Tuesday, June 20, 2023

معمار کی نگاہ: بی.وی.دوشی

معمار کی نگاہ: بی.وی.دوشی

واعظ الرحمن / شیراز حسین عثمانی

عزیز ساتھیو! کتنی ہی بار ایسا ہوا ہوگا کہ آپ نے کھیل کھیل میں اپنے گھر کا نقشہ بنایا ہوگا۔ یہاں پڑھائی کا کمرہ ہوگا، یہاں امّی ابّو کا کمرہ اور یہ بہن کاکمرہ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ جب اپنے پڑوسی انکل کے گھر گئے ہوں گے تو دیکھا ہوگا کہ ان کے گھر کی بناوٹ آپ کے گھر جیسی ہونے کے باوجود بھی ان کا گھر صرف پیڑ پودوں کی وجہ سے کتنا مختلف لگ رہا ہے۔ کسی بلڈنگ یامکان کا نقشہ تیار کرنا ایک بات ہوتی ہے اور اُس نقشے میں رہنا اور بسنا ذرا الگ بات ہوتی ہے۔

 فنکاری میں آج ہم ایک ایسے Architects  کی بات کریں گے جو بال کرشنا دوشی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کی بنائی ہوئی Buildings ہندوستانی ثقافت، سادگی اور عوام کی عمدہ طور پر عکاسی کرتی ہیں۔ اُمنگ میں ہم نے پہلے بھی کئی بار یہ بات دہرائی ہے کہ یہاں سائنس، سماجیات، تاریخ اور آرٹ پر کچھ نہ کچھ پڑھنا ایک بات ہوتی ہے اور خود سے برتنا الگ بات ہوتی ہے۔ فنکاری میں اگر ہم میوزیم اور ثقافتی سرگرمیوں کے بارے میں لکھتے ہیں تو اِس خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی آپ خود ان Activitiesکا حصہ بنیں، اس لیے اکثر موضوعات میں کچھ خالی جگہیں اس لیے چھوڑی جاتی ہیں تاکہ آپ انھیں اپنے Experienceسے پورا کرسکیں اور بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔ تو بی۔ وی۔ دوشی کی بات سے پہلے گھر کے نقشے بنانے کی بات ہورہی تھی۔

 آپ نے یہ بھی ضرور دیکھا ہوگا کہ کیسے آپ کے اسکول کی بلڈنگ کا کوئی نیا حصہ بننا شروع ہوا۔ سیمنٹ، ریت اور اینٹ پتھر وغیرہ آگئے اور پیچھے پیچھے مزدوروں کی ایک قطار جو چند مہینوں میں ہی اِن سب سامان سے ایک عمارت کھڑی کردی جاتی ہے،مگر اصلی جان تو تب پڑتی ہے جب وہاں انسان آتا ہے، آپ جیسے ساتھی آتے ہیں، تب اُس بنی ہوئی جگہ کا نقشہ انسانی موجودگی سے جیسے بدل سا جاتا ہے اور عمارت ’زندگی‘ بولنے لگتی ہے، مگر ایک کامیاب عمارت کا تصور کرنا ہی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اب یہاں کامیاب کو مختلف طرح سے پڑھا جاسکتا ہے یا سمجھا جاسکتا ہے اور بی وی دوشی کی عمارتوں میں وہ سارے عناصر ملتے ہیں جن کی ہم بات کرنے جارہے ہیں۔

پہلا تو Durabilityہے یعنی عام زبان میں ’’ٹِکنا‘‘ سمجھ لیجیے کہ جناب بارشیں آئیں، تیز دھوپ اور پھر سردیاں بھی ہوئیں مگر عمارت اپنی جگہ ٹِکی ہوئی ہے۔ پھر آتا ہے Utilityکہ عمارت قاعدے سے کام کررہی ہے یا نہیں جیسے چھت بہت اوپر یا نیچے تو نہیں کردی، کیا صدر دروازہ کھلتے ہی کچن کے دروازے سے ٹکراتا ہے یا نہیں وغیرہ اور پھر تیسرا آتا ہے Beauty، جی جی خوبصورتی! تو گھر میں خوبصورتی بڑھانے کے لیے مختلف چیزوں سے آپ واقف ہی ہیں۔ یہاں بس ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ ضروری نہیں کہ گھر میں بہت سی چیزیں لاکر اُسے خوبصورت بنایا جائے بلکہ چیزوں کو گھر سے کم کرکے بھی اُسے اچھا بنایا جاسکتا ہے، لیکن ٹھہریے! اپنے اسکول کا بستہ نہ کم کردیجیے گا۔ جی جی مذاق ہی کررہے ہیں۔ آپ ماشاء اللہ سمجھدار ساتھی ہیں۔ کم کرنے سے مراد غیر ضروری چیزوں کو کم کرنے سے ہے۔

ہاں بات ہورہی تھی بی ۔وی۔دوشی کی تو ایک بار انھوں نے ڈیزائن کی ایک سیدھی سی تعریف بیان کی کہ ’’اصل میں ڈیزائن اور کچھ نہیں بس materialsکی ایک عاجزانہ سمجھ ہے ، ایک طرح کی قدرتی قابلیت جو مشکلات کو حل کرسکے اور ساتھ ہی قدرت کا احترام‘‘۔ تو بی وی دوشی کی یہ بات قدرت کا احترام ڈیزائن میں ضروری ہے جو ان کی تمام تر عمارتوں اور زندگی کی فلاسفی میں جھلکتا ہے۔

 ہم یہ مضمون شروع تو یہاں سے بھی کرسکتے تھے کہ بال کرشن وٹھالا داس دوشی ۲۶؍اگست ۱۹۲۷ء کو پونا کے ایک گجراتی گھرانے میں پیدا ہوئے، مگر یہاں ہم اس بات پر زیادہ دھیان دیں گے کہ ان کے کام کا انداز کیا تھا؟ کس طرح کے خیالات اور ماحول ایک Creativeذہن کا سانچہ ڈھالتے رہے؟ تو زندگی کے سال در سال کی تفصیلات آپ کو یہاں ذرا کم ملیں گی، پھر بھی بتاتے چلیں کہ ان کا بچپن بہت آسان نہیں گزرا تھا۔ ماں کو بہت قریب سے انھوں نے نہیں دیکھا اور والد صاحب کی قربت سے بھی دور رہے بلکہ ان کے دادا اور خالائوں نے انہیں پالا۔ ۱۱ سال کی عمر میں وہ آگ کی زد میں آگئے اور یہ حادثہ اتنا خطرناک تھا کہ تمام عمر چلنے میں ذرا سی پریشانی رہی۔

 ہندوستان کی آزادی والے سال یعنی ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۰ تک آپ ممبئی کے جے جے اسکول آف آرٹ میں تعلیم حاصل کرتے رہے اور پھر یورپ   چلے گئے اور وہاں ان کی ملاقات ہوئی لی کوربوزیر (Le Corbusier)سے۔ تو جب بی ۔وی۔ دوشی ان محترم سے ملے تو اس وقت ان کے پاس کام کا کوئی لمبا چوڑا تجربہ نہیں تھا اور ایک طرح کے ذاتی خط نے دوشی کی راہ آسان کردی۔آپ کو بتادیں کہ لی کوربوزیرModern Architectureکے سب سے اہم لوگوں میں سے ایک مانے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کی ڈیزائن کی ہوئی عمارتیں ہیں۔ بلکہ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ چنڈی گڑھ شہر کو Le Corbusierنے ڈیزائن کیا ہے، جن کو دوشی نے اپنا گُرو مانا اور ان کے ہی ہندوستان میں چل رہے پروجیکٹ پر کام کرنے کے لیے دوشی ہندوستان لوٹے۔ دوشی نے چنڈیگڑھ میں بھی کام کیا اور احمدآباد میں بھی مصروف رہے بلکہ خود ان کے سب سے اہم کام یہاں موجود ہیں جن کا ہم آگے ذکر کریں گے۔

احمد آباد میں انھوں نے ایک اور بہت بہترین معمار اور استاد کے ساتھ آئی آئی ایم (Indian Institute of Manangment)کی بلڈنگ پر دس سال تک کام کیا۔ اس کو بنایا تھا لوئس کاہن (Louis Kahn)نے۔ اب یہاں دل تو یہ کررہا ہے کہ آپ کو Louis Kahnاور Le Corbusierکے بارے میں بتائیں مگر پھر یہ مضمون دس صفحات پر پہنچ جائے گا اور پھر آپ بور بھی ہونے لگیں گے تو ان دونوں شخصیات کے کام پر پھر کبھی بات ہوگی ۔ تو ہاں بی ۔وی ۔دوشی کو ایسے اساتذہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جنھوں نے دنیا بھر میں کام کیا تھا اور اپنے آرٹ کو، اپنے کرافٹ کو عمدہ طریقے سے سمجھتے تھے۔

بی۔ وی۔ دوشی صرف معمار ہی نہیں تھے بلکہ تعلیم و تصانیف میں بھی دخل رکھتے تھے۔ احمدآباد کے School of Architectureکے وہ بانی اور ڈائریکٹر رہے۔ School of Planning اور CEPT Universityسے لے کر نئی دِلّی NIFTاور IIMبنگلور میں بھی خوب کرتے رہے۔ انھیں Juryکے طور پر دنیا بھر میں بلایا جاتا رہا اور ایوارڈ کی بات کریں تو ۱۹۷۶ء میں پدم شری، ۲۰۱۸ء میں پرٹزکر پرائز  (Pritzker Prize)(پرٹزکر پرائزجو Architectureکی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز مانا جاتا ہے اور اسے حاصل کرنے والے وہ پہلے ہندوستانی ہیں)پھر ۲۰۲۰ء میں پدم بھوشن اور ۲۰۲۲ء میں Royal Riba Gold Medalسے نوازا گیا۔ بی۔ وی۔ دوشی ۲۴؍جنوری ۲۰۲۳ء کو دنیا سے رخصت ہوئے اور ۹۵ سال کی عمر پائی۔    اس طویل عرصے میں ۱۰ سال سے زیادہ کا عرصہ ان کا لگاتار کام کرتے معماری کے فن کو پرکھتے ہوئے، جانچتے ہوئے ، طالب علموں میں بانٹتے ہوئے گزرا۔

جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ یہ مختصراً ملاقات ایک طرح سے آپ کے لیے ایک چھوٹی سی کھڑکی ہے جس سے آپ اپنے طور پر دور تک دیکھ سکیں اور خود کھنگال سکیں ، خود کو نیا کچھ سِکھا سکیں۔ بی ۔وی۔  ۹۰ سال کی عمر میں بھی کہتے تھے کہ ’’میں بچے کی طرح ہوں جسے کچھ نیا جاننے اور سیکھنے کی جستجو رہتی ہے۔‘‘ دوشی کہتے تھے کہ ’’عمارت چار دیواری تک محدودنہیں رہتی ہے، صرف انسان ہی اُس میں نہیں رہتا یا جیتا ہے ، عمارت خود بھی جیتی ہے۔‘‘

بچپن میں وہ Joint Familyمیں رہتے تھے تو انھوں نے دیکھا کہ کیسے گھر میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہوتی رہتی تھیں۔ کسی کی شادی ہوگئی تو چھت پر کمرہ بن گیا، بچے چھوٹے چھوٹے ہیں تو جنگلے کی ریلنگ بڑھا دی اور ہریالی کے لیے گملے آگئے، پھول آگئے اور جب وہ خود بڑے ہوئے تو اِن چیزوں کا خیال انھوں نے اپنی Buildingsمیں بھی رکھا۔ کہ اگر townshipتیار کی ہے تو آگے چل کر وہاں اتنی گنجائش ہو کہ کچھ نیا بھی تعمیر کرسکیں۔ Aranya Low Cost Housing اندور اس کی عمدہ مثال ہے۔ اس کے علاوہ اِترا ہائوسنگ (احمدآباد) میں موجود Tagore Hallاور LIC HousingاحمدآبادCEPTجو Architectureاسکول ہے اور خود ان کا Studioجس کا نام سنگت ہے ان کے کاموں میں خاص ہیں بلکہ آپ آن لائن بھی ان کی بنائی بہت ساری عمارتیں دیکھ سکتے ہیں مگر عمارت کو دیکھنے کا اصل مزہ اس میں جاکر ہے۔ تو کبھی موقع ہوگا تو ضرور جائیے اور کیا پتہ آج سے بہت سال بعد آپ ساتھیوں میں سے ہی کوئی ایک عمدہ معمار نکل آئے ، لیکن بس یہاں ایک بات یہ بھی ہے کہ فنِ تعمیر اور اس کے نتیجے سب کے لیے ہوتے ہیں، سب ہی اُس سے اثر انداز ہوتے ہیں اور سب ہی اُس کو Enjoyکرنے اور برتنے کا حق رکھتے ہیں۔

جاتے جاتے آپ کو بتادیں کہ بچپن میں آگ کے حادثے کے بعد بی وی دوشی کوئی چھ مہینے صرف بستر پر ہی رہے اور وہ بتاتے ہیں کہ ایسے میں بھی دیکھتا تھا کہ کیسے کھڑکی سے دھوپ آتی ہے، کیسے دن رات میں بدلتا ہے اور ایک ہی گھر ایک ہی دیوار روشنی کے بڑھنے گھٹنے سے اتنا مختلف لگتا ہے اور آپ دیکھیں گے کہ یہ قدرتی روشنی اُن کے کام میں بہت نمایاں ہے۔

مشہور فنکار مقبول فدا حسین کے ساتھ بھی انھوں نے ایک دلچسپ کام کیا ہے جس کا ذکر آنے والے کسی شمارے میں کریں گے ۔ابھی ان کی اس بات سے ملاقات ختم کرتے ہیں کہ ’’عمارتیں انسانوں سے کوئی کم مختلف نہیں، اگر کھڑکیاں آنکھیں ہیں اور چھت سر کی طرح ہے تو گھر میں اندر آنے والی ہوا اور روشنی گھر کی روح ہے اور روح کا خیال رکھنا بہت اہم ہوتا ہے۔‘‘

P-123, 1st Floor, Gali No.1, Pahalwan Chowk,

Nafees Road, Jamia Nagar, New Delhi-110025

Mob.: 8860451938

 

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...