Monday, June 12, 2023

راہی معصوم رضا کے ناولوں میں نئے رشتوں کی تلاش

 

راہی معصوم رضا کے ناولوں میں نئے رشتوں کی تلاش

ڈاکٹر جگدمبا دوبے

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ صدیوں سے ساتھ رہنے کے باوجود ہندوستان کے ہندو اور مسلمان ساتھ رہنا اب تک نہیں سیکھ سکے ہیں۔ انگریزوں کے زمانے میں ہم یہ کر خود کو تسلی دیتے تھے کہ ہندو مسلم کو لڑانے والے انگریز ہیںاور جب یہ چلے جائیںگے تو یہ مسئلہ خود ہی ختم ہو جائے گا۔انگریز چلے گئے اور جاتے جاتے پاکستان کی تعمیر کر گئے لیکن ہندو مسلم کے رشتوں کے مسائل اپنی جگہ پر رہ گئے۔یہ بھی سچ ہے کہ مہاتما گاندھی کے اس ملک میں ہندو اور مسلم کے بیچ نفرت،خوف اور شک میں اضافہ ہی ہوا ہے۔مسلمان کہتا ہے کہ وہ اس ملک میں دوئم درجے کا شہری ہے کہ ہندو اس کے مذہب اور تہذیب کو ختم کر دینا چاہتا ہے۔ہندو کہتا ہے کہ مسلمان اس ملک کے تئیں وفادار نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔سیکڑوں اس طرح کی باتیں ہیںجو ہماری آنکھ میں انگلی ڈال کر اس تلخ حقیقت کو دکھا رہی ہیں کہ ہندو مسلم رشتے دن بہ دن بد تر ہوتے جا رہے ہیں اور سیاسی پارٹیوں میں تو اس حالت کو اور بھی بدتر بنانے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے۔اس میں ان کا اپنا مفاد دکھائی دے رہا ہے۔تقسیم ہند کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات بہتر نہیں تھے ۔سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کے سیدھے سادے عوام کو سیاست کا مہرا بنایا گیا۔عوام اس سیاست سے پوری طرح بے خبر مذہب کے نام پر مرنے مارنے کو تیار تھے۔پاکستان کی شکل میں آزاد حکومت بن جانے کی وجہ سے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے مسائل کا کوئی راستہ نہیں نکلابلکہ یہ مسائل اور بھی بڑھ گئے۔

راہی معصوم رضا نے اپنے ناول ــ ’’ٹوپی شکلا ‘‘کے ذریعہ ہندو مسلم رشتوں کے مسائل کو اس کے صحیح ضمن میں دیکھنے اور تحریر کرنے کی کوشش کی ہے۔راہی معصوم رضا کی خاصیت یہ ہے کہ انھوں نے اس مسئلے پہ بے حد غور و فکر کرنے کے بعد کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے۔اس مسئلے کو جتنے صحیح طریقے سے ایک مسلمان ادیب بیان کر سکتا ہے اتنے اچھے انداز میں ایک ہندو ادیب نہیں بیان کر سکتا۔راہی کو اس میں کامیابی اس لیے ملی ہے کہ وہ اپنے تئیں ایماندار ہیں اور ان کا نظریہ صاف ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔انھوں نے ہندو مسلم رشتوں کو خود بھی دیکھا ہے جو کہ غالباًہندوستان میں ہندو ادیب کے لیے ممکن نہیں ہے۔راہی کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے خود اس وقت اور حالات میں زندگی گزاری ہے اسی لیے ان حالات کو صحیح انداز میں بیان کر سکے ہیں۔ایمانداری سے ایک ناول نگار کی رسائی جہاں تک ہو سکتی ہے وہاں تک اس ناول میں ہوئی ہے۔ناول مختصر ضرور ہے لیکن ناول نگار نے ہندو مسلم رشتوں کے بہت سے پہلوؤں کو بے حد صفائی اور تلخی کے ساتھ پیش کیا ہے۔

ناول میں کسی بھی قصے کے بیان کی دو صورتیں ہوا کرتی ہیں۔اول تو سیدھے سادے واقعات کو کڑی دو کڑی جوڑ کر کرداروں کو اس طرح پیش کرنا کہ قاری اسے پڑھ کر محض اپنا وقت گزار سکے،محظوظ ہو سکے۔دوم یہ کہ قصہ انسانی زندگی کے ایسے موڑ سے اٹھایا جائے جس میںایک پورے سماج، پورے کلچر، اس کے افراد اور افراد کے ارد گرد الجھتی، سلجھتی زندگی، زندگی کی پیچیدگیاں، گتھیاں، مسائل حقائق،جدو جہد، کڑوی اور سچی حقیقتیں، نفسیاتی کشمکش اور داخلیت و خارجیت کا فنکارانہ بیان اس طرح پیش کیا جائے کہ قاری کے ذہن میں واضح ہو جائے۔ ناول کا فن زندگی کا فن ہے۔ ناول کی تمام تر کوشش زندگی کو بھرپور طریقے سے پیش کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ چونکہ زندگی کی کوئی حد نہیں ہوتی اور اس میں تاریخ بھی آتی ہے اس لیے اگر زندگی میں تاریخ اور تاریخ میں زندگی نہیں تو کوئی بھی تخلیق محض رومان کے دم پر تخلیق تو ہو جائے گی لیکن زندگی کی حرارت اور حقیقت سے زیادہ واسطہ نہ ہوگا۔

راہی ایک اچھے قصہ گو ہیں اس بات کی تصدیق ان کے ناول آدھا گاؤں سے ہو چکی ہے۔ٹوپی شکلا میں بھی ان کی قصہ گوئی کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔اس میں راہی کی بے تکلفی قاری کو بے حد متاثر کرتی ہے۔ناول میں عفن اور ٹوپی کے بچپن کی ملاقات اور دوستی والے منظر نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ راہی منظر نگاری میں بھی کسی ڈرامائی ناول نگار سے کم نہیں۔جب انھیں کہانی کہنی ہوتی ہے تو قاری کے بیچ آ جاتے ہیں اور وہاں وہ کہانی نہیں کہتے بلکہ قارئین کو آمنے سامنے مخاطب کرتے ہیںاور ناول کی تکنیک پر بھی دو دو باتیں کر لیتے ہیں جس کے نتیجے میں پورے ناول میں ایک ایسا ماحول پیدا ہو گیا ہے کہ جو قاری کو باندھے بغیر نہیں رہتا۔کرداروں کی شخصیت کی تعمیر میں بھی راہی کو کامیابی ملی ہے۔وہ ادنیٰ سے ادنیٰ کردار کو بھی قاری کی قربت اور ہمدردی دلانے میں کامیاب ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نہ صرف ٹوپی اور عفن جیسے اہم مرکزی کردار بلکہ دادی،سکینہ اور شبنم جیسے دوسرے کردار بھی ہمیں بے حد متاثر کرتے ہیں۔

ہمت جونپوری کی کہانی ایک ایسے غیر مسلم کی کہانی ہے جو زندگی بھر جینے کا حق مانگتا رہا۔ پورا ناول سیرت کی شکل میں تحریر کیا گیا ہے۔اس میں غازی پور میں پیدا ہوئے ،بڑھے اور ممبئی میں اپنی زندگی ختم کرنے والے ہمت جونپوری کی کہانی ناول نگار نے بے حد قربت اور ہمدردی کے ساتھ بیان کی ہے۔کہانی کی شروعات ہمت کے دادا دلگیرجونپوری سے ہوتی ہے اور ناول نگار دو نسلوں کی کہانی سننے کے بعد اپنے ہیرو کی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ٹوپی شکلا اگر ہندو مسلم رشتوں کی کہانی ہے تو ہمت جونپوری ایک ہندوستانی مسلمان کی کہانی ہے جو ہندوستان کی مٹی میں پیدا ہوا ہے اور وہیں کی مٹی میں مل جاتا ہے۔جب کہ اس کے نام میں جونپوری لگا ہوا ہے لیکن اس کی رہائش غازی پور ہے۔غازی پور سے وہ اتنی ہی محبت کرتا ہے جتنا کوئی ہندو کر سکتا ہے۔وہ ممبئی جا کر بھی غازی پور کو نہیں بھولتا اور مرتے وقت بھی اس کی زبان پر غازی پور ہی رہتا ہے۔گویا کہ راہی نے ہمت جونپوری کی شکل میں ایک ایسے مسلمان کو پیش کیا ہے جو پوری طرح ہندوستانی ہے۔مسلمان کے تعلق سے راہی کا جو تصور ہے وہ ہمت جونپوری میں پوری طرح سے دکھائی دیتا ہے۔ہمت جونپوری مسلم خاندانی زندگی کی مستند دستاویز بھی ہے۔مسلم خاندان کا اس سے اچھا اندرونی پس منظرشاید ہی کہیں اور ملے۔ناول نگار نے غازی پور کے مسلم خاندان کی زندگی کو شطرنج کی بساط کی طرح سامنے بچھا دیا ہے۔زیادہ تر کردار بھوجپوری سے ملی ہوئی مسلمانی ہندی بولتے ہیںجو پورے ماحول میں ایک بے تکلفی پیدا کر دیتی ہے۔

راہی معصوم رضا کا طرز تحریر بے حد پر اثراور غیر رسمی ہے۔ناول نگار اپنے طنزو مزاحیہ انداز سے معمولی صورت حال کو بھی دلچسپ بنا دیتا ہے۔مثلاًــ :

’’ٹوپی شکلا میں ایک جگہ لکھتے ہیںکہ’غرض کہ پنڈت بلبھدر نارائن شکلا کو رات کے ٹھیک بارہ بجے پیدا ہو جانا پڑا ۔‘‘ (ٹوپی شکلا،ص:۱۹)

یا

’’اس نے ڈرتے ڈرتے بچے کی طرف دیکھا ،وہ اپنی بے حد بلیک انڈ وہائٹ آنکھوں سے چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔‘‘(ٹوپی شکلا،ص:۲۵)

تمام مستی اور لاپروائی کے درمیان راہی اندر سے بےحد بے چین انسان تھے۔ان کی اس بے چینی کا سبب ان کا اپنا ضمیرتھا جو ان کو چپ نہیں بیٹھنے دیتا تھا۔مسلسل کچھ کہنے اور کرنے کے لیے اکسایا کرتا تھا ۔وہ ایک حساس انسان تھے ۔ان کی چمڑی اتنی موٹی نہیں تھی جو وہ سب جذب کرلے جو ان کے اطراف کے ساتھ ساتھ پورے سماج اور ہندوستان میں ہو رہا تھا۔اس کا المناک احساس انھیں بےچین کرتا تھا اور وہ قلم اٹھا کر لکھنے لگتے تھے۔ہم سب کے درمیاں سے بے وقت چلے جانے کا سبب یہ ان کی بےچینی تھی۔یہ تو نہیں معلوم کہ وہ اپنے اہل خاندان کے لیے کیا کچھ چھوڑ کر گئے لیکن ان کے جس چھوڑے ہوئے کو ہم سب اور پوری ادبی دنیا جانتی ہے وہ ہے ان کی انسانی شخصیت۔ایک تخلیق کار کی شکل میں اپنی تخلیقی دنیا میں جو شہرت ان کو ملی وہ سب کو نصیب نہیں ہوتی۔

راہی بطورانسان اور تخلیق کار تو تا زندگی محتاط رہے لیکن زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے رہے جب وہ بے حد جذباتی ہو جایا کرتے تھے خاص طور سے تب جب انھیں اس بات کا احساس دلایا جاتا تھا کہ وہ اس ملک کے لیے اس لیے پرائے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ایسے موقعوں پر وہ ناراض نظر آتے ہیں۔وہ جب تک زندہ رہے انسان کو ہندو اور مسلمان میں بانٹنے والی سوچ کے خلاف لڑتے رہے۔ ’’آدھاگاؤں‘‘ کے دیباچے میں انھوں نے اس تنگ ذہن کے وارثوں کو للکارا ہے کہ جس کو گنگولی ۔غازی پور سے اعظم گڑھ ۔رائے بریلی جانا ہو جائے ،وہ الگ گھر ،اپنا گاؤں،اپنی جائے پیدائش چھوڑ کر کہیں نہیں جائیںگے۔ پاکستان بنا۔ملک کے ٹکڑے ہوئے ،راہی کی عمر اس وقت بیس سال کی تھی اور جس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اس وقت وہاں دو قومی نظریے تھے،لیکن راہی کے ذہن پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ان کی اپنی گنگولی سے بھی لوگ اپنی بیوی، بچوں، بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ کر جنت کی بستی میں بسنے جا رہے ہیں۔ان باتوں کا راہی پر بالکل اثر نہیں پڑا اور راہی اپنی زمین پر قائم رہے اور پاکستان نہیں گئے۔وہ اپنی ماں سے الگ نہیں ہوئے خواہ وہ علی گڑھ یونیورسٹی ہو یا پھر گنگا۔نفرت کی بنیاد پر بنا پاکستان ان کو پسند نہ آیا۔ان کا جینا مرنا سب ہندوستان کے لیے ہوا اور گنگا سے اپنے ماں بیٹے کا رشتہ انھوں نے آخری سانس تک نبھایا۔

گنگا پر ہمیشہ سے لکھا جاتا رہا ہے اور راہی نے بھی لکھا ہے۔ گنگا ان کے ساتھ ہمیشہ رہی ہے،غازی پور میں بھی اور ممبئی میں بھی۔گنگا راہی کے لیے کیا تھی اور کیا رہی ہے، اسے کچھ اس طرح لکھتے ہیں...

مجھے لے جا کے غازی پور میںگنگا کی گودی میں سلا دینا

وہ میری ماں ہے،وہ میرے بدن کا زہر پی لے گی

مگر شاید وطن سے دور،اتنی دور موت آئے

جہاں سے مجھ کو غازی پور لے جانا ناممکن ہو،تو پھر مجھ کو

اگر اس شہر میںچھوٹی سی ایک ندی بھی بہتی ہو

تو مجھ کو اس کی گودی میں سلا کر

اس سے کہہ دینا کہ یہ گنگا کا بیٹا آج تیرے حوالے ہے۔

راہی تا زندگی گنگا پر اور اپنی ماں کے بارے میں لکھتے رہے۔ماں کے بارے میں لکھنا بے حد مشکل کام ہوتا ہے۔ماں کو پڑھ پانا اور اس پڑھے ہوئے کو سب کے سامنے لانا بے حدہمت کا کام ہے۔ گنگا کے متعلق کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’گنگا اس نگر(غازی پور)کے سر پر ،گالوں پر ہاتھ پھیرتی رہتی ہے،جیسے کوئی ماں اپنے بیمار بچے کو پیار کر رہی ہو،مگر جب اس محبت کا کوئی جواب نہیں ملتا تو گنگا بلک بلک کر رونے لگتی ہے اور یہ نگر اس کے آنسوؤں میں ڈوب جاتا ہے،لوگ کہتے ہیں کہ باڑھ آ گئی ہے۔ مسلمان اذان دینے لگتے ہیں، ہندو گنگا پر چڑھاوا چڑھانے لگتے ہیں کہ روٹھی ہوئی گنگا میا مان جائے۔اس پر گنگا جھلا جاتی ہے اور قلعے کی دیوار سے اپناسر ٹکرانے لگتی ہے اور اس کے اجلے سفید بال دور دور تک پھیل جاتے ہیں۔ہم انھیںجھاگ کہتے ہیں۔گنگا جب یہ دیکھتی ہے کہ اس کا دکھ کوئی نہیں سمجھتا تو وہ اپنے آنسو جھاڑ ڈالتی ہے۔ تب ہم کہتے ہیں کہ پانی اتر گیا۔مسلمان کہتے ہیں کہ اذان کاوارکبھی خالی نہیں جاتا۔ہندو کہتے ہیں کہ گنگا نے ان کی بھینٹ قبول کر لی اور کوئی یہ نہیں کہتا کہ ماں کے آنسوؤں نے زمین کو اور بھی زرخیز بنا دیا ہے۔دور دور تک زمین میں نم مٹی کا ایک غلاف چڑھ جاتا ہے۔لیکن گنگا بھی کیا کرے؟ڈانگر بیلوں میں ہل کا بوجھ اٹھانے کی طاقت ہی نہیں ہے۔‘‘

گنگا کی ایسی پہچان وہی کر سکتا ہے جس کو گنگا سے روحانی محبت ہو،جس کے لیے گنگا محض ایک ندی ہی نہیں جس کی روح،جس کی پہچان،جس کی ملکیت ہو ۔گنگا راہی کے لیے ایسی ہی تھی۔گنگا کے ساتھ راہی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کوبھی اپنی ماں کا درجہ دیا ہے۔راہی کو یونیورسٹی کے الیومنی ہونے کا فخر رہا۔یہ سچ ہے کہ تقسیم ہند کے وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی فرقہ واریت کی گندی سیاست کا مرکز تھی۔یہ بھی صحیح ہے کہ محمد ایوب خاں اور لیاقت علی خاں جیسے لوگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہی الیومنی تھے جو بعد میں پاکستان میں بڑے عہدوں پر قابض ہوئے لیکن راہی اس کے بعدبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر ناز کرتے رہے کہ اس نے شیخ عبداللہ ،ڈاکٹر ذاکر حسین اور راجا مہیندر پرتاپ سنگھ جیسی شخصیتیں بھی پیدا کیں ،جن کی حب الوطنی تو بے داغ تھی ہی جو فرقہ واریت جیسی گندی سیاست سے آخر تک لڑے۔راہی کہا کرتے تھے کہ ماں آخر ماں ہوتی ہے۔وہ اپنے بچوں کوجنم دیتی ہے اور ان کی اچھی تربیت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔اس کے بیٹے کب کیسے ہو جائیں،کس راستے پر چلنے لگیں،وہ کیا کر سکتی ہے؟ان کی نیک نیت پر خوش ہو سکتی ہے اور غلط راہوں پر انھیں چلتا دیکھ کرآنسو بہا سکتی ہے،ان کے لیے دعا مانگ سکتی ہے۔راہی اس کے ان بیٹوں میں تھے جو گمراہ نہیں ہوئے،بھٹکے نہیں۔

دو قومی نظریے کا زہر جب پورے ملک میں پھیلا تو گنگولی کیسے بچ سکتی تھی۔گنگولی بھی تقسیم ہند کی سیاست کی چپیٹ میں آئی۔’’آدھا گاؤں‘‘میں تفصیل سے اس کا ذکر ہے۔راہی دکھی تھے،اداس تھے اور پوری طاقت سے اس وقت بھی فرقہ واریت جیسی گندی سیاست سے لڑ رہے تھے اور جب تک زندہ رہے اس کے خلاف لڑتے رہے۔راہی کی تخلیقات ایک بہت گہرے درد کی داستان ہیں۔وہ زندگی بھر چلا چلا کر کہتے رہے کہ جدید ہندوستان کی تاریخ بے گناہ کے خون سے لکھی جا رہی ہے۔خون کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔خون نہ ہندو ہے نہ مسلمان،نہ سکھ ہے نہ عیسائی۔خون صرف ہندوستانی ہے۔ان کی یہ چیخ آب و ہوا میں گونجتی رہی ۔ہندوستان کا خون،ہندوستانیوں کا خون،ہندوستان کی گلیوں میں بہتا رہا۔خون کی تجارت کرنے والے اپنی تجارت کرتے رہے اور آج تک کررہے ہیں۔یہ ماحول ،یہ ذہنیت کسی بھی سچے انسان کو زخمی اور سوچنے پر مجبور کر دے گی۔راہی اس درد کو سینے میں جھیلتے رہے اور بے وقت ہی اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

سچ کہا جائے تو راہی نے زندگی بھر صرف ایک ہی کتاب لکھی ۔ایک ہی داستان،ایک ہی وضاحتی رنگ اور تیور بدل کر ان کی کتابوں میں آیا ہے اور وہ ہے فرقہ واریت کی مخالفت اور حب الوطنی۔راہی کی پریشانیاں لامحدود تھیں۔ان کی ایک پریشانی اس بات کو لے کر بھی تھی کہ ان کی اپنی گنگولی بھی تیزی سے محدود ہو رہی ہے۔

راہی اکثر اشاروں اور کنایوں میں اپنی بات کہہ جاتے ہیںاور گہرے نسخوں کا سہارا لیتے ہیں۔یہاں بھی ان کا طریقہ یہی ہے۔گنگولی کو لے کر جو ان کا درد ہے وہ محض گنگولی سے ہی نہیں ہے بلکہ پورے ہندوستان کا درد ہے۔ہمیں خود بھی اس بات کا احساس ہے کہ ہندوستان میں ہندو-مسلمانوں کی،سکھ-عیسائیوں کی،پنجابی-بنگالیوں کی، بہاری- آسامیوں وغیرہ کی تعدادتیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ہندوستانیوں کی آبادی مسلسل گھٹ رہی ہے۔نورالدین کا مزار اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ مزار نورالدین شاہ کا مزار تو ہے ہی ساتھ ہی گنگولی کا مزار بھی ہے۔

آج کی جنگ جسے اپنے وقت میں راہی بھی لڑے تھے ،مکمل ہندوستان کا خواب دیکھنے والوں اور مذہب کی بنا پر بٹے ہوئے ہندوستان کا خواب دیکھنے والوں کے بیچ کی لڑائی ہے۔ضروری ہے کہ گنگولی میں سنیوں،شیعوں اور ہندوؤں کے بجائے گنگولی والوں کی آبادی بڑھے تاکہ نورالدین شہید کی طرح ان شہیدوں کو بھی اپنے مزار میں سکون مل سکے جو مکمل ہندوستان کے خواب کو لے کر ہی آزادی کی لڑائی میں شریک اور شہید ہوئے تھے۔تقسیم ہند کے بعد پورا ملک فرقہ واریت کی آگ میں جھلس رہا تھا۔آزادی کی صبح نفرت،اداسی اور دنگوں کو ساتھ لے کر آئی تھی۔برسوں سے ساتھ رہے دوستوں کا نظریہ بھی ہندو۔مسلمان بن گیا تھا۔ رشتے مذہب کی بنیاد پر رکھے جانے لگے۔ایسے ماحول میں دوستوں کے بیچ بھی ایک لکیر کھنچ گئی تھی اور خود میں ہو رہی تبدیلی کا احساس کر کے لوگ خود بھی حیران و پریشان ہو رہے تھے۔ناول ’’ٹوپی شکلا‘‘میں عفن اورٹوپی شکلا دونوں آپس میں خاص دوست ہیں۔تقسیم ہند کے بعدان دونوںدوستوں کے دل میں پیدا ہوئے خیالات انھیں حیران کر رہے تھے۔عدم تحفظ کی وجہ سے پیدا ہوا خوف عفّن کو چونکا رہا تھااور مذہب کے نام پر اندر جنم لینے والی نفرت سے ٹوپی شکلا خود جھنجھلا رہا تھا۔ان دونوں کرداروں کے اندر چل رہی اتھل پتھل ظاہر ہوتی نظر آتی ہے۔’’ٹوپی شکلا‘‘میں راہی نے اسے اس طرح پیش کیا ہے...

’’عفن پہلی بار اپنے ڈر پر شک کر رہا تھا اور ٹوپی پہلی بار اپنی نفرت پر جھنجھلا رہا تھا۔دوستی جھوٹی ہے یا ڈر؟دوستی جھوٹی ہے یا نفرت؟‘‘

دونوں ہی پارٹی دہشت زدہ ہیں۔ عجیب سی نا امیدی چھائی ہوئی ہے۔ایک طرف فرقہ پرستی تو دوسری طرف ملک سے جڑا ہوا یقین سامنے آ رہا تھا۔تقسیم ہند کے بعد اپنوں کے بٹ جانے اور مذہب کی بنیاد پر ملک ہونے کی وجہ سے مسلمانوں میں پاکستان سے لگاؤ نے ان کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔’ٹوپی شکلا‘کا ہی ہندو کردار ایک طرف مسلمان لڑکی سے محبت کرتا ہے،دوسری طرف اپنا نظریہ ظاہر کرتا ہے :

’’مسلمان لڑکی سے عشق کر رہا ہوں اس لیے جل رہے ہو۔تم سب مسلمان کھال کے نیچے پاکستانی ہو۔‘‘

 (ٹوپی شکلا ،ص:۱۵۴)

وہیں ایک جگہ دوسرا کردار سوال کرتا ہے :

’’ابو کیا یہ ہندو بہت خراب ہوتے ہیں؟‘‘ایک دن اس نے اپنے ابو سے پوچھا۔’’اور یہ سکھ تو بہت ہی ذلیل معلوم ہوتے ہیں۔‘‘   (ٹوپی شکلا ،ص:۴۹)

تقسیم ہند کا فیصلہ کسی ایک فرقے کے ذریعے لیا گیا فیصلہ نہیں تھاتقسیم کے پیچھے ایک طرف انگریزی حکومت کی ہندوستان کو کمزور کرنے کی سازش تھی تو دوسری طرف سیاست دانوں کواعلی عہدہ حاصل کرنے کا لالچ تھا جس کا برا اثر تقسیم ہند کی شکل میں ہمارے سامنے آیااور تقسیم کا درد اور اس کے ساتھ پیدا ہوئی تباہی میں عوام کو مبتلا ہونا پڑا۔ہندوستان کے مسلمانوں کے حالات اپنے ہی ملک میںبے حد افسوس ناک ہو گئے تھے۔ایک طرف مسلم سیاست دانوں کی پاکستان کی مانگ نے ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا،دوسری طرف ملک میں پھیلی فرقہ واریت کی آگ نے اور اپنوں سے جدا ہونے کے درد نے انھیں پریشان کر دیا تھا۔ویسے بھی عام ہندوستانی مسلمان ملک کے بٹوارے کے لیے راضی نہ تھے۔

پاکستان اسلامی ملک ہے اس لیے بعض ہندوستانی مسلمانوں میں اس کے لیے ہمدردی تو ہے لیکن اپنے ملک سے محبت بھی کم نہیں ہے۔ناول ’’ٹوپی شکلا ‘‘میں راہی معصوم رضا نے پاکستان جانے کے خلاف بیان کو دلیل کے ذریعے پیش کرنے کی اس طرح کوشش کی ہے۔

’’نہیں!میں پاکستان کیسے جا سکتا ہوں۔محرم میں امام حسین ہندوستان آتے ہیں۔اس سال ان سے ملاقات کرکے پوچھوںگا کہ سچ بولنے کی سزا آدمی کو کب تک ملتی رہے گی۔‘‘(ٹوپی شکلا،ص:۱۳۰)

ہندوستانی سماج تو پہلے سے ہی مختلف فرقوں میں بٹاہوا ہے اور مذہب کے نام پر ہندوستانی خاص طور سے حساس ہیں۔خاص طور سے مذہب کو لے کر دونوں کے بیچ گہری کھائی ہے۔کسی ایک فرقے کی لڑکی کی عزت اس کے لیے چیلنج بن جاتی ہے۔مذہب کے وقار کو قائم رکھنے کے لیے اس طرح کے معاملوں میں کوئی چھوٹ نہیں دی جاتی۔وہ ذات اور مذہب کے دفاع کے لیے اپنی اولاد کی قربانی بھی کر سکتا ہے۔ناول ’’ٹوپی شکلا ‘‘میںراہی نے مذہب کو لے کر روایتی نقطۂ نظر رکھنے والے کردار’ واحد ‘کے ذریعہ ایسے ہی عملی سچ کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔واحد کہتا ہے :

’’سالے کسی بھی مسلمان لڑکی پر ترچھی نظر ڈالی تو ٹانگیں چیر کر پھینک دوںگا۔‘‘  (ٹوپی شکلا،ص:۱۴۲)

راہی معصوم رضا کے جتنے بھی ناول ہیں ان میں اصل ہندوستان کی روح فکر موجود ہے۔ آدھا گاؤں،ٹوپی شکلا، اوس کی بوند،سین۷۵،کٹرہ بی آرزو،ہمت جونپوری،دل ایک سادہ کاغذ وغیرہ جیسے تخلیقی ادب میں ٹوٹتے بکھرتے گھر کو بچانے کی آواز موجود ہے۔اپنی جڑوں کی تلاش میں راہی کی تخلیقی بے چینی دیکھی جا سکتی ہے۔ایسی حالت میں ان کے ناول میں تکرار ہونا قدرتی ہے۔گنگولی ان کا گھر ہے،غازی پور ان کا گھر ہے اور پورا ہندوستان ان کا گھر ہے۔راہی اپنے گاؤں سے چل کر بینالاقوامی سطح پرہندوستان کی تلاش کرتے ہیں۔راہی کی تخلیق ’’اوس کی بوند‘‘۱۹۷۰ء میں منظر عام پر آئی۔راہی معصوم رضا نے ـ’’آدھا گاؤں‘‘ اپنے پورے دوست کنور پال سنگھ کے نام کیا ہے ۔ان کے دوستوں نے غازی پور کو بنیاد بنا کر ایک ناول لکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ویسے بھی راہی کی شاعری میں غازی پور بار بار دستک دیتا ہے۔ انھیں یہ مشورہ اچھا لگا اور پھر آدھا گاؤں کی شروعات ہو گئی۔راہی اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لیکچرر ہو چکے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ایک شاعر کے طور پر بھی قائم ہو چکے تھے۔’’چھوٹے آدمی کی بڑی کہانی‘‘عنوان سے پرم ویر عبدالحمید کی سوانح کے ساتھ ساتھ اردو میں ان کے سات شعری مجموعے منظر عام پہ آ چکے تھے جن میں ’’ نیا سال موج گل :موج صبا،رقص مہ اور اجنبی شہر:اجنبی راستے‘‘خاص ہیں۔ترقی پسند مصنفین کے رکن کافی پہلے سے تھے۔علی گڑھ میں انھوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر سنگم نام سے ایک تنظیم بنائی تھی جس کے ذریعے اردو اور ہندی ادب کے پروگرام منعقد ہوتے تھے۔ عمر کا پچہترواں سال راہی کو نصیب نہیں ہوا لیکن سوال اس بات کو لے کر پریشان ہونے کا نہیں ہے۔سوال اس بات کو لے کر فخر کرنے کا ہے کہ عمر کے جتنے سال راہی کو ملے انھوں نے اپنے ضمیر کو بچائے رکھا اور اپنے اصول پر قائم رہتے ہوئے زندگی گزاری۔جس لڑائی میں وہ شریک رہے وہ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے،چل رہی ہے:

’’ہم خون جگر لےکر بازار میں آئے ہیں

کیا دام لگائنگے لفظوں کی دوکاں والے‘‘

.....

شعبۂ اردو،حلیم مسلم پی جی کالج کانپور 208001

موبائل: 9415280915

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...