Tuesday, June 20, 2023

گرمیوں کی چھٹیاں

 

گرمیوں کی چھٹیاں

مہر تبسم

پیارے بچو!گرمیوں کی چُھٹیاں آتے ہی آپ سبھی ضرور اپنی نانی یا دادی کے گھر جایا کرتے ہوں گے اور بھئی جائیں گے بھی کیوں نہیں ؟ سال بھر کی اسکول کی پڑھائی، محنت اور پھر امتحانوں کی سخت تیاری اور کڑی مشقت کے بعد یہی تو وہ دو مہینے ملتے ہیں جہاں نہ صبح جلدی اٹھنے کا جھنجھٹ ہوتا ہے اور نہ رات گئے تک ہوم ورک کی فکر۔ بس بے فکری ہی بے فکری، آرام ہی آرام بڑا مزہ آتا ہے نا ان دنوں!  تو میں آپ کو بتادوں کہ بھئی کسی زمانے میں میں بھی آپ کی طرح چھوٹی سی بچی تھی اور میں بھی گرمیوں کی چُھٹیاں منانے اپنے ننھیال جایا کرتی تھی۔

بھئی وہ بھی کیا دن تھے اسکول کی چھٹیاں لگتے ہی مجیب بھائی جان، میں اور میرا چھوٹا بھائی شفیق سیدھے بڑی خالہ کے گھر پروگرام کے عین مطابق جمع ہوجاتے پھر وہاں چھوٹی خالہ کے بچے بھی آجاتے اور پھر یہ پندرہ سولہ بچوں کا قافلہ فاروق بھائی کے زیر قیادت بذریعہ بس ’’نیر‘‘(NER) کے لیے روانہ ہوجاتا جو کہ آکور سے ۱۱۸ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ بظاہر تو یہ لمبا طویل تھکا دینے والا سفر دکھائی دیتا ہے مگر اتنے سارے بچوں کے مجمع میں کچھ معلوم ہی نہ پڑتا پھر نیر جانے کی excitementہم ہنستے گاتے کھڑکیوں سے آواز نکالتے رواں دواں رہتے۔

اور پھر تقریباً تین گھنٹوں کے بعد جوں ہی خوبصورت پہاڑ نظر آنے لگتے،ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائوںکے فرحت بخش جھونکے چہرے پر لگتے اور موروں کی آوازیں آنے لگتیں تو ہم سمجھ جاتے کہ نیر آچکا ہے۔

نیر! میرا ننھیال پورا نام نیر پرسوپنت ضلع ایوت محل پہاڑوں کے دامن میں بسا خوبصورت گائوں، چاروں طرف لہلاتے ہوئے سرسبزو شاداب کھیت،  باغات، کھیتی کا ایک اہم مقام، یہاں مختلف قسم کی عمدہ ترین فصلیں اگائی جاتی ہیں ۔ پھلوں اور سبزیوں کے بڑے پیمانے پر یہاں کاشت کی جاتی ہے۔

بس سے اتر کر ہم سیدھا نانی کی حویلی پہنچے جسے نیر محل ’’بابو صاحب کی حویلی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ حویلی بے حد وسیع و عریض تھی۔ نانی کا شمار گائوں کے سب سے رئیس لوگوں میں ہوتا تھا۔اتنی بڑی حویلی میں نانی سال بھر اکیلی رہتی تھیں مگر گرمیوں میں یہاں جشن کا سماں ہوتا ۔ ہمارے علاوہ امراوتی سے چھوٹے ماموں کے بچے بھی آئے ہوئے ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ ناگپور ، ایوت محل اور کچھ بچے اعظم گڑھ اور گورکھپور سے بھی ہوتے تھے۔ حویلی پہنچتے ہی دھما چوکڑی اور شور وغوغا مچ جاتا۔ نانی کی حویلی سے منسلک ہی بڑے ماموں کی بھی حویلی تھی اور دونوں کے آنگن بھی آپس میں ملے ہوئے تھے۔ یہ آنگن اس قدر وسیع تھا کہ ایک وقت دو ملازم اس کی صفائی کرتے۔ آنگن میں ایک طرف اچار بن رہا ہے ، کہیں کیریاں سوکھ رہی ہیں تو کہیں آم کے پاپڑ سوکھ رہے ہیں۔ تمام بچے ان سب پر ٹوٹ پڑتے، کوئی کیریاں کھارہا ہے، کوئی اچار پر ہاتھ صاف کررہا ہے تو کوئی آم کے پاپڑ پر چادر کی طرح پھیلا پڑا ہے۔ آنگن کے ایک کمرے میں دودھ، گھی اور ملائی کے ڈھیر سارے کنستر جمع رہتے ۔ ایک کمرے میں شاخیں (ادھ پکے آم) گھاس میں پکنے کے لیے رکھی ہوتی تھیں۔ ہم موقع پاکر اس کمرے میں گھس جاتے اور خوب آموں پر ہاتھ صاف کرتے، سارا دن انہی شرارتوں میں گزرتا اور پھر رات میں ممانی زبردست مرغ کا لذیذسالن بناتیں اور گھر کے سبھی افراد آنگن میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں بیٹھ کر ہنسی مذاق کرتے ہوئے کھانا کھاتے۔

صبح تڑکے ہی ہم اٹھ جاتے۔ ویسے بھی عام طور پر گائوں میں پو پھٹے ہی اٹھ جاتے ہیں، مگر کسی غلط فہمی میں نہ رہیے گا کہ واہ کتنے مہذب بچے ہیں ، ارے بھئی ہم بچوں کے اتنا جلدی اٹھنے کی وجہ کچھ اور تھی جس کو ہم آگے بتائیں گے۔ منھ ہاتھ دھوکر ہم سب تیار ہوجاتے تو ممانی کی طرف سے توے پر پراٹھوں کی اُلٹ پلٹ کرنے کی آواز اور اصلی گھی کی خوشبو آتی تو ہم سیدھا ممانی کی طرف دوڑ لگاتے۔ ممانی بڑے پیار سے کہتیں ’’آئو بچو! جلدی جلدی چلو بیٹھو گرم گرم ناشتہ تیار ہے۔‘‘ پھر یہ پچیس سے تیس بچوں   کی لمبی سی قطار برآمدے میں بیٹھ جاتی۔ آنگن میں ایک طرف ایک بڑے سے چولہے کے بڑے سے توے پر بڑے بڑے کرارے پراٹھے فرزانہ باجی بنا رہی ہوتیں تو دوسری طرف چائے بنتی ، وہیں ایک بھگونے میں ڈھیر سارا دودھ ابلتا۔

ممانی کہتیں:’’ارے فرزانہ، ارے نیّر، ارے بیٹے باتیں کم کرو، چلو جلدی پراٹھے لائو ، بچوں کو جانا ہے۔‘‘ پھر ناشتہ وغیرہ کرکے ہم بچے سیدھا باڑی کی طر ف نکل پڑتے جو کہ گھر سے بس کچھ ہی فاصلے پر تھی۔ راستے میں ندی پڑتی تھی۔ ہم ندی کی مچھلیوں کو دیکھتے ہوئے پگڈنڈی سے آگے بڑھ جاتے اور پھر ہم پہنچتے باڑی…

یہ باڑی نہیں تھی بلکہ پھلوں کی دنیا تھی جہاں مختلف قسم کے پھل جیسے آم، انار، گنے، موسمبی، سنگترے، مونگ پھلی، چیکو، جنگلی بادام، پھنس ، جامن وغیرہ کے اونچے اونچے چھتریاں تانے درخت تھے، اس کے علاوہ مختلف قسم کی سبزیاں جیسے بھنڈی، پھلیاں ، گوبھی وغیرہ بھی اگائی جاتی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ گلاب کی بھی بڑے پیمانے پر کاشت کی جاتی تھی۔

ہر طرف جدھر نظریں دوڑائو بس پھل ہی پھل ، آم کے حصے میں چلے جائو تو بس آم ہی آم اور وہ بھی کئی قسموں کے، سنگترے کے حصے میں چلے جائو تو تاحد نگاہ سنگترے ہی دکھائی دیتے ، بادام کا خول ایسا دکھائی دیتا مانو سرخ خون ٹپکتا ہو۔ ایک جامن کا بھی بڑا سا درخت تھا جس میں بے شمار جامن آس پاس گرے پڑے ہوتے ، اتنے کہ گویا جامن کا ذخیرہ جمع دکھائی دیتا، جسے بعد میں ملازم اٹھاتے لیکن اس کا کوئی کاروبار نہیں کیا جاتا تھا۔ ہم بچے جی بھر کر جامن کھاتے، آم کے حصے میں پہنچ کر جی بھر کر ’’دعوتِ آم‘‘ اڑاتے۔  آم کے درخت پر چڑھ کر جھولا جھولتے اور پھر جھولے میں بیٹھ کر ایک لمبا سا جھول لے کر منھ سے آم توڑتے۔ اس کے تو باقاعدہ مقابلے ہوتے۔

باڑی میں ہر طرف گلہریاں، کوئل اور مور شور مچارہے ہوتے۔ ہم خوب یہاں مستی کرتے، جھولا جھولتے، تتلیاں پکڑتے، حوض میں کھیلتے ۔ یہ باڑی اتنی زیادہ وسیع و عریض تھی کہ آپ کتنا بھی گھوم لیں یوں محسوس ہوتا کہ ابھی تک کچھ دیکھا ہی نہیں ہے۔ پھر ہمارے بڑے ماموں جو بڑے مشفق تھے، ہمیں اپنے سفید گھوڑے پر بٹھاکر پوری باڑی کی سیر کراتے اور اپنے پولٹری فارم میں لے جاکر ملازموں کو تازے تازے انڈے ابالنے کا حکم دیتے اور پھر ہمیں کھلاتے۔

باڑی سے لوٹنے کے بعد ہر کسی کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ۔ ہم دالان میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے اپنی اپنی چیزیں شیئر کرتے، مونگ پھلیاں کھاتے، مستی کرتے۔ کہنے کو تو ہم اتنے سارے تھے اور سب کے سب اولین نمبر کے شرارتی مگر کبھی نہ کوئی جھگڑا نہ کبھی کوئی لڑائی ہوتی۔ سب مل جل کر رہتے۔

رات میں آٹھ بجے آنگن میں کئی چار پائیاں بچھ جاتی تھیں، پھر وہاں بیٹھ کر بیت بازی ہوتی، گلوکاری کے مقابلے ہوتے، گیت گائے جاتے، ریڈیو سنتے کیوں کہ سبھی بچے مختلف شہروں سے آئے ہوئے ہوتے۔ کئی بچے ممانی کے میکے گورکھپور اور اعظم گڑھ سے ہوتے، ہم سب اپنے اپنے علاقوں کے  تعلق سے بتاتے ، اپنے گائوں کے قصے ، کہاوتیں بتاتے۔ وہ اپنے لب و لہجہ بتاتے، ہم انھیں دکنی کہاوتیں بتاتے۔ پھر دیکھتے دیکھتے تھوڑی ہوائوں کے بیچ سبھی میٹھی نیند سوجاتے۔ ویسے بھی دن بھر کی مستی کے باعث سبھی بچوں کو بڑی بھینکر قسم کی نیند آیا کرتی تھی۔

اگلے دن سے پھر وہی سب مستی شرارت، دھوم ادھم ،بھاگا دوڑی، بندروں کے پیچھے بھاگنا۔ ارے ہاں ہم تو یہ بتانا ہی بھول گئے کہ نیر میں بندر بہت ہیں۔ ہر طرف درختوں پر ، گھروں کی چھت اور دیواروں پر موٹے موٹے بندر چھلانگ مارتے دکھائی پڑتے ہیں۔ ذرا دیر کے لیے کھڑکی کھلی رہ جائے تو سب لے کر بھاگ جاتے۔ آنگن میں روٹی پکاتی ملازمہ تھوڑی دیر کے لیے ہٹی تو گھر کے پاس کے بڑے سے درخت پر سے بہت دیر سے نظریں جمائے بندر روٹیاں غائب کردیتے۔ سال بھر تو یہ بڑے چین سے رہتے، خوب چراتے مگر جب ہم آجاتے تو ہماری اور ان کی جنگ شروع ہوجاتی۔ ظاہر ہے ہمارے علاوہ کوئی دوسرا کیسے اس گھر سے کچھ چرا سکتا ہے۔چرانے کے لیے ہم تھے نا۔ ہمیں دیکھ کر ہی نہ جانے کیوں وہ تھوڑے بے چین بے چین نظر آنے شروع ہوجاتے۔ شاید ہر سال کی ’’مڈبھیڑ‘‘ سے پہچان لیتے ہوں۔ ہم ان کے پیچھے بھاگتے انھیں دانت دکھاتے تو وہ بھی دانت دکھاتے، منھ بناتے تو وہ بھی منھ بنا دیتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تو تو میں میں گٹھلی وار میں تبدیل ہوجاتی۔ ہم ان پر گٹھلی پھینک کر مارتے تو وہ بھی پھینک کر مارتے، ہم ان پر پتھر کنکر پھینک کر مارتے تو وہ بھی وہی پھینک کر مارتے۔ بہت دیر تک یہ تماشہ چلتا رہتا اور پھر جب کبھی وہ ہماری پھینکی چیز جھیل نہیں پاتے تو…تو پھر … وہ اپنا فضلہ پھینک کر مارتے۔ ان کا نشانہ بڑا پکا ہوتا ہے، اسی لیے ہم پھر فوراً وہاں سے میدان چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتے۔ اب آپ یہ نہ کہیے گا ہم سب میدان جنگ سے پیٹھ دکھاکر بھاگ گئے۔ ارے بھائی اب آپ ہی بتائیے بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی؟ مسئلہ بات چیت کے ذریعے بھی تو حل کیا جاسکتا تھا، اسی لیے ہم ہی ’’امن‘‘ قائم کرنے کے لیے پیچھے ہٹ جاتے گوکہ وہ اسے اپنی جیت قرار دیتے ہوں مگر ہمارے حساب سے تو یہ ہماری فراخ دلی کا ثبوت تھا۔ یہ بڑے پن کی بات تھی کہ جائو معاف کیا تمھیں۔

دن بھر اسی طرح شور شرابہ میں گزر جاتا ۔ نانی ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی تھیں مگر وہاں کون کسی کی سنتا۔ کبھی کبھار جب ہماری شرارتیں زیادہ بڑھ جاتیں تو نانی اپنے خاص ملازم رحمن میاں سے کہتیں:

’’رحمن میاں بند کردو ان سب کو‘‘ اور پھر ہمیں گرفتار کرلیا جاتا۔ اب ہم کون سے بڑے شریف بچے تھے جو بڑا شرمندہ اور پشیماں ہوتے، ہم اندر بھی ادھم جاری رکھتے، الٹا ہم تو اندر ہی گدے کے نیچے کیرم بورڈ اور لوڈو چھپاکر رکھتے تاکہ گرفتاری کے دوران کھیل سکیں۔ کمرے میں نعمت خانہ بھی تھا جس میں ڈھیر سارے آم رکھے ہوتے ہم اس پر بھی حملہ کرتے، مگر اس پر تالہ ہوتا ۔ آخر وہ بھی ہماری نانی تھیں۔پھر کچھ گھنٹوںکے بعد نانی کے ہی اشارے پر رحمن میاں چپکے سے دروازہ کھولتے ہوئے کہتے ’’چلو بچو! باہر آجائو تمھیں نانی کی چوری سے دروازہ کھول رہا ہوں خاموشی سے بھاگ جائو‘‘ دو مہینے کی چھٹیوں میں دو تین بار ہم اندر ہو ہی جاتے تھے ،یہ اندر باہر کا کھیل چلتا رہا۔

کبھی کبھی دوپہر کے وقت جب نانی کے ہاتھ آجاتے تو نانی اپنے ساتھ سلا دیتیں اور سختی سے سونے کو کہتیں۔ ہم سب سونے کی ایکٹنگ کرتے لیکن بھلا شریر بچے بھی کبھی دوپہر کے وقت سوتے ہیں۔ جوں ہی نانی کے خراٹوں کی آواز آتی ہم باڑی کی طرف نکل پڑتے، وہاں مستی کرتے ، پہاڑوں پر چڑھتے، جھولا جھولتے ، اس طرح کرتے کرتے شام ہوجاتی، ہم نکل تو آئے تھے مگر اب جائیں کیسے نانی تو وہاں ہمارے استقبال کی منتظر ہوں گی۔ ہم حویلی پہنچتے تو ممانی چپکے سے کہتیں بچو! نانی بہت کھول رہی ہیں چلو آجائو پھر ہم سب ممانی کی طرف کھا پی کر وہیں پسر جاتے۔

ارے ہاں اس بات سے ایک اور بات یاد آرہی ہے کہ کئی بچوں کے ساتھ ان کے ماں باپ بھی چھٹیاں منانے نیر آئے ہوئے ہوتے۔ لہٰذا کبھی کبھار تمام لوگ پکنک منانے باڑی جاتے، اس کے لیے گھر سے کھانا پکاکر بیل گاڑی میں رکھتے پھر سب خواتین ڈومنیوں میں بیٹھ کر باڑی جاتیں۔ مرد حضرات دوسری بیل گاڑی میں آتے۔ باڑی پہنچ کر سب کھانا کھاتے، بچے دھوم مستی کرتے، پھل توڑ توڑ کر کھاتے، قہقہے لگائے جاتے۔ بڑا مزہ آتا۔

خیر تو بھئی کچھ ایسے ہمارے یہ دو مہینے بیتے تھے۔ دن بھر مستی، باڑی میں گھومنا، بندروں سے دو دو ہاتھ کرنا اور گرفتاری میں ہمارے دو مہینے کب پلک جھپکتے نکل جاتے کچھ معلوم نہ پڑتا۔ حویلی کا دستور تھا کہ واپسی پر تمام لڑکیوں کو مہندی لگائی جاتی تھی، چنانچہ نانی کھیتوں سے مہندی منگواتیں پھر خود ہی پیستیں اور خود ہی لگاتیں۔ ہمیں مہندی کے جوتے پہنائے جاتے اور کہنیوں تک مہندی ہی کے دستانے پہنائے جاتے او رپھر جو نانی ہر وقت ڈانٹ پھٹکار میں تھیں وہ اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتیں ، سارا دن ہم اسی طرح چارپائی پر پڑے رہتے۔ اب مہندی کے جوتوں سے بھاگ بھی تو نہیں سکتے تھے۔ پھر روانگی پر بچیوں کو چوڑیاں پہنائی جاتیں۔ نانی اپنے ہاتھوں سے سلے کپڑے کے جوڑے بچوں کو دیتیں ۔ سارے بچے ایک دوسرے سے ملتے، اگلی بار آنے کا وعدہ لیتے ، گھر جانے کا بڑا افسوس ہوتا۔ یہ افسوس پتہ نہیں کس چیز کا تھا۔سہیلیوں کے چھوٹنے کا ، باڑی کا یا پھر ممانی کا ۔ ہم بوجھل قدموں سے پھر گھر کی طرف لوٹ جاتے۔

خیر… اب تو نہ وہ شرارتیں ہیں،نہ وہ بچپن کے دن ، برسوں بیت چکے ہیں، نانی کا انتقال ہوچکا ہے۔ ماموں ، ممانی کا انتقال ہوچکا ہے۔ بڑی یاد آتی ہے۔ اب اس دور کی وہ شرارتیں، اٹھکھیلیاں،بھاگ دوڑ، وہ سہیلیاں۔ کئی بچے تو ایسے تھے جن سے پھرکبھی ملنا نہ ہوسکا۔ پتہ نہیں کہاں ہوں گے وہ سب، اب کیا کررہے ہوں گے۔ ماموں، ممانی کی بہت یاد آتی ہے، خاص طور پر ممانی کی۔ ان کا ہنستا،مسکراتا بھولا بھالا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھومتا ہے۔ بڑی اچھی بڑی پیاری انتہائی مشفق بچوں سے بڑی محبت تھی انھیں، خاص طور پر مجھ سے بہت زیادہ پیار کرتی تھیں اور شاید جس کی ہم تین بہن بھائیوں کو ضرورت بھی تھی۔ امی کاانتقال تو دو سال کی عمر میں ہوچکا تھا اسی لیے ماں کا پیار دلار کیا ہوتا ہے اس کا احساس تو نیر جاکر ممانی سے مل کر ہی ہوتا تھا۔ بچپن میں مجھے بھنڈی بالکل بھی پسند نہیں تھی۔ جب کھیتوں سے خوب ساری بھنڈی آتی تھی تو ممانی بھنڈی کے ٹکڑوں کو مسل کر اس میں نمک مرچ لگاکر مجھے بڑے پیار سے کھلاتیں اور کہتیں’’بھنڈی کھایا کرو یہ بہت لذیذ سبزی ہوتی ہے‘‘۔ آج جب بھی بھنڈی کی سبزی گھر میں بنتی ہے تو ممانی کی یاد آتی ہے۔

نانی سے بھی انھیں بے حد محبت تھی گو کہ نانی جان کا اپنا الگ کچن تھا مگر ممانی نانی جان کو کچھ بھی محنت کرنے نہیں دیتی تھیں ۔اپنے ساتھ ہی بٹھاکر کھلاتی تھیں ، کبھی کبھار نانی جان غصے میں آنے سے انکار کردیتیں تو ممانی اپنے بچوں کو انھیں منانے بھیجتیں اور پھر مناکر ہی لاتیں جب کہ یہ رشتہ سگا نہیں تھا، نانی نانا کی دوسری بیوی تھیں لیکن ممانی نے کبھی بھی نانی یا ہمارے ساتھ سوتیلا سلوک نہیں کیا۔ میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ گائوں میں رات کو جس گھر سے دھواں اٹھتا نہ دکھتا اس کے گھر کھانا بھجواتی تھیں۔

وہ انسان ہی سراپائے شفقت تھیں ۔ آج جب اتنے سالوں بعد ان کا ذکر نکلا ہے تو آنکھیں نم ہوئی جارہی ہیں۔ ویسے بھی آپ جب بھی کسی نیک فرشتہ صفت انسان کا ذکر کریں جو آج ہمارے بیچ ہے نہیں تو آپ چاہے جتنی میٹھی سی جتنی شیریں یاد کو تازہ کررہے ہوں مگر پھر بھی آنکھوں کے کنارے تو نم ہو ہی جاتے ہیں۔

Roop Chand Nagar, Near Husainiya Madarsa,

Rudshin Road, Akola-444002 (Maharashtra)

Mob.: 9270765693

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...