Wednesday, June 7, 2023

جدید افسانہ اور جدیدیت کی سیر

جدید افسانہ اور جدیدیت کی سیر

 ڈاکٹر عشرت ناہید 

اردو ادب کے مختلف میدانوں میں حیات اللہ انصاری کی خدمات کا جائزہ لینے پر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان میدانوں میںانہوں نے نہ صرف گراں قدر خدمات انجام دی ہیں بلکہ اپنی فہم و فراست، فنی و فکری بصیرت اور غیر معمولی تخلیقی صلاحیت اور قدرت بیان سے اردو کے افسانوی ادب میں قابل قدر اضافے کیے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے علم و ادب کے دوسرے شعبوں میں بھی اپنے جوہر دکھائے ہیں۔ ان میں سے ایک تنقید بھی ہے۔ ویسے تو تنقید و تخلیق کے گہرے تعلق کے پیش نظر ہر تخلیق کار تنقید کے عمل سے بھی گزرتا ہے لیکن ایک انفرادی اور امتیازی نوعیت کے ادبی عمل کے طور پر حیات اللہ انصاری نے اردو شعر و ادب کے مختلف موضوعات پر اظہارِ خیال کرکے اپنی تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔ ان کی تنقید نگاری کے ذیل میں ان کے بہت سے مضامین اور مقالے رکھے جا سکتے ہیں جو مختلف اوقات میں اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے اور ادبی جلسوں میں پڑھے گئے لیکن اس سلسلے میںان کی تصنیف ’’جدیدیت کی سیر‘‘قابل ذکر ہے۔ چھ طویل تنقیدی مضامین پر مشتمل یہ کتاب ۱۹۸۷ء میں کتاب دان لکھنؤ سے شائع ہوئی۔ اس کے مضامین دو حصوں میں منقسم ہیں۔ حصۂ نثر اور حصۂ نظم۔ جدیدیت کی سیر میں شامل مضامین کے مطالعے سے حیات اللہ انصاری کی تنقیدی بصیرت کا پتہ چلتا ہے اور ناقدانہ صلاحیت اور ادبی نظریات کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس میں شامل مضامین میں سے بیشتر جدید ترین ادبی تخلیقات کو اپنے دائرۂ تنقید میں لیے ہوئے ہیں۔ حصۂ نثر میں پانچ مضامین بعنوان ’’افسانے میں دیو مالا‘‘، ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ از سریندر پرکاش صاحب، ’’ جمغورہ الفریم ‘‘ ازسریندر پرکاش، ’’کمپوزیشن دو‘‘از بلراج مینرا اور ’’`افسانوی ادب کا مرتبہ‘‘۔ حصۂ نظم ن۔م۔ راشد پر لکھا گیا ہے۔ جس میں ’’پہلی بات‘‘ ن۔م راشد کی شاعری اور ان کے شعری مجموعے ’’ماورا‘‘ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ 

اس کتاب کے منظر عام پر آنے پر اس کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی اس کی ایک بڑی وجہ ادبی تنقید پر ترقی پسندانہ نظریات کی بالا دستی قرار دی جا سکتی ہے۔ حیات اللہ انصاری نے اپنے تنقیدی عمل کے بارے میں ’’جدیدیت کی سیر‘‘میں لکھا ہے:

آزادی کی جدوجہد کا میں ایک سپاہی رہ چکا ہوں اور دیکھ چکا ہوں کہ عدم تشدد کے نظریے نے کس طرح ایک عظیم الشان سامراج کو بے بس کرکے ختم کر دیا اور ہندوستان کو آزادی دلادی پھر امریکہ میں مارٹن لیوتھر کنگ سے میں ۱۹۶۰ء میں ملا۔ وہ کالوں کے حقوق حاصل کرنے کے لیے گاندھی جی کے عدم تشدد کے اصول پر لڑ رہے تھے اور کامیاب ہو رہے تھے۔ ان کی جنگ ان کی شہادت کے بعد بھی جاری رہی اور کامیاب ہوتی رہی۔ یہ سب ٹھیک ہے لیکن اب ہندوستان کو آزادی تو مل گئی ہے اور وہ دھیرے دھیرے ہر میدان میں آگے بھی بڑ ھ رہا ہے لیکن ابھی ان گنت مسائل حل ہونے کو باقی ہیں اور نئے مسائل برابر پیدا بھی ہو رہے ہیں۔ اگر کوئی نظریہ ایسا مل جائے جو ان سب کو نہیں تو آدھے یا چوتھائی مسائل کو ایک جست میں حل کر دے یا اس کا راستہ بتا دے یا کم سے کم ایسی سوجھ بوجھ دے دے کہ لوگ راستہ خود نکال لیں۔ توکیا کہنا! 

اس نقطۂ نظر سے میں جدیدیتی ادب پاروں کا مطالعہ کرنے لگالیکن وہ کسی طرح بھی سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ مشکل یہ تھی کہ اس فن کے امام ان کی تشریح جس طرح کرتے تھے وہ اس کو اورالجھا دیتی تھی۔ میں حیرت زدہ تھا کہ مسائل کے حل کرنے والے نظریوں کو پیش کرنے کا یہ کون سا طریقہ ہے۔ 

ادیبوں سے میرے تعلقات کافی رہے ہیں میں ان سے الگ الگ بھی اور مجمعوں میں بھی درخواست کرتا رہاہوں کہ مہربانی کرکے آپ میں سے کوئی صاحب مجھے کوئی مستند جدیدیتی ادب پارہ سمجھادیں لیکن زیادہ تر تو یہ کہتے تھے کہ جب وہ خود نہیں سمجھے ہیں تو سمجھائیں گے کیا، لیکن ان میں جو جدیدیت کے حامی تھے وہ مجھے جھکائیاں دے کر نکل جاتے تھے۔ میں متحیر تھا کہ جو نظر یے ہم ایسے لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں وہ سماج کی دشواریوں کو کیوں کردور کر سکتے ہیں اور وہ ادب بھی کیا جو صرف گنے چنے لوگوں کی سمجھ میں آئے۔ (جدیدیت کی سیر ۔۷-۸)

جدید شہ پاروں کو سمجھنے کی غرض سے حیات اللہ انصاری چاہتے تھے کہ اس فن کے فن کار نمونے کے طور پر ہی سہی چند فن پاروں کی نشریح عام فہم انداز میں کریں تاکہ پڑھنے والوں کی سمجھ میں آجائیں اور وہ اس ادب سے براہ راست استفادہ کر سکیں ۔ان کا خیال تھا کہ تقریباً پچیس سال سے زائد مدت گزر جانے کے بعد بھی جدید ترین ادبی تخلیقات قاری کے لیے معمہ بنی ہوئی ہیں اور ان میں جو نادر خیالات پیش کیے گئے ہیں ان کے پڑھنے والے سماج کو ابھی تک کسی نہج سے بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ ان فن پاروں سے ہمارے ذہن و فکر میں اجالے ہو سکتے اور ہم اپنے کردار اور سماج کو نکھار و سنوار سکتے یا اس کی جدوجہد تو کر ہی سکتے ہیں ۔ نصف صدی کا عرصہ کسی تحریک کو اعتبار عطا کرنے کے لیے کم نہیں ہوتا ہے۔ جدید ادب کی اشاعت کا یہ خلاصہ یقیناً ہر لحاظ سے قابل توجہ ضرور ہے۔ غرض یہ کہ ان غور طلب و جوہات کی بنا پر حیات اللہ انصاری نے جدید ادب کے فن پاروں میں سے چند کو اپنے طور پر غور و فکر کرنے کے لیے منتخب کیا اور ادب فہمی کے اصولوں کے مطابق ان پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ افسانوی ادب میں راجندر سنگھ بیدی کے افسانہ ’’گرہن‘‘ میں جنسیات پر زور دینے کی بنا پر اس خیال کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ اس میں دیو مالا کھپائی گئی ہے۔ جدید افسانوں میں دیو مالا کا کھپانا خود محل نظر تھا مگر حیات اللہ انصاری اس افسانے پر اظہارِ خیال سے پہلے یہ اعتراف کرتے ہیں :

’’بحث سے پہلے یہ بتادینا ضروری ہے کہ میں بیدی کو بہت پسند کرتا ہوں اور ان کے بعض افسانوں کو اردو میں شاہکار کا درجہ دیتا ہوں۔ بیدی صاحب میں فکر بھی ہے، استدلال اور توازن بھی۔‘‘ (جدیدیت کی سیر ،ص: ۱۵)

گرہن کی کہانی یہ ہے کہ ہولی اپنی ساس اور شوہر سے پریشان رہتی ہے اور چاند گرہن دیکھ کر اس کے من میں اپنے میکے جانے کی خواہش اتنی شدید ہو اٹھی کہ وہ اپنے چار بچوں اور گھر بار کو چھوڑ کر حاملہ ہونے کی حالت میں گھر سے فرار ہوجاتی ہے۔ وہ جس لانچ میں میکہ جانے کے لیے بیٹھتی ہے اس کا ٹکٹ لینے کو بھی اس کے پاس پیسے نہیں تھے۔ اس کی اس حالت کا فائدہ اٹھا کر ایک بد معاش اس کو اپنے ساتھ سرائے میں لے جاتا ہے اور اس کی عزت لوٹ لیٹا ہے یعنی اس زمین کے چاند میں بھی گرہن لگ جاتا ہے۔ 

اس کہانی کا تنقیدی تجزیہ کرتے ہوئے حیات اللہ انصاری نے بڑے استدلال کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ وہ اس افسانہ میں کسی بھی طرح زمین کے چاند ہولی کو مظلوم یا بے بس نہیں پاتے ہیں، نہ ساس کے مظالم بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور نہ شوہر کا سلوک اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ ہولی پر ظلم روا رکھا جاتا تھا ۔اس کا گھر افسانے کے مطابق عام کائستھوں کے گھر کی طرح روایتی تھا اور عام شکر رنجیاں اس خاندان کے افراد میں بھی رائج یا عام تھیں۔ افسانے کا تجزیہ کرتے ہوئے آسمان کے چاند کو جس طرح راہو، کیتو پریشان کرتے دکھائی دیتے ہیں اس طرح زمین کے اس چاند ہولی کو نہ تو اس کا شوہر اور نہ ساس ہی راہو کیتو کی طرح پریشان کرتی نظر آتی ہے اور حالات تو اتنے صاف بتائے گئے ہیں کہ اپنے بچوں اور گھر والوں کے لیے ہولی خود ایک عذاب ثابت ہوتی ہے ۔وہ افسانے میں دیو مالا کھپانے کی کوشش کو اپنے دلائل کے ساتھ نا کام ثابت کرتے ہوئے ہولی کے فعل کو حماقت قرار دیتے ہیں۔ وہ آسمان کے چاند کی خوبی خوبصورتی کے علاوہ پاکیزگی کو قرار دے کر ہولی کے کردار کو سفلی اور حماقت پر مبنی بتاتے ہیں اور کسی بھی طرح کی ہمدردی کی مستحق اس کو نہیں مانتے ہیں اس لیے گرہن کا اطلاق اس پر کرنا زیادتی ٹھہراتے ہیں۔

حیات اللہ انصاری کے نزدیک جدیدیت پسندوں کی نامانوس علامتیں بھی کبھی ادب کا حصہ بننے والی نہیں ہیں۔ ان علامتوں کو پڑھنے والوں کی سمجھ سے بالا تر بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس کے مفہوم تک جب قاری کی رسائی آسان نہ ہو تو پھر نتیجہ اخذ کرنا تو مزید دشوار تر ہی ہو جاتا ہے:

اگر اپنا کہا آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے

مزہ کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے

دوسرا افسانہ سریندر پرکاش کا’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ ہے۔ سریندر پرکاش کا شمار جدید ادب کے تخلیق کاروں کی صف اول میں کیا جاتا ہے اور ان کا یہ افسانہ جدیدیت پسند حلقے میں کافی مشہور بھی رہا ہے۔ افسانے کا خلاصہ یہ ہے کہ زندگی کی کشمکش سے اکتا یا ہوا ایک شخص جو کہ افسانے کا ہیرو ہے سکون اور عرفان ذات کی تلاش میں ایک مکان میں داخل ہو جاتا ہے اور اس مکان کے ڈرائنگ روم میں آکر وہاں رکھے ہوئے گلدان کو چھو کر دیکھتا ہے۔ وہاں موجود آتشدان سے وہ اپنی ذات کے بجھے اور گزرے زمانے کی یاد تازہ کرنے لگتا ہے۔ اس کا ہاتھ ایک تصویر سے ٹکراتا ہے جس سے وہ گر جاتی ہے۔ وہ اس کو دیکھتا ہے۔ اس میں ایک مرد ایک عورت اور ایک بچی مسکراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسے یاد آتا ہے کہ کبھی اس نے یہ تصویر کھنچوائی تھی۔ اس کے ذہن میں جنسی جذبہ بھی ابھرتا ہے اور اس کی علامت کے طور پر ایک سانپ کا نکل کر بیڈ روم میں داخل ہونا ہے۔ وہاں عورت انگڑائی لیتی دکھائی دیتی ہے اور بچی کھیلتی نظر آتی ہے۔ بر آمدے میں ایک اندھے شخص کی لاٹھی لے کر چلنے کی آواز سنائی دیتی ہے وہ اس آواز کو سن کر اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے مگر لاٹھی ٹیکنے کی آواز دور ہوتی جاتی ہے اور موڑ پر غائب ہو جاتی ہے۔ بار بار وہ آواز آتی ہے اور دور ہو جاتی ہے۔ اس لاٹھی والے شخص کو ہیرو نہ تو پوری طرح دیکھ پاتا ہے اور نہ ہی اس سے ملنے کی شدید خواہش کبھی پوری ہوتی ہے۔ عرفان ذات کی محرومی اس کا غم بن کر ابھرتی ہے۔ کمرے میں کانسے کا مجسمہ بھی ہے جِسے گزرے ہوئے زمانے کی علامت کے طور پر دکھایا گیا ہے مگر اس میں روح ختم ہو چکی ہے۔ ہیرو زندگی سے ملاقات چاہتا ہے۔ ڈرائنگ روم میں یہ خیال بھی ابھرتا ہے کہ یہ سب کچھ تمہارا ہی تو ہے مگر اب دیر ہو چکی ہے۔ یہاں پہنچ کر ہیرو سوچتا ہے کہ میں اپنے عہد کو، اس کی پرانی یادوں کو صرف دیکھ سکتا ہوں اس میں ہونے والی تبدیلیوں کو روک نہیں سکتا۔ اپنی بے بسی پر ماتم کرتے ہوئے وہ کہتا ہے اگر کوئی بے سہارا کشتی ایسے ماحول میں نظر آجائے تو سمجھنا وہ میں ہوں۔ 

سریندر پرکاش کے شارح لتا داس افسانے میں آتشدان کی آگ بجھ جانے کو پرانی قدروں کے زوال سے نکالتے ہیں اور صنعتی کلچر کے بے جان ہونے کا اشارہ دیتے ہیں جب کہ افسانہ میں ایسی علامت واضح نہیں ہے کہ جنہیں صنعتی کلچر کی بے وزنی سمجھا جا سکے، نہ کسی تہذیبی ٹکرائو کا کوئی حوالہ یا ذکر ہے پھر جو کلچر ڈرائنگ روم میں پیش ہوا ہے وہ تو نئے دور کا ہے بھی نہیں۔ یہاں آتشدان ہے، بارہ سنگھے کا سر لٹکا ہوا ہے اور تیر کمان ٹنگے ہوئے ہیں، کانسے کا مجسمہ ہے یہ سب فارغ البالی کے قدیم کلچر کی نمائندہ اشیا ہیں۔ 

حیات اللہ انصاری اس افسانے پر اظہارِ رائے کرتے ہوئے اپنی تنقید کا آغاز گوپی چند نارنگ کی اس تحریر کے حوالے سے کرتے ہیں جو ڈاکٹر نارنگ نے اپنی کتاب ’’اردو افسانہ روایات و مسائل‘‘ میں شامل مضمون ’’اردو میں علامتی اور تجریدی افسانہ و بلراج مینرا اور سریندر پرکاش‘‘ میں کی ہے۔

’’سریندر پرکاش کے افسانوں میں داستان کی سی واقعیت ہے اور قصے کی سی کشش ہے لیکن جو لوگ رسمی معنی میں ابلاغ کا ماتم کرتے رہتے ہیں ان کے بارے میں سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے انھیں اپنی تخلیقی نارسائی اور کم فہمی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔‘‘ 

اس اقتباس کے متعلق حیات اللہ انصاری لکھتے ہیں:

’’آخر والے معصوم جملے کو اگر کھری زبان میں کہا جائے تو یوں ہوگا `اپنی کم فہمی پر ماتم کرنا چاہیے‘‘۔

وہ آگے لکھتے ہیں:

’’میرا شمار پچیس برس تک ان ہی لوگوں میں رہا ہے جن کو اپنی کم فہمیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا اور سچی بات تو یہ ہے کہ میں واقعی اپنی فہم پر ماتم کرتا رہا کیوں کہ میں جدیدیت کا ایک بھی شاہکار سمجھ نہیں پایا۔(جدیدیت کی سیر ،ص: ۶۵)‘‘ 

افسانے کا تجزیہ کرتے ہوئے حیات اللہ انصاری نے گو پی چند نارنگ کے مضمون پر زیادہ خیال آرائی کی ہے نفس مضمون پر توجہ کم دی ہے وہ لکھتے ہیں:

’’جدیدیت کے امام جدیدیت کے اصول یہ بیان کرتے ہیں کہ اس میں مصنف خود کو تمام نظریوں سے پاک کرکے اپنے اندر ڈوب کر اپنی ذات کا مشاہدہ و مطالعہ کرتا ہے اور اپنا خود تجزیہ کرتا ہے اور اس مشاہدے، اور مطالعے اور تجزیے سے جو عرفان میسر آتا ہے اس کو انہی الفاظ میں پیش کرتا ہے جن میں وہ ابھرتے ہیں۔

اس افسانے کے مصنف سریندر پرکاش صاحب نے یہ سب کام اس ا فسانے میں بہت خوبی سے انجام دیے ہیں۔ (جدیدت کی سیر،ص:۷۴)

افسانے میں ابہام کی بہتات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:

’’اب یہ کمال ہے سریندر پرکاش صاحب کا کہ انہوں نے ابہام کے آرٹ کو اس خوبصورتی سے استعمال کیا کہ ایک سادی سی چیز جدیدیت کا شاہکار بن گئی۔‘‘(جدیدت کی سیر،ص: ۸۱) 

حیات اللہ انصاری نے افسانے اور گوپی چند نارنگ کی تنقید سے نتیجہ نکالا ہے کہ ہیرو ڈرائنگ روم میں نہیں ہے بلکہ ڈرائنگ روم اس کے اندر ہے۔ جدیدیت کے اماموں کے اصولوں کے مطابق وہ اپنے من میں ڈوب کرسراغ زندگی پانے کی کوشش اس طرح کرتا ہے کہ اس کے تصور میں سجا ہوا ڈرائنگ روم ابھرتا ہے۔ اس کی تمام سجاوٹ کی اشیا ہیرو کو اس کا ماضی یاد دلا دیتی ہیں۔ وہ یہاں مسرور حالت میں آتا ہے اور اندھے کی لاٹھی ٹیکنے کی آواز سے غمزدہ ہو جاتا ہے۔ زندگی کا بحر بے کنار اور غم و الم کا شکار ہیرو عرفان ذات سے محروم ہوکر اپنے آپ کو بے بس و بے سہارا کشتی سمجھ کر کہنے لگتا ہے کہ اگر ایسی بے سہارا کشتی ساحل تک آجائے تو سمجھنا یہ میں ہوں۔ ہیرو مایوسی کا مظاہرہ کرتا دکھائی دیتا ہے اس پر حیات اللہ انصاری لکھتے ہیں :

’’سریندر پرکاش کا کمال یہ ہےکہ اس نے زبان سے ایک بار بھی نہیں کہا لیکن پڑھنے والے کو ڈنکے کی چوٹ سمجھا دیا کہ جدیدیت میں عرفان کا مشورہ دیا جاتا ہے وہ سراب ہے۔‘‘ 

آخر میں وہ اس حقیقت کو بھی بے نقاب کر دیتے ہیں:

’’میں نے سریندر پرکاش اور مینرا صاحبان کو رجسٹری سے خطوط بھیجے تھے کہ آپ کے فلاں فلاں افسانوں کے بارے میں نے ایسا ایسا لکھا ہے۔ اگر میرے مضمون کے پہلو بہ پہلو آپ کے افسانے بھی شائع ہو جائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اس لیے براہ کرم ان کی اشاعت کی اجازت مرحمت فرمائیے، لیکن مجھے اپنے خطوں کا کوئی جواب نہیں ملا۔‘‘ (جدیدیت کی سیر،ص:۹۰)

جدیدیت کے سلسلے میں حیات اللہ انصاری نے اپنے تنقیدی مضامین میں جن افسانوں پر تبصرے یا اظہارِ خیال کیا ہے ان میں مدلل پیرائے میں افسانوں کے ساتھ ان کے شارح گوپی چند نارنگ پر بھی کھل کر تنقید کی ہے۔ سریندر پرکاش کے ایک اور افسانہ ’’جمغورہ الفریم‘‘ پر وہ عبرانی لاطینی عہد اور ماضی سے نکل کر حال تک کے ادوار کا تجزیہ کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جدیدیت کی رو میں کس طرح بات کو الجھا کر معنی کو ناقابل فہم بنایا گیا ہے۔ قلقار مس کہانی کے ایک کردار نو تیج دوسرے کردار حامد مرزا اور پر بل کمار کے ذریعہ علامتوں اور استعاروں کا طول طویل سفر پورا کرایا گیا ہے۔ اس سفر سے حاصل صرف یہ ہونا بتایا گیا ہے کہ نئی نسل جدیدیت کے ماضی، حال اور اس کے ساتھ ساتھ مستقبل سے بھی مایوس نظر آتی ہے یعنی اس ادب پارے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو پاتا ہے۔

بلراج مینرا کا افسانہ ’’کمپوزیشن دو‘‘پر حیات اللہ انصاری نے تنقید کرنے کا سبب اپنی نا فہمی کو قرار دیا ہے اور گوپی چند نارنگ کے تبصرے کو اپنے خیالات کے اظہار کی تحریک کا سبب قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’میں بلراج مینرا کو زبر دست جدیدیتی سمجھتا ہوں کیونکہ پڑھو تو افسانے کچھ دلچسپ معلوم ہوتے ہیں اور ایسا بھی لگتا ہے جیسے مصنف صاحب کوئی گہری بات کہنا چاہتے ہیں لیکن چاہے جتنی بھی بار پڑھ جائو پلے کچھ نہیں پڑتا۔ میں نے سوچا کہ لائو `کمپوزیشن دو'کو جس میں کہ جدیدیتی خصوصیات بڑی گہری ہیں پہلے لے لوں۔‘‘(جدیدیت کی سیر،ص: ۱۰۸)

افسانے میں موت کے فرشتے اور ایک ایسے شخص کی کہانی فنی تکنیک سے بیان کی گئی ہے موت کا فرشتہ کہتا ہے: 

’’میرا کام ہی ایسا ہے۔ بھری برسات میں، جھلستی گرمی میں، ٹھٹھرتی سردی میں اور کھلتے اٹھکھیلیاں کرتے موسم میں، وادیوں میں، ویرانوں میں، جنگ کے میدانوں میں، اسپتالوں میں، سونے چاندی کے گھروں میں، گھاس پھوس کے جھونپڑوں میں، صبح و شام، ہر گھڑی، چند لمحوں کی عمر کے بچوں کو، سترہ سال کی محو خواب لڑکی کو، پچیس سال کے کڑیل جوان کو، اسّی سال کے بڈّھے کھوسٹ کو، شرافت کے مجسمے کو، کمینگی کے پتلے کو بھولے بھالے کو، چالاک کو میں موت کا فرشتہ ہوں۔میں ہر کسی کے پاس جاتا ہوں اور اسے لے آتا ہوں آپ مجھے جانتے ہیں پہچانتے نہیں۔‘‘

اور انسان کے متعلق افسانے میں بتاتے ہیں کہ اس کی کائنات محض ایک کمرہ ہے جس کی ہر چیز سیاہ ہے اس سیاہی سے جو معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں وہ لا علمی، جہالت، مایوسی وغیرہ ہی ہو سکتے ہیں۔ وہ انسان جِسے حیات اللہ انصاری جدیدیت کا نمائندہ کہہ کر اس کی تحریروں کو رائے عامہ کے سامنے پیش ہونے پر مسترد کردینے تک دلچسپ دلائل کے ساتھ قلم بند کر دیتے ہیں وہ دو ٹوک الفاظ میں لکھتے ہیں:

’’کہانی بھر پور استدلال اور جذباتی طاقت سے یہ ثابت کرتی ہے کہ جدیدیت کے دارو مدار علوم پر جو نظریوں سے مرکب ہوتے، قطعی نہیں ہوتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جدیدیتی شاہکار مصنف کی ایسی ذاتی نظر سے تعمیر ہوتے ہیں جو سراسر غیر علمیت پر مبنی ہوتی ہے۔ عوام ایسے ایسے شاہکاروں کی نا معقولیت کو پکڑ لیتے ہیں اور پھر ایسے شاہکار کو قتل کر دیتے ہیں یعنی یکسر مسترد کر دیتے ہیں‘‘ 

(جدیدیت کی سیر،ص: ۱۲۵)

ایک اور تنقیدی مضمون ’’افسانوی ادب کا مرتبہ‘‘ میں انہوں نے نظم اور نثر دونوں پر تبصرہ کیا ہے۔ نظم کی اولیت اور مقبولیت دونوں مسلمہ چیزیں ہیں مگر ہر عہد میں انسانی افکارو خیالات کی ترقی کے ساتھ اس عہد کے تقاضوں کے مطابق اصنافِ ادب میں خوشنما اور ضروری نوعیت کی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ جدید عہد کی ضرورتوں کے لحاظ سے افسانے، ناول اور دیگر منطقی علوم بھی اپنے لیے اظہار کے اسلوب نثر کی طرف مائل ہو کر آگے بڑھتے گئے ہیں اور ہر لحاظ سے اس کی اپنی انفرادی اہمیت بر قرار رہی ہے۔ شاعری کو نثر پر ترجیح دینے کی دھن میں وہ حیدر آباد کی ایک عدالت کا حوالہ دے کر بتاتے ہیں کہ جج موصوف نے ایک مقدمے کا فیصلہ نظم میں سنایا، اس کی بڑی تعریف و توصیف ہوئی، یہاں تک کہ نواب حیدر آباد نے بھی جج صاحب کی تعریف کی مگر وہ مقدمہ اگلی عدالت ہائی کو رٹ میں لے جایا گیا تو فاضل جج نے اس فیصلے کو نظم ہونے کی وجہ سے الفاظ کی کمزوری قرار دے کر ردّ کر دیا۔ چند اشعار جو مقدمے کے فیصلے میں شامل تھے ان میں سے ایک تھا۔

رام تھا جو سنار کا لڑکا

اتفاقاً کہیں سے آتا تھا۔

اس پر مخالف وکیل نے اپیل میں کہا تھا کہ رام ایک منصوبے کے تحت ایک مقام سے دوسرے مقام تک گیا تھا اتفاقاً نہیں آیا تھایہ حقیقت بھی تھی۔ موافق وکیل نے کہا یہ لفظ ضرورت شعری کے سبب آیا ہے مگر فاضل کورٹ نے اس کو کمزوری قرار دیا اور کہا یہ بات سچ اور صاف لکھنا تھی جب شاعری میں فیصلہ دیا ہے تو اس کا انجام بھی بھگتنا ہی ہوگا، یعنی نثر کی جگہ نظم کا استعمال درست نہیں ہے۔نظم جذبات کو گرما سکتی ہے لیکن حقیقت کا اصل خدوخال نثر کے ذریعہ ہی واضح ہوتا ہے۔ حقیقت کی پردہ پوشی بہر حال مناسب یا معقول بات نہیں ہے۔ آخر میں وہ بحث ختم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’واقعہ تو یہ ہے کہ نہ تو نظم ناول اور افسانہ کی جگہ لے سکتی ہے اور نہ ناول اور افسانہ نظم کی جگہ۔ زندگی کے جانے کتنے گوشے ہیں جن میں سے بعض ایک میں ادا کیے جا سکتے ہیں تو بعض صرف دوسرے میں‘‘۔ (جدیدیت کی سیر،ص: ۱۳۲)

حالانکہ ان کے تنقیدی مضامین پر خیال آرائیاں تو ہوتی رہیں اور مخالفت کے شدید حملے بھی ان کی ذات اور تحریرات پر ہوتے رہے مگر ان کو پڑھ کر اسی نتیجے پر میں پہنچی ہوں کہ ان میں دلائل اور تحمل کی کمی رہی ہے۔ سطحی اعتراضات کا جواب دینے میں حیات اللہ انصاری نے اغماض بھی برتا ہے یہ ان کے اچھے نقاد ہونے کی واضح دلیل قرار دی جا سکتی ہے۔ پروفیسر آل احمد سرور نے نقاد کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’ بڑا نقاد وہ نہیں ہوتا جس کی رائے ہمیشہ صحیح مانی جائے، بڑا نقاد وہ ہوتا ہے جس کی رائے سے دوسروں کو کسی موضوع پر بہتر اور جامع رائے قائم کرنے کی توفیق ہو۔ اس جامع رائے کا سراغ اس نقاد کی رائے سے ملا ہو۔‘‘ 

پروفیسر آل احمد سرور کی درج بالا رائے کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ حیات اللہ انصاری نے اپنے تنقیدی مضامین میں تنقیدی نظریات کو بھی نہایت واضح اور معر وضی طور پر زیر بحث لانے کی سعی کی ہے اور اس میں وہ بڑی حد تک اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے میں کامیاب بھی رہے ہیں۔

rrr


504/122، ٹیگور مارگ، نزد شباب مارکیٹ

 ڈالی گنج،لکھنؤ-226020

موبائل: 9598987727


No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...