Tuesday, June 20, 2023

احمق کون؟

احمق کون؟

 شیخ بشیر احمد

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ شہر سے دور ایک پسماندہ گائوں تھا۔ رقبہ کے لحاظ سے وہ جتنا بڑا تھا، اتنا ہی اس کی آبادی کم تھی۔ لوگ ان پڑھ، محنتی اور جفاکش تھے، مگر تھے بڑے سیدھے سادے اور مخلص بھی۔ کوئی کھیتی باڑی کرتا تھا، کوئی اپنے آبائی پیشے جیسے ترکھان، مستری، لوہار، بھنکر اور کمہار طبقے سے جڑا تھا اور کوئی بھیڑ بکریاں پالتا تھا۔

گائوں میں ایک چھوٹی سی ندی بہہ رہی تھی۔ اس میں سال بھر ہمیشہ پانی رہتا تھا۔ پانی شیشے کی طرح صاف و شفاف تھا اور لذت و لطافت میں میٹھا پن تھا۔ گائوں میں اب تک پانی کی پائپ لائن نہیں بچھائی گئی تھی، لوگ ندی پر جاکر پانی سے کپڑے دھوتے، نہاتے اور گھر میں لاکر خود بھی پیتے اور مال و مویشیوں کو بھی پلاتے تھے اور ساتھ ہی اپنے کھیت کھلیانوں کو سیراب کرتے تھے۔

گائوں میں ایک امیر آدمی رہتا تھا۔ اس کے پاس کافی دھن ودولت اور زمین تھی اور ایک بڑا خوبصورت عالیشان مکان بھی تھا۔ مکان کے سامنے ایک خوشنما باغیچہ بنوایا گیا تھا۔ اس میں جا بجا پھولوں کی کیاریاں تھیں اور ان کناریوں میں سال بھر رنگ برنگے دل لبھانے والے پھول کھلے ہوتے تھے۔

امیر آدمی نے اس باغیچہ کی دیکھ ریکھ کے لیے ایک نوکر رکھا تھا۔ وہ کئی سالوں سے کام کرتا چلا آیا تھا۔ ہٹا کٹا،تنومند اور جسیم تھا۔ ساتھ ہی محنتی، فرض شناس اور سادگی پسند بھی تھا۔ اس نے باغیچے میں طرح طرح کے پودے اگائے تھے۔ خاص طور پر ان پھولوں میں ’’گل آفتاب‘‘، گل لالہ‘‘، ’’گلاب‘‘، ’’سوسن‘‘، یمررزل‘‘، ’’عشق پیچان‘‘ اور ’’سورج مکھی‘‘ وغیرہ جیسے پھول ہوتے تھے۔چونکہ مالک نے گھریلو کام کاج کے ساتھ ساتھ باغیچے کو خوبصورت و دلکش بنانے کی ذمہ اس کے کاندھوں پر ڈال دی تھی اور وہ بھی اپنا کام بخوبی انجام دے رہا تھا۔لہٰذا صبح سویرے وہ بستر سے اٹھ کر پہلے ندی پر جاکر ہاتھ منہ دھوتا تھا۔ پھر وہاں سے دو گھڑے پانی بھر کر ایک ڈنڈی کے دو سروں پر جیسے ترازو کے دو پلڑے کی صورت کندھے پر اٹھاکر مالک کے گھر لے جایا کرتا تھا۔

ایک گھڑا سالم تھا اور دوسرے میں عیب یعنی ایک خفیف سا سوراخ بالکل سوئی کی نوک سے تھوڑا بڑا۔ گھر پانی پہنچانے تک عیب دار گھڑے سے ایک پتلی سی دھار بہتی رہتی تھی، جس کی وجہ سے گھڑے میں آدھا پانی رہ جاتا تھا۔ اتفاق سے ایک دن وہاں ایک دیہاتی گزرا اور وہ یہ دیکھ کر اس کے احمق پن پر مسکرانے لگا، اس کو ناہنجار نوکر پر ترس آیا۔ جب رہا نہ گیا تو اس نے نوکر سے پوچھا:

’’بھئی! تم اتنی محنت کرتے ہو، پتہ ہے راستے میں کتنا پانی ضائع کررہے ہو جب کہ لوگ پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔ قدر کرنی چاہیے۔ مجھے تمھاری اس نادانی پر رحم آتا ہے۔ اپنے مالک سے دوسرا گھڑا خریدنے کے لیے کہو نا۔‘‘

’’ہاں بھئی! میں تیرا احسان مند ہوں کہ تم نے میری حالت پر ترس کھایا اور مجھے پانی ضائع ہونے کا احساس بھی دلایا۔ مجھے پتہ ہے مگر۔۔۔‘‘

’’مگر کیا؟ خواہ مخواہ اپنے آپ کو اتنی تکلیف دے رہے ہو کہ ماتھے پر پسینہ آگیا ہے ، اپنے مالک سے دوسرا گھڑا لانے کو کیوں نہیں کہتے؟‘‘ دیہاتی نے ہمدردی جتاتے ہوئے بولا۔

پہلے نوکر چپ رہا پھر کچھ توقف کے بعد مسکراتے ہوئے گویا ہوا:

’’تم اس راستے کو ذرا غور سے دیکھو کہ کتنے ہی خوبصورت رنگ برنگے پھولوں کے پودے کھل اٹھے ہیں، جنھیں دیکھ کر دل کی باچھیں کھل اٹھتی ہیں۔ مجھے گھڑے میں سوراخ ہونے کا پتہ تھا۔ میں نے اس کا فائدہ اٹھایا کہ راستے میں جگہ جگہ اچھے اور بہترین قسم کے بیج بو دیے ہیں، اس خیال سے کہ جب مالک صبح سویرے اٹھ کر ہوا خوری Morning Walk  کے لیے اس راستے سے گزرتے ہیں تو ان کا دل کتنا باغ باغ ہوتا ہوگا۔ میرے بھائی! تم اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے ہو۔ دراصل میں اپنے مالک کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔ اب یہ بتائو، تمھاری نظروں میں کیا میں واقعی احمق ہوں؟‘‘

پیارے بچو! اس سے یہی سبق ملتا ہے کہ کسی کا عیب اچھالنے کے بجائے اس کے اندر چھپی خوبیوں اور اچھائیوں کو بھی تلاش کرلینا چاہیے۔


Tengapura, Nawab Bazaar, Srinagar-190002

Mob.: 9858989900

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...