Wednesday, August 9, 2023

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

ڈاکٹر سمیع احمد

اردوایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک و ملت کو جب کبھی بحرانی حالات کاسامنا ہواتو اردو نے اس کیفیت سے نکالنے میں ایک کلید ی رول اداکیا۔معاملہ ملک کی آزادی کاہو یاغاصب طاقتوں سے لوہا لینے کا ،اردو نے ہرمحاذ پر زندہ دلی کاثبوت دیا۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں جب انگریزی حکومت کے خلاف آزادی کا بگل پھونکا گیا تو اردو عوام کو جگانے اور لوگوں کے دلوں میں جذبۂ حریت کو فروغ دینے میں پیش پیش رہی۔یہ اردو صحافت ہی کاکرشمہ تھا کہ اس نے آزادی کی چنگاری کو شعلہ بنادیااور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ہندوستان انگریزوں کی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا ۔اردو صحافت کی فطرت میں ہی حق گوئی ،بے باکی ،احتجاج اور انقلاب شامل ہے۔اردو صحافت نے محض اپنے دم خم پر جنگ آزادی میں جو سرفروشانہ کردار ادا کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ تاریخ میں درج ہے کہ اردو صحافت کے اسی سرفروشانہ کردار کی بدولت ملک کو آزادی نصیب ہوئی۔

۱۸۵۷ءکی ناکام جنگ کے بعد حکومت برطانیہ نے ہندوستان کے مسلم علما اور اردو کے صحافیوں کوتختۂ مشق بنانا شروع کیا۔اس زمانے کے اردو کے معروف صحافی اور ’دہلی اردو اخبار‘ کے مدیر مولوی محمد باقر کو جذبۂ حریت کی تشہیر کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ غلام ہندوستان میں شائع ہونے والے اردو اخبارات کی ورق گردانی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے غلامی کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں عوام الناس میں قومی شعور کو بیدار کیا،اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ قومی شعور کی بیداری ہی آزادی کا پہلا زینہ ہے۔عوام کو محکومیت کا احساس دلانا اور ان کی رگِ حمیت کو جھنجھوڑنا دراصل شعور کی بیداری کا حصہ ہے ۔اگر دیکھا جائے تو اردو صحافت نے یہی کیا ۔اردو صحافت نے عوام کو محکومیت کے خلاف بیدار بھی کیا اور انھیںیہ احساس بھی دلایا کہ غلامی کے ماحول میں انسان کی قوت فکر اور قوت پرواز دونوں مضمحل ہوجاتی ہیں۔اردو صحافت کی ایک تابناک تاریخ رہی ہے ۔مولوی محمد باقر،مولانا محمد علی جوہر،مولانا ظفر علی خاں ،مولانا ابوالکلام آزاداورمولانا حسرت موہانی وغیرہ اردو کے ایسے جیالے صحافی تھے جنہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ان کی قربانیوں کے طفیل ہندوستا ن کوآزادی نصیب ہوئی۔یہ اُردو کااحسان ہے کہ اس نے ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ دیا، جس نے ناقابل شکست برطانوی حکومت کی جڑیں ہلا دیں۔ بھگت سنگھ ، راج گرو اور سکھ دیوایسے مجاہدین آزادی تھے جنہوںنے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے آزادیٔ وطن کی خاطر تختۂ دار کو ہنس کر گلے لگالیا۔تحریک آزادی میں اردو صحافت کے فعال کردار کے حوالے سے معروف صحافی محمد عثمان فارقلیط کا خیال ہے :

اُردو اخبارات نے جو قربانیاں دیں، اُن کا موازنہ کسی دوسری زبان کی صحافت سے نہیں کیا جا سکتا۔‘( الجمعیۃ، دہلی)

ہندو اور مسلمان دونوں نے مل کر انگریزی حکومت کے خلاف آوازبلند کی تھی ، لیکن۱۸۵۷ءکی ناکام جنگ کے بعد انگریزوں نے صرف مسلمانوں کو ہی اپنے عتاب کا نشانہ بنایا۔چونکہ انگریزوںنے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی لہٰذاانھیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ ان کی طرف سے احتجاج کی آواز بلند ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف اہالیانِ ہندوستان کو اس بات کا احساس تھا کہ انگریزآسانی سے ہندوستان کو چھوڑ کر جانے والے نہیں ہیں۔ چنانچہ اردو کے قلم کاروں اور صحافیوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے آزادی کی راہ ہموار کی اور جذبہ حریت کو فروغ دیا۔اس زمانے کے اخبارات کی ورق گردانی سے اس عہدکے احوال وکوائف کااندازہ ہوتا ہے اوریہ پتہ چلتا ہے کہ اردو اخبارات نے عوام کو غلامانہ ذہنیت سے نکالنے کے لیے کس طرح کی کوششیں کیں۔

 اردو اخبارات کے سرسری جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ انگریزوں کے مظالم کے خلاف سب سے پہلے جیمس اگسٹس ہکی نے ’کلکتہ ایڈورٹائزر‘کے نام سے ایک اخبار نکالا،اُس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دیگر لوگوںنے اخبارات جاری کیے اور انگریزوں کے ہر اُس عمل کو طشت از بام کیا جو ہندوستانیوں کے افکارونظریات سے متصادم ہوتا۔ اس طرح اردو اخبارات نے آزادی کی تحریک میں نمایاں خدمات انجام دیں۔اگر دیکھیں تو اُردو اخبارات نے ابتدا سے ہی قارئین کے دلوں میں حب الوطنی کا جذبہ بٹھا دیا  :

ہمارے ساتھ یہی شرط ہے کہ جو بھی چلے

 خود اپنی تیغ پہ اپنا لہو سجا کے چلے

ملک کی تعمیر و ترقی میںاُرد و صحافت کا رول شروع سے ہی اہم رہا ہے۔ اردو کے ادیبوںا ورصحافیوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ عوام کو بیدار کیا۔ اس وقت کے اخبارات میں جس طرح کی خبریں شائع ہوتی تھیں، اس کے کچھ نمونے ملاحظہ کریں:

’’دریافت ہوتا ہے کہ ان دنوں میں ہنگامہ چوری کا وہاں ایسا بازار گرم ہے کہ رات کو سونا ترک کر دیا ہے۔ ہر شب چور دولت مندوں کے گھروں سے جو کچھ نقد جنس پاتے ہیں ، لے جاتے ہیں اور ارباب پولیس سے کچھ تدارک اس کا نہیں ہو سکتا۔ ظاہرہے چوروں سے سازش رکھتے ہیں ورنہ ممکن نہیں کہ ہر شب بے سازشِ پاسبان اور ارباب پولیس کے چوری کرنے کی جرأت کر سکیں۔‘‘ ( دہلی اردو اخبار، ۱۹؍اپریل ۱۸۴۱ء)

۳۱؍ مئی ۱۸۵۷ءکے دہلی اردو اخبار میں مولوی محمد باقر لکھتے ہیں:

انگریزوں کے تکبر نے ان کو قہرِ الٰہی میں مبتلا کیا ہے۔ان اللّٰہ لایحب المتکبرین - اب کہاں انگلش مَین اورفرینڈ آف انڈیا۔۔۔ اور وہ لن ترانیاں ۔ حکمت و حکومت داناؤں انگلستانیوں کی۔۔۔

جنگ ِ آزادی کے ہیرو مولوی احمداللہ شاہ کی لکھنؤ میں انقلابی سرگرمیوں کی ایک رپورٹ ’طلسم‘ لکھنؤ اخبار نے شائع کیا۔ شاہ صاحب نے ۱۸۵۶ءکے اواخر میں اپنی شعلہ بیانی سے عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ اس سلسلہ کی خبر ’ طلسم‘ کے ۱۳؍فروری۱۸۵۷ءکے شمارے میں ملتا ہے :

وہ جو احمد اللہ گھسیاری منڈی میں مقیم ہیں، جو چاہتے ہیں زبان بولتے ہیں، بے خوف و بیم ہیں۔ بہت بھیڑ بھاڑ رہتی ہے، مولوی امیر علی صاحب مغفور کا ماجرا یاد کرتے ہیں، زبانی جدوجہد کرتے ہیں، آخر جب یہ خبر حکام کو پہنچی ، طبیعت ان کی فکرِ انتقام کو پہنچی۔ ۲۰؍جنوری کو حسب الحکم شہر کے کو توال آئے۔ بعد فہمائش فرمایا کہ یہ بیان آپ کا بہت بے جا ہے۔ نری خرابی کے ڈھنگ ہیں۔ شاہ صاحب نے لب کھولے تو بہ بانگ بولے کہ تم بھی مسلمان ہو۔ اگر شرع کا دھیان ہو اور سامان و اسباب ضرورت مہیا ہو، فرمائیے تم پر اُس وقت جہاد فرض نہ ہو تو کیا ہو؟ اس طرح میں بھی جہاد کو فرض جانتا ہوں ، بے سامانی سے ناچار ہوں، اگر بہم پہنچے تو تیار ہوں۔

 اُردو زبان اور اردو صحافت، اُس دور میں عوام کے دلوں میں آزادی کا جوت جگارہی تھی۔ان دنوں تقریباً ہر سیاسی جماعت کے پاس اُردو کا ایک جریدہ ہواکرتاتھا، یہاں تک کہ مہاتما گاندھی کے مشہور اخبار ’ہریجن ‘ کا بھی اُردو ایڈیشن نکلتا تھا۔ آزادی کے وقت اردو صحافت ۱۲۵سال پرانی تھی اور یہ انڈین نیشنل کانگریس سے ۶۳سال قبل وجود میں آچکی تھی۔ ۱۲۵سال کا یہ طویل عرصہ شاندار کارناموں، بے غرض قربانیوں اور مخلصانہ عمل کا دور تھاجسے عموماً نظر انداز کیا جارہا ہے۔

 اردو کا پہلا اخبار ’جام جہاں نما‘۲۲؍ مارچ۱۸۲۲ء کو کولکاتا سے منشی ہری ہر دت نے شائع کیاتھا جس کے ایڈیٹر منشی سدا سکھ تھے۔انھوں نے اپنے اخبارمیں انگریزوں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ظالمانہ پالیسیوں کو طنزوتنقید کا نشانہ بنایا۔ ۱۸۳۶ءمیں مولوی محمد باقر نے دہلی سے’ دہلی اردو اخبار‘نکالا۔مولوی محمد باقر ایک بے باک اور نڈر صحافی تھے ،انھوں نے انتہائی جرأ ت سے کام لیتے ہوئے فرنگیوں کی ظالمانہ پالیسی کے خلاف لکھا اور عوام میں حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دیا جس کے نتیجے میں انگریزافسر ہڈسن کے حکم سے انھیں گولی مارکر شہید کردیاگیا۔ اردو صحافت کی تاریخ میں مولوی باقر کوپہلے شہید صحافی کے طورپر یادکیا جاتا ہے۔

صحافت ایک عظیم اور جرأت مندانہ پیشہ ہے ،اس کی اہمیت اور افادیت ہرزمانے میںمحسوس کی گئی ہے ۔دنیا میں بڑے بڑے انقلابات بھی صحافت کی مرہون منت ہیں۔مقامی فکرواحساس کو آفاقیت سے ہم کنار کرنے میں بھی صحافت کے کردار کو نظراندازنہیں کیا جاسکتا ۔تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے قلم وقرطاس سے رشتہ استوار کیا، ممالک کو مسخر کرنے اور بڑی سے بڑی جنگ کو فتح کرنے میں اسے دیر نہیں لگتی۔یہی وجہ ہے کہ اکبر الہ آبادی جیسے عظیم شاعر نے آج سے برسوں قبل صحافت کی اہمیت اور اخبار کی معنویت کو محسو س کرلیا تھا، انھوں نے کہا کہ جنگ جیتنے کے لیے تیر وکمان کی نہیں اخبار کی ضرورت ہے،شعر ملاحظہ کریں:

کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو

جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

کتنی صداقت ہے اکبر ؔالہ آبادی کے اس شعر میں کہ فکری اور نظریاتی جنگ میں فتحیاب ہونے کے لیے توپ کی نہیں ہمیں اخبار کی ضرورت ہے۔یہ سچ ہے کہ اُردو اخبارات نے عوام میں وہ سماں باندھااور انہیں اس حد تک تیار کیا کہ توپ کے دہانے کھولنے والے انگریزوں کو ملک چھوڑ کر جاناپڑا۔

 ’دہلی اُردو اخبار‘ کے بعد تو ملک کے کونے کونے سے اُردواخبارات کے نکلنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سرسید احمد خان کے بھائی سید محمد خاں نے دہلی سے ’سید الاخبار’ ۱۸۳۷ء میں جاری کیا۔ محبوب عالم کی ادارت میں گوجرانوالہ (موجودہ پاکستان) سے ۱۸۸۷ءمیں’پیسہ‘ اخبار نکلنے لگا۔ اس زمانے میں اس اخبارکی اشاعت بہت زیادہ تھی ۔یہ اخبار عوام میں بہت زیادہ مقبول تھا ،حتی کہ سات برس کی مدت میں اس کی اشاعت دس ہزار تک ہوگئی تھی۔ لاہور سے مولانا ظفر علی خاں  ’زمیندار‘اخبارکے ذریعے اپنی طنزیہ شاعری سے انگریزوں کی نیند حرام کیے ہوئے تھے، تو دہلی سے مولانا محمد علی جوہرؔ اخبار ’ہمدرد‘ کے ذریعہ عوام کو بیدار کر رہے تھے۔ادھر لاہور سے مہاشے خوشحال چند خورسند نے اپنی ادارت میں ۱۳؍اپریل ۱۹۲۳ءکو ’ملاپ‘ اخبار جاری کیا ،تو وہیں لکھنؤ سے منشی نول کشور نے ’اودھ اخبار‘ جاری کیا۔یہ وہ اخبارات تھے جن کے اداریے ایک احتجاجی رنگ لیے ہوتے اور ان میں شائع والے بیشتر مضامین کی نوعیت بھی انقلابی ہوتی۔ان اخبارات کا عوام میں ایک خاص اثر ہوتا اور وہ ان سے تحریک پاکر ملک کی آزادی کی جنگ میں شامل ہوتے۔

 بیسویں صدی کے اوائل میں کئی اہم اخبارات جاری ہوئے۔کولکاتاسے مولانا ابوالکلام آزاد نے ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘جاری کیا تو کولکاتا سے ہی ’عصر جدید‘ اور ’ہند‘ نکلے۔ دہلی سے ’الامان‘اور ’وحدت‘ممبئی سے’خلافت‘ لکھنؤ سے ’حق‘، ’ہمدم‘ اور ’سرفراز‘،جبکہ لاہور سے شائع ہونے والے اخبارات میں’انقلاب،احسان‘ اور ’شہباز‘ اہم ہیں۔ قدیم اخباروں میں ’زمیندار‘ اور ’سیاست‘ انتہائی مقبول تھے۔قاری کو ان میں اپنے دل کی آواز سنائی دیتی،جس کی وجہ سے انھیں ان اخبارات کاانتظار رہتا۔اردو ایک سیکولر زبان ہے،گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے ،یہ ہرمذہب و مسلک کے لوگوں کی زبان ہے یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم صحافیوں اور ان کے ہندو مالکان نے اردو اخبارات نکالے اور اردو زبان وادب کی آبیاری کی۔ ’تیج‘ (دہلی) ،’پر تاپ‘، ’ملاپ‘ اور ’وندے ماترم،ویر بھارت‘ ایسے ہی اخبارات تھے جن کے مالکان ومدیران غیر مسلم تھے۔

 حریت فکر اور آزادیٔ تحریر کے متوالے اردو کے مدیر اور صحافی انگریزوں کے ذریعے ڈھائے گئے مظالم کے خلاف سینہ سپر ہوجاتے۔ ادھر انگریزوں کا ظلم بڑھتا گیااور انہیں جیلوں میں ٹھونس دیاجاتا،قید با مشقت کی سزادی جاتی، پھانسی پر لٹکایا جاتا مگر تحریک آزادی کے متوالے ان چیزوں کی پروا نہیں کرتے۔۱۸۵۷ءمیں ’کوہ نور‘ لاہور کے ایڈیٹر منشی سدا سکھ رائے کو باغیانہ تحریر کے لیے تین سال کی قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ ’صادق الاخبار‘ دہلی کے ایڈیٹر سید جمیل الدین ہجرؔ کو بھی تین ماہ کی سزا دی گئی۔ ’مظلوم دکن‘ حیدر آباد کے ایڈیٹر عظیم الدین کو ۱۸۹۸ءمیں شہر بدر ہونا پڑا۔ ہفت روزہ ’سچائی‘ کے ایڈیٹر لالہ جسونت رائے کو دو سال کی قید بامشقت کی سزا ہوئی ۔’انڈیا‘ اخبار (گوجرانوالہ) کے ایڈیٹر لالہ دینا ناتھ کو حکومت پر تنقید کرنے کے جرم میں تین برس کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ مولانا حسرتؔ موہانی سے بار بار ضمانتیں طلب کی گئیں اور ان کا پریس بھی ضبط کر لیا گیا۔ ’سوراجیہ ‘ الٰہ آباد کے ایڈیٹر شانتی نارائن بھٹناگر کو کئی برسوں تک جیل کی سزا کاٹنی پڑی۔ اِسی اخبار کے نندگوپال کو ۱۹۱۰ءمیں دس برسوں کی قید کی سزا ہوئی اور اسی اخبار کے دوسرے ایڈیٹر پنڈت کو سا رام کو بھی دس برسوں کی قید با مشقت کی سزا ہوئی۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہرؔ، مولانا ظفر علی خاں اور مولانا حسرتؔ موہانی کاتو ہمیشہ جیل آناجانا لگا رہتا۔ ’ملاپ‘ لاہور کے مہاشے کرشن کو کئی بار سزائیں دی گئیں۔ ’ملاپ‘ لاہور کے مدیر رنبیر جی کو تو پھانسی کی سزا ہو گئی تھی مگر اس سے پہلے ہی انگریزوں کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا جس کی وجہ سے ان کی جان بچ گئی۔

اردو اخبارات کی آزادی کی جنگ میں جھونکنے کا عمل ہندوستان تک ہی محدود نہ تھا بلکہ دنیا کے گوشے گوشے میں، جہاں جہاںہندوستانی رہتے تھے، وہ آزادی کی تحریک کا حصہ تھے۔مجاہدین آزادی نے اس کام کے لیے اردو اخبارات کا سہارا لیا۔ مولانا برکت اللہ بھوپالی نے ہندوستان جلا وطن حکومت بنائی تھی۔ اُس حکومت کے صدر لالہ ہردیال اور وہ وزیراعظم تھے۔’غدر‘نام سے ان کی ایک سیاسی پارٹی تھی۔اپنے موقف کی ترجمانی کے لیے انھوںنے ’غدراخبار‘کے نام سے یکم نومبر۱۹۱۳ءکو کیلی فورنیا میں اردو کا ایک اخبار جاری کیا۔یہ اخبار اردو کے علاوہ ہندی، مراٹھی ، گورمکھی اور گجراتی زبانوں میں بہ یک وقت نکلتا تھا۔ اس کے ایڈیٹر رام چندر اور معاون مولانا برکت اللہ بھوپالی خود تھے۔ یہ اخبار ہندی ایسوسی ایشن آف ینگ کوسٹ کا آرگن تھا۔ کچھ دنوں بعد ایسوسی ایشن کے ہیڈ کوراٹر کے ساتھ اس کا دفتر بھی سان فرانسسکو منتقل ہو گیا۔ ایسوسی ایشن کا دوسرا نام ’غدر پارٹی‘ تھا۔ یہ نام اتنا مشہور ہوا کہ ایسوسی ایشن کا اصل نام پردۂ خفا میں چلا گیا۔

اُردو صحافت کے ذکر کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم کچھ اور اخبارات پرروشنی ڈالیں گے۔ مثلاً ’امین الاخبار‘جو الٰہ آباد سے ہفتہ وار نکلتا تھا ،جس کی کاپی رضالائبریری (رام پور) میں موجود ہے۔’ اخبار عام‘ کا بھی ذکر لازمی ہے جو لاہور سے سہ روزہ نکلتاتھا ،اس کے مدیر گوپی ناتھ تھے۔ ۱۸؍ اگست ۱۸۸۱ءکی ایک کاپی مہر الٰہی لائبریری میں موجود ہے )ڈاکٹر میرا لٰہی [م ندیم[ علی گڑھ کا ذاتی ذخیرہ)اسی طرح آگرہ سے ایک پندرہ روزہ اخبار ’مفید عام‘ نکلتا تھا، جس کے مالک احمد خاں صوفی تھے، اس کی کاپی بھی رضا لائبریری (رام پور) میں موجود ہے۔ ’ہندوستانی اخبار‘ کے ذکر میں بالترتیب’سائنٹفک سوسائٹی‘ اور رسالہ ’تہذیب الاخلاق ‘ کا ذکر بھی ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ ’سائنٹفک سوسائٹی‘ کا پہلا شمارہ ۳۰؍مارچ ۱۸۶۶ء کو علی گڑھ سے شائع ہوا اور ’تہذیب الاخلاق‘ کا اجرا ۲۴؍دسمبر ۱۹۷۰ءکو عمل میں آیا۔ لکھنو سے شائع ہونے والا اخبار ’طلسم لکھنؤ‘ ۲۵؍جولائی ۱۸۵۶ءکو مولوی محمد یعقوب انصاری فرنگی محلّی نے جاری کیا،جو انگریز حکومت پر نکتہ چینی کے لیے بے مثال تھا۔’ طلسم‘ میں قلعۂ معلی کی خبریں بھی متواتر شائع ہوتیں۔ چنانچہ بہادر شاہ ظفر کے خلاف جب انگریزوں نے مقدمہ چلایا تو ’طلسم‘ کا ۱۶؍سمبر ۱۸۵۶ءکا شمارہ مبینہ بغاوت ۱۸۵۷ءکے معاملہ میں بطور ثبوت پیش کیا گیا۔ یہ شمارہ نیشنل آرکائیوز ، نئی دہلی میں بغاوت کے کاغذات میں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار اخبارات تھے جو ہندوستان کے مختلف گوشوں سے نکل رہے تھے۔ مثلاً ’شمس الاخبار،سلطان الاخبار، جلوہ طور،البشیر، سفیر ہند‘ اور ’الجمعیۃ‘( دہلی) وغیرہ... یہ وہ اخبارات تھے جن کا عوام میں ایک خاص اثر تھا ۔عوام کے جذبہ و احساس سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے ان اخبارات کا قاری کو انتظار رہتا۔

ہندوستان میں اردو صحافت کی بنیاد دو چیزوں پر رکھی گئی تھی۔ اوّل انگریزوں کے جبر و ستم کے خلاف اور دوم حریت فکر و آزادیٔ تحریر پر۔ اردو اخبارات نے حریت فکر اور آزادیٔ تحریر کے ساتھ ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی میں ہر ممکن کوشش کی۔ جب اُن کے اُس حق پر حرف آیا تو وہ انگریزوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے، احتجاج کیا اورصحافیوں نے ہر قسم کی اذیتیں برداشت کیںمگر ان کے احتجاجی تیوراور انقلابی فکرمیں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔اُردو اخبارات نے جنگِ آزادی کے دوران جو مثالی کردار ادا کیا ، اُسے تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھا جائے گا، اردو صحافت کا یہ سرفروشانہ کردار ہے، جس پر اُردو کو ہمیشہ ناز رہے گا۔

.....

 

سابق،گیسٹ فیکلٹی، شعبۂ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ

 نئی دہلی -110025

موبائل:  9818334376

 

Thursday, August 3, 2023

نیرنگ خیال کی جلوہ نمائی شعرو ادب کا محور

 نیرنگ خیال کی جلوہ نمائی شعرو ادب کا محور

پروفیسر عبدُ البرکات

انفس و آفاق کی تمام سرگرمیاں نفوس کی نیرنگ خیالی کی مرہون منت ہیں۔درحقیقت انسانی بقا اور نظامِ معاشرتی زندگی کے فروغ میں نیرنگ خیالی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ قدرت نے آفاق کو بے شمار اسرار و رموز اور نعمتوں سے سجایاہے جن کی تسخیر کے لیے نظامِ انفس عطا کیا ہے۔ نیز آسمانی صحائف کے توسط سے نفوس کو عقل و شعور اور فہم و ادراک سے مزین کیاہے اور ان کا سارتھی علم ہے گویا یہ درِ آفاق پر لگے تالے کی کنجی ہیں جن کو قدرت نے انسان کو مرحمت کیا ہے۔انفس کے تعلق سے بہت ساری تشریحات اور منطقی استدلالات موجود ہیں تاہم ان دقیق منطقی تصورات سے گریز کرتے ہوئے ایک عام ذہن کے مطابق، نفوس کو قدرت نے جس طرح لوازماتِ انسانی سے آراستہ کیاہے وہ نظامِ انفس کے زمرے میں آتاہے جس کے طفیل انسان؛اشرف المخلوقات کی کرسی پر براجمان ہے۔ لہٰذا انسان اپنی فکر و تدبر سے ہمہ دم کائنات کے اسرار و رمو ز اور معدنیات سے پردے سرکائے جارہاہے کیوںکہ قدرت نے نفوس میں بلا کی تخلیقیت عطا کی ہے جس کی جلوہ نمائی کا مظاہرہ ہر سُو نمایاں ہے تاہم اس تخلیقی مظاہرے میں بہت ضبط و احتیاط اور صبر و تحمل کی ضرورت پڑتی ہے۔معمولی التباس سے بھی انسان بے سمتی اور بےراہ روی میں مبتلاہوکر غارت گری کا شکار ہوجاتاہے اس لیے میرتقی میرؔ کا کہنا ہے :

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

قدرت، ہزاروں لاکھوں لوگوںکو تخلیقی استعداد ودیعت کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ جہانِ تازہ کی نمو میں مستغرق رہتے ہیں۔اس تناظر میں شعر و ادب کی اہمیت اور افادیت کی وسعت اور کارکردگی سے انکار ناممکن ہے کہ شعر و ادب کا مرکز و محور انسان ہی ہے۔ فن کار و قلم کار اس جہانِ تازہ کو انسانی احساسات اور کیفیاتی جذبات کے گل بوٹے سے آراستہ کرکے انسانیت کے لیے سیرگاہ بناتے ہیں۔خوب سے خوب تر کی جستجو میں بھی ان کی فکر کا محور انسانی فلاح و بہبود ہی رہتاہے جس سے اشرف المخلوقات ہونے کا احساس بھی جاگزیں ہوتاہے۔ لہٰذا علامہ اقبالؔ کے مندرجہ ذیل فارسی اشعار کو اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے:

تو شب آفریدی، چراغ آفریدم

سفال آفریدی، ایاغ آفریدم

بیابان و کہسار و راغ آفریدی

خیاباں و گلزار و باغ آفریدم

من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم

من آنم کہ از زہر نوشیہ سازم

اکیسویں صدی کے پہلے عشرہ سے ہی زندگی کے تمام شعبے میں بڑی سرعت سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور اسی تناسب میں جدید ٹیکنالوجی اس کی توسیع بھی کررہی ہے۔کسی بھی تخلیق یا علم وہنر کے حوالے سے کوئی نظریہ، آن کی آن میں عالمی سطح پر پہنچ جاتاہے۔لہٰذا اس تناظر میں فن کار و قلم کار کی ذمہ داریاں مزید بڑ ھ جاتی ہیں۔ ان کو اپنے خیالات کو ضبطِ تحریر میں لانے اور اپنے کلام اور تحریروں میں احساسات ، جذبات اور انسانی کیفیات کی ترجمانی اور مظاہرہ کرتے ہوئے، فن کاری سے یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ یہ کسی مصنوعی ذہانت کے تصورات نہیں ہیں۔ گوشت پوست والی قدرتی تخلیق کے خیالات ہیں۔ یعنی آدمی کو اس کے صحیح مقام پر استوار کرنا اور مصنوعی ذہانت کے سامنے احساسِ کمتری سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری بھی رواں صدی کے شعرا و ادبا کی بنتی ہے جو اس سے قبل کا تصور نہیں رہاہے۔ لہٰذا رواں صدی کے فن کاروں اور شعرا و ادبا خصوصاً جو ابھی ادبی منظرنامہ پر ابھر رہے ہیں، میرے خیال کے مطابق ان کو تین مسائل درپیش ہیں:

(۱)      مادیت کی چکاچوند ھ میں انسانیت کی علم برداری۔

(۲)      الیکٹرانکس ڈیوائس اور مصنوعی ذہانت کے چیلنج کا سامنا۔

(۳)     بے ہنگم تفریحی یلغار میں شعر و ادب کی پیش کش۔

(۱)      مادیت کی چکاچوندھ میں انسانیت کی علم برداری:

ہر دَور کے فن کاروں اور شعرا و ادبا کو عموماً عسرت کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ دورِ رواں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے، لیکن اکیسویں صدی کے شعرا و ادبا کے مسائل کی نوعیت منفرد ہے کیوںکہ جدید ٹیکنالوجی کے لوازمات اور اس تعلق سے معلومات فن کاروں کے لیے بھی ناگزیر ہوگئی ہیں کہ ان کی عدم موجودگی میں جمہور یا دنیا کے سامنے، صحت مند حقائق پر مبنی خیالات کی ترسیل ممکن نہیںہے۔ تاہم قدرت نے ہر فرد بشر میں الگ الگ استعداد رکھی ہے۔ لہٰذا شعرا و ادبا اور فن کاروں کو قدرت نے نیرنگ خیالی کا ملکہ عنایت کیاہے جس کے طفیل مناظرِ قدرت، فرد اور سماج کے مشاہدے اور اپنے مطالعے کی ہم آہنگی سے انسانی فلاح و بہبود کے لیے اخلاص کے ساتھ نئے نئے خیالات و تصورات وضع کرتے اور اپنی تخلیقات پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرتی نظام میں سفرِ زندگی معنی خیز، خوش گوار اور سہج بنتی ہے۔اسی تناظر میں وہ انسانیت کے علم بردار اور انسانی زندگی کی رہ گزر پر اسٹریٹ لائٹ ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس قدرتی عطیہ کا ادراک ہوتے ہی فن کار اور شعرا و ادبا جب دولت، شہرت، عہدہ ، ناموری سے بے نیاز ہوکر انسان، انسانیت اور انسانی معاملات پر ارتکاز کرکے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیںتو وہ توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔پھر ماضی میں بادشاہی دربار رہاہو یا دورِ رواں کے جمہوری اقتدار ، ان تک رسائی کی راہ ہموار ہوجاتی ہے اور ان کو زر، زمین اور انعام و اکرام سے سرفراز کیاجاتاہے اس لیے آتش کا خیال  :

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں

درحقیقت عصری آگہی کی بناپر ہی شعرا، ادبا اور فن کار و قلم کار اپنے دور کے نمائندہ کردار گردانے جاتے ہیں اور ان کی تحریریں عصری دستاویز ثابت ہوتی ہیں کیوںکہ عصری معاملات و مسائل اور حالات و کیفیات سے ابھرنے والے جذبات اور صورتِ حال کی عکاسی و ترجمانی ان کی تحریروں میں احتسابی اور معروضی انداز میں راہ پاتی ہے۔ اس دور کے نفسیاتی عوامل، معاشرتی نظام میں فرد کی حیثیت سے انسان کے فعل و عمل، فطری طور پر ان کے کلام میں در آتے ہیں کیوںکہ انسان کی متجسس فطرت ، نئی تلاش و تحقیق پر گامزن رہتی ہے اور فن کاروں میں تو اس کی بہتات ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی قدرت نے انسان کی فطرت کو صبر و تحمل کے مادہ سے لبریز کیا ہے جس کو فن کار اور قلم کار اپنی توجہ کا مرکز و محور بناتے ہیں اور اس کو احتساب و تجزیہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال محمد حسین آزاد کے مضمون ’’انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا‘‘ میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہاں اس مضمون کا تجزیہ بے محل نہیں ہوگا۔ اس مضمون میں سقراط اور دوسرے حکما کے خیالات کو محور بناکر نفسیاتِ انسانی کو فطری تناظر میں،رومانی فکر عطا کی گئی ہے۔ہر انسان اپنے مسائل، اپنی مصیبتوں اور پریشانیوںکو دوسروں سے سوا سمجھتاہے اور اس تقابل میں خود کو بدبخت تصور کرتا ہے جب کہ حقیقت اس سے پرے ہے۔دراصل وہ مصلحتِ خداوندی سے عاری ہونے کی وجہ سے اس طرح کے خیالات رکھتاہے جب کہ صبر و تحمل کے ساتھ اس کو اپنے معاملاتِ زندگی پر قناعت ہونی چاہیے۔ بہرکیف! اس کا فطری حل نکالنے کے لیے مصنف نے عالمِ خواب کا سہارالیاہے جس کے مطابق اس نوعیت کی عرضیوںکے مدِ نظر:

’’سلطان الافلاک کے دربار سے ایک اشتہار جاری ہوا، خلاصہ جس کا یہ ہے کہ تمام اہلِ عالم اپنے اپنے رنج و الم اور مصائب و تکالیف کو لائیں اور ایک جگہ ڈھیر لگائیں۔‘‘  (۱)

اس اشتہار کی آمد کے بعد میدانِ خیال سے بھی وسیع میدان میں محرر ایستادہ ہوکر ان امور کا معائنہ کرنے لگا۔ وہاں ہر شخص اپنے اپنے رنج والم سے نجات پانے کے لیے اپنی گٹھڑیوںکو اس میدانِ خیال میں ڈھیرکرتاجارہاتھا۔محمد حسین آزاد کے مطابق:

’’ہم اس انبوہِ پُرآفات پر غور کررہے تھے اور اس عالمِ ہیولانی کی ایک ایک بات کو تاک تاک کر دیکھ رہے تھے جو سلطان الافلاک کی بارگاہ سے حکم پہنچاکہ ’’اب سب کو اختیارہے ، جس طرح چاہیں اپنے اپنے رنج و تکلیف تبدیل کرلیں اور اپنے اپنے بوجھ لے کر گھروںکو جائیں۔‘‘ یہ سنتے ہی میاں وہم پھر مستعد ہوئے اور تُرت پھرت کے ساتھ انبارِ عظیم کے بوجھ باندھ باندھ کر تقسیم کرنے لگے۔ہر شخص اپنا اپنا بوجھ سنبھالنے لگا اور اس طرح کی ریل پیل اور دھکم دھکا ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔چنانچہ اس وقت چند باتیں جو میں نے دیکھیں وہ بیان کرتاہوں:

ایک پیر مرد کہ نہایت معزز و محترم معلوم ہوتاتھا، دردِ قولنج سے جاں بلب تھا اور لاولدی کے سبب سے اپنے مال و املاک کے لیے ایک وارث چاہتاتھا،اس نے دردِ مذکور پھینک کر، ایک خوبصورت نوجوان لڑکے کو لیا، مگر لڑکے نابکار کو نافرمانی اور سرشوری کے سبب سے دق ہوکر اس کے باپ نے چھوڑ دیا تھا، چنانچہ اس نالائق نوجوان نے آتے ہی جھٹ بڈھے کی داڑھی پکڑلی اور سر توڑنے کو تیارہوا۔ اتفاقاً برابر ہی لڑکے کا حقیقی باپ نظرآیا کہ اب وہ دردِ قولنج کے مارے لوٹنے لگاتھا،چنانچہ بڈھے نے اس سے کہا کہ برائے خدا میرا دردِ قولنج مجھے پھیر دیجیے اور اپنا لڑکا لیجیے کہ میرا پہلا عذاب اس سے ہزار درجہ بہترہے مگر مشکل یہ ہوئی کہ یہ مبادلہ اب پھر نہ ہوسکتاتھا۔‘‘ (۲)

مصنف نے بڑی فن کاری سے نیرنگِ خیال کی جلوہ نمائی سے قارئین کو عبرت لینے کے ساتھ ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیارکیاہے۔ظاہر ہے اس نوعیت کی تخلیقات سے معاشرتی نظام میں خوش گوار اور صحت مند منظرنامہ اُبھرتا ہے جو دلوں سے کدورت کو ختم کرتا ہے اور توکل پیدا ہوتاہے۔

(۲)      الیکٹرانکس ڈیوائس اور مصنوعی ذہانت کے چیلنج کا سامنا:

سائنسی ایجادات اور جدید ٹیکنالوجی نے معاشرتی زندگی کے تمام شعبے پر اپنی بساط بچھادی ہے اور اس سرخ قالین پر مصنوعی ذہانت والے آلات اپنی برق خرامی سے عوام کی توجہ مبذول کر رہے ہیں نیز انسان کو اپنے تابع بناتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے اہلِ علم و دانش فکرمند ہیں۔فن کار اور قلم کار کو بھی ان سے روبرو ہونا پڑ رہاہے جب کہ مصنوعی ذہانت والے آلات، انسانی کارنامہ ہیں اور وہ انسان کے لیے ہی چیلنج بن گئے ہیں۔ اس تعلق سے جگرمرادآبادی کے یہ اشعار ملاحظہ کریں:

جہل خرد نے دن یہ دکھائے

گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے

جھوٹی ہے ہر ایک مسرت

روح اگر تسکین نہ پائے

کارِ زمانہ جتنا جتنا

بنتا جائے بگڑتا جائے

سائنس اور جدید ٹیکنالوجی؛ انسانی فکر و تدبر کی پیداوار ہیں اس لیے انسان کو وہ اپنے تابع نہیں کرسکتے۔ سایہ کبھی اصل کا مقام نہیں لے سکتا، وہ سایہ ہی رہے گا۔ یہ درست ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت نے معاشرتی نظام پر مضبوط گرفت بنالی ہے جس سے گریز ناممکن ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق آرٹی فیشیل انٹیلی جنس کو ساٹھ فیصد سے زائد دانشوروں نے انسان کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ صورتِ حال وہی ہے جب سویڈن کے سائنس داں الفریڈ نوبل نے ڈائنامائٹ کو ایجاد کیا تو ندامت کے ساتھ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے انسانیت کے لیے اس کو خطرہ قرار دیاہے۔ اسی طرح آرٹی فیشیل انٹیلی جنس فاؤنڈیشن کے بانی جیفری ہنٹن نے گوگل سے اپنی ملازمت چھوڑنے کے بعد جو کچھ کہااس کو اخبارات نے جلی حروف میں طبع کیا، ملاحظہ کریں:

’’آرٹی فیشیل ٹیکنالوجی فاؤنڈیشن کے بانی اور اس شعبے میں گاڈ فادر سمجھے جانے والے سائنس داں نے ٹائمز کو بتایاکہ مصنوعی ذہانت میں ہونے والی پیش رفت کے، معاشرے اور انسانیت کے لیے گہرے خطرات پیدا ہوںگے۔مصنوعی ٹیکنالوجی میں پچھلے چار برس میں تیزی سے پیدا ہونے والے فرق کا حوالہ دیتے ہوئے انھوںنے کہا کہ ’’یہ خوفناک ہے۔‘‘  (۳)

اس تناظر میں اکیسویں صدی کے شعرا، ادبا اور قلم کار اور فن کاروں کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوجاتاہے کہ ایک طرف اپنے کلام اور تحریروں میں انسانی جذبات و احساسات، کیفیات اور معاملات اور واقعات و سانحات کی ترجمانی کے ساتھ انسانیت افروزی کو فروغ دینا ہے تو دوسری طرف ان کو یہ بھی باور کرانا ہے کہ مصنوعی ذہانت، انسانی کارنامہ ہے جو کسی بھی صورتِ حال میں ربانی تخلیق کا ہم سر نہیںہوسکتی ہے۔ قدرت نے انسان کو عقل و شعور سے اس قدر منزہ کیاہے کہ اس کا ذہن ہمہ دم خوب سے خوب تر کی جستجو کرتا رہتاہے جب کہ مصنوعی ذہانت جامد ہے وہ وقتی اور لمحاتی تغیر وتجسس کے بیان سے قاصر ہے۔ آج انسانی غور و فکر اور تدبر سے جو کچھ وجود میں آرہاہے، کل اس کی کارکردگی اس سے بہتر متوقع ہے۔بہرطور اس نازک صورتِ حال کا سامنا سچائی اور توکل کے مظاہرہ سے ممکن ہے۔ لہٰذا شعرا، ادبا، فن کاروں اور قلم کاروں کو قدرت نے، مقتضائے فطرت کی عکاسی کا ملکہ عطا کیاہے جس کی بناپر وہ معاشرتی عوامل کی صداقت سے قاری و سامع کو روبرو کرانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔مصنوعی ذہانت میں ورچوئل ریئلیٹی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے حالاں کہ اس سے روبوٹیکی (مصنوعی ذہانت والے ڈیوائس) کا منظر ابھرتا ہے جب کہ حقیقت نگاری کا پس منظر سچائی پر مبنی ہے جس کی وجہ سے ایک رومانی منظر ابھرتاہے اور امید کی کرن پھوٹتی ہے جو ایک نئی زندگی کی علامت بنتی ہے اور مایوسی یا ڈپریشن کی جگہ زندگی میں مسرت اور شادمانی کی لہریں اُٹھنے لگتی ہیں، لیکن حقیقت نگاری یا صداقت گوئی مشکل ترین عمل ہے جس سے وقتی طور پر کئی نزاکتیں پیدا ہوتی ہیں۔ المختصر اس کی بہترین تخلیقی پیشکش محمد حسین آزاد کا مضمون’’سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ‘‘ میں دستیاب ہے۔ نفسِ مضمون کے مطابق عالم میں ’دروغِ دیوزاد‘ کی عمل داری اس قدر بڑھ گئی کہ صاحبِ تمیز و عقل بھی اس کے فریب میں آکر جھوٹ کا سہارا لینے لگے۔ حالاں کہ حکما نے جھوٹ سے بچنے کے لیے کئی تراکیب نکالیں لیکن جھوٹ کے سامنے سب کو منھ کی کھانی پڑی۔لہٰذا ’سلطانِ آسمانی‘ کی بیٹی ’صداقت زمانی‘ کو عزتِ دوام کا تاجِ مرصع سر پر رکھاگیا اور حکم ہوا کہ اولادِ آدم میں اپنا نور پھیلاؤ۔تاہم بہروپیے دیوزادِ دروغ کے سامنے اس کو پسپائی کا سامنا کرناپڑا۔ لہٰذا عالمِ بالا کے پاک نہادوں نے ایک انجمن بنائی:

’’صدرِ انجمن نے اتفاق رائے کرکے اس قدر زیادہ کہا کہ ملکہ کے دماغ میں اپنی حقیقت کے دعووں کا دھواں اس قدر بھراہواہے کہ وہ ہمیشہ ریل گاڑی کی طرح سیدھے خط میں چل کر کامیابی چاہتی ہیں، جس کازور طبیعتوںکو سخت اور دھواں آنکھوںکو کڑوا معلوم ہوتا ہے۔ بعض اوقات لوگوں کو اس کی راستی سے نقصان اٹھانے پڑتے ہیں…کیوںکہ دیو دروغ کی حکومت کا ڈھنگ بالکل اس کے خلاف ہے۔ اوّل تو اس میں فارغ البالی بہت ہے اور جو لوگ اس کی رعایامیں داخل ہوجاتے ہیں، انھیں سوا عیش و آرام کے دنیا کی کسی بات سے خبر نہیں ہوتی۔ دوسرے وہ بہروپیہ ہے، جو صورت سب کو بھائے وہی روپ بھرلیتاہے اور اوروں کی مرضی کا جامہ پہنے رہتاہے۔غرض اہلِ انجمن نے صلاح کرکے ملکہ کا طرزِ لباس بدلنے کی تجویز کی۔ چنانچہ ایک ویسا ہی ڈھیلا ڈھالا جامہ تیار کیا جیسا کہ جھوٹ پہنتا تھا اور وہ پہن کر لوگوں کو جُل دیا کرتا تھا۔اس جامہ کا ’مصلحتِ زمانہ‘ نام ہوا۔چنانچہ اس خلعت کو زیب بدن کرکے ملکہ پھر ملک گیری کو اُٹھی۔ جس ملک میں پہنچتی اور آگے کو راستہ مانگتی، ہوا و ہوس، حاکم وہاں کے اُسے ’دروغ شاہ دیو زاد‘ سمجھ کر آتے اور شہر کی کنجیاں نذر گردانتے۔ اِدھر اس کا دخل ہوا، اُدھر اِدراک آیا اور جھٹ وہ جامہ اُتار لیا۔ جامہ کے اُترتے ہی اس کی اصل روشنی اور ذاتی حسن وجمال پھر چمک کر نکل آیا۔‘‘(۴)

اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ مادیت کی چکاچوندھ سے رشتے ٹوٹ کر بکھرے ہیں اور آدمیت کو ضرب پہنچتی ہے۔ حالانکہ کورونا نے رشتہ کی اہمیت کو بدرجۂ غایت احساس دلایا ہے کہ بزعمِ دولت، شہرت اور عہدے’’ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا‘‘ان کو بھی نہ ہوٹلوںمیں جگہ ملی اور نہ ہی اسپتالوںمیں۔دراصل زیادہ سے زیادہ آرام و آسائش حاصل کرنے اور فوری و وقتی جذباتیت کے جنون میں، انسان کے حساس اور نازک معاملے بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔خصوصاً جنسی بے راہ روی اور ہم جنس پرستی کی توسیع بلکہ ا س کو قانونی جواز فراہم کرانے کے لیے جو مہم چل رہی ہے اور دل بستگی کے لیے مصنوعی ذہانت والے مختلف نوعیت کے آلات کے استعمال سے نسلِ انسانی کی افزائش کو خطرہ لاحق ہوگیاہے۔

(۳)     بے ہنگم تفریحی یلغار میں معیاری شعر و ادب کی پیش کش:

ہر دور اپنی بساط بچھاتاہے اور اپنے تغیرات کے ساتھ اپنا ڈکشن بھی لاتاہے جس سے اس دور کے افراد جلد مانوس ہوجاتے ہیں۔ اکیسویں صدی نے بھی معاشرتی زندگی پر اپنی بساط بچھادی ہے اور ڈکشن کے مہرے سجادیےہیں لیکن گزشتہ صدیوںسے دورِ رواں کا ڈکشن؛ طرزِ ادا اور لب ولہجہ بالکل منفرد ہے کیوںکہ اس سے قبل فکر و تدبر کا مرکز و محور صرف اور صرف انسان اور مخلوقاتِ ربانی کی فلاح و بہبود اور انسانیت کے فروغ کو بنایاجاتارہاہے جب کہ اکیسویں صدی میں انسانی کارنامہ یعنی مصنوعی ذہانت والے آلات بھی اس کی فکر کا محور بن گئے ہیں کیوںکہ وہ بھی آدمی کی طرح حرکت و عمل کرتے ہوئے بہت ساری ذمہ داریوںکو نبھانے میں اہم کردر ادا کررہے ہیں۔ حتی کہ شعری و ادبی تخلیقات میں بھی مصنوعی ذہانت نے اپنی موجودگی درج کرادی ہے جس کی وجہ سے شعر و ادب کے موضوع، ہیئت اور طرزِ ادا میں نمایاں تبدیلی نظرآرہی ہے۔ خصوصاً شعر و نغمہ پر ان کے واضح اثرات دیکھے جارہے ہیں۔ اس ’’جدید تکنیکی ادب‘‘ میں زبان اور لب ولہجہ؛ مخصوص آہنگ اور منفرد مزاج کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ خصوصاً ڈسکو اور ریپ (Rap) میں موضوع اور زبان کے ساتھ لب ولہجہ اور طرزِ ادا میں موسیقی کا اسٹائل روبوٹیکی(روبوٹ کی طرح) ہوگیاہے۔ اس میں عام بول چال کی زبان ، پُرجوش اور اُبال کھاتی ملتی ہے حالانکہ اس میں تخلیقی بصیرت بھی ملتی ہے، صرف شاعرانہ معیار اور اعتدال کی حاجت ہے۔ لہٰذا اس کو فلمی تفریحی ادب کے خانہ میں ڈال کر نظرانداز نہیں کیاجاسکتاہے کہ اس کی مقبولیت نے متحیر کردیاہے۔ یہ درست ہے کہ عصری تغیرات اور اس کے اثرات سے روگردانی ناممکن ہے کیوںکہ شعر و ادب تو بہتا دریاہے جس میں اپنے عہد کے معاشرتی عوامل سے کشید مشاہدات و تجربات کے فنی اظہار سے طغیانی آئی ہے اور دائمی ادب کا ہیولیٰ بنتا ہے لہٰذا اس میں اعتدال پیداکرنا، ادبی اور شاعرانہ آہنگ میں انسانی حسیات اور فکرو جمال کی جلوہ نمائی؛ جس سے انسان اور انسانیت افروزی کی لہریں موجزن ہوں، اہلِ فکر و فن اور دانشوروں سے دورِ رواں متقاضی ہے۔شاعری کے تعلق سے حالیؔ لکھتے ہیں:

’’شعر سے جس طرح نفسانی جذبات کو اشتعال ہوتا ہے اسی طرح روحانی خوشیاں بھی زندہ ہوتی ہیں اور انسان کی روحانی اور پاک خوشیوںکو اس کے اخلاق کے ساتھ ایسا صریح تعلق ہے جس کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ شعر اگرچہ براہِ راست علمِ اخلاق کی طرح تلقین اور تربیت نہیں کرتا لیکن از روئے انصاف اس کو علمِ اخلاق کا نائب مناب اور قائم مقام کہہ سکتے ہیں۔‘‘ (۵)

شعر و ادب بھی لوازماتِ زندگی کے زمرے میں آتا ہے اور معاشرتی نظام میں مقام رکھتا ہے، کیوںکہ اس میں آدمیت، انسانی احساس اور کیفیاتِ زندگی کی ترجمانی ہوتی ہے، نیز معاشرتی زندگی کی عکاسی کے ساتھ شعر و ادب اس کی رہبری بھی کرتا ہے۔ کیوںکہ شاعری اپنے اندر ساحرانہ قوت رکھتی ہے جو دنیا میں بہت ساری تبدیلیوں کا باعث بنی ہے۔ حقیقتاً تخلیقی ملکہ وہ عطائے قدرت ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہوتاہے اور فن کار کے مشاہدے میں آکر جذبات کو متحرک کرتا ہے۔ اس لیے زندگی کی سچائی کی عکاسی جس کیفیت و کمال کے ساتھ ایک فطری فن کار کرتا ہے وہ مقام مصنوعی ذہانت والے آلات، حاصل نہیں کرسکتے۔ وقتی اور فوری نتائج کی برآمدگی مصنوعی ذہانت کا کارنامہ ہوسکتی ہے لیکن فکر و عمل میں صبر و تحمل اور حالات کے تناظر میں ایک فطری فنکار ہی توکل اختیار کرسکتا ہے۔لہٰذا اس صورتِ حال کے تناظر میں شعرا، ادبا اور فن کاروں کو علامہ اقبال کا یہ شعر مختص کیا جاسکتاہے:

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

دورِ رواں کے قلم کاروں اور فن کاروں کے سامنے سائنسی ایجادات اور جدید ٹیکنالوجی نے موضوعات کے انبار لگا دیے ہیں جس پرباریک بینی، تفکر ، قدیم کے ساتھ جدید علوم و فنون کے عمیق مطالعہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر نیرنگِ خیال کی جلوہ نمائی سے شعرا و ادبا اپنی تخلیقات اور تحریروںکو متاثرکن ، کارآمد اور مسرت آمیز بناسکتے ہیں۔ بلاشبہ ان کے سامنے انسان اور خدمتِ خلق کے لیے ایک نیا باب کھلا ہے۔ اس پس منظر میں دورِ رواں کو شعرا و ادبا کے لیے سنہرا دور تسلیم کیاجائے گا۔

.......

حواشی:

(۱)      نیرنگِ خیال: شمس العلمامولوی محمد حسین آزاد، ص:۶۳، مکتبہ جامعہ،سنہ اشاعت اکتوبر ۲۰۲۰ء(۲)   ایضاً ص: ۶۶۔۶۷

(۳)     بحوالہ، انقلاب، ۷؍مئی ۲۰۲۳ء، ص:۸

(۴)     نیرنگِ خیال: محمد حسین آزاد، ص: ۴۳۔۴۴

(۵)      مقدمۂ شعر و شاعری: الطاف حسین حالی، ص:۱۸، نیشنل پریس، الٰہ آباد، سنہ اشاعت ۱۹۶۰ء

صدر شعبۂ اردو،ایم۔پی۔ایس۔ سائنس کالج، مظفرپور(بہار)

موبائل:  8210281400


 

نقیب آزادی ہند : مولانا برکت اللہ بھوپالی

 نقیب آزادی ہند : مولانا برکت اللہ بھوپالی

غلام علی اخضر

 

تمام مذاہب اور فلسفے اس بات پر متفق ہیں کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے لہٰذا آزادی اس کا پیدائشی حق ہے۔اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کا جذبہ اور خواہش انسان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتے ہیں اور دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب اور جہاں جابر حکمرانوں یا طاقتور اقوام نے انسانوں کے کسی کمزور گروہ یا کسی پسماندہ خطے کو ملک گیری کی ہوس میں غلام بنایا تو وہاں جذبۂ حریت سے سرشار ایسے لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے تحریروں ، تقریروں اور مجاہدانہ سرگرمیوں کی تحریک چلا کر اپنی آزادی کی بازیافت کی اور آزادی کے لیے اپنی اس جدو جہد میں نہ انھوں نے اپنے خاندان کی پروا کی نہ اپنی جان کی۔ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں بھی ایسے بے شمار نام ہیں جنھوں نے آزادی کو اپنا نصب العین بنا کر ایسی تحریکیں چلائیں کہ انگریزوں کے نو آبادیاتی نظام کی چولیں ہل گئیں اور وہ لوگ جو فخر سے کہتے تھے کہ ہماری سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا وہ سر نیہوڑاکر ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ان آزادی کے متوالوں کی ایک طویل فہرست ہے جن کی محنت ،جدو جہد اور جاں نثاری سے ہندوستانیوں کا اپنی آزادی کے لیے دیکھا ہوا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا ۔ انگریز ہندوستان میں تاجر بن کر آئے تھے لیکن اپنی شاطرانہ چالوں سے انھوں نے اندر ہی اندر مغلیہ سلطنت کو گھن کی طرح کھانا شروع کر دیا اور پھر ایسا وقت آیا جب پورا ملک تاجِ برطانیہ کے زیرِ نگیں ہو کر برطانوی نوآبادیاتی نظام کا حصّہ بن گیا۔حکومت پر قابض ہوتے ہی ہندوستانی رعایا کی حمیت تارتار ہونے لگی اور غلامی کا طوق ان کے گلے میں پڑ گیا ۔ ہندوستان انگریزوں کے آنے سے قبل سونے کی چڑیا کہلاتا تھا اور اسی شہرت نے بعض یورپی اقوام جیسے انگریزوں ، فرانسیسیوں اور پرتگا لیوں کی توجہ اور حرص اپنی جانب منعطف کی۔ملک گیری کے اپنے ناپاک ارادوں میں انگریز کامیاب ہوئے اور حاکم بن کر انھوں نے سونے کی اس چڑیا کو ہر جانب سے نوچنا شروع کردیا۔ لیکن تاریخ اس کی بھی گواہی دیتی ہے کہ انگریزوں کے برسرِ اقتدار آتے ہی ہندوستانی غیرت اور قومی حمیت جوش میں آ گئی تھی اور ہزاروں جیالوں نے آزادی کا حسین خواب دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان عاشقانِ آزادی میں ایک اہم نام برکت اللہ بھوپالی کا ہے جو اپنے نام سے پہلے انھیں دیے گئے اعزازی سابقے ’مولانا‘کے ساتھ مولانا بھوپالی نام سے مشہور ہوئے ۔ انھیں ممتاز ترین مجاہدینِ آزادی میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی صلاحیتوں،زبان دانی،سیاسی تحریکوں اور آزادیٔ وطن کے لیے کئے گئے ان کے کاموں کی فہرست ناقابلِ یقین حد تک طویل ہے۔ قابلِ ذکر ہے کہ مولانا بھوپالی کے والد ماجد بہت بڑے عالم تھے اور ان کا آبائی وطن اترپردیش کا بدایوں تھا لیکن اٹھارہ سو ستاون کی تحریکِ آزادی کے نتیجے میں جو قتل وغارت اور تباہی ہوئی اس کی زد میں آ کر انھیں بدایوں چھوڑنا پڑا اور وہ ریاست بھوپال کے سیہور میں آ کر قیام پذیر ہو گئے۔رفتہ رفتہ ان کی علمیت کا شہرہ بھوپال تک پہنچ گیا اور نواب سکندر جہاں بیگم نے ان کو بھوپال بلا لیا۔بھوپال میں ہی سات جولائی اٹھارہ سو چون کو عبد الحافظ محمد برکت اللہ کی ولادت ہوئی۔مولانا بھوپا لی کی تاریخ پیدائش  کے سلسلے میں تھوڑا سا تنازع پایا جاتا ہے۔

ملارموزی نے ’’مشاہیر بھوپال‘‘میں ان کی تاریخ پیدائش7جولائی ۱۸۵۴ء، ایم عرفان نے اپنی کتاب ’’برکت اللہ بھوپالی‘‘میں ۱۸۵۹ء اور قاضی وجدی الحسینی نے’’انقلابی سوانح:مولانا برکت اللہ بھوپالی‘‘ میں، ۱۸۶۲-۱۸۶۳ء درج کی ہے۔ مولانا نے ابتدائی تعلیم بھوپال میں ہی حاصل کی اور اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے جبل پور اور ممبئی گئے۔دورانِ طالب علمی انھوں نے انگریزوں کے ظالمانہ طرزِ حکومت کا احساس کر لیا تھا اور ان کے دل و دماغ میں آزادی کی خواہش بڑی شدت سے پرورش پانے لگی تھی۔ انھوں نے جلدہی یہ سمجھ لیا تھاکہ اس جابر اور طاقتور حکومت کے خاتمے کے لیے صاحب اقتدار کی زبان پر عبور حاصل کرنا، اس کی پالیسی کے خدو خال کو سمجھنا اور اس سے باخبر رہنا نہایت ضروری ہے۔کہا جاتا ہے کہ انسان خواہ کسی قدر بھی روایتی ماحول اور روایتی تعلیم کے زیر اثر پروان چڑھے لیکن اگر اس کی سرشت میں حصول یابی کا خمیر ہواور ذہن جذبۂ آزادی سے معمور ہوتو  وہ کبھی غلامانہ نظام میں سانس لینا گوارا نہیں کرسکتا۔ مولانا نے فیصلہ کیا کہ وہ وطن کی آزادی کی تحریک بین الاقوامی سطح پر چلائیں گے اور اس کے لیے فضا ہموار کرنے کی غرض سے غیر ممالک کا سفر کریں گے۔ اس ارادے نے انھیں ایک ایسی بین الاقوامی شخصیت بخشی جس نے اپنے ملک کی آزادی اور قوم وملت کی فلاح و بہبود کے لیے سفر اختیار کیا اور ایشیا اور یورپ کے چپے چپے کو اپنے مقصد کی حصول یابی کے لیے کھنگال ڈالا۔ انھوں نے ملک کی سربلندی و سرفراز ی کے لیے غیر معمولی کارہائے نمایاں انجام دیے اور ایک سیکولر نظام کا خاکہ اس وقت پیش کیا جب ہندوستانی عوام کے لیے یہ نظام قطعی اجنبی تھا۔انھوں نے عمر عزیز کے ۴۵سال اس منصوبے میں صرف کئے۔ اقوام عالم کا دورہ کیا تاکہ وطن کی آزادی کے تمام وفا شعاروں کو ایک پلٹ فارم پر جمع کیا جاسکے۔ اس کے لیے انھوں نے لندن،لورپول، نیویارک، ٹوکیو، ہانگ کانگ، شنگھائی، بنکاک، سنگاپور، کولمبو، پیرس، واشنگٹن، فرانسسکو، سیکرامینٹو، آسٹریلیا، جرمنی،ایران،روس،چین،جاپان،وانکوور، برلن، دیانا، بخارسٹ، صوفیہ، قسطنطنیہ، کابل ،ہرات، ماسکو، زیوریخ، لوزان، جینوا،بروسیلز وغیرہ کا سفرکیا اور بڑی پا مردی سے ہر سردو گرم کا مقابلہ کرتے رہے۔۱۹۱۵ میں تو انھوں نے افغانستان جا کر وہاں پہلی جلا وطن حکومت ہندوستان قائم کی ۔راجہ مہندر پرتاپ اس عبوری حکومت کے صدر اور خود مولانا بھوپالی وزیرِ اعظم نامزد کیے گئے۔اس واسطے سے ان کو ہندوستان کا پہلا وزیرِ اعظم بھی لکھا جاتا ہے۔وہ جہاں بھی گئے انھوں نے اپنی تحریکِ آزادی کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے سربراہانِ ملؤمملکت اور دیگر سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔جن مشہور رہنماؤں سے اس سلسلے میں وہ ملے ان میں قیصر ولیم دوم، عامر حبیب اللہ خان ، محمد رشید غازی پاشا، لینن اور ہٹلر شامل تھے۔

لندن کے گیارہ سالہ قیام کے دوران پروفیسربرکت اللہ بھوپالی نے بہت تجربے حاصل کیے اور اپنے مشن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ روزو شب کام کرنے لگے۔انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ برطانوی سامراجیت سے آزادی کے لیے صرف ملک کے اندرونی عوام کو بیدار کرنا ہی کافی نہیں بلکہ ایک اجتماعی بیداری کی ضرورت ہے، یعنی داخلی اور بیرونی دونوں جانب سے بغاوت کے طوفان درکار ہیں۔مولانا تحریرو تقریر کے غازی تھے۔ جس جانب چل دیتے ہنگامہ بپا ہوجاتا۔ لوگوں میں حریت کا جنون چڑھ جاتا۔وزیر اعظم گلیڈسٹون کی تقریر کے جواب میں مولانانے ۲۲؍دسمبر ۱۹۹۶ء میں ایک بےباک اور معرکۃ الآرا خطاب کیا، اور دل کھول کر انگریزی حکومت کے دہرے رویے کو اجاگر کیا، جس سے پورے لندن میں کھلبلی مچ گئی۔ اخبارات کے صفحات اس تقریرکی جادوبیانی اور حقیقت کشائی کے ذکرسے سیاہ ہوگئے یعنی پریس کی دنیا میں ایک کہرام برپا ہو گیا۔ مولانا نے۱۸۵۷ء سے ہندوستانیوں پرہورہے مظالم کی تفاصیل کو طشت از بام کر دیا۔انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ جس جمہوری نظام کے برطانوی حکومت گن گاتی ہے، وہ  انگلستان میں تو روزوشب پروان چڑھ رہاہے اور اپنے شباب پر ہے مگر ہندوستان میں اس کا وجود تک نہیں۔ ۱۹۰۵ء میں مولانا نے ایک مضمون مجاہد آزادی حسرت موہانی کے رسالے’’اردوئے معلی‘‘کے لیے بھیجا جس میں انھوں نے ہندوستان کی بدحالی اور فرنگی ملک کی خوش حالی کے راز افشا کر دیے۔ انھوں نے بتایا کہ ہندوستانی اقتصادیات اور معیشت کے لیے فرنگی ایسا ہے جیسے خون چوسنے والی جونک۔ یایوں سمجھیے کہ یہاں کے معاشی نظام کے لیے انگریز اتنے ہی خطرناک ہیں جتنا کہ جونک کے لیے نمک۔ ملک کی فلاح کے لیے فرنگی زہر ہلاہل سے کم نہیں ۔ ہندوستانی معاشی نظام کا مستقل گلا گھونٹا جارہا ہے۔ انگریز صرف اپنے فائدے کے رسیا ہیں۔ ہندوستانی مصنوعات پر ٹیکس انگلستان کے کارخانوں کی رعایت کرتے ہوئے لگایا جاتا ہے۔ ہندوستانی پیداوار کو معمولی دام پر خریدکر بیرون ممالک میں اچھی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے تفصیل سے ذکر کیا کہ ایک خوش حال ملک میں کیسے غربت نے ڈیراجمایا اور انگریزی مشینری اورکارخانوں نے ہندوستانی صنعت و حرفت کوکیسے برباد کیا۔ یہی نہیں انگلستانی پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا کہ ہندوستانی اشیا کے انگلستان پہنچنے پر اس پر ۷۰سے ۸۰فیصد کسٹم ڈیوٹی لگے گی، جب کہ انگریزی سامانوں کا ہندوستان آمد پر ایسا نہیں تھا، اس نے صنعتی کاروبار کو برباد کردیا۔ دنیا جدید طرز سے کھیتی باڑی کرکے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدے اٹھانے لگی تھی مگر ہندوستانی کسانوں کو سوچی سمجھی سازش کے تحت پرانے ہی انداز پر کار بند رکھا گیا ۔مزید یہ بھی لکھاکہ خارجہ پالیسی کے نام پر ہندوستان سے سالانہ تیس کروڑروپیہ انگلستان بھیج دیا جاتا ہے ۔ اعلیٰ عہدوں پر انگریز ہی فائز ہوتے ہیں، ہندوستانیوں کو معمولی ملازمتیں ملتی ہیں۔ ایک موٹی رقم خرچ کرکے سول سروس امتحان کے لیے مجبوراً لندن جانا پڑتا ہے۔یہ وہ ساری وجوہ تھیں جن سے ہندوستان دن بدن تنزل کی سمت رواں تھا۔ 

مولانا ہندومسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے۔ ان کا ہمیشہ سے یہی دعویٰ رہاکہ اگر ہندی عوام فرنگیوں سے آزادی چاہتے ہیں تو پہلے اپنے درمیان کے فاصلے کو ختم کرکے سب ایک صف میں کھڑے ہوں۔ایک دوسرے کے لیے ہر وقت ہر مشکل میں ساتھ دینے کے لیے تیار رہیں۔ انھوں نے پیغام دیا کہ اس حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ۔ ’’لہٰذا جب تک ہندوستان کے تمام باشندے متحد ہو کر انگریزوں کے خلاف راہ بغاوت پر گامزن نہ ہوںگے اہل ہند کے لیے منزل آزادی تک پہنچنا مشکل ہے۔‘‘مولانا اس درد سے بے چین رہتے کہ انگریز ہندوستانیوں کا خون پی پی کر مست اور دن بدن طاقت ور ہوتے جارہے ہیں اس لیے اس کا واحد حل یہ ہے کہ تمام قوم متحد ہو کر برطانیوی حکومت کو اُکھاڑ پھینکنے کے تیار ہوجائے۔ انھیںشدت سے احساس تھا کہ دونوں قوموں پر وبا ل ایک ہی جیسا ہے اس لیے وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے کہ دونوں قوموںکے درمیان اتحاد پیدا ہوجائے۔ مولانا نے ایران، افغانستان اور مراکش پر انگریز کے قبضہ کی وجہ ہندومسلم تفرقے کو بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہندوستان فرنگیوں سے آزاد ہوجائے تو یہ سب ممالک خود بخود آزاد ہو جائیں گے ۔ ہندوستانی معیشت کے ذریعے فرنگی کئی ملکوں پر حکمرانی کررہے ہیں۔

مولانا جہاں ایک اچھے بااثر مقرر تھے وہیں ایک اچھے انقلابی صحافی بھی تھے۔ اسی انقلابی اور باغیانہ اندازنے انھیں ایک جگہ ٹھہرنے نہ دیا۔لندن میں مختلف اخبارات میں ان کے مضامین شائع ہوئے۔ مولانا نے ایک میگزین بھی جاری کیا۔ شروع میں تواصلاحی مضامین پر زور دیا لیکن جوں ہی اس کی زمین وسیع ہوئی آزادیِ ہندکے مقصد کے تحت لکھے گئے مضامین کو شائع کرنا شروع کردیا۔ آخر ان کے رویے سے تنگ آ کر انگریزی حکومت نے انھیںلندن چھوڑ نے پر مجبور کردیا۔ امریکہ میں Farindنامی رسالے میں مولانا کے مضامین شائع ہونے لگے جس میں وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے آواز ضرور بلند کرتے ۔ وہ ’’اردوئے معلی ‘‘میںسیاسی مضامین بھیجتے۔یوں تو اردوئے معلی ادبی رسالہ تھا مگر مولانا حسرت موہانی کی جبلت میں سیاسی گرمی ہونے کی وجہ سے یہ رسالہ بھی سیاسی گوشوں سے آزاد نہ رہ سکا۔مولانا برکت اللہ نے قسطنطنیہ سے ہفتہ وار اخبار ’’الخلافت‘‘ جاری کیا۔ شروع میں تو اعتدال کی راہ اختیار کی مگر پھر اپنے اصلی رنگ و روپ میں آگئے اور انگریزوں کے ظلم و ستم کے کارنامے بے پردہ کرنا شروع کردیے۔ خارجہ پالیسی کے تحت اس اخبار پر کچھ پابندیاں عائد ہوگئیں جو مولانا کو گوارہ نہ ہوا اور وہ قسطنطنیہ کو خیرباد کہہ کر قاہرہ میں پناہ گزیں ہوئے ۔ یہاں بھی ایک اخبار جاری کیا جس میں عربی اور فارسی دونوںزبانوں میں کالم شائع ہوتے تھے۔ اخبار نے اپنی زمین اس قدر وسیع کرلی کہ عرب ممالک اور ایران میں اس کو بڑے پیمانے پر پڑھا جانے لگا اور یہاں سے کافی آمدنی اخبار کو آنے لگی، مگر مولانا کے لہجہ کی تیزی اور گھن گرج کی وجہ سے حکومت مصرسے بھی روانگی کا حکم مل گیا۔ اب مولانا نے جاپان کا رخ کیا اور جب وہاں پہنچے تو ہندوستانی جلاوطن ’’بم پارٹی‘‘ کے کچھ افراد یہاں پر موجود تھے، جن کی سرپرستی و سربراہی کا کام راش بہاری بوس انجام دے رہے تھے۔ شروع شروع میں مولانا یہاں کے مقامی رسائل میں اپنے مضامین بھیجتے رہے،جسے معیاری اور معلوماتی ہونے کی وجہ سے سراہا جاتا تھا۔ مولانا نے یہاں ’’اسلامک فریٹر نٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ جب اس تنظیم کا دائرہ وسیع ہوا تو انھوںنے سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں اور اپنی تحریروں سے برطانوی سامراجیت کے خلاف ہندوستانیوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی کھلے طورپر تبلیغ کرنے لگے۔ یہ ہفت روزہ انگریزی ، جاپانی اور اردو زبان میں شائع ہوتا تھا۔ اس کی پہنچ بڑھتے بڑھتے برما، لنکا ، ملایا، جاوا اور انڈوچائناتک پہنچ گئی۔ اس اخبار کو بھارت تک بڑے خفیہ انداز میں پہنچایا جاتا تھا۔ پارسل سے بھیجے جانے والے جوتوں کے اندر اخبار کو ڈال کرکسی نا معلوم شخص کے نام پر ارسال کردیا جاتاتھا اور یہاں بڑی چالاکی سے فرضی شناخت کے تحت وہ پارسل وصول کیا جاتا تھا۔ لب و لہجہ کے تیکھے پن کی وجہ سے یہاں بھی حسب سابق معاملہ پیش آیا۔ مولانا نے جب جاپانی شاہ سے ملاقات کی تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا ’پروفیسر صاحب آپ کا وزن جاپان کی زمین برداشت نہیں کرسکتی ہے۔‘ ۱۹۱۱ء میں بھی مولانا یہاں سے اپنے مقصد کو فوت ہوتا دیکھ کر رخصت ہوگئے اورفرانس کا رخ کیا۔ ۱۹۱۲ء میں پیرس سے بھارت کی آزادی کے لیے ’’انقلاب‘‘اخبار نکل رہا تھا، مگر اس میں سردی آنے لگی تھی۔ مولانا نے وہاں پر پہنچ کر اس کی ادارت کا بیڑہ اٹھالیا۔فرانسیسی زبان سے ان کی واقفیت نے جلدہی انھیں مقبولیت بخش دی۔ یہاں سے بغاوت کا اثر یورپ اور افریقن ممالک تک پہنچنے لگا۔ ۱۹۱۳ء یں غدر اخبار کا  اجرا ہوا جس کی تقریب میں ۱۵ہزار ڈالر جمع ہوئے۔۱۹۱۴ء میں غدر اخبار نے ہندوستانیوں میں ایک بغاوت کا جوش پیدا کردیاتھا۔ اس نے پیغام دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ فرنگی تسلط سے آزاد ہوا جائے۔ بیرون ملک آبادہندوستانیوںکو غیرت دلائی گئی کہ اپنے وطن واپس جاکر اپنا حق حاصل کرو۔ پیرس سے مولانا نے ہفت روزہ ’’الاصلاح‘‘بھی نکالا۔

مولانا برکت اللہ بھوپالی صدرنگ شخصیت اور گوناگوں خصوصیات کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ دور بینی اور دور اندیشی کی باکمال صفات سے بھی مزین تھے۔ ہندوستان کی معاشی تباہی کا اندازہ ابھی ایشیا کے افراد پر صحیح طورسے کھلابھی نہ تھا کہ مولانا نے بدیسی مال سے ہونے والی مضرت کو بھانپ لیا تھا۔وہ بدیشی مال کی خریدو فروخت سے ہونے والے نقصانات سے لوگوں کو مسلسل آگاہ کرتے رہے۔ بعد میں مہاتماگاندھی نے ۱۹۰۵ء میں سودیشی تحریک کا آغاز کیا جس سے برطانوی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع ہوا۔اسی تحریک کا اثر تھا کہ لالہ ہردیال دہلوی نے جو غدر پارٹی کے اہم ارکان میں سے تھے آکسفورڈیونی ورسٹی کا وظیفہ واپس کردیا۔ ۱۹۰۸ء میںایک کلاس جاری کر کے اس بائیکاٹ کی مہم کو اور تیز کیا گیا۔

حب الوطنی کا تقاضا کیا ہے ۔ مولانا اپنے مضمون ’’ہندو مسلماں در ہندوستاں‘‘میں لکھتے ہیں کہ مسلمانان ہندپر دو فریضے عائد ہوتے ہیں ایک وطنی اور دوسرا دینی۔ وطنی فرض یہ ہے کہ مادر وطن کے لیے جان و مال کی قربانی کے لیے ہمیشہ تیار رہا جائے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جو شخص محب وطن نہ ہوا وہ انسانیت سے خارج ہوگیا۔ان کے نزدیک جو انسان حب وطنی سے خالی ہے اس پر خدا کی لعنت ہے:

مشمار مرد کاں را حب وطن نہ باشد

ننگِ بشر ہمانست لعن خدا برآنست

 دوسرا دینی تقاضا یہ ہے کہ تمام عالم انسانیت کو دوست جانو ، ضرورت پڑنے پر اس کی مدد کرواورہندو مسلم اتحاد قائم رکھو۔ہندو اور مسلم کو اس حالت میںدیکھنا چاہتے تھے کہ معاشی طورپر سب اس قدر مضبوط ہوں کہ وقت پڑنے پر ایک دوسرے کے کام آ سکیں۔ وہ اس بات کے بھی داعی تھے کہ اگر ہند وستانی مسلمان اپنی کامیابی چاہتا ہے تو ہندوبھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر ساتھ چلے کہ یہ کامیابی کا سب سے بڑا نسخہ ہے۔

مولانا نے ایک کتاب ’’الخلافت ‘‘نام سے بھی تالیف کی تھی ۔ جس کا پہلا ایڈیشن ۴؍اگست۱۹۲۴ءکوشائع ہوا۔ جلدی ہی اس کتاب نے اپنے قیمتی مواد کی وجہ سے شہرت حاصل کرلی۔ یہاں تک کہ ۱۹۲۵ءیں دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا۔

کسی بھی بڑے مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تحریک کا کافی اہم رول ہوتا ہے۔ تحریک انسان کو شعوربخشنے کے ساتھ ساتھ حقیقی مقصد کے حصول کی قوت بھی بخشتی ہے۔ مولانا بھی مختلف تحریکوں سے جڑے رہے لیکن ہر تحریک کا مقصد بھارت کوانگریزی حکومت سے آزادی دِلانا تھا۔

’شیخ الہند تحریک‘کے اعلیٰ مقاصد ،مستقل مزاجی اور نیک ارادے نے مولانا کو کافی متاثرکیا اور وہ اس کا حصہ بنے بغیر نہ رہ سکے۔ اس تحریک نے آزادیِ ہند کے لیے بہت ساری قربانیاں دیں۔ اس نے ہندی عوام کی صحیح تربیت کی اور انھیں راہِ مستقیم پرگامزن کیا۔ شیخ الہند تحریک نے عوام الناس اور خواص کو فرنگی سامراجیت سے آزادہونے کے راستے دکھائے۔ اس تحریک کے روح رواں ’ولی الٰہی‘ تحریک کے چوتھے امام شیخ الہند محمود حسن دیوبندی تھے۔ شیخ الہند کا نام مجاہد آزادی کے بڑے رہنمائوں میں شامل ہے۔ اس دور اندیش رہنما کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ملک اس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتا جب تک کہ عوام و خواص کو صحیح تربیت اور صحیح راہ نہ دکھائی جائے۔ ایسے ہی مقصد کے لیے مولانا بھوپالی جب جاپان میں تھے وہاں قیام پذیر جلاوطن انقلابیوں کے ساتھ مل کر ’’انقلابی پارٹی‘‘کی بنیاد رکھی۔اس کی شاخین کئی ملکوں میں قائم کی گئیں۔’ شنگھائی‘ میں متھرا سنگھ کی سرپرستی میں تو ’ہانگ کانگ‘میں بھگوان سنگھ کے زیر نگرانی کام چلنے لگا۔ انقلابی سپہ سالاروں کاایک بڑا گروپ امریکہ میں جمع ہواجن میں قابل ذکر نام لالہ ہردیال کرشن جی ورما اور مولانا برکت اللہ کے ہیں۔ یہاں پر ’’انڈین ایسوسی ایشن آف پیسیفک کوسٹ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہی تحریک بعد میں ’غدرپارٹی‘‘کے نام سے مشہور ہوئی۔ امریکہ اور کناڈا میں جو لوگ مقیم تھے ان میں اکثریت انگریزحکومت مخالفین کی تھی ۔ چند ہی ایسے افراد تھے جو باغی الذہن اور مشتعل نہ تھے، لیکن مولانا اور لالہ جی کی پُرمغزاور سحرانگیز تقریر نے ان کے دلوں میں بھی آزادیِ ہند کی روح پھونک دی۔ اس تحریک کا دائرہ امریکہ اور کناڈا کے علاوہ میکسیکو، فلیپائن، آسٹریلیا، ملابا اور جاوا تک پھیلا ہوا تھا۔ اس گروپ کی سربراہی میں ایک شعلہ بیاں اور شعلہ انگیز اسلوب سے بھرا ’’غدر کی گونج‘‘ نام سے نظموں کا مجموعہ شائع کیا گیا تاکہ لوگوں میں فرنگی حکومت کے خلاف اشتعال پیدا کیا جاسکے۔ اس تحریک کی سخت پیامی نے لوگ میں انگریز کے خلاف سخت شورش پیدا کی۔ اس کی اپیل تھی کہ غدر لٹریچر کو زیادہ سے زیادہ تقسیم کیا جائے۔ تحریک نے عوام کو دعوت دی کہ ریلوے پٹریاں اُکھاڑ ڈالو، ان کے بینکوں کواپنا ذاتی مال سمجھ کر لوٹ لو وغیرہ ۔اسی سخت اپیل کی وجہ سے امریکہ نے برطانوی سرکار کے دبائو میں آکر لالہ جی کو ملک بدر کردیا۔ اب مولانا برکت اللہ اور رام چندر جی نے اس تحریک کی باک ڈور سنبھالی۔ ’’انڈو جرمن مشن‘‘  کے ذریعے سے ہندوستان پر فرنگیوں کے خلاف حملہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا، جو آزادیِ ہند کی تاریخ میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ مولانا اس کا اہم حصہ تھے۔ جرمنی سے وفد روانہ ہوا،مولانا نے ہی اس کے لیے راہ ہموار کی اور زبردست خاکہ تیار کیا۔ انقلابیوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک گروپ کے سرپرست خود مولانا ہوئے اور دوسرے کی قیادت راجہ مہندر پرتاب نے سنبھالی، جس میں جرمن افسران بھی شامل تھے۔ مولانا کی ٹیم جرمنی سے روانہ ہوکر جہاں ٹھہری تھی وہیں ان کی مصر کے سابق بادشاہ عباس حلمی سے ملاقات ہوئی۔ ان دنوں عباس حلمی معزولی کی زندگی بسر کررہے تھے۔ انھیں برطانیہ نے جرمنی سے دوستی کے سبب معزول کردیاتھا۔ مولانا نے حلمی کو یقین دلایا کہ ہم نے جو پالیسی تیار کی ہے اور جس کام کابیڑا اُٹھایا ہے اس سے اب ہندوستان اور مشرق وسطیٰ فرنگیوں سے آزاد ہوکر ہی رہے گا، جس کی آزادی میں مصر کی آزادی بھی پنہا ںہے۔ اگر ہندوستان اور مشرق وسطیٰ سے برطانوی ظالم و جابر حکومت کاخاتمہ کردیا جائے تو کئی ممالک آزاد ہوجائیں گے اور وہاں امن و امان قائم ہوجائےگا۔ ۱۹۱۹ء میں ’’ایشیائی آزادیِ کانگریس‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ جس کا مقصد ایشیا سے برطانوی حکومت کا مٹانا تھا۔ اس کو ’’یونین فاردی فرڈم آف دی اورینٹ‘‘کا نام دیا گیا۔ مولانا اس میں بھی شامل تھے۔ دسمبر۱۹۲۰ء میں ہاکو میں اسی مقصد کے لیے ایک سبھا منعقد کی گئی، جس میں کئی ایشیائی لیڈروں اور آزادی کے دیوانوں نے شرکت کی۔ مولانا بھی اس پروگرام میںشریک ہوئے۔ مولانا آزادیِ ہندکے لیے تحریک پیدا کرنا اور تحریکات میں شامل ہونا اپنا فرض سمجھتے تھے اور زندگی کا نصب العین بھی جس کی وجہ سے مولانا کو دربدر اور جلاوطنی کی زندگی بسر کرنی پڑی۔ مولانا جہاں رہتے وہاں کی حکومتی خارجہ پالیسی میں اپنے مقصد اور تحریک اور بے باکی کی وجہ سے کانٹا بن جاتے اور یہ کانٹا حکومتوں کے حلق میں چُبھنے لگتا جس کی تکلیف کا خمیازہ مولانا کو اٹھانا پڑتا اور پھروہ وہاں سے ملک بدر کردیے جاتے۔

قدرت نے مولانا کوایسے خمیر سے تیار کیا تھا کہ ان میں خوف و ہراس کانام و نشاں نہیں تھا۔ شایدیہی وجہ تھی کہ مولانا حق بیانی اور ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرنے میں ذرہ بھر بھی خوف نہیں کھاتے تھے اور نہ ہی اس کام سے کبھی قدم پیچھے ہٹایا۔ ان کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات حکومت برطانیہ کے لیے شعلۂ جوالہ ہواکرتی تھی۔ مخالفین کے دلوں میں ان کی ہربات تیرو نشتر سے لگے زخم سے کم نہ ہوتی تھی۔ ان کی تقریر کی تلخ گفتاری اور حقیقت بیانی برطانوی شیطانوںکے دہرے رویے اور خفیہ چہرے کو سرعام کرتی رہتی۔ لندن میں اپنی تقریر کی وجہ سے قابل گرفت گردانے گئے۔ اس کے باوجود مولانا نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا اور اپنا مشن اوروژن جاری رکھا۔ غدر فوجیوں کے سامنے کی گئی ایک تقریر کا اثر ایساتھا کہ مجاہدین اور بچے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ سب نے عہد اور حلف اٹھا یا کہ ہم اس وقت تک انگریزوں کے خلاف عَلم بلندرکھیں گے جب تک ہمارے اندر جان ہے۔ مولانا نے دوران تقریر کہا کہ اب ہمارے صبر کا پیمانہ چھلک چکا ہے اور وقت آگیا ہے کہ اس بدیسی حکومت کوزیر کر کے خاک چٹائی جائے۔ اس نے ہمارے سکون کو غارت کردیا ہے لہٰذا سکون چاہیے تو صف آرا ہوکر ان پر ٹوٹ پڑو۔ ۱۹۱۷ء میں ہندوستانی باغیوں پر مقدمہ درج ہوگیا جس میں مولانا کے ساتھ بھگوان داس، رام چندرجی اور امام الدین وغیرہ ملزم ٹھہرائے گئے۔ابتداء ًاس مقدمہ میں ۱۰۵اشخاص کو گرفتار کیا گیا تھا ۔ امریکی سرکاری وکیل ’جان پرسٹن ‘ اس مقدمہ کے وکیل تھے اور ان کی مدد کے لیے سیز اینتیMrs. Annete مقرر کی گئیں۔ الزام تھا کہ ملزمان باغیوں کے لیے فنڈ اور مفت ہتھیار مہیا کرتے ہیں، اس مہم کا مرکز سان فرانسسکو ہے اور اس کی شاخیں مختلف ملکوں میں ہیں جن میں میکسیکو، چین، جاپان اور بٹاویہ کے نام قابل ذکر ہیں۔انقلابیوں کے جانب سے ۱۵وکلا مقرر کیے گئے۔مقدمے کی سماعت فیڈرل کورٹ جج مسٹر ڈبلو،دان دلیٹ کے اجلاس میں شروع ہوئی۔ اس مقدمے کی خبر اخبار ’ سان فراسکوایگزامیز‘‘ میں۲۳؍نومبر ۱۹۱۷ء کو شائع ہوئی تھی۔ وجدی الحسینی اس حوالے سے اپنی کتاب ’’انقلابی سوانح: برکت اللہ بھوپالی‘‘کے صفحہ ۱۸۳پر لکھتے ہیں:

’’رپورٹ میں یہ ہے کہ ملزم برکت اللہ بھوپالی نے اپنی چرب زبانی سے ہندوستانی قیدی فوجیوں کو جرمنی کی فوج میں شامل ہونے کا مشورہ دیا اور غدر پارٹی نے باغیانہ لٹریچر قیدیوں میں ہوائی جہاز سے برسایا اور تقسیم کیا۔ اس منصوبہ میں یہ پلان طے ہوا کہ ہندوستان پر دونوں طرف سے ہلّہ بول دیا جائے، رنگون، برما، بٹاویہ کے انقلابیوں سے رابطہ قائم کیا گیا اور جرمنی جہازوں سے ہتھیار مختلف مقامات پر اتارے گئے، مگر یہ منصوبہ راز فاش ہوجانے پر ناکام ہوگیا۔دوران مقدمہ ملزموں نے مزید افشائے راز کی کوشش کی۔ جس پر انقلابی ملزم رام سنگھ نے رام چندر کو گولی ماردی، یہ دیکھ کر امریکی مارشل جیمزہالونے رام سنگھ کو گولی ماردی۔ اس مقدمہ میں انتالیس انقلابی سزایاب ہوئے۔ ‘‘

مولانا جہاں بھی پناہ لیتے وہاں یہ دیکھتے کہ وہاں کی حکومت ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے یا ہورہی ہے، فوراً اس کے دربار تک رسائی حاصل کرنے میں لگ جاتے اور اپنے منصوبے کا چٹھا ان کے سامنے پیش کردیتے تھے۔ اسی کی ایک کڑی آزادیِ ہند کے پروانوں کی قیصر جرمن سے ملاقات ہے۔ مولانا کیوں کہ جرمن زبان پر دسترس رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے ہی اس ملاقات کی رہنمائی کی۔ اسی ملاقات کا حاصل اور منصوبے کی عمل آوری تھی کہ جرمنی اور برلن کمیٹی کے درمیان معاہدہ طے پایا۔ مولانااپنی جماعت کے ساتھ جوں ہی قیصر جرمنی ولیم ثانی کے دربار میں حاضرخدمت ہوئے ولیم نے خود آگے بڑھ کر اس وفد کا استقبال کیا۔ ولیم نے اس ملاقات میں دل کھول کر ہندوستانی مجاہدین کی حمایت کی اور ان کی کوششوں کو عزت بخشی، جس کے ثبوت کے لیے ولیم کے اس وفد کے سامنے اظہار کیے گئے خیالات ہی کافی ہیں:

’’ان چند سالوں کے اندر ہندوستان سے برطانوی اقتدار کا خاتمہ ہونا چاہیے اور آپ ہندوستانیوں کو اس سے بہتر سنہرا موقع کبھی ہاتھ نہیںآسکتا کہ اپنے اوپر لدے ہوئے اس بوجھ غلامی کو اٹھاکر پھینک دیں۔ ان سفاکوں اور جابروں کے ہاتھ کاٹ ڈالیں، جو تقریباً دوسوبرس سے آپ کی قوم کے خون سے ہاتھ رنگتے چلے آرہے ہیں۔‘‘

 (برکت اللہ بھوپالی،مصنف: ایم عرفان، ص:۱۴۵، ناشر:عفان پبلی کیشنز،بھوپال۔ ایم پی، تاریخ طباعت:جون۱۹۶۹ء)

۷؍مئی ۱۹۱۷ءکومولانا برکت اللہ نے اپنے دوستوں کے ساتھ روسی وزیر اعظم کامریڈ لینن سے ملاقات کی۔ اس ملاقاتی وفد میں راجہ مہندر پرتاپ، مولوی عبدالرب، مسٹر آچاریہ، مسٹر دلیپ سنگھ گل اور ملازم ابراہیم وغیرہ شامل تھے۔ راجہ صاحب نے خود اس ملاقات کے بارے میںمفصل حال قلم بند کیا ہے۔ یہاں پر ان ہی کے الفاظ میں رقم ہے:

’’میںنے کہا قدرت آپ کو محنت کشوںکی خدمت گزاری کے لیے استعمال کررہی۔‘‘ انھوںنے جواب دیا: ’’یہ آپ کا خیال ہے۔‘‘

’’میں نے اپنی اجناس کی کاپی جاری کرنے والی تجویز ان کے سامنے پیش کی کہ گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ گیہوں، چاول ،مکھن کوئلہ وغیرہ کے نوٹ چھاپے جنھیں چاندی اور سونے کے سکوں کے بجائے رائج کیا جائے۔ انھوں نے فرمایا اس پر غور کروں گا۔ ’’اس کے بعد وہ میرے احباب کی جانب مخاطب ہوئے ۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ کون ہیں اور کیا ہیں۔ پروفیسر دوزینا نیکی نے انھیں روسی زبان میں کچھ سمجھایا۔ انھوں نے ہم سب سے ایک ایک دودو سوالات کیے۔ جب انھوں نے ابراہیم سے ایک سوال کیا تو اس نے روسی زبان میں جواب دیا۔ لینن اس کی ٹوٹی پھوٹی روسی زبان سن کر بے حد خوش ہوئے او ربڑی مسرت سے کہا’’اُو۔ تم روسی زبان بول لیتے ہو!‘‘

’’ہم تقریباً ۲۰منٹ تک کامریڈ لینن کے پاس ٹھہرے اور رخصت کے وقت انھوں نے ہر ایک سے مصافحہ کیا۔ پھر ہم چلے آئے‘‘۔

(برکت اللہ بھوپالی،مصنف: ایم عرفان، ص:۲۲۲، ناشر:عفان پبلی کیشنز،بھوپال۔ ایم پی، تاریخ طباعت:جون۱۹۶۹ء)

اسی مضمون کے فٹ نوٹ میں راجہ جی لکھتے ہیں ’’…اخبار از دستیا نے ایک مختصر سی خبر یہ شائع کی کہ اس ملاقات کے دوران برکت اللہ نے لینن کو افغان حکومت کی جانب سے غیر سرکاری طور پر یہ پیغام پہنچایا تھا کہ وہ برطانوی سامراج کے خلاف افغانی جدو جہد میں اس کی امداد کریں۔‘‘

(مصدر سابق۔انقلابی سوانح: مولانا برکت اللہ بھوپالی۔ تالیف: سید عابد علی وجد الحسینی۔ شائع: مدھیہ پردیش اردو اکادمی ، بھوپال۔ سنہ اشاعت:۱۹۸۶ء)

مولانا ۱۹۰۴ء میں ترقی یافتہ جاپان میں داخل ہوئے۔ وہ جہاں بھی جاتے وہاں سے نکلنے والے اخبارات اور رسائل کا ضرور پتہ لگالیتے اور اس میں اپنے مضامین بھیجتے۔ یہاں واردہونے کے بعد انھوں نے ایک مضمون لکھا۔ جب جاپانی زبان میں وہ مضمون شائع ہوا تو مولانا کی ہرچہار جانب سے تعریف ہوئی۔یہاں تک کہ جاپان کے شاہ سے ملاقات کی دعوت مل گئی۔ مولانا سے شاہ اس قدر متاثر ہوا کہ آپ کی خدمت میں ۱۰۰پونڈ نذرانہ پیش کیا ۔ مزید نتیجہ برآمد ہوا کہ تیسرے دن ٹوکیو یونی ورسٹی سے پروفیسری کا عہدہ پیش ہوگیا اورمولانا اردو کے پروفیسر مقرر ہوگئے۔ یہاںپر بھی مولانا نے اپنے اصل مقصد کو ضائع نہ ہونے دیا،لیکن مولانا پربرطانوی حکومت کے خلاف زہر افشانی کی پاداش میں پا بندیاں عائد کردی گئیں۔ مزید یہ کہ مولانا کو ٹوکیو یونی ورسٹی کے عہدے سے برطرفی کا نوٹس آگیا اور انھیں اپنے عہدے کو الوداع کہنا پڑا۔ جاپان میں مولانا کا تقریباً پانچ سال قیام رہا ۔ ۱۹۱۲ء میں وہاں سے فرانس پہنچے۔ جب جنگ آزادی کے عظیم ہیرو حکیم اجمل خان بغرض علاج پیرس آئے تو مولانا سے ملاقات کی۔ حکیم صاحب کے مولانا سے گہرے تعلقات تھے۔ مولانا برکت اللہ کے پیرس قیام کا مقصد یہ تھا کہ روسی حکومت افغانستان کی فوج کی مدد کرے۔ یہ مدد اس وقت ہو جب افغان فوج ہندوستان میں قائم فرنگی حکومت پر یلغارکرے۔مولانانے لوزان کانفرنس کے بعدفرانس کے دارالحکومت پیرس کو اپنا مسکن بنایا۔ قیام پیرس کے دوران آزادیِ ہند کے لیے کام کرتے رہے اور یہاں بھی سرگرم ہندوستانیوں کا ایک گروپ تیار کیا۔ ۱۹۲۷ء میں بلجیم کی عالمی کانفرنس میں غدر پارٹی کے سرکاری نمائندہ کے طورپر شامل ہوئے اوریہیں پنڈت نہرو سے ان کی ملاقات ہوئی ۔

 مولانا برکت اللہ بھوپالی نے امریکہ میں ۲۰؍ستمبر ۱۹۲۷ء کواس دارفانی کوالوداع کہا ۔ جوں ہی مولانا کی رخصت کی خبر نشر ہوئی تو یورپ وایشیا میں ان کے مداحان اور رفقا نے غم میں کاروبار تک بند کردیے۔ ہر طرف ماتم کا عالم بپا تھا۔ راجہ مہندر سنگھ لکھتے ہیں کہ مولانا کے مذہبی عقیدے کے مطابق ان کی آخری رسم پوری کی گئی۔ تجہیز و تکفین میں ان کے وارثین اور قریبی دوست تھے جن میں ہندو،مسلم، سکھ سبھی مذاہب کے لوگ شامل تھے۔

اس عظیم انقلابی شخصیت کو فراموش کیے جانے کے درد نے سب سے پہلے جس شخص کو بے چین کیاوہ تھے ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد ۔یوں تو مولانا بھوپالی کے کارہائے نمایاں کے بے شمار تذکرے موجود تھے مگر یہ سب مختلف مضامین اور رسائل میں بکھرے پڑے تھے۔ اس مجاہد کے کچھ بکھرے ہوئے تذکرے اور موادمولانا عبدالماجد دریابادی کے ہفت روزہ ’’سچ‘‘ لکھنؤ، منشی شاکر نکہت سہسوانی کے’مدینہ‘  ڈاکٹر پی ایس منگل مورتی کے’’دشوانی‘‘الہ آباد، گوپال سنگھ کے’انقلاب‘ لاہور، راجہ مہندرپرتاپ کی’میری پچپن سالہ داستان حیات،ظفر حسن کی’’آپ بیتی‘‘ خواجہ حسن نظامی کے سفرنامہ مصرو شام و حجاز میں تھے۔مولانا پر کوئی وقیع اور مستقل کام نہ ہوسکاتھا۔ مولاناآزاد نے چترنرائن مالویہ، سعیداللہ خان رزمی اور مولانا طرزی مشرقی کو متوجہ کیا اور شاکر علی خان کے اشارے پر یہ کام ایم عرفان صحافی کو سونپاگیا۔ ایم عرفان نے عرق ریزی اور دیانت داری کے ساتھ اس کام کو انجام دیا۔ ۱۹۸۸ءمیں ڈاکٹر گومتی کو مولانا برکت اللہ پرزبان ہندی میں خدمات کی وجہ سے برکت اللہ یونی ورسٹی نے ڈاکٹریت کی ڈکری سے نوازا۔ ۱۹۸۸ء میں ہی مولانا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بھوپال یونیورسٹی کو ’’برکت اللہ یونیور سٹی ‘‘کے نام سے منسوب کردیا گیا۔

...

کتابیات:

(۱)      برکت اللہ بھوپالی،مصنف: ایم عرفان، ص: ناشر: عفان پبلی کیشنز، بھوپال۔ ایم پی، تاریخ طباعت: جون۱۹۶۹ء۔

(۲)      انقلابی سوانح: مولانا برکت اللہ بھوپالی۔ تالیف: سید عابد علی وجد الحسینی۔ شائع: مدھیہ پردیس اردو اکادمی ، بھوپال۔ سنہ اشاعت: ۱۹۸۶ء۔

(۳)     بھوپال تحریکاتِ آزادی  کے آئینہ میں، مصنف: سید عابد علی وجدی الحسینی ۔ کلاسیکل پرنٹرس دہلی۔سنہ اشاعت:۱۹۸۶ء۔

(۴)     مسلم دیس بھگت،مصنف:رتن لال بنسل،شائع :ہندوستان کلچر سوسائٹی الہ آباد۔سنہ اشاعت۱۹۴۹ء

(۵)      مشاہیر بھوپال، از: ملارموزی۔ اہتمام: نصیرالدین انصاری صدر جمعیۃ الانصار،بھوپال چھائونی۔(ریختہ ڈاٹ کام)

(۶)      ہندوستان کی جنگ میںبھوپال کاحصہ اورشاکر علی، مرتبہ: نصرت بانوروحی،مطبع: ہندوستان آفسیٹ پل بوگدابھوپال۔۲۳

(۷)     جنگ آزادی کے مسلم مجاہدین، مرتبہ ضامن علی خاں۔ مطبع:بھارت آفسیٹ دہلی۶، سنہ اشاعت:۱۹۹۱ء

 

13-A، سیکنڈ فلور، غفور نگر، جامعہ نگر

اوکھلا، نئی دہلی-110025

موبائل:  7275989646

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...