Monday, June 5, 2023

ذوق کی شاعرانہ عظمت

ذوق کی شاعرانہ عظمت

ڈاکٹر زیبا ناز

ذوق کا شمار اردو ادب کی ان عظیم شخصیتوں میں ہوتا ہے جن کے ذریعہ تاریخ و تہذیب کی ایک خاص انداز سے نمائندگی ہوتی ہے۔ حالانکہ انھوں نے کچھ نیا نہیں کیا۔ چیزوں کو دیکھنے کا نظریہ ان کا الگ نہیں ہے۔ اردو میں روایت کا سلسلہ عام رہا ہے۔ کہیں نہ کہیں ذوق بھی اس روایت کی پاسداری کرتے نظر آتے ہیں۔ اردو ادب میں ایسی مثال شاید ہی ملے کہ ایک ہی شخص نے اپنے استاد اور شاگرد دونوں سے یکساں فیض حاصل کیا ہو۔ ذوق نے ایک طرف شاہ نصیر کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا تو دوسری جانب بادشاہ وقت بہادر شاہ ظفر کی استادی کا شرف حاصل کیا۔ جس کی وجہ سے انھیں بیحد شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ بہر حال ذوق ؔکی علمی شناخت اور ادبی امتیازات کا ایک بڑا حصّہ ان کے قصیدوں سے وابستہ ہے۔ وہ اردو کے بہترین قصیدہ نگار ہیں۔ انہوں نے اپنے قصیدوں میں اردو زبان کو ایسی وسعت عطا کی کہ ایک طرف ان کے فیضان سے داغؔ کا تیکھا پن، شوخی، بانکا لہجہ اورشیرینی ظہور میں آئی تو دوسری جانب محمد حسین آزادؔ نے ذوق ؔکی زبان اور ان کے تشبیہات و استعارات، متانت و شگفتگی اور نئے اسلوب نگارش و مضامین سے اپنی نظموں کو مزیّن کیا۔ زبان اور محاورے کے تو ذوق بادشاہ ہیں۔ اپنے استاد کے بارے میں محمد حسین آزاد ’’آب حیات‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’کلام کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مضامین کے ستارے آسمان سے اتارے ہیں۔ انھیں قادرالکلامی کے دربار سے ملک سخن پر حکومت مل گئی کہ ہرقسم کے خیال کو جس رنگ سے چاہتے ہیں کہہ جاتے ہیں۔ ان کے مضمون کی باریکی کو ان کے الفاظ کی لطافت جلوہ دیتی ہے، ان کامضمون جس طرح دل کو بھلا معلوم ہوتا ہے اسی طرح پڑھنے میں زبان کومزہ آتا ہے۔ ان کے لفظوں کی ترکیب میں ایک خداداد چستی ہے جو کلام میں زور پیدا کرتی ہے۔ وہ زور فقط ان کے دل کا جوش ہی نہیں ظاہر کرتا ہے بلکہ سننے والے کے دل میںایک خروش پیدا کرتا ہے اور یہی قدرتی رنگ ہے جو ان کے کلام پر سودا کی تقلید کا پرتو ڈالتا ہے۔‘‘

ملک الشعرا شیخ محمد ابراہیم نام، ذوقؔتخلص، والد کا نام شیخ محمد رمضان تھا۔ جو ایک غریب سپاہی تھے، کابلی دروازہ دہلی میں رہتے تھے اور نواب لطف علی خاں کی سرکار میں ملازمت کرتے تھے۔ نواب نے انھیں بالیاقت اور با صلاحیت دیکھ کر اپنی حرم سرا کے کاروبار سپرد کردیے تھے۔ ذوق ان کے اکلوتے بیٹے تھے، شیخ رمضان کو کیا خبر تھی کہ ان کے یہاں ایک ایسا نونہال جنم لےگا جو ایوان ادب کے طاقوں کو اس طرح روشن کرےگا کہ ان کی روشنی پورے عالم کا احاطہ کرے گی۔

’’ذوق ؔ۱۲۰۳ھ مطابق ۱۷۸۹ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حافظ غلام رسول شوق ؔسے حاصل کی جو ذوقؔ کے گھر کے پاس رہتے تھے۔ غلام رسول شاعرتھے اور شوق ؔتخلص کرتے تھے انہی کے مکتب میں ذوقؔ کو شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ ابتدائی کلام کی اصلاح بھی حافظ غلام رسول سے ہی کرائی۔ بعد میں شاہ نصیرؔ کے شاگرد ہوئے۔ شاہ نصیر ؔ نہایت قادرالکلام شاعر اور جیّد عالم تھے۔ مشاعروں کی محفلوں کے وہ بادشاہ تھے۔ چند ذاتی وجوہ کی بنا پر شاہ نصیر ؔ سے ذوق ؔکارشتۂ شاگردی منقطع ہو گیا تو ذوقؔ نے خود مشق شروع کر دی۔ کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ شاعری کے علاوہ دیگر علوم جیسے علمِ نجوم،علمِ رمل اور موسیقی وغیرہ پر بھی مہارت رکھتے تھے۔‘‘

(آبِ حیات مولانا محمد حسین آزاد،ص:۴۲۱)

ان کے محلے میں نواب سید رضی خاں کے بھانجے میر کاظم حسین ذوق کے ہم عمر و ہم مکتب تھے ۔بیقرؔار تخلص تھا۔میر کاظم حسین بیقرؔار کی وساطت سے ذوقؔ کی رسائی بادشاہِ وقت بہادر شاہ ظفرؔ تک ہوئی ،یہ تائید غیبی اور میرکاظم حسین کا فیضان قربت تھاکہ بہادر شاہ ظفر ؔنے ذوقؔ کی قابلیت سے متاثر ہو کر انھیں استادی کا شرف بخشا جو تا دمِ آخر قائم رہا۔ در حقیقت صلاحیت بھی تبھی کارگرثابت ہوتی ہے جب اسے صحیح راہ اور قدردان مل جائیں، چنانچہ دونوںکو ایک دوسرے سے فیض حاصل ہوتا رہا، لیکن اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ ذوقؔ نے اپنے کلام پر بادشاہ وقت کا نام ثبت کر دیا۔ بقول مولانا محمد حسین آزاد، ؔظفر ؔکے چاروں دیوان کلامِ ذوقؔ سے روشن ہیں۔ آبِ حیات میں شیخ محمد ابراہیم ذوقؔکے بارے میں لکھتے ہیں:

’’بادشاہ کے چاروں دیوان میں پہلے کچھ غزلیں شاہ نصیر ؔ مرحوم کی اصلاحی ہیں، کچھ کاظم حسین بیقراؔر کی ہیں۔ غرض دیوان نصف سے زیادہ اور باقی دیوان سر تا پا حضرت مرحوم ذوق ؔکے ہیں‘‘۔

(مرزا غالب ؔکا ایک با کمال معاصر : ذوقؔ دہلوی۔ ایوانِ اردو دہلی ۱۹۹۹ ء،ص:۱۲)

بہادر شاہ ظفرؔ کے استاد ہونے کی وجہ سے ذوقؔ کی شہرت بھی طشت از بام ہو گئی۔ بادشاہ کا استاد ہونا کوئی معمولی بات نہیںاورظفرؔ اپنے استاد کی بہت عزت کیا کرتے تھے ۔ قصیدوں کے صلہ میں انھوں نے ذوق ؔکو جاگیرکے علاوہ بیش قیمت انعام و اکرام بھی عطا کیے۔ جس سے عرصۂ دراز تک وہ مستفید ہوتے رہے نیز ان کو خاقا نیِ ہند اور ملک الشعرا کے خطاب سے بھی سر فراز کیا گیا۔ اس بابت ذوق ؔکی قربانیاں زیادہ تھیں کیونکہ ’’شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا‘‘۔

ظفر ؔ کے علاوہ ذوق ؔ کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد رہی۔ ان میں نواب مرزا خاں داغ دہلوی ؔ اور مولانا محمد حسین آزاد ؔ مشہور ہیں۔ ان تینوں نے استاد کے نام کو خوب روشن کیا اور تینوں ہی اپنے اپنے میدان کے بہترین کھلاڑی تھے۔ حسن اتفاق مومنؔ اور غالبؔ ان کے ہمعصر تھے۔ حالات کی مساعدت اور قسمت کا کمال انسان کوکہاںسے کہاں لے جاتا ہے۔ ایک غریب سپاہی کی اولاد اور بادشاہ وقت کا استاد، اس میں ذوقؔ کے علم و فضل اور مشق سخن کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔ انؔ کی تمام عمر ادبی کاموں اور مشاعروں کی سرگرمیوں میں بسر ہوئی۔ ۲۴ صفر ۱۲۷۱ھ مطابق ۱۸۵۴ء جمعرات کے دن ۱۷روز کی قلیل مدت کی علالت کے بعد دہلی میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔ انتقال سے تین گھنٹے قبل انھیں اپنی موت کا یقین ہو چلاتھا چنانچہ یکایک زبان سے یہ شعر صادر ہوا:

کہتے ہیں ذوقؔ آج جہاں سے گزر گیا

کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے

ذوق ؔ نے قصیدہ گوئی کے فن کو فروغ بخشا۔ اگرچہ سوداؔ پہلے شاعر ہیں جو اس فن کے استاد ٹھہرے، سودؔاکے بعد اس فن کے بادشاہ کہلائے۔ ذوقؔ کی طبیعت کا میلان بھی اسی صنف کی جانب تھا لہٰذا ان کی غزلوں میں وہ شان و شوکت نظر نہیں آتی جو قصیدوں میں ہے۔ قصیدوں نے انھیںبقائے دوام بخشی۔ ان میںالفاظ کی شان وشوکت، ترکیبوں کی دلآویزی اور بندش کی چستی کمال درجہ کی ہے۔ کلام میں سلاست، روانی اور برجستگی ہے حالانکہ مضامین اور موضوعات کی ندرت کا فقدان ہے لیکن زبان کی ندرت اور تیکھالہجہ انوکھاہے۔ وہ محاوروں کو اشعار میں پیوست کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور اس آب و تاب کے ساتھ استعمال کرتے ہیں جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ اردوزبان کے تو وہ شہنشاہ ہیں۔ انھوں نے زبان کی اصلاح کے سلسلے میںجو کام کیااس کی نوعیت وہی ہے جو ناسخؔ کی خدماتِ زبان وبیان کی ہے۔ البتہ اس میں بھی ذوقؔ کااپنا ایک امتیازی وصف اور انفرادی اسلوب ہے۔ ناسخؔ کی اصول پسندی نے زبان کو جن دستوری پابندیوں میں جکڑ کر عام بول چال کی زبان سے دور اور لطف وشیرینی سے محروم کردیاتھا اس کے برعکس ذوقؔ نے اپنی ضابطہ پسندی اورسعی واصلاح کے باوصف زبان کے فطری لوچ اور لچک کالحاظ رکھا اور اس میں سلاست ،روانی اور گھلاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی جس نے ان کے لب ولہجہ کو معاصرین کے مقابلے میں زیادہ نرم، شیریں اور دل آویز بنادیا۔

ذوق ؔ نے بے شمار قصیدے لکھے، لیکن ان کے تمام قصائد کا پتہ نہیں ملتا۔ صرف پچیس طبع شدہ قصائد منظرِ عام پر آسکے جبکہ ان کی ساری زندگی قصیدہ نگاری میں گزری۔ بچپن سے انھیں قصیدہ نگاری سے خاص رغبت تھی۔ ابتدائی قصیدوں میں طبیعت کی روانی، احساس کا فطری پن، خیال کی شگفتگی اور نزاکت ہے۔ جیسے جیسے مشق سخن بڑھتی گئی اور ذوق ؔزمانے کے نشیب وفراز سے دوچار ہوتے گئے، کلام میں بتدریج زور اور پختگی بڑھتی گئی۔ انھوں نے اصطلاحاتِ علمی سے اردو قصیدے کو مالا مال کیا اور سیکڑوں غیر مانوس اور ثقیل الفاظ کو شعری پیرایۂ بیان کی زیب و زینت بنایا۔ ’’ذوق ؔکے یہاں علمی اصطلاحات کی کمی نہیں ہے، اردو قصیدوں میں وہ اس فن کے امامِ اعظم ہیں۔‘‘

(اردو قصیدہ نگاری کا تنقیدی جائزہ۔جامعہ مکتبہ)

۱۱۷؍ اشعار پر مشتمل ان کا مشہور قصیدہ:

شب کو میںاپنے سربسترخوابِ راحت

نشۂ علم میں سر مستِ غرور و نخوت

اصطلاحات سے ذوقؔ کو گہری واقفیت تھی۔ اس وصف کو ان کے اختراعاتِ شعری میں شمار کیا جاتاہے۔ انھوں نے اپنے قصیدوں میں اخلاقی موضوعات کو خاص جگہ دی اور غیر اخلاقی موضوعات سے گریز کیا، نہ تو کسی کی ہجو کی اور نہ ہی اپنا قبلہ بدلا۔ ان کے ممدوح مغل بادشاہ اور حمیدالدولہ و مرزا شاہ رخ ہیں۔ سلطنت ِعظمیٰ جس سے داد و دہش کی امید کی جا سکتی تھی۔ وہ ان کے زیرِ فرماں والیانِ ریاست یا امرائے مملکت سے ممکن نہیں تھی۔ ذوقؔ کو بھی ضروریاتِ زندگی سے زیادہ کی ہوس نہ تھی۔ اس آئینہ میں ہم ذوقؔ کے تصوراتِ ادب کی تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں اور بلا شبہ اس تکمیلِ فن کے احساس نے ان کو قصیدہ نگاری پر مائل کیا ۔

ذوقؔ کو سوداؔ کے بعد اردو کا سب سے بڑا قصیدہ گو تسلیم کیا گیا ہے جبکہ ادوار کی مناسبت سے دیکھا جائے تو ذوقؔ انشاؔ کے بعد آتے ہیں اور انھوںنے ان دونوں قصیدہ نگاروں سے گہرا اثر قبول کیا اگرچہ ان کے اساتذہ کی فہرست میں اور نام بھی شامل ہیں جن میں شاہ نصیرؔ کو عالم طفولیت میں اولیت حاصل رہی۔ شاہ نصیرؔکی قربت اور ہروقت کی صحبت نے ذوقؔ کو فطری طور پر شاعری کا میدان بخشا۔ شاہ نصیرؔ،سوداؔ اور انشاؔ کے علاوہ دردؔ اور مصحفیؔ سے بھی انھوںنے فیض حاصل کیا۔

ذوقؔ نے فنی اعتبار سے قصیدہ کے تمام اجزائے ترکیبی مثلاً مطلع یا تشبیب، گریز ، مدح اور دعا وغیرہ کا بھی بڑی فنی لیاقت اور چابک دستی سے اہتمام کیا ہے۔ قصیدے کے لوازمات میں مطلع سب سے پہلا اور اہم حصہ ہے۔ ذوقؔ کا اسلوب نگارش اور شعر کہنے کا انداز مطلع میں نمایاں ہے وہ مطلعے بڑی شان سے لکھے ہیں، مثال ملاحظہ ہو:

شہنشاہ تیرے سر پہ دوراں ، ہے چتر بن بن کے ہوتا قرباں

کہ ہفت اختر بہ ہفت کشور ، ہیں آج یکسر ، مطیع فرماں

وہ ہے ترا اختر ہمایوں کہ ہوکے روشن چراغ گردوں

مدام کانپے ہے شعلہ آسا ، بزیر فانوس چرخ گرداں

مطلع کے بعد تشبیب قصیدہ کا اہم ترین جز ہے۔ ذوقؔ نے قصیدوں میں تشبیب نہایت استادی سے رقم کی ہے ۔ ان کی تشبیبوں میں اگرچہ سودا ؔکا رنگ غالب ہے ۔ایک بہاریہ تشبیب ملاحظہ ہو :

صبح ِسعادت ‘نورِ ارادت‘ تن بن ریاضت‘ دل بہ تمنا

جلوۂ قدرت‘ عالمِ وحدت‘ چشمِ بصیرت‘ محوِ تماشا

مرغِ خوش الحاںبر سرِ بستاں ہر گلِ بستاں خرم وخنداں

گوشِ شقایق محوِ سرود و دیدۂ نرگس مستِ تمنا

خندۂ گل پر ، نشۂ مل پر سروِ چمن پر لطفِ سخن پر

نغمۂ بلبل ‘ نالۂ صلصل ‘ قہقہہ قلقل بر لبِ مینا

درج بالاتشبیب میں ذوق ؔ کی تخیل آفرینی ،خوش اسلوبی،بہترین صورت گری اورفنکاری و برجستگی تمام اوصاف نمایاں ہیں۔ مترنم لہجہ اور رواں الفاظ سے کلام کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے ۔ تصویر کشی، حسن آفرینی اور پیکر تراشی سے ان کا کلام مزین ہے ۔ ان تمام اوصاف کے ہمراہ کلام میں کچھ خامیاں بھی در آئی ہیں جیسے ۔تصنع اور آورد قصیدے میں در آنے سے فطری پن پر اثر انداز ہوئے ہیں اور بعض جگہ غیرمانوس الفاظ و مشکل تراکیب نے کلام میںثقالت پیدا کردی ہے ۔تشبیب کے بعد گریز میں بھی ہمیں ذوقؔ اپنی مشاقی اور طمطراقی کے جوہر دکھاتے نظر آتے ہیں ۔

 ذوقؔ کے یہاں زبان کا چٹخارہ ،روز مرّہ کی صفائی، محاوروں کا برجستہ استعمال،خیال آفرینی،مضمون نگاری، تشبیہات و استعارات اور اصطلاحاتِ علمیہ وغیرہ کا استعمال خوب ہے ۔ ان کے یہاں بعض اوقات تعقید بھی حسن بن جاتی ہے ۔اس میں تازگی اور جدت کا احساس ہوتا ہے ۔زبان پختہ ،رواں اور جامعیت کی تمام تر بلندیوں کو حاصل کر چکی ہے ۔ زبان کی پختگی مشقِ سخن اور قدرتِ بیان کی بہترین مثال ہے ۔زبان کی یہ تمام خوبیاں ان کے یہاں اپنے عروج پر نظر آتی ہیں۔اسی لیے پیروی کرتے ہوئے دہلی اور لکھنؤکے تمام شعرا نے ان کی جانب رجوع کیا ۔وہ بے لطف مضامین اور سنگلاخ زمینوں کے بادشاہ ہیں ،مشکل زمینوں میں انھوں نے نہایت چابکدستی سے شاعرانہ جوہر دکھائے ہیں ۔مضمون کی چستی اور خیالات کی بلندی میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔

رعایتِ لفظی ذوقؔ کے آرٹ کا خاص جز ہے۔ بقول مولانا محمد حسین آزاد ؔ ’’تازگی ِمضمونِ صفائیِ کلام چستی ترکیبِ خوبیِ محاورہ اور عام فہمی ہے لیکن رعایتِ لفظی کے ساتھ آورد کی آمیزش ہے ‘‘۔ شعر ملاحظہ ہو۔ (آبِ حیات مولانا محمد حسین آزاد )

ہوگیا زائل مزاج دہر سے یاں تک جنوں

بیدِ مجنوں کا بھی صحرا میں باقی نہیں پتہ

مزاجِ دہرِ جنوں کے زائل ہونے کے ثبوت میں یہ کہنا کہ بیدِ مجنوں کا بھی پتہ باقی نہیں صرف لفظی گھماؤ ہے ۔ یہاں جنون اور بید میں رعایتِ لفظی کے سوا کچھ نہیں ۔

ذوقؔ کے کلام میں روانی اور ترنم بھی خوب ہے۔ انھوں نے اپنے یہاں تشبیہات و استعارات، صنعت اور روز مرہ محاوروں کا استعمال اس طرح کیا ہے کہ کلام میں روانی اور بہائو کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے، لیکن یہ خوبی ان کے یہاں ہر جگہ نظر نہیں آتی کیونکہ اس میں کہیں کہیں رکاوٹ اور کسک کا بھی احساس ہوتا ہے اور کلام میںثقالت داخل ہوگئی ہے۔ پھر بھی زبان کا چٹخارہ اپنی جگہ مسلم ہے:

ساون میں دیا پھر مہِ شوال دکھائی

برسات میں عید آئی قدح کش کی بن آئی

کوندے ہے جو بجلی تو یہ سوجھے ہے نشے میں

ساقی نے ہے آتش سے مے تیز اڑائی

ذوقؔ کو زبان پر حاکمانہ قدرت حاصل ہے۔ الفاظ کی مرقع کشی اور پیکر تراشی ان کی زبان کا خاص وصف ہے۔ اس وصف میں وہ انشاؔپر بھی فوقیت رکھتے ہیں۔ قصیدوں کا طرزبیان نہایت منجھا ہواصاف اور رواں ہے۔ الفاظ کی بندش، چستی تراکیب اور درستی کے علاوہ اکثر ان الفاظ کا استعمال بھی ملتا ہے جو اب متروک ہیں جیسے ٹک، یاروں، جانِ من وغیرہ وغیرہ۔ ذوقؔ کی زبان کے تعلق سے علامہ برج موہن دتاتریا کیفی نے کہا ہے کہ قصیدہ مرزا رفیع سے شروع ہو کر شیخ ابراہیم پر ختم ہوگیا۔

شاہ اکبر ثانی (بہادر شاہ ظفرؔ کے والد) کو ذوقؔ کی مدح طرازی کا انداز بہت پسند تھا۔ ان کا ایک قصیدہ جس میں اٹھارہ اشعار اٹھارہ مختلف مشرقی اور مغربی زبانوں میں ہیں، سے متاثر ہو کر’’خاقانیِ ہند ‘‘کے خطاب سے نوازا۔’’ حالیؔ کہتے ہیں‘‘ ’’ادنیٰ تامل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جو فن مرزا نے اختیار کیا تھا اس کی تکمیل ان کے زمانے کے خیالات کے موافق زیادہ تر اس خاص صنف یعنی قصیدوں کی مشق و مہارت پر موقوف تھی۔ خود مرزا کا قول تھا کہ جو قصیدہ نہیں لکھ سکتا اس کو شعرا میں شمار نہیںکرنا چاہیے اور اسی بناپروہ شیخ ابراہیم ذوق ؔکوپورا شاعر اور شاہ نصیرؔ کو ادھورا شاعر مانتے تھے ‘‘۔

(یادگارِ غالب ،ص:۳۹۷تا ۳۹۸۔قصیدہ)

ذوقؔ مشاعروں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ ان دنوں مشاعروں میں معرکہ آرائی بھی خوب ہوا کرتی تھی۔ وہ ؔان معرکوں کا جم کر مقابلہ کرتے تھے۔ اسی زمانے میں جبکہ مشاعروں کی سرگرمیاں اپنے پورے عروج پر تھیں، ذوقؔ شاہ نصیر کی شاگردی میں تھے اور دلّی میں شاہ نصیرؔ اور ان کے شاگردوںکا شعرو شاعری پررنگِ سخن چھایا ہوا تھا۔ شاہ نصیرؔکی اپنی بے پناہ صلاحیتیں تھیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان کے رنگ میں لکھنے والے کئی شاگرد بھی ادبی حلقوں کو گرما رہے تھے اور یہ سننے والوں (سامعین) کے مزاج اور مذاق میں رچ بس گئے تھے اور ان کے رنگ ِ سخن کو قبولیتِ عام مل چکی تھی۔ شاہ نصیرؔ کی تربیت اور صحبت نے بہت کم عرصہ میں ذوق ؔ کومشاقی اور قادرالکلامی کی اس منزل پر پہنچا دیا جہاں مشکل سے مشکل زمینوں میں قابلِ دادشعر نکال لینا ان کے لیے معمولی بات تھی۔ شاہ نصیر ؔاور ذوقؔ میں جو معرکہ آرائیاں ہوتیں ان میں فتح کا سہرا ذوقؔ کے سر رہتا، لیکن یہ فتح کن داموں نصیب ہوئی۔ بہ قول عبرؔت گورکھپوری:

قاتل سے انتقام نہیں چاہتا مگر

میں جس کا صید ہوں وہی مرا شکار ہے

’’یعنی جن شاہ نصیرؔ پر ذوق ؔ فتح حاصل کرنا چاہتے تھے انہی کے رنگ کے شکار ہو گئے، بعد کو ضرور بچ نکلے۔ شاعری کے ساتھ کھیلنا خطرے سے خالی نہیں۔ ذوقؔ نے شہرت تو وہ پائی کہ آسمان کو رشک آجائے لیکن ایک بڑی حد تک حقیقی شاعری سے محروم رہ کر۔‘‘

(غالبؔ سے اقبالؔ تک، ایم حبیب خاں، ص: ۳۵)

ذوقؔ کے اشعار میںمضامین پرگرفت، قدرت بیان اورمشقِ سخن کی اچھی مثالیں ہیں، لیکن ان میں اس قسم کی روانی نہیں ہے کہ انھیں ترنم سے پڑھا جاسکے۔ جبکہ ان کے ہم عصر غالب ؔ کی غزلوںمیں ترنم اور داخلیت دونوں ہیں کیونکہ شعر میں موسیقیت داخلیت سے آتی ہے۔ تاہم مضمون آرائی میں ایک روانی پیدا کرکے ذوق ؔ نے اپنے اشعار کو بے لطف ہونے سے بچا لیا:

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر گئے پر نہ لگا جی تو کدھر جائیں گے

کہا جاتا ہے کہ ذوقؔ کے اس شعر پر غالب ؔسر دھنتے تھے۔ دوسرا مصرع یوں بھی مشہور ہے:

’’مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘‘

غالب ؔدوسرا مصرع اس طرح کہتے ۔’’مر گئے ‘‘اور ’’نہ لگا جی‘‘ ان ٹکڑوں میں اردو زبان کی ایک مخصوص شان جھلکتی ہے۔ ذوقؔ نے یہ شعر یونہی کہا ہوگا جیسا اوپر درج ہے۔ ذوق ؔ کا اسلوبِ نگارش اور شعر کہنے کا انداز مطلع میںنمایاں ہے۔ وہ مطلع بہت اہتمام سے کہتے ہیں۔ فراقؔ گورکھپوری کے الفاظ میں ’’ذوق ؔکے کلام کی روانی اور شگفتگی اور اس کی سبک گام و نرم آہنگ ِنشتریت ہمیں پوپ اور ایڈیسن کی یاد دلاتی ہے‘‘۔

(غالب سے اقبال تک ۔ایم حبیب خاں )

’’تمام بول چال کا جو نکھرا روپ ذوقؔ کی غزلوں میں نظرآتا ہے وہ ان کے دیگر ہم عصروں مرزا غالبؔ اور مومنؔ ہی نہیں بلکہ استاد شاہ نصیر ؔاور شاگرد بہادر شاہ ظفر ؔکی غزلوں میں بھی نہیں ملتا‘‘۔

(ایوانِ اردو، ۱۹۹۹ء، دہلی،ص: ۱۳)

ذوق ؔ اخلاقی مضامین قلم بند کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور ان مضامین کی ترجمانی صفائی، شستگی اور پاکیزگی کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایک بہترین نظم میں جو خوبیاں ہونی چاہئیں وہ تمام ذوق ؔکے کلام میں موجود ہیں۔ اپنے خیالات کا اظہار سہل پیرایہ میںکرتے ہیں۔ اسلوبِ نگارش سادہ، مختصر مگر جامع ہے۔ جس میں ظاہری نقوش اور تصنع نہیں ہے جبکہ سودا ؔکے یہاں یہ باتیں اکثر دکھائی دیتی ہیں۔ ذوقؔ کا کلام اس عیب سے پاک ہے:

عزیزواس کو نہ گھڑیال کی صدا سمجھو

یہ عمرِ رفتہ کی اپنی صدائے پا سمجھو

بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو

زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو

نفس کی آمد وشد ہے نماز اہلِ حیات

جو یہ قضاہو تو اے غافلو قضا سمجھو

تمہاری راہ میں ملتے ہیںخاک میں لاکھوں

اس آرزو میںکہ تم اپنا خاکِ پا سمجھو

دعائیں دیتے ہیں ہم دل سے تیغِ قاتل کو

لبِ جراحتِ دل کو لبِ دعا سمجھو

تمہیں ہے نام سے کیا کام مثلِ آئینہ

جو روبرو ہو اسے صورت آشنا سمجھو

نہیں ہے کم زرِ خالص سے زردیِ رخسار

تم اپنے عشق کو اے ذوقؔ کیمیا سمجھو

جن خصوصیتوں کا بیان اوپر کیا جا چکا ہے وہ تمام خصوصیات اس غزل میں موجودہیں۔ خیالات کا اظہار کامیابی کے ساتھ کیا ہے لیکن دل کو وہ سرور میسر نہیں جو اچھی غزل کے تاثر سے حاصل ہوتا ہے۔

ذوقؔ کو بھی اس سے اصل انبساط حاصل نہ ہوسکاکیونکہ وہ ایک مشاق شاعر تھے۔ بقول کلیم الدین احمد ’’ذوقؔ کی مشاقی مسلم ہے۔ اسی مشاقی کی وجہ سے اور اسی کی نمائش میں وہ سنگلاخ زمینوں، مشکل طرحوں میں غزلیں لکھتے ہیں۔ ‘‘

(اردو شاعری پر ایک نظر جلداوّل ،ص:۱۴۴)

ذوق ؔنے تشبیہات سے زیادہ رعایتِ لفظی، حسنِ تعلیل اور مراعاۃالنظیر کا استعمال کیا ہے اور انھیں ان صنعتوں کے برتنے کا سلیقہ بھی خوب آتا ہے۔ روز مرہ زندگی کے تجربات کا حاصل اور نچوڑ ذوقؔ نے اپنے اشعارمیں بڑی دیدہ وری اور بصیرت آفرینی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔محاورے کا استعمال روز مرہ کی صفائی، رعایت ِلفظی، مراعاۃالنظیر، صنعتِ تضاد اور حسنِ تعلیل سے اشعار کو آراستہ کرکے ان کے ظاہری حسن میں اضافہ کرنے کی ذوق ؔ نے بڑی مخلصانہ کوشش کی ہے۔شعر ملاحظہ ہوں:

ہوتا ہے سرسبز کیونکر گلشنِ ہستی میںذوقؔ

داغِ دل دیتا رہا مجھ کو تو وہ گل روئے باغ

(مراعاۃالنظیر)

گر مسلمانی ہے ثابت کفر بھی ہے اے شیخ جی

سمجھو مت زنّارِ تسبیحِ سلیمانی دروغ

(تضاد)

گندم ہے سینہ چاک فراقِ بہشت میں

آدم کو کیا نہ ہوگی محبت وطن کے ساتھ

(حسنِ تعلیل)

ذوقؔ کی غزل میں سوختیت ،ابتذال اور معاملہ بندی سے دوری اور کنارہ کشی کے رجحان نے انھیںدیگر شعرا کے کلام سے جدا کر دیا ہے۔ ان کی شاعری دل کی شاعری ہے یا دماغ کی؟ اس کا جواب جو بھی ہو لیکن صناعی کی لاجواب مثال ہے۔ وہ ایک فنکار شاعر ہیں اور ان کے قصیدے فنکاری کا بہترین مرقع ہیں۔

بہر حال ذوقؔ کی قصیدہ گوئی اور غزل گوئی شاعری اور شعور دونوںاعتبار سے اہمیت رکھتی ہے۔ موضوعات میں عدم وسعت کے باوجود قوتِ فکر، علوّ خیال، وسعتِ مطالعہ، مہارتِ زبان اور قدرتِ بیان کے سہارے اپنے قصیدوں میں بڑی جدت طرازی، اختراع پسندی اور ندرت کاری کا مظاہرہ کیا۔ ان دو اصناف غزل اور قصیدے کے علاوہ مخمس، رباعی، سہرااور ابیات بھی ان کے کلام میں شامل ہیں۔ کچھ مطلعے، اشعار اور فردیات ہیں جو ان کے گمشدہ مقاصد کے آثار و نشانات ہیں۔ ان کے گمشدہ کلام میں نہ جانے کتنے قصیدے ایسے ہوںگے جن کا اب کوئی نشان نہیں ملتا۔

’’ہر جشن میں قصیدہ کہتے تھے اور خاص خاص تقریبیں الگ تھیں۔ اس لیے اگر جمع ہوتے تو خاقانیِ ہند کے قصائداور خاقانیِ شیروانی سے دوچند ہوتے، افسوس ہے کہ عالمِ جوانی کی طبع آزمائی سب برباد ہوئی، جو کچھ رہا ہے وہ چند قصیدے ہیں کہ بڑھاپے کی ہمت کی برکت ہے‘‘۔

(آبِ حیات مولانا محمد حسین آزاد ؔ،ص:۴۸۵)

ان تمام خدمات کے پیشِ نظر ذوقؔ کی صلاحیتوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ وہ ایک استاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور سودا ؔکے بعد وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اس صنف کے معیار کو قائم رکھا اور تمام عمر اس کی خدمات میں صرف کردی۔ لہٰذا اس اعتراف کی ضرورت ہے کہ ہماری تنقید نے گزشتہ نصف صدی میں جس طرح دبیز لہجہ کے تہہ دار علامتی اور استعاراتی اسلوب کے نمائندہ شاعروں پر اپنی ساری توجہ صرف کردی۔ اس لحاظ سے اردو کلاسیکی شاعری کے بہت سے نمائندہ شعرانا انصافی اور بے توجہی کا شکار ہوگئے۔ اب خوش آئند بات یہ ہے کہ اردو شعریات کی بازیافت کی کوشش کے ساتھ ذوق ؔ ایسے فنکاراور خوشگوار شاعروں کی بازیافت کے امکانات مزید روشن ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ذوق ؔ دہلوی شعرا کے پانچویں باب میں پانچویں دور کے استاد شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ وہ ایک کامل زبان داں کی حیثیت رکھتے ہیں اور آج بھی ان کی شاعری اعلیٰ درجہ کے نصاب میں شامل ہے تاکہ ان کے فکر و فن کو زندہ رکھا جاسکے اور طالبِ علم میں توانا علمی ذوق پیدا کیا جاسکے۔

.....

نئی بستی بارا شاہ صفا ،مراد آباد (یو پی)

موبائل نمبر: 9634191717


No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...