کلونت کور کی واپسی
راجہ یوسف
ارے واااہ ... میری بلو رانی آج کل کیا پڑھ رہی ہے ‘‘
’’تیرے کام کی چیز نہیں ہے دیدی ... رہنے دو‘‘
’’پھر بھی تو دکھائو کیا ہے۔‘‘ بڑی بہن شفق نے کتاب ہاتھ سے چھین لی اور دیکھتے ہی نیچے پھینک دی‘‘
’’ارے یہ ... چھی چھی چھی ... پھر سعادت حسن منٹو ... یہ کیا پڑھتی ہو بلورین؟‘‘
’’ او ہو شفق دیدی ... بتایا تھا نا تیرے مزاج کی چیز نہیں ہے۔‘‘
’’کتنی بار کہا اسے مت پڑھاکر۔ اس کو پھر پڑھا تو امی کو بتادوں گی۔‘‘
بلورین اپنی معصوم بہن شفق کو یاد کرتے ہی رو پڑی ۔ شفق شادی کے بعد صرف پندرہ دن زندہ رہی۔ اس کی موت سے سارے علاقے میں صف ماتم بچھ گئی تھی۔ لوگوں میں اس کے شوہر گاما کے لیے نفرت تھی۔ انہیں شفق کی بے وقت موت نے دکھی کر دیا تھا۔ کھر چنا، پھاڑنا، اتارنا گاما کا شیوہ تھا۔ جو اس کے پنجے میں پھنس جاتی تھی جیسے چیل کے پنجے میں چوزہ۔ تڑپتی پھڑپھڑاتی رہ جاتی تھی۔ یا جان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتی تھی۔ گاما پڑوس کی بستی کا بدمست غنڈہ۔ اصل نام گلاب چند۔خصلت ببول جیسی۔ نہ عقل کا نہ شکل کا۔ بس سانڈ جیسے قد کاٹھ کا۔ جاہل اتنا کہ کوئی قریب نہ پھٹکتا۔ سرکش اتنا کہ حاکم بھی سر پر ہاتھ رکھ کر فخر کرے۔ شریف اس سے دور بھاگتے تو نیتا اسے سر پہ بٹھاتے۔ بے وجہ لڑائی جھگڑے میںپڑنا، کبڈی کھیلنا اس کے خاص مشغلے۔ کبڈی میں اتنا پھرتیلا کہ سامنے والوں کو خاک چٹائے۔ اگلی ٹیم کے دو دو بندے ہاتھوں میں اٹھا کر لائے اور اپنی باؤنڈری میں پٹخ دے۔ تماشہ گیر گاما گاما چلاتے تو لوگ اصل نام گلاب چند بھول گئے اور یہ گاما پہلوان ہوکر رہ گیا۔ غرور گھمنڈ میں اندھا اتنا کہ ماں بہن کا کوئی لحاظ نہیں۔ بدمذاق چمچوں کی ٹولی میں خود کو راجہ سمجھتا۔ اس کے چمچے اس کی راہ میں کیلے کے چھلکے اور زبانی خرچ والی مکھن کی چکنا ئی سے پھسلن بنانے کا ہنر جانتے تھے اور گاما کو پھسلنے میںمزہ آتا تھا۔ پہلے پہل نشہ کرکے سیدھا کوٹھے پہنچتا۔ ٹولی کے ایک بدخواہ نے راہ چلتی لڑکیوں کو چھیڑنے کی ترغیب دی۔ اس کام کو کرنے میں اتنا مزہ آیا کہ اپنا مشغلہ ہی بنالیا۔ کسی بھی باکرہ کو اٹھالینا اور دو چار دن کے بعد واپس پھینکنا اس کا معمول بن گیا۔ آس پاس کے لوگ اتنے پریشان کہ بستی چھوڑ کے جانے کو تیار۔ کہاں کہاں گاما کی شکایت نہ لگائی۔ پولیس کے پاس گئے۔ اعلیٰ حاکموں کے در کھٹکھٹائے، لیکن کہیں بھی شنوائی نہ ہوئی۔ الٹا شکایت کرنے والوں کو سزا بھگتنی پڑتی۔ خوف سے کوئی سر نہیں اٹھاتا تھا۔
عمر چالیس بیالیس کو آئی تو شادی کرنے کا شوق چرایا۔ اس کے سارے ہر کارے اچھی لڑکی کی تلاش میں نکل پڑے۔ کئی بستیاں چھان ماری۔ گھر کھنگالے۔ لڑکیاں دیکھیں، لیکن کسی پر گاما کادل نہیں بیٹھا۔ ایک دن راہ چلتے شفق اور بلورین کو دیکھا۔ دونوں خوبصورت تھیں۔ شفق کا بھولاپن اور بلورین کا چنچلاپن من کو بھا گیا۔ ایک موالی کو ان کی ماں راحیلہ باجی کے گھربھیجا۔ شفق اور بلورین نے کھری کھری سنائی۔ راحیلہ باجی نے موالی کو دھتکار کر گھر سے نکالا۔ اسی شام کو گاما نے ہلہ بول دیا۔ شفق کو اٹھا کر لے گیا۔ پوری بستی میں ہاہا کار مچی۔ کوئی گاما کے پاس جانے کے لیے تیار ہی نہیں ہو رہا تھا۔ پھر بڑی مشکل سے اس کی ذات کے کچھ لوگ تیار ہوگئے۔ وہ بھی جیسے اپنے سر پر کفن باندھے نکلے تھے۔ ڈرے سہمے پڑوسی گاما کے گھر پہنچے، لیکن وہ بھی گاما کے منہ نہیں لگنا چاہتے تھے۔ بڑی منت سماجت کے بعد آخر مجبور ہوکر وہ بستی والوں کے ساتھ گاما کے پاس چلے گئے۔ گاما نے لڑکی کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر چھوڑنے کی بات تومان لی، لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھ لی کہ وہ لوگ شفق کو اس کے ساتھ شادی کرنے کے لیے تیار کریں۔ لوگوں نے منت سماجت کی۔ ہاتھ جوڑے۔ مذہبی بھائی چارے کی دہائی دی لیکن وہ ایک بات بھی نہ مانا۔ مرغے کی ایک ٹانگ، ’’میں لڑکی کو ایسے ہی بغیر کچھ کیے اس شرط پر چھوڑ رہا ہوں کہ یہ میری بیوی بنے۔ میں کسی اور کے لیے تھوڑی اس کو پوتر چھوڑ دوں گا۔ اس کو اگر لے جانا ہے تو یہ سوچ کے لے جائو کہ اس کو میری ہی بیوی بننا ہے۔‘‘
بستی کے لوگ شفق کو لے کر آ توگئے تھے لیکن کسی کو بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ معاملہ کیسے سلجھائیں۔ جب راحیلہ باجی نے یہ سنا تو جیسے آسمان ان کے سر پر ٹوٹ پڑا۔ انہیں جب کوئی راستہ نہ سوجھا تو انہوں نے من ہی من میں فیصلہ کر لیا کہ دونوں بیٹیوں کو زہر دے کر وہ بھی خودکشی کر لیں گی، لیکن گاما نے اتنی مہلت ہی نہ دی۔ صبح ہی شادی کا سارا سامان لے کر گھر آگیا۔ جس میں کپڑے، مہندی، کچھ سونے کے زیورات تھے اور شام تک شادی کی پوری تیاری کرنے کا آدیش دے دیا۔ ساتھ ہی ساری بستی میں اعلان کردیا۔
’’اگر تم اپنی بہو بیٹیوں کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہو تو شفق کو میری دلہن بنانے میں مدد کرو۔ ساری بستی کا کھانا آج میری طرف سے، اس لیے بے فکر ہوکر میری شادی میں شریک ہو جائو۔ شادی کے لیے چاہے پنڈت کو بلائو یا مولوی کو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ویسے بھی میں دونوں کو نہیں مانتا ہوں۔ بس یہ تم ذی عزت بستی والوں کے لیے کر رہاہوں۔ اپنی بہو بیٹیوں کو یہاں بلائو۔ دلہن کو تیار کرو اور ہاں اپنی بیٹیوں سے کہہ دو میری دلہن کو سجانے سنوارنے میں کوئی کمی نہ چھوڑیں۔ ابھی میں سدھرا نہیں ہوں ہااااں ...‘‘
شفق دلہن بنی اپنی سہیلیوں میں گھری تھی۔ کوئی اسے ابٹن لگا رہی تھی توکوئی مہندی ۔ کوئی اس کے ماتھے کو چھوٹے جھومر سے سجارہی تھی تو کوئی ہاتھوں میں چوڑیاں پہنا رہی تھی۔ کچھ اس کے کپڑے پریس کر رہی تھیں۔تو دو تین لڑکیاں اس کے بال بنا رہی تھیں۔ حالانکہ گھر کے اندر باہر گہما گہمی تھی، لیکن کسی کے بھی چہرے پر خوشی کا شائبہ تک نہ تھا۔ شفق کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ اس کی کسی بھی سہیلی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہ تھی۔ شفق کی چھوٹی بہن بلورین غصے سے ہونٹ کاٹ رہی تھی۔ وہ بار بار مٹھیاں بھینچ رہی تھی۔
اس شادی سے بس گاما اور اس کے دوست ہی خوش تھے اور ناچے بھی وہی لوگ تھے۔ گاما کے گھر والوں میں بھی کوئی خوش نہیں لگ رہا تھا اور نہ وہ اس شادی میں شریک ہوئے تھے، لیکن شادی کے بعد صرف پندرہ دن میں شفق مرگئی تھی۔ شفق اور بلورین جب کالج جانے لگی تھیں تو راحیلہ باجی کے ساتھ ساتھ پوری بستی خوش تھی۔ دونوں بہنیں پڑوسیوں کی چہیتی تھیں۔ شفق خوبصورت تھی لیکن سیدھی سادی اور شریف بھی بہت تھی۔ پوری بستی میں اس کی اچھائیوں کا ذکر ہوتا تھا۔ جبکہ بلورین بہت تیز اور منہ پھٹ واقع ہوئی تھی۔ کسی کو بھی سامنے جواب دے دیتی تھی، لیکن وہ پڑوس کی تمام عورتوں کے کام بھی آتی تھی۔ کسی کو بازار سے کوئی ذاتی سامان لانا ہوتا تو اسی سے ہی منگواتی تھیں۔ مائیں اپنی بیٹیوں کو مشکل اوقات میں انہی دو بہنوں کے پاس بھیجتی تھیں۔ تاکہ وہ انہیں سنبھال لیں اور وہ دونوں بہنیں نرسوں کی طرح ان کاخیال رکھتی تھیں۔
بلورین ناول، کہانیاں اور افسانوں کی دلدادہ تھی۔ خاص کر وہ منٹو کی کہانیوں کی دیوانی تھی۔ اسے منٹو کے افسانوں کے کئی کردار اپنی ذات کا حصہ لگتے تھے ۔ ایسے کئی کردار تھے جنہیں اپنی نس نس میں اتارنے کو اس کا دل چاہتا تھا۔
شفق کی موت کو ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا کہ بلورین کے لیے گاما کا پیغام آگیا۔ اب تو پورا محلہ ہی بپھر گیا تھا۔ گاما کی کمیونٹی کے لوگوں کو بھی غصہ آرہا تھا لیکن سب ہاتھ ہی ملتے رہ گئے اور گاما بلورین کو لے گیا ۔ بلورین مٹھیاں بھینچ رہی تھی۔ وہ منٹو کے ایک ایک کردار کو یاد کرکے جانے کیا کیا سوچتی رہتی تھی۔
’’اری سنو تو ثمرہ ۔گاما تھا ہی سانڈ جیسا آدمی۔ اسی کی طرح وحشی بھی۔ پہلی رات کو میں اس سے ڈر جاتی، لیکن میں من بنا چکی تھی وہ ہارا ہوا ایشر سنگھ ہے اور میں بڑے دھڑلے والی کلونت کور۔‘‘
’’ پھینک پتے ... پتے پھینک ... اور پھینک ...‘‘ ایک رات گئی، دوسری، تیسری رات تک اس کی ساری اتر گئی تھی اور چوتھی رات وہ پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا۔ شاید کسی حکیم وید سے مل کر آیا تھا، لیکن اس کی آنکھوں میں ڈر اور خوف صاف جھلکتا تھا۔ کئی دائو آزمائے۔ کلونت کور کے سامنے اس کے سارے دائو ٹوٹکے پھس ہوگئے۔ وہ بے حد ڈرا اور سہما ہوا تھا۔ کلونت کور تیزی سے چیخی۔
’’ایشرسیاں، کافی پھینٹ چکاہے، اب پتا پھینک‘‘ کلونت کور نے اسے پرے پھینک دیا اور دھتکار کر بھگا دیا...تھوووو و‘‘
پانچویں صبح، ابھی بستی کی لڑکیوں کے ہونٹ سلے ہی تھے۔ ابھی لڑکوں کے دلوں میں گاما کا ڈر بیٹھا ہوا ہی تھا۔ ابھی بزرگ مرد عورتیں افسوس کے ساتھ ہاتھ ہی مل رہے تھے کہ شادی کی پانچویں صبح بستی میں اچانک بھنبھناہٹ سی پھیل گئی۔ سبھی لوگ ایک ایک کرکے گھروں سے باہر آگئے۔ کچھ لوگ دوسری بستی کی طرف دوڑ رہے تھے۔ ہر کوئی دوسرے سے پوچھ رہا تھا کیا ہوا۔ دوڑتے دوڑتے لوگوں کی بھیڑ گاما کے آنگن میں جمع ہوگئی ، اب وہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں بچی تھی۔ کیا ہوگیا ، سب کو ایک ہی بات کا خدشہ تھا کہ اب وہ بلورین کی لاش دیکھیں گے ۔ سبھی ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے۔ ’’کیاہوا۔‘‘ اور دوسرا ا ٓنگن کے بڑے پیڑ کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ جو بھی اس طر ف دیکھتا تھا ہکا بکا رہ جاتاتھا۔ آناََ فاناََ بات چارسو پھیل گئی ۔ بستی میں پولیس پہنچ گئی۔ پنچ سرپنچ سب جمع تھے۔ پولیس نے پیڑ سے گاما کی لٹکتی لاش اتار دی۔ پولیس کے لیے معاملہ زیادہ پیچیدہ نہیں تھا، خودکشی کے سارے ثبوت صاف تھے۔ گاما نے پیڑ کی جس شاخ کو خود کشی کے لیے منتخب کیا تھا وہ شاخ اس چھپر کے عین سیدھ میں تھی جس کے نیچے جانوروں کو چارا ڈالا جاتا تھا۔ اسی چھپر پر چڑھ کر گاما نے رسی کا پھندہ اپنے گلے میں ڈالا تھا۔ چھپر کے پاس ہی اس کی چپل کا ایک پیر سیدھا اور ایک الٹا پڑا تھا۔پولیس نے پنچوں اور سر پنچ کے دستخط، انگوٹھے لیے اور فائل بند کرکے بغل میں دبادی ۔ لاش کے وارثوں کو بلایا گیا۔ کوئی سامنے نہیں آرہا تھا۔ کوئی موالی مشٹنڈا بھی نہیں آیا۔ پولیس نے کچھ منت سماجت کرکے اور کچھ ڈرا دھمکاکر گاما کی لاش اس کے بھائیوں کے سپردکر دی۔
کئی دنوں کی گہما گہمی کے بعد آج راحیلہ باجی کے گھر میں تھوڑی خاموشی تھی۔ بلورین کی آنکھیں بوجھل ہورہی تھیں اور وہ بیٹھے بیٹھے ہی سو گئی تھی۔ ماں نے اس پر کمبل ڈال دیا۔ بلورین کو پتہ بھی نہیں چلا کہ وہ کتنی دیر تک سوتی رہی۔ جب جاگی تو اس کی خاص سہیلی ثمرہ اس کے پاس بیٹھی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ مسکرائی اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے سرہانے رکھی کتاب ثمرہ نے اٹھالی۔کتاب وہیں کھل گئی جہاں کے ورق فولڈ کیے ہوئے تھے۔ کلونت کور۔
’’سن ثمرہ ... پانچویں رات گاما آیا ہی نہیں۔مجھے فیصلے کا انتظار تھا... اور فیصلہ ہو بھی چکا تھا ۔‘‘ بلورین کتاب کے اس پنے پر آہستہ آہستہ انگلیاں پھیر رہی تھی، جہاں کلونت کور تھی۔
rrr
انچی ڈورہ۔اننت ناگ۔ جموںو کشمیر۔192101
موبائل: 7006966876
No comments:
Post a Comment