Wednesday, May 31, 2023

ادھوری کہانی

ادھوری کہانی

جی آر سید

آپ کہاں جارہے ہیں۔؟‘‘

یہ سوال سن کر میں نے کتاب سے نظریں ہٹا کر اُدھر دیکھا۔ سامنے والی برتھ پر ایک دبلا پتلا سا نوجوان تھوڑی جھجک اور چہرے پر مصنوعی سی مسکراہٹ لیے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ مسافروں کی ہماہمی اور شور شرابے سے بچنے کے لیے میں نے کتاب کا سہارا لیا تھا۔ روسی مصنف تُرگنیف کی کہانی ’’اکتالیسواں‘‘ کا اردو ترجمہ پڑھ رہا تھا۔ وہ نوجوان کب ٹرین میں داخل ہوا اور کب میرے سامنے والی برتھ پر بیٹھ گیا پتہ ہی نہیں چلا۔ اس کے سوال سے میری یکسوئی ٹوٹی اور اس خوبصورت کہانی سے جو لطف آ رہا تھا اس میں خلل پڑا۔ میں نے چاہا کہ اس کے سوال کو ان سنا کردوں... میں جانتا تھا کہ اس کو میری منزل سے کوئی سروکار نہیں۔ اس طرح کے سوالات رسمی ہوتے ہیں اور باتوں کا سلسلہ آگے بڑھانے کے لیے بلاوجہ پوچھے جاتے ہیں۔ پھر بھی یہ سوچ کر کہ وہ مجھے مغرور نہ سمجھ لے، میں نے اس کا جواب دیا۔

’’جہاں یہ ٹرین جارہی ہے۔‘‘

                اس کے سوال پوچھنے کے بعد سے میرے جواب دینے تک کچھ لمحے تو ضرور گزرے۔ اتنی ہی دیر میں اس نے میرا اور میں نے اس کا بغور جائزہ لے لیا۔ آدمی شریف اور اچھے خاندان کا لگ رہا تھا۔ میں نے بھی اپنی انا کو بالائے طاق رکھ کر اس میں تھوڑی سی دلچسپی دکھائی۔ اگر چہ میں عام طور پر سفر میں کسی مسافر سے بات نہیں کرتا ہوں۔

’’نوجوان! تم کہاں سے آرہے ہو اور کہاں جانا ہے؟‘‘

’’سر جانا تو وہیں تک ہے جہاں آپ جا رہے ہیں، لیکن کہاں کہاں سے آرہا ہوں یہ بتانا تھوڑا مشکل ہے۔‘‘

                اس نے بڑے فلسفیانہ انداز سے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس کا یہ انداز دیکھ کر میری دلچسپی اور بڑھ گئی۔

’’کیا کہیں سروس کرتے ہو یا ابھی تعلیم جاری ہے۔؟‘‘

’’سر! تعلیم کا سلسلہ تو عمر بھر جاری رہتا ہے، لیکن میں سروس بھی کرتا ہوں اور لفظ سروس کے معنی میری ڈکشنری میں غلامی ہے۔‘‘

وہ مستقل مسکرا رہا تھا۔ میں نے سوچا عجیب خبط الحواس ہے۔ میں نے اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔ دور تک پھیلے ہوئے لہلہاتے کھیت، ہرے بھرے پیڑ پودے، بجلی اور ٹیلیفون کے کھمبے تیزی سے پیچھے کی طرف دوڑ رہے تھے۔ ڈھلتا ہوا سورج سیاہ چٹانی پہاڑیوں پر اٹکا ہوا سا دکھائی دے رہا تھا۔ ٹرین کی رفتار بہت تیز تھی اس لیے منظر بہت جلدی جلدی بدل رہے تھے۔ اس کی پھُسپھُساہٹ بھری آواز پھر ابھری۔

’’سر! آپ کہاں، میرا مطلب ہے کس یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں؟

’’پروفیسر... ؟ تمہیں کیسے پتہ کہ میں پروفیسر ہوں۔‘‘

’’سر! آپ کی پرسنالٹی اور چہرے سے لگ رہا ہے‘‘ وہ پھر مسکرایا۔

’’کیا میرے چہرے پر لکھا ہوا ہے کہ میں پروفیسر ہوں‘‘؟

’’نہیں سر! چہرے پر نہیں، ٹرین کے ڈبے پر باہر مسافروں کی لسٹ لگی ہوئی ہے۔ وہاں آپ کے نام کے آگے پروفیسر لکھا ہے‘‘

یہ سن کر میں بھی مسکرا دیا۔

’’تمہارا نام کیا ہے نوجوان۔۔؟‘‘

’’میرا نام۔۔، میرا نام راجہ ہے، لیکن راج کرنے کے بجائے غلامی کرتا ہوں۔‘‘

اس کی مسکراہٹ میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔

’’تم واقعی بہت دلچسپ انسان ہو، ۔۔ لیکن یہ بتاؤ کہ تم اپنی ملازمت سے اتنے اکتائے ہوئے ہو تو وہ ملازمت چھوڑ کر کچھ اور کیوں نہیں کر لیتے۔؟‘‘

’’کچھ اور... ہاں کرنا تو بہت کچھ چاہتا ہوں، لیکن کچھ اور کر نہیں سکتا۔‘‘

’’تو پھر جو کر رہے ہو اس کو صبر وشکر اور خوشی سے کرتے رہو۔ اس طرح کا Frustration تو انسان کو کبھی خوش رہنے نہیں دیتا۔‘‘

’’نہیں سر! میں خوش تو بہت ہوں۔ اب ایک غلامی کے ساتھ ساتھ دوسری غلامی میں بھی بندھنے جا رہا ہوں۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ کہ میری ماں مجھے شادی کی زنجیر میں باندھنے کی تیاری کر رہی ہے۔‘‘

’’ارے واہ، مبارک ہو، اس کو غلامی مت سمجھو، تمہاری زندگی کی نئی شروعات ہونے جارہی ہے تمہیں تو بہت خوش ہونا چاہیے۔‘‘

’’ہاں میں خوش تو بہت ہوں سر! کیوں کہ مجھ سے پہلے میری بہن کی شادی ہے، مجھے اپنی بہن کی شادی سے بہت زیادہ خوشی ہے۔ باپ کے گزر جانے کے بعد ماں نے ہم دونوں کو بڑی محنت اور مشکلوں سے پالا ہے۔ اب میرا فرض ہے کہ ماں اور بہن کے لیے کچھ کروں۔ اسی لیے میں ہر کام خوشی خوشی کر لیتا ہوں۔‘‘

’’بہت خوش نصیب ہیں تمہاری ماں اور بہن، جنھیں تم جیسا بیٹا اور بھائی ملا۔‘‘

اس نے میری طرف بڑے غور سے دیکھا، کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن چپ رہا۔ ٹرین کی رفتار تھوڑی کم ہوئی۔ سورج غروب ہونے لگا تھا۔ پہاڑیوں،کھیتوں اور پیڑ پودوں پر کالی چادر سی چھانے لگی تھی۔

’’شاید کوئی اسٹیشن آرہا ہے‘‘ میں نے یوں ہی کہا۔

’’جی ہاں سر! اس اسٹیشن پر کافی دیر تک ٹرین رکتی ہے، یہاں کھجور اور کاجو کا بہت اچھا حلوہ ملتا ہے۔ آپ بھی ضرور اپنے بچوں کے لیے لیتے جائیے گا۔‘‘

ٹرین آہستہ ہوکر اسٹیشن پر رک گئی۔ راجہ اپنی سیٹ سے اٹھا۔ ’’سر! آپ کے لیے کچھ لا دوں؟ مجھے تو بہت بھوک لگ رہی ہے۔ یہاں کھانا بھی بہت اچھا ملتا ہے۔ یہاں کی کچّے کیلے کی سبزی بہت مشہور ہے۔ آپ کے لیے لاؤں؟‘‘

’’نہیں میں نے ڈنر کا آرڈر دے دیا ہے۔ میں ٹرین میں ٹرین کا ہی کھانا کھاتا ہوں۔‘‘

’’ٹھیک ہے سر...، یہ میرا سامان دیکھئے گا۔ اس رُوٹ پر بہت چوریاں بھی ہوتی ہیں۔ اس میں میری بہن کی شادی کا سارا سامان ہے۔ میں کھانا کھاکے آتا ہوں...‘‘ یہ کہہ کر وہ نیچے اتر گیا۔

جب بھی کسی اسٹیشن پر ٹرین رکتی ہے تو ڈبوں کے اندر ہلچل بڑھ جاتی ہے۔ میں بڑی ذمہ داری سے اس کے سامان پر نظر رکھّے رہا۔ تھوڑی دیر بعد ٹرین چلنے لگی۔ مجھے تشویش ہوگئی کہ اس نوجوان کی ٹرین چھوٹ نہ جائے۔ میں نے کھڑکی کے باہر دیکھا۔ پلیٹ فارم پر بھیڑ تھی۔ روشنی بھی کچھ کم ہی تھی۔ وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ ٹرین نے تیز رفتار پکڑ لی تھی۔ میری گھبراہٹ اور بڑھ گئی، کافی دیر ہوگئی۔ ٹرین کی پینٹری کار سے میرا ڈنر آگیا تھا۔ بھوک کے باوجود میں نے کھانا شروع نہیں کیا تھا۔ کافی دیر کے بعد راجہ آیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں مٹھائی کے دو ڈبّے تھے۔ ایک ڈبہ اس نے اپنی برتھ کے نیچے رکھے ہوئے سوٹ کیس میں رکھا اور دوسرا میری طرف بڑھا دیا۔

’’سر یہ یہاں کا مشہور حلوہ ہے۔ میری طرف سے آپ کے لیے۔‘‘ میں نے وہ ڈبہ لیتے ہوئے پوچھا۔

’’تم کہاں رہ گئے تھے۔ مجھے فکر ہورہی تھی۔ میں تو سمجھا تمہاری ٹرین چھوٹ ہی گئی۔‘‘

’’سر مٹھائی کی دکان بہت پیچھے تھی اور وہاں بھیڑ بھی تھی۔ بھاگتے ہوئے آخری ڈبے میں چڑھ گیا تھا۔ آج تک میری ٹرین کبھی چھوٹی نہیں ہے سر، میں ٹرین پکڑ ہی لیتا ہوں ۔‘‘ وہ مسکراتا رہا، میں نے اس کو مٹھائی کے پیسے دینے چاہے لیکن اس نے لینے سے انکار کیا۔ میں نے بھی زیادہ اصرار نہیں کیا۔ میں نے اپنا کھانا شروع کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔

’’تم نے کھانا کھا لیا۔۔ ؟‘‘

’’جی ہاں سر، گرما گرم کھانا خوب پیٹ بھر کے کھا لیا۔ مجھے تو اب نیند آرہی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنی برتھ پر چادر بچھا کر سو گیا۔ میں نے اپنا کھانا ختم کیا اور ہاتھ دھو کر جب لوٹا تو وہ گہری نیند سو چکا تھا۔ میں تھوڑی دیر اپنی برتھ پر بیٹھ کر کتاب کھول کر بقیہ ادھوری کہانی کو پڑھتا رہا۔ ڈبے میں اے۔ سی کی ٹھنڈک زیادہ بڑھ گئی تھی۔ میں نے بھی برتھ پر چادر بچھائی، کتاب بند کر کے سرا ہانے رکھی اور کمبل اوڑھ کر سوگیا۔

رات کے پچھلے پہر جب ٹرین اپنی آخری منزل پر پہنچنے لگی تو ڈبّے میں سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ میری بھی آنکھ کھل گئی۔ ٹی ٹی نے بتایا میرا اسٹیشن آنے والا تھا۔ میں نے اٹھ کر اپنا سامان سمیٹا۔ سامنے والی برتھ پر راجہ کا بستر ویسا ہی بچھا ہوا تھا۔ شاید وہ باتھ روم گیا ہوگا۔ میں اس کے آنے کا انتظار کرتا رہا۔ ٹرین پلیٹ فارم پر رک گئی۔ لوگ اترنے لگے۔ راجہ کا سامان اس کی برتھ کے نیچے ویسا ہی رکھا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کس قدر لا پرواہ لڑکا ہے۔ اپنی بہن کی شادی کا سامان ایسے ہی چھوڑ کر باتھ روم میں اتنی دیر لگا رہا ہے۔ ایسے وقت ہی میں تو بہت چوریاں ہوتی ہیں۔ میں وہیں بیٹھ کر اس کے سامان کی نگرانی کرنے لگا۔ اسی وقت ڈبّے میں ایک دبلی پتلی خوبصورت سی لڑکی تھوڑی گھبرائی ہوئی۔ برتھ نمبر ڈھونڈتی ہوئی آئی۔ میرا برتھ نمبر دیکھ کر پوچھا۔

’’آپ ہی پروفیسر صاحب ہیں۔۔؟‘‘ میں اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔

’’میں راجہ کی بہن ہوں۔ اس کا سامان یہی ہے نا۔۔؟ ‘‘ اس نے برتھ کے نیچے سے دونوں سوٹ کیس نکال لیے۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’تم راجہ کی بہن ہو، لیکن راجہ کہاں ہے۔۔؟‘‘

’’راجہ پچھلے اسٹیشن پر کسی کام سے اترا تھا اور ٹرین چل پڑی۔ وہ ٹرین پکڑ نہیں سکا۔ اس نے وہاں سے مجھے فون کر کے آپ کے بارے میں بتا دیا تھا کہ میں آپ سے اس کا سامان لے لوں۔ وہ کسی دوسری ٹرین سے بعد میں آجائے گا، تھینک یوسر۔۔‘‘

وہ لڑکی دونوں سوٹ کیس کھینچتی ہوئی دروازے تک پہنچ گئی۔ پھر وہاں قلی کو بلا کر اس کے سر پر سامان رکھوا کر اس کے پیچھے پیچھے پلیٹ فارم پر جانے لگی۔ تھوڑی دور جا کر اس نے مڑکر میری طرف دیکھا۔ ہاتھ ہلا کر مجھے الوداع کہا اور پھر بھیڑ میں گم ہوگئی۔ میں کچھ دیر وہیں گُم صم کھڑا رہا اور سوچتا رہا کہ کہیں یہ خواب تو نہیں۔ پھر باہر آکر ٹیکسی کرکے اپنے گیسٹ ہاؤس کی طرف چل دیا۔

دن بھر اپنے کاموں میں مصروف رہا، لیکن ہر وقت راجہ اور اس کی بہن کا چہرہ میرے تصور میں چھایا رہا۔ رات کو سارے کاموں سے فارغ ہو کر گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں بیڈ پر لیٹتے ہوئے بیگ سے کتاب نکال کر اپنی بقیہ ادھوری کہانی کو پورا پڑھنے کی غرض سے ورق الٹنے لگا تو ان میں پھنسا ہوا ایک پرچہ نظر آیا۔ جس پر انگریزی میں لکھا تھا۔Please handover my luggege to my sister,Thanks وہ پرچہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ نیند اچاٹ ہو چکی تھی۔ بقیہ ادھوری کہانی کو پڑھنے میں بھی دل نہیں لگا۔ میں نے کتاب بند کر دی اور یوں ہی وقت گزارنے کے لیے کمرے میں میز پر رکھے T.V کو آن کر دیا۔ Breaking News میں تھا۔ کل رات دوسند گدھ آتنکوادی پکڑے گئے۔ Screen پر دو تصویر میں دکھائی جارہی تھیں، جس میں ایک تصویر راجہ کی تھی۔


B-706، سیکٹر پی آئی-1، نوئیڈا

گوتم بدھ نگر-201310

موبائل: 9911982682

فاصلے ایسے بھی ہوں گے

فاصلے ایسے بھی ہوں گے
ڈاکٹر محمد الیاس

 

آج دن بھر کام کرکے وہ بڑی تھکن محسوس کر رہا تھا اور جلدی سونے کی تیاری میںتھا کہ اچانک موبائل کی گھنٹی نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس نے موبائل اُٹھاکر کان سے لگایا۔دوسری طرف سے بات کرنے والا شخص اس طرح بےتکلفانہ لہجہ میں بات کر رہا تھا گویا بہت پرانی جان پہچان ہو ۔

دعا سلام کے بعد وہ بولا’’یار وسیم! تونے مجھے ہی نہیں پہچانا، میں وہی شمیم ہوں جو اسکول میں تیرے ساتھ پڑھتا تھا،تیرے ساتھ لنچ باکس شیئرکرتا تھااور تیرے ساتھ کرکٹ بھی کھیلا کرتا تھا۔‘‘

’’ہاں کچھ کچھ یاد آیا بہت طویل عرصہ کے بعد فون کیا،کیسے یاد آگئی آج۔‘‘

’’میں نے سنا ہے بہت اچھی تنخواہ پر تجھے امریکہ میں ملازمت مل گئی ہے ،اگرایسا ہی کوئی اور چانس ہو تو ذرا یاد رکھنا۔ ‘‘

’’ہاں ٹھیک ہے شمیم ،مگر پھر کسی وقت بات کریںگے، آج میں بہت تھک گیا ہوں۔‘‘

اچھا ٹھیک ہے کہہ کر اس نے گفتگو کا سلسلہ منقطع کر دیا۔

وسیم اپنی کامیابی پر بڑا مسرور تھا۔کمپیوٹر انجینئرنگ کرنے کے بعد اسے امریکہ میں بہت اچھی تنخواہ پر ملازمت مل گئی تھی ۔اس کے والد اس دنیا میں نہیں تھے لیکن ان کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجتے تھے۔ ’’بیٹا وسیم! اس مادہ پرست دنیا میں کامیاب اسی کو سمجھا جاتا ہے جو دولت کمانے میں کامیاب ہو ،دنیا کے اکثر لوگ کسی نہ کسی شکل میںدولت کی دیوی کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘ اور اس کی خوشی کی وجہ بھی یہی تھی کہ آج اسے وہ کامیابی حاصل ہو گئی تھی جس کی توقع اس کے والدین اس سے کرتے تھے۔اب تو اسکول کالج کے زمانے کے تمام دوست احباب اس کے متلاشی اور اس سے بات کرنے کے خواہاں رہتے تھے حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کی عمر جتنی بڑھتی رہتی ہے اس کا حلقۂ احباب اتنا ہی گھٹتا رہتا ہے۔ آخر کار چند ہی ایسے رہ جاتے ہیں جو دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں مگر اتفاق سے اگر لوگوں کے مفادات آپ سے وابستہ ہوجاتے ہیں تو پھر دوستوں کی کوئی گنتی نہیں رہتی، ایسا ہی اس کے ساتھ بھی تھا ۔یہاں کے شب و روز کے اوقات کچھ اور وہاں کے شب وروز کے اوقات کچھ اور ناواقف لوگ کبھی بھی فون کر کے اس کی نیند خراب کر دیتے پھر اُسے بتانا پڑتا کہ ہندوستان میں جب شدت کی دھوپ ہوتی ہے تو امریکہ میں لوگ محوِ خواب ہوتے ہیں ۔

وہ جب سے امریکہ آیا تھا یہاں کے شب و روز بہت اچھے گزر رہے تھے۔ آسائش کے دورمیں وقت کا پتہ کہاںچلتاہے۔ برسوںکا عر صہ کس طرح گزر گیا کچھ پتہ ہی نہیںچلا۔ اس کے والد اور خاندان کے کئی بزرگ دنیا سے جاچکے تھے۔جب جب بھی اس طرح کی ناخوشگوار اطلاعات ملتیںتو وہ اپنی تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کراپنے وطن کودوڑا چلا آتا،غم کا موقع ہوتا یا خوشی کااس کے اپنوںکی محبت کی کشش اسے اپنے وطن کھینچ ہی لاتی۔کتنا اچھا ماحول تھاجب اس کے والد،ان کے حقیقی بھائی،خاندانی بھائی سب یک جا بیٹھ کر مشورے کیا کرتے تھے۔رات کو کھاناکھا نے کے بعدکبھی چائے،کبھی کافی ،کبھی شربت کا دور چلتامگران سب چیزوں سے زیادہ ،ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہواؤں میں محبت کی شیرینی گھلی ہوئی ہے۔ بزرگوںسے وراثت میںملی ہوئی ایک وسیع وعریض حویلی جس کے چاروں طرف کمرے بنے ہوئے تھے، سب کے درمیان میں ایک صحن جہاں سب بیٹھاکرتے تھے۔چار بھائیوں کے اپنے اپنے کنبے کی رہائش گاہ تھی یہ حویلی۔کیا تیراہے کیا میراہے اس طرح کا کوئی مسئلہ ہی نہیںتھا۔

بیسویں صدی کے نصف آخر کی بات ہے ،اس نے جب ہوش سنبھالا تھا تو یہی ماحول دیکھا تھا ۔قریبی عزیز و اقارب کو جب کوئی پیغام بھیجنا ہوتا یاکسی تقریب کے لیے ان کو دعوت دینی ہوتی تو رقعہ رسانی کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں تھا ،ٹیلی فون کی سہولت صرف متمول ترین لوگوں کے پاس ہوا کرتی تھی ایسے میں کتنا اشتیاق رہتا تھا بزرگوں کو ایک دوسرے کے خطوط کا ۔کسی عزیز کا خط آگیا تو سمجھو گھر میں عید کا سا ماحول بن گیا ۔جب کسی کا خط آتا تھا تو اکثر دادی کہتی تھیں کہ آج تو صبح سے ہی کوا گھر کی دیوار پر بیٹھا بول رہا ہے ۔میں نے تو اسی سے اندازہ لگا لیا تھا کہ ضرور آج کسی کا خط آئے گایا کوئی مہمان آئے گا۔غرض یہ کہ محبتوں کا ایک ایسا نیٹ ورک تھا جس کے تار دلوں سے دلوں کو جوڑے رہتے تھے ۔

گھر کے بزرگ رفتہ رفتہ دنیا سے رخصت ہوتے گئے، اب وسیم کے والدبھی دنیا میں نہیں تھے ،ایک ماںاور چھوٹے بھائی بہن جن کی یاد اسے افسردہ کر دیتی تھی ۔اکثر اپنی ڈیوٹی سے فراغت پانے کے بعد جب تک ماں سے بات نہ کر لیتا اسے تسکین نہیں ہوتی تھی اسی کے ساتھ دوسرے خاندانی بھائی بہن بھی اس کے رابطے میں رہتے تھے کبھی کسی سے دعا سلام،کبھی کسی کی خیریت،کبھی کسی سے گفتگو ۔اپنے افراد خاندان سے گفتگو کرکے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے واقعی وطن کی فضاؤں کی سیر کر لی ہو۔اس کے اپنے بھی اس سے اسی طرح بات کرتے جیسے ان کے الفاظ سے محبت مترشح ہو رہی ہے اور وہ اس کی آمد اور اس کے دیدار کے متمنی ہیں ۔ایسے میں ماں اور بیٹاایک دوسرے کی جدائی کو کیسے برداشت کر رہے تھے یہ وہی جانتے تھے۔

رفتہ رفتہ وسیم کی ماں اور خاندان کے بڑے دنیا سے رخصت ہوتے گئے۔اب رہے تو وسیم کے حقیقی بھائی بہن اور اس کے ہم عمر اس کے خاندانی افراد جن کے جذبات میں جدت، رجحانات میں ندرت تھی اور خیالات مختلف تھے اکیسویں صدی میں جوانی کی عمر کو پہنچنے والے اپنے لیے زیادہ اور دوسروں کے لیے بہت کم فکر کرتے اور اپنے اپنے ہمسفر کے ساتھ کیف و مستی میں محو ہو گئے۔ اب حالات اتنے بدل گئے تھے کہ اگر وسیم اپنے وطن کو فون کر لیتا تو کسی سے بھی گفتگو ہو جاتی ۔اِدھر کے لوگوں کو اب اس کی یاد کم ہی آتی تھی۔ کبھی کبھی اس کے حقیقی بھائی بہنوں کو ضرور یاد آجاتی تھی ۔اب نئے دور اور نئی تہذیب میں جو بچے عالمِ وجود میں آئے وہ کتابوں سے زیادہ موبائل میں اپنی بینائی اور اپنا مستقبل خراب کرنے والے تھے ۔اگرکبھی کوئی اپنا آجاتااور ان کو یہ بتایا جاتا کہ بیٹا یہ تمہارے چاچا ہیں یا یہ تمہاری پھوپی ہیںبہت دن بعد ان کی تشریف آوری کا شرف ہمیں حاصل ہو پایا ہے، تو چند لمحوں کے لیے با دلِ نخواستہ موبائل سے نظر یں ہٹا کر لبوں پرمصنوعی مسکراہٹ لاکرمؤدب ہو کر سلام کر لیتے اور پھر اپنے اسی شغل میں منہمک ہو جاتے ۔یہ جدت پسند لوگوں کے ہوشیار بچوں کا حال ہے ۔یہ کسی انسان کے نہیں بلکہ مشین یا کسی الیکٹرانک آلہ کے ساتھی ہیں،اسی کے ساتھ کھیلتے ہیں،اُسی سے دل بہلاتے ہیں،جب راستوں میں پیدل یا گاڑیوں میں چلتے بھی ہیں تو ان کے کانوں میں ایئر فون ٹھونسا ہوا ہوتا ہے اور کسی نہ کسی سے باتیں کرتے ہوئے چلتے رہتے ہیں راہگیروں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید کوئی پاگل ہے جو خود بخود باتیں کرتا ہوا جا رہا ہے اور اِن کا باتوں میںانہماک یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ ٹرین کی پٹری پار کرتے ہوئے کبھی کبھی یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ٹرین قریب ہی ہے اور ان کی جان اَن دیکھے دوستوں کی نذر ہو جاتی ہے اور دوسری طرف کے شخص کو اس کی آخری چیخ سنائی دے جاتی ہے ۔یہ اپنے بزرگوں یا اچھے انسانوں کی صحبت سے محروم ہیں۔

ان حالات نے تقریباً ہر ایک کو متاثر کیا ہے۔ مشترکہ خاندانوں کا تصور ہی پارہ پارہ ہو چکا ہے۔ہزاروں میل دور رہنے والے اپنوں کی یاد اور ان سے ملنے کا اشتیاق اب پہلے جیسا نہیں رہا ۔وسیم کا روز کا معمول تھا کہ جب تک وہ گھر والوں سے باتیں نہ کر لیتا اسے تسکین نہ ملتی تھی۔اب روز کا یہ کام ہفتوں میں اور پھر مہینوں میں انجام دیا جانے لگا ۔جب یہاں کے لوگوں کو اس سے ملنے کا اشتیاق ہی بہت کم ہو گیا تو اس نے وہاں کی شہریت حاصل کر لی مگر پھر بھی وطن کی محبت کبھی کبھی اسے تڑپاتی تھی، کوئی یاد کرے یا نہ کرے پھر بھی سب سے ملنے کو جی چاہتا تھا۔ اس کے چند کلاس فیلو جن میں سے کوئی برطانیہ میں ،کوئی سعودی عرب میں اور کوئی آسٹریلیا میں رہتا تھا وقتاً فوقتاً ان سے فون پر بات ہوتی رہتی تھی ۔ان میں سے ہر ایک وطن سے دور رہ کر وطن کی یاد میں مستغرق رہتا تھا اور جب کبھی ایک دوسرے سے گفتگو ہوتی تو ایک دوسرے سے اپنے وطن کی باتیں کرکے اپنا غم دور کر لیتے ،وسیم کو بھی اپنوں کی یاد بہت ستاتی تھی اسی لیے کئی سال کے بعد آج وہ اپنے وطن لوٹا تھا، گھر کے دروازے میں داخل ہونے کے بعد اندر کا منظر تو بالکل مختلف ہو چکا تھا۔ ایک لمحہ کو اسے ایسا لگا کہ یہ شاید کسی اور کا گھر ہے ۔اس کے بھائی بہنوں نے اس کا پر تپاک خیر مقدم کیا ۔وہ چاہتا تھا کہ گھر جاکر کچھ دیر آرام کرےگا، اپنے چھوٹے اور بڑوں سے ملاقاتیں کرےگا مگر یہاں کا منظر دیکھ کر جیسے اس کے ارمانوں پر بجلی گر گئی تھی۔بہت بڑی حویلی جس کے چاروں طرف کمرے اور درمیان میں بڑا سا صحن تھا اب اس میں دیواروں کا کراس بن چکا تھا، یہاں کے مکین اپنی اپنی دنیا میں محصور ہوچکے تھے۔کراس کے تین گوشوں میں رہنے والے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آج ہمارا کوئی اپنا ہم سے ملنے کے لیے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے آیا ہے ۔

 یہ وہی جگہ تھی جہاں خاندان کے بزرگ سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیا کرتے تھے۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ اس کی کامیابی میں ان دعاؤں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس کے ذہن میں گھر کی پرانی تصویر گھوم رہی تھی جس میںخاندان کے لوگ اپنے اپنے حصارمیں قید نہیں تھے ۔وہ جب کبھی موبائل پر بات کرتا تھا تو اس انتشار کا اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا جو دیکھنے کو ملا۔ سب کے سب خندہ پیشانی سے بات کیا کرتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ مسکراہٹیں ،وہ اس سے ملاقات کا اشتیاق سب نمائشی تھا۔وہ سوچتا رہ گیاکہ آج ہمارے ہاتھ میں ایک ایسا نیٹ ورک ہے جس سے ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے انسان سے چند لمحوں میں بات کرسکتے ہیں،اس کی تصویر دیکھ بھی سکتے ہیں مگر وہ نیٹ ورک جو محبت کے تاروں سے بنا ہوا تھا،دلوں سے دلوں کو جوڑتا تھا، سب تہس نہس ہو چکا ہے ۔

385،پیتل بستی ،مرادآباد یوپی

موبائل: 9412838085

ایک ناکام ترجمہ

 ایک ناکام ترجمہ

وسیم احمد علیمی

’’ہر لسانی اظہار ایک قسم کا ناکام ترجمہ ہے۔‘‘

(فرانز کافکا)

سردیوں کی خاموش اور لمبی رات تھی ۔اس نے دسویں کروٹ لی یا شاید گیارہویں۔دیر تک سوچتے رہنے کی وجہ سے نیند روٹھ سی گئی تھی اور وہ کروٹ پر کروٹ بدل رہا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ پانچ برس پہلے جب اس کا ترجمہ ’’دنیا کی پندرہ عظیم تحریریں‘‘ شائع ہوا تھا تب رسم اجرا کے دوران ادیبوں،شاعروںاور نقادوں نے کس طرح اپنے مثبت اور منفی تاثرات سے محفل کوگرماکر بے حد دلچسپ بنا دیا تھا۔دیگر بحثوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے ترجمہ کے ثانوی اور غیر تخلیقی ہونے پر بھی زور دیا تھا۔جلسے کی مکمل روداد اس کے ذہن میں ایک خوب صورت اور متاثر کن رپورتاژ کی طرح آگے بڑھ رہی تھی ۔

اکثر مقررین نے ترجمہ کو ثانوی درجے کی ادبی خدمت اور غیر تخلیقی ادب قرار دیا تھا۔ان کے نزدیک ترجمہ کوئی قابل قدر کام نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مستقل فن ہے۔ہر وہ ادیب جو دو زبانوں کا ماہر ہے ،آسانی سے ایک زبان کو دوسری زبان میں منتقل کر سکتاہے ،یہ کوئی جوئے شیر لانا نہیں ہوا اور اب تو مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)نے ترجمے کا کام اور بھی آسان کر دیا ہے،چٹ اِدھر سے آلو ڈالو،پٹ اُدھر سے پاپڑی بن کر تیار ۔مشین ترجمہ کر سکتی ہے،شاعری نہیں،نہ مشین فکشن لکھ سکتی ہے۔

’’میں آپ لوگوں سے اتفاق نہیں رکھتا‘‘۔ ایک نوجوان ادیب نے کہا۔

’’میں نے خود کبھی کوئی قابل قدرادبی ترجمہ نہیں کیا لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ اتنا بھی آسان نہیں جتناحلوہ لوگ اسے سمجھتے ہیں۔ساڑھے تین ہزار صفحات پر مشتمل عظیم ناول In Search of Lost Time کے خالق مارشیل پراؤسٹ نے تو کہا ہے کہ اچھا لکھنے کے لیے ترجمہ کر نا بے حد ضروری ہے۔ترجمے کی تخلیقیت پر سوال اٹھاناخود ادب،تحریر،لفظ اور زبان پر سوال قائم کرنے کے مترادف ہے۔

جو اچھا تخلیق کار نہیں وہ سلجھا ہوا مترجم بھی نہیں ہوسکتا، مترجم ہونے کی اولین شرط خود کو پہلے تخلیقی مزاج سے ہم آہنگ کرنا ہے‘‘۔

’’کم از کم شاعری کا ترجمہ تو ناممکن ہے اور اس کی جرأت بھی بے جا ہے‘‘ ایک بوڑھے شاعر نے اپنی رائے ظاہر کی۔

شرکائے بحث میں ایک جواں سال نقاد بھی تھا۔وہ بلا کا ذہین اور انتہائی متاثر کن شخصیت کا مالک تھا۔اپنی تقریر میں اس نے کسی ادیب،شاعر،ناقداور مفکر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انتہائی پر جوش اور مدلل انداز میں اپنی بات پیش کی :

’’میرے نزدیک ترجمہ یا دوسری کوئی بھی ادبی تخلیق یکساں اہمیت کی حامل ہے۔اگر میں تقابلی جائزہ پیش کروں تو ترجمہ ایک حد تک دوسری ادبی تخلیق سے کہیں زیادہ مہتم بالشان نظر آتا ہے، کیوں کہ ایک عام تخلیق کار کسی حدود اور متن کی پابندی کیے بغیر اپنے فن کا اظہار کرتاہے جبکہ ایک مترجم کے سامنے بنیادی متن ہوتاہے اور وہ اپنے فن کا اظہار کمال ہوشیاری سے اس متن کی حدود میں رہ کر ہی کرتا ہے، اس لیے مترجم زیادہ احترام کے قابل ہے کہ حدود میں رہ کر فن کا اظہار آزادانہ طور پر لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے اور رہی بات مشینی ترجمے کی تو میرا تمام نکتہ شناسوں کو چیلنج ہے کہ مترجم موصوف کے انتخاب کردہ ادب پاروں میں سے کسی بھی ایک تحریر کا مشین کی مدد سے شایان شان ترجمہ کرکے دیکھ لیں۔ سب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اس حوالے سے سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہر مترجم ادیب اور مصنف بھی ہے، لیکن ہر ادیب اور مصنف ، مترجم بھی ہو یہ ضروری نہیں۔‘‘

جواں سال نقاد کی گفتگو سے محفل میں جان سی پڑ گئی ۔ نوخیز مترجم جو اپنی ہی برسوں کی محنت پر دیگر ادیبوں کی آرا سے پشیمان ہوا بیٹھا تھا اچانک پر جوش ہوکر تالیاں بجانے لگا۔اس کی تالیاں اس قدر ولولہ انگیز تھیں کہ اگر اس وقت اس کی ہتھیلیوں کے بیچ دو جہان بھی آجاتے تو وہ پیس کر راکھ کر دیتا۔ پوری محفل تالیوں سے گونج اٹھی۔

ابھی کچھ آن پہلے جن کہنہ مشق شاعروں اور عمر رسیدہ ناقدوں نے ترجمہ کو ایک ہلکا پھلکا آرٹ بتایا تھا ،سب خجالت سے پانی پانی ہو رہے تھے ۔

اختتام کے بعد چائے نوشی کے دوران ایک مشہور افسانہ نگار جو خود شریک محفل تھے آگے بڑھ کر جواں سال نقاد کو داد دیتے ہوئے گویا ہوئے :

’’آپ نے بے حد پر استدلال اور جوش بھری گفتگو کی، آپ کی عمر میں ، میں بھی ایسا ہی تھا،جوش اور ولولے وقتی اور عارضی ہوتے ہیں ،میرے نزدیک یہ قابل تسلیم نہیں کہ ترجمہ تخلیق سے زیادہ مشکل فن ہے۔‘‘

’’سر!               ممکن ہے آپ یہ تسلیم نہ کریں لیکن ادیبوں کی بڑی جماعت نے پہلے ہی اسے تسلیم کر لیا ہے۔ادبی دنیا کافکا کے قول ’’All language is but a poor translation‘‘(ہر لسانی اظہار ایک قسم کا ناکام ترجمہ ہے۔)کو بے حد احترام کی نظر سے دیکھتی ہے اور تسلیم کرتی ہے۔ آپ کے افسانے بھی تو آپ کی نفسیاتی کش مکش کے ناکام ترجمے ہی ہیں ‘‘ نقاد نے اپنا موقف واضح کرنے کی کوشش کی ۔

’’اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ ہم جیسے تخلیق کار ترجمہ نہیں کرسکتے تو ۔۔۔۔‘‘ افسانہ نگار نے اپنی آواز کو بھاری اور لہجہ کو تحکمانہ کرتے ہوئے کہا:

 ’’تو آپ مشکل ترین متن کا انتخاب کریں ،میں ترجمہ کے لیے تیار ہوں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ آپ کے مترجم موصوف بھی کسی تخلیقی صنف میں کامیاب طبع آزمائی کر کے دکھائیں۔۔۔۔اگر میر ا ترجمہ خام ہوا اور ان کی تخلیق پختہ تو میں دستخطی تصدیق کے ساتھ لکھ کر دیتا ہوں کہ دوبارہ کبھی کوئی تخلیق لکھنے سے توبہ کر لوں گا‘‘۔

’’کچھ نہیں لکھیں گے ؟ واقعی ؟ ‘‘ نقاد نے حیرت کا اظہار کیا۔

’’سر!اس قدر سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی ،لیکن جب آپ نے عہد کر ہی لیا ہے تو چلیں تاریخ میں اس ادبی سانحے کو مزید دلچسپ بنانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔

نقاد نے دور کھڑے اپنے ہم عمر مترجم کو آواز لگادی جو اپنے رفیقوں کے ساتھ چائے نوشی کے آداب بجا لاتے ہوئے اس خوش گوار لمحے کے ایک ایک پل کو موبائل کے کیمرے میں قید کر رہا تھا ۔

مترجم نے پھر ایک کروٹ لی۔ یقیناً یہ پندرہویں کروٹ تھی ۔رات مزید گہری اور شانت ہو چلی تھی ،جیسے جیسے تاریکی گہری ہو رہی تھی، اسی طرح اس کے ذہن میں مذکورہ واقعے کا ایک ایک سین صاف و شفاف ہوتا جا رہا تھا ۔یادیں اندھیرے اور تنہائی میں زیادہ پر کشش اور پر اسرار ہو جایا کرتی ہیں ۔اسے خوب شدت سے یاد آیا کہ کیسے اس نے ،نقاد نے اور افسانہ نگار نے بے حد احمقانہ طور پر اس بے بنیاد شرط پر دستخط کیے تھے کہ جو مترجم ہے وہ کوئی تخلیق پیش کرے گا اور جو افسانہ نگار ہے وہ کسی ادبی متن کا ترجمہ کرے گا اور رہا نقاد تو اس کو اختیار ہے وہ جو چاہے کرے ۔افسانہ نگار نے اصرار کیا تھا کہ ترجمہ کے لیے وہ دونوں پیشگی ہی کسی ادبی متن کا انتخاب کردیں تاکہ بعد میں اس کی خود انتخابی کو بہانہ بنانے کی گنجائش باقی نہ رہے ۔

اور پھر متفقہ طور پر عظیم انگریزی ناول نگار جوزف کونریڈ کی کہانی The Secret Sharerکا انتخاب ہوا تھا۔

آج پانچ برس بعد مترجم کروٹیں بدل بدل کر اس واقعہ کو کیوں یاد کر رہا ہے ؟کیا ان تینوں کی وہ بے تکی شرط ادبی دنیا میں کوئی انقلاب برپا کر سکی ؟مترجم،افسانہ نگاراور نقاد۔۔۔۔ادب کے تین دیوانوں کا کیا بنا؟

اب مترجم کی سانسیں گہری ہو رہی تھیں،یادوں کا پردہ دھیرے دھیرے دھندلا ہونے لگا تھا،شاید اس نے آخری کروٹ لے لی تھی ۔نیند کسی سست زہر کی طرح اس کے اعضا کو کمزور کر رہی تھی ، اس کے ذہن میں آج شام رسم اجرا میں کی گئی افسانہ نگار کی تقریر کسی ڈوبتے ہوئے سورج کی طرح اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی ۔ افسانہ نگار نے اعتراف کر لیا تھا :

’’معززسامعین!

آج کی شام نہایت یاد گار ہے،آج ہم لوگ ایک ساتھ تین کتابوں کی رسم رو نمائی میں شرکت کر رہے ہیں ۔یہ تینوں کتابیں آج سے ٹھیک پانچ سال پہلے ادب کے تین احمقوں کے درمیان طے پانے والی ایک بے تکی شرط کا نتیجہ ہیں ۔ایک غیر دانشمندانہ شرط جس نے مترجم کو افسانہ نگار،افسانہ نگار کو مترجم اور نقاد کو وہ بنا دیا جواس نے نہیں چاہا تھا ۔

 ایک مترجم جس نے دنیا بھر کے ادب پاروں کی ورق گردانی کی ہو ،جس نے ادب کے بڑے بڑے سورماؤںکے لفظ لفظ پر گھنٹوں مراقبے کیے ہوں اورجس نے کم از کم دو زبانوں سے ایک ساتھ سیرابی حاصل کی ہو، وہ خودجب کوئی ادب پارہ تخلیق کرنے بیٹھے گا تو کیا قیامت ڈھائے گا، اس کا اندازہ آپ لوگ ہمارے مترجم موصوف کے تازہ ترین پہلے افسانوی مجموعہ ’’مدھم روشنی کا غبار ‘‘کے مطالعے سے اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ پانچ برس بیت گئے۔ میں نے ہی ان کو چیلنج کیا تھا کہ ترجمہ کر لینا اور بات ہے مگر تخلیق کے لیے الگ قسم کی ریاضت درکار ہوتی ہے، لیکن میں غلط تھا۔ترجمے کی شعریات مجھ پر اس وقت منکشف ہونا شروع ہوئیں جب میں شرط کی تکمیل کے لیے خود ترجمہ کرنے بیٹھا ۔آج اگر جوزف کو نریڈ کی چالیس صفحات پر مشتمل بونا فائیڈ کہانیThe Secret Sharer(1912)’’گھر کا بھیدی ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ ہو کر آپ کے ہاتھوں میں ہے تو اس ادبی تخلیق کے پیچھے بھی وہی پانچ برس پرانی بے ڈھنگی سی شرط ہے اور میں اپنے اس ترجمہ کو زور دے کر ’ادبی تخلیق‘ ہی کہوں گا کیوں کہ ہر خیال ایک کورے کاغذ پر رقم کیے جانے سے پہلے تخلیق کار کے لاشعور میں ترجمہ کے مرحلے سے ہی گزرتاہے ۔

کسی خیال کا لسانی شکل اختیار کر لینا بھی ایک نوعیت کا ترجمہ ہی ہے۔تخلیق ہو یا ترجمہ دونوں ہی خیال کو متن میں بدلنے کا ایک عمل ہے۔تخلیق کار اپنے احساسات، مشاہدات، تصورات، اپنی بصیرت،اپنی یادوں اور تخیل کو لفظ کے سانچے میں ڈھالتاہے تو ایک مترجم بھی کسی متن کو دوسری زبان میں منتقل کرنے سے پہلے تخلیق کے متعینہ مراحل سے گزارنے کی کوشش کرتاہے۔

معلوم ہے؟ پانچ سال پہلے جب ایک جواں سال نقاد نے اسی ہال میں ترجمہ کے تخلیق ہونے کی وکالت کی تھی تو اس کے موقف سے سب سے زیادہ شدت کے ساتھ کس نے اختلاف کیا تھا ؟میں نے اور آج میں ہی اس کے موقف کاسب سے بڑا تائید گزار ہوں، کیوں کہ میں نے خود کو مترجم کے احساس سے گزارا ہے۔پہلے تو میں بس ایک خاص زبان میں افسانے لکھ رہا تھا ،یہ ترجمہ کی برکت ہے کہ انتخاب اور ترجمہ کی نیت سے دنیا کے بڑے اورعالی شان ادب کی خاک چھان رہا ہوں ۔ دوسری طرف جناب نقاد نے میری کہانیوں کو The Half-Eaten Blanket(ادھ خوردہ کمبل ) کے عنوان سے انگریزی میں کیا منتقل کیا ، میری رسوائی کا شہرہ راتوں رات دوردور تک پھیل گیا۔ آج جو یہاں متعدد زبانوں کے شہسوار موجود ہیں،یہ بھی ترجمہ ہی کی برکت ہے۔

چونکہ جناب مترجم کے افسانے انتہائی تخلیقی ثابت ہوئے ہیں اور میرا پہلا ادبی ترجمہ قدرے خام ۔۔۔۔سو میں شکست خوردہ واقع ہوا ،لہٰذا شرط کے مطابق مجھے اب ادب تخلیق کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ابھی مجھے نہیں معلوم کہ ادبی احساس کے ساتھ کچھ نہ لکھتے ہوئے بھی زندہ رہنے کی اذیت کس قدر اندوہناک ہوگی؟ لیکن میں نے عہد کر لیاہے کہ آبلہ پائی کے باوجود اس گلشن ِ پر خار میں قدم بڑھاتا ہی چلا جاؤں تاکہ ہر چبھن کے ساتھ احساس تازہ ہو کہ ترجمہ بھی تخلیق ہی ہے اور میں نے تو تخلیقی ادب تحریر کرنے سے توبہ کرلی ہے‘‘۔

ترجمہ تخلیق ہے یا نہیں ،اول درجے کا فن ہے یا ثانوی درجے کا، یا سرے سے فن ہے ہی نہیں ،یہ الگ بحث ہے، لیکن افسانہ نگار کی تقریر کا ماحصل صرف اتنا ہے کہ ترجمہ نگاری کا کام ایک عجیب نوعیت کے پر اسرار درخت کے سایے تلے بیٹھنے جیسا ہے جس کی جڑ،پھول،پتے،پھل،چھلکے،گٹھلی اور گودے تک میں مزہ ہی مزہ ہے ۔ شاید اسی لیے اس کے سایے میں insomnia کے مارے ہوؤں کو بھی نیند آجایا کرتی ہے۔اب دیکھیے نا،جناب مترجم کو بھی افسانہ نگار کی تقریر یاد کرکے گہری نیند آگئی ۔

 

S2/22تیسری منزل،جوگابائی ایکسٹینشن،

جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی ،۱۱۰۰۲۵

موبائل نمبر: 7835961294

ڈیڑھ لاکھ کی نیند

 ڈیڑھ لاکھ کی نیند

فلکی ناز

نیند ایسی چیز ہے کہ قسمت والوں کو ہی ملتی ہے۔ اسے سونا بھی کہتے ہیں۔ یہ اللہ کی ایک نعمت ہے جو کہ کچھ ہی لوگوں کو میسر ہوتی ہے۔ سونا دونوں شکلوں میں قیمتی ہوتا ہے۔ اسی لیے چاہے وہ نیند کی شکل میں ہو یا پھر گولڈ گہنے کے طور پر۔ جب انسان بستر پر لیٹ کے آنکھیں بند کر لیتا ہے تو وہ پرسکون حالت میں ہوجاتا ہے اور وہ کسی اور ہی دنیا میں چلا جاتا ہے دماغ سے۔ جسم اس کا زمین پہ ہوتا ہے۔ وہ خوابوں کی دنیا میں چلا جاتا ہے۔ کبھی اپنے آپ کو افلاطون سمجھتا ہے تو کبھی ہیرو اور کبھی کمزور سمجھتا ہے، بے بس ہوجاتا ہے، طرح طرح کے اچھے بُرے خوابوں کو دیکھتا ہے۔ جسم چار پائی پر ہوتا ہے اور دماغ جھومتا پھرتا ہے جانے کہاں کہاں۔ خیر یہ تو ہوا سونا جس کو نیند کے نام کا چشمہ پہنا دیا جاتا ہے۔ وہ نیند میں کبھی کسی کی شادی، کبھی موت، کبھی لڑائی، کبھی جنگل میں گھومتا ہوا، کبھی شیر سے لڑائی، کبھی دشمنوں کا خوف، کبھی پیار محبت، کبھی عشق، کبھی دشمن، کبھی نفرت، سبھی کچھ سونے کے بعد آنکھوں میں فلم کی طرح ریل چلتی رہتی ہے جو آنکھ کھلتے ہی اپنے آپ کو اسی بستر پر پاتا ہے۔ ہر ایک انسان ساتھ ہوتا ہے۔ نیند ایسی چیز ہے جسے امیر، غریب، چھوٹا، بڑا، عورت، مرد ہر ایک مذہب کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ نیند میں اگر محبت کو دیکھتا ہے تو مسکراتا ہے، ہنستا ہے اور اگر ڈراؤنا خواب دیکھتا ہے تو چیختا چلاتا ہے ، ڈر سے اٹھ جاتا ہے۔ سونا دونوں ہی طرح کا ہمارے لیے بیش قیمت ہے، چاہے وہ نیند کی شکل میں ہو یا پھر گہنے کی۔ ہمارے لیے تو قیمتی ہے۔ جو آسانی سے میسر نہ ہو اسے قیمتی ہی کہا جاتا ہے۔ نیند بھی کیا چیز ہوتی ہے، یہ تو سونے والوں سے ہی پوچھئے ۔ ان کو جب نیند آتی ہے تو سب سے پہلے ہاتھ منہ پر رکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں، اگر سامنے کوئی بیٹھا ہے تو اس سے معذرت کرکے چلے جاتے ہیں۔ آدمی کو کچھ نظر نہیں آتا سوائے ایک عدد کونے کے جس پر چٹائی ہی کیوں نہ بچھی ہو ۔ بیچارے محنت کش لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم تو نہیں۔ نیند کولوگ موت کہتے ہیں۔ خواب کا نام زندگی ہے، احسان ، یوسف ، جدائی۔

انہیں کچھ کھانے کو ملے یا نہ ملے مگر زمین پر جگہ ملتے ہی نیند کا لطف ضرور ملتا ہے۔ انہیں دنیا میں کیا ہورہا ہے، کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ مزدور بیچارہ تو سڑک کو ہی اپنا گھر سمجھتا ہے نیچے زمین اور کھلا آسمان ، اُس بیچارے کو تو کھلے آسمان میں بھی دن میں تارے ہی نظر آتے ہیں۔ ان کو مکھی مچھروں سے دوستی کرنی پڑتی ہے اور بارشوں میں بھی ان کی عادت ہوجاتی ہے۔ سردی کو تو وہ آرام سے گلے لگا کر کمبل سمجھ کر لپٹا لیتے ہیں اور زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں جاگ کر نہیں سو کر۔ وہ بیچارے خوابوں کو ہی حقیقت سمجھ کر جی لیتے ہیں۔ اور تو اور گرمیوں کی تپتی گرم ہوائیں ان میں جینے کی آس پیدا کر کے انرجی کا کام کرتی ہیں۔ نیند کی پلکیں تو بھائی ہم نے بہت دیکھی ہیں۔ کچھ تو بس میں بیٹھے اگر غلطی سے انہیں سیٹ مل گئی تو جہاں سے چڑھے یہ آنکھ بند کر کے سوتےہیں اپنی منزل مقصود پہ ہی آنکھ کھولتے ہیں۔ اب تو بس میں کچھ بھی ہوجائے اس مائی کے لال کو کوئی جگا نہیں سکتا۔ چاہے وہ بس کاہارن ہو یا سیٹ کے پاس کھڑی کوئی ضعیف عورت ہی کیوں نہ ہو۔ یا کوئی جیب کترا ہی کیوں نہ رہا ہو یا پھر کوئی پھیری والا، سرمہ والا، سرمہ بھوپالی ہی کیوں نہ ہو، لیکن جیسے ہی منزل آتی ہے اور وہ صاحب بنا کسی کے کہنی مارے ہی جاگ جاتے ہیں۔ ایک بار کی بات ہے۔ ایک صاحبہ ہماری ملنے والی ہیں، وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کہیں جارہی تھیں۔ موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھی تھیں۔ ان کو ٹھنڈی ہوا کھانے کی وجہ سے نیند آگئی۔

اسی طرح ٹرین میں بھی لوگ سونے کے بڑے پکّے ہوتے ہیں۔ ادھر ٹرین چلی اُدھر انہوں نے بستر لگایا اور تھوڑی ہی دیر میں خراٹوں کی آوازوں سے دوسروں کی نیندوں میں تو کیا باتوں میں خلل ڈالنے لگتے ہیں۔ خراٹے بھی طرح طرح کے ہوتے ہیں۔ کوئی سُڑ میں کوئی بےسُڑے، کوئی منہ سے، کوئی ناک سے، کوئی سیدھا بجاتے ہوئے، لیکن بھائی کیا ٹائم سیٹ کر رکھا ہوتا ہے کیا ہی گھڑی کی سوئیاں بتاتی ہیں وہ بھی کبھی رک جاتی ہیں۔ اگر ان میں بیٹری نہ ہو تو، مگر کیا مجال جوان صاحب کو ٹرین اگلے اسٹیشن تک بھی لے جائے۔ جہاں کا ارادہ کیا ہوتا ہے وہیں اترتے ہیں، پورا بوریا بستر ساتھ لے کر۔ وہ اپنی منز ل پر ہی آنکھوں کو تکلیف دیتے ہیں اور آنکھوں کو مسلتے ہوئے رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ انہیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا کہ ٹرین نے کب ہارن بجایا، کون کون لوگ سفر کر رہے ہیں اور ٹرین میں چاہے بچے کتنا ہی چیخیں انہیں کیا لینا۔ چاہے چوری ہوئی ہو یا چھیڑ چھاڑ کا معاملہ ہو یا کوئی شرابی گھس گیا ہو لیکن بھائی ان سے کیا لینا دینا ہمیں، کوئی مسئلہ سلجھانے کو تھوڑے ہی بیٹھے تھے، ان کا مقصد ایک جگہ سے اپنی منزل تک جانا تھا۔

ہمارے لیے تو نیند نام کی چیز ایک قیمتی چیز ہے، نیند تو جب اسکول جاتے تھے تب آتی تھی۔ جس دن اسکول کی چھٹی ہوتی تھی ہم رات کو بستر پر لیٹتے اور خوابوں میں ایسے کھو جاتے تھے کہ صبح کب ہوئی پتہ ہی نہیں لگتا تھا۔ وہ تو ہماری پیاری امی جان کی آوازیں کانوں تک پہنچ کر بتاتی تھیں کہ بیٹا اٹھ جاؤ دیکھو سورج نکل آیا ہے اور ہم یہ کہہ کر چادر تان لیتے تھے کہ میری پیاری امی سورج تو روز ہی نکلتا ہے، اس کا تو کام ہی یہ ہے، لیکن ہماری ماں اس معاملے میں بہت سخت تھیں کہ صبح اٹھوں، نماز پڑھوں اور کام میں لگ جاؤں۔ یہ سورج روز کیوں نکلتا ہے، ہمارے گھر ہی کیوں آتا ہے اور کسی کے گھر کیوں نہیں نکلتا۔ ہماری طرح سورج مہاراج کبھی تو چھٹی کر لیا کرو۔ اس دن ہم امی سے خوشامد کرتے تھے کہ امی پلیز آج تو سونے دیجئے، مگر نہیں مانیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رزق میں برکت نہیں ہوتی، آتا ہوا رزق واپس چلا جاتا ہے۔ ہاں دو پہر کا کھانا کھا کر ضرور قیلولہ کرنا چاہیے۔ کیا مجال کہ ہم اٹھنے کے بعد دو پہر کو دوبارہ سو جائیں۔ نیند کچھ لوگوں کے لیے ایسی ہے، جہاں بیٹھے سو گئے، باتیں کرتے کرتے سوگئے، حد تو یہ ہے کہ رکشا میں بھی لوگ سوجاتے ہیں، نماز پڑھتے پڑھتے سوجاتے ہیں، کچھ میوزک سنتے سنتے سوجاتے ہیں، لیکن ہم ان سب سے آگے ہیں، ہماری نیند ہماری دشمن ہے، جیسے اگر ہم جہاز میں بیٹھ کر جاتے ہیں تو نہیں سو پاتے کیونکہ ہمیں لگے گا کہ کہیں کوئی بادل ہم سے ناراض نہ ہوجائے کہ ہم نے اسے دیکھا ہی نہیں۔ اوپر سے ہوائی جہاز کی کھڑکی سےجھانک کر اپنی زمین کو دیکھنے میں کتنا فخر ہوتا ہے، کتنا خوبصورت نظارہ ہے۔ کبھی جہاز سے زمین پاس نظر آتی ہے، کبھی دور سے پیڑ، ندی نالے، گاڑیاں جیسے چھوٹے چھوٹے کھلونے سے لگنے لگتے ہیں، نہ جھرنے دیکھتے ہیں نہ پانی ، نہ اونچی اونچی عمارتیں سب، مانو قدرت نے کیاریاں بنادی ہوں۔ اونچے اونچے لحیم شحیم پہاڑ جانے کہاں کھو جاتے ہیں ہم انہیں ڈھونڈ نے کی غرض سے کھڑکی سے ایک پلک بھی نہیں جھپکاتے۔ ٹرین میں یوں نیند نہیں آتی کہیں پلٹ نہ جائے یہی سوچتی رہ جاتی ہوں کہ اب پلٹی تب پلٹی جیسے ہم اسے پلٹنے سے بچاہی لیںگے۔ یا پھر ایک اچھے چوکیدار کا رول نبھاتے ہیں ساری رات جاگ کر، میں ہی اسے روک لوںگی بنا پیسوں کے، کہیں کوئی چور نہ گھس آئے بار بار اٹھ کر سامان چیک کرتی ہوں، کب صبح ہو جاتی ہے پتہ ہی نہیںچلتا۔

اب آتی ہے باری سب سے بڑھیا سواری کار کی۔ کار بھی ہماری دشمن ہے۔ مزا تو بہت آتا ہے مگر نیند نام کی چیز نہیں آتی۔ سونے پر سہاگہ اگر میں غلطی سے کنڈکٹر سائڈ میں بیٹھ گئی تو اور نیند کوسوں دور بھاگ جاتی ہے۔ ’ملکھا سنگھ کی طرح‘ کیونکہ ہم کو ڈرائیور کی طرح ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ سامنے اسپیڈ بریکر کو دیکھنا، اگر بنگلور میں گاڑی چلا رہے ہوں تو آپ بھول جائیے کہ سونا کس بلا کا نام ہے، ڈرائیور کو کبھی جوس کا ڈھکن کھول کر دینا، کبھی پانی دینا۔ یہ سب ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے کنڈکٹر کا کام ہوتا ہے جو ہر کوئی انجام نہیں دے پاتا اور سب سے ضروری کام ہوتا ہے باتوں میں لگا کر رکھنا کہ کہیں ڈرائیور صاحب کو نیند نہ آ جائے۔ ویسے ہم ممبئی سے بنگلور ایک دن میں بھی پہنچ چکے ہیں سوچئے کیا ہال ہوا ہوگا ڈرائیور اور کنڈکٹر کا جو انہوں نے اپنی نیندوں کو آنکھوں میں قید کرکے گاڑی کو منزل تک پہنچائی ہوگی، گاڑی میں ایک سہارا اللہ کا ہوتا ہے۔ دوسرا میوزک کا جو دونوں کو نیند سے دور رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ مجھے تو رات میں جاگنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ پوچھئے کیوں...؟ وہ اس لیے کیونکہ کمبخت موبائل نے ہمیں نیند سے دور کر دیا ہے۔ جب تک یوٹیوب پر ہم کوئی ویڈیو یا کام کی چیز دیکھ یا سن نہ لیں، ہمیں تو نیند نہیں آتی ہے۔ اس لیے پہلے ٹی وی ایڈیٹ باکس کہا جاتا تھا اور اب موبائل، لیکن موبائل ہمارا دوست اور دشمن دونوں ہی ہے، جولوگ دور ہیں ان سے ملاتا بھی ہے اور ان سے جدا بھی کر دیتا ہے۔ گھر میں جتنے لوگ ہوتے ہیں اتنے ہی موبائل بھی ہوتے ہیں۔ ہر ایک اسی میں لگا رہتا ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ گھر میں ایک کمرے سے میاں بیوی سے فون کر کے پوچھتا ہے بیگم کیا کر رہی ہو (آواز نہ آنے پر) اس سفر میں نیند میں ایسی کھوگئی، مانو ساری رات تھک کر سوگئی، راہی معصوم رضا:

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی غالب

موبائل بھی کتنا بھوکا ہوتا ہے، ہمارے سارے جی بی (GB) کھا جاتا ہے ساتھ ہی ہمارا قیمتی وقت بھی کھا جاتا ہے۔ ہماری نیند بھی تو اسی کمبخت موبائل نے کم کی ہے، ورنہ وہ بھی کیا دن تھے، جب ہم چادر تان کر سوتے تھے:

آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا

آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی

 (اقبال اشہر)

کچھ بیچارے لوگوں کو تو بنا دوالیے نیند کی گولیاں ان کی زندگی کا سہارا بن جاتی ہیں۔ اگر وہ دوا نہ لیں تو پھر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔انسومینیا (Insomnia) نام کی بیماری ہو جاتی ہے۔ آنکھوں کے چاروں طرف کالے حلقے پڑ جاتے ہیں۔

اب سناتی ہوں وہ قصہ جس کی وجہ سے میرے قلم نے مجھے لکھنے پر مجبور کر دیا۔ بات ان دنوں کی ہے جب میرے شوہر سرکاری نوکری کرتے تھے۔ ان دنوں سرکار نے ایک مہم چلائی تھی کہ سارے سرکاری کرمچاری چاہے وہ چپراسی ہوں یا کمشنر سب کو اپنی ایک چھاپ دینی ہوتی تھی انگوٹھے سے اپنے آنے جانے کی اطلاع کریں گے یعنی ایک مشین پر انگوٹھا چھاپنا ہوتا تھا جیسے سرکاری دستاویز پر انگوٹھا چھاپا جاتا ہے۔ پہلے ان پڑھ لوگ لگاتے تھے بعد میں سب کو لگانا ضروری ہوگیا تھا۔ خیر ان کو صبح اور شام جانا پڑتا تھا۔ صبح انگوٹھا چھاپنے اور شام کوٹریننگ والے بچوں کا سپر ویژن تھا۔ تب ہم نوئیڈا سیکٹر ۴۷ میں رہتے تھے اور ان کو اندرا گاندھی اسٹیڈیم جانا ہوتا تھا۔ ہم دونوں ہی ساتھ جاتے تھے۔ اس دن بیٹا اپنی ٹریننگ پوری کرکے آیا تھا اس لیے میں ان کے ساتھ نہیں گئی۔ یہ دونوں وقت گاڑی سے جاتے تھے بلکہ کئی بار تو میں ان کے ساتھ صبح کھانا بنا کر لے جاتی تھی اور ہم لوگ وہیں بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ سارا دن وہیں گزارتے تھے، وہاں کافی لوگوں سے دوستی بھی ہوگئی تھی۔ بچوں کے ماں باپ سے وہاں ان کے ساتھ سی پی گھومنا، کہیں بھی جانا تھا پھر کسی نہ کسی کا برتھ ڈے منانا تھا اور شام کی چائے کے لیے سامان بھی لاکر رکھا تھا تاکہ خود بھی پئیں اور اوروں کو بھی پلائیں۔ یا کسی کو کوئی پرابلم ہوئی تو اس کو دور کرنا۔ عید پر کبھی اسٹیڈیم کے لوگوں کے لیے دہی بڑے اور سویوں کا زردہ بنا کر لے جانا ،سال میں دو بار بڑا مزہ آتا تھا۔ ایک پکنک سی ہو جاتی تھی۔ وہ لوگ بھی کچھ نہ کچھ بنا کر لاتے تھے اور ہم لوگ مل کر سب کو کھلاتے تھے۔ اس دن میں نہیں گئی تھی۔ جب وہ واپس آئے تو کہنے لگے گاڑی ٹکرا گئی، یہ اکثر یہ کام کرتے تھے تو زیادہ توجہ نہیں دی اور انہوں نے بھی بڑے آرام سے کہا۔ یہ کچھ کہنے ہی والے تھے کہ اچانک گھنٹی بجی دروازے پر۔ پہلے ایک گھنٹی بجی پھر دوسری، جب تک گیٹ کھولنے گئی گھنٹیوں کا طوفان برپا کر دیا گیا تھا، گیٹ کھولا تو دیکھا... یہ کیا؟ ایک آدمی کی جگہ کئی سارے لوگ۔ اس میں عورتیں بھی تھیں، میں سوچ میں لگ گئی کہیں آج ہولی تو نہیں، اُسی محلے کے لوگ اکٹھا ہو کر آتے ہیں لیکن وہ لوگ تو آپے سے باہر ہوگئے تھے۔ بدتمیزی اور گالیوں کی بوچھار شروع کردی۔ ہم نے ماجرہ پوچھا لیکن وہ لوگ آپے سے باہر تھے، کچھ سننے کو تیار نہیں تھے، انہیں بولنے نہ دیں۔ ان میں سے ایک صاحب تھوڑے نارمل سے لگ رہے تھے تو ان سے ساری کیفیت معلوم ہوئی۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ صاحب ہم نے کیا قصور کیا تھا، گاڑی تو ہمارے گھر کے سامنے پارکنگ میں کھڑی تھی اور اسے آکر ٹھوک دیا۔ پھر انہوں نے الگ لے جاکر سارا ماجرہ بتایا کہ جیسے ہی میں سائن کا انگوٹھا لگا کر واپس اپنے سیکٹر میں گھسا ہی تھا، گیٹ سے ذرا آگے ہی تھا تبھی دھڑام سے ایک زور دار آواز آئی اور میری آنکھ کھل گئی۔ میری آنکھ لگ گئی تھی، آنکھ کھول کر دیکھا تو میری گاڑی سے ایک گاڑی ٹکراگئی ہے اور پاس کی ایک دیوار جو دوسری کوٹھی سے لگی تھی اس دیوار کو توڑتی ہوئی دوسری گاڑی سے جاٹکرائی۔ جیسے ہی یہ ٹکر ہوئی میں گاڑی لے کر گھر کی طرف بھاگا تبھی ایک بائک پر ایک آدمی پیچھا کرتا ہوا آیا اور گاڑی کھڑی دیکھ کر لوگوں کو لے آیا۔ وہ لوگ بد تمیزی سے بات کر رہے تھے۔ باہر نکل... باہر نکل تبھی میرا بیٹا باہر آیا۔ میں نے اسے اندر کرکے باہر سے کنڈی لگادی۔ اگر ایسا نہ کرتی تو وہ لوگ غصے میں تھے یقیناً میرے بیٹے کو مارتے، تھوڑی دیر میں کسی نے پولیس بھی بلالی تھی اور RWA کا سکریٹری بھی وہاں آپہنچا تھا۔ ہمارا مالی بھی ہماری حمایت لے رہا تھا۔ کافی سمجھا رہا تھا کہ معاف کر دو، میں نے بھی معافی مانگی۔ انہوں نے یہ کہہ دیا کہ میں ہارٹ پیشنٹ ہوں، اس سے ان کو اور تاؤ آگیا پھر تو آپ کو بالکل نہیں چلانی چاہیے، وہ بس یہی کہے جارہے تھے کہ ایک لاکھ روپیہ دو۔ میرے بیٹے نے بھی اپنے دوستوں کو بلا لیا۔ ان کا ٹریننگ والا لڑکا اور پولیس والا بھی آگیا تھا۔ پولیس کہہ رہی تھی کہ ان کو پیسے دے دو ورنہ گاڑی اندر کر دوں گا۔ خیر ہماری طرف سے بھی کچھ لوگوں نے سمجھایا کہ چلو ہم آپ کا جتنا نقصان ہوا ہے پورا کر وا دیتے ہیں۔ گاڑی کو آپ ٹھیک کر دو۔ اس میں سے ایک عورت بولی دیکھو میری بہو جہیز میں لائی تھی ابھی کچھ مہینے پہلے۔ بعد میں ہمیں خیال آیا کہ ہم اسے پھنسا سکتے تھے کہ آپ کو پتہ نہیں کہ جہیز لینا اور دینا دونوں جرم ہے۔ اس سے ہمارے پیسے بھی بچ جاتے اور عزت بھی اور وقت بھی۔ خیر ایک لاکھ روپیہ سب ملا کر دینا پڑا دو گاڑی والوں کو، پولیس کو اور RWA والوں کو۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو جیسے ہی اپنی گاڑی کے پاس گئے تو دیکھتے ہیں اس کا تو جغرافیہ ہی بدلا ہوا ہے۔ بیچاری لاچار کھڑی تھی بے زبان سی۔ کہ تم لوگوں نے مجھے تو دیکھا ہی نہیں۔ اس کا چہرہ بدشکل ہو چکا تھا، مڈگاڑڈ ہلکا سا ٹکا رہ گیا تھا، پینٹ چھوٹ گیا تھا اسٹیرنگ وہیل ٹیڑھا ہوگیا تھا۔ سائلنسر بھی بھنو بھنو کر رہا تھا خیر اسٹارٹ تو ہوگئی تھی۔ پھر انہوں نے موٹر گاڑی کے ڈاکٹر کو فون کیا جو ان کے جاننے والے ہیں وہ کہیں بھی ہوتے ہیں پوری دہلی میں یا NCR میں ہماری گاڑی ہمیشہ ان کے پاس ہی جاتی ہے۔ چاہے کوئی بیماری کی مرمت کرنی ہو یا پھر چیک اپ یا Service کے لیے۔ وہ دوست آج کل گڑگاؤں میں ہیں۔ ان سے بات ہوئی سارا قصہ سنایا تو انہوں نے اپنا ڈرائیور بھیج کر نوئیڈا گاڑی منگوائی۔ گاڑی ابھی دھب دھب میوزک کے ساتھ گئی ہی تھی کہ ڈرائیور کا فون آیا صاحب گاڑی بہت بیمار ہے آگے نہیں چل سکتی، کمزوری آگئی ہے، پھر انہوں نے ٹچن والی گاڑی بھیجی اور اسے گاڑیوں کے اسپتال تک پہنچایا گیا۔ کئی دنوں کے بعد ہماری گاڑی دلہن کی طرح سج سنور کر واپس آگئی۔ بس ۴۵۔۵۰ہزار اور دینا پڑا۔ بس یہ شکر ہوا ان کوکچھ نہیں ہوا اور ان کے موبائل کو۔ تو اس طرح چکانی پڑی نیند کی قیمت، نیند واقعی بہت قیمتی ہوتی ہے:

’’تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب‘‘

وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب

 (مومن)

.......

C-2،لین نمبر-6، نزدجامع مسجد بٹلہ ہائوس،

جامعہ نگر، نئی دہلی-110025

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...