Monday, June 5, 2023

یاد مفارقت : وجود کی داستان پہیلی

 

یاد مفارقت : وجود کی داستان پہیلی

محمد فرقان عالم

’’یاد مفارقت‘‘عبدالرزاق گرناہ کے نوبل انعام یافتہ ناول the memory of departure کا اردو ترجمہ ہے،جو معروف ادیب اور مترجم سعید نقوی کے ذریعہ اردو کی ادبی دنیا کے لیے سامان تسکین بنا۔

ناول کا بیانیہ مشرقی افریقہ کے ایک غریب ساحلی علاقہ کا احاطہ کرتا ہے،جس میں پوسٹ کالونیل سماج کی مفلسی،عیاشی،مایوسی،غربت اور کرپشن جیسی چیزوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک ایسے خاندان کو بیانیہ کا حصہ بنانے اور پلاٹ کی بنت میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے،خاص سماجی المیہ کی وجہ سے جس کے افراد کی سماجی زندگی کا لازمہ داخلی کرب اور گھٹن ہیں،یہ کرب اور گھٹن انفرادی طور پر ان تمام کی ذات میں پیوست ہیں،ان میں ادغام ہے اور نہ ہی اشتراک،جس کی وجہ سے والد،والدہ اور بیٹی اپنی اندرونی کشمکش اور داخلی تصادم سے انفرادی طور پر ہی گزرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں اور ان سے فرار کی الگ الگ راہ اختیار کرنے پر آمادئہ کار بھی،افراد خانہ کا داخلی کرب کو لے کر یہی انفرادی رویہ اور ایک دوسرے سے آنکھیں موند کر اپنے وجود میں گم ہوجانے کا یہی غیر متوازن عمل مزید ناگفتہ بہ مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں،جس میں پوسٹ کالونیل سماج کی تمام تر برائیاں اور خرابیاں مصالحے کا کام کرتی ہیں۔

اس طرح پورا گھر غربت کے ساتھ داخلی زندگی کے دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے،جس سے خارجی زندگی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتی،ان تمام سچویشنز کو پیش نظر رکھتے ہوئے ناول نگار نے '' حسن'' جیسا انفرادی خصوصیات کا حامل کردار تخلیق کرنے کی کوشش کی تاکہ انفرادی رویوں کے باوصف فرد کی داخلیت جس طرح کرب آگیں ہوئی اس کو کنٹرول میں لانے کی سعی بھی حسن کے کردار کی انفرادی زندگی کی جزئیات کے ذریعہ ہی ممکن ہو سکے۔

ناول کا مرکزی کردار حسن قمر ایک پندرہ سالہ نوجوان ہے جو مذکورہ غریب گھر کا ہی ایک فرد ہے، شعور کی آنکھیں کھولتے ہی جو اپنے گھر کے داخلی مسائل کا نہ صرف یہ کہ ادراک کرتا ہے بلکہ ذہنی انتشار اور منفیت کا شکار ہوئے بغیر سنجیدگی کے ساتھ مسائل کی تہوں تک رسائی بھی حاصل کرتاہے، اسی کے ساتھ سماج کی گندگیوں اور جبر کو محسوس کرتے ہوئے ان کی جزئیات کا تجربہ اور مشاہدہ بھی کرتا ہے۔

ناول نگار نے پلاٹ کی کامیاب بنت اور ناول کی فنکارانہ تشکیل کے لیے واحد متکلم راوی کا سہارا لیا ہے تاکہ کہانی کے خدو خال بہتر طور پر واضح ہو سکیں، یوں بھی ناول کی تخلیق میں واحد متکلم راوی کا انتخاب مستحسن خیال کیا جاتا ہے،اس کی وجہ اس کو نئے طریقِ کار سے موسوم کرنا بھی ہے جیسا کہ برگس یوسا نے اپنی معروف کتاب ’’نوجوان ناول نگار کے نام خط میں بھی اس پر اظہار خیال کیا ہے ’’ایک ہمہ دان راوی جو اس کہانی سے باہر اور اس سے علاحدہ ہے جسے بیان کر رہا ہےیا ایک گول مول راوی جس کی حیثیت غیر واضح ہو یہ کہانی کو بیانیہ کائنات کے اندر سے بھی بیان کر سکتا ہے اور باہر سے بھی۔پہلی دو طرح کے راوی زیادہ روایتی ہیں،دوسری طرف آخری قسم کا راوی قریبی زمانے میں وجود میں آیا ہے اور جدید ناول کی پیداوار ہے‘‘ (۱)

واحد متکلم راوی کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ بیانیہ کے اندر ہی ہوتا ہے اور کرداروں سے اس کا واسطہ بھی پڑتا ہے،اس لیے اس میں کہانی کو جزئیات نگاری کے ساتھ آگے بڑھانے کے ضمن میں وسیع امکانات پوشیدہ نظر آتے ہیں،یہاں پر ناول نگار کو بھی محتاط رویہ اس طور پر اختیار کرنا پڑتا ہے کہ کہیں غیر شعوری طور پر کہانی میں ان کی ذات کا عکس نہ نظر آ جائے،جس سے ناول کی شاندار عمارت میں شگاف پڑ سکتا ہے،اس لیے واحد متکلم راوی کے انتخاب میں ناول نگار کو ایک خاص ٹھہراؤ کی ضرورت پڑتی ہے اور شعوری طور پر اپنی ذات کو منظر نامہ سے غائب بھی رکھنا پڑتا ہے تاکہ ناول کے پلاٹ پر کسی بھی آمیزش کے بغیر راوی کا مکمل قبضہ ہو، اس لیے کہ بقول برگس یوسا ’’راوی وہ ہستی ہے جو لفظوں کی بنی ہوتی ہے گوشت اور خون کی نہیں،جیسے مصنف ہوتے ہیں‘‘ (۲)

پیش نظر ناول ''یاد مفارقت'' کو بھی ذکر کردہ خصوصیات کی عمدہ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے،جس میں ناول کا مرکزی کردار ''حسن'' ہی ناول کا واحد متکلم راوی بھی ہے،حسن کے ارد گرد خارجی نا گفتہ بہ مسائل کی جزئیات اور داخلی مغموم دنیا کی پیچیدگیاں اس طرح اکٹھا ہوتی ہیں اور پھر وہ ان کے سہارے اپنی ایک خاموش دنیا لے کر اس طرح آگے بڑھ رہا ہوتا ہے کہ پیچھے پیچھے قاری کا ذہن الفاظ کی زیریں لہروں اور جملوں کی پوشیدہ فضا سے آہستگی کے ساتھ بآسانی بہت کچھ اخذ کر لیتا ہے جس کا اندازہ درج ذیل اقتباسات کے جملوں کی ساخت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:

’’سمندر کی ہوا میرے سینے کے درد کے لیے اچھی تھی...مجھے پتہ تھا کہ اب مجھے گھر جانا چاہیے،میرا تعلق ان لوگوں سے ہے،اگر میں نہیں لوٹا تو وہ مجھے ڈھونڈتے ہوئے یہاں آ جائیں گے،پھر وہ میری پٹائی کریں گے،مجھ سے محبت جتائیںگے... میرے جسم کو تشدد کا نشانہ بنائیںگے... اس تمام ہنگامے اور بے عزتی کے مقابلے میں تو یہاں گندے ساحل پر ہی بہتر تھا۔‘‘ (۳)

’’سعید مڑ کر بھاگا تو میرے والد نے اس کے شانے پر ایک گھونسا مارا، ایسے لگا جیسے گوشت پر کلہاڑی چل گئی ہو...۔وہ اسے اس وقت تک مارتے رہے جب تک اس کا پاخانہ خارج نہیں ہو گیا۔‘‘(۴)

’’یہ تصویر مجھے والدہ نے دکھائی تھی...۔میں غصے سے ابلتی ان آنکھوں کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا جو اب شراب سے مخمور رہتی ہیں۔۔میں ہمیشہ والدہ سے معلوم کرنا چاہتا تھا کہ وہ ایسے کیوں ہیں؟ان کے بارے میں جو باتیں مشہور ہیں کیا وہ سچ ہیں؟ کیا یہ سچ ہے کہ وہ سیاہ فام چھوٹے بچوں کو اغوا کرکے انہیں ثور کے عربوں کے ہاتھوں بیچ دیا کرتے تھے،یہ میں نے اسکول میں سنا تھا،کیا یہ سچ ہے کہ ایک بچے......کی وجہ سے انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا؟ مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ باتیں سچ ہیں لیکن ان کے غصے کے یہ دورے سچ تھے۔اس قدر شدید اور تباہ کن کہ لگتا تھا وہ ہر قسم کی بے رحمی پر قادر ہیں ۔‘‘ (۵)

’’ایک آدمی میرے پاس سے گزرا،پھررک گیا،مڑا اور مجھے دیکھنے لگا،میرے اندر ایک ہوک سی اٹھی،وہ مڑکے آیا اور میرے برابر ہی کھڑا ہو گیا،میں اپنے پہلو میں اس کے جسم کی موجودگی محسوس کر رہا تھا...۔میں ان شکاری پرندوں سے لڑتے لڑتے تھک گیا تھا۔‘‘ (۶)

’’تم نے مجھے شرمندہ کیا ہے،انہوں نے میری مردانگی کے آغاز سے ایک ہفتہ پہلے کہا تھا،تمہیں اپنے والد کی جدوجہد کا کوئی اندازہ نہیں،وہ کہتے ہیں تم گلی میں ان کے پاس سے گزرتے ہو تو انہیں پوچھتے بھی نہیں...کیا تم انہیں عزت بھی نہیں دے سکتے؟ چپ رہو! دوبارہ رونا شروع مت کردو...‘‘(۷)

درج بالا اقتباسات ناول کے پہلے حصے سے ہیں،جن میں ناول کی پوری فضا پر محیط فرد کا درون اور سماج کا بیرون اپنے تمام تر عناصر کے ساتھ پوشیدہ ہیں ان میں حسن کے والد کی ظاہری چیخ اور غصہ کی شدت کے باطنی اسباب بھی ہیں اور اس کی والدہ کی خاموشی اور مظلومیت کے راز ہائے سربستہ بھی، ساتھ ہی عمل اور رد عمل کی کشمکش کے ساتھParadoxical کیفیات کی جھلکیاں بھی، اس سچویشن میں ناول کا مرکزی کردار حسن خود اپنی ذات میں جتنے Complexes کا شکار ہوتا ہے اور پھر ان سے جس طرح وقفے وقفے سے معمولی عمل و رد عمل کے با وجود باہر نکل کرجس استقامت اور ٹھہراؤ کے ساتھ آگے کا سفر طے کرتا ہے، وہی اس کردار کا اصل انفراد ہے اور ناول نگار کا اس کو تخلیق کرنے کا مقصود و منہاج بھی، جو انفرادیت پسندی پر مبنی طبیعت سے پیدا شدہ امراض کی تشخیص کا نہ صرف یہ کہ سبب بنتا ہے بلکہ ان کے مداوے کا اہم ترین ذریعہ بھی ثابت ہوتا ہے

حسن کے والد کا درون ناکردہ گناہوں کی سزا جھیلنے کی وجہ سے مضمحل ہو جاتا ہے، ان کی سوچ میں حد درجہ منفیت اور عمل میں غیر معمولی تشدد کی آمیزش نظر آتی ہے،ان کی شکست خوردہ طبیعت کا رد عمل گھر کے افراد پر چیخ اور تشدد کی شکل میں سامنے آتا ہے اور فرار شراب نوشی کی محفلوں اور قبیح عمل کی انجام دہی کے طور پر ،اس کے برعکس حسن کی والدہ خاموشی اور مظلومیت کی دنیا میں ہی خود کو مقید رکھنا پسند کرتی ہے،ایسے میں حسن ایک طرف والدہ کی خاموشی کو زبان دے کر اس کی اندرونی آواز پر کان لگانے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف والد کی چیخ کو خاموشی عطا کر کے اس کی داخلی خاموشی کو محسوس کرنا چاہتا ہے گویا ناول نگار نے اہل خانہ کی داخلی گونج کو مرکزی کردار حسن کی خارجی خاموشی میں مدغم کرکے سچویشن کو المیہ سے طربیہ کی طرف موڑنے کی کوشش کی ہے،ناول نگار کا یہ نفسیاتی ٹریٹمنٹ اولاً کرداروں کو مرکزی کردار کے قریب کرتا ہے پھر ان کو مرکزی کردار کی خاموشی کے ذریعہ ایسی آوازیں بخشتا ہے جو ناول کے کینوس پر اپنےdimensions کے ساتھ صاف صاف سنائی دیتی ہیں،اس طرح ناول میں کسی ایک آواز کے بجائے کئی مختلف آوازیں شامل ہوجاتی ہیں،جن کو ’’باختن نے polyphony (کئی آوازیں) سے موسوم کر کے ناول میں ان کی شمولیت کو ناگزیر قرار دیا ہے۔‘‘ (۸)

’’یاد مفارقت‘‘ پانچ حصوں میں منقسم ہے،تمام حصے باہم مربوط اور ایک دوسرے میں پیوست ہیں جس سے کہانی کی رفتار اور پلاٹ کی بنت میں باوجود اتار چڑھاؤ کے کسی قسم کی پیچیدگی اور بے ربطی کا احساس نہیں ہوتا ہے، پلاٹ،پھیلاؤ اور اپنے الگ الگ dimensions کے باوجود بہاؤ کے اعتبار سے ایک نقطہ پر ہی مرکوز متصور ہوتا ہےاور یہ ایک کامیاب پلاٹ کی بڑی خصوصیت بھی ہے جس کی طرف محمد حسن نے بھی اشارہ کیا ہے: ’’ناول کے پلاٹ کی وحدت اس کی انہی پرتوں کی باہمی مطابقت سے ابھرتی ہے گو ہر پرت کی اپنی تہذیبی فضا یا فکری معنویت جداگانہ ہو سکتی ہے، لیکن مجموعی طور پر ایک پرت دوسرے سے مل کر ہم آہنگ ہو جاتی ہے اور پورے ناول کو مرکزیت بخشتی ہے۔‘‘ (۹)

ناول کے پہلے حصہ کی تکمیل سے ہی المیہ کی شدت میں کمی کا احساس ہوتا ہے اور طربیہ کی ایک باریک چنگاری روشن ہوتی نظر آتی ہے،اس چنگاری کا الارم دراصل مرکزی کردار حسن کی نقل مکا نی ہے،جس کے غیاب میں،حسن کی تعلیمی کارکردگی،حوصلہ و ہمت،استقامت و ثابت قدمی اور ان سب سے بھی بڑھ کر جذباتیت سے صرف نظر سنجیدگی و سنجیدہ مزاجی جیسے عناصر ہیں،جن کی وجہ سے حسن،مجروح کرداروں کی امیدوں کا مرکز اس طور پر متصور ہوتا ہے کہ والدین اور بہن کے درون میں جمے ہوئے زخمی الفاظ آواز کی شکل میں باہر آتے ہیں اور حسن کی خاموشی سے ٹکرا کرناول کی فضا میں ارتعاش پیدا کرتے ہیں اور یہی ارتعاش در اصل زخموں کو مندمل کرنے کا اشاریہ قرار پاتا ہے،جس کا اندازہ ذیل میں درج اقتباسات کی فضا سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:

’’کیا تمہیں معلوم ہے میں کبھی جیل گیا تھا؟...انہوں نے مجھ پر ایک آٹھ سالہ لڑکے سے زبردستی کرنے کا الزام لگایا۔۔ایک ذہنی طور پر معذور بچہ جو سڑکوں پر سوتا تھا...میں بے قصور تھا...۔انہیں کوئی معمولی سا آدمی چاہیے تھا جس پر الزام رکھ سکیں...انہوں نے مجھے تین مہینے بعد رہا کر دیا....اسی سے بے گناہی ثابت نہیں ہوجاتی؟تب ہم اس چاروں طرف سے رنڈیوں کی غلاظت کے ڈھیر میں گھرے علاقے میں رہنے آ گئے،لوگ فراموش نہیں کرتے۔‘‘ (۱۰)

’’اب ہیرو مت بنو،جو میں کہہ رہی ہوں اس پرتوجہ دو میں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے تم جیسا بیٹا عطا کیا۔مجھ بڑھیا کی پروا مت کرو۔’آپ بوڑھی تو نہیں‘۔’میں خود کو بوڑھی محسوس کرتی ہوں‘ وہ بولیں۔’یہ محض بالوں کی سفیدی ہے‘میں نے کہا۔’میں آپ کو خضاب لاکر دوں گا‘پھر دکھاؤں گا آپ کس قدر جوان لگتی ہیں۔’ایسی جرأت بھی مت کرناوہ ہنستے ہوئے بولیں‘ لوگ سمجھیں گے کوئی چاہنے والا تلاش کر لیا ہے۔‘‘ (۱۱)

’’ذکیہ کہنے لگی کہ نا معلوم اس کے ساتھ کیا ہوا،لیکن وہ معلوم کرنے سے بھی خوفزدہ تھی۔اس نے مجھ سے معلوم کرنے کی التجا کی۔میں اب سوچتا ہوں کہ اسے یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ میں ایک ڈنڈا لے کر اس کی بے عزتی کا بدلہ لوں گا...انہوں نے یہ بات میرے والد سے چھپائی لیکن لگتا تھا کہ اس واقعے نے ذکیہ کی خودداری کے سارے بندھن توڑدیے۔‘‘ (۱۲)

محولہ بالا اقتباسات میں حسن کے والد کی چیخ اور رد عمل کی کیفیت درد کے پیرایۂ اظہار میں نظر آتی ہے،اس کی والدہ کی خاموشی بے تکلف زبان اور رومانوی انداز تکلم میں بدلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جبکہ بہن کا خوف حسن کی استقامت کے سامنے ہمت کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے،یہ وہ داخلی کیفیات ہیں جن کے ذریعہ ناول نگار نے نہ صرف یہ کہ پلاٹ کے خارجی ماحول میں تبدیلی پیدا کی بلکہ مرکزی کردار کو بھی ایک نئی شکل میں پیش کرکے ناول کوطربیہ کی منزل سے ہم کنار کر دیا۔یہاں پر والدین اور بہن اپنی اپنی زندگی کے کرب کو بھول کر حسن کی خوشگوار زندگی کی خواہش کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایک نئے اور بظاہر شاداب ماحول کی نقل مکانی میں یہ ہر سطح پر حسن کا معاون بنتے ہیں۔ ناول ’’یاد مفارقت‘‘ المیہ اور طربیہ کی کشمکش کا تخلیقی اظہاریہ ہے،لفظ ''کشمکشـــ ـــــــ، یہاں اس لیے بھی موزوں لگ رہا ہے کہ ناول کی مکمل قرأت کے دورانیہ میں اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ناول نگار نے پلاٹ کو کرداروں کے ذریعہ صرف ایک کیفیت یا ماحول سے دوسری کیفیت یا ماحول کی طرف منتقل نہیں کیا ہے بلکہ دونوں کے درمیان تصادم کی سی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کا اندازہ پانچوں حصوں کی تقسیم سے ہوتا ہے۔ ناول کے پہلے اور چوتھے حصہ میں ماحول کی سطح پرتو ظاہری اعتبار سے تضاد نظر آتا ہے لیکن معنوی کیفیات باہم آمیز نظر آتی ہیں۔ یہ دونوں حصے ناول کی دو الگ الگ دنیا کو محیط ہیں، پہلے حصہ کی دنیا مکانی حیثیت سے ساحلی علاقے کی غربت پر مبنی دنیا ہے جس میں کرداروں کی نفسیات اور داخلی تصادم کی جزئیات ابھرتی اور مٹتی نظر آتی ہیں ساتھ ہی سماجی جبر اور خارجی آلام سے بر سر پیکار بھی ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ بین السطور میں مذہبی عوامل بھی الگ الگ پہلوؤں کو محیط ہیں اس کے برعکس چوتھے حصہ کی دنیا نیروبی جو حسن کے ماموں بوانا احمد کا مسکن ہے خوشحالی سے وابستہ دنیا ہے،جس میں دولت کی فراوانی ہے،ماحول کافی شاداب ہے۔ سامان عیش و عشرت مہیا ہیں،سماجی ناگفتہ بہ مسائل کا دور دور تک شائبہ نہیں،مذہبی اطوار بھی معدوم ہیں،ان سب سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں لیکن ایسا نہیں ہے وہاں بھی کرداروں کی داخلی کیفیات کرب سے ہی وابستہ ہیں۔

حسن کے ماموں بوانا احمد نے اپنی بیوی پر کسی اور سے جنسی تعلق قائم کرنے کے حوالے سے شک کیا، اس بے جا شک کی وجہ سے انہوں نے اپنی بیوی کو گھر میں قید کرکے اس کا ذہنی استحصال کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا، نتیجتاً اس نے زہر کھا کر خود کشی کرلی جس میں حسن کے ماموں کی ضد، انا اور تنگ نظری کا خاص دخل رہا، تنگ نظری پر مبنی اس عمل نے بوانا احمد کو ہمیشہ اندرونی کرب میں مبتلا رکھا اور اس کرب کی داستان کو انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی سلمی سے بھی مخفی رکھا تاکہ گھٹن کے ساتھ ہی سہی وہ اپنی زندگی جی سکیں،ان کا یہ کرب اس وقت ظاہر ہوا جب حسن اور سلمیٰ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوکر ایک لطیف اور پر کیف احساس سے آشنا ہوئے،اس وقت حسن کے ماموں کو ایسا لگا جیسے حسن نے سلمیٰ سے جنسی رشتہ قائم کیا ہے یعنی ان کے داخلی کرب کا سبب پھر سے ان کے ذہن میں کوند آیا اس طرح کرب کے رد عمل کی وجہ سے انہوں نے حسن کو نہ صرف یہ کہ دھکے دے کر باہر نکالا بلکہ اکلوتی بیٹی پر ستم بھی ڈھائے،حسن کے ماموں کا یہ عمل دراصل پچھلے کردہ گناہ کا ردعمل ہے جہاں ناول نگار نے ان کو ایک گھٹ گھٹ کر جی رہے بظاہر تصنع آمیز خوددار کردار کی شکل میں پیش کیا ہے اور داخلی پیچیدگی کی اچھی تصویربھی سامنے لانے کی کوشش کی ہے،جس کو ذیل کے جملوں میں محسوس کیا جا سکتا ہے''میرے خیال میں وہ ایک دن خود کو ہلاک کرلیںگے... میرا نہیں خیال کہ وہ اس احساس جرم کے ساتھ زندہ رہ سکیں گے ایک دن سلمیٰ کو پتہ چلے گا پھر وہ جن نظروں سے انہیں دیکھے گی،وہ برداشت نہیں کر سکیںگے...وہ احمق آدمی کتنے کرب سے گزر رہا ہے۔‘‘ (۱۳)

’’چلو ایک کا تو سمجھ میں آتا ہے کہ بدقسمتی تھی،ٹریجڈی تھی لیکن دو،کس قسم کا احمق ہے؟‘‘(۱۴)

 ناول کے پہلے حصہ میں حسن کے والد کی داخلیت ناکردہ گناہ کی سزا جھیلنے کی وجہ سے متاثر تھی جبکہ چوتھے حصہ میں اس کے ماموں کا درون ناکردہ گناہ کی سزا سنا کر مضمحل ہے، دونوں کیفیات میں فرق یہ ہے کہ ایک میں غربت پر مبنی ماحول کی وجہ سے زبردست چیخ ہے جس میں کہیں نہ کہیں احساس کمتری کی آمیزش بھی ہے جبکہ دوسری میں خوشحالی کی دنیا آباد ہونے کی وجہ سے بہ تکلف سنجیدہ بننے کی کوشش ہے جس میں احساس برتری کا عکس بھی کسی نہ کسی سطح پر شامل ہے، دونوں کیفیات پر اس پہلو سے بھی غور کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ پہلے حصہ کے کردار میں خارجی عوامل کارفرما ہیں نتیجتاً داخلی رد عمل چیخ اور غصہ کی شدت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے جبکہ چوتھے حصہ کے کردار میں خود داخلی عمل ہی داخلی رد عمل کا سبب بنتا ہے،یعنی ماقبل کی چیخ اور غصہ کی شدت نے اب رد عمل کے طور پر داخلی خاموشی کی شکل اختیار کر لی ہے،یہ دونوں کردار نفسیاتی کیفیات کے اعتبار سے obsessive compulsive disorders کا شکار نظر آتے ہیں۔

 مذکورہ دونوں حصوں کی دنیا سے ناول نگارنے قاری کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرنے کی کوشش کی ہے کہ پوسٹ کالونیل کیا کسی بھی دور میں فرد کی داخلیت صرف سماجی مسائل،خارجی آلام اورغربت کی وجہ سے ہی مجروح نہیں ہوتی ہے بلکہ خوشگوار ماحول میں بھی کوئی داخلی ناخوشگوار واقعہ فرد کے درون کو کشمکش اور تصادم میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتا ہے

ناول کے پلاٹ میں زیادہ تر وجود کی داخلی دنیا کو ہی پیش نظر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کی کیفیات کے تضادات، تصادم اور پیچیدگیوں کو بیشتر تخلیقیت کے مدارج سے آمیز کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ناول کا متن باوجود سادگی کے انسانی سوچ کو کئی زاویوں کی طرف مرکوز کرتا دکھائی دیتا ہے،بقول میلان کنڈیرا ’’ ہر عہد کے تمام ناول انسانی وجود کی پہیلی سے متعلق رہے ہیں۔‘‘ (۱۵)

دوسرے اور تیسرے حصہ کی حیثیت ناول میں خارجی دنیا کی ہے، یہ دونوں حصے مرکزی کردار کے مادی سفر کا دورانیہ ہیں، یہ دورانیہ دو داخلی دنیاؤں کو جوڑنے کا خارجی پل ہے،جس پر ناول نگار نے ’’موسی مووینی‘‘ کی شکل میں ایک ایسے کردار کی تخلیق کی ہے جو انقلابی سوچ اور عملی زندگی کے درمیان تضاد کی وجہ سے پوسٹ کالونیل سماج کا ایک نمائندہ کردار نظر آتا ہے،اس کردار میں اس دور کی سیاسی، سماجی اور تہذیبی گونج کے ساتھ اس وقت کے نوجوانوں کی نفسیات کا ادراک بھی کیا جا سکتا ہے جس میں کالونیل اور پوسٹ کالونیل دورکے تصادم کی وجہ سے حد درجہ جذباتیت اور احساس کمتری کی آمیزش صاف طور پر دکھائی پڑتی ہے ،عملی زندگی میں یہ ایک دلال ہے جو سیاحوں کے لیے نوٹوں کے تبادلے سے لے کر جنسی غذا کا سامان مہیا کراتا ہے لیکن خود کو نیروبی یونیورسٹی کا طالب علم باور کراتا ہے، اپنی زبان دانی،ظاہرداری اور انقلابی فکر کے اظہار کی وجہ سے یہ سچا بھی تسلیم کر لیا جاتا ہے۔

موسی مووینی کا کردار ڈپٹی نذیر احمد کے کردار مرزا ظاہر دار بیگ کا مماثل نظر آتا ہے، گو کہ یہ دونوں کالونیل اور پوسٹ کالونیل جیسے دو مختلف ادوار کی پیداوار ہیں،تاہم دونوں کی چرب زبانی، طرزادا اور انداز تکلم میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے البتہ دو مختلف ادوار کے سماجی ماحول،تہذیبی رویوں اور ایک صدی سے زائد عرصہ پر محیط زمانی بعد کی وجہ سے ذہنیت میں فرق ضرور واقع ہے، مرزا ظاہر داربیگ کا کردار صرف قول کا مظہر نظر آتا ہے جبکہ موسی مووینی کے کردار میں قول کے ساتھ عمل بھی شامل ہے، یہ الگ بات ہے کہ عمل پوری طرح قول سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

مماثلتوں کے اتحاد و اختلاف کے ساتھ نا ول کے تناظر میں دونوں کرداروں کی فنکارانہ پیش کش بھی کافی اہم ہو جاتی ہے، اس طرح کے کردار دو الگ الگ دور کی تہذیبی،فکری اور سماجی نمائندگی کے ساتھ ناول کی فضا کو بھی متاثر کرنے کا سبب بنتے ہیں،ان کی تخلیق کا مطمح نظر بھی ناول کے ماحول کو کئی سطحوں پر تبدیل کرنا ہی ہوتا ہے تاکہ متن میں قاری کا ذہن، تکان اوربوجھل پن سے فرار کے لیے فوری کسی نئے Modeسے آشنا ہو کر، ایک قسم کی طمانیت محسوس کرے، یہی وجہ ہے کہ کوتاہ مدت کے لیے ہی سہی اس طرح کے کردار مرکزی کردار پر حاوی ہوتے نظر آتے ہیں،ظاہر دار بیگ کا کردار ذہنوں میں اسی لیے زندہ ہے کہ وہ ناول میں ایک مخصوص نوعیت کی زندگی بخشتا ہے،ایک خاص اصلاحی ماحول کے ساتھ بڑھ رہے ناول میں اچانک دلچسپی کا سامان پیدا کر دیتا ہے۔

’’موسی مووینی‘‘ کا کردار بھی دراصل نئے versionکے طور پر مرزا ظاہر داربیگ کے کردار کی توسیع ہے، یہی وجہ ہے کہ اس میں کئی اور جہات شامل ہیں،اس کی آمد سے ناول کی خاموش فضا میں مخصوص جھونکوں کی آہٹ محسوس ہوتی ہے بلکہ چند لمحوں کے لیے تو ایسا لگتا ہے جیسے مرکزی کردار حسن Track سے الگ ہوکر خاموش اشارہ سے موسی مووینی کو پاس دے رہا ہو، دراصل ناول کے اس منظر پر بھی حسن کی خاموشی ہی موسی مووینی کے کردار کو حرکت عطا کرتی ہے جیسا کہ پچھلے مناظر میں حسن کی ظاہری خاموشی باطن کو کریدنے اور اس کو آواز بخشنے کا سبب بنی تھی،مجموعی طور پر موسی مووینی کا کردار پوسٹ کالونیل سماج کے منتشر اجزا کی مرکب تجسیم ہے، جس کا اندازہ درج ذیل سطور کی درو بست سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ’’میں تو محض ڈگری چاہتا تھا،ایک کار چاہتا تھا، رات کے کھانے میں مرغی اور کچھ خوبصورت عورتیں ہمارے پاس بس افریقی آرٹ،افریقی ادب، افریقی تاریخ،افریقی معاشرت اور یہی سب فضولیات ہیں،ہم اپنے لیے ایک اسکریو ڈرائیوریا ٹیلیکم پاؤڈر کا ڈبا بھی نہیں بنا سکتے،ہمیں ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے...میں تو کچھ وقت کے لیے افریقی عوام کو فراموش کردینے کے لیے تیار ہوں،لاکھوں خرچ کرکے قبل از تاریخ کے قبائلیوں کے لیے اسپتال بنانے کی کیا ضرورت ہے؟جب یہ تندرست ہو جاتے ہیں تو ان کا پیٹ بھرنے کے لیے مزید لاکھوں خرچ کرنے پڑتے ہیں...۔میں تو ان سب کو گولی مار دوں اگرچند ہزار وحشیوں کے قتل سے ہم سب کی زندگی سنور سکے تو ایسا ہی سہی۔‘‘ (۱۶)

سطور بالا میں شدت پسندی،احساس کمتری، جذباتیت اور منفیت جیسے عناصر کی پوشیدگی اس ذہنیت کی طرف مشیر ہیں جو دو مختلف دور کے تصادم کی وجہ سے پیدا ہوئی،جس میں ''بہت کچھ کھونے،کچھ نہ پانے'' کی نفسیاتی کشمکش بھی شامل ہے،یہی وجہ ہے کہ ناول میں انقلابی سفر اور ترقیاتی منازل کے پس پردہ اسی ذہنیت کی کارفرمائی نظر آتی ہے،ناول کے دوسرے اور تیسرے حصہ کو خارجی دنیا سے موسوم کرنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس میں ذہنیت،عمل،سوچ اور فکرکی تمامتر پرتیں سماج کے خارجی مظاہر کے بطور مکمل انداز میں سامنے آ جاتی ہیں،چونکہ ناول کے فریم میں یہ دنیا درمیان میں واقع ہے اس لیے اس کے اثرات سبک روی سے ہی سہی دونوں داخلی دنیا پر کسی نہ کسی شکل میں ضرور مرتب ہوتے ہیں اور کرداروں کی کیفیات بھی باہم متصادم ہوکرایک منزل پر مدغم ہو جاتی ہیں،اس طرح دو داخلی دنیا کے درمیان ایک خارجی دنیا کی تعمیرناول کی فکری تشکیل کے مدارج کو بہتر انداز میں واضح کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

ناول کا بنیادی موضوع محبت ہے، یہی وجہ ہے کہ اختتامیہ بھی ایک محبت بھرا خط ہی ہے لیکن اس محبت کو سمت دینے کے مراحل میں فرد اور سماج کو پلاٹ میں پرت در پرت کھنگال کر جس طرح ناول کے کینوس پر ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے وہ بہت ہی اہم ہے،اس سے ناول one thematice (یک موضوعی) کے بجائے multi thematic (کثیر موضوعی) کے زمرے میں شامل ہو جاتا ہے اور اس کی آفاقیت مسلم ہو جاتی ہے۔

 ناول کا پہلا حصہ المیہ سے شروع ہوکر طربیہ تک پہنچتا ہے جبکہ چوتھا حصہ طربیہ سے المیہ کی طرف بقیہ دونوں حصے گریز کی مانند دونوں سے متصل نظر آتے ہیں اس طرح ناول کا پلاٹ (-++-=) فارمولے کے تحت ایک متوازن مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں خالص طربیہ انداز میں ایک محبت بھرے خط کے ساتھ ناول کا اختتام عمل میں آتا ہے۔

’’یاد مفارقت‘‘ فکری محاسن کی ترویج کے ساتھ فنی لوازم کی تشکیل کے اعتبار سے بھی اہم ہے یہی وجہ ہے کہ ناول کا پلاٹ بہت ہی گٹھا ہوا ہے،مکالموں کے جملے کافی نپے تلے ہیں، کرداروں کی زبان بھی وعظ و نصیحت اور جذباتیت سے پاک ہونے کی وجہ سے صاف ستھری ہے, ان سب کے ساتھ ناول کی قرأت سے جو خاص بات ذہن میں پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ ناول نگار کے لاشعور میں مشرقی افریقہ ہے جبکہ شعور میں امریکہ،جس کی توضیح مواد اور انداز کی آمیزش سے کی جاسکتی ہے،ناول کے مواد میں مشرقیت کے عناصر پوشیدہ نظر آتے ہیں اور انداز میں مغربیت کی جھلک دکھائی پڑتی ہے گویا ناول نگار نے اپنے لاشعور کے مشرقی مواد کو شعور کے مغربی انداز سے آمیز کرکے ناول کو متشکل کرنے کی کوشش کی ہے۔

مشرقیت میں تکلف،تصنع اور ملمع سازی کو خاص دخل ہے اس کے بر عکس مغربیت میں بے تکلفی، بے ساختگی اور برجستگی اہم ہیں، اسی لیے ناول کے پورے کینوس پرمشرقی تکلف اور تصنع کے بجائے مغربی بے تکلفی اور بے ساختگی الگ الگ پیرایہ میں سامنے آتی ہیں، جس میں روز مرہ کے عمل اور رد عمل کے ساتھ کردار کے جنسی عمل کی بے ساختگی بھی شامل ہے۔ ذیل میں دونوں کی ایک ایک مثال پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

’’جب میں نے دروازہ بجایا تو مریم بستر پر ہی تھی اس نے ذرا سی جھری پیدا کرکے باہر جھانکاکیا ہوا؟ اس نے آنکھیں مل کے نیند بھگانے کی کوشش کی،ابھی ایک گھنٹہ پہلے ہی آنکھ لگی تھی۔‘‘ (۱۷)

’’تم کیا کر رہے ہو؟ میں نے پوچھا،بیسن میں پیشاب کر رہے ہو کیا؟,نہیں،وہ ہنسا کچھ رطوبت نچوڑ کے نکال رہا ہوں،تمہیں چاہیے صابن؟ ... آپ میرے تسلسل میں خلل ڈال رہے ہیں جناب،تمہیں صابن چاہیے یا نہیں؟‘‘ (۱۸)

اول الذکر مثال نیروبی کی ہے جہاں حسن،ماموں کے گھر سے نکالے جانے کے بعد سلمیٰ کی دوست مریم کے پاس پہنچتا ہے،اس سے قبل بھی دونوں کی ملاقات ہو چکی تھی،اس لیے شناسائی تھی،اب ایک لمبے عرصہ کے بعد حسن مریم کے دروازے پر دستک دے رہا ہے وہ بھی علی الصباح،ایسے میں مریم کا رد عمل باوجود نیند کے خمار کے حیرت و استعجاب کے ساتھ ہونا چاہیے تھا اور مریم کی طرف سے مزید چند جملے صرف ہونے چاہیے تھے لیکن ناول نگار نے مریم کی ایک بہت ہی بے تکلف اور برجستہ طبیعت کی عکاسی کی،اس طرح ما بعد کے ایک جملہ سے وہ دونوں اصل مدعا پر آ گئے،یہاں برجستگی کے ساتھ الفاظ کی کفایت شعاری کو بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

آخر الذکر مثال ٹرین کے سفرکی ہے،حسن اور موسی مووینی کے درمیان انقلابی اور فکری باتیں ہوتی ہیں، مباحثے ہوتے ہیں،جس میں موسی مووینی کی جذباتیت بھی شامل ہے لیکن ان سب کے باوجود جونہی یہ سلسلہ ختم ہوتاہے موسی مووینی جنسی عمل کے طورپر مادئہ منویہ کے اخراج میں کسی کی پروا کیے بغیر مصروف ہو جاتا ہے،جنسی عمل کی اس بے تکلفی کوبھی ناول نگار نے مغربی نظریہ کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جہاں جنسی عمل بھی انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ اسی لیے جس طرح دیگر ضروریات کی تکمیل میں تکلف کو روا نہیں رکھا جاتا، اسی طرح جنسی عمل میں بھی مغربی نظریہ تکلف کا قائل نہیں۔

مشرقی مواد کو مغربی انداز سے آمیز کر کے ناول کو متشکل کرنے کے ضمن میں ناول نگار نے جس تکنیک کو پیش نظر رکھا ہے، وہ فکشن کی ما بعد جدید تکنیک کے ذیل میں آتی ہے تاہم یہاں پر بھی کئی جگہوں پر انحراف کا رویہ اختیار کیا گیا ہے، مثلاً ناول بیانیہ کی تکنیک میں ہے لیکن اس کا اختتام ایک طویل خط پر ہوتا ہے،خط کا آخری جملہ ہی ناول کا آخری جملہ قرار پاتا ہے،جبکہ خط کی تکنیک مابعد جدید میں خود ایک الگ تکنیک ہے لیکن ناول نگارنے ایک طویل خط کو بیانیہ سے اس طرح آمیز کیا ہے کہ دو مختلف تکنیک کے اتحاد سے جدت کی طرف قدم بڑھانے کی آہٹ صاف طور پر سنائی پڑتی ہے،اسی طرح بیانیہ میں بعض مرتبہ چند تاریخی جملوں کو بھی جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس طرح کہ بیانیہ باقاعدہ تکنیکی سطح پر تاریخی بیانیہ محسوس نہیں ہوتا بلکہ یہاں جادوئی حقیقت نگاری کا انداز محسوس ہوتا ہے،ـجس میں ماورائے حقیقت عناصر متن کا اس طرح حصہ بنتے ہیں کہ قاری واقعات میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا،ناول میں طنزخفی (irony) کے پہلو بہت نمایاں ہیں،یوں تو پورا ناول ہی قطعیت اور الفاظ کی کفایت شعاری کا عمدہ نمونہ ہے تاہم طنزیہ جملے بہت کم الفاظ میں بہت ہی لطیف اور باریک طنز کو ناو ل کے بڑے کینوس پر ابھارتے نظر آتے ہیں،طنزیہ جملوں کے ذیل میں ’’اس کہانی کے بہت سے رخ تھے اور بہت مختلف،سخت گیر آرا بھی لیکن اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ چھوٹی لڑکیوں کے بڑے پستان ہونے کا سبب یہی بم ہیں ۔‘‘ (۱۹)

جیسے جملے منٹو کے انداز طنز کی ہو بہو تصویر نظر آتے ہیں،اس لیے موسی مووینی کے کردار کی تخلیق اور مذکورہ طنزیہ جملوں کی ترتیب سے راقم اس نتیجہ پر بھی پہنچتا ہے کہ ممکن ہے ناول نگار کے مطالعے میں ڈپٹی نذیر احمد اور منٹو جیسے اردو ادب کے فنکار رہے ہوں جس کی وجہ سے غیر شعوری طور پردونوں کے انداز کی جھلک یہاں نمایاں ہوئی ہو،ضروری نہیں اس بات سے اتفاق کیا جا سکے لیکن اس پہلو پر اس زاویے سے ضرور غور کیا جا سکتا ہے کہ بڑے فنکار کے تنوع میں صرف ترقی یافتہ زبانوں کے ادب ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ ان کی نگاہیں بظاہر غیر ترقی یافتہ ادب کے مفید سرمایوں پر بھی ہوتی ہیں اور چونکہ ناول نگار عبد الرزاق گرناہ نے اپنے ناول میں مشرقی مواد کو مغربی انداز میں گوندھا ہے تو قوی امکان ہے کہ مشرقی سرمایوں کے ضمن میں اردو کے یہ فنکار بھی ان کے سرمایہ مطالعے میں شامل رہے ہوں۔

بہر کیف! ناول کی مجموعی قرأت سے جو باتیں نکل کر سامنے آتی ہیں وہ یہ کہ اس میں مواد مشرقی ہے اور انداز مغربی،اختصار کو اس کے تمام محاسن کے ساتھ ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے،قطعیت،برجستگی اور بے ساختگی جیسی چیزیں ناول کے متن میں مکمل طور پر شامل ہیں،ساتھ ہی الفاظ کی کفایت شعاری اور جملوں کے گٹھاؤ کا اس درجہ لحاظ رکھا گیا ہے کہ دوران قرأت ایسا محسوس ہوتا ہے، اگر اس طرح کے ناول کی تخلیق ہمارے ادب میں ہوتی تو شاید ایک سو ساٹھ صفحات کے بجائے ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ناول ہوتا البتہ جا بجا بظاہر فحش جملے کے استعمال پر بحث ہو سکتی ہے کہ آیا اس کی ادب میں کتنی گنجائش ہے؟ یا پھر صرف مشرقی ادب میں ہی اس طرح کی چیزیں فحش سمجھی جاتی ہیں مغربی انداز میں یہ چیزیں فنی محاسن پر اثر انداز نہیں ہوتیں؟ ناول کے متن پر گفتگو کے ساتھ ساتھ ترجمہ پر بھی روشنی ڈالنا نا گزیر ہو جاتا ہے،جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ،یاد مفارقت،معروف فکشن نگار اور مترجم سعید نقوی کے ذریعہ اردو کے قالب میں ڈھلا ہے،جو ایک ماہر تخلیق کار ہونے کے ساتھ منجھے ہوئے ترجمہ نگار بھی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ دیگر تراجم کی طرح ان کا یہ ترجمہ بھی کامیاب نہیں ،کامیاب ترین ہے،اس میں تخلیقیت کے مدارج کو ترجمہ نگاری کے تمام نشیب و فراز کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترجمہ کے مراحل سے گزارنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کی وجہ سے رواں ترجمانی کے بجائے سلیس ترجمہ کا ہی احساس ہوتا ہے،ناول میں ما بعد جدید تکنیک کے پیش نظر جن اصطلاحات کو وضع کرنے کی کوشش کی گئی ہے یا پھر جملوں کی ساخت میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں مترجم نے ایسے مقامات پرتخلیقی تجربہ سے کام لے کر اصطلاحات اور جملوں کو اردو کے سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے، جہاں اصل متن کی طرح کسی قدر ذہن پر زور ڈالنے کی ضرورت تو پڑتی ہے لیکن بعض دیگر تراجم کی طرح حد درجہ پیچیدگی کا احساس نہیں ہوتا ہے ،انہی وجوہ سے ناول کی قرات ایک خاص ٹھہرائو اور سوچ کی دھیمی رفتار کے ساتھ اسی طرح ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جس طرح اصل متن کی ،نتیجتاً یہ ترجمہ اصل متن تو نہیں البتہ اس سے قریب تر ضرور محسوس ہوتا ہے، جس میں مترجم کے تخلیقی تجربے، معاصر فکشن کی تکنیک پر گہری نظر اورترجمہ نگاری کے میدان میں طویل اور کامیاب سفر طے کرنے کو خاص دخل ہے۔

خلاصہ یہ کہ جس طرح عبدالرزاق گرناہ نےthe memory of departure کی شکل میں شاہکار پیش کیا ہے اسی طرح سعید نقوی نے اس کو،یاد مفارقت، کا shape دے کرترجمہ کے تمام dimensions کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایک زبردست مثال قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔

rrr

 

حواشی:

)          برگس یوسا،نوجوان ناول نگار کے نام ایک خط،ترجمہ:عمر میمن،کراچی شہر زاد،۲۰۱۰،ص:۴۸

)          ایضاً، ص:۴۷

)          عبدالرزاق گرناہ،یادمفارقت،ترجمہ: سعید نقوی، مشتملہ اثبات ۳۳دسمبر ۲۰۲۱،ممبئی اثبات پبلیکیشنز، ص:۲۲

)          ایضاً،ص:۲۶

)          ایضاً،ص:۲۸

)          ایضاً، ص:۳۶-۳۷

)          ایضاً، ص:۳۹

)          خالد جاوید،ناول اور ہم (مضمون) مشتملہ،نیا ناول نیا تناظر (اکیسویں صدی میں) مرتبین: کوثر مظہری، امتیاز علیمی،دہلی مظہر فاؤنڈیشن۲۰۲۱ ء،ص:۱۹

)          محمد حسن،ادبیات شناسی،نئی دہلی ترقی اردو بیورو ۲۰۰۰ء ،ص:۱۱۵

)          عبدالرزاق گرناہ،یاد مفارقت،ترجمہ: سعید نقوی، مشتملہ اثبات ۳۳ دسمبر ۲۰۲۱ ءممبئی، اثبات پبلیکیشنز، ص:۴۴

(۱۰)       ایضاً ،ص:۵۸

(۱۱)       ایضاً،ص:۴۶

(۱۲)       ایضاً، ص:۱۴۶

(۱۳)       ایضاً، ص:۱۵۶

(۱۴)       میلان کنڈیرا،ناول کا فن،ترجمہ: ارشد وحید،ممبئی اثبات پبلیکیشنز،مئی۲۰۲۱ء ص:۲۱

(۱۶)       عبدالرزاق گرناہ،یاد مفارقت،ترجمہ: سعید نقوی، مشتملہ اثبات ۳۳ دسمبر ۲۰۲۱ ممبئی اثبات پبلیکیشنز، ص:۴۸-۸۵

(۱۷)       ایضاً، ص:۱۴۵

(۱۸)       ایضاً، ص:۸۷

۹)       ایضاً،ص:۵۶

 

———————————

 

B-36/6، اوکھلا وہار، جامعہ نگر، نئی دہلی-110025

موبائل : 8800514745

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...