Monday, June 12, 2023

شمس الرحمن فاروقی کے افسانوں کا تنقیدی تجزیہ

شمس الرحمن فاروقی کے افسانوں کا تنقیدی تجزیہ

ڈاکٹر محمد اکبر

 


شمس الرحمن فاروقی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔انھیں صرف نقاد کے زمرے میں رکھنا مناسب نہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین تخلیق کار بھی تھے ۔انھیں ادبی تاریخ سے بہت گہرا شغف تھا اور اس تاریخ کو اپنے وسیع مطالعے کے پس منظر میں دیکھنا جانتے تھے۔کلیم الدین احمد، ڈاکٹر شکیل الرحمن اور ڈاکٹر گیان چند جین کی طرح ان کا ایک اہم کام داستانوں کا مطالعہ رہا ہے۔ویسے تو وہ اردو کی ادبی دنیا میں شعر و نقد کے ذریعے داخل ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شعر و نقد میں بطور خاص تنقید میں وہ کمال حاصل کیا کہ انھیںایک بڑا نقادتسلیم کیا جانے لگا۔بقول محمد حسن عسکری لوگ حالی کے بعدان کا نام لینے لگے۔ اگرچہ انھوںنے شعر و نقدکو اختیار کیا لیکن افسانہ نگاری سے ان کا شغف بر قرار رہا۔شمس الرحمن فاروقی کے لیے افسانہ نگاری کوئی نیا تجربہ نہیں تھا۔ اپنے طالب علمی ہی کے زمانے سے وہ افسانہ لکھتے رہے تھے ۔انھوں نے گلستاں کے نام سے ایک قلمی رسالے کی ترتیب و اشاعت شروع کی۔ اس میں زیادہ تر انہی کے قلم سے لکھے ہوئے مضمون اور افسانے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی کسی رسالے یا اخبار سے کوئی کارٹون یا تصویر بھی شامل کرلیتےتھے اس طرح اس کی اشاعت ہوجاتی تھی۔ گلستاں کا آخری شمارہ اس وقت منظر عام پر آیا جب وہ دسویں کے طالب علم تھے۔اس کے بعد وہ دیگر اخباروں اور رسالوں کے لیے مضامین اور افسانے لکھنے لگے۔ ۱۹۴۸ءیا ۱۹۴۹ءمیں ان کا پہلا افسانہ شائع ہواتھاجس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔لہٰذا اس سلسلے میں وہ خود لکھتے ہیں :

’’میرا پہلا افسانہ شاید ۱۹۴۸ء؍۱۹۴۹ءمیں چھپا یعنی جس سال میں ہائی اسکول کا طالب علم تھا،اب نہ افسانے کا نام یاد ہے نہ اس پرچے کا،لیکن ہائی اسکول کے زمانے سے میں چار چھ مہینے میں ایک آدھ ٹوٹا پھوٹا افسانہ چھپوالینے میں کامیاب ہونے لگا تھا۔‘‘

(سوار اور دوسرے افسانے ،شب خون کتاب گھر۔

الہ آباد، ص:۱۳سنہ اشاعت ۲۰۰۳ء)

فاروقی صاحب جب انٹرمیڈیٹ میں تھے تو انھوں نے ایک ناولٹ ’’دلدل سے باہر‘‘ لکھا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ طویل افسانہ ہی رہا ہو۔انھوں نے لکھا کہ یہ افسانہ ۱۹۵۰ء ؍۱۹۵۱ءمیں معیار میرٹھ کے چار شماروں میں قسط وارشائع ہوا۔اس کے بعد انھوں نے سوویت روس میں مذہب پراستبداد کو دیکھتے ہوئے ایک افسانہ ’’سرخ آدھی‘‘ لکھا۔اس افسانے کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا جو الٰہ آباد یونیورسٹی کے میگزین میں شائع ہوا تھا۔بقول شمس الرحمن فاروقی میرے پاس افسانے کا نہ اردو مسودہ ہے نہ انگریزی اور نہ ہی الہ آباد یونیورسٹی میگزین کا وہ شمارہ جس میں وہ افسانہ چھپا تھا۔شمس الرحمن فاروقی نے شب خون رسالے کو جب نکالنا شروع کیا تو انھوں نے اپنے کئی افسانوں کے تراجم اور بہت سے افسانے انگریزی سے ترجمہ کر کے جاوید جمیل کے قلمی نام سے شائع کیے اور کئی طبع زاد افسانے بھی اسی نام سے لکھ کر شائع کروائے جس کے ضمن میں وہ خود تحریر کرتے ہیں:

’’شب خون کا پہلا شمارہ بابت ماہ جون ۱۹۶۶ءمیں شائع کردیا۔یہ مئی ۱۹۶۶ء وسط تھا۔پہلے ہی شمارے میں کئی چیزیں میں نے ایسی شامل کیں جو لکھی تو میں نے ہی تھیںلیکن ان پر نام کچھ اور لکھا تھا۔ان میں ایک نام شہزاد بھی تھا جسے ایک بھیانک افسانے (Terror Story)کے مترجم اور بھیانک افسانے پر ایک تنقیدی نوٹ کے مصنف کی حیثیت سے پیش کیا گیا تھا۔ ’’شہزاد‘‘ کے بہت سے تراجم شب خون میں شائع اور مقبول ہوئے۔پھر ایک آدھ طبع زاد افسانہ میں جاوید کے نام سے شب خون ہی میں لکھا۔گویا افسانہ نگار بننے کا موقع مجھے دوبارہ ہاتھ آیاتھا،لیکن پھر بھی معاملہ زیادہ ترافسانوں اور ڈراموں کے تراجم تک محدود رہا۔دو چار برس میں تنقید اور تبصرہ نے مجھے اس درجہ اپنا بنا لیا کہ افسانہ نگاری میری سوتیلی اولاد بھی نہ رہی۔‘‘

(دیباچہ سواراور دوسرے افسانے ،ص:۱۹)

شمس الرحمن فاروقی اپنے ادبی سفر کی ابتدا ہی سے افسانے لکھتے آرہے ہیں۔ شب خون میں بھی وقتاً فوقتاً نام تبدیل کر کے شائع ہوتے رہے مگر ترجمہ اور تنقید سے شغف اس قدر بڑھا کہ وہ افسانہ نگاری کی طر ف زیادہ دیر مائل نہ رہ سکے یعنی بالکل ہی ترک کردیا۔ان کے اندر کے افسانہ نگار نے انھیں چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ ایک مدت کے بعد وہ پھر افسانہ نگاری کی طرف رجوع ہوئے لیکن اس بارپھر انھوں نے ایک فرضی نام کا سہارا لیا۔ شب خون میں بینی مادھورسواکے نام سے فاروقی کاایک بیانیہ افسانہ ’’غالب افسانہ‘‘ شمارہ ۲۲۰شب خون میں شائع ہواتو اہل قلم اور اہل دانش حضرات نے فاروقی کو پہچاننے میں دیر نہیں کی۔اس افسانے نے اپنے طرز بیان، منفرد اسلوب اور موضوع کے اچھوتے پن کی وجہ سے ادبی دنیا میں ہلچل مچادی۔ فکشن میں انھیں ایک مقام عطا کیا وہ اپنا نام تبدیل کر کے سامنے آئے اور غالب افسانے کے ساتھ اردو افسانے پر غالب ہوگئے۔اس افسانے میں شمس الرحمن فاروقی غالب کے لیے ابن مریم ہوگئے ہیں۔ انھوںنے غالب کی شخصیت کو فنکارانہ خوبی وخوش اسلوبی سے پیش کیا ہے کہ گویا ان کے بدن میں دوبارہ روح پھونک کر ہمارے سامنے آگیا ہے، ویسی ہی وضع قطع ،وہی خد و خال، وہی شوخی وظرافت جسے دیکھ کر ہر شخص عش عش کر اٹھتا ہے۔ ابھی قارئین اس افسانے کے سحر سے باہر بھی نہیں نکل پائے تھے کہ شمس الرحمن فاروقی نے عمر شیخ مرزا کے نام سے لاہور کا ایک واقعہ اور سوار لکھ کر اپنے قارئین کو اس دنیا تک پہنچا دیاجہاں صرف تخیل کے ذریعہ ہی پہنچا جاسکتا تھا۔’’آفتاب زمین‘‘ اور’’ ان صحبتوں میں آخر ‘‘نے ان کی شہرت میں چار چاند لگا دیے۔ شب خون میں شامل ان پانچ افسانوں کا مجموعہ’’سوار اور دوسرے افسانے‘‘ کے عنوان سے کراچی پاکستان سے ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا تھا۔مجموعے میں شامل پانچوں افسانوں کی ترتیب کچھ یوں ہے:۔

1۔            غالب افسانہ

2۔            سوار

3۔            ان صحبتوں میں آخر

4۔            افتاب زمین

5۔            لاہور کا ایک واقعہ

شمس الرحمن فاروقی نے اپنی اس کتاب کا انتساب فکشن کے تین اہم نقادوں اور اپنے عزیز دوستوں کے نام کیا ہے ان میں عابد سہیل ،وارث علوی اور وہاب اشرفی ہیں۔ شروع میں فاروقی کا تفصیلی دیباچہ جس کے ذریعہ افسانوں اور افسانہ نگاروں کے امور پر بہت سے ایسے پردے اٹھائے ہیں کہ جن کی مدد سے ان افسانوں کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔داستانوی اسلوب کے باوجودبھی مافوق الفطرت عناصر کا شائبہ تک نہیں ہے۔ان کے افسانے مشرقی افکار سے مرعوب نظر آتے ہیں ،بلکہ شمس الرحمن فاروقی کو مشرقی تہذیب و ثقافت پر فخر محسوس ہوتا ہے۔

شمس الرحمن فاروقی کے افسانوں کا شمار تاریخی فکشن میں ہوتا ہے انھوں نے تاریخ و تہذیب کی معلومات کو کہانی کے رنگ میں ڈھال کر اکٹھا کردیا ہے۔درحقیقت فاروقی یہی چاہتے تھے کہ ہماری قدیم ادبی تہذیب کی تاریخ کو جامعیت کے ساتھ فکشن کے بیانیہ میں سمویا جائے۔وہ اپنے اس مقصدمیں کامیاب نظر آتے ہیں ۔ان کا ہر افسانہ زندگی کا ایک پہلو ،ایک رخ کی تصویر کشی کرتا ہے اسی تناظر میں شمس الرحمن فاروقی ادبی تہذیب و تاریخ کو بیان کر جاتے ہیں ۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے افسانوں کی طوالت میں کہانی کا دخل نہیں بلکہ مقصد کے تحت ادبی تہذیب و تاریخ کا بیان ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فکشن کے بیانیہ کو افسانے کی صنف میں شامل کرنے کا ان کا فیصلہ بالکل صحیح ہے کیوں کہ فاروقی ایک لمبے عرصے سے اردو کی قدیم تاریخ و تہذیب پر کام کر رہے تھے، اس لیے انھیں اس بات کا شدت سے احساس تھاکہ ہماری ادبی تہذیب ہمارے ذہن اور علم سے غائب ہوتی جارہی ہے جن تہذیبوں کا ماضی نہیں ان کا مستقبل بھی نہیں۔ ’’غالب افسانہ‘‘ کو تخلیق کرتے وقت انھوںنے ہماری ادبی تاریخ و تہذیب کے ان تمام اجزا کو افسانے میں سمیٹ لیاجو ہماری تہذیب کا ایک خاص حصہ ہیں ۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی ادبی فضا کو افسانے میں زندہ کردیا ہے جو ہمارے ذہنوں سے محو ہوتی جارہی تھی جس کا خود شمس الرحمن فاروقی نے اپنے افسانوی مجموعے کے دیباچہ میں اعتراف کیا ہے۔

شمس الرحمن فاروقی کا ’’غالب افسانہ‘‘یہ ان کا علمی نچوڑ ہے جو باتیں ہمیں تذکروں اور تاریخوں میں یا پھر دوسری کتابوں میںملتی ہیں، ان سے مکمل طور پراستفادہ کیا گیا ہے ،یہ افسانہ اس وقت منظر عام پر آیا تھاجس وقت ہندوستان کے مسلمان بابری مسجد کی شہادت کے نتیجے میں ہونے والے ہنگاموں سے نبردآزما تھے ،اس افسانے میں ہندوستان کی سیاست کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی یعنی ہندو مسلم یکجہتی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے ۔افسانے کا مر کزی کردار غالب ایک مسلمان ہے اس کے برعکس کہانی کا راوی بینی مادھو رسوا ایک ہندو جو مشترکہ تہذیب و ثقافت کی علامت ہے۔پہلی جنگ آزادی ۱۸۵۷ ءکی ناکامی کے بعد دہلی کے اجڑنے اور برباد ہونے کا ذکر بیشتر کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں مگر فاروقی نے جس فنکارانہ اور خوش اسلوبی کے انداز میں دہلی کی کھنڈر زدہ عمارتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ قابل تحسین ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ میر و غالب کے اشعار کی شرح کر رہے ہیں دہلی کے اجڑنے کانقشہ کچھ یوں پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں :

’’میاں صاحب رستہ اب کسے سجھائی دے ہے اور سجھائی بھی دے ہے تو کسے ؟مسجد سے راج گھاٹ تک اب لق و دق صحرا ہے اینٹوں کی ڈھیر ہیں اور ان کے اندر سانپ بچھو کے مسکن۔ مرزاگوہر صاحب عالم کے باغ کی سمت کئی بانس نشیب تھااب وہ باغیچے کی چاندنی کے برابر ہوگیا۔ آہنی سڑک کے واسطے کشمیری دروازے سے لے کر کابلی دروازے تک میدان ہی میدان ہے ۔پرانی گلیاں لوگوں سے اٹی پڑی ہیں ،راستے کھو گئے ہیں۔اگلاجائے تو کہاں جائے پنجابی کٹرا ،دھول واڑا ، سعادت خان کا کٹرا ،یہ اور اس طرح کے کتنے محلے مٹ گئے ،گلیوں کی شکلیں بدل گئیں ۔میاں صاحب اب یہ دلی نہیں ،ایک کیمپ ہے، بیرک ہے، اجاڑ گھروں کا جنگل ہے۔‘‘

(سواراور دوسرے افسانے ،ص:۴۴)

غالب افسانے کا مطالعہ کرنے کے بعدیہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک جانب ہندوستان کی مٹتی ہوئی تہذیب کاعکس ہے تو دوسری جانب انگریزوں کے ساتھ آنے والی مغربی تہذیب کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ایسے مشکل حالات میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو باقی رکھنا نا ممکن ہوگیا تھاایسے حالات میں پھر بھی مشترکہ تہذیب برقرار رہی ۔فاروقی نے مذہبی رواداری کوپیش کرتے ہوئے ایک جگہ مرزا غالب کی وفات پر فاتحہ خوانی کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا ہے:

’’مرزا صاحب کے گزرنے کی خبر سے کئی دنوں تک میری سمجھ میں نہ آتا تھاکہ ان کا تعزیہ کیسے دوں۔ آخر دادا میاں کی درگاہ پر پانچ سیر شیرینی اور پانچ سیر شیر مالیں فاتحہ کرائیں اور تقسیم کر دیں گھر آکر مرزا صاحب کی یاد گار تحریر کو آنکھوں سے لگا کر دو آنسورولیا۔‘‘

(سواراور دوسرے افسانے ،ص:۶۱)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس افسانے میں صرف غالب نہیں ہیں وہ تو کچھ دیر اپنا جادو جگا کر غائب ہوجاتے ہیں۔ ابتدا تا انتہا قاری کو بینی مادھو رسوا کے ساتھ ساتھ سفر کرنا پڑتا ہے۔غالب سے بینی مادھوکی ملاقات افسانے میں جان ڈال دیتی ہے اور یہی نقطۂ عروج بھی ہے۔شعر اور علم شعر، ہندوستانی فارسی گو شعرا پر غالب اور بینی مادھو رسوا کے درمیان مباحثے نے افسانے میں جان ڈال دی ہے۔فاروقی نے افسانے کے نقطۂ عروج اور اختتام کے دوران غالب کے بارے میں جو معلومات قلم بند کی ہیں وہ افسانے کا نچوڑ ہیں۔ گنگا جمنی تہذیب جو مغلوں کی سر پرستی میں اپنے عروج کو پہنچی تھی، غالب افسانے میں اس تہذیب کے زوال کی ابتدا نظر آتی ہے۔مغرب زدگی کی وجہ سے مشترکہ تہذیب کے بارے میں غالب کی پیش گوئی سچ نظر آتی ہے کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے ۔فاروقی کے افسانے میں اس پیش گوئی کو مد نظر رکھا گیاہے۔ واقعات کے بیان میں یہ پیش گوئی واضح طور پر نظر آتی ہے۔افسانے میں فاروقی نے عہد غالب ،ان کی شخصیت اور فکر و فن کو فکشن کے پیرائے میں کلاسیکی زبان و بیان کے ذریعہ قارئین کو غالب کے ساتھ ہم مشربی کا شرف بخشا ہے، بلکہ غالب کی شاعرانہ عظمت اور ندرت فکر اور جودتِ طبع کو ایک نرالے انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ہر لحاظ سے ان کا یہ کارنامہ قابل تحسین ہے۔

شمس الرحمن فاروقی کے افسانوی مجموعے کا دوسرا افسانہ ’’سوار‘‘ ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے عمیق مطالعے، ادبی تاریخ سے اپنی واقفیت، داستانوں سے گہری انسیت، بیان کے جادو اور تخلیقی جوہر کے اجتماع سے ایسا افسانہ تخلیق کیا ہے کہ اہل دانش نے اسی بنا پرفاروقی کو افسانے کے میدان کا شہسوار مانا ہے ۔مذکورہ بالا افسانے کے متعلق حنیف فوق کی رائے بالکل درست ہے:

’’سوار میں شمس الرحمن فاروقی نے قصے کی دل کشی، بیان کی دل آویزی اور کرداری مرقعوں کی جاذبیت کا کمال دکھایا ہے۔اس لحاظ سے ’’سوار‘‘ایک ایسا افسانہ بن گیا ہے جسے اردو افسانے میں اہم اضافہ کہا جاسکتا ہے۔‘‘

(روشنائی جلد چہارم ۔شمارہ ۱۴ جولائی تا ستمبر ۲۰۰۳ء، ص:۱۴۱ )

یہ افسانہ بھی دلی کی ادبی تہذیبی فضا پر مشتمل ہے۔ اس کا تانا بانا اس وقت بنا گیاہے جب مغلیہ سلطنت کمزور ہوچکی تھی لیکن اس کے باوجود ادبی محفلوں میں سرور باقی تھا۔باربار کے حملوں نے دلی کو سیاسی طورپر ضرور کمزور کردیا تھا،لیکن دلی پھر بھی شعر و سخن کی آماجگاہ تھی۔ فاروقی کودلی شہر سے عشق تھا اس کا حق ادا کرنے کے لیے انھوں نے یہ افسانہ لکھا۔بقول فاروقی:

’’میں اس دلی کا دلدادہ تھاکیوں کہ اردو کی ادبی تہذیب صحیح معنی میں اپنا رنگ اور طور طریق محمد شاہ اور احمد شاہ اور پھر شاہ عالم ثانی کے زمانے میں حاصل کرتی ہے۔ سیاسی قوت اس شہر کی بھلے ہی گھٹ گئی ہو لیکن اس کی تہذیب زوال آمادہ اور انحطاط آلودہ نہ تھی۔ دس بار لٹنے کے بعد بھی اس شہر کی گلیوں میں بہروپیے نہیںبلکہ اس زمانے کی حسین ترین رقاصائیں ناچتی پھرتی تھیں ۔‘‘

(سوار اور دوسرے افسانے،ص:۲۷ )

سوار میںشہر دلی کی تہذیب اپنے پورے حسن و جمال کے ساتھ جلوہ افروز ہے ۔شمس الرحمن فاروقی نے اپنے ادبی سفر میں تنقیدی مضامین میں جن خیالات و تصورات کی بنا پر جدیدیت کی علم برداری کی تھی، ان خیالات و تصورات سے فاروقی کی یہ شاہکار تخلیق پوری طرح متاثر نظر آتی ہے۔افسانہ ابتدا تا انتہا جس محور پر گھومتا ہے وہ یہی تصورات ہیں۔ ایک شخص (خیرالدین ) کی ذہنی الجھن، اس کی پریشانیاں ،اس کی کشمکش اور اس سے متاثر ہوتی ہوئی اس کی شخصیت کو پیش کیا گیا ہے۔شمس الرحمن فاروقی نے داستانوی انداز میں بڑے سلیقے اور خوبی سے بیان کا جادو جگایا ہے جس کی وجہ سے ان کے افسانوی بیان کو نئی جاذبیت ملتی ہے۔فکشن نگار نےاپنے افسانے میں شہسوار کی آمد کا سماں کچھ یوں باندھا ہے:

’’سورج دھیرے دھیرے کرکے سارا چھپ گیا تھااور ہر چیز پر شام کا سا رنگ آگیا تھا،سب طیور درختوں میں منقار زیر پر تھے۔بازار کے کتے چپ لیٹ گئے تھے۔انھوں نے ہانپنا بھی بند کردیا تھا،پیڑوں پر پتیاں اور شاخیں سیاہی مائل ہوگئی تھیں ۔سب لوگ گھروں میں چھپے بیٹھے تھے یا محو دعا تھے یا سیاہ کپڑا آنکھ پر رکھ کر گرہن کو دیکھ رہے تھے ۔یہ شام، کسوف کی شام نہ تھی لیکن منظر وہی تھا بجز اس کے آج لوگ گھروں کے اندر نہیں بلکہ باہر تھے۔‘‘

(سوار،ص:۷۵-۷۶)

سوار افسانے میں علامتی انداز بیان اپنایا گیا ہے اور شاعری کے لیے سوار کی علامت استعمال کی گئی ہے جو دہلی کے گلی کوچوں، خانقاہوں، بازاروں اور درباروں میں پرورش پاتی ہے۔ہر شخص اس کا شیدائی ہے۔اسے پانا چاہتا ہے ۔فاروقی یہ بھی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہر شخص کو بلا تفریق مذہب اس کی کشش اس کو اپنی طرف مائل کر رہی ہے اور ہر آدمی اسے اپنے اپنے انداز میں دیکھ رہا ہے،محسوس کررہا ہے۔مثلاً خیرالدین کی بہن کو وہ ایک نقاب پوش خاتون کی شکل میں نظر آتی ہے۔خود خیرالدین کو ایک سیاہ سواری پر سوار مرد نظر آتا ہے اور حجن بی بی کو وہ رضیہ سلطانہ محسوس ہوتی ہے،مسجد میں ایک بزرگ کو ایک سانڈنی سوار تھا۔یہ افسانہ دہلی کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے اور کہانی کا بیانیہ کہیں بھی متاثر نہیں ہوتاہے۔شمس الرحمن فاروقی ماجرا نگاری، جزئیات نگاری، مرقع کشی اور سراپا کو جب بیان کرتے ہیں تو وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔

’’ان صحبتوںمیںآخر‘‘بھی شمس الرحمن فاروقی کا ایسا افسانہ ہے جو تاریخ اور تہذیب کے نشانات سے معمور ہے۔ ہندوستانی حدود سے باہر نکل کر ایشیا کے دوسرے علاقوں تک پھیلا ہوا ہے اس میں لبیبہ خانم یہود النسل بلقانی دوشیزہ کی المناک داستان ہے ۔دراصل یہ افسانہ دوسرے افسانوں سے تھوڑا مختلف ہے اگر چہ اس میں مشرقی اقدار کو دکھایا گیا ہے، لیکن جو چیز اسے دوسرے افسانوں سے منفرد کرتی ہیں وہ یہ کہ شمس الرحمن فاروقی نے اس میں ایک تنہا عورت کی زندگی کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔تانیثی نقطۂ نظر سے افسانہ تانیثیت سے پوری طرح متاثر نظر آتا ہے ۔لبیبہ خانم امرائوجان ادا کی طرح عورتوں کے بازار میں فروخت ہوئی فرق صرف اتنا تھا کہ امرائوجان ادا اپنے باپ کے ظلم کی شکار بنی اور لبیبہ خانم خود اپنے باپ کے کارناموں کا۔فاروقی صاحب نے لبیبہ خانم کے اس رخ کو اجاگر کرنے میں کسی طنزیہ اخلاقی پہلو کو شامل نہیں کیا اور نہ ہی مرزاہادی رسوا کی طرح لبیبہ خانم کی زبانی اس کی دلربائی کے قصے سنائے ۔لبیبہ کے تعلق سے فاروقی لکھتے ہیں :

’’ لبیبہ خانم نے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا ،ایسی دھوم دھام کی معشوقی کسی نے کاہے کی کی ہوگی ،حسن پرستوں ،عاشق مزاجوں میںکوئی ایسا نہ تھا جس نے اس سے توقع نہ باندھی ہواور جس کی توقع پوری ہوئی ہولبیبہ خانم نے وہ سارے انداز دلربائی وہ سارے طرز ستم آرائی از خود حاصل کر لیے تھے جن کے لیے دوسری حسینوں کو مشق کرنی پڑتی ہے۔‘‘

(سوار اور دوسرے افسانے ،ص:۱۲۱)

لبیبہ خانم کو اپنی ذات اور اس کے امکانات کا بخوبی علم تھا مرد معاشرے میں اپنے وجود کی اہمیت کو برقرار رکھنے کاانداز بھی اس نے سیکھ لیا تھا،اس افسانے میں میر بھی ایک جھلملاتے تارے کی طرح ابھرتے ہیں اور افسانے کے اختتام پر چاند کے مانند سارے افسانے پر چھا جاتے ہیں ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پورا افسانہ تین اہم نکات پر گھومتا ہوا نظر آتا ہے۔پہلا نکتہ یہ ہے کہ متن کے اندر انسانی برتائواور جذباتی ردعمل کے مختلف النوع نمونے نظر آتے ہیں جس میں غم خوشی، احساس محرومی، خودداری کے جذبات ملے ہوئے ہیں، جس کی نمائندگی لبیبہ خانم ،میر بایزید، کشن چند اخلاص جیسے کردار کرتے ہیں ۔غم و غصہ اپنے وجود کے خالق سے کبھی معذرت سے محبت میں رسوا ہونے کی خواہش بھی اور عشق میں ملنے والے غم و تنہائی کا ڈر آپس میں دست وگریباں ہوتے ہیںتو ان ملے جلے جذبات کی ایک مجموعی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے وہ تصویر نورالسعادت کی ہے اور یہ وہ تصویر ہے ،جسے نمایاں کرنے کے لیے شمس الرحمن فاروقی نے نہایت باریک بینی سے کام لیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی انسانی نفسیات اور جذباتی پیچیدگیوں پر گہری نظر ہے۔

دوسرا اہم نکتہ میر کی تنک مزاجی ،شرافت، خوداری، انانیت پسندی جوان کی پر وقار شخصیت کی نمائندگی کرتی ہے۔اس کے علاوہ میر کی ذاتی زندگی کے پیچ وخم یعنی بے روزگاری میر پر بے خودی کا عالم طاری ہونا اور اس بے خودی کے عالم میں چاندنی رات کوکسی پیکر خوش صورت کمال کا میر کے پاس آنااور اس سے فیض یاب ہونا وغیرہ۔ ان تمام باتوں کاذکر میر نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے جسے فاروقی نے افسانوی پیکرعطاکیا ہے۔

تیسرا نکتہ میر کے عہد کی ادبی تہذیب و تمدن ،تاریخ، ادبی محفلوں میں شاعری اور زبان کے تعلق سے ہونے والی بحث ہے جس کے لیے مشاعرے کا اہتمام کیا ہے۔ اس کے علاوہ لبیبہ خانم اور کشن چند اخلاص کے درمیان شاعری کے متعلق تحقیقی وعلمی گفتگو ہے، جس سے لبیبہ خانم کی شعر وشاعری کے متعلق علمی استعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔فاروقی کا اصل مقصد اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی ادبی تہذیب سے روشناس کرانا ہے۔ان کا یہ افسانہ تاریخ بینی اور تحقیق کا حسین مرقع ہے۔

’’آفتاب زمیں ‘‘ اس مجموعے کا ایک اہم افسانہ ہے۔ جس کا نام مصحفی ؔ کے اس شعر سے لیا گیا ہے:

آفتاب زمیں میں ہوں میں لیکن

مجھ سے روشن ہے آسمان سخن

فاروقی اس افسانے میں دہلی سے نکل کر سر زمین اودھ کی سرحدوں میں داخل ہوجاتے ہیں ۔انھوںنے مصحفی کو بطور مرکزی کردار کے پیش کیا ہے۔ان کے حالات زندگی شعر گوئی ،شاعرانہ مزاج،زبان دانی، قادرالکلامی ،سیرت و شخصیت کے متعلق تحقیقی و تنقیدی اور علمی مباحث وہ اہم نکات ہیں جن کے ارد گرد افسانہ کا تانا بانا بنا گیا ہے۔مصحفیؔ تک پہنچنے کے لیے شمس الرحمن فاروقی نے لکھنؤ کی پوری تہذیب کا مرقع پیش کردیا ہے جہاں عیش و عشرت کا ماحول ہے ،جام و سرود کی محفلیں ہیں وہیں، اودھ علم و ادب کا عظیم گہوارہ بھی تھا۔جہاں ایک جانب لکھنؤ کے آسودہ ماحول کو دکھایا گیا ہے۔ دوسری طرف نادار غریب طبقے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔خود بھورا بیگم کو ان کی ماں نے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے صرف ڈیڑھ سال کی عمر میں فروخت کردیاتھا جس کا ذکر افسانہ نگار نے اپنے افسانے میں کچھ یوں کیا ہے:

’’میں سوا ڈیڑھ سال کی تھی جب میری ماں نے مجھے جنت آرام گاہ مرزا منگلی مرحوم کی حویلی پر بیچ دیا،سنہ و سال مجھے یاد نہیں ،لیکن اس زمانے میں وہ بنارس میں ہی تھے نواب وزیر بننے میں دیر تھی بعد میں کسی نے مجھے بتایا کہ ہم لوگ غازی پور کے ہیں وہاں صاحب بہادرلوگوں نے نیل کی کاشت بڑے پیمانے پرشروع کی تو غلہ مہنگا ہوتے ہوتے قحط کی نوبت آگئی بہت سی مائوں نے اپنے بچے بیچ دیے کہ بچے کی جگہ اپنا پیٹ پال لیں اور بچے کو بھی ایک وقت پانی ملا دودھ میسر ہوجائے۔‘‘

(سوار اور دوسرے افسانے،ص:۲۰۱)

اس افسانے میں فاروقی کا بیانیہ جوہر اپنے کمال عروج پر ہے، بیان کی چستی و الفاظ کی بندش نے افسانے میں وہ سحر پیدا کیا ہے کہ بیانیہ کے ختم ہونے کے باوجود قاری بہت دیر تک اس سحر کے اثر سے باہر نکل نہیں پاتا ہے۔اس میں کل چار راوی ہیں وفا،بھورابیگم ،مصحفیؔاور خود مصنف۔ واقعات کے تسلسل میں ایک راوی کے بیانات میں دوسرے راوی کی مداخلت کا لحاظ رکھا گیا ہے۔خاص کر بھورا بیگم کی نجی زندگی کے بیانیہ میں وفا کی مداخلت کو بہت ملحوظ رکھا گیا ہے۔یہ فاروقی کے بیانیہ کی خوبی ہے۔

آفتاب زمیں میں راوی درباری مل وفاؔ کی اچانک موت افسانے کا نقطۂ عروج ہے۔یعنی ہر افسانہ ایک اکائی ہے۔زندگی کا ایک پہلو،ایک رخ کی تصویر کشی ہے جس کے تناظر میں شمس الرحمن فاروقی اپنے مقصدکے تحت ادبی تاریخ و تہذیب کو بیان کیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فکشن کے بیانیہ کو افسانے کی صنف میں شامل کرنے کے بارے میں فاروقی کا فیصلہ درست ہے۔

’’لاہور کا ایک واقعہ ‘‘ اس مجموعے کا آخری افسانہ ہے،اس افسانے کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ علامتی پیکر اختیار کیے ہوئے ہے۔ابتدا سے لے کر آخر تک معنی کی مختلف جہتیں پوشیدہ ہیں البتہ یہ افسانہ عہد اقبال کی تہذیب کی اور قوم کی شکستہ حالی کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔قوم کی اس دگر گوں حالت پر خود اقبال بھی نالاں تھے۔یہاں مشرقی اقدارکی علامت کے طور پر علامہ اقبال کو استعمال کیا گیا ہے ۔ان کا یہ افسانہ خواب و حقیقت کا امتزاج ہے جس میں علامتیں بھی ہیں ۔نوجوان لڑکوں کا اس طرح کی حرکات کرنا برائی میں پائی جانے والی کشش اور معاشرے میں پنپنے والی برائیوں کا کثرت سے ہونا ہے اور راوی کا پریشانی کے عالم میں دور بھاگنادر اصل خود کو برائیوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش ہے۔افسانے میں بجلی کے کرنٹ کو بطور علامت پیش کیا گیا ہے۔بدقماش لونڈے منفی خصوصیات کے پھاٹک کے اس طرف اقبال کی فکر و نظریات ہیں اور پھاٹک کے اس طرف اقبال کے عالمانہ تصورات کے برعکس بگڑی ہوئی تہذیب ہے اور یہ دونوں ملتے ہیں تو کرنٹ محسوس ہوتا ہے۔افسانے کا راوی پھاٹک تو پھلانگ جاتا ہے مگر لڑکوں کی حالت ملاحظہ کیجیے:

’’ لیکن وہ پھاٹک کے کھمبے کے پاس آکر یوں رک گئے جیسے بجلی کا کرنٹ لگ گیا ہو۔‘‘

(سوار اور دوسرے افسانے،ص:۳۳۶)

فاروقی کے اب تک جتنے بھی افسانے تھے سب میں یہ خوبی رہی ہے کہ وہ کرداروں کو ان کی وضع قطع، رہن سہن، لباس، عادات و اطوار سمیت سامنے لاکھڑا کردیاہے۔ گویا ان کے جسم میں دوبارہ روح پھونک کر زندہ کر دیا ہولیکن اس افسانے میں اقبال کی صورت دھندلا گئی ہے۔

گویا شمس الرحمن فاروقی نے اردو افسانے کی دنیا میں غالب ،میر، مصحفی جیسی ادبی شخصیتوں سے متعلق سوانحی افسانے لکھ کر اپنی انفرادیت قائم کی ہے۔ان کی شاعری ان کے عہد کا شاعرانہ مزاج، زبان و بیان اور ادبی تہذیب کی عکاسی کرتے ہوئے افسانے کا ایسا تانا بانا بنا ہے کہ اس پر نہ صرف حقیقت کادھوکہ ہوتا ہے بلکہ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ ان ادبی شخصیتوں اور ان کے عہد کو افسانہ نگار نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ان کے افسانوں کے مطالعہ کے بعدیہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ افسانہ نگارنے اپنی تحقیقی قوت سے اپنے کرداروں کی عملی زندگی کی ایسی تصویر کشی کی ہے کہ ان کی منھ بولتی ،چلتی پھرتی تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ان افسانوں میں تکنیک کی جلوہ گری جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ کرداروں کا راوی سے واحد متکلم میں تبدیل ہوجانا،واحد متکلم سے متکلم غیر حاضر میں ،اشعار کا استعمال، خواب اور خواب سے حقیقت میں چلے جاناوغیرہ ۔فنی طور پر یہی ان کی کہانیوں کا حسن ہے۔فاروقی نے اپنے افسانوں میں عہد حاضر کے اسلوب سے انحراف کرتے ہوئے اپنا رشتہ قدیم بیانیہ روایت سے جوڑا ہے اور افسانوں کی معنویت کے لحاظ سے مختلف طرز بیان اختیار کیا ہے۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے افسانوں میں اٹھارہویں صدی اور انیسویں صدی کی اردو ادبی تہذیب اور ہندو مسلم تہذیب کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ ایک مثبت زاویہ نظر عطا کیا۔ان کے تمام افسانوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سارے ہندوستان اور پاکستان میں اس طرح کے افسانوں کی مثال نہیں ملتی جن میں تاریخ، ادب، سیاست اور شاعرانہ کردار کو بیک وقت اس درجہ خوبی کے ساتھ پیش کیا گیا ہو۔

......

اسسٹنٹ پروفیسر( سی پی ڈی یو ایم ٹی)

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیور سٹی ،حیدرآباد -500032

موبائل : 8373984391


No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...