Sunday, June 4, 2023

فلسفیانہ شاعری

 

فلسفیانہ شاعری

علامہ شبلی نعمانی

فارسی شاعری میں فلسفیانہ خیالات کا جس قدر ذخیرہ ہے، کسی زبان میں نہیں، لیکن پہلے یہ سمجھ لیناچاہیے کہ فلسفہ کیا چیز ہے؟ کتب درسیہ میں طبعیات، عنصریات، فلکیات، الٰہیات ان سب کے مجموعہ کانام فلسفہ ہے، لیکن طبعیات اور عنصریات درحقیقت سائنس یعنی تجربی علوم میں داخل ہیں، فلکیات کابڑا حصہ تجربیات اور مشاہدات پر مبنی ہے، اس لیے وہ بھی فلسفہ کی حد سے خارج ہے۔ الٰہیات بیشک فلسفہ ہے لیکن اس کا اب ایک خاص نام پڑ گیا ہے اور وہ ایک مستقل فن بن گیا ہے۔ علم الاخلاق، سیاست اور تمدن بھی فلسفۂ عملی میں داخل ہیں، لیکن یہ سب بھی الگ الگ مستقل نام سے موسوم ہیں اس لیے یہاں فلسفہ سےمراد وہ فلسفیانہ مسائل اور خیالات ہیں جو کسی الگ نام سے موسوم نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ عالم میں جو کچھ موجود ہے بلکہ کاروبار زندگی کی روز مرہ باتیں بھی اگر نگاہِ حقیقت سے دیکھی جائیں تو سب فلسفہ ہیں:

ہر کس نہ شناسندۂ راز است و گر نہ

اینہا ہمہ راز است کہ مفہوم عوام است

یہ بات خاص طرح پر ملحوظ رکھنی چاہیے کہ فلسفہ کے وہ مسائل جو خشک اور وقت طلب ہیں،شاعری کی حد سے باہر ہیں، اگر ان کو کوئی شخص موزوں کردے تو وہ نظم ہوگی،شعر نہ ہوگا۔ اسی طرح فلسفہ کے عام مسائل بھی جب تک شاعرانہ طرز میں ادانہ کیے جائیں شاعری کی حد میں نہیں آسکتے، اس لیے اس موقع پر ہم کو صرف ان فلسفیانہ مسائل سے غرض ہے،جو شاعرانہ اندازمیں ادا کیے گئے ہیں۔

فارسی شاعری میں فلسفہ کاجو سرمایہ ہے اس کے حسب ذیل حصے ہیں۔

تصوف:الٰہیات و بنوات، یہ مستقل فلسفہ ہے اس میںمعتدبہ حصہ یعنی ثبوت باری، وحدتِ باری۔ معاد وغیرہ مسائل،سوانح مولاناروم میں تفصیل سےلکھے جاچکےہیں۔

اخلاق: یعنی مارل فلاسفی،یہ بھی ایک مستقل حصہ ہے جو اس سے پہلے گزر چکا، ان کے علاوہ جو باقی رہتا ہے اس موقع پر اسی سے بحث ہے۔

شاعری میں فلسفہ تصوف کے راستہ سے آیا،چونکہ اکثر تصوف کی سرحد فلسفہ سے ملتی ہے اس لیے صوفی شعرا فلسفہ کےمسائل بھی ادا کیاکرتےتھے۔ امام غزالی کی بدولت فلسفہ کو عام رواج ہوا،صوفیا میں اکثر علمامثلاً مولانا روم،سعدی،سنائی نے صوفی ہونے سے پہلے باقاعدہ فلسفہ کی تعلیم پائی تھی۔ صوفی ہونے کےبعد فلسفیانہ خیالات نے قالب بدل لیا اور تصوف کے پیرایہ میں ادا ہوئے، چنانچہ مولانا روم کی مثنوی میں سیکڑوں مسائل ہیں جو خالص فلسفہ کےمسائل ہیں۔

سب سےپہلےناصر خسرونے فلسفیانہ خیالات کو شاعری میں داخل کیا، وہ فرقہ اسماعیلیہ میں سے تھاجو اس بات کے قائل ہیں کہ شریعت کے دو رخ ہیں، ظاہر، باطن۔ باطن صرف امام وقت سمجھ سکتا ہے اور وہی اصلی مقصود ہے۔ اس فرقہ کادستور تھا کہ جب کسی کو اپنے طریقہ میں لاناچاہتےتھے تو قرآن اور حدیث کےمنصوصات اور احکام کےمتعلق اس کے دل میں شکوک پیدا کرتےتھے۔ مثلاً یہ کہ روزے سےکیا فائدہ؟ غسل جنابت کے کیا معنی؟ حجر اسود کو چومنا اور رمیِ جمار کرنا بظاہر بے فائدہ ہے ۔ جب یہ شبہے دل میں جگہ پکڑلیتے تھے اور وہ تسکین چاہتاتھا تو کہتے تھے کہ رمز کی باتیںہیں،ان کو امام وقت کے سوا کوئی نہیںجانتا۔ اما م کےہاتھ پر بیعت کی جائے تو یہ مسائل حل ہوںگے۔ ناصر خسروؔ کی شاعری کا ایک بڑا عنصر اسی قسم کےخیالات ہیں، وہ افلاک اور ستاروں کے قدیم ہونے کا قائل تھا اور ستاروں کو €ذی روح اور مدبر عالم مانتا تھا۔ یہ باتیں کثرت سے اس نے بیان کیں۔

ناصر خسرو کا دیوان چھپ گیا ہے اگرچہ اس میں فلسفہ کے بہت سے مسائل ہیں لیکن ہم نے اس لیے اس کے اشعار نقل نہیں کیے کہ اس کا انداز بیان شاعرانہ نہیں، ناصر کے بعد نظامی نے فلسفیانہ شاعری کو ترقی دی۔ انھوں نے سکندر نامہ بحری میں حکمائے یونان کے علمی مباحثے تفصیل کے ساتھ لکھے ہیں۔ یہ تمام فلسفیانہ مسائل ہیں اور اس خوبی سے ان کو ادا کیا کہ ایک طرف شاعرانہ طرز ادا ہاتھ سے جانے نہیں پایا دوسری طرف اکثر فلسفیانہ اصطلاحیں جو عربی زبان کے ساتھ مخصوص ہوگئی تھیں فارسی میں آگئیں۔ سکندر کے دربار میں ابتدائے آفرینش کے مسئلہ پر بحث ہوئی تھی، یعنی سلسلۂ کائنات میں سب سے پہلے کیا چیز پیدا ہوئی پھر اور چیزیں کیونکر اور کس ترتیب سے وجود میں آئیں، نظامی نے اس معرکہ کی پوری تفصیل لکھی ہے:

بہ فرمانِ دہی شاہِ فیروز بخت

یکے روز بر شد بہ فیروزہ تخت

فیروز بخت بادشاہ ایک دن تخت پر بیٹھا۔

ازاں فیلسوفان گزیں کرد ہفت

کہ بر خاطرِ کس خطائے نہ رفت

حکما میں سے سات کو منتخب کیا ۔ یہ وہ حکما تھے جنھوں نے کبھی غلطی نہیں کی تھی۔

ارسطوؔ کہ بُد مملکت را وزیر

بلیناسؔ برنا و بقراطؔ پیر

ارسطو کو جو سلطنت کا وزیر تھا اور نوجوان بلیناس کو اور بڈھے بقراط کو۔

ہماں ہرمس فرخ نیک رائے

کہ برہفتمیں آسمان کرد جائے

اور ہرمس نیک رائے کو جس کی جگہ ساتویں آسمان پر تھی۔

فلاطون ووالیس و فرفوریوس

کہ روح القدس کرد شانِ دستبوس

فلاطون، والیس اور فرفوریوس کو جس کا ہاتھ روح القدوس چومتے تھے۔

دل شہ وراں مجلس تنگ بار

کہ ابرو فراخی درآمد بہ کار

بادشاہ کا دل اس مجلس خاص میں نہایت فراخ حوصلگی سے مصروف کار ہوا۔

بہ دانندگان ، راز بکشاد و گفت

کہ تا کے بود راز مادر نہفت

سکندر نے حکیموں سے کہا کہ یہ راز کب تک پوشیدہ رہے گا۔

بگوئید ہر یک نہ فرہنگِ خویش

کہ ایں کار ز آغاز چوں بود پیش

سب کو اپنے خیال کے مطابق بنانا چاہیے کہ یہ عالم کیونکر پیدا ہوا؟

بہ تقدیرِ حکم جہاں آفریں

نخست آسمان کردہ شد یا زمین

خدا کے حکم سے پہلے آسمان پیدا ہوا یا زمین۔

بگفتند یکسر برائے سخن

کارسطو بود پیشوائے سخن

سب نے اس پر اتفاق کیا کہ ارسطو سب سے پہلے تقریر کرے۔

ارسطو روشن دلِ ہوشمند

ثنا گفت بر تاجدار بکند

ارسطو نے بادشاہ کو دعا دی اور کہا۔

چوفرمانِ چنیں آمد از شہریار

کز آغاز ہستی نمایم شمار

کہ حضور کے حکم کے مطابق میں ابتدا سے عالم کی کیفیت بیان کرتا ہوں۔

نخسیتن یکے جنبشے بود فرد

نہ جنید چندانکہ جنبش دو کرد

ابتدا میں صرف ایک حرکت تھی یہ حرکتہ دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی

چوآں ہر دو جنبش بہ یکجا فتاد

ز ہر جنبشے جنبشے نو بزاد

ان دو حرکتوں کے ملنے سے نئی حرکتیں پیدا ہوئیں۔

نظامیؔ کے بعد فلسفیانہ خیالات عام ہوگئے، لیکن تاتار اور تیمور کے حملوں کی وجہ سے تین سو برس تک ایران میں امن و امان نصیب نہ ہوسکا۔ اس لیے فلسفیانہ شاعری کی رفتار رک گئی۔ صفویہ کا دور آیا تو گھر گھر فلسفہ پھیل گیا اور اب گو فلسفہ کی حیثیت سے کسی نے شاعری نہیں کی لیکن اکثر شعرا جو کہتے تھے فلسفیانہ رنگ میں ہوتا تھا۔ خصوصاً سحابی، نظیری، جلال، اسیر کے کلام میں ہر جگہ فلسفہ کا رنگ جھلکتا ہے ۔فلسفیانہ الفاظ نہایت کثرت سے زبان میں داخل ہوگئے جن کو اگر جمع کیا جائے تو فلسفہ کا ایک مختصر سا لغت ہوجائے گا۔ مثلاً:

گر ببازیچہ شوم ملزم اربابِ کلام

خندۂ جوہر فرد است دلیل و تقسیم

ممکن بود کہ ہستی واجب فنا شود

دیں ممتنع کہ عشق تو منفک زما شود

اے آنکہ جزء لایتجزیٰ اوہان تست

طولے کہ ہیچ عرض ندارد میان تست

زیں سخن جوہر فعال برآشفت و بگفت

کاے تُنک بہرہ ز فہم رصد علم و عمل

بیم آں بود ز خاصیت یکتائی او

کہ ہیولیٰ نہ پذیر و صور مستقبل

اب ہم عام فلسفیانہ خیالات، مستقل عنوانوں کے €ذیل میں لکھتے ہیں۔اجتہاد کے لیے پہلے تقلید کرنی چاہیے:

توفیق رقیق اہل تصدیق بود

زندیق دریں طریق صدیق بود

گر راز مرا نہ دانی انکار مکن

تقلید کن آں قدر کہ تحقیق شود

ہر انسان مادۂ قابل رکھتا ہے:

عالم درد است و ہم طبیبے دارد

یعنی کہ محبت جیبے دارد

کس نیست کہ از عشق و رونورے نیست

ہر ذرہ و خورشید نصیبے دارد

عاشق کا ناز بھی معشوق کی وجہ سے ہے:

معشوق بہ عاشق چو نظر باز کند

عاشق بہماں شیوہ ادا ساز کند

ایں ترکِ نیاز من بہ آواز من نیست

آئینہ بہ حسن او بہ او ناز کند

سچی دوستی کا اثر:

اظہار محبت آیۂ محبوبی است

ہر کس گفت از توام تراز خود کرد

جس نے تم سے کہا کہ میں تمہارا ہوں، اس نے تم ہی کو اپنا بنا لیا۔

رہنما بھی نابلد ہیں:

گفتم کہ مگر قاضی و مفتی سند اند

در راہ طریقت و حقیقت بلد اند

چوں برسرِ راہ آمدم دانستم

کین ہم سفران ہمہ چوں من نابلند اند

 

جز فکر خدا مجوبہ عالمِ دیگر

شادی دگر است از وے و غمِ دیگر

ہمچو کوران بہ بیشۂ سرگردان

ایں خلق خدا گم اندر در ہمدیگر

 

در زیر فلک اہل غرورے چند اند

از زندہ غافل و دودے چند اند

ہر چند نگاہ مے کنم مے بینم

کورے چندے بہ طوف کورے چند اند

شکایت بے فائدہ ہے:

آں کو یاراست، ساقی بزم وجود

آں کو غیر است فانی و دور و فزود

ایں نالہ و زارئ کہ بعضے دارند

بایار چہ حاجت است باغیرچہ سود

خدا پرستوں کی قسمیں:

خلق خدا کہ خدمت داوار مے کنند

ہستند بر سہ قسم کہ ایں کار مے کنند

قسمے شد انداز پے جنت خدا پرست

ویں رسم و عادتے است کہ تجار مے کنند

تو مے دگر کنند پرستش ز بیم او

ویں کا بندگان است کہ احرار مے کنند

جمعے نظر ازیں دو جہت قطع کردہ اند

برکار ہر دو طائفہ انکار مے کنند

چوں غیر خویش مرکز ہستی نیا فتند

برگرد خویش در چو پر کار مے کنند

ایں است راہ حق کہ سیم فرقہ مے روند

سیر و سلوک راہ بہ ہنجار مے کنند

مذہبی جھگڑوں کی اصل دنیوی اغراض ہوتے ہیں: مذہبی نزاعیں جو لوگوں میں برپا رہتی ہیں اور جن کی وجہ سے دنیا میں ہزاروں خونریزیاں وجودمیں آتی ہیں ، زیادہ غور سے دیکھا جائے تو ان کی تہ میں دنیوی خود غرضیاں پوشیدہ ہوتی ہیں جن کے حاصل کرنے کے لیے مذہب کو وسیلہ بنایا جاتا ہے۔ سلطان محمود نے ہندوستان پر جو جملے کیے وہ کشورستانی کی حوصلہ مندیاں تھیں، لیکن اُن کا نام جہاد اس لیے رکھ لیا جاتا کہ اس سے افغانوں کا خون زیادہ گرم ہوجاتا تھا۔ مولوی جو ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں، بظاہر مذہبی خیال سے کہتے ہیں، لیکن تہ میں خود پرستی اور خود غرضی ہوتی ہے ۔ کسی دنیوی مقصد کے لیے دو صاحبوں میں رنجش ہوئی، وہی مذہبی اختلاف اور نزاع بن گئی، بالآخر اس نے تکفیر کا لباس پہن لیا:

ہر فرقہ بہم برسرِ دنیا در جنگ

آوردہ بہانہ دین و آئین ہارا

حکیم کو دنیا اور دین کسی سے غرض نہیں:

بادنیا و دین کار ندارد عاشق

مستی و خمار در شراب حق نیست

اس بنا پر دین و دنیا کو مستی اور خمار سے تشبیہ دی جاسکتی ہے، شاعر کہتا ہے کہ عارف دنیا اور دین دونوں سے الگ ہے۔ کیونکہ خدا کی شراب مستی اور خمار دونوں سے پاک ہے۔اس میں ایک دقیق نکتہ یہ ہے کہ انسان جب زیادہ دینداری اور تقدس اختیار کرتا ہے تو اس کی مقبولیت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور بالآخر مقتدائی کے عالم میں مجبوراً اس کو ریا وغیرہ کا مرتکب ہونا پڑتا ہے، جو دنیا طلبی کے نتائج ہیں۔ اس لیے دین گویا مستی ہے جس کے بعد خمار بھی ضرور پیدا ہوگا۔

خود غرضی نامقبولیت کا سبب ہے:

جو کام بظاہر نفع عام کے لیے کیا جاتا ہے گو کتنا ہی مفید ہو لیکن اس کی جھلک بھی پائی جائے کہ دراصل خود غرضی کے لیے کیا گیا ہے تو پھر اس میں اثر نہیں رہتا:

چیزے ز دعابہ نہ بود انسان را

امارلب گدا نہ خواہند آن را

یعنی لوگ دعا کی بڑی قدر کرتے ہیں اور عام لوگوں سے اپنے حق میں دعا کے طالب ہوتے ہیں، لیکن فقیر اور سائل جو لوگوں کو دعائیں دیتے ہیں، اس کی کوئی قدر نہیں کرتا۔ کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ سائلوں کی دعا، دعا نہیں بلکہ سوال اور سلام روستائی ہے۔

فقرا اور دولت مندی کی تحقیر:انسان اکثر اس بات کو محسوس نہیں کرتا کہ وہ کسی چیز کی عیب جوئی دراصل کس وجہ سے کرتا ہے، امرا عموماً افلاس اور فقر کی تحقیر کرتے ہیں اور اس بنا پر فقرا کو ذلیل سمجھتے ہیں۔

فقرا دولت کی برائی بیان کرتے ہیں اور اہل دولت پر نکتہ چینی کرتے ہیں، لیکن دراصل دونوں کو جس چیز نے ایک دوسرے کی عیب جوئی پر آمادہ کیا ہے وہ اور چیزہے، جس کی ان کو خبر نہیں۔ امرا کی ناتوان بینی تو ظاہر ہے کہ نخوت اور غرور کی وجہ سے ہے، لیکن فقرا دولت کو حقیر سمجھتے ہیں اور ان کو زعم ہوتا ہے کہ بلند ہمتی اور عالی حوصلگی کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں۔ اصل یہ ہے کہ انسان کو جو چیز حاصل نہیں ہوتی، اس پر حسد کرتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ امرا کو جو عیش و عشرت، جاہ و حشم، کروفر حاصل ہے فقرا کو نصیب نہیں ہوسکتا۔ اس لیے طبیعت خود بخود آمادہ ہوجاتی ہے کہ ان چیزوں کو حقیر ثابت کرے۔ تاکہ اس کےنہ حاصل ہونے کا رنج نہ ہو۔ سحابی نے اس نکتہ کو ایک رباعی میں ادا کیا ہے، جس کا دوسرا شعر یہ ہے:

القصہ کہ اغراض اگربشناسی

بر فقر ز کبر و برغنا از حسد است

اخلاق رذیلہ کی مصلحت:بعض لوگوںکو شبہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے انسان میں غرور،کبر، بغض،غصہ، شہوت، حرص وغیرہ اخلاق رذیلہ کیوں پیدا کیے،لیکن یہ تمام اخلاق، انسان کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری ہیں،اگر انسان میں کینہ اور غصہ نہ ہوتا تو دشمنوں کامقابلہ کیوں کرتا اگر اس میں حرص اور دنیا طلبی نہ ہوتی تو بڑے بڑے کام اس کے ہاتھ سے نہ انجام پاتے۔ یہ اور بات ہے کہ انسان بعض اوقات ان قوتوں کااستعمال صحیح موقعوں پر نہیں کرتا۔ اس لیے حضرات صوفیا ان قوتوں کے مٹانے کی کوشش نہیں کرتے،بلکہ ان کے صحیح استعمال کی ہدایت کرتے ہیں:

ہر نفس بدے نیک شود عرفان را

گربشناسی حکیم صاحب شان را

سگ اہل محلہ رابود دربانش

ہر چند کہ و زد خوش ندارندآن را

یعنی محلہ والوں کو کتے کی بہت ضرورت ہے۔ گو چور کتے کو بالکل پسند نہیں کرتے۔

عوام کےلیے آزادی مفید نہیں:آزادی نہایت عمدہ چیز ہے،لیکن ہر شخص اس کے استعمال کےقابل نہیں۔ نااہل اگرآزادی کو کام میں لائیں تو ہمیشہ نقصان ہوگا:

ایں خلق ہواپرست محکوم خوش اند

چوں طفل کہ ضائع است اگربے پدراست

یعنی ہوا پرستوں کامحکوم اور زیر اثر رہنا ان کے حق میں مفید ہے،جس طرح چھوٹا سابچہ باپ کا ساتھ چھوڑ دے تو گم ہوجاتا ہے۔

ایک کا فائدہ اوردوسرے کا نقصان ہے:کیاعجیب بات ہے جس چیز کو ہم خوشی سمجھتے ہیں وہ حقیقت میںکسی اور شخص کا غم ہے۔ سکندر اور اس کے مداح خوش ہیں کہ اس نے دنیا فتح کی ۔ ممالک مسخر کیے۔ عالم پر سکہ بٹھایا، لیکن یہی واقعہ دوسرے لفظوں میں یوں ہے کہ بڑی بڑی حکومتیں تباہ ہوگئیں۔ خاندان کیان کا تاج و تخت لٹ گیا۔ بڑےبڑے تاجدار خاک نشین ہوگئے۔ عرب شاعر نے اسی بنا پر کہا تھا۔ فوائد قوم عند قوم مصائب۔

ایرانی شعرا نے اس نکتہ کو زیادہ لطافت سے اداکیا:

زمانہ گلشن عیشِ کرابہ یغما داد

کہ گل بدامنِ مادستہ دستہ می آید

یعنی ہمارے دامن میں گلدستہ کاجو ڈھیر لگ رہا ہے تو کسی کا باغ عیش برباد ہوا ہے۔

عیش ایںباغ باندازہ یک تنگدل است

کاش گل غنچہ شود تا دل ما بکشاید

اس باغ کاعیش ایک تنگ دل کے لیے کافی ہوسکتا ہے۔ کاش پھول کلی بن جاتا کہ ہمارا دل کھلتا۔

خواص مقبول عام نہیں ہوسکتے:یہ عجیب بات ہے کہ جو شخص جس قدرزیادہ فلسفی زیادہ محقق زیادہ نکتہ داں ہوگا اسی قدرعوام میں کم مقبول ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک محقق جو بات کہتا ہے عوام کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ اس لیے وہ اس کی قدر نہیں کرسکتے۔ بے شبہ ایسی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں  کہ بڑے بڑے مجدد اور رفارمر مقبول عام بھی ہوئے لیکن ان کے مقبول ہونے کی وجہ ان کا اجتہاد اور تحقیق نہ تھی بلکہ ان میں کچھ اور اخلاقی اوصاف موجود تھے، جنھوں نے ان کو مقبول عام بنایا۔ ورنہ کمال کی اصلی شان یہی ہے کہ عام لوگوں تک بار نہ پائے ابن یمین کہتے ہیں:

ہنر مند باشد بسانِ گہر

کہ ہرکس مر او را خریدار نیست

ہنر مند باید کہ باشد چو فیل

کہ او لائقِ اہل بازار نیست

ہنر مند کی مثال ہاتھی کی سی ہے کہ وہ بازار میں فروخت نہیںہوتی۔

مسئلہ جبر:جو لوگ اختیار کے قائل ہیں ان کا منتہائے استدلال یہ ہے کہ انسان کو خدا نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ دو متناقض کاموں میں سے جس کام کو چاہے اختیار کرے۔ اس لیے انسان کو ارادہ اور اختیار حاصل ہے اور اس لیے وہ مجبور نہیں کہا جاسکتا، لیکن اس کی تہہ میں بھی غلطی ہے۔ بے شبہ خدا نے انسان کو ارادہ اور قدرت عطا کی ہے لیکن اس ارادہ پر بھی وہ مجبور ہے۔ یعنی جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو ایسے اسباب جمع ہوتے ہیں کہ وہ اس کام کے ارادہ پر مجبور ہوتا ہے۔ لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ ہمارا نفس بدہم کو برے کام کا حکم دیتا ہے، نفس بد کا نام نفس امارہ رکھا ہے لیکن خود یہ نفس امارہ کس کا مامور ہے:

ہر قرعہ کہ زو حکیم دربارۂ ما

کردیم و نہ بود غیر آں چارۂ ما

بے حکمش نیست ہر چہ سرزد از ما

مامورۂ اوست نفس امّارہ ما

اکثر حکما اس مسئلہ کے قائل ہیں۔ یعنی انسان کی فطرت ہی ایسی ہے کہ اس سے گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ ابلیس اور شیطان کوئی الگ چیز نہیں۔ ایک شاعر نہایت لطیف پیرایہ میں اس کو ادا کرتا ہے:

ابلیس چو در آدم و حوّا انگریست

بنشست و بہ ہای ہای بر خود بگریست

و آنکہ بزبان حال باآدم گفت

ابلیس تو من بگو کہ ابلیسم کیست

یعنی ابلیس نے جب آدم اور حوّا کو دیکھا تو بیٹھ کر اپنی حالت پر خوب رویا پھر زبانِ حال سے بولا کہ تمہارا ابلیس تو میں ہوں۔ میرا ابلیس کون ہے۔

عالم میں شر نہیں ہے:انسان جب واقعات عالم پر نظر ڈالتا ہے تو اس کو شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا بنانے والا کوئی حکیم، عادل اور مدبر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ بہت سی چیزیں بیکار اوربے مصرف نظر آتی ہیں۔ بہت سی چیزیں صاف نظر آتی ہیں کہ مضر اور نقصان رساں ہیں۔ شیر، بھیڑیے، سانپ، بچھو، بجز اس کے کہ لوگوں کو نقصان پہنچائیں اور کس کام کے ہیں؟ سیلاب، زلزلے، پانی اور ہوا کے طوفان ملک کے ملک برباد کردیتے ہیں۔ جس سے نقصان کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، لیکن یہ شبہ صحیح نہیں عالم ایک نہایت وسیع اور بے پایاں سلسلۂ موجودات کا نام ہے اس میں انسان کے دائرۂ علم میں جو حصہ آیا ہے وہ اتنا بھی نہیں جتنا سمندر میں سے ایک قطرہ ایک قطرے کی حالت دیکھ کر کوئی شخص سمندر کے فوائد اور نقصانات پر کوئی رائے لگائے تو کیونکر اعتبار کے قابل ہوگی ہم ایک چیز کو اپنے لیے یا کسی گروہ کے لیے نقصان رساں سمجھتے ہیں، لیکن کل عالم صرف ہمارا نام نہیں کاروبارِ عالم میں ایک شخص یا ایک گروہ کی مصلحت ملحوظ نہیں ہوتی۔ بلکہ تمام عالم کی مجموعی حالت کا اعتبار کیا جاتا ہے ممکن ہے کہ جو چیز ہمارے لیے مضر ہے مجموعی حالت کے لحاظ سے مفید ہو:

گر جہاں از یک جہت بے فائدہ است

از جہت ہائے دگر پر عائدہ است

حسن یوسف عالمے را فائدہ

گرچہ بر اخوان عبث بد زائدہ

 

ہر کس کہ خلاص از بدو نیک خود است

اندر ہمہ حال محو شان احد است

درچشم کسے کہ احوال است از ہستی

جز آنچہ موافق مرادست بداست

ہر لحظہ دریں عالمِ افتاد و شکست

صد کس مکشم ہست و مرا ہیچ بدست

من نالہ کناں و حکمتم گوید بس

جز کامِ تو ام مصلحتے دیگر ہست

 

مادام کہ دست کس بہ ہر سودے ہست

کم راہ برد کہ غیر او بودے ہست

بر وقت مراد تو ازاں نیست فلک

تا دریا بی کہ جز تو موجودے ہست

یعنی آسمان اگر تمہارے اغراض اور مقاصد کے موافق کام نہیں کرتا تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمہارے سوا اور بھی موجودات ہیں اور ممکن ہے کہ وہ باتیں ان کے مصالح کے لحاظ سے ہوں:

گائو خر را فائدہ چہ در شکر

ہست ہر جان را مکے قوتے دگر

رہنما بھی نابلد ہیں:انسان ابتدائی حالت میں ہر شخص کی تقلید پر آمادہ ہوجاتا ہے ، لیکن جس قدر تحقیق اور تلاش بڑھتی جاتی ہے، ثابت ہوتا جاتا ہے کہ جو رہبر ہیں وہ بھی اصل حقیقت سے آشنا نہیں۔ پیش روی اور پس روی کا ایک وسیع سلسلہ نظر آتا ہے۔ بالکل ایک بھیڑ چال ہے۔ اندھے اندھوں کے پیچھے چل رہے ہیں:

چندانکہ نگاہ مے کنم مے بینم

کورے چند بطواف کورے چنداند

میں جس قدر نظر دوڑاتا ہوں معلوم ہوتا ہے کہ چند اندھے چند ا ندھوں کے پیچھے جارہے ہیں۔ پہلے خیال ہوتا ہے کہ علما، قاضی، مفتی آشنائے راز ہوںگے، لیکن اصل حقیقت سے سب نابلد ہیں:

گفتم کہ مگر قاضی و مفتی سند اند

در راہ طریقت و حقیقت بلداند

چوں برسرِ راہ آمدم دانستم

کیں ہم سفراں ہمہ چو من نابلداند

ہر گہ رہم ا فتاد بہ صحرائے محبت

دیدیم چو خود بیہدہ گردے و گذشتیم

یعنی جب میرا گزر صحرائے معرفت میں ہوا تو میں نے دیکھا کہ رہنما بھی میری ہی طرح چکر لگا رہے ہیں اس لیے میں اس کو چھوڑ کر آگے بڑھا۔

تقلید سے نجات:اکثر لوگ کسی مسئلہ یا رائے کے حسن و قبح کا معیار جمہور کو قرار دیتے ہیں۔ یعنی جو جمہور کی رائے ہو وہ صحیح ہے اور جس طرف صرف ایک دو رائیں ہوں وہ غلط ہیں لیکن نکتہ دانوں کے نزدیک حالت اس کے بالکل برعکس ہے۔ جمہور کی رائے کا کسی طرف ہوجانا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں نے خاص اپنے غور اور فکر سے کام نہیں لیا ہے۔ لوگوں کو جو کہتے سنا وہی خود بھی کہنے لگے۔ یہی بات ہے کہ ہر زمانہ میں ہر قوم میں ہر مذہب میں جو مصلح رفارمر اور بانی فن گزرے ہیں انھوں نے ہمیشہ جمہور کی مخالفت کی ہے اور درحقیقت جمہور کی مخالفت کرنا ہی اجتہاد اور تحقیق اور رفارمیشن کی دلیل ہے۔ اس نکتہ کو راقم مشہدی نے یوں ادا کیا ہے:

ز بسکہ پیروی خلق گمراہی آرد

نمے رویم برا ہے کہ کارواں رفتہ است

چونکہ خلق کی پیروی گمراہی پیدا کرتی ہے اس لیے ہم اس راستہ پر نہیں چلتے جس پر قافلہ گیا ہے۔

ابن یمین کہتے ہیں:

در جہاں ہر چہ مے کنند عوام

نزد خاصاں رسوم و عادات است

مردوں کے لیے جنگ و نزاع:اکثر لوگوں میں جن امور کے متعلق لڑائی جھگڑا اور نزاع رہی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ فلاں شخص اچھا تھا یا برا، شیعہ، سنی کے جھگڑے زیادہ تر اسی پر مبنی ہیں۔ یہاں تک کہ اس پر سیکڑوں کتابیں تصنیف ہوئیں اور ہوتی جاتی ہیں۔ نہایت افسوسناک اور عبرت انگیز لڑائیاں اس کی بدولت وجود میں آئیں۔ ہزاروں لاکھوں جانیں ضائع گئیں۔ آج بھی ہزاروں لاکھوں آدمی غیر ضروری بحث میں گرفتار ہیں۔ اسی بنا پر ایک عارف نے کہا:

سِرِّ حق کے بر تو گردد منجلی

اے گرفتارِ ابو بکر و علیؓ

ابن یمین نے اس مضمون کو شاعرانہ پیرایہ میں ادا کیا ہے:

ہر کہ بازندۂ از پے مردہ

مے کند جنگ سخت نادان است

یعنی جو شخص زندہ مردہ کے لیے جھگڑتا ہے سخت احمق ہے۔

جوہر و عرض:عالم میں دو قسم کی چیزیں ہیں۔ جوہر یعنی جو خود قائم ہیں۔ مثلاً درخت ، پہاڑ، زمین، دوسرے جو خود قائم نہیں بلکہ کسی اور چیز میں قائم ہیں۔ مثلاً خوشبو، بدبو، رنگ، ذائقہ کی یہ چیزیں خود نہیں پائی جاتیں بلکہ کسی اور چیز میں قائم ہیں۔ ان کو عرض کہتے ہیں۔ ہمارے افعال اور حرکات بھی اسی قسم میں داخل ہیں۔ اکثر حکما کے نزدیک جو ہر اصل ہے اور عرض اس کی فرع، اس مسئلہ پر بہت سی باتیں مبنی ہیں۔ مثلاً اہل مادہ کہتے ہیں کہ مادہ پر مادہ کے سوا کوئی اور چیز اثر پیدا نہیں کرسکتی اس بنا پر وہ اس بات کے قائل ہیں کہ عالم میں مادہ کے سوا اور کچھ موجود نہیں کیونکہ کوئی اور چیز موجود ہوتی تو اس کا اثر بھی ہوتا۔ادراک اور خیال جس کو ہم غیر مادی سمجھتے ہیں یا تو موجود نہیں یا ہیں تو وہ بھی اسی کی قسم ہیں۔

لیکن بعض حکما اس بات کے قائل ہیں کہ عالم یا جوہر خود چند اعراض کا مجموعہ ہے۔ چند عرض جمع ہوجاتے ہیں تو ہم ان کو جوہر کہتے ہیں۔ مولانا روم بھی قریب قریب اسی مسئلہ کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمام عالم کی علت اغراض ہیں۔ عالم اعراض کا مجموعہ ہے۔ عرض بدل کر جوہر ہوجاتا ہے:

جملہ اجزائے جہاں را بے غرض

ورنگر حاصل نہ شد جز از عرض

جملہ عالم خود عرض بودند تا

اندریں معنی بیامد ھل اتیٰ

چیست اصل و مایہ ہر پیشۂ

جز خیال و جز عرض اندیشۂ

ان اشعار کا مطلب یہ ہے کہ عالم میں جس قدر جواہر ہیں، سب عرض سے پیدا ہوئے ہیں۔ مثلاً معمار جب ایک مکان کی تعمیر کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے مکان کا نقشہ ذہن میں تصور کرتا ہے۔ یہ نقشہ کوئی مادی چیز نہیں، اس لیے جوہر بھی ہیں لیکن یہی عرض ایک محسوس اور مادی مکان کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔

عقائد میں ایک بحث یہ ہے کہ انسان کے بُرے یا بھلے افعال عرض تھے۔ وہ فنا ہوگئے۔ اب ان کا دوبارہ وجود میں آنا کیونکر ہوسکتا ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں:

ایں عرض ہا نقل شد لون دگر

حشر ہرفانی بود کون دگر

وقتِ محشر ہر عرض را صورتے ا ست

صورت ہر یک عرض را رویتے است

تامبدل گشت جوہر زیں عرض

چوں ز پرہیزے کہ زائل شد مرض

گشت پرہیز عرض جوہر بہ جہد

شد دہاں تلخ از پرہیز شہد

یہ مسئلہ آج کل کی سائنس کے بھی مطابق ہے۔ حرکتہ ایک عرض ہے۔ جو خود قائم نہیں ہوسکتی، لیکن جب کوئی چیز نہایت تیز حرکت کرتی ہےتو آگ پیدا ہوجاتی ہے۔ موجودہ سائنس کی رو سے یہ آگ کہیں اور سے نہیں آئی۔ بلکہ وہی حرکتہ بدل کر آگ ہوگئی اور چونکہ آگ ایک جوہر ہے اس سے قطعاً ثابت ہوگیا کہ عرض بدل کر جوہر ہوسکتا ہے۔

اشیا کی ہم جنسی اور انقلاب کیمیائی:تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ مرکبات میں دو قسم کے اجزا پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو زندگی اور حیات کی قابلیت رکھتے ہیں۔ یعنی اگر زندہ اجسام میں شامل ہوں تو انقلاب کیمیائی کی رو سے زندہ اجزا بن جائیں۔ مثلاً انسان یا جانور جو کچھ کھاتے ہیں ان میں سے بعض اجزا جزو بدن ہوجاتے ہیں اور زندہ اجزا بن جاتے ہیں، ان اجزا کواجزائے حیہ کہتے ہیں۔ دوسرے وہ اجزا ہوتے ہیں، جن میں زندگی اور حیوٰۃ کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ وہ زندہ اجزا سے مل کر بھی زندہ نہیں ہوسکتے۔ نہ ان میں انقلاب کیمیائی پیدا ہوسکتا ہے۔ ان کو اجزائے میت کہتے ہیں جو اجزا دوسری قسم کے اجزا سے بدل سکتے ہیں ان میں ایک قسم کا تجانس ہوتا ہے۔ یہ تجانس صورۃ نہیں ہوتا۔ بلکہ ترکیب کیمیاوی کی حیثیت سے ہوتا ہے۔

اس مسئلہ کو مولانا روم نے نہایت وضاحت سے لکھا ہے۔ وہ اس مسئلہ کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ انسان کو قوت قدسیہ کے ساتھ تجانس ہوتا ہے تو اس کے صفات بشری  ملکوتی صفات سے بدل جاتے ہیں:

ہمچو آب و نان کہ جنس ما نہ بود

گشت جنس ما اندر ما فزود

پانی اور روٹی ہماری ہم جنس نہ تھی،لیکن اب ہماری ہم جنس بن گئی۔

چوں تعلق یافت نان با بوالبشر

نان مردہ زندہ گشت و باخبر

جب روٹی نے آدمی کے سا تھ تعلق پیدا کیا تو مری ہوئی روٹی زندہ بن گئی اور جاندار ہوگئی۔

ناقص غذائے کامل:یہ اصول تمام عالم میں جاری ہے کہ ادنیٰ چیزیں اعلیٰ چیزوں کی غذا ہیں۔ مخلوقات کی ترتیب یہ کہ سب سے کم رتبہ جمادات ہیں، پھر نباتات ، پھر حیوانات، پھر انسان ان میں جو اعلیٰ ہے ادنیٰ کو غذا بناتا ہے اور اس سے اس کی زندگی قائم ہے۔ نباتات جس قدر ہیں مثلاً سبزہ پودے درخت وہ زمین کے اجزا کو چوستے ہیں اور غذا بناتے ہیں حیوانات نباتات سے بالاتر ہیں اس لیے وہ نباتات کو کھاتے ہیں انسان اس سے بھی اشرف ہے، اس لیے ان کو کھاتا ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں:

حلق بخشد خاک را لطفِ خدا

تا خورد آب و بردید صدا با

باز خاکے را بہ بخشد حلق و لب

تا گیا ہش را خورد از رطب

چوں گیاہش خورد حیواں گشت رفت

گشت حیواں لقمۂ انسان و رفت

یہ اصول صرف مادیات میں نہیں بلکہ تمام اشیا میں جاری ہے۔ ہر اعلیٰ چیز ادنیٰ کو فنا کردیتی ہے اور اس پر غالب آجاتی ہے تمام عالم اسی غالب و مغلوب کے اصول پر چل رہا ہے۔ اسی بنا پر مولانا روم فرماتے ہیں:

جملہ عالم آکِل و ماکول داں

معنوی چیزیں مثلاً مضامین، خیالات، مذاہب مختلفہ، فلسفہ ہائے گوناگوں مسائل علمی سب کا یہی حال ہے کہ اعلیٰ ادنیٰ کو فنا کردیتے ہیں۔ مولانا:

پس معانی را چو اعیاں حلق ہا است

یعنی موجودات خارجی کی طرح معانی کے بھی حلق ہیں۔

حقیقت رسی اور اس کے مدارج:انسان کو نیک و بد کی تمیز میں جو دھوکا ہوتا ہے، اس وجہ سے ہوتا ہے کہ حقیقت رسی کے مدراج مختلف ہیں۔ فرض کرو ایک مٹھائی میں زہر ہے۔ ایک شخص اس کی صورت سے سمجھ جاتا ہے کہ اس میں زہر کی آمیزش ہے، دوسرا بو سونگھ کر سمجھتا ہے، تیسرا چکھ کر، چوتھا کھاکر، پانچواں زہر کا اثر دیکھ کر چھٹا مہینوں کے بعد۔ یہی حالت نیک و بدکاموں کی ہے، بُرے کاموں کی برائی ارباب عرفان کو فوراً معلوم ہوجاتی ہے اس لیے وہ ابتدا ہی سےاس سے بچتے ہیں۔ دوسرے لوگ بدرجہ، تجربہ اور نقصانات اٹھالینے کے بعد سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ بدبخت لوگ مرتے مرتے بھی نہیں سمجھتے۔ مولانا اس نکتہ کو یوں بیان کرتے ہیں:

اے بسا شیریں کہ چوں شکر بود

لیک زہر اندر شکر مضمر بود

آنکہ زیرک تر بود بشناسدس

چوں کہ دید از دور اندر کشمکش

واں دگر بشناسدش تا بوکند

واں دگر چوں برلب و دنداں زند

واں دگر در پیش روبوئے برد

واں دگر چوں دست بنہد کرد رو

پس لبش ردش کند پیش از گلو

گرچہ نعرہ مے زند شبیطان کلوا

واں دگر را در گلو پیدا کند

واں دگر را در بدن رسوا کند

واں دگر را بعد ایّام و شہور

واں دگر را بعدِ مرگ از قعر گور

اپنی بے حقیقی:انسان جب کائنات اور مظاہر قد رت پر زیادہ غور کرتا ہے تو اس کو اپنا بے قدر اور بے حقیقت ہونا نظر آتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ بات بات میں وہ دوسری چیزوں کا محتاج ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ چیز پر بھی اس کا پورا اختیار نہیں اس کے سا تھ یہ بھی نظر آتا ہے کہ تمام چیزیں ایک قوت اعظم کے تحت میں کام کر رہی ہیں اور ایک خاص نظام قائم ہے۔ غور رسی جس قدر زیادہ بڑھتی جاتی ہے اسی قدر اپنی بے حقیقی اور قادرِ مطلق کے کمال کا یقین زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

چندانکہ دریں دائرۂ برمے گردم

نقصان خود و کمال او مے بینم

یہ سلسلہ اس قدر ترقی کرتا ہے کہ انسان اور تمام چیزوں کا وجود بالکل ہیچ معلوم ہوتا ہے اور یہ وجدان طاری ہوتا ہے کہ جو کچھ ہے وہی ایک ذات ہے باقی چیزیں اس قابل نہیں:

کہ ہستیش نام ہستی برند

یہی خیال وحدت وجود کا ابتدائی زینہ ہے جو ترقی کرکے اس درجہ تک پہنچتا ہے کہ حقیقت میں اور کوئی چیز موجد نہیں، جو کچھ ہے وہی ہے۔

ترکِ خودی سے جھگڑے مٹ جاتے ہیں:انسانوں میں جو اختلافات اور نزاعیں پائی جاتی ہیں اکثر کی بنا خودی اور خود پرستی ہے۔ وہ دشمن سے اس لیے لڑتا ہے کہ اس کے آگے سر نہیں جھکاتا۔ وہ نکتہ چینی سے اس لیے ناخوش ہوتا ہے کہ اس کے کمال پر حرف آتا ہے۔ وہ دوسرے کی اس لیے تحقیر کرتا ہے کہ اس کی عظمت ثابت ہو، اس لیے انسان اگر خودی اور شخصیت سے باز آئے تو دوست دشمن، آشنا، بیگانہ، نیک و بد سب تفرقے مٹ جائیں۔ سحابی اس نکتہ کو ادا کرتا ہے:

رفتم ز میان من و یکے شد دو جہاں

دیوار فتاد آں سوئے وایں سوئے نماند

یعنی جب میں نے خودی چھوڑ دی تو تمام دنیا ایک ہوگئی جس طرح دیواریں گرجاتی ہیں تو اس رخ اور اس رخ میں تمیز نہیں رہتی۔ اتحاد مذاہب نئی نظر سے متعلق عرفا کے نزدیک اختلاف مذاہب کوئی چیز نہیں۔ جتنے مذاہب ہیں سب برحق ہیں، سب کا مقصد ایک ہی ہے۔ تعبیر یا فہم میں غلطی ہو تو اس سے نتیجہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جب ایک ہی کو ڈھونڈتے ہیں، ایک ہی کو چاہتے ہیں، ایک ہی کے طالب ہیں تو نام کے اختلاف سے فرق نہیں پیدا ہوتا۔ ہندو بُت کو پوجتا ہے لیکن یہ سمجھ کر نہیں کہ بت خود کوئی مستقل معبود ہے بلکہ اس نیت سے کہ اس میں مطلوب حقیقی کا پرتو ہے، یہ اس کی یاد کا ذریعہ ہے اس بنا پر حضرت سلطان ابو سعید ابو الخیر فرماتے ہیں:

روئے تو بہر دیدہ کہ بینند نکو است

نام تو بہر زباں کہ گویند خوش است

ایک اور شاعر کہتا ہے:

در حیرتم کہ دشمنی کفر و دین چرا است

از یک چراغ کعبہ و بتخانہ روشن است

سحابی کہتا ہے:

حق میگوید بگوش خالص دیناں

مقصد چو منم چہ اختلاف است اینہا

ہفتاد و دو فرقہ را طلبگار یکے ا ست

سوئے دریا ست روئے ہر سیل کہ ہست

یعنی بہتروں فرقہ کا مطلوب ایک ہی ہے جس طرح جتنے سیلاب ہیں، سب دریا کی طرف جاتے ہیں۔

بڑھاپے میں ترکِ ہوس:

ابن یمین:

چوں جامۂ چرمیں شمرم صحبت ناداں

زیراکہ گراں باشد و تن گرم نہ دارد

از صحبتِ ناداں بترت، نیز بگویم

خویشے کہ توانگر شد و آزرم نہ دارد

زیں ہر دو بتر نیز شہے را کہ بعالم

باخنجر خون ریز دل نرم نہ دارد

زیں ہر سہ بتر نیز بگویم کہ چہ باشد

پیرے کہ جوانی کند و شرم نہ دارد

طرزِ ادا کی بلاغت دیکھو۔ سب سے پہلے احمق کی برائی بیان کی پھر کہا کہ احمق سے بڑھ کر وہ رشتہ دار ہے جو دولتمند ہوکر عزیزوں کی خبر نہیں لیتا اور اس سے بڑھ کر وہ بادشاہ جس کے دل میں رحم نہیں اور ان سب سے بڑھ کر بتائوں کہ بُرا کون ہے؟ پیرے کہ جوانی کند و شرم نہ دارد

بات سوچ کرکہنا چاہیے:

ابن یمین:

سختن رفتہ دگر باز نیاید بہ زباں

اوّل اندیشہ کند مرد کہ عاقل باشد

تا زمانِ دگر اندیشہ نباید کردن

کہ چراگفتم؛ و اندیشۂ باطل باشد

بُرے آدمیوں کی صحبت سے بچنا چاہیے:

بابداں کم نشیں کہ صحبت بد

گرچہ پاکی ترا پلید کند

آفتابے بہ ایں بزرگی را

ذرۂ ابر ناپدید کند

 

بشکریہ :شعرالعجم (حصہ پنجم)

شیخ ظفر محمد تاجر کتب علوم مشرقی، لاہور

مطبوعہ: مئی ۱۹۳۴ء

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...