Wednesday, June 14, 2023

اس آباد خرابے نے

اس آباد خرابے نے

پروفیسرغضنفر

ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ انسانی کارنامے اکثر احساس کمتری کے نتیجے میں رونما ہوتے ہیں یا کسی محرومی کے کرب سے نجات دلانے کے لیے ظہور میں آتے ہیں ۔ یعنی انسانی ادراک کچھ ایسا کر دکھاتا ہے کہ انسان احساس محرومی کے کرب کو بھول جاتا ہے اور کبھی کبھی تو ایسا بھولتا ہے کہ خوشی سے پھول بھی جاتا ہے ۔اسے یاد بھی نہیں رہتا کہ وہ کیا تھا۔ ہومر کی شہرہ ٔ آفاق نظم اوڈیسی ، ملٹن کی عالمگیر شہرت یافتہ تخلیق ،پاراڈائز لوسٹ ،کالی داس کی لا جواب رچنا میگھ دوت ، سور داس کی بصیرت آمیز چوپائی، بالمیکی رامائن کی سحر کارنہ کہانی ، کبیر داس کی نغمۂ ربانی جیسی کبیر بانی، نپولین بوناپارٹ کی عظیم فتح مندی ، اقبال کی شاہینی شاعری اسی انسانی احساس کمتری کے نتائج ہیں۔ بینائی سے محرومی کے احساس نے ہومر سے اوڈیسی، ملٹن سے پاراڈائز لوسٹ اور سور داس سے چومکھی چوپائیاں لکھوائیں تاکہ ان کی آنکھوں کی شام نور کا تڑکا بن جائے ۔ان کے باطن سے پھوٹی ہوئی چاندنی سارے عالم کے سر پر تن جائے۔ قزاقی کا داغ دھل جائے، اس فکر نے بالمیکی سے رامائن لکھوا کر انھیں جگ کے سامنے مہارشی بنا دیا۔ احساس جہالت نے کالی داس سے میگھ دوت اور شکنتلا کی رچنا کرا کر دنیائے ادب میں انھیں شاعری کا دوت بنا دیا۔ احساس پسماندگی کے کرب نے ذہن ودل پر وہ ضرب لگائی کہ کبیر داس کے منہ سے وہ بانیاں نکل پڑیں جو سموچے سنسار کے باسیوں کے لیے راہ نجات اور رہنمائے کائنات بن گئیں ۔بونے پن کے احساس نے نپولین بوناپارٹ کو وہ ایڑ لگائی کہ اس کا قد آسمان اقتدار کو چھونے لگا۔ اسے ناٹا بتانے والی دنیا خود اس کے سامنے بونی نظر آنے لگی اور احساس بزدلی نے علامہ اقبال کے قلب و جگر پر ایسا دباؤ ڈالا کہ ان کے افکار سے شاہین نکل آ یا۔وہی شاہین جس سےکہا گیا :

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

وہی شاہین جسے اقبال نے مرد مومن کی علامت بنا دیا۔

 اخترالایمان کے آباد خرابے کی ترو تازگی، گرداب کی طغیانی، 'سب رنگ 'کی رنگینی، 'تاریک سیارے 'کی روشنی، 'سروساماں 'کی جلوہ سامانی ، ' آب جو کی روانی ،بنت لمحات ' کی جولانی ، ' نیا آہنگ ' کی خوش بیانی، ' یادیں ' کی تابناکی ، ' زمین زمین کی نمو پذیری،اور فلمی مکالموں کی دلکشی و سحر آفرینی بھی غالباً اسی احساس کمتری کا ثمرہ ہیں۔اخترالایمان کی خود نوشت خود بتاتی ہے کہ وہ بھی احساس کمتری کا شکار رہے۔ ان کی محرومیوں کا درد وکرب اتنا شدید رہا کہ ان کی یاد کبھی نہیں گئی ۔دل ودماغ میں سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھی رہی۔ کنکھجورے کی مانند رگ و ریشے میں اپنے پاؤں پھیلاتی رہی۔ بچھو کی طرح اعصاب پر ڈنک مارتی رہی۔ چوہے کی طرح حواس کو کترتی رہی ۔یہاں تک کہ ان کی تلخ ’یادیں‘عنوان بن کر ان کی شاعری میں ڈھل گئیں :

شہر تمنا کے مرکز میں لگا ہوا اک میلا سا

کھیل کھلونوں کا ہر سو ہے اک رنگیں گلزار کھلا

وہ اک بالک جس کو گھر سے اک درہم بھی نہیں ملا

میلے کی سج دھج میں کھو کر باپ کی انگلی چھوڑ گیا

ہوش آیا تو خود کو تنہا پا کے بہت حیران ہوا

بھیڑ میں راہ ملی نہیں گھر کی اس آباد خرابے میں

دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں

 نظم 'یادیںکے بند بند میں ان کی محرومیاں بند ہیں جو پڑھتے وقت اس طرح کھلتی ہیں کہ پڑھنے والے کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور دیدوں میں آنسو تیرنے لگتے ہیں۔صرف ایک بند سماعت فرما لیجیے:

وہ بالک ہے آج بھی حیراں میلہ جیوں کا تیوں ہے لگا

حیراں ہے بازار میں چپ چپ ،کیا کیا بکتا ہے سودا

کہیں شرافت ،کہیں نجابت ،کہیں محبت ،کہیں وفا

آل اولاد کہیں بکتی ہے ،کہیں بزرگ اور کہیں خدا

ہم نے اس احمق کو آخر اسی تذبذب میں چھوڑا

اور نکالی راہ مفر کی اس آباد خرابے میں

دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں

اسی طرح نثری تصنیف’ اس آباد خرابے میں‘کے ورق ورق پر ورق دل اس طرح کھلا ہے کہ سیاہ حروف سرخ ہو گئے ہیں۔آنکھیں ایک بچے کو اپنے پیٹ کی خاطر تن تنہا خطرناک جنگلوں میں جہاں قدم قدم پر بھیڑیے اور لکڑ بگھا گھات لگائے بیٹھے ہیں گائیں چراتے دیکھتی ہیں ،تو رو پڑتی ہیں ۔ ان سیاہ صفحات پر ماں باپ کی آپسی رنجشوں اور ان کے لڑائی جھگڑوں کے ہیولے لہراتے ہیں اور ان کو دیکھ کر ایک معصوم اور بے قصور بچے کے ذہن ودل جس طرح کپکپاتے ہیں ،دیکھنے والوں کی بصارتیں بھی لرز اٹھتی ہیں ۔ باپ کے ساتھ کبھی اس مسجد کے تنگ حجرے سے کبھی اس مسجد کی کال کوٹھری میں ،کبھی اس گاؤں میں تو کبھی اس گاؤں میں خانہ بدوشوں کے سفر کی طرح اس بچے کی زندگی کا سفر ابھرتا ہے اور اس کی پڑھائی کے اوراق بکھرتے ہیں تو دل کانپ اٹھتا ہے ۔

 اخترالایمان کی اس محرومی یا ان کے اس احساس کے دو محور ہیں۔ایک تو ان کی بے سرو سامانی کے سبب پیدا ہونے والی غریت جو بہت دنوں تک ان کے سر اور پاؤں دونوں سے لپٹی رہی اور دوسری ان کے رنگ کی گاڑھی سیاہی جو ان کی جلد سے چمٹی رہی اور کبھی نہ مٹی بلکہ ان کے دل ودماغ پر بھی چڑھی رہی۔ بے تکلف دوستوں کے منہ سے جب یہ فقرہ ’بلیک جاپان اخترالایمان‘ نکل کر ان کے کان میں گونجتا ہوگا تو ان کی سماعت کا کیا حال ہوتا ہوگا اور ان کی روح کس کربناک اذیت سے گزرتی ہوگی اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے اوران کے کرب کو محسوس بھی کیا جا سکتا ہے ۔

 کمتری کا یہ احساس کسی کو بھی خاموش نہیں بیٹھنے دیتا۔ ہمہ وقت کسی نہ کسی طور سے کچوکے لگاتا رہتا ہے اور یہ احساس جب کچوکے لگاتا ہے تو ذہن کچوکوں کی ضرب سے پیدا ہونے والی ٹیس سے بچنے کی تدبیریں بھی تلاش کرنے لگتا ہے اور اس تلاش و جستجو میں اکثر ایسی ترکیبیں ہاتھ آ جاتی ہیں جو اذیت کو تو مٹاتی ہی ہیں تقدیریں بھی بدل دیتی ہیں ۔ اور تقدیریں جب بدلتی ہیں تو دیہاتی عورت سلیمن کی جگہ شہری خاتون سلطانہ منصوری آ جاتی ہے۔ ذہن ودل میں تعفن کی جگہ بوئے ختن بس جاتی ہے ۔ شراکت جاہلانہ کی جگہ رفاقت فرزانہ لے لیتی ہے۔ گرد وغبار اور دھند و دھویں سے بھری راؤ کھیڑی کی اوبڑ کھابڑ زمین کی جگہ دہلی اور بمبئی کی ہموار ، چکنی اور چکا چوندھ سے پر زمینیں پیروں کے آگے بچھ جاتی ہیں ۔وقت کے سمندر کا گرداب تھم جاتا ہے۔ زندگی کو نیا آہنگ مل جاتا ہے ۔ صحرائی شخصیت کی رگوں میں آب جو رواں ہو جاتی ہے ۔ قسمت کا تاریک سیارہ سب رنگ سے جھلملا اٹھتا ہے ۔زمین زمین بن جاتی ہے ۔ بے سرو سامانی میں سروساماں کی ریل پیل لگ جاتی ہے۔ بری یادیں غائب ہو جاتی ہیں اور خوش گوار یادیں بسنے لگتی ہیں ۔ وقت بگاڑ کو بنا دیتا ہے ۔ ایمان کا اختر چمک اٹھتا ہے ۔ فلم کی سرخ وسفید نگری میں بھی کالا گلاب جگمگا اٹھتا ہے ۔

 یعنی قدرت اس طرح کی صورت حال سےنکلنے کی صورتیں بھی سجھا دیتی ہے بلکہ وہ خود راستے نکال دیتی ہے اور اس نے اوروں کی طرح اخترالایمان کے لیے بھی ایک ایسی راہ نکال دی جس نے نہ صرف ان کے ذہن وفکر سے افلاس و فلاکت اور بے سرو سامانی کی سیاہیاں ہٹا دیں بلکہ ان کے سیاہ رنگ کو بھی سفید رنگ میں بدل دیا ۔بلیک جاپان اخترالایمان وہائٹ انگلستان کی طرح صرف فلمستان میں ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں چمک اٹھا ۔بزرگ اخترالایمان نے اپنے باطن سے ایک ایسے نوجوان لڑکے کو نکال کر دنیا کے سامنے رکھ دیا جس کے حسن کا شہرہ گھر گھر میں پہنچ گیا ۔جس کی معنویت نے اپنے آپ کو بے معنی سمجھنے والے بندے کو با معنی بنا دیا۔جس کے وجود نے کسی کے نہ ہونے کے احساس کو ہونے کے احساس میں بدل دیا۔ جس نے مرے ہوئے کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا:

یہ لڑکا پوچھتا ہے جب تو میں جھلا کے کہتا ہوں

وہ آشفتہ مزاج ،اندوہ پرور،اضطراب آسا

جسے تم پوچھتے رہتے ہو کب کا مر چکا ظالم

اسے خود اپنے ہاتھوں سے کفن دے کر فریبوں کا

اسی کی آرزوؤں کی لحد میں پھینک آیا ہوں

میں اس لڑکے سے کہتا ہوں وہ شعلہ مر چکا جس نے

کبھی چاہا تھا کہ خاشاک عالم پھونک ڈالے گا

یہ لڑکا مسکراتا ہے ،یہ آہستہ سے کہتا ہے

 یہ کذب و افترا ہے، جھوٹ ہے، دیکھو میں زندہ ہوں  اس شاعر کے رنگ کی سیاہی پر، اس کے معاصر شاعر اور نقاد دوست میرا جی نے اسے دیکھے بغیر صرف اس کی شاعری پڑھ کر کہہ دیا تھا کہ اس شاعر کا رنگ سیاہ ہے ۔ ظاہر ہےکہ اس شاعر کی نظموں میں میرا جی کو کچھ ایسے لفظ ملے ہوں گے جو اس کی اس سیاہی کی غمازی کر رہے ہوں گے جو اس کے جسم سے روح تک پھیل گئی ہوگی۔ جس سے اس بات کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اخترالایمان پر ان کا یہ سیاہ رنگ کس حد تک اثر انداز ہوا ہوگا ۔

 چلیے سیاہی والے احساس کمتری کا پتہ تو چل گیا ،اب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی غریبی اور غربت کا کیا حال رہا ۔ان کا آباد خرابہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے اس’’آباد خرابے میں‘‘ برسوں پڑے رہے۔ان کا یہ آباد خرابہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کی حدیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔جسے قدرت ،قسمت،ماں باپ کی فطرت اور ان کی آپسی مخاصمت ومنافرت ، کم عمری میں شادی کے نام پر کی جانے والی خاندانی حماقت ، بےجوڑ شریک سفر کی شراکت سبھی نے مل کر پھیلائی ہیں ۔ جس بچے کے کان میں ماں باپ کا پیار گھلنے کے بجائے صدائے تو تکرار اور چیخ و پکار گونجے گی، جو باپ کی دولت یا وراثتی سرمائے کے بجائے اپنی ماں کی جان توڑ محنت مزدوری اور بھینس پالن کی کمائی سے پروان چڑھے گا اور جو اپنی زبردستی کی شادی کے غم میں عین سہاگ رات میں حجلہ عروسی کے بجائے باہر کی بیٹھک میں گہری نیند سو جائے گا وہ احساس کمتری کے کرب سے نہ گزرے گا تو اور کیا کرے گا۔

 خرابہ ویسے تو ویرانے کو کہتے ہیں جو آباد کا متضاد ہوتا ہے مگر اخترالایمان کا یہ خرابہ ویران نہیں بلکہ آباد ہے ۔یہ آباد ہے ان محرومیوں سے جو اخترالایمان کو قدم قدم پر ملتی رہیں۔ ان اقتصادی بلاؤں سے جو چاروں طرف سے انھیں گھیرے رہیں ۔ ان معاشرتی نحوستوں سے جو ہمہ وقت ان کے سر پر چھائی رہیں۔ماں باپ کی ان نفسیاتی چشمکوں اور منافرتوں سے جو ان کے ذہنوں سے نکل کر ان کے رگ و ریشے میں سماتی رہیں ۔ انھیں مضطرب بناتی رہیں مگر جیسا کہ اوپر ذکر ہوا اس احساس نے وہ زور ماراکہ سب کچھ زیر و زبر ہوگیا۔ موجود خرابہ منقلب ہو گیا۔ خرابہ صحیح معنوں میں آباد ہو گیا ۔ ویرانے میں پھول کھل گئے ۔اندھیرے میں اختر چمک اٹھا۔ زمینی اختر کو آسمان پر دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ ایک سوانح حیات لکھوں جس کا عنوان ہو : اس آباد خرابے نے۔

....

 بشریٰ لین ،اے-12،حمزہ کالونی،نیو سرسید نگرایکسٹینشن

علی گڑھ(یوپی)

موبائل: 7678436704


No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...