Wednesday, June 14, 2023

تم بن پھر چاند رات ہے

تم بن پھر چاند رات ہے 

 روبینہ ساگر روبی

آسمان پر ستارے جھلملارہے تھے، چاند کی فسوں خیز دودھیائی روشنی دور دور تک پھیل کر فسوں طاری کر رہی تھی۔ خوشبوؤں کے تیز جھونکوں سے فضا مہکی ہوئی تھی۔ ’’آفریدی ولا‘‘ کے لان میں اس وقت گہری و مکمل خاموشی کا راج تھا، سب اپنی اپنی آرام گاہوں میں محو خواب تھے اور اس خاموشی کو ہر تھوڑی دیر کے بعد درخت کی آغوش میں چھپی بیٹھی شوخ بے چین کوئل کی سریلی آواز توڑ رہی تھی اور اس بے چین کوئل کی طرح ایک وہ تھا جو آج بھی اشہل آفریدی (Ashhal Aafridi) کے انتظار میں جاگ رہا تھا، یہ اس کا معمول تھا، وہ ہر رات ٹہلتا ہوا اس کے آنے کا انتظار کرتا تھا جسے اس کی ایک لمحے کی بھی پروا نہ تھی اور آذان آفریدی (Aazaan Aafridi) کی بے قرار نگاہیں اب بھی گیٹ کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ اس نے ایک بار پھر غصے اور کوفت سے رسٹ واچ پر نظر ڈالی تھی، رات کے ساڑھے بارہ بج چکے تھے، لیکن اشہل آفریدی کے آنے کا دور دور تک بھی پتہ نہیں تھا اور اس کا فون بھی آف جارہا تھا۔

’’آذان بھائی آپ جاکر سوجائیں نہ کب سے ٹہل رہے ہیں اشہل آجائے گی یہی اس کا معمول ہے آپ کیوں اس کے لیے اپنی نیندیں خراب کرتے ہو۔‘‘‘ ثمانین کی آواز پر وہ پلٹا تھا۔ ’’مجھے مشورہ دینے سے بہتر ہے کہ آپ جاکر سوجائو اس اشہل کو تو میں آج دیکھ ہی لوںگا، آپ لوگوں کے بے جا لاڈ پیار نے ہی اسے اتنا بگاڑ دیا ہے،کیا ضرورت ہے اسے اتنا سر پر بٹھانے کی۔‘‘ وہ سخت لہجے میں بولتا ہوا دہاڑا تھا اور ثمانین گھبرا کر وہاں سے بھاگ گئی تھی۔

اشہل آفریدی نے آذان آفریدی کی زندگی اجیرن کردی تھی۔ وہ اس کے مرحوم چاچا چاچی کی بیٹی تھی جو اشہل کے بچپن میں ہی وفات پاچکے تھے۔ دادا جان، دادی جان اور مام ڈیڈ کے حد سے زیادہ پیار و محبت نے اسے بے حد ضدی ، ہٹ دھرم اور مغرور بنا دیا تھا، اسے آفریدی ولا کے ہر فرد کی خصوصی توجہ حاصل تھی، سوائے آذان آفریدی کے۔ وہ ایک ایماندار اور فرض شناس پولیس آفیسر تھا اور اشہل نے اسے حولدار کا لقب دے دیا تھا۔ آذان کو اشہل جیسی لڑکیاں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں، اس نے اسے سدھارنے کی ہر ممکن کوشش کرڈالی تھی لیکن اس کی کوششیں کامیاب نہ ہوسکی تھیں، وہ آفریدی ولا کی دوسری لڑکیوں سے بہت مختلف تھی۔ وہ ثمانین ، سامعہ، اسمارا اور سارہ آپی کی طرح شلوار قمیص نہیں پہنتی تھی بلکہ جینز، ٹاپ، شارٹ شرٹ وغیرہ ہی اس کا پہناوا تھا اور اس کی فرینڈشپ بھی اونچے گھرانوں سے تعلق رکھنے والی ماڈرن بے باک بگڑی ہوئی لڑکیوں کے ساتھ تھی، جن کا محبوب مشغلہ پارٹی، کلب، ڈانس اور لڑکوں سے دوستی کرنا تھا اور آذان اشہل کو ان سب چیزوں سے دور رکھنا چاہتا تھا، اسے اس ماحول سے نکالنا چاہتا تھا، لیکن وہ اس سے ڈرتی نہیں تھی، وہ بہت بے خوف اور نڈر ہوگئی تھی، وہ ہر وہ کام کرتی تھی جس سے آذان چڑتا تھا۔ وہ اکثر سوچتا کہ کاش اشہل بھی آفریدی ولا کی دوسری لڑکیوں کی طرح شرمیلی، باپردہ اور حیا دار ہوتی، آثر آذان کی اکلوتی بہن سارہ آپی کی نند روہا بھی تو تھی جو بہت باپردہ اور حیادار تھی، اسمارا، سامعہ ، ثمانین، نبیلہ، مستقیم، آرب، سارہ آپی، مام ڈیڈ، دادا جان، دادی جان، چاچا، چاچی سب اسے سمجھا سمجھا کر تھک چکے تھے لیکن ان سب لوگوں کی کسی بھی بات کا اشہل آفریدی پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا، وہ اپنی دنیا میں بہت مگن اور خوش تھی اور اسے اس طرح کی زندگی جیتے دیکھ کر آذان آفریدی کا سکون غارت ہوتا تھا۔

لان میں لائٹ کی دودھیائی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ آج بھی رات کا ایک بج رہا تھا۔ جب آفریدی ولا کے باہر گاڑی آکر رکی تھی اور اشہل کھٹ کھٹ کرتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی، ٹائٹ جینز اور سیلو لیس ٹاپ میں اس کی اجلی رنگت نمایاں ہورہی تھی، وہاں پہلے سے موجود آذان اسے شیراز کے ساتھ آتا ہوا دیکھ چکا تھا۔ وہ بگڑے تاثرات لیے کسی بپھرے ہوئے شیر کی طرح غراتا ہوا اس کی طرف بڑھا تھا اور اس کی کلائی کو دبوچ لیا تھا۔

’’کہاں سے آرہی ہو اس وقت اور کون تھا وہ لڑکا جس کے ساتھ آپ آئی ہو، یہ شریف گھرانوں کی لڑکیوں کے طور طریقے نہیں ہوتے ہیں، اپنا حلیہ دیکھا ہے ا ٓپ نے، ارےشرم آنا چاہیے آپ کو، بنا دوپٹے کے رات گئے تک لڑکوں کے ساتھ گھومتی ہو، آئندہ اگر آپ مجھے اس لڑکے کے ساتھ نظر آئی تو میں ٹانگیں توڑ دوںگا آپ کی۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ جھٹکتا ہوا پھنکارا تھا۔میں نے آپ سے پوچھا ہے محترمہ کہ وہ لڑکا کون تھا۔‘‘ اس کا سخت زہریلا لہجہ اشہل کا دل دہلا رہا تھا، لیکن وہ پھر بھی اس کے سامنے مضبوط بنی کھڑی تھی۔ ’’وہ میری فرینڈ نیلو کا بھائی ہے اور میں اس کی برتھ ڈے پارٹی میں سے آرہی ہوں۔ آپ کون ہوتے ہیں مسٹر حولدار مجھ پر بے جا پابندیاں لگانے والے، بلا وجہ روک ٹوک کرنے والے، یہ کرو وہ نہ کرو، یہ پہنو وہ نہ پہنو، یہاں جائو، وہاں نہ جائو، مجھ پر اتنی سخت پابندیاں لگانا بند کردیں خدا کے لیے یہی میرا لائف اسٹائل ہے اور میں آپ کے لیے خود کو بدل نہیں سکتی۔‘‘ وہ بیزاری سے جھنجھلا کر بولی تھی۔

’’تو میں کب کہہ رہا ہوں آپ سے کہ آپ خود کو میرے لیے چینج کرلیں، میں تو آپ کی بھلائی کے لیے ہی کہتا ہوں، باہر نکل آئو اس بے ہودہ دلدل بھری زندگی سے کیوں خود کو ایسی زندگی کا عادی بنارہی ہو ا شھل آفریدی ابھی بھی وقت ہے آپ کے پاس سدھر جائو مت بگاڑو خود کو اتنا کچھ نہیں تو دوپٹّے کا ہی خیال کرلیا کرو، آپ سے نظریں ملاتے ہوئے بھی مجھے شرم آتی ہے۔‘‘ اس نے اس کے لباس پر طنز کیا تھا۔

’’بس اب ایک لفظ بھی نہیں سننا مجھے مسٹر آذان آفریدی۔‘‘ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے مزید کہنے سے روک دیا تھا اور وہ اب چھپے غصے کو ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’اور ہاں مسٹر حولدار ایک بات اور آپ یہاں روز روز کھڑے ہوکر میرے آنے کا انتظار مت کیا کیجئے، میری فکر، میری پروا کرنے کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے، مجھے اپنا اچھا برا سمجھنا ہے۔‘‘ وہ تنفر سے کہتی ہوئی کھٹ کھٹ کرتی آگے بڑھ گئی تھی اور وہ فق چہرہ لیے افسوس سے اسے جاتا ہوا دیکھتا ہی رہ گیا تھا:

ہوتی تھی اپنی چاند رات اور عیدیں بھی کبھی

رونق تو سب وہ اپنے ساتھ ہی لے کر چلا گیا

کھویا کچھ اس طرح سے کہ موسم بدل گئے

ساگرؔ کی چاند راتوں کو وہ ویران کرگیا

سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ پنچھی شور مچاتے ہوئے گھونسلوں سے نکل آئے تھے، ہوائیں لہرا رہی تھیں اور خوبصورت پھولوں سے لان مہک رہا تھا۔

’’آذان بھائی پلیز تھوڑی دیر رک جائو نا، مجھے سارہ آپی کی طرف جانا ہے، آپ ڈیوٹی جانے کے لیے نکل ہی رہے ہو تو مجھے وہاں چھوڑ دینا میں ابھی دومنٹ میں آئی۔‘‘ وہ واچ پہن رہا تھا جب اسمارا چیختی چلاتی وارد ہوئی تھی۔ او یار میں آل ریڈی لیٹ ہوچکا ہوں، آپ ایسا کرو نبیلہ کے ساتھ چلی جاؤ۔‘‘ نہیں مجھے نبیلہ کی کھٹارا بائک پر نہیں جانا ہے، پتہ ہے لوگ پلٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ سرکس کی گاڑی پر کون جوکر بیٹھ کر آرہے ہیں۔اس کے معصومیت بھرے الفاظ پر وہ بے ساختہ ہنسا تھا، اسی پل اشہل اندر داخل ہوئی تھی، بلو کلر کی نائٹ گائون پہنے بنا دوپٹہ لیے وہ آذان کو ہی دیکھ رہی تھی اور وہ اس پر نظر پڑتے ہی اپنی نظریں پھیر گیا تھا۔ پولیس یونیفارم میں اس کی وجاہت نمایاں ہورہی تھی، لاتعلقی و بے نیازی اس کے ہر انداز سے جھلک رہی تھی اور وہ مام اور چاچی کے قریب آکر بیٹھ گئی تھی۔ ’’اٹھ گئی میری شہزادی۔‘‘ مام نے لاڈ سے پوچھا تھا، ان کے اس محبت بھرے انداز پر اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ ا ن کے وجود سے اسے اپنی ماں کی خوشبو آتی تھی، لیکن پتہ نہیں کیوں ان کا مغرور ضدی بیٹا آذان آفریدی اس سے اتنا کیوں چڑتا تھا۔

اشہل آپ بھی اسمارا کے ساتھ سارہ کی طرف چلی جائو۔ دادی جان نے کہا تو اس کی نظر بے اختیار اس دشمن جاں کی طرف اٹھی تھی جو کھاجانے والی نگاہوں سے گھور رہا تھا۔ ’’نہیں دادی جان میں نہیں جارہی ہوں۔‘‘ وہ انھیں ٹال گئی تھی ، جانتی تھی کہ وہ اسے اس حلیے میں کبھی بھی لے کر جانے والا نہیں ہے اور پھر وہ سب کو اللہ حافظ کہتا ہوا دو قم آگے بڑھ گیا تھا، اسمارا بھی اس کے پیچھے چل دی تھی، تبھی مام کی آواز پر اس کے بڑھے قدم رک گئے تھے۔

’’سنو آذان بیٹا سارہ سے کہنا کہ وہ روہا کو مجھ سے ملوانے لائے، میں اپنے گھٹنوں کے درد کی وجہ سے کہیں آجا نہیں سکتی۔ اس لیے مجھے روہا کی بہت یاد آرہی ہے، کتنی پیاری بچی ہے نا وہ مجھے تو آپ کے لیے بہت پسند ہے۔‘‘

’’مام پلیز یہ کس ٹاپک کو لے کر بیٹھ گئی ہیں آپ، ٹھیک ہے میں سارا آپی سے کہہ دوںگا۔‘‘ وہ جان چھڑانے والے انداز میں بولتا ہوا جلدی سے باہر نکل گیا تھا اور وہاں موجود سب لو گ اس کے چڑنے پر ہنس رہے تھے۔ ا شہل سمیت سب جانتے تھے کہ مام آذان کے لیے روہا کو بہت پسند کرتی ہے، لیکن ان کا بیٹا کسے پسند کرتا ہے یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔

افق کے کنارے نارنجی ہورہے تھے، سرخ ہوتا سورج ڈوب رہا تھا، چہچہاتے پرندے اپنی منزل مقصود کی طرف واپس جارہے تھے۔

آذان آفریدی مغرب کی نماز ادا کر کے واپس آرہا تھا۔ لان سے گزرتے ہوئے اس کی نظر سامنے سے آتی سجی سنوری اشہل پر پڑی جو کہیں جارہی تھی، ریڈ ٹاپ اور ٹائٹ جینز پر کھلے بال رکھے وہ بے پروا انداز میں آگے بڑھی تھی، تبھی وہ اس کے راستے میں آکر کھڑا ہوگیا تھا اور جارحانہ انداز میں اسے اپنی طرف کھینچتا ہوا اس کے گال پر تھپڑ رسید کر گیا تھا۔ وہ اس کی حرکت پر ہکا بکا رہ گئی تھی۔

’’منھ توڑ کر رکھ دوںگا اگر ایک قدم بھی آگے بڑھی تو، کتنی بار کہا ہے اس حلیے میں باہر مت نکلا کرو، پاگل سمجھتی ہو نہ مجھے جو یوں آپ کے پیچھے وقت برباد کرتا ہوں، میں نے یہ بھی کہا تھا کہ بال کھلے مت رکھا کرو، میری بات کاثر کیوں نہیں ہوتا ہے آپ کے دماغ پر، اگر اس طرح کی آزادی چاہتی ہو نا تو اپنا ٹھکانہ کہیں اور بنالو میں اب مزید برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘ وہ وحشت زدہ نگاہیں اس کے وجود پر گاڑے چیخ رہا تھا اور اشہل آفریدی کو اپنے وجود پر چیونٹیاں رینگتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں، اس کے اس اشتعال بھرے انداز نے اسے ساکت کردیا تھا، کتنے ہی لمحے وہ ایسے یوں ہی تکتی رہی تھی اور پھر روتے ہوئے اندر کی طرف بھاگی تھی۔

پھر بہت ہی تیزی سے اشہل آفریدی کی زندگی میں تبدیلیاں آتی چلی گئیں، اس نے خود کو بہت چینج کرلیا تھا، آذان آفریدی کے ایک تھپڑ نے اس کا لائف اسٹائل بدل کر رکھ دیا تھا، اس نے اپنی وارڈ روب کو جینز ٹاپ کے بجائے شلوار قمیص سے بھر لیا تھااور اپنی ساری فرینڈس سے اس نے ریلیشن بھی ختم کردی تھی، نماز بھی پابندی سے ادا کر رہی تھی۔ پتہ نہیں کیوں لیکن اس نے آذان آفریدی کے لیے خود کو بدل لیا تھا ، محبت میں بہت طاقت ہوتی ہے وہ انسان کو سرتا پا بدل کر رکھ دیتی ہے۔ اشہل کے اس بدلائو پر آفریدی ولا کا ہر شخص خوش تھا، کیونکہ آذان نے وہ کارنامہ انجام دیا تھا جو گھر کے بڑے بھی نہیں دے پائے تھے۔

وہ ظہر کی نماز ادا کر کے دادی جان کے قریب آکر بیٹھ گئی تھی، ریڈ کلر کے اسٹائلش ڈریس میں وہ بے انتہا حسین لگ رہی تھی، ریڈ شیفون کے دوپٹے میں لپٹا اس کا دودھیائی چہرہ چاند کی طرح دمک رہا تھا۔

’’دادی جان سامعہ، اسمارا، نبیلہ وغیرہ نظر نہیں آرہے ہیں کہیں گئے ہیں کیا وہ لوگ۔‘‘اس نے انھیں گھر میں نہ پاکر پوچھا تھا۔

’’ہاں بیٹا آپ کی حبا پھوپھو اور اس کا بیٹا طلحہ آرہے ہیں پونہ سے انہی کو لینے یہ سب لوگ اسٹیشن گئے ہوئے ہیں۔ ثمانین آئی تھی آپ کو بلانے لیکن اس وقت آپ سوئی ہوئی تھیں۔ ’’ارے ہاں دادی جان میں تو بھول ہی گئی تھی کہ آج حبا پھوپھوکو آنا تھا۔‘‘ وہ اپنی یادداشت پر افسوس کرتی ہوئی بولی تھی۔ اسی پل چاچی ٹرالی گھسیٹتی ہوئی اس کے قریب آئی تھی۔ ’’اشہل یہ ٹرالی ڈرائنگ روم میں لے جائو۔‘‘ ’’اس وقت کون آیا ہوا ہے چاچی ، کوئی اسپیشل گیسٹ ہے کیا۔‘‘

’’ہاں اسپیشل لوگوں کے گیسٹ بھی اسپیشل ہی ہوتے ہیں۔‘‘ اور جب وہ ٹرالی گھسیٹتی ہوئی اندر داخل ہوئی تو وہاں آذان آفریدی دوستوں کے جھرمٹ میں گھرا بیٹھا تھا۔ اس کے دوست پولیس یونیفارم میں ملبوس تھے۔ ایک لمحے کے لیے وہ اتنی ساری پولیس کو دیکھ کر ڈر گئی تھی، لیکن آذان پولیس یونیفارم میں نہیں تھا۔ اس کے دوستوں کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے وہ پولیس اسٹیشن سے سیدھا ادھر ہی آئے ہوں، آذان پنک ٹی شرٹ پر نیوی بلیوجیکٹ اور نیوی بلو جینز پہنے بے حد ہینڈسم لگ رہا تھا، آذان کے سب دوست اور وہ اسے وہاں کھڑی چپ چاپ دیکھ رہے تھے۔ جس کی خاموش نگاہیں آذان کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں اور وہ اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ ’’اشہل آذان کے پکارنے پر وہ ہوش میں آئی تھی اور الٹے قدموں واپس پلٹ گئی تھی اور اسے یہی خوف کھائے جارہا تھا کہ وہ اب اس پر آکر برسے گا، چیخے گا، چلائے گا کہ وہ اس کے دوستوں کے سامنے کیوں آئی تھی۔‘‘

’’کون تھی یار وہ اپسرا جسے دیکھ کر تم اپن ہوش کھورہے تھے۔‘‘ زید نے کھوجنے والے انداز میں پوچھا تو وہ زیر لب مسکراکر بولا۔ ’’کزن ہے یار۔‘‘

’’صرف کزن ہی ہے یا کچھ اور بھی۔‘‘ طٰہٰ کی زبان میں بھی کھجلی ہوئی تھی۔

’’ابھی تو صرف کزن ہی ہے۔‘‘ اوہو اس کا مطلب ہے ہمارا بیوٹی فل شہزادہ اسے کچھ اور بھی بنانا چاہتا ہے ، ہے نا ایسا ہی ہے نا یار۔‘‘ آذان بھی کہاں باز ا ٓنے والا تھا، ان سب نے اسے گھیر لیا تھا اور اب اتنی آسانی سے وہ اس کا پیچھا چھوڑنے والے نہیں تھے۔

خدا کرے تیری خوشیوں کے پھول کھل جائیں

وہ جن سے ملنے کا ارمان ہے تجھ کو مل جائیں

خدا کرے تجھے عید راس آجائے

تو جس کو چاہے وہ خود تیرے پاس آجائے

حبا پھوپھو اور طلحہ کی آمد نے ’’آفریدی ولا‘‘ کی رونق اوربڑھا دی تھی، طلحہ ایک خوش مزاج اور جلد فری ہونے والا لڑکا تھا، اس کی ایم بی اے کی پڑھائی کمپلیٹ ہوگئی تھی فی الحال ابھی وہ فری تھا اس لیے اپنے سارے کزنز کے ساتھ انجوائے کرنے آفریدی ولا اپنی ممی کے سنگھ چلا آیا تھا، اس کی اشہل سے بہت گہری دوستی ہوگئی تھی، حبا پھوپھو بھی اشہل سے بہت محبت کرتی تھی اورنیگ پارٹی کو اشہل کے حوالے سے ان کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے تھے، وہ سب کے سب اس کے پیچھے پڑ گئے تھے اور اسے طلحہ کا نام لے کر چڑا رہے تھے اور وہ بھی ان سب کی شرارتوں سے محظوظ ہورہی تھی۔

ہنسی، شرارت، موج مستی کرتے ہوئے دن یونہی گزرتے رہے اور رحمتوں برکتوں والا مقدس مہینہ ماہِ رمضان اپنے آنے کی دستک دے چکا تھا۔ آج چاند رات تھی، ماہِ رمضان کا چاند نظر آچکا تھا، لوگ ٹیرسوں پر کھڑے بہت شوق و اشتیاق سے چاند کا دیدار کر رہے تھے، دور آسمان کی آغوش میں نازک دلکش چاند جھلملا رہا تھا، بچے شور وغل مچارہے تھے، ہر طرف خوشی کا سماں نظر آرہا تھا ، رمضان کی آمد ہوتے ہی بازاروں کی رونق بھی بڑھ گئی تھی۔ ’’آفریدی ولا‘‘ کے سب لوگ اس وقت ٹیرس پر جمع تھے۔ اشہل نے بھی سب کو باری باری چاند رات کی مبارکباد دی تھی اور اب سیڑھیاں اتر کر وہ نیچے واپس جارہی تھی اور آذان آفریدی تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر آرہا تھا۔ ’’چاند رات مبارک ہو آپ کو۔‘‘ اس پر نظر پڑتے ہی وہ ہولے سے بولی تھی۔ ’’آپ کو بھی‘‘ وہ بے حد سرد و سپاٹ لہجے میں بولتا ہوا سیڑھی پھلانگتا ہوا اوپر چلا گیا تھا اور اس کے اس لاتعلق بھرے انداز پر اشہل کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے تھے۔

آج رمضان مبارک کی پہلی سحری تھی اور آذان بھی اٹھ کر ڈرائنگ روم میں چلا آیا تھا۔ جہاں سب لوگ بیٹھے سحری کھا رہے تھے اور ان سب کے ساتھ اشہل آفریدی کو وہاں موجود دیکھ کر اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔ اس کا مطلب تھا وہ بھی روزہ رکھ رہی تھی۔ پہلے وہ کبھی روزہ نہیں رکھتی تھی اور جب وہ فجر کی نماز ادا کر کے واپس آیا تو وہ جائے نماز پر بیٹھی قرآن پاک بند کر کے اٹھ رہی تھی اور پھر اسے اپنی جگہ پر رکھ دیا تھا۔ آذان پر نظر پڑتے ہی وہ پلکیں جھکا گئی تھی اور وہ اسے اس روپ میں دیکھ کر مسکرا دیا تھا۔ وہائٹ ڈریس میں ملبوس چہرے کے گرد وہائٹ دوپٹہ لپیٹے وہ بہت پاکیزہ لگ رہی تھی، آذان کو لگ رہا تھا جیسے کوئی حور بھٹکتی ہوئی زمین پر آگئی ہو۔ ’’بہت اچھی لگ رہی ہو یار اس روپ میں ہمیشہ ایسی ہی رہنا اب خود کو کبھی مت بدلنا، میں آپ کو جیسا دیکھنا چاہتا تھا، آپ ویسے ہی ڈھل چکی ہو میں اپنے رب کا بہت شکر گزار ہوں جو اس نے آپ کی بگڑی ہوئی زندگی کو سنوار دیا ہے۔‘‘ وہ ہولے ہولے بولتا جارہا تھا اور وہ ندامت سے سرجھکائے چپ چاپ سن رہی تھی۔

’’اگر آپ اس دن مجھے تھپڑ نہ مارتے تو شاید کبھی ایسا نہ ہوتا، میں گناہوں کی دلدل میں دھنستی چلی جاتی۔ آپ کے اس تھپڑ نے میرے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، میں اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے جہنم بنانے چلی تھی، لیکن پھر آپ نے مجھے جنت کی طرف لے جانے والا راستہ دکھا دیا۔ میں نے بہت سوچا، بہت سوچا،مجھے آپ کی کہی ہر بات سچ لگی اور اپنے آپ سے نفرت سی محسوس ہوئی تھی اور پھر میں نے خود کو بدلنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔‘‘ وہ ہولے ہولے بول رہی تھی اور وہ اس کے ایک ایک لفظ کو بغیر سن رہا تھا۔ ’’شکریہ آذان میری لائف میں اتنی ساری تبدیلیاں صرف آپ کی وجہ سے آئی ہیں اور انشاء اللہ میں مرتے دم تک اب اسی طرح کی زندگی جیوںگی۔ پھر وہ ہاتھ میں تسبیح اٹھائے وہاں سے چلی گئی تھی اور آذان یہی سب تو چاہتا تھا، اس نے رب محمود سے بہت دعائیں مانگی تھیں اس کی زندگی بدلنے کے لیے، اس کی زندگی میں دین کی روشنی بھرنے کے لیے اور خدائے پاک نے اسے ناکام نہیں کیا تھا۔ اس کی خلوص دل سے مانگی دعائیں رد نہیں ہوئی تھیں وہ شرف قبولیت پاچکی تھی۔

چاند راتوں میں میرا خیال جب آیا ہوگا

تم نے بھی اشکوں سے عیدوں کو منایا ہوگا

تنہا تنہا ہوگا وہ ہم سے بچھڑ کر ساگرؔ

اس احساس نے تم کو بھی رلایا ہوگا

ماہِ رمضان کا ایک ایک دن گزرتا گیا اور آج پھر عید مبارک کی چاند رات تھی۔ وہ وڈن کان سے لگائے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو اس کی نظر اشہل پر پڑی تھی جو میرون ڈریس میں ملبوس دادی جان ، مام اور چاچی کے ساتھ بیٹھی ڈرائی فروٹ کاٹ رہی تھی، وہ چلتا ہوا اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا تھا اور اس کے سامنے رکھی پلیٹ میں سے کاجو بادام اٹھاکر کھاتا ہوا پوچھ رہا تھا، نبیلہ، طلحہ، سامعہ وغیرہ نظر نہیں آرہے ہیں کہاں گئے۔‘‘ وہ سب مارکیٹ گئے ہیں لڑکیوں کو چوڑیاں لینی تھیں اور مہندی لگوانی تھی ان سب سے اشہل کو بھی چلنے کے لیے کہا لیکن یہ دادی اماں بنی ہمارے ساتھ بیٹھی ہے۔‘‘ جو اب حبا پھوپھو کی طرف سے آیا تھا جو خرمے کاٹ رہی تھی۔

’’آذان بیٹا ایسا کرو آپ اسے لے کر مارکیٹ چلے جائو یہ مہندی بھی لگوالے گی اور چوڑیاں بھی پہن لے گی۔‘‘ دادی جان نے اس پر حکم صادر کیا تھا اور اشہال منتظر نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

’’آپ پانچ منٹ میں تیار ہوکر آجائو میں تب تک گاڑی نکالتا ہوں ویسے آپ کو حولدار کے ساتھ جاتے ہوئے شرم تو نہیں آئے گی نا۔‘‘ وہ شوخی سے بولا تو سب کھلکھلاکر ہنس دیے تھے۔ سب کو پتہ تھا کہ وہ وہ آذان کو حولدار کہتی ہیں۔

مہندی لگوانے کے بعد وہ اسے چوڑی شاپ پر لے آیا تھا۔ بڑے بڑے لائٹوں کی روشنیوں میں رنگ برنگی چوڑیاں جھلملا رہی تھیں۔ چوڑی شاپ پر بے حد رش تھا اور وہ اس کا ہاتھ تھامے چل رہی تھی۔ ’’کون سی والی چوڑیاں پہنو گی آپ۔‘‘ ایک جگہ رک کر وہ اس سے بہت محبت سے پوچھ رہا تھا۔ ’’جو آپ کو پسند ہو۔‘‘ ’’پسند تو آپ بھی مجھے بہت ہو۔‘‘ وہ زیرِ لب بڑبڑایا تھا۔

’’یہ بلیک والی آپ کی کلائیوں میں بہت سوٹ کرے گی ہے نا۔‘‘ وہ پرشوق نظر میں اس کے حسین چہرے پر گاڑتے ہوئے بول رہا تھا اور وہ اس کے اس طرح دیکھنے پر پزل ہورہی تھی اور پھر اس نے اس کی پسند کی بلیک کانچ کی چوڑیاں ہی پہنی تھی۔ آذان کے سنگ بیتا ہر پل اسے خوش کر رہا تھا، اس نے اسے ڈھیروں شاپنگ کرائی تھی اور اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ کل عید کے دن دادا جان اور ڈیڈ سے کہہ دے گا کہ وہ اشہل سے شادی کرنا چاہتا ہے، وہ کل اس کے ہاتھ میں اپنے نام کی انگوٹھی پہنا کر عید کی خوشیوں کو دوبالا کر کے یادگار بنانا چاہ رہا تھا۔ اشہل ہزاروں خوابوں کو اپنی آنکھوں میں سجائے آذان کے ہمراہ گھر لوٹ آئی تھی، آج چاند رات کے دن اس کا چاند اس کے ساتھ تھا۔ اسے اور کیا چاہیے تھا اور وہ بھی تو آذان کی عیدی تھی، لیکن اسے نہیں پتہ تھا کہ تقدیر کے آسمان پر اشہل آفریدی کا نام کسی اور کے نام کے ساتھ لکھا جاچکا ہے۔

گرین کلر کے اسٹائلش کلیوں والے فراک میں ملبوس وہ سبزپری ہی لگ رہی تھی، نفاست سے کیے گئے میک اپ نے اس کے حسن کو اور قاتل بنا دیا تھا۔ یہ فراک بھی آذان کی پسند کا تھا۔ وہ سب کو شیر پیش کر رہی تھیں، لیکن اس کی بے چین نگاہیں آذان کو ڈھونڈ رہی تھی، جو ان سب کے درمیان موجود نہیں تھا۔ طلحہ اسے محبت آمیز نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور اسے اس کی نظروں سے الجھن ہورہی تھی، وہ اسے اگنور کرتی ہوئی اپنے روم میں چلی آئی تھی اور پھر کچھ دیر گزرنے کے بعد اس کے روم کا دروازہ بجا تھا اور جب اس نے دروازہ کھولا تو اس دشمن جان پر نظر پڑتے ہی اس کا مرجھایا چہرہ کھل اٹھا تھا وہ اسے نیچے نہ پاکر ڈھونڈتا ہوا یہاں آیا تھا، وہائٹ شلوار قمیص پہنے سر پر ٹوپی لگائے وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔ وہ کتنے ہی پل اسے یونہی دیکھتی رہی تھی اور وہ بھی اپنی ملکۂ دل کو شوخی سے دیکھ رہا تھا۔

’’محترمہ یوںگھورنا بند کرو اور جیل جانے کی تیاری کرو ہمیں آپ کو اریسٹ کرنا ہے۔‘‘ وہ سخت لہجے میں بولا تو وہ گھبرا گئی تھی۔ ’’لیکن میںنے کیا کیا ہے۔‘‘

’’چوری کی ہے آپ نے ، ڈاکہ ڈالا ہے وہ بھی ایک پولیس آفیسر کے دل پر ، آپ پر ہمارا دل چرانے کا الزام ہے اس لیے ہم آپ کو چاہتوں کی ہتھکڑیوں میں اریسٹ کرنے آئے ہیں۔‘‘ وہ فق چہرہ لیے اسے دیکھ رہی تھی اور جب اس کی بات سمجھ میں آئی تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی اور وہ بھی اس کی ہنسی میں شریک ہوگیا تھا۔

’’عید مبارک ہو آپ کو اشہل آفریدی ، دعا ہے خدا آپ کو عید کا دن زندگی میں بار بار دکھائے اور آپ یونہی ہمیشہ ہنستی مسکراتی رہیں اور پھر اشہل نے بھی اسے عید کی مبارکباد دی تھی۔‘‘

’’میری عیدی تو دو آذان۔‘‘ اور جب وہ جانے لگا تو اشہل نے اسے پکارا تھا۔ ’’آپ کی عیدی تو میں ہی ہوں، مجھے رکھ لو اپنے پاس زندگی بھر کے لیے آپ کے دل میں تو میں آل ریڈی ہوں ہی ، ہے نا اور وہ اقرار میں سر ہلا گئی تھی اور جب وہ دونوں نیچے ہال میں آئے تو وہاں موجود ہر شخص کی نگاہیں اشہل پر ہی تھیں۔ حبا پھوپھی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب اٹھالیا تھا اور اس کے سامنے والے صوفے پر طلحہ پہلے سے ہی براجمان تھا۔ ’’میرا خیال ہے پھوپھو آج کی بریکنگ نیوز کا اب اعلان کردینا ہی چاہیے۔‘‘ مستقیم کی شوخ آواز ابھری تھی اور وہ دونوں ہر بات سے بے خبر صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔

’’اشہل بیٹا حبا آپ کو اپنی بہو بنانا چاہتی ہے اور ہم سب کی بھی یہی خواہش ہے لیکن ہم سب پہلے آپ کی مرضی جاننا چاہتے ہیں اس کے بعد ہی فیصلہ ہوگا۔‘‘ دادا جان کی مسرت آمیز ا ٓواز ان دونوں کے حواس پر بجلیاں گرا گئی تھی۔ اشہل آفریدی کے چہرے کی رنگت اڑ گئی تھی اور آذان کا وجود ساکن و صامت ہوگیا تھا، اسے لگا تھا جیسے کسی نے اس کی روح چھین لی ہو، اس قیامت خیز خبر کو سن کر آفریدی ولا کے درو دیوار بھی لرز گئے تھے۔ ایک دھماکہ تھا جو دونوں کی زندگیوں میں تباہی مچا گیا تھا۔

’’اشہل بیٹا آپ کا کیا فیصلہ ہے پھر۔‘‘ دادی جان امید بھری نظروں سے اس سے پوچھ رہی تھیں اور اس نے خوشی سے چہکتے سب کے چہروں کو باری باری دیکھا تھا اور پھر اپنے زخمی دل کی پروا کیے بغیر ہاں کردی تھی اور اس کی ہاں نے جیسے خوشی کے گلا کھلا دیے تھے، اپنی ایک خوشی کی خاطر وہ سب کی خوشیاں نہیں چھین سکتی تھی۔

’’چل یار طلحہ اب جلدی سے اشہل کی انگلی میں انگوٹھی پہنا دو۔‘‘ آرب کی آواز پر آذان کا سپنا ٹوٹا تھا جو سپاٹ چہرہ لیے گم صم بیٹھی اشہل کو ہونّقوں کی طرح تک رہا تھا اور پھر وہ اپنے بے جان ہوتے وجود کو سنبھالتا ہوا وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا۔

ہر لمحہ صدیاں بن کر گزرتا گیا اور آج اشہل کی شادی کا د ن بھی آگیا تھا۔ وہ سوگوار حسن کے ساتھ دلہن بنی بیٹھی گڑیا ہی لگ رہی تھی۔ ۔ اس کے جسم پر سجے سرخ ڈریس سے اسے وحشت ہورہی تھی ، رو روکر اس کی آنکھیں سوج چکی تھیں اور وہ خود کو تقدیر کے حوالے بے بس محسوس کر رہی تھی اور آذان خود پر ضبط کرتا ہوا سب کام بہت ہی حوصلے سے نمٹا رہا تھا، اس کی آنکھوں میں ویرانیاں ناچ رہی تھیں، اپنے دل کے سلگتے ، رستے زخموں کو اس نے سب سے چھپا لیا تھا اس کے دل کا حال تو رب ہی جانتا تھا کوئی رنگینی، کوئی رونق اسے لبھا نہیں رہی تھی، اس کے دل کے اندر اب صرف سناٹا اتر گیا تھا، خدائے پاک نے اس کی زندگی اشہل ہی اس سے چھین لی تھی اور جب اس کی رخصتی کا وقت ہوا تو وہ سب کی نظروں سے چھپ کر اپنے روم میں قید ہوگیا تھا۔ بے انتہا اسمارٹ پولیس آفیسر آذان آفریدی غم سے نڈھال بے تحاشا رو رہا تھا۔ روم میں موجود قیمتی سے قیمتی ڈیکوریشن پیسز کو اس نے توڑ پھوڑ ڈالا تھا۔ ہوائوں کے تیز جھونکے اس کی ونڈو پر دستک دے رہے تھے، لیکن وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہورہا تھا۔ اس کے روم کا دروازہ جانے کتنی بار بجا تھا لیکن اس میں اٹھنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔ وہ اب اشہل آفریدی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔

وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے، بہت سی تبدیلیاں ہوتی ہیں، لیکن صرف نہیں بدلتا تو دل کا موسم ، دل کے باغ میں ایک بار جو رت ڈیرہ جما لے پھر وہ مشکل سے ہی بدلتی ہے اور اکثر دلوں میں خزاں رتوں کے ڈیرے ہوتے ہیں اور پولیس آفیسر آذان آفریدی بھی اسی موسم کے ساتھ زندگی جی رہا تھا۔ مام ڈیڈ کی ضد پر اس نے سارہ آپی کی نند روہا سے شادی کرلی تھی لیکن اسے وہ محبت وپیار بھی نہیں دے سکتا تھا جو آج بھی اس کے دل میں اشہل کے لیے تھا۔

ماحول میں عجیب سا بوجھل پن اتر آیا تھا۔ ہر شے جیسے غمگین نظر آرہی تھی، پرندے اداس سے اپنے آشیانوں کی طرف جارہے تھے۔ اس کےو جود کی ویرانیاں جیسے ہر چیز پر چھائی ہوئی تھیں، سورج بہت ہی تیزی سے نظروں سے اوجھل ہورہا تھا، شام کے سائے پھیل رہے تھے اور پھر کچھ ہی دیر بعد اندھیرا چھا گیا تھا۔

درخت سے ٹوٹ کر گرے خزاں رسیدہ خشک پتے اس کے جوتوں کے نیچے آکر چرمرا گئے تھے۔ آج پھر عید کی چاند رات تھی اور وہ صبح سے سڑکوں کی خاک چھانتا پھر رہا تھا اور پھر سیدھا ٹیرس پر چلا آیا تھا۔ اس کے چہرے پر گہرا حزن پھیلا ہوا تھا اور اس کی بے حد سرح آنکھیں دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سونے کے لیے ترس گئی ہوں۔ ارد گرد کی ٹیرس پر کھڑے بچے بے حد شور مچا رہے تھے ’’چاند نظر آگیا کل پھر عید ہوگی۔‘‘ بچوں کے چلانے پر اس نے بھی ایک تھکی ہوئی نظر چاند پر ڈالی تھی اور اسے پچھلی چاند رات کے سارے گزرے لمحات یاد آتے چلے گئے تھے، جن لمحات میں اشہل اس کے ساتھ تھی۔

’’اے چاند ایک تو آسمان میں اکیلا ہے، ایک میں یہاں اکیلا ہوں اور ایک وہ وہاں اکیلی ہے اور ہم تینوں کو اب اکیلا ہی رہنا ہے ، اے چاند! تمہارے ساتھ اتنے سارے ستارے ہیں لیکن پھر بھی تم تنہا ہو، میرے پاس بھی میرے اپنے ہیں، لیکن پھر بھی اس کی کمی ہے، اس کے ساتھ بھی سب ہے لیکن پھر بھی میری کمی اسے ہمیشہ رہےگی۔ وہ چاند سے باتیں کرتا ہوا زارو قطار رو رہا تھا اور کہیں بہت دور ٹیرس پر کھڑی اشہل آفریدی کی نگاہیں بھی آذان کو ڈھونڈ رہی تھیں جس نے اس کے لیے خود کو بدل لیا تھا، لیکن خود کو بدل کربھی اس نے اسے کھودیا تھا۔ چاند حیرت سے اس گم صم کھڑی لڑکی کو تک رہا تھا، جس کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت میں بہہ کر ٹوٹ رہے تھے۔

’’دیکھو آذان کل پھر عید ہوگی ، پچھلی عید پر ہمارے دل اجڑ گئے تھے جو آج بھی اجڑے ہوئے ہیں، پچھلی چاند رات پر ہم دونوں ساتھ تھے کتنا خوش تھے، ہم ایک دوسرے کے ساتھ ۔ آج بھی چاند رات ہے، لیکن یہ چاند اب تم بن منانا اچھا نہیں لگتا۔ کاش اس چاند رات پر بھی تم میرے ساتھ ہوتے، میرے بن کر کاش کاش۔‘‘ وہ خود سے ہی بڑبڑاتے ہوئے ہاتھوں میں چہرہ چھپائے شدتوں سے رو رہی تھی۔

تم بن پھر چاند رات ہے

تم بن پھر عید آئی ہے

لیکن ہمدم تقدیر نے

ہمیں کیوں اتنا ستائی ہیں

ایک تم بچھڑے جب سے مجھ سے

ہر چیز جیسے پرائی ہے

اب چاندبھی دیکھو نہ اپنا رہا

کیسی یہ چاند رات آئی ہے

روتی آنکھوں سے ساگر نے

تیری یاد کے سنگ عید منائی ہے

تم بن پھر چاند رات ہے

تم بن پھر عید آئی ہے!ٗ

rrr


محلہ، ہیراپورہ، سینٹر مسجد دارالسلام، اچلپور سٹی، 

ضلع امرائوتی(ایم ایس)-444806

موبائل:  


No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...