Tuesday, June 20, 2023

پھلوں کا راجہ آم

 پھلوں کا راجہ آم

عقیلہ شاہین

بچے ہوں، بوڑھے ہوں یا جوان ہر ایک کے منہ میں آم دیکھتے ہی پانی بھر آتا ہے اور یہ فطری ہے کیوں کہ آم ہندوستان کا ہی نہیں بلکہ دنیا کا ایک بہترین پھل ہے۔ ’’آم‘‘ نام سے ضرور ’’عام‘‘ ہے لیکن اس کی گنتی دنیا کے ’’خاص‘‘ پھلوں میں کی جاتی ہے۔ اپنے میٹھے اور مزے دار ہونے کے سبب اسے ’’پھلوں کا راجہ‘‘ ہونے کا خطاب ملا ہے۔ پھلوں کا بادشاہ آم اپنی خوشبو اور مزے کے سبب لوگوں میں کافی مقبولیت پاچکا ہے۔ آم پھولوں سے بھی خوشبودار اور قند سے بھی زیادہ شیریں ہوتا ہے۔ یہ طوطا پری اور رس بھری کے نام سے بھی مشہور ہے۔ آم کی ایک ہزار سے بھی زیادہ قسمیں ہیں۔ ویسے ’’لنگڑا، دسہری، سنہری، نیلم، چونسا‘‘ وغیرہ مشہور ہیںاور ان کا شمار آم کی بہترین اقسام میں ہوتا ہے۔ ویسے آم کی ہر قسم اپنی کچھ خاص وجوہ، اپنی کچھ خاص خوبیوں اور تاثیر کے سبب دوسرے آموں سے مخصوص ہوتی ہے۔ ہماری پرانی ہندوستانی تہذیب میں آم کی بڑی اہمیت تھی۔ سبھی پرانی کتابوں میں آم کا ذکر آیا ہے۔ مرزا غالب کا آم سے رشتہ تو جگ ظاہر ہے۔ مغل بادشاہ اکبر بھی آم کے خاص مرید تھے۔ ۱۵۷۰ء میں انھوں نے بہار کے دربھنگہ کے آس پاس آم کے ایک لاکھ درخت لگوائے تھے۔

آم میں غذائیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر آم کے موسم میں اس کا مسلسل استعمال کرلیا جائے تو وٹامن ’اے‘ کی کمی سے بچا جاسکتا ہے اور اس طرح آنکھوں کی بیماریاں جو حیاتین ’اے‘ کی کمی کے باعث ہوتی ہیں جیسے رتوندھی یا شب کوری وغیرہ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ آم میں وٹامن (حیاتین) ’سی‘ کی بھی اچھی مقدار موجود ہوتی ہے۔ اس پھل سے ہمیں پوٹاشیم بھی   مل جاتا ہے۔ ۱۰۰ گرام آم میں ۹۰ کیلوری طاقت ہوتی ہے۔ سوڈیم، تانبا، کلورین، گندھک وغیرہ بھی آم میں پائے جاتے ہیں۔ کچے آم میں فولاد بھی ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جدید طبی سائنس کے ڈاکٹر آم کو سب ہی پھلوں میں زیادہ متوازن اور بہترین مانتے ہیں۔قلمی آم بیجو (چوسنے والا آم) سے بڑا گودے دار اور مزے دار ہوتا ہے مگر خوبی میں بیجو کی خاص اہمیت ہے۔ بیجو کارس پتلا ہوتا ہے جس سے وہ جلدی ہضم ہوجاتا ہے اور فوراً ہی طاقت فراہم کرتا ہے، چونکہ یہ چوسا جاتا ہے اس لیے یہ آم چوسنے سے جہاں جبڑوں کی ورزش ہوتی ہے وہاں دانتوں کی صفائی بھی ہوتی ہے۔ پکائے گئے آم کی بہ نسبت ڈال سے پک کر گرا آم بہتر ہوتا ہے۔ زیادہ وقت سورج کی کرنوں کے نزدیک رہنے سے اس میں غذائیت اور خوبی بڑھ جاتی ہے۔ ایسا ہی آم صحت کے لیے بہترین ہوتا ہے۔

آم طاقت اور وزن میں اضافہ کرتے ہیں۔ مشہور امریکی ڈاکٹر ولس کے مطابق آم میں مکھن کے مقابلے ۱۰۰ گنا زیادہ ضروری اجزا ہوتے ہیں جو خون کو صاف کرنے اور نئے خون کی تعمیر میں مددگار ہوتے ہیں ۔آم قبض کے مریضوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ پیٹ کے سبھی نئے اور پرانے امراض میں آم کا استعمال بڑا فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ قدرتی طب کا ماننا ہے کہ مرض ہونے کے دو ہی سبب ہیں۔ جسم میں کسی خاص ایسڈ یا وٹامن کی کمی ہوجانا یا غلط اور گندے کھانے کی وجہ سے خون میں ایسڈ بڑھ جانا۔ آم میں ایسڈ اور وٹامن بھرا ہوتا ہے۔ آم سے دونوں طرح کے مرض بھاگتے ہیں۔ خون میں ضروری اجزا کی کمی سے پیدا ہونے والے بھی آم کے استعمال سے دبلے موٹے ہوجاتے ہیں۔ کھردری جلد صاف ، چکنی اور خوبصورت ہوجاتی ہے۔ کمزوری دور ہوکر جسم طاقتور اور تندرست ہوتا ہے اور آنکھوں میں تیز روشنی بھرتا ہے۔ آم سے دانت صاف ہوتے ہیں، چہرے پر رونق  چھا جاتی ہے۔ بھوک بڑھ جاتی ہے۔ دبلاپن، خون کی کمی،نیند نہ آنا اور ہاضمہ جیسے مختلف امراض میں آم سے بہت فائدہ ملتا ہے۔ آم ایسا پھل ہے جس کا صرف گودا ہی کام نہیں آتا بلکہ اس کی گٹھلی، پتے اور چھلکے بھی کھاد او ردوا کی شکل میں استعمال کیے جاتے ہیں۔جیسے آم کے پتے میں املی، گڑ، ہری مرچ، زیرہ وغیرہ ڈال کر مزے دار چٹنی بنائی جاتی ہے۔ آم کے پتے زکام میں بھی کار آمد ہیں۔ پتلے دست میں ۵ گرام پتے پیس کر اس میں ۲۰ ملی لیٹر پانی ملاکر پینے سے فائدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح آم کے چھلکے کو پیس کر پھوڑے ، پھنسی اور داد کھجلی کی جگہ پر لگانے سے فوراً فائدہ ہوتا ہے۔ اسے پیس کر آنکھ کے پپوٹوں پر لگانے سے بینائی کی خرابی دور ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ موسم بہار میں اسے ہتھیلی پر ملنے سے بچھو کے ڈنک مارنے کا اثر نہیں ہوتا۔ اس طرح آم صرف ایک فائدہ مند پھل ہی نہیں بلکہ بہترین دوا بھی ہے، مگر اس کے لیے اس کے صحیح استعمال کا طریقہ بھی ضروری ہے۔ آم ہمیشہ دھوکر ہی کھائیں۔ آموں کے کھانے یا چوسنے کے پہلے گھنٹوں تک پانی میں ڈبو کر رکھنا چاہیے، ایسا کہا جاتا ہے۔آم کا شربت بناکر لوگ پیتے ہیں ،لیکن پکے ہوئے آم کو یوں ہی کھانے میں زیادہ فائدہ ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق آم کی نسبت کیری میں وٹامن سی، بی ون اور بی۔۲زیادہ پایا جاتا ہے۔کیری میں شدید گرمی کے اثرات اور لو‘ سے بچانے کی قدرتی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ نظام ہضم کو فعال بنانے کے ساتھ جسم سے فاضل مادے خارج کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ کیری آنتوں کی خرابی کی شکایت رفع کرتی ہے۔ ایک کیری کو باریک کاٹ کر اسے شہد اور آم کے ساتھ کھانے سے موسم گرما میں اسہال ، پیچش، صبح کے وقت کی کمزوری اور قبض کے امراض سے نجات رہتی ہے۔ شدید گرمی میں لو‘ کے تھپیڑوں سے بچنے کے لیے کیری کو آگ پر بھون کر اس کا نرم گودا چینی اور پانی ملاکر شربت کے طور پر استعمال کرنے سے گرمی کے اثرات کم ہوجاتے ہیں۔ کیری میں موجود وٹامن سی خون کی نالیوں کو زیادہ لچکدار بناتا ہے اور خون کے خلیات کی تشکیل میں بھی مددگار ہوتی ہے۔ یہ غذا میں موجود فولاد کو جسم میں جذب کرنے میں بھی معاونت کرتی ہے۔ کیری سے چٹنی، مربے، اچار تیار کیاجاتا ہے، جسے لوگ گرمیوں میں بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ اسی لیے آم گرمیوں کا سب سے مقبول پھل ہے اور دنیا بھر میں دوسرے پھلوں سے زیادہ کھایا جاتا ہے۔ اسی لیے تو اسے پھلوں کا راجہ یا شہنشاہ کہا جاتا ہے۔

 

2, Sanjay Nagar, Street No. 9, Chambal Road,

Kota Junction, Jajasthan

Mob.: 756855438

 

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...