Wednesday, June 14, 2023

پیکرِ فکروعمل مولانا ابوالکلام آزاد

 پیکرِ فکروعمل مولانا ابوالکلام آزاد 

 مصنف : ڈاکٹر محمد اختر

ضخامت : ۲۶۵ صفحات

 قیمت : ۳۰۰ ؍ روپے 

مطبع : البلاغ پبلی کیشنز، نئی دہلی 

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مولانا آزاد اس صدی کی ان عظیم شخصیتوں میں سے ایک تھے جن کے نام سے یہ صدی پہچانی جائے گی۔ اس دور کی کوئی ادبی، علمی اور سیاسی تاریخ ایسی نہیں لکھی جاسکتی جس کے اوراق مولانا آزاد کے گوناگوں کارناموں کے ذکر سے خالی رکھے جاسکیں۔ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد بیک وقت ایک بلند پایہ ادیب و انشا پرداز، جلیل القدر صحافی، منفرد سیاست داں، ممتاز مفسر قرآن، عدیم المثال محدث، مایۂ ناز مفکر، ایک عظیم تعلیمی رہنما اور شہرۂ آفاق مجاہدِ آزادی کی حیثیت سے مقبول و معروف رہے ہیں۔ دراصل مولانا آزاد اپنی فطری ذہانت، اپنے فکروتصور اور اپنے بالغ رجحانات و میلانات اور ذہنی اکتسابات کے متنوع اور خیال آفریں ادبی، علمی، مذہبی اور صحافتی خصوصیات کے باوصف ایک غیر معمولی انسان تھے۔ ان کو مطالعہ کی وسعت، پاکیزہ جمالیاتی ذوق و شوق اور اپنی تحریروں میں عالمانہ رکھ رکھائو نے اتنا برگزیدہ بنا دیا تھا کہ لوگ انھیں ایک پختہ عمر کے قلم کار تصور کرنے لگے تھے۔ مولانا آزاد کی عظمت کے کئی نشانِ امتیاز ہیں۔ ان کے بلند پایہ ادبی کارناموں میں اگر صرف ’’غبار خاطر‘‘ ہی ہوتی تو بھی ان کی ادبی نیرنگیاں اسی طرح مشہور ہوتیں جس طرح وہ آج اپنی بلند آہنگی اور علمی شان کی بدولت شہرت رکھتے ہیں۔ دراصل اس کا نقطۂ آغاز ’’تذکرہ‘‘ کے بعض حصوں میں نظر آتا ہے۔ تذکرہ میں جہاں ابوالکلام آزاد کی تحریروں نے خودنوشت سوانح کا رنگ اختیار کرنے کی کوشش کی ہے تو اس میں ایک ایسی تخلیقی شان پیدا ہوگئی ہے جس میں شعری اور تخلیقی اظہار کے مختلف عناصر سے قاری کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کے یہاں رعایتِ لفظی، حسن تراکیب اور منفرد انداز میں تشبیہی استعاروں کی ایک کہکشاں آباد ہے۔

زیر نظر کتاب ’’پیکر فکر و عمل مولانا ابوالکلام آزاد‘‘ مولانا آزاد کی شخصیت کے چند اہم پہلوئوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی ایک اہم کوشش ہے۔ یہ کتاب تین حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں ’’غبار خاطر‘‘ کے حوالے سے ان کی مکتوب نگاری کا تفصیلی اور تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے، نیز مولانا کے صحافتی کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چونکہ غبار خاطر ابوالکلام آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہےاور یہ تمام خطوط نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے تھے۔ یہ خطوط قلعہ احمد نگر میں ۱۹۴۲ءتا۱۹۴۵ءکے درمیان زمانہ اسیری میں لکھے گئے۔ مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قیدوبندمیں گزرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر دفعہ سے زیادہ سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط وکتابت کرنے کی۔ اس لیے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈ نکالا اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کردیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور ’’خط غبار من است این غبار خاطر‘‘ سے اسے تعبیر کیا ہے۔ ایک خط میں شروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: ’’جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبعِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ آپ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میرے ذوق مخاطبت کے لیے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے‘‘۔ مولانا آزاد نے یہ خطوط شائع کرنے کے خیال سے نہیں لکھے تھے لیکن ان کی رہائی کے بعد جب مولوی اجمل خاں کو ان خطوط کا علم ہوا تو مُصر ہوئے کہ انہیں ایک مجموعہ کی شکل میں شائع کردیا جائے اور یوں غبارِ خاطر کو پہلی مرتبہ محمد اجمل خاں نے مرتب کرکے ایک مقدمہ کے ساتھ مئی ۱۹۴۶ءمیں شائع کیا۔

 دوسرے حصے میں مولانا آزاد کے تعلیمی اور سیاسی نظریات سے بحث کی گئی ہے۔ مولانا کہتے تھے کہ تعلیم کا واحد مقصد روزی روٹی کمانا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ تعلیم سے شخصیت سازی کا کام بھی لیا جائے۔ یہی تعلیم کا سب سے مفید پہلو ہے اور اسی سے معاشی و تمدنی نظام بھی بہتر ہوسکے گا۔ آزاد کا نظریہ یہی تھا کہ تعلیم وہی ہونی چاہیے جو ترقی کی ضامن ہو اور جس سے ایک بہتر سماج تشکیل پاسکے ،جس میں انصاف، رواداری اور فراخ دلی ہو۔

 تیسرا حصہ ’خلاصۂ بحث‘ یعنی اس کتاب کی تلخیص ہے۔ پیش نظر کتاب میں محمد اختر نے مولانا آزاد کی ادبی و صحافتی رویے ، شخصیت، نظریۂ تعلیم اور ادبی خدمات پر متوازن اسلوب میں روشنی ڈالی ہے۔ مولانا آزاد سے عقیدت کا اظہار کرنے کے بجائے تجزیاتی محاکمہ کے ذریعہ مصنف نے ان کی قدروقیمت متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ افکار و تصورات کے ساتھ ہی، قومی اور ملکی سیاست میں مولانا آزاد کی عملی سرگرمیوں کا بھی مصنف نے جائزہ لیا ہے اور معاصر سیاسی پس منظر میں مولانا آزاد کے موقف پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔

حارث حمزہ لون 

ساکن: رحمت آباد رفیع آباد بارہمولہ کشمیر

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...