Thursday, August 3, 2023

نیرنگ خیال کی جلوہ نمائی شعرو ادب کا محور

 نیرنگ خیال کی جلوہ نمائی شعرو ادب کا محور

پروفیسر عبدُ البرکات

انفس و آفاق کی تمام سرگرمیاں نفوس کی نیرنگ خیالی کی مرہون منت ہیں۔درحقیقت انسانی بقا اور نظامِ معاشرتی زندگی کے فروغ میں نیرنگ خیالی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ قدرت نے آفاق کو بے شمار اسرار و رموز اور نعمتوں سے سجایاہے جن کی تسخیر کے لیے نظامِ انفس عطا کیا ہے۔ نیز آسمانی صحائف کے توسط سے نفوس کو عقل و شعور اور فہم و ادراک سے مزین کیاہے اور ان کا سارتھی علم ہے گویا یہ درِ آفاق پر لگے تالے کی کنجی ہیں جن کو قدرت نے انسان کو مرحمت کیا ہے۔انفس کے تعلق سے بہت ساری تشریحات اور منطقی استدلالات موجود ہیں تاہم ان دقیق منطقی تصورات سے گریز کرتے ہوئے ایک عام ذہن کے مطابق، نفوس کو قدرت نے جس طرح لوازماتِ انسانی سے آراستہ کیاہے وہ نظامِ انفس کے زمرے میں آتاہے جس کے طفیل انسان؛اشرف المخلوقات کی کرسی پر براجمان ہے۔ لہٰذا انسان اپنی فکر و تدبر سے ہمہ دم کائنات کے اسرار و رمو ز اور معدنیات سے پردے سرکائے جارہاہے کیوںکہ قدرت نے نفوس میں بلا کی تخلیقیت عطا کی ہے جس کی جلوہ نمائی کا مظاہرہ ہر سُو نمایاں ہے تاہم اس تخلیقی مظاہرے میں بہت ضبط و احتیاط اور صبر و تحمل کی ضرورت پڑتی ہے۔معمولی التباس سے بھی انسان بے سمتی اور بےراہ روی میں مبتلاہوکر غارت گری کا شکار ہوجاتاہے اس لیے میرتقی میرؔ کا کہنا ہے :

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

قدرت، ہزاروں لاکھوں لوگوںکو تخلیقی استعداد ودیعت کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ جہانِ تازہ کی نمو میں مستغرق رہتے ہیں۔اس تناظر میں شعر و ادب کی اہمیت اور افادیت کی وسعت اور کارکردگی سے انکار ناممکن ہے کہ شعر و ادب کا مرکز و محور انسان ہی ہے۔ فن کار و قلم کار اس جہانِ تازہ کو انسانی احساسات اور کیفیاتی جذبات کے گل بوٹے سے آراستہ کرکے انسانیت کے لیے سیرگاہ بناتے ہیں۔خوب سے خوب تر کی جستجو میں بھی ان کی فکر کا محور انسانی فلاح و بہبود ہی رہتاہے جس سے اشرف المخلوقات ہونے کا احساس بھی جاگزیں ہوتاہے۔ لہٰذا علامہ اقبالؔ کے مندرجہ ذیل فارسی اشعار کو اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے:

تو شب آفریدی، چراغ آفریدم

سفال آفریدی، ایاغ آفریدم

بیابان و کہسار و راغ آفریدی

خیاباں و گلزار و باغ آفریدم

من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم

من آنم کہ از زہر نوشیہ سازم

اکیسویں صدی کے پہلے عشرہ سے ہی زندگی کے تمام شعبے میں بڑی سرعت سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور اسی تناسب میں جدید ٹیکنالوجی اس کی توسیع بھی کررہی ہے۔کسی بھی تخلیق یا علم وہنر کے حوالے سے کوئی نظریہ، آن کی آن میں عالمی سطح پر پہنچ جاتاہے۔لہٰذا اس تناظر میں فن کار و قلم کار کی ذمہ داریاں مزید بڑ ھ جاتی ہیں۔ ان کو اپنے خیالات کو ضبطِ تحریر میں لانے اور اپنے کلام اور تحریروں میں احساسات ، جذبات اور انسانی کیفیات کی ترجمانی اور مظاہرہ کرتے ہوئے، فن کاری سے یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ یہ کسی مصنوعی ذہانت کے تصورات نہیں ہیں۔ گوشت پوست والی قدرتی تخلیق کے خیالات ہیں۔ یعنی آدمی کو اس کے صحیح مقام پر استوار کرنا اور مصنوعی ذہانت کے سامنے احساسِ کمتری سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری بھی رواں صدی کے شعرا و ادبا کی بنتی ہے جو اس سے قبل کا تصور نہیں رہاہے۔ لہٰذا رواں صدی کے فن کاروں اور شعرا و ادبا خصوصاً جو ابھی ادبی منظرنامہ پر ابھر رہے ہیں، میرے خیال کے مطابق ان کو تین مسائل درپیش ہیں:

(۱)      مادیت کی چکاچوند ھ میں انسانیت کی علم برداری۔

(۲)      الیکٹرانکس ڈیوائس اور مصنوعی ذہانت کے چیلنج کا سامنا۔

(۳)     بے ہنگم تفریحی یلغار میں شعر و ادب کی پیش کش۔

(۱)      مادیت کی چکاچوندھ میں انسانیت کی علم برداری:

ہر دَور کے فن کاروں اور شعرا و ادبا کو عموماً عسرت کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ دورِ رواں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے، لیکن اکیسویں صدی کے شعرا و ادبا کے مسائل کی نوعیت منفرد ہے کیوںکہ جدید ٹیکنالوجی کے لوازمات اور اس تعلق سے معلومات فن کاروں کے لیے بھی ناگزیر ہوگئی ہیں کہ ان کی عدم موجودگی میں جمہور یا دنیا کے سامنے، صحت مند حقائق پر مبنی خیالات کی ترسیل ممکن نہیںہے۔ تاہم قدرت نے ہر فرد بشر میں الگ الگ استعداد رکھی ہے۔ لہٰذا شعرا و ادبا اور فن کاروں کو قدرت نے نیرنگ خیالی کا ملکہ عنایت کیاہے جس کے طفیل مناظرِ قدرت، فرد اور سماج کے مشاہدے اور اپنے مطالعے کی ہم آہنگی سے انسانی فلاح و بہبود کے لیے اخلاص کے ساتھ نئے نئے خیالات و تصورات وضع کرتے اور اپنی تخلیقات پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرتی نظام میں سفرِ زندگی معنی خیز، خوش گوار اور سہج بنتی ہے۔اسی تناظر میں وہ انسانیت کے علم بردار اور انسانی زندگی کی رہ گزر پر اسٹریٹ لائٹ ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس قدرتی عطیہ کا ادراک ہوتے ہی فن کار اور شعرا و ادبا جب دولت، شہرت، عہدہ ، ناموری سے بے نیاز ہوکر انسان، انسانیت اور انسانی معاملات پر ارتکاز کرکے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیںتو وہ توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔پھر ماضی میں بادشاہی دربار رہاہو یا دورِ رواں کے جمہوری اقتدار ، ان تک رسائی کی راہ ہموار ہوجاتی ہے اور ان کو زر، زمین اور انعام و اکرام سے سرفراز کیاجاتاہے اس لیے آتش کا خیال  :

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں

درحقیقت عصری آگہی کی بناپر ہی شعرا، ادبا اور فن کار و قلم کار اپنے دور کے نمائندہ کردار گردانے جاتے ہیں اور ان کی تحریریں عصری دستاویز ثابت ہوتی ہیں کیوںکہ عصری معاملات و مسائل اور حالات و کیفیات سے ابھرنے والے جذبات اور صورتِ حال کی عکاسی و ترجمانی ان کی تحریروں میں احتسابی اور معروضی انداز میں راہ پاتی ہے۔ اس دور کے نفسیاتی عوامل، معاشرتی نظام میں فرد کی حیثیت سے انسان کے فعل و عمل، فطری طور پر ان کے کلام میں در آتے ہیں کیوںکہ انسان کی متجسس فطرت ، نئی تلاش و تحقیق پر گامزن رہتی ہے اور فن کاروں میں تو اس کی بہتات ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی قدرت نے انسان کی فطرت کو صبر و تحمل کے مادہ سے لبریز کیا ہے جس کو فن کار اور قلم کار اپنی توجہ کا مرکز و محور بناتے ہیں اور اس کو احتساب و تجزیہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال محمد حسین آزاد کے مضمون ’’انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا‘‘ میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہاں اس مضمون کا تجزیہ بے محل نہیں ہوگا۔ اس مضمون میں سقراط اور دوسرے حکما کے خیالات کو محور بناکر نفسیاتِ انسانی کو فطری تناظر میں،رومانی فکر عطا کی گئی ہے۔ہر انسان اپنے مسائل، اپنی مصیبتوں اور پریشانیوںکو دوسروں سے سوا سمجھتاہے اور اس تقابل میں خود کو بدبخت تصور کرتا ہے جب کہ حقیقت اس سے پرے ہے۔دراصل وہ مصلحتِ خداوندی سے عاری ہونے کی وجہ سے اس طرح کے خیالات رکھتاہے جب کہ صبر و تحمل کے ساتھ اس کو اپنے معاملاتِ زندگی پر قناعت ہونی چاہیے۔ بہرکیف! اس کا فطری حل نکالنے کے لیے مصنف نے عالمِ خواب کا سہارالیاہے جس کے مطابق اس نوعیت کی عرضیوںکے مدِ نظر:

’’سلطان الافلاک کے دربار سے ایک اشتہار جاری ہوا، خلاصہ جس کا یہ ہے کہ تمام اہلِ عالم اپنے اپنے رنج و الم اور مصائب و تکالیف کو لائیں اور ایک جگہ ڈھیر لگائیں۔‘‘  (۱)

اس اشتہار کی آمد کے بعد میدانِ خیال سے بھی وسیع میدان میں محرر ایستادہ ہوکر ان امور کا معائنہ کرنے لگا۔ وہاں ہر شخص اپنے اپنے رنج والم سے نجات پانے کے لیے اپنی گٹھڑیوںکو اس میدانِ خیال میں ڈھیرکرتاجارہاتھا۔محمد حسین آزاد کے مطابق:

’’ہم اس انبوہِ پُرآفات پر غور کررہے تھے اور اس عالمِ ہیولانی کی ایک ایک بات کو تاک تاک کر دیکھ رہے تھے جو سلطان الافلاک کی بارگاہ سے حکم پہنچاکہ ’’اب سب کو اختیارہے ، جس طرح چاہیں اپنے اپنے رنج و تکلیف تبدیل کرلیں اور اپنے اپنے بوجھ لے کر گھروںکو جائیں۔‘‘ یہ سنتے ہی میاں وہم پھر مستعد ہوئے اور تُرت پھرت کے ساتھ انبارِ عظیم کے بوجھ باندھ باندھ کر تقسیم کرنے لگے۔ہر شخص اپنا اپنا بوجھ سنبھالنے لگا اور اس طرح کی ریل پیل اور دھکم دھکا ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔چنانچہ اس وقت چند باتیں جو میں نے دیکھیں وہ بیان کرتاہوں:

ایک پیر مرد کہ نہایت معزز و محترم معلوم ہوتاتھا، دردِ قولنج سے جاں بلب تھا اور لاولدی کے سبب سے اپنے مال و املاک کے لیے ایک وارث چاہتاتھا،اس نے دردِ مذکور پھینک کر، ایک خوبصورت نوجوان لڑکے کو لیا، مگر لڑکے نابکار کو نافرمانی اور سرشوری کے سبب سے دق ہوکر اس کے باپ نے چھوڑ دیا تھا، چنانچہ اس نالائق نوجوان نے آتے ہی جھٹ بڈھے کی داڑھی پکڑلی اور سر توڑنے کو تیارہوا۔ اتفاقاً برابر ہی لڑکے کا حقیقی باپ نظرآیا کہ اب وہ دردِ قولنج کے مارے لوٹنے لگاتھا،چنانچہ بڈھے نے اس سے کہا کہ برائے خدا میرا دردِ قولنج مجھے پھیر دیجیے اور اپنا لڑکا لیجیے کہ میرا پہلا عذاب اس سے ہزار درجہ بہترہے مگر مشکل یہ ہوئی کہ یہ مبادلہ اب پھر نہ ہوسکتاتھا۔‘‘ (۲)

مصنف نے بڑی فن کاری سے نیرنگِ خیال کی جلوہ نمائی سے قارئین کو عبرت لینے کے ساتھ ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیارکیاہے۔ظاہر ہے اس نوعیت کی تخلیقات سے معاشرتی نظام میں خوش گوار اور صحت مند منظرنامہ اُبھرتا ہے جو دلوں سے کدورت کو ختم کرتا ہے اور توکل پیدا ہوتاہے۔

(۲)      الیکٹرانکس ڈیوائس اور مصنوعی ذہانت کے چیلنج کا سامنا:

سائنسی ایجادات اور جدید ٹیکنالوجی نے معاشرتی زندگی کے تمام شعبے پر اپنی بساط بچھادی ہے اور اس سرخ قالین پر مصنوعی ذہانت والے آلات اپنی برق خرامی سے عوام کی توجہ مبذول کر رہے ہیں نیز انسان کو اپنے تابع بناتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے اہلِ علم و دانش فکرمند ہیں۔فن کار اور قلم کار کو بھی ان سے روبرو ہونا پڑ رہاہے جب کہ مصنوعی ذہانت والے آلات، انسانی کارنامہ ہیں اور وہ انسان کے لیے ہی چیلنج بن گئے ہیں۔ اس تعلق سے جگرمرادآبادی کے یہ اشعار ملاحظہ کریں:

جہل خرد نے دن یہ دکھائے

گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے

جھوٹی ہے ہر ایک مسرت

روح اگر تسکین نہ پائے

کارِ زمانہ جتنا جتنا

بنتا جائے بگڑتا جائے

سائنس اور جدید ٹیکنالوجی؛ انسانی فکر و تدبر کی پیداوار ہیں اس لیے انسان کو وہ اپنے تابع نہیں کرسکتے۔ سایہ کبھی اصل کا مقام نہیں لے سکتا، وہ سایہ ہی رہے گا۔ یہ درست ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت نے معاشرتی نظام پر مضبوط گرفت بنالی ہے جس سے گریز ناممکن ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق آرٹی فیشیل انٹیلی جنس کو ساٹھ فیصد سے زائد دانشوروں نے انسان کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ صورتِ حال وہی ہے جب سویڈن کے سائنس داں الفریڈ نوبل نے ڈائنامائٹ کو ایجاد کیا تو ندامت کے ساتھ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے انسانیت کے لیے اس کو خطرہ قرار دیاہے۔ اسی طرح آرٹی فیشیل انٹیلی جنس فاؤنڈیشن کے بانی جیفری ہنٹن نے گوگل سے اپنی ملازمت چھوڑنے کے بعد جو کچھ کہااس کو اخبارات نے جلی حروف میں طبع کیا، ملاحظہ کریں:

’’آرٹی فیشیل ٹیکنالوجی فاؤنڈیشن کے بانی اور اس شعبے میں گاڈ فادر سمجھے جانے والے سائنس داں نے ٹائمز کو بتایاکہ مصنوعی ذہانت میں ہونے والی پیش رفت کے، معاشرے اور انسانیت کے لیے گہرے خطرات پیدا ہوںگے۔مصنوعی ٹیکنالوجی میں پچھلے چار برس میں تیزی سے پیدا ہونے والے فرق کا حوالہ دیتے ہوئے انھوںنے کہا کہ ’’یہ خوفناک ہے۔‘‘  (۳)

اس تناظر میں اکیسویں صدی کے شعرا، ادبا اور قلم کار اور فن کاروں کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوجاتاہے کہ ایک طرف اپنے کلام اور تحریروں میں انسانی جذبات و احساسات، کیفیات اور معاملات اور واقعات و سانحات کی ترجمانی کے ساتھ انسانیت افروزی کو فروغ دینا ہے تو دوسری طرف ان کو یہ بھی باور کرانا ہے کہ مصنوعی ذہانت، انسانی کارنامہ ہے جو کسی بھی صورتِ حال میں ربانی تخلیق کا ہم سر نہیںہوسکتی ہے۔ قدرت نے انسان کو عقل و شعور سے اس قدر منزہ کیاہے کہ اس کا ذہن ہمہ دم خوب سے خوب تر کی جستجو کرتا رہتاہے جب کہ مصنوعی ذہانت جامد ہے وہ وقتی اور لمحاتی تغیر وتجسس کے بیان سے قاصر ہے۔ آج انسانی غور و فکر اور تدبر سے جو کچھ وجود میں آرہاہے، کل اس کی کارکردگی اس سے بہتر متوقع ہے۔بہرطور اس نازک صورتِ حال کا سامنا سچائی اور توکل کے مظاہرہ سے ممکن ہے۔ لہٰذا شعرا، ادبا، فن کاروں اور قلم کاروں کو قدرت نے، مقتضائے فطرت کی عکاسی کا ملکہ عطا کیاہے جس کی بناپر وہ معاشرتی عوامل کی صداقت سے قاری و سامع کو روبرو کرانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔مصنوعی ذہانت میں ورچوئل ریئلیٹی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے حالاں کہ اس سے روبوٹیکی (مصنوعی ذہانت والے ڈیوائس) کا منظر ابھرتا ہے جب کہ حقیقت نگاری کا پس منظر سچائی پر مبنی ہے جس کی وجہ سے ایک رومانی منظر ابھرتاہے اور امید کی کرن پھوٹتی ہے جو ایک نئی زندگی کی علامت بنتی ہے اور مایوسی یا ڈپریشن کی جگہ زندگی میں مسرت اور شادمانی کی لہریں اُٹھنے لگتی ہیں، لیکن حقیقت نگاری یا صداقت گوئی مشکل ترین عمل ہے جس سے وقتی طور پر کئی نزاکتیں پیدا ہوتی ہیں۔ المختصر اس کی بہترین تخلیقی پیشکش محمد حسین آزاد کا مضمون’’سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ‘‘ میں دستیاب ہے۔ نفسِ مضمون کے مطابق عالم میں ’دروغِ دیوزاد‘ کی عمل داری اس قدر بڑھ گئی کہ صاحبِ تمیز و عقل بھی اس کے فریب میں آکر جھوٹ کا سہارا لینے لگے۔ حالاں کہ حکما نے جھوٹ سے بچنے کے لیے کئی تراکیب نکالیں لیکن جھوٹ کے سامنے سب کو منھ کی کھانی پڑی۔لہٰذا ’سلطانِ آسمانی‘ کی بیٹی ’صداقت زمانی‘ کو عزتِ دوام کا تاجِ مرصع سر پر رکھاگیا اور حکم ہوا کہ اولادِ آدم میں اپنا نور پھیلاؤ۔تاہم بہروپیے دیوزادِ دروغ کے سامنے اس کو پسپائی کا سامنا کرناپڑا۔ لہٰذا عالمِ بالا کے پاک نہادوں نے ایک انجمن بنائی:

’’صدرِ انجمن نے اتفاق رائے کرکے اس قدر زیادہ کہا کہ ملکہ کے دماغ میں اپنی حقیقت کے دعووں کا دھواں اس قدر بھراہواہے کہ وہ ہمیشہ ریل گاڑی کی طرح سیدھے خط میں چل کر کامیابی چاہتی ہیں، جس کازور طبیعتوںکو سخت اور دھواں آنکھوںکو کڑوا معلوم ہوتا ہے۔ بعض اوقات لوگوں کو اس کی راستی سے نقصان اٹھانے پڑتے ہیں…کیوںکہ دیو دروغ کی حکومت کا ڈھنگ بالکل اس کے خلاف ہے۔ اوّل تو اس میں فارغ البالی بہت ہے اور جو لوگ اس کی رعایامیں داخل ہوجاتے ہیں، انھیں سوا عیش و آرام کے دنیا کی کسی بات سے خبر نہیں ہوتی۔ دوسرے وہ بہروپیہ ہے، جو صورت سب کو بھائے وہی روپ بھرلیتاہے اور اوروں کی مرضی کا جامہ پہنے رہتاہے۔غرض اہلِ انجمن نے صلاح کرکے ملکہ کا طرزِ لباس بدلنے کی تجویز کی۔ چنانچہ ایک ویسا ہی ڈھیلا ڈھالا جامہ تیار کیا جیسا کہ جھوٹ پہنتا تھا اور وہ پہن کر لوگوں کو جُل دیا کرتا تھا۔اس جامہ کا ’مصلحتِ زمانہ‘ نام ہوا۔چنانچہ اس خلعت کو زیب بدن کرکے ملکہ پھر ملک گیری کو اُٹھی۔ جس ملک میں پہنچتی اور آگے کو راستہ مانگتی، ہوا و ہوس، حاکم وہاں کے اُسے ’دروغ شاہ دیو زاد‘ سمجھ کر آتے اور شہر کی کنجیاں نذر گردانتے۔ اِدھر اس کا دخل ہوا، اُدھر اِدراک آیا اور جھٹ وہ جامہ اُتار لیا۔ جامہ کے اُترتے ہی اس کی اصل روشنی اور ذاتی حسن وجمال پھر چمک کر نکل آیا۔‘‘(۴)

اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ مادیت کی چکاچوندھ سے رشتے ٹوٹ کر بکھرے ہیں اور آدمیت کو ضرب پہنچتی ہے۔ حالانکہ کورونا نے رشتہ کی اہمیت کو بدرجۂ غایت احساس دلایا ہے کہ بزعمِ دولت، شہرت اور عہدے’’ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا‘‘ان کو بھی نہ ہوٹلوںمیں جگہ ملی اور نہ ہی اسپتالوںمیں۔دراصل زیادہ سے زیادہ آرام و آسائش حاصل کرنے اور فوری و وقتی جذباتیت کے جنون میں، انسان کے حساس اور نازک معاملے بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔خصوصاً جنسی بے راہ روی اور ہم جنس پرستی کی توسیع بلکہ ا س کو قانونی جواز فراہم کرانے کے لیے جو مہم چل رہی ہے اور دل بستگی کے لیے مصنوعی ذہانت والے مختلف نوعیت کے آلات کے استعمال سے نسلِ انسانی کی افزائش کو خطرہ لاحق ہوگیاہے۔

(۳)     بے ہنگم تفریحی یلغار میں معیاری شعر و ادب کی پیش کش:

ہر دور اپنی بساط بچھاتاہے اور اپنے تغیرات کے ساتھ اپنا ڈکشن بھی لاتاہے جس سے اس دور کے افراد جلد مانوس ہوجاتے ہیں۔ اکیسویں صدی نے بھی معاشرتی زندگی پر اپنی بساط بچھادی ہے اور ڈکشن کے مہرے سجادیےہیں لیکن گزشتہ صدیوںسے دورِ رواں کا ڈکشن؛ طرزِ ادا اور لب ولہجہ بالکل منفرد ہے کیوںکہ اس سے قبل فکر و تدبر کا مرکز و محور صرف اور صرف انسان اور مخلوقاتِ ربانی کی فلاح و بہبود اور انسانیت کے فروغ کو بنایاجاتارہاہے جب کہ اکیسویں صدی میں انسانی کارنامہ یعنی مصنوعی ذہانت والے آلات بھی اس کی فکر کا محور بن گئے ہیں کیوںکہ وہ بھی آدمی کی طرح حرکت و عمل کرتے ہوئے بہت ساری ذمہ داریوںکو نبھانے میں اہم کردر ادا کررہے ہیں۔ حتی کہ شعری و ادبی تخلیقات میں بھی مصنوعی ذہانت نے اپنی موجودگی درج کرادی ہے جس کی وجہ سے شعر و ادب کے موضوع، ہیئت اور طرزِ ادا میں نمایاں تبدیلی نظرآرہی ہے۔ خصوصاً شعر و نغمہ پر ان کے واضح اثرات دیکھے جارہے ہیں۔ اس ’’جدید تکنیکی ادب‘‘ میں زبان اور لب ولہجہ؛ مخصوص آہنگ اور منفرد مزاج کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ خصوصاً ڈسکو اور ریپ (Rap) میں موضوع اور زبان کے ساتھ لب ولہجہ اور طرزِ ادا میں موسیقی کا اسٹائل روبوٹیکی(روبوٹ کی طرح) ہوگیاہے۔ اس میں عام بول چال کی زبان ، پُرجوش اور اُبال کھاتی ملتی ہے حالانکہ اس میں تخلیقی بصیرت بھی ملتی ہے، صرف شاعرانہ معیار اور اعتدال کی حاجت ہے۔ لہٰذا اس کو فلمی تفریحی ادب کے خانہ میں ڈال کر نظرانداز نہیں کیاجاسکتاہے کہ اس کی مقبولیت نے متحیر کردیاہے۔ یہ درست ہے کہ عصری تغیرات اور اس کے اثرات سے روگردانی ناممکن ہے کیوںکہ شعر و ادب تو بہتا دریاہے جس میں اپنے عہد کے معاشرتی عوامل سے کشید مشاہدات و تجربات کے فنی اظہار سے طغیانی آئی ہے اور دائمی ادب کا ہیولیٰ بنتا ہے لہٰذا اس میں اعتدال پیداکرنا، ادبی اور شاعرانہ آہنگ میں انسانی حسیات اور فکرو جمال کی جلوہ نمائی؛ جس سے انسان اور انسانیت افروزی کی لہریں موجزن ہوں، اہلِ فکر و فن اور دانشوروں سے دورِ رواں متقاضی ہے۔شاعری کے تعلق سے حالیؔ لکھتے ہیں:

’’شعر سے جس طرح نفسانی جذبات کو اشتعال ہوتا ہے اسی طرح روحانی خوشیاں بھی زندہ ہوتی ہیں اور انسان کی روحانی اور پاک خوشیوںکو اس کے اخلاق کے ساتھ ایسا صریح تعلق ہے جس کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ شعر اگرچہ براہِ راست علمِ اخلاق کی طرح تلقین اور تربیت نہیں کرتا لیکن از روئے انصاف اس کو علمِ اخلاق کا نائب مناب اور قائم مقام کہہ سکتے ہیں۔‘‘ (۵)

شعر و ادب بھی لوازماتِ زندگی کے زمرے میں آتا ہے اور معاشرتی نظام میں مقام رکھتا ہے، کیوںکہ اس میں آدمیت، انسانی احساس اور کیفیاتِ زندگی کی ترجمانی ہوتی ہے، نیز معاشرتی زندگی کی عکاسی کے ساتھ شعر و ادب اس کی رہبری بھی کرتا ہے۔ کیوںکہ شاعری اپنے اندر ساحرانہ قوت رکھتی ہے جو دنیا میں بہت ساری تبدیلیوں کا باعث بنی ہے۔ حقیقتاً تخلیقی ملکہ وہ عطائے قدرت ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہوتاہے اور فن کار کے مشاہدے میں آکر جذبات کو متحرک کرتا ہے۔ اس لیے زندگی کی سچائی کی عکاسی جس کیفیت و کمال کے ساتھ ایک فطری فن کار کرتا ہے وہ مقام مصنوعی ذہانت والے آلات، حاصل نہیں کرسکتے۔ وقتی اور فوری نتائج کی برآمدگی مصنوعی ذہانت کا کارنامہ ہوسکتی ہے لیکن فکر و عمل میں صبر و تحمل اور حالات کے تناظر میں ایک فطری فنکار ہی توکل اختیار کرسکتا ہے۔لہٰذا اس صورتِ حال کے تناظر میں شعرا، ادبا اور فن کاروں کو علامہ اقبال کا یہ شعر مختص کیا جاسکتاہے:

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

دورِ رواں کے قلم کاروں اور فن کاروں کے سامنے سائنسی ایجادات اور جدید ٹیکنالوجی نے موضوعات کے انبار لگا دیے ہیں جس پرباریک بینی، تفکر ، قدیم کے ساتھ جدید علوم و فنون کے عمیق مطالعہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر نیرنگِ خیال کی جلوہ نمائی سے شعرا و ادبا اپنی تخلیقات اور تحریروںکو متاثرکن ، کارآمد اور مسرت آمیز بناسکتے ہیں۔ بلاشبہ ان کے سامنے انسان اور خدمتِ خلق کے لیے ایک نیا باب کھلا ہے۔ اس پس منظر میں دورِ رواں کو شعرا و ادبا کے لیے سنہرا دور تسلیم کیاجائے گا۔

.......

حواشی:

(۱)      نیرنگِ خیال: شمس العلمامولوی محمد حسین آزاد، ص:۶۳، مکتبہ جامعہ،سنہ اشاعت اکتوبر ۲۰۲۰ء(۲)   ایضاً ص: ۶۶۔۶۷

(۳)     بحوالہ، انقلاب، ۷؍مئی ۲۰۲۳ء، ص:۸

(۴)     نیرنگِ خیال: محمد حسین آزاد، ص: ۴۳۔۴۴

(۵)      مقدمۂ شعر و شاعری: الطاف حسین حالی، ص:۱۸، نیشنل پریس، الٰہ آباد، سنہ اشاعت ۱۹۶۰ء

صدر شعبۂ اردو،ایم۔پی۔ایس۔ سائنس کالج، مظفرپور(بہار)

موبائل:  8210281400


 

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...