Wednesday, June 14, 2023

تدوین متن کی روایت: آزادی کے بعد

  تدوین متن کی روایت: آزادی کے بعد



مؤلف : صابر علی سیوانی

ضخامت : ۸۳۲

 قیمت : ۸۰۰؍روپے

ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی

صابر سیوانی جہاں تنقیدو تحقیق کا اہم نام ہے وہیںادب و صحافت سے ان کا رشتہ بڑا گہرا ہے۔انھیں منفرد، اچھوتے اور جدید موضوعات پر کام کرنے میں لطف آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت جلد انھوں نے تصنیف و تالیف کے نقشہ میں اپنی پہچان قائم کرلی ہے۔ وہ پرانی قدروںکے امین، قدیم روایتوں کے علم برداراور کلاسیکی منہاج ومعیار کے پرستار ہیں اور اردو زبان و ادب کی اسی انداز و اطوار میں اصلاح و فروغ کے لیے کوشاں بھی رہتے ہیں۔ ان کی فکر و سوچ کامحور صحیح اردو دانی کا فروغ اور اغلاط سے پاک اردو لکھنے والوں کی قدر شناسی اور ان کی حوصلہ افزائی رہا ہے۔

ان کی تازہ ترین اور ضخیم ترین کتاب’تدوین متن کی روایت:آزادی کے بعد‘ ہے،جس میں انھوں نے اردو میں تدوین متن کی روایت کا عہد بہ عہد مبسوط جائزہ لیا ہے اور مختلف اہم مدونین متون کے حوالے سے مفصل و مطول بحث کی ہے۔پروفیسر بیگ احساس کے قلم سے پیش لفظ اور مصنف کے قلم سے ابتدائیہ کے بعد درج ذیل ابواب میں کتاب کو منقسم کیا گیا ہے۔باب اول:تدوین متن کے ابتدائی نقوش، اس باب میں تدوین متن کی تعریف،آیات قرآنی کی جمع آوری اور احادیث کی تدوین کے ساتھ ام الالسنہ عربی اور فارسی زبانوں میں تدوین متن کی روایت کا جائزہ لیاگیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اردو میں تدوین متن کی روایت کی بنیاد تدوین حدیث کے اصول و مبادی پر رکھی گئی ہے۔ باب دوم:اردو میں تدوین متن کی روایت ہے، جس میں انھوں نے اردو میں تدوین متن کی روایت کا عمومی حال احوال رقم کیا ہے اور لکھا ہے کہ اردو میں تحقیق و تدوین متن کی روایت فورٹ ولیم کا لج اور دہلی کالج سے پہلے نظر نہیںآتی، یہ دونوں ادارے تحقیق کی بابت زینۂ اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔انھوں نے اس باب میں سر سید احمد خاں سے لے کر موجودہ عہد تک کے مدونین کی خدمات کا بسیط جائزہ پیش کیا ہے۔ باب سوم:تدوین متن کی روایت آزادی سے قبل ہے، اس باب میں انھوں نے چند اہم مدونین متن کی تدوینات کے حوالے سے بحث و مباحثہ کیا ہے۔ وہ چند اہم مدونین یہ ہیں۔ بابائے اردومولوی عبد الحق، حافظ محمود شیرانی، امتیاز علی خاں عرشی، پروفیسر عبد القادر سروری۔ کتاب کا باب چہارم ہے:تدوین متن کی روایت آزادی کے بعد، جواس کتاب کا اساسی اور بنیادی موضوع ہے اور جس کے دائرے میں انھوں نے آزادی کے بعد کے اہم اور منفرد اور روایت سازمدونین متن کی خدمات اور ان کے دائرۂ کار کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا اور ان کاناقدانہ احتساب کرتے ہوئے ان کی خوبیوں اور خامیوں کی طرف صریح اور واضح اشارے کیے ہیں۔اس باب میں انھوں نے مسعود حسن رضوی ادیب، قاضی عبد الودود، پروفیسر مسعود حسین خان، مالک رام، ڈاکٹر جمیل جالبی، پروفیسر نور الحسن ہاشمی، پروفیسر نذیر احمد، خلیق انجم، پروفیسر سیدہ جعفر، مختار الدین احمد آرزو، نثار احمد فاروقی، رشید حسن خان اور پروفیسر حنیف نقوی کی تدوینی خدمات کا مفصل تجزیہ پیش کیا ہے، اس باب میں انھوں نے بے باکانہ انداز میں خامیوں کی گرفت کی ہے اور جہاں جہاں انھیں خوبیاں نظر آئی ہیں ان سے گریز نہیں کیا ہے،بلکہ ان کا بھی خلوص دل سے اعتراف کیا ہے۔باب پنجم حاصل مطالعہ ہے جس میں پوری کتاب کی تلخیص پیش کی گئی ہے اور یہ بتایا ہے کہ انھوں نے اپنی تحقیقی پیش کش میں کن امور و نکات کی پابندی کو مشعل راہ بنایا ہے۔

صابر علی سیوانی نے اردو کے تقریباً تمام اہم مدونین کے کارناموں کا بسیط جائزہ اس کتاب میں پیش کیا ہے اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے تکملہ اور تتمہ کے طور پر اپنی رائے بھی پیش کی ہے۔پروفیسر سیدہ جعفر اپنے عہد کی نامور محقق، مدون اور تنقید نگار شمار کی جاتی ہیں، انھوں نے بھی بہت سے کلاسیکی متون کی بازیافت کرکے انھیں اپنے طویل و بسیط اور پر از معلومات مقدمے کے ساتھ شائع کروایا۔ شاہ تراب کی منظوم تصنیف’من سمجھاون‘کو۶نسخوں کی مدد سے اپنے عالمانہ مقدمہ کے ساتھ مدون کرکے اشاعت کے مرحلے سے گزارا، مگر ان سے بھی بہت سے امور کی تکمیل میں تسامح ہوا ہے۔لکھتے ہیں: ’’مرتب متن نے اس مخطوطے کے خط کے بارے میں،روشنائی کے متعلق کچھ بھی وضاحت نہیں کی ہے اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ مخطوطہ کس سائز کا ہے۔ اس کی چوڑائی لمبائی کتنے انچ پر مشتمل ہے۔ خوش خط ہے یا بد خط۔ حالاں کہ ان تمام چیزوں کی وضاحت مرتب متن کے لیے ضروری ہوتی ہے۔‘‘(ص:۵۸۳)

وہیں اپنے عہد کے مشہور محقق و مدون رشید حسن خان کے حوالے سے، جنھیں خدائے تدوین کہاجاتا ہے،ان کی بڑی تعریف کی ہے : زیر نظر کتاب بڑی محنت و عرق ریزی اور جاں فشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھی گئی ہے،ایک ایک صفحہ سے ان کی دیدہ ریزی مترشح ہوتی ہے، اسی لیے ان کے نگراںپروفیسر بیگ احساس نےبھی ان کے کام کو سراہا ہے۔ 

صابر علی سیوانی کی زبان بہت ہی صاف شفاف اور رواں ہے۔ تحقیق و تدوین کی زبان میں جس قدر سنجیدگی، ضبط و سکون اور متانت و دیانت ہونی چاہیے وہ ہر لفظ اور ہر سطر سے نمایاں ہے۔ ان کی نثر سادہ تو ہے، مگر وہ ادبیت سے مملو ہے، وضاحت و صراحت اور قطعیت ان کی نثر کی پہچان ہے۔ 

امید ہے کہ ان کی دیگر کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی علمی حلقوں میں پسند کی جائے گی اوراس سے مصنف کو دیگر علمی و تحقیقی کاموں کی تکمیل کی تحریک و ترغیب ملے گی۔ 

ابرار احمد اجراوی

مقام و پوسٹ اجرا، وایا رایم ،فیکٹری، ضلع مدھوبنی-847337، بہار


No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...