جاتا تھا ، جس سے فضا معطر رہتی تھی ، تبھی تو ایک شاعر نے
اپنے شعر میں حقے کی مہک کو محبوبہ کی زلفوں کے کھلنے سے تشبیہ دی ہے :
بوئے عطر
آئی، دماغِ جاں معطر ہوگیا
زلفیں تیری
کیا کھلیں؟ حقے کھلے عطار کے
اردو کے
بہت سے محاورے ایسے ہیں جن سے آج کی نئی نسل ان روایتی و تہذیبی ورثے کے مٹ جانے
سے بے گانہ ہوگئی اور کتنے جملوں اور محاوروں سے نا آشنا ہورہی ہے ، انھیں بچے اس
لیے نہیں سمجھ پاتے کہ وہ ان الفاظ کے معنٰی کی شکل سے اجنبی ہیں اور جو محاورے
ہیں ، آج کی نسل نو ان سے ناواقف ہے ، کیونکہ انھوں نے جب وہ چیز دیکھی ہی نہیں
تو اس کا مفہوم ان کے لیے اجنبی بن جائے گا ، مثال کے طور پر مذکورہ شعر میں زلف
معنبر کو کسی عطار کے خوشبو دار حقے سے تشبیہ دی گئی ہے ، جب کہ حقہ بطور علم ان
کی رسائی سے دور ہے ، اسی طرح حقہ کے لازمی جز ’’چلم‘‘ سے بھی وہ لا علم ہوں گے ، حالانکہ ’’چلم بھرنا‘‘ ایک
محاورہ بھی ہے ، اس کے لیے پہلے زمانہ میں ایک ملازم ہوا کرتا تھا ، جسے ’’چلم
بردار‘‘ کہا جاتا تھا ، آج اگر کوئی شخص کسی کی جھوٹی تعریف کر رہا ہو یا حد سے
زیادہ بڑھا رہا ہو ، تو سننے والا ؛ جو اس کی حقیقت اور اس کے مبلغِ علم سے واقف
ہوتا ہے ، کہہ دیتا ہے کہ ’’ تم اس کی بات کرتے ہو؟ وہ تو میری چلم بھرتا تھا ،
یعنی میرا ملازم تھا ، یا مجھ سے بہت کمتر تھا ۔ ‘‘
اسی طرح
’’حقہ بھرنا‘‘، ’’حقہ پانی بند کردینا‘‘، ’’حقہ تازہ کرنا‘‘ وغیرہ ایسے محاورے ہیں
جو آج بھی بولے جاتے ہیں ، کسی سے ناراض ہوکر کوئی کہہ دیتا ہے کہ ’’ فلاں کی
شرارتوں کی وجہ سے اس کا حقہ پانی بند کردیا گیا ‘‘ یعنی برادری سے نکال دیا گیا
یا اس کا کھانا پینا بند کردیا گیا ۔ ویسے آج کل عرب ممالک اور دوسرے ممالک میں
نئے طرز کا حقہ رائج ہونے لگا ہے ، نام تو اس کا بھی حقہ ہی ہے اور اس پر بھی چلم
رکھ کر آگ کے شعلے رکھے جاتے ہیں ، مگر نہ معلوم اس میں وہ لوگ کیا کیا ملا کر پیتے
ہیں ، ’’گناہِ دروغ بر گردن راوی‘‘ کے مصداق سنا ہے کہ اس میں منشیات کی قبیل سے
کوئی چیز ملا کر حقہ نوشی کی جاتی ہے ، یہ چیز اب وہاں سے ہندوستان میں بھی پہنچ
گئی ہے اور نوجوان اس کی طرف تیزی سے لپک رہے ہیں ، اس شدت مقبولیت کی وجہ کہیں
’’دال میں کالا‘‘ تو نہیں؟
Pura
Maroof, Baluwa, Kurthi Jafarpur,
Dist.
Mau, Uttar Pradesh-275305
Mob.:
8853214848
No comments:
Post a Comment