Wednesday, May 31, 2023

ادھوری کہانی

ادھوری کہانی

جی آر سید

آپ کہاں جارہے ہیں۔؟‘‘

یہ سوال سن کر میں نے کتاب سے نظریں ہٹا کر اُدھر دیکھا۔ سامنے والی برتھ پر ایک دبلا پتلا سا نوجوان تھوڑی جھجک اور چہرے پر مصنوعی سی مسکراہٹ لیے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ مسافروں کی ہماہمی اور شور شرابے سے بچنے کے لیے میں نے کتاب کا سہارا لیا تھا۔ روسی مصنف تُرگنیف کی کہانی ’’اکتالیسواں‘‘ کا اردو ترجمہ پڑھ رہا تھا۔ وہ نوجوان کب ٹرین میں داخل ہوا اور کب میرے سامنے والی برتھ پر بیٹھ گیا پتہ ہی نہیں چلا۔ اس کے سوال سے میری یکسوئی ٹوٹی اور اس خوبصورت کہانی سے جو لطف آ رہا تھا اس میں خلل پڑا۔ میں نے چاہا کہ اس کے سوال کو ان سنا کردوں... میں جانتا تھا کہ اس کو میری منزل سے کوئی سروکار نہیں۔ اس طرح کے سوالات رسمی ہوتے ہیں اور باتوں کا سلسلہ آگے بڑھانے کے لیے بلاوجہ پوچھے جاتے ہیں۔ پھر بھی یہ سوچ کر کہ وہ مجھے مغرور نہ سمجھ لے، میں نے اس کا جواب دیا۔

’’جہاں یہ ٹرین جارہی ہے۔‘‘

                اس کے سوال پوچھنے کے بعد سے میرے جواب دینے تک کچھ لمحے تو ضرور گزرے۔ اتنی ہی دیر میں اس نے میرا اور میں نے اس کا بغور جائزہ لے لیا۔ آدمی شریف اور اچھے خاندان کا لگ رہا تھا۔ میں نے بھی اپنی انا کو بالائے طاق رکھ کر اس میں تھوڑی سی دلچسپی دکھائی۔ اگر چہ میں عام طور پر سفر میں کسی مسافر سے بات نہیں کرتا ہوں۔

’’نوجوان! تم کہاں سے آرہے ہو اور کہاں جانا ہے؟‘‘

’’سر جانا تو وہیں تک ہے جہاں آپ جا رہے ہیں، لیکن کہاں کہاں سے آرہا ہوں یہ بتانا تھوڑا مشکل ہے۔‘‘

                اس نے بڑے فلسفیانہ انداز سے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس کا یہ انداز دیکھ کر میری دلچسپی اور بڑھ گئی۔

’’کیا کہیں سروس کرتے ہو یا ابھی تعلیم جاری ہے۔؟‘‘

’’سر! تعلیم کا سلسلہ تو عمر بھر جاری رہتا ہے، لیکن میں سروس بھی کرتا ہوں اور لفظ سروس کے معنی میری ڈکشنری میں غلامی ہے۔‘‘

وہ مستقل مسکرا رہا تھا۔ میں نے سوچا عجیب خبط الحواس ہے۔ میں نے اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔ دور تک پھیلے ہوئے لہلہاتے کھیت، ہرے بھرے پیڑ پودے، بجلی اور ٹیلیفون کے کھمبے تیزی سے پیچھے کی طرف دوڑ رہے تھے۔ ڈھلتا ہوا سورج سیاہ چٹانی پہاڑیوں پر اٹکا ہوا سا دکھائی دے رہا تھا۔ ٹرین کی رفتار بہت تیز تھی اس لیے منظر بہت جلدی جلدی بدل رہے تھے۔ اس کی پھُسپھُساہٹ بھری آواز پھر ابھری۔

’’سر! آپ کہاں، میرا مطلب ہے کس یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں؟

’’پروفیسر... ؟ تمہیں کیسے پتہ کہ میں پروفیسر ہوں۔‘‘

’’سر! آپ کی پرسنالٹی اور چہرے سے لگ رہا ہے‘‘ وہ پھر مسکرایا۔

’’کیا میرے چہرے پر لکھا ہوا ہے کہ میں پروفیسر ہوں‘‘؟

’’نہیں سر! چہرے پر نہیں، ٹرین کے ڈبے پر باہر مسافروں کی لسٹ لگی ہوئی ہے۔ وہاں آپ کے نام کے آگے پروفیسر لکھا ہے‘‘

یہ سن کر میں بھی مسکرا دیا۔

’’تمہارا نام کیا ہے نوجوان۔۔؟‘‘

’’میرا نام۔۔، میرا نام راجہ ہے، لیکن راج کرنے کے بجائے غلامی کرتا ہوں۔‘‘

اس کی مسکراہٹ میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔

’’تم واقعی بہت دلچسپ انسان ہو، ۔۔ لیکن یہ بتاؤ کہ تم اپنی ملازمت سے اتنے اکتائے ہوئے ہو تو وہ ملازمت چھوڑ کر کچھ اور کیوں نہیں کر لیتے۔؟‘‘

’’کچھ اور... ہاں کرنا تو بہت کچھ چاہتا ہوں، لیکن کچھ اور کر نہیں سکتا۔‘‘

’’تو پھر جو کر رہے ہو اس کو صبر وشکر اور خوشی سے کرتے رہو۔ اس طرح کا Frustration تو انسان کو کبھی خوش رہنے نہیں دیتا۔‘‘

’’نہیں سر! میں خوش تو بہت ہوں۔ اب ایک غلامی کے ساتھ ساتھ دوسری غلامی میں بھی بندھنے جا رہا ہوں۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ کہ میری ماں مجھے شادی کی زنجیر میں باندھنے کی تیاری کر رہی ہے۔‘‘

’’ارے واہ، مبارک ہو، اس کو غلامی مت سمجھو، تمہاری زندگی کی نئی شروعات ہونے جارہی ہے تمہیں تو بہت خوش ہونا چاہیے۔‘‘

’’ہاں میں خوش تو بہت ہوں سر! کیوں کہ مجھ سے پہلے میری بہن کی شادی ہے، مجھے اپنی بہن کی شادی سے بہت زیادہ خوشی ہے۔ باپ کے گزر جانے کے بعد ماں نے ہم دونوں کو بڑی محنت اور مشکلوں سے پالا ہے۔ اب میرا فرض ہے کہ ماں اور بہن کے لیے کچھ کروں۔ اسی لیے میں ہر کام خوشی خوشی کر لیتا ہوں۔‘‘

’’بہت خوش نصیب ہیں تمہاری ماں اور بہن، جنھیں تم جیسا بیٹا اور بھائی ملا۔‘‘

اس نے میری طرف بڑے غور سے دیکھا، کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن چپ رہا۔ ٹرین کی رفتار تھوڑی کم ہوئی۔ سورج غروب ہونے لگا تھا۔ پہاڑیوں،کھیتوں اور پیڑ پودوں پر کالی چادر سی چھانے لگی تھی۔

’’شاید کوئی اسٹیشن آرہا ہے‘‘ میں نے یوں ہی کہا۔

’’جی ہاں سر! اس اسٹیشن پر کافی دیر تک ٹرین رکتی ہے، یہاں کھجور اور کاجو کا بہت اچھا حلوہ ملتا ہے۔ آپ بھی ضرور اپنے بچوں کے لیے لیتے جائیے گا۔‘‘

ٹرین آہستہ ہوکر اسٹیشن پر رک گئی۔ راجہ اپنی سیٹ سے اٹھا۔ ’’سر! آپ کے لیے کچھ لا دوں؟ مجھے تو بہت بھوک لگ رہی ہے۔ یہاں کھانا بھی بہت اچھا ملتا ہے۔ یہاں کی کچّے کیلے کی سبزی بہت مشہور ہے۔ آپ کے لیے لاؤں؟‘‘

’’نہیں میں نے ڈنر کا آرڈر دے دیا ہے۔ میں ٹرین میں ٹرین کا ہی کھانا کھاتا ہوں۔‘‘

’’ٹھیک ہے سر...، یہ میرا سامان دیکھئے گا۔ اس رُوٹ پر بہت چوریاں بھی ہوتی ہیں۔ اس میں میری بہن کی شادی کا سارا سامان ہے۔ میں کھانا کھاکے آتا ہوں...‘‘ یہ کہہ کر وہ نیچے اتر گیا۔

جب بھی کسی اسٹیشن پر ٹرین رکتی ہے تو ڈبوں کے اندر ہلچل بڑھ جاتی ہے۔ میں بڑی ذمہ داری سے اس کے سامان پر نظر رکھّے رہا۔ تھوڑی دیر بعد ٹرین چلنے لگی۔ مجھے تشویش ہوگئی کہ اس نوجوان کی ٹرین چھوٹ نہ جائے۔ میں نے کھڑکی کے باہر دیکھا۔ پلیٹ فارم پر بھیڑ تھی۔ روشنی بھی کچھ کم ہی تھی۔ وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ ٹرین نے تیز رفتار پکڑ لی تھی۔ میری گھبراہٹ اور بڑھ گئی، کافی دیر ہوگئی۔ ٹرین کی پینٹری کار سے میرا ڈنر آگیا تھا۔ بھوک کے باوجود میں نے کھانا شروع نہیں کیا تھا۔ کافی دیر کے بعد راجہ آیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں مٹھائی کے دو ڈبّے تھے۔ ایک ڈبہ اس نے اپنی برتھ کے نیچے رکھے ہوئے سوٹ کیس میں رکھا اور دوسرا میری طرف بڑھا دیا۔

’’سر یہ یہاں کا مشہور حلوہ ہے۔ میری طرف سے آپ کے لیے۔‘‘ میں نے وہ ڈبہ لیتے ہوئے پوچھا۔

’’تم کہاں رہ گئے تھے۔ مجھے فکر ہورہی تھی۔ میں تو سمجھا تمہاری ٹرین چھوٹ ہی گئی۔‘‘

’’سر مٹھائی کی دکان بہت پیچھے تھی اور وہاں بھیڑ بھی تھی۔ بھاگتے ہوئے آخری ڈبے میں چڑھ گیا تھا۔ آج تک میری ٹرین کبھی چھوٹی نہیں ہے سر، میں ٹرین پکڑ ہی لیتا ہوں ۔‘‘ وہ مسکراتا رہا، میں نے اس کو مٹھائی کے پیسے دینے چاہے لیکن اس نے لینے سے انکار کیا۔ میں نے بھی زیادہ اصرار نہیں کیا۔ میں نے اپنا کھانا شروع کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔

’’تم نے کھانا کھا لیا۔۔ ؟‘‘

’’جی ہاں سر، گرما گرم کھانا خوب پیٹ بھر کے کھا لیا۔ مجھے تو اب نیند آرہی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنی برتھ پر چادر بچھا کر سو گیا۔ میں نے اپنا کھانا ختم کیا اور ہاتھ دھو کر جب لوٹا تو وہ گہری نیند سو چکا تھا۔ میں تھوڑی دیر اپنی برتھ پر بیٹھ کر کتاب کھول کر بقیہ ادھوری کہانی کو پڑھتا رہا۔ ڈبے میں اے۔ سی کی ٹھنڈک زیادہ بڑھ گئی تھی۔ میں نے بھی برتھ پر چادر بچھائی، کتاب بند کر کے سرا ہانے رکھی اور کمبل اوڑھ کر سوگیا۔

رات کے پچھلے پہر جب ٹرین اپنی آخری منزل پر پہنچنے لگی تو ڈبّے میں سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ میری بھی آنکھ کھل گئی۔ ٹی ٹی نے بتایا میرا اسٹیشن آنے والا تھا۔ میں نے اٹھ کر اپنا سامان سمیٹا۔ سامنے والی برتھ پر راجہ کا بستر ویسا ہی بچھا ہوا تھا۔ شاید وہ باتھ روم گیا ہوگا۔ میں اس کے آنے کا انتظار کرتا رہا۔ ٹرین پلیٹ فارم پر رک گئی۔ لوگ اترنے لگے۔ راجہ کا سامان اس کی برتھ کے نیچے ویسا ہی رکھا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کس قدر لا پرواہ لڑکا ہے۔ اپنی بہن کی شادی کا سامان ایسے ہی چھوڑ کر باتھ روم میں اتنی دیر لگا رہا ہے۔ ایسے وقت ہی میں تو بہت چوریاں ہوتی ہیں۔ میں وہیں بیٹھ کر اس کے سامان کی نگرانی کرنے لگا۔ اسی وقت ڈبّے میں ایک دبلی پتلی خوبصورت سی لڑکی تھوڑی گھبرائی ہوئی۔ برتھ نمبر ڈھونڈتی ہوئی آئی۔ میرا برتھ نمبر دیکھ کر پوچھا۔

’’آپ ہی پروفیسر صاحب ہیں۔۔؟‘‘ میں اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔

’’میں راجہ کی بہن ہوں۔ اس کا سامان یہی ہے نا۔۔؟ ‘‘ اس نے برتھ کے نیچے سے دونوں سوٹ کیس نکال لیے۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’تم راجہ کی بہن ہو، لیکن راجہ کہاں ہے۔۔؟‘‘

’’راجہ پچھلے اسٹیشن پر کسی کام سے اترا تھا اور ٹرین چل پڑی۔ وہ ٹرین پکڑ نہیں سکا۔ اس نے وہاں سے مجھے فون کر کے آپ کے بارے میں بتا دیا تھا کہ میں آپ سے اس کا سامان لے لوں۔ وہ کسی دوسری ٹرین سے بعد میں آجائے گا، تھینک یوسر۔۔‘‘

وہ لڑکی دونوں سوٹ کیس کھینچتی ہوئی دروازے تک پہنچ گئی۔ پھر وہاں قلی کو بلا کر اس کے سر پر سامان رکھوا کر اس کے پیچھے پیچھے پلیٹ فارم پر جانے لگی۔ تھوڑی دور جا کر اس نے مڑکر میری طرف دیکھا۔ ہاتھ ہلا کر مجھے الوداع کہا اور پھر بھیڑ میں گم ہوگئی۔ میں کچھ دیر وہیں گُم صم کھڑا رہا اور سوچتا رہا کہ کہیں یہ خواب تو نہیں۔ پھر باہر آکر ٹیکسی کرکے اپنے گیسٹ ہاؤس کی طرف چل دیا۔

دن بھر اپنے کاموں میں مصروف رہا، لیکن ہر وقت راجہ اور اس کی بہن کا چہرہ میرے تصور میں چھایا رہا۔ رات کو سارے کاموں سے فارغ ہو کر گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں بیڈ پر لیٹتے ہوئے بیگ سے کتاب نکال کر اپنی بقیہ ادھوری کہانی کو پورا پڑھنے کی غرض سے ورق الٹنے لگا تو ان میں پھنسا ہوا ایک پرچہ نظر آیا۔ جس پر انگریزی میں لکھا تھا۔Please handover my luggege to my sister,Thanks وہ پرچہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ نیند اچاٹ ہو چکی تھی۔ بقیہ ادھوری کہانی کو پڑھنے میں بھی دل نہیں لگا۔ میں نے کتاب بند کر دی اور یوں ہی وقت گزارنے کے لیے کمرے میں میز پر رکھے T.V کو آن کر دیا۔ Breaking News میں تھا۔ کل رات دوسند گدھ آتنکوادی پکڑے گئے۔ Screen پر دو تصویر میں دکھائی جارہی تھیں، جس میں ایک تصویر راجہ کی تھی۔


B-706، سیکٹر پی آئی-1، نوئیڈا

گوتم بدھ نگر-201310

موبائل: 9911982682

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...