Wednesday, June 7, 2023

اردو کی ابتدا مسائل اور میلانات

اردو کی ابتدا مسائل اور میلانات 

 ڈاکٹر ارشاد سیانوی

اس روئے زمین پر جب سے انسان نے قدم رکھا ہے تب ہی سے زبان کی ابتدا تسلیم کی جاتی ہے۔ زبان ہی انسانی جذ بات و خیالات کا وسیلۂ اظہار ہے۔ قدیم زمانے سے ہی بزرگوں نے زبان کی ابتدا اور اس کے مسائل سے دوچار ہوتے ہوئے غورو فکر کے چشمے بہائے ہیں اور آج تک زبان کے ارتقا اور اس کی پیدائش پر تحقیق ہو رہی ہے۔ بادشا ہوں، خلفا، وزیروں، حکمرا نوں نے اس زبان کی ترقی میں ہاتھ بٹایا کیو نکہ انہیں معلوم تھا کہ زبان کے ذریعے ہی لوگ ایک دوسرے سے رابطہ کرسکتے ہیں، زبان کے ذریعے ہی کوئی انسان یاکوئی قوم کسی دوسرے انسان یا قوم کے قریب آ تی ہے،جیسے جیسے زبان ترقی کرتی ہے انسانی ترقی کے راستے بھی ہموا ر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس عالم انسانیت کے مختلف علاقوں اور خطوں میں مختلف زبانوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دو یا دو سے زائد قوموں اور زبانوں کے لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں، بات چیت کرتے ہیں تو ان کی گفتگو کے دوران میل جول سے نئی زبان وجود میں آ تی ہے۔ کچھ بادشاہوں نے ہندو ستان کو اپنی حکمرا نی کے لیے پسند کیا تو کسی نے تجارت کرنے کی غرض سے ہندوستان آکر لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کیے اور سبھی نے اپنی اپنی زبان کے اثرات ہندوستانیوں پر چھو ڑے۔ اس طرح دیگر زبانوں کے اثرات سے ایک نئی زبان وجود میں آئی۔ 

مشاہیر ادب کا یہ عام خیال ہے کہ دو یا دو سے زائد قوموں کے لوگ جب آ پس میں محوِ گفتگو ہوتے ہیں تو ایک نئی زبان وجود میں آ تی ہے۔ اس لیے یہ تسلیم کرلیا گیا کہ زبانیں سماجی ضروریات کے پیش نظر جنم لیتی ہیں۔آج ہم بڑی بڑی تصا نیف کی شکل میں اردو کا مطا لعہ کررہے ہیں۔ یہ اردو تصا نیف یوںہی منظر عام پر نہیں آ گئی ہیں بلکہ مسلم حکمرا نوں کا ہندوستان آ نا، صو فیا ئے کرام کی دور رس نگاہیں، راجائوں، بادشاہوں کا ادبی ذوق و شوق، علما و مشائخ کے ذریعے مذہب اسلام کی تبلیغ، مختلف زبانوں کے فوجیوں کا ملک میں پھیلنا وغیرہ کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں تصنیف و تالیف کا کام دن بہ دن ترقی کی راہ ہموار کرتا گیا۔ مولانا محمد حسین آ زاد اپنی کتاب’’ آب حیات‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:

’’ بزرگوں سے لے کر آج تک زبانوں کی تحقیقات میں کمال سر گر می اور جستجو رہی۔ اب چند سال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کی زبان ترقی کے قدم برا بر آ گے بڑھا رہی ہے یہاں تک کہ علمی زبان کے عمل میں دخل پیدا کرلیا اور اس منفرد بافگاہِ علم میں کسی درجۂ خاص کی کرسی پر جلوس کیا چاہتی ہے۔ ایک دن اسی خیال میں تھا اور دیکھ رہا تھا کہ کس طرح اس نے ظہور پکڑا،کس طرح قدم بہ قدم آگے بڑھی،کس طرح عہد بہ عہد اس درجہ تک پہنچی۔تعجب ہوا کہ ایک بچہ شاہ جہانی بازار میں پھرتا ملے،شعرا اسے اٹھا لیں اور ملک سخن میں پال کر پرورش کریں، انجام کو یہاں تک پہنچے کہ وہی ملک کی تصنیف و تالیف پر قابض ہوجائے۔‘‘

’’بہت سے نا قدین، محققین اور مشاہیر ادب کا عام خیال ہے کہ دو یا دو سے زائد زبانوں کے ملنے سے نئی زبان وجود میں آ تی ہے مگر یہ بھی غور کرنے کا مقام ہے کہ دو یا دو سے زائد زبانوں کے میل جول سے ایک نئی زبان کیسے وجود میں آ سکتی ہے۔ اگر ہم انگریزی اور بنگلہ یا ہندی اور تمل کو ملائیں یا انگریزی اور فرانسیسی زبان کو آپس میں ملائیں تو کس طرح ایک نئی زبان وجود میں آ ئے گی۔ اس نئی زبان کے وجود میں آنے کا کیا طریقہ ہو گا۔ یہ سوچنے اور غورو فکر کر نے کا مقام ہے۔ ہر زبان کی اپنی ایک انفرادی ساخت ہو تی ہے اور قواعد بھی الگ ہوتے ہیں جنھیں کسی دیگر زبان میں شامل کرنا دشوار عمل ہے ۔

اسی طرح اگر ہم عربی فارسی الفاظ کو ترکی زبان میں استعمال کریں تو کیا عربی اور فارسی میں تبدیلی ہوگی؟ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ فرانسیسی الفاظ اگر انگریزی میں مستعمل ہوں تو انگریزی الفاظ میں بھی وسعت نہیں آئے گی۔کوئی بھی زبان دیگر زبان سے متاثر تو ہوسکتی ہے مگر کوئی بھی زبان اپنا پیرہن چھوڑ کر دوسری زبان کو تقویت عطا نہیں کرسکتی۔ عبد الستار دلوی لکھتے ہیں:

’’عربی اور فارسی کے ہزاروں الفاظ ترکی میں مستعمل ہیں تو کیا ان الفاظ کی وجہ سے ترکی عربی یا فارسی ہوگئی؟فرانسیسی کے بے شمار الفاظ اور خصوصاً تہذیبی الفاظ انگریزی میں مستعمل ہوتے ہیں۔ اس سے انگریزی الفاظ میں وسعت اور گیرائی آگئی۔جدید فارسی میں بھی حسب ضرورت فرانسیسی الفاظ استعمال ہوتے ہیں، زندہ زبانوں نے الفاظ اور دیگر لسانی خصوصیات قبول کرکے اپنے آپ کو لسانی اعتبار سے مالا مال (Enrich) کیا۔ یہ مستحسن طریقہ ہے،مگر کسی بھی زبان کو اپنے پیرہن کو ترک کر کے دوسرے کے جسم کو زینت بخشنا نا دانی ہو گی۔‘‘

(ششماہی ریسرچ ریفرڈ جرنل ادب و ثقافت، ص:۱۵، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدر آباد،مارچ۲۰۲۱ہ)

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی زبان ایک سال یا دو سال میں وجود میں نہیں آ تی بلکہ صدیوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انسانوں کی مانند کسی خاص وقت یا کسی خاص مقام پر یہ زبانیں وجود میں نہیں آ تیں بلکہ مدتوں تک جب لوگ محو گفتگو ہوتے ہیں تو ٹوٹے پھوٹے الفاظ پیدا ہوتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور پھر ان الفاظ کو لکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

زبان کے تعلق سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وقت ہر ایک شے کو تبدیل کردیتا ہے چاہے انسان ہو یا زبان، بوڑھا ہو یا نوجوان۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر شے میں تبدیلی آ نا فطری عمل ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سردی، گرمی، برسات کے مو سموں میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔مقامات تبدیل ہو جاتے ہیں، آ واز میں تبدیلی آ جاتی ہے تو پھر وقت جب ہر ایک شے کو تبدیل کرتا ہے تو زبان پر کیسے مہربان ہو سکتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ زبان میں بھی تبدیلی آ نا فطری عمل ہے۔ وقت انسانی رنگ و روپ بھی تبدیل کردیتا ہے جس طرح موسم کے تغیرات سے انسانی رنگ وروپ بدلتا ہے اسی طرح زبان بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ آ ہستہ آ ہستہ سفر کرتے کرتے صدیوں میں ترقی یافتہ شکل اختیار کرتی ہے۔ بہت سے لوگ ایک دوسرے کی زبان کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اشاروں، کنایوں سے کام لیتے ہیں۔ آوازوں اور اشاروں کی مدد سے ایک دوسرے کے قریب آ تے ہیں، ایک دسرے سے رابطے میں آ تے ہیں مگر جب یہ کیفیت کافی دنوں تک بنی رہتی ہے تو اشاروں،کنایوں کی زبان کو بھی سمجھنا آ سان ہو جاتا ہے۔ کیونکہ انسانی ضرورتوں کو پو را کر نے کے لیے زبان کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے انسان ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کرتا ہے۔ انسان اپنی ضروریات کا سامان کسی انسان سے ہی حاصل کرتا ہے۔ انسانی لین دین، کاروبار، تجارت اور ایک دوسرے کی ضرورت کے مطابق لینا دینا شروع ہو جاتا ہے ۔ جیسے جیسے انسانی ضروریات میں اضا فہ ہو تا ہے تو ذخیرۂ الفاظ میں بھی اضا فہ ہو تا چلا جاتا ہے اور جب دیگر مقامات کے لوگ ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں تو زبان وجود میں آ تی ہے۔ اردو زبان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں آ ریوں کے آ نے سے قبل یہاں کے مختلف علاقوں اور خطّوں میں بہت سی زبانیں رائج تھیں۔ اسی لیے ماہر لسانیات نے ہندوستان کو زبانوں کا عجائب گھر کہا ہے۔ ماہر لسا نیات گریرسن کے مطابق ہندوستان میں ۵۴۴ بولیاں اور ۱۷۹زبانیں بو لی جاتی ہیں۔ زبان کے تعلق سے اگر ہم عالمی جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ اس وقت بھی مختلف مقامات پر ہزا روں زبانیں بولی جارہی ہیں جن میں سے بہت سی زبانیں غا ئب ہوتی جارہی ہیں اور بہت سی ترقی کررہی ہیں۔ ہندوستان کی بہت سی زبانوں میں چودہ زبانوں کو قانونی طور پر تسلیم کیا گیا ہے ،ان میں اردو کا نام بھی شامل ہے۔ترقی کرنے والی زبانوں میں اردو بھی ایک اہم زبان ہے جو روز بروز ترقیاتی منازل طے کرتی جارہی ہے۔ آج اردو پورے ہندوستان میں بو لی جانے والی زبان ہے مگر افسوس کچھ صوبوں کو چھوڑ کر ہندوستان میں اردو کے ساتھ نا انصا فی اور تعصب کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ جموں و کشمیر اور بہار وغیرہ میں اردو کی صورت حال کچھ بہتر ہے مگر ان علاقوں کے علاوہ اردو زبان کو علا قائی زبان کا در جہ حاصل نہیں ہے۔ عصر حاضر میں د کانوں، مکانوں، دفتروں، اسکولوں، کالجوں وغیرہ پر اردو سائن بورڈ اور خطوط، اردو کی جگہ ہندی یا انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ یہ اردو کا اولین اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔

جب انگریزوں نے ہندوستان میں قدم رکھا تو وہ ہندی یااردوزبان سے واقف نہیں تھے کیونکہ وہ انگریز تھے تو انگریزی ہی ان کی اصل زبان تھی مگر جب انگریزوں نے ہندوستانیوں کے ساتھ رہ کر گفتگو کی تو ہندوستانی عوام نے انگریزوں سے بے شمار انگریزی الفاظ سنے اور سمجھے ۔جب انگریزوں کو ہندوستان میں تجارت کرتے ہوئے کافی دن ہو گئے تو ہندوستانیوں نے بھی بہت سے انگریزی الفاظ اپنی گفتگو میں شامل کر لیے۔ اس طرح انگریزوں کی زبان کے اثرات ہندوستانیوں پر پڑے اور آج ہم اپنی گفتگو میں بے شمار انگریزی زبان کے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو کہ انگریزوں کی دین ہے۔

اردو کی ابتدا کے تعلق سے مختلف نظریات بھی سامنے آئے ہیں اور زبان کی ابتدا کا مسئلہ آج بھی بر قرار ہے۔ حالانکہ لسانیات اور تنقیدی کتابوں میں بہت سے ناقدین نے اپنے نظریات پیش کیے ہیں مگر کسی بھی نظریے پر سبھی ناقدین اتفاق نہیں رکھتے۔الگ الگ ناقدین کے نظریات اور خیالات بھی مختلف ہیں۔ بہت سی ریاستوں پر مسلم حکمرا نوں نے کافی عرصہ تک حکمرا نی کی اور وہاں کے عوام کی زبان بھی اردو تھی مگر افسوس مسلم حکمراں اردو کو سرکاری زبان بنانے سے قا صر رہے اور نہ ہی اردو زبان کو سرکاری زبان بنانے کی کوشش کی گئی۔ مغلیہ حکومت میں اردو زبان و ادب کو کافی فروغ ملا مگر بہادر شاہ ظفر کے دور تک بھی سر کاری زبان فارسی ہی رہی۔ اس لیے شا ید مرزا غا لبؔ نے بھی اردو کی جگہ فارسی کو ہی پسند کیا اور کہا کہ اگر فن کا مطالعہ کرنا ہو تو فارسی کلام کا مطا لعہ کیا جائے۔ غالبؔ اردو سے زیادہ فارسی کو اہمیت دیتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی فارسی شاعری پر ناز کرتے ہوئے اردو شاعری کو ’’بے رنگ من است‘‘ کہا۔ لوگوں نے غالبؔ کے کلام کے تعلق سے کہا کہ یہ اپنا کہا آپ ہی سمجھتے ہیں یا ان کے کلام کو خدا سمجھتا ہے۔ غالبؔ نے اپنی فارسی دا نی کو اہمیت دیتے ہوئے جواب دیا: 

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا

نہ سہی گر میرے اشعار میں معنیٰ نہ سہی

مذہب اسلام سے قبل عرب اور ایران کے لوگ تجارت کی غرض سے ہندوستان آئے اور ایسا محسوس کیا جانے لگا کہ وہ عربی زبان کے اثرات یہاں چھوڑ گئے مگر ساتھ ہی مشاہیر ادب کے ذہن میں بہت سے خیالات اور نئی نئی بات بھی آ رہی تھی،وہ سوچ رہے تھے کہ اردو زبان کی ابتدا کہاں ہوئی اور کن حالا ت میں ہوئی۔ اس سچائی سے پردہ اٹھا نے کے لیے ابتدا میں قیاس آ را ئیوں سے بھی کام لیا گیا۔ جب مذہب اسلام ہندو ستان میں پھیلا اور مسلمان ہندوستان آ ئے تو ان آ نے وا لے افراد میں ایرا نی، افغانی، مغل، ترکستانی وغیرہ موجود تھے۔ فارسی اور عربی الفاظ کی نمائندگی نے مشاہیر ادب کو یہ توجہ دلائی کہ اردو ایک غیر ملکی زبان ہے جو مسلمانوں کے سا تھ ہندوستان ا ٓئی مگر یہ حقیقت آج تک پردے میں چھپی ہے کہ وہ کون سا ملک ہے جہاں سے اردو نے ہندوستان میں قدم رکھا۔اگر ہم اس بات کو تسلیم کر لیں کہ یہ اردو زبان مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان آ ئی تو اس جانب بھی توجہ مبذول کر نے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی ملک یا قوم کو جب دیگر ملک یا قوم پر فتح حاصل ہو تی ہے تو مفتوح اپنی زبان کو کسی بھی طرح دیگر قوم کے لوگوں پر نہیں تھوپتے بلکہ وہ خود ہی وہاں کی بولی بولنے لگتے ہیں اور جیسے جیسے انسانی ضروریات میں اضا فہ ہو تا ہے اسی کے مطابق زبان کا استعمال بھی ہونے لگتا ہے۔ سید احتشام حسین نے کتنی خوبصورت بات لکھی ہے:

’’جب کوئی ملک یا قوم کو کسی دوسرے ملک یا قوم پر فتح حاصل ہو تی ہے تو فاتح اپنی زبان مفتوح قوم کے لوگوں پر نہیں لاد تا بلکہ اپنی زبان کے کچھ ضروری اور کام دینے والے لفظ اس زبان میں ملا کر خود ہی مقامی زبان بولنے اور اپنانے لگتا ہے۔ جو مسلمان یہاں آ ئے وہ ترکی، عربی ، فارسی اور مشرق وسطیٰ کی زبانیں بولتے تھے لیکن ان کے ادبی اور ثقا فتی عمل کی زبان فارسی تھی۔‘‘

[اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، سید احتشام حسین، ص:۱۴،۲۰۱۴ء،این سی پی یو ایل، نئی دہلی]

اکثر یہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے کہ مسلمانوں کی آ مد سے ہی ہندوستان میں اردو کا وجود قائم ہوا۔ غوری خاندان، ترکستان، بلبن، خلجی گھرانہ، تغلق خاندان اور لودھی گھرا نے کے افراد وغیرہ افغا نستان، ایران وغیرہ سے آ ئے اور اپنی ہی زبان عربی، فارسی، ترکی بولتے ہوئے ہندوستان میں داخل ہو ئے اور یہ بھی کسی حد تک ممکن ہے کہ ان بادشا ہوں کے ذریعے اردو زبان کا نام کبھی نہیں سناگیا مگر تعجب خیز بات یہ ہے کہ اکثر ہمارے نا قدین ادب نے یہ تسلیم کیا ہے کہ مسلمان تجارت کی غرض سے جنوبی ہند میں داخل ہوئے اور آہستہ آہستہ ساحلی علاقوں کے با شندوں کے ساتھ تجارت کرنے لگے جس سے آپسی تعلقات میں اضا فہ ہوا اور نئی زبان بھی وجود میں آ ئی۔ جہاں جہاں ایرا نی، افغا نی، ترکستانی اور مغل گئے وہاں اپنی زبان کے اثرات بھی چھوڑتے رہے۔ ہندو مسلم کے با ہمی میل جول اور عربی، فارسی، ترکی و ہندوستانی زبانوں کے با ہمی تعلقات سے یہ نئی زبان اردو اپنی ابتدا ئی شکل میں سامنے آ ئی۔ عر بی، فارسی اور ترکی الفاظ نے اردو کے دامن کو وسیع کیا۔ اردو کی پیدا ئش کے تعلق سے یہ قیاس لگایا جا تا رہا ہے کہ اردو فارسی زبان پر مبنی ہے، کسی حد تک یہ بھی سچ ہے کہ اردو میں فارسی کا خوب استعمال ہوا ہے جوکہ فطری عمل ہے ۔کیو نکہ ابتدا میں یہاں کے لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد میں فارسی زبان کے جاننے والوں کی تعداد زیادہ تھی اور آ ریائی زبان ہونے کے سبب فارسی نے سنسکرت سے گہرا تعلق رکھا ہے۔ اس لیے اردو میں عربی، فارسی اور سنسکرت کے الفاظ کا خوب استعمال ہوا۔ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی ادیبوں نے بھی اردو کی پیدا ئش کے تعلق سے جلد بازی سے کام لیا ہے۔ اپنی تحقیقی نظر کے تیر کو ذرا سنبھل کر چلانا چاہیے تھا بہت سے لوگ اسے فارسی پر مبنی سمجھتے ہیں۔ فارسی اور سنسکرت میں گہرا تعلق ہو نے کے سبب فارسی الفاظ کی بھرمار نظر آ تی ہے۔ سید احتشا حسین کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ کیجئے:

’’اردو کی پیدا ئش کی نسبت ہندی اور اردو کے کئی مصنفوں نے بہت غلط خیالات ظا ہر کیے ہیں۔ لسانیات سے نا بلد کچھ لوگ اسے فارسی زبان پر مبنی سمجھتے ہیں۔ یہ مغالطہ اس لیے ہے کہ اردو میں فارسی الفاظ کا استعمال بہت کیا گیا ہے مگر ایسا کچھ تو اس وجہ سے ہے کہ اس کے ابتدائی لکھنے والے فارسی ،عربی جانتے تھے اور دوسرے اس لیے کہ فارسی خود ایک آ ریائی زبان ہے اور سنسکرت کی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے بدلی ہوئی شکل میں ایسے بہت سے الفاظ کو اپنے اندر جگہ دیتی ہے جو فارسی میں بھی ملتے ہیں۔‘‘

[اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، سید احتشام حسین، ص:۱۷،۲۰۱۴ء،این سی پی یو ایل، نئی دہلی]

 اکثر ہمارے ناقدین ادب اور مشاہیر نے یہ تسلیم کیا ہے کہ عرب کے تاجر جب ہندوستان آ ئے تو یہ عربی لوگ اپنے قافلوں کے ساتھ جنوبی ہندوستان میں پھیل گئے۔ حالانکہ قدیم زمانے سے ہی عربی لوگوں کے تعلقات ہندوستانیوں سے بھی تھے۔ ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے۔ ایک دوسرے سے سماجی، مذہبی اور عقیدت مندا نہ تعلقا ت تھے۔ عربی ہندوستان آتے رہتے تھے۔ کبھی تجارت کرنے کی غرض سے اور کبھی دیگر ضروریات کے لیے ہندوستانیوں اور عربوں میں میل جول بنا رہتا تھا۔ مذہب اسلام کی رو سے دیکھا جائے تو ہمارے نبیؐ کے عہد سے ہی عرب کے لوگ تجارت کرنے کی غرض سے ہندوستان آ تے رہتے تھے۔ جنوبی ہندوستان اور عرب تا جروں کے میل جول سے نئی زبان وجود میں آ ئی۔ عرب سے آ ئے لوگ بھی اپنی زبان عربی و فارسی کو ہندوستان میں پھیلا تے رہے۔ عربوں اور سندھوں کے میل جول سے وجود میں آ نے والی اس نئی زبان کو اردو کی ابتدا ئی شکل تسلیم کرتے ہیں۔

الگ الگ ممالک سے آنے والے بہت سے تاجر ہندوستان میں اپنی زبان کا استعمال کرتے تھے بہت سے بادشاہ حکومت کرنے کی غرض سے ہندوستان آ ئے۔ محمد بن قاسمؒ نے۷۱۲ھ میں سندھ پر قبضہ کیا اور اپنی حکو مت کی بنیاد رکھی،جہاں عربی، فارسی کے الفاظ خوب استعمال ہورہے تھے۔انہیں الفاظ کے استعمال کے ساتھ ساتھ نئی زبان (کھڑی بولی) کی بنیاد بھی مضبوط ہو رہی تھی۔لوگوں میں میل جول بڑھنے کے ساتھ ساتھ کئی مما لک کے لوگوں میں لین دین شروع ہو رہا تھا۔ بہت سے باد شاہ ہندوستان پر حملہ کرنے کی غرض سے داخل ہو ئے اور فوج میں بے شمار لوگ دیگر ممالک، خاندان، نسل، طبقوں اور مذہب سے آئے۔انہوں نے بھی اپنی اپنی زبان کے اثرات چھوڑے۔ اس طرح یہ تسلیم کیا جانے لگا کہ اردو زبان فوجی لشکر کی وجہ سے وجود میں آئی اور ترکی زبان میں لفظ اردو فو جی، لشکر کو ہی کہا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ بات تسلیم کی جانے لگی کہ مختلف مقامات سے آ نے وا لے مختلف لوگ جو فوجیوں کی شکل میں لشکر کے ساتھ آ ئے ان کے میل جول سے اردو زبان وجود میں آ ئی مگر یہ نظریہ اردو زبان کے آ غاز کی مکمل دلیل نہیں ہے کیو نکہ کسی بھی ملک یا شہر کے لاکھوں لوگوں کی آ بادی میں سے کل آ بادی کا تین یا چار فیصد حصہ ہی کسی فو جی لشکر میں شامل ہو سکتا ہے شہر یا ملک کی پوری آ بادی نہیں۔ کسی حد تک اس بات کو بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ کوئی بھی زبان کسی مقام کی بڑی تعداد میں لوگوں کی تعداد پر مشتمل ہوتی ہے تین یا چار فیصد فوجی سپاہی کے ذریعے کوئی زبان پیدا نہیں ہوئی۔

۹۹۹ء میں محمود غز نوی نے ہندو ستان پر حملہ کیا اور لاہو ر کو اپنی راجدھانی بنایا۔ محمود غزنوی نے بہت سے سپاہی وہاں چھوڑے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ اردو زبان کے رشتے پاکستان اور ہندوستان کی قدیم بولیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیںمگر اردو زبان کو استحکام عطا کرنے میں مسلمانوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ محمو د غزنوی کے عہد سے ہی ہندوستان کے بعض الفاظ ہم کو فارسی شعرا کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ محمود غز نوی کی وفات کے بعد اس کے سپہ سالاروں اور فو جیوں نے پنجاب کی حکومت کو قبضے میں لے لیا تھا اور پھر یہ تسلیم کیا جانے لگا کہ فوجی لشکر کے سپاہی شہر کے لوگوں سے ملا قات کرتے تھے۔ ضرورت کے مطابق سپاہی لوگوں سے دوران گفتگو اپنی زبان کے اثرات چھوڑتے۔ اس طرح نئی زبان کی ابتدا میں یہ اپنا رول ادا کرتے مگر ہمیں شعور کی رو کاا ستعمال کرتے ہوئے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ کسی فو جی لشکر نے کسی نئی زبان کا آ غاز کیا ہو تو ہمیں سر جوڑ کر یہ بھی غور و خوض کرنا چا ہئے کہ آخر ہندوستانی فوج میں ایسی کون سی نئی خوبی ،نیا مزاج اور نیا نظریہ تھا جس کی وجہ سے نئی زبان( اردو) وجود میں آ ئی۔

محمد غوری نے ہندو ستان پر حملہ کر کے دہلی کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔ سنہ۱۰۰۰ میں مسلم بادشاہوں نے دہلی پر حملہ کیا اور پنجاب کو مرکز بنایا۔ پنجاب کے مسلمان پنجا بی اثرات کے ساتھ دہلی آ ئے۔ اسی لیے ہمارے محققین نے تسلیم کیا کہ جس زبان کو ہم اردو کہتے ہیں وہ پنجاب میں پیدا ہوئی۔ ممتاز محقق محمود خاں شیرا نی تسلیم کرتے ہیں کہ اردو پنجابی زبان سے نکلی ہے مگر ماہر لسانیات پروفیسر مسعود حسین خاں نے اپنی تحقیق کی روشنی میں یہ ثا بت کیا ہے کہ پنجابی اور اردو دو نوں ہم عمر ہیں۔ دو نوں میں بہنوں کا تعلق ہے۔ ماں بیٹی کا نہیں،مگر کچھ مشاہیر ادب یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پنجابی اور اردو بہنیں بہنیں ہی ہیں۔ حالانکہ ہندوستان میں پہلے ہی سے الگ الگ علاقوں میں الگ الگ بولیاں بو لی جاتی تھیں۔

آ ریہ اپنے ساتھ جو زبان لے کر آ ئے وہ سنسکرت تھی اور یہ سنسکرت ملک کی مقامی زبانوں کے ساتھ مل کر پراکرت کے نام سے مشہور ہوئی اور یہ زبان بعد میں برج بھاشا کہلا ئی۔ دہلی کو جب دار الخلا فہ بنایا گیا تو ہر ملک اور ہر بولی کے بولنے والے لوگ ہندوستان آتے جاتے تھے اور بہت سے ہندوستان میں ہی بس گئے تھے۔ آس پاس کے علاقے کی بولیاں ایک دوسری زبان سے میل کھاتی تھیں دیگر علا قوں سے آ نے والے لوگوں کی زبانوں کے اثرات اردو زبان پر دکھائی دینے لگے۔ با رہویں صدی میں مسلمان فاتحین نے ہندوستان آ نے کا سلسلہ شروع کیا تو وہ اپنے ساتھ زبان کے ساتھ اپنی تہذیب بھی لائے جن میں عربی، فارسی،ترکی وغیرہ شامل تھیں۔ اس طرح ہما رے بعض محققین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اردو بہت سی زبانوں کے ملنے سے وجود میں آ ئی جس میں عربی، فارسی لفظوں کا ایک خزانہ شامل ہے۔ بہت سے عربی لفظ اردو بولنے والوں کی زبان پر آنے لگے۔ مسلم فاتحین نے جب ہندو ستان میں اپنی حکمرا نی کی تو عربی، فارسی اور ترکی زبان کے بے شمار الفاظ یہاں کی بو لیوں میں مل گئے۔ یہ بات بھی یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ یہاں کے لوگ عربی سے واقف تھے، عربی بولتے بھی تھے مگر عربی کو کبھی کسی نے دفتری زبان بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ فارسی کو یہ مرتبہ حاصل ہوا۔ ہر یانہ اور مغربی اتر پردیش میں جو زبان بو لی جاتی ہے اسے کھڑی بولی کہتے ہیں۔ دہلی اور اس کے آس پاس بولی جانے والی اس کھڑی بولی میں عربی، فارسی اور ہندی کے کافی الفاظ شامل ہو گئے۔ ایرا نی اور عربی زبان کے جاننے والے لوگ ہندوستانیوں سے قریبی تعلقات رکھتے تھے اور زیادہ تر بادشاہ بھی ان ہی جگہوں سے آئے تھے۔ رشید حسن خاں کا یہ اقتباس ملا حظہ کیجئے :

’’اردو بہت سی زبانوں کے لفظوں کا مجمو عہ ہے۔ اس مجمو عے میں عربی و فارسی کے لفظوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ یہ لفظ کئی اعتبار سے اہمیت رکھتے ہیں۔ عربی کے اکثر لفظ اردو کو فارسی کے واسطے سے ملے ہیں۔ یہاں کے پڑھے لکھے لوگ عربی سے واقف تو ہوا کرتے تھے مگر عربی کو یہ مرتبہ کبھی حاصل نہیں ہو سکا کہ وہ ہندوستان میں دفتری زبان بن سکے۔ یہ شرف فارسی کے حصے میں آ یا اور اسی لیے فارسی کے اثرات عربی کے مقابلے میں ہمہ گیر رہے۔ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مختلف وجوہ کی بنا پر ایرا نی تہذیب اور زبان کو عربی تہذیب اور زبان کے مقا بلے میں ہندوستان سے قریب کی نسبت تھی اور حکمراں خاندان بھی عموماً اسی طرف سے آ تے رہے۔ یہ خاندان آ ئے ہوں کسی علاقے سے مگر ایرا نی اثرات ان کے ساتھ آ ئے۔ ایرا نی تہذیبی اثرات تھے ہی اس قدر طا قتور،ہمہ گیر اور ہمہ جہت۔ فارسی زبان کا مزاج بنیادی طور پر عربی سے مختلف ہے۔ یہ دو نوں زبانیں، زبانوں کے دو مختلف خاندا نوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ عربی اثرات بہت طاقت ور تھے مگر ایرا نی مزاج نے ان کو کبھی حکمراں نہیں بننے دیا۔ فارسی کے مقابلے میں عربی زبان کہیں وسیع اور با قاعدہ تھی مگر دوسری طرف ایرا نی تہذیب مجمو عی طور پر کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھی...۔ جس طرح عر بی کے بہت سے لفظوں کو فارسی میں تصرفات سے دو چار ہو نا پڑا تھا وہی صورت اردو میں رو نما ہوئی کہ عربی فارسی کے بہت سے لفظوں کو یہاں تقا ضوں کے تحت تصرفات سے دو چار ہونا پڑا اور یہ ہو نا ہی تھا۔‘‘

(زبان اور قواعد، رشید حسن خاں، ص:۱۸۸.۹،۱۹۷۶ء ترقی اردو بورڈ،نئی دہلی)

ہندوستانی عوام کی زبان الگ الگ خطوں میں بولی جارہی تھی۔ان زبانوں کو پرا کرت کہتے تھے۔ بدھ اور جین کی مذہبی کتابوں میں بھی پراکرت کے نمونے ملتے ہیں۔اپ بھرنس ایک زبان کے روپ میں وجود میں آئی بعد میں اس زبان کو لوگوں نے تسلیم نہیں کیا۔اپ بھرنس کے معنی بگڑی زبان کے ہیں اور موجودہ کھڑی بولی اپ بھرنس سے نکلی ہے۔جب ہندوستان کی کھڑی بولی میں عربی، فارسی الفاظ شامل ہو ئے تو اس بولی میں اتنی صاف گوئی پیدا ہوئی کہ اس زبان میں شعری محفلیں سجنے لگیں۔ رام بابو سکسینہ کا ایک اقتباس ملا حظہ کیجئے:

’’ حقیقت یہ ہے کہ زبان اردو اس ہندی بھا شا کی ایک شاخ ہے جو صدیوں دہلی اور میرٹھ کے اطراف میں بولی جاتی تھی اور جس کا تعلق سور سینی، پرا کرت سے بلا واسطہ تھا۔ یہ بھا شا جس کو مغربی ہندی کہنا بجا ہے زبان اردو کی اصل اور ماں سمجھی جاتی ہے۔ گو کہ’’ اردو‘‘ کا نام اس زبان کو ایک عرصۂ دراز کے بعد دیا گیا۔ زبان اردو کی صرف و نحو ،محا ورات اور کثرت سے ہندی الفاظ کا اس میں استعمال ہونا اس بات کی بین دلیل ہے کہ اس کی ابتدا ہندی سے ہوئی اور یہ محض اتفاق تھا کہ وہ ہندوستان کی زبان عام بن گئی جس کی وجہ یہ ہوئی کہ دہلی جو اس زبان کا ابتدا ئی مرکز تھا مسلمان حملہ آوروں اور بادشا ہوں کی جا ئے ورود اور ان کا دار السلطنت بنا ہوا تھا۔پس یہ خیال کرنا کہ میر امّن اور بعض قدیم اردو نثا روں کا خیال معلوم ہو تا ہے کہ اردو ایک مخلوط زبان ہے جس میں وہ سب زبانیں داخل ہیں جو کسی زمانے میں دلّی کے بازاروں میں بولی جاتی تھیں، صحیح نہیں ہے۔ یہ ضرور سچ ہے کہ لشکر یا بازار سے اس زبان کی نشوو نما اور ترقی کو اس قدر تعلق ضرور تھا کہ اس کا نام ہی اردو ہو گیا جس کو زبان ترکی میں’’لشکر‘‘ کہتے ہیں۔‘‘

(تاریخ ادب اردو، رام بابو، سکسینہ، ص:۲۵، ۲۰۰۰ء،دہلی)

اردو زبان کی ترقی میں مولویوں، صوفیوں، سنتوں، بادشاہوں، درباریوں، فوجیوں اور تاجروں کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ ان تمام افراد اور شخصیات نے ایک ملک سے دوسرے ملک اور دوسرے ملک سے تیسرے ملک یعنی ملکوں ملکوں سفر کیے۔فوج میں ہر طبقہ، ہر نسل، ہر مقام، ہرملک اور ہر شہر کے لوگ شامل رہتے تھے۔مگر زیادہ تر لوگ فارسی نہیں جانتے تھے اور سنسکرت سے بھی نا واقف تھے۔ ان تمام افراد کی وجہ سے یہ زبان ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی۔ ایسے وقت میں ہندو اور مسلمانوں کے لیے ایسی ہی زبان کی ضرورت تھی جس میں عربی و فارسی اور سنسکرت الفاظ شامل ہوں۔ اس نئی زبان کو کھڑی بولی( اردو) کے نام سے جانتے ہیں جو دہلی کے آس پاس بولی جاتی تھی۔ سید احتشام حسین کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے:

’’اگر ہم اس زبان کے اس تیزی سے بڑھنے پر غور کریں تو اس کا ایک بڑا اور نمایاں سبب یہ معلوم ہو تا ہے کہ دلّی کی فوجوں میں ہر جگہ کے لوگ ہوتے تھے جس میں ہندو بھی ہوتے تھے اور مسلمان بھی۔وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے رہتے تھے۔ ان میں سے بیشتر سرکاری زبان سے جو فارسی تھی ناواقف تھے اور سنسکرت سے بھی جو یہاں کی خاص علمی زبان تھی نا بلد تھے۔ اس لیے ان کے ربط با ہم کا وسیلہ بول چال کی کوئی ایسی ہی زبان ہو سکتی تھی جس میں ضرورت کے مطابق فارسی، عر بی اور سنسکرت الفاظ کا استعمال بھی ہوتا ہو،لیکن جس کی بنیاد مرکزی علا قے والی بول چال کی زبان ہو۔ یہ زبان دلّی کے دار السلطنت ہونے کے سبب سے کھڑی بولی کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتی تھی۔‘‘

(اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، سید احتشام، ص:۲۲، ۲۰۱۴ء،این سی پی یو ایل،نئی دہلی)

گوتم بدھ اور مہا ویر سوامی نے اپنے مذہب کی تبلیغ مقامی بو لیوں میں کی اور عوام نے بھی گوتم بدھ اور مہا ویر سوامی کی تعلیم کو سنا اور محسوس کیا۔ صوفیوں اور مولویوں نے مذہب کی تعلیم اور تبلیغ اسی زبان میں کی۔ مذہب کی تبلیغ ملکوں ملکوں میں ہوئی تو اس زبان کو بھی ملکوں ملکوں پہنچانا آ سان ہوگیا۔ مذہب کے سہارے صو بائی زبانوں میں ترقی ہوئی۔ ہند و مذہب کے رہنما سنسکرت کی حفاظت کرنے لگے، مگر سنسکرت ایک طبقے کی زبان بن کر رہ گئی۔ عام لوگوں تک اردو زبان کے ذریعے مذہب کا پیغام پہنچا تو یہ زبان عام ہوتی گئی۔ ہر شخص اسی زبان میں بات کر نے کی کوشش کرنے لگا۔ عام و خاص کی گفتگو اسی زبان میں ہو نے لگی۔

دہلی کے بادشاہ علا ء الدین خلجی نے دکنی ہندوستان کو فتح کیا۔ کچھ وقت کے بعد جب خلجی حکومت کا خا تمہ ہوا اور تغلق حکومت قائم ہوئی تو تغلق نے۱۳۲۷ء میں دہلی کے بجائے دولت آ باد یعنی دکن کو اپنا دار الخلافہ بنایا۔ محمد تغلق کے فر مان پر امیر، غریب، بوڑھے اور نوجوان ادبا و شعرا، مرد، عورت، تاجر، مزدور، فو جی وغیرہ دکن جانے لگے۔ ان لوگوں کے ذریعے دکن میں اردو زبان کو فروغ حاصل ہوا جب کہ بہت سے مشا ہیر ادب کو اس میں اختلاف ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ محمد بن تغلق نے اپنے مرکز کو دہلی سے دو لت آ باد منتقل نہیں کیا کیو نکہ اس وقت محمد بن تغلق خود دہلی میں تھا اور اس عہد کے بہت سے مؤرخ دہلی میں ہی تھے۔انہوں نے دو لت آ باد کوچ نہیں کیا تھا۔ بقول پروفیسر سید محمد عزیز الدین حسین:

’’ بعض مؤرخین و دانشوروں نے اس طرح کا تاثر دیا ہے کہ سلطان محمد بن تغلق(۱۳۲۵-۵۱ ء)نے علما و مشائخ کو دولت آ باد بھیجا تب سے دکن میں صوفیا نے کام کیا۔ دوسرے یہ خیال تھا کہ محمد بن تغلق نے مرکز کو دہلی سے دولت آ باد منتقل کردیا۔تاریخی شوا ہد کی رو شنی میں صحیح نہیں ہے۔ وہ خود دہلی میں رہا اور ضیا ء الدین برنی صا حب تاریخ فیروز شاہی ،جو اس کے مشیر تھے اور اسی عہد کے مو ٔرخ دہلی ہی میں رہے اور دولت آ باد نہیں گئے، لیکن ہم آج بھی اسکولوں، کالجوں اور یو نیورسٹیوں میں طلباو طالبات کو مرکز کے تبدیل ہو نے کی بات پڑھا رہے ہیں کہ مرکز دہلی سے دولت آ باد منتقل ہو گیا جو قطعی درست نہیں۔‘‘

)ششماہی ادب و ثقافت، مارچ۲۰۲۲ء، ص:۲۵، حیدر آ باد(

ان تمام مختلف خیالات کے بعد اردو کی نشو و نما اور آغاز کے تعلق سے بڑی دلچسپ اور پے چیدہ تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تغیر کے ادوار نظر آ تے ہیں۔ بہت سے محققین نے اپنی تحقیق کی رو شنی میں یہ ثا بت کرنے کی کوشش کی ہے کہ۱۳۲۵ء میں سلطان محمد بن تغلق نے اپنا پایۂ تخت دہلی سے دو لت آ باد منتقل تو کیا اور لوگوں کی بڑی تعداد دولت آ باد بھی گئی اور یہ لوگ جو زبان استعمال کرتے تھے وہی زبان دولت آ باد میں بھی استعمال کی۔ وہ لوگ وہیں پر اردو زبان استعمال کررہے تھے مگر کچھ وقت کے بعد محمد بن تغلق واپس دہلی آ گیا تھا۔ یہ لوگ دکن میں جو زبان استعمال کررہے تھے وہی اردو تھی جو بعد میں دکنی زبان کہلائی۔ پروفیسر م۔ن۔سعید کا یہ اقتباس ملا حظہ کیجئے:

’’۱۳۲۵ء میں دہلی کے سلطان محمد بن تغلق نے دہلی سے (دیو گیر) دولت آباد کو پایۂ تخت منتقل کیا تو دلّی شہر کی لاکھوں کی آبادی بھی ہجرت کرکے دیو گیر میں آباد ہو گئی۔ یہ آبادی جو زبان بولتے ہو ئے آئی تھی وہی اردو تھی جو دلّی میں بو لی جا رہی تھی۔ سلطان محمد بن تغلق تو دو سال بعد۱۳۲۷ء میں واپس دہلی کو چلا گیا لیکن جو آبادی ترک وطن کر کے دکن کے علا قوں میں آباد ہو گئی تھی وہ دہلی واپس نہیں گئی بلکہ دکن کو ہی اس نے اپنا وطن بنا لیا۔ یہ لوگ جو زبان بولتے تھے وہی اردو تھی جو آگے چل کر دکنی اردو کہلائی ۔کیو نکہ اب یہ زبان دکن میں بو لی جا رہی تھی۔‘‘

(جنو بی ہند میں اردو کی ابتدا و ارتقا اور مسائل،ص:۶ا انجمن ترقی اردو [ہند] کرناٹک،۲۰۲۲ء(

۱۳۴۷ء میں دکن میں بہمنی سلطنت کا قیام عمل میں آیا اور یہاں سے اردو زبان کو ادبی وقار کا درجہ ملنے لگا۔ بہمنی سلطنت نے تقریباً ڈیڑھ سو سال تک کا خوبصورت سفر طے کیا۔ اسی عہد یعنی بہمنی دور میں ہی اردو زبان کی پہلی کتاب نظامی بیدری کی مثنوی’’کدم رائو پدم رائو‘‘ منظر عام پر آئی۔ پھر بہمنی سلطنت کا بھی زوال ہوا۔ یہاں سے اردو زبان کی ترقی کا سفر کچھ عرصے کے بعد دکن میں جب قطب شاہی اور عادل شاہی حکو مت قائم ہو ئی تو اردو زبان کو اور زیا دہ تقویت ملی۔۱۴۹۰ء میں عادل شا ہی سلطنت بیجا پور میں قائم ہوئی جب کہ ۱۵۱۸ء میں قطب شاہی سلطنت گو لکنڈہ یعنی حیدر آ باد میں قائم ہوئی۔ بہمنی سلطنت اور عادل شاہی وقطب شاہی حکو مت میں اردو ایک قومی زبان بن چکی تھی اور بہت سی کتابیں بھی منظر عام پر آ چکی تھیں جیسے ملا وجہی کی’’ سب رس‘‘ اور’’ قطب مشتری‘‘ غواصی کی’’ طوطی نامہ‘‘ اور’’ سیف الملوک وبدیع الجمال‘‘، ابن نشا طی کی’’ پھول بن‘‘ ،نصرتی کی’’ علی نامہ‘‘ اور ’’ گلشن عشق‘‘ وغیرہ بڑی اہم کتابیں ہیں۔

قطب شاہی سلطنت کا چو تھا بادشاہ محمد قلی قطب شاہ نے شہر حیدر آ باد بسایا۔ محمد قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صا حب دیوان شاعر ہے جس کے دیوان میں تقریباً پچاس ہزار اشعار ملتے ہیں۔ محمد قلی قطب شاہ کا دا ماد محمد قطب شاہ پانچواں سلطان بنا۔ ان کے بعد عبد اللہ قطب شاہ اور ان کے بعد بیجا پور کی عادل شا ہی سلطنت میں سلطان علی عادل شاہ ثا نی بلند پایہ شاعر تھے۔ اس طرح با دشا ہوں اور وزیروں نے اردو کے فروغ میں اپنا اہم رول ادا کیا۔ آہستہ آ ہستہ درباروں کی سر پرستی بھی حاصل ہو نے لگی۔ بادشاہ بھی شعرو ادب سے دلچسپی رکھتے تھے، ادیبوں کا خیال رکھتے تھے، ادب کو دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ بقول ڈاکٹر انور سدید ’’علاؤالدین خلجی نے ۱۲۹۴ ء میں دکن کو فتح کیا لیکن مرکزی حکومت کے کمزور ہوتے ہی دکن میں بغا وت اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس قسم کی بغاوتوں کی بیخ کنی کے لیے محمد تغلق نے اپنا دار الخلافہ دولت نگر منتقل کردیا تو مسلمانوں کے ساتھ ان کی زبان نے بھی جنوب کی طرف سفر اختیار کیا لیکن دا ر السلطنت کی تبدیلی کا منصو بہ مفید ثا بت نہ ہوا اور محمد تغلق کو پا یۂ تخت واپس لا نا پڑا۔ تغلق خا ندان کے آخری دور میں پھر بغا وتیں ہونے لگیں۔ دکن میں بہمنی سلطنت اس دور کا اہم واقعہ ہے۔ اسی زمانے میں اردو زبان کو ادبی حیثیت ملنا شروع ہوئی۔ ان کے بعد بہمنی سلطنت کا بھی زوال شروع ہوا تو اردو کا ابتدا ئی فروغ عمل میں آچکا تھا۔

 جب دہلی پر برا وقت آ یا تو چاروں طرف سے دہلی پر حملے ہو نے لگے۔ بڑے پیمانے پر جنگ چھڑ گئی۔ بہت سے لوگ دہلی چھوڑ کر گجرات چلے گئے اور اپنے سا تھ اردو زبان بھی لے گئے۔ اکبر سے پہلے قصے، کہانیوں، داستانوں، عشقیہ مثنویوں اور عربی، فارسی کی کتابوں کے ترجمے پر مشتمل بہت سی کتابیں دکن میں آ چکی تھیں۔ یہ دکنی اردو آج بھی آ ندھرا پردیش، تلنگانہ، کرنا ٹک، تمل ناڈو میں بو لی جا رہی ہے۔ ۱۵۲۶ ء میں ظہیر الدین با بر نے دہلی میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی ۔با بر نے ’’تزک بابری‘‘ میں اردو کا لفظ سب سے پہلے استعمال کیا۔ اکبر نے حکو مت کی باگ ڈور سنبھا لی۔

اکبر کے عہد میں اردو لفظ کا فی مقبول ہوا۔ دہلی پر قبضہ کیا گیا۔ بہت سے مشا ہیر ادب یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اکبر کے عہد میں اردو کا آ غاز ہوا مگر یہ بات لائق یقین نہیں۔ اکبر نے نیا مذہب’’ دین الٰہی‘‘ چلا یا جس کو عوام نے اعتبار کی نظر سے نہیں دیکھا۔ اس وسیع سلطنت پر جہانگیر نے تقریباً ۲۲ سال حکو مت کی اور جہانگیر کے بعد شاہ جہاں نے ملک ہندوستان کو تاج محل جیسا انمول تحفہ دیا۔ شاہ جہاں نے دہلی کو آ باد کیا اور شا ہی قلعہ کو قلعۂ معلی کا نام دیا۔ شاہ جہاں کے عہد میں عربی ،فارسی اور ہندی کو ملی جلی زبان کے ساتھ ساتھ اردو کا کا فی چلن ہو چکا تھا۔ شاہی لشکر میں بھی یہ زبان اپنی شناخت بنا چکی تھی۔ اس لیے اسے اردو ئے معلی کا نام دیا گیا۔ ۱۶۳۷ ء کے بعد شاہ جہاں کے شا ہی لشکر میں اردو کو ’’ اردو ئے معلی ‘‘ کہا گیا۔ اسی لیے اردو کو عا م طور پر لشکری زبان کہتے ہیں۔ کیو نکہ یہ اردو زبان ہندی، عربی، فارسی اور سنسکرت کے میل جول سے بنی ہے۔

 سر سید احمد خاں بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اردو زبان کی ابتدا شاہ جہانی لشکر سے ہوئی ہے اس لیے اس کا نام اردو پڑا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اورنگ زیب کا زیادہ تر وقت حکو مت کو مضبوط کرنے میں گزرا۔راجپوتوں، مرہٹوں، افغانوں اور دکن کے باغی حکمرانوں کے ساتھ جنگ ہوئی ۔ دکن میں جب اورنگ زیب نے قیام کیا تو اردو کو کا فی فروغ حاصل ہوا کیونکہ اورنگ زیب علم و ادب کے شیدا ئی تھے۔۸۷-۱۶۸۶ء میں اورنگ زیب نے قطب شاہی اور عادل شاہی حکومت کا خاتمہ کیا اور انہیں مغل حکو مت میں ملا لیا۔قطب شاہی اور عادل شاہی حکو مت کے خا تمے کے بعد دکن میں مغل حکومت قا ئم ہوئی۔ ان کے عہد میں فتا ویٰ عالم گیری مرتب ہوئی۔ ان کے انتقال کے بعد انگریزوں نے تا جروں کا بھیس بدل کر ہندو ستان کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کی۔ پورے ہندوستان پر حکومت کرنے کی نا پاک منصو بہ بندی ہو نے لگی۔ بنگال، بہار اور اڑیسہ کو قبضہ میں کرلیا گیا۔ انگریزوں نے با قاعدہ ہندو ستان میں پیر جما لیے۔ تجا رت شروع کردی۔ اسی وقت آخری مغل بادشا ہ بہادر شاہ ظفر ہندو ستان کا مسیحا بن کر پیدا ہوئے جنہوں نے علم و ادب کی خوب خدمت کی۔ ولیؔ دکنی نے فارسی مضا مین کو اردو میں ترجمہ کیا۔ خوا جہ میر دردؔ، یقین ؔاور تاباںؔ جیسے اہم شعرا نے اردو زبان کے جسم میں روح پھونکنے کا کام کیا اور جدید اردو کی بنیاد ڈا لی۔ شاہ ولی اللہ کے بیٹوں نے قرآن مجید کے تراجم اور ان کے نواسے شاہ اسماعیل نے اردو نثر میں’’ تقویت الایمان‘‘ تحریر کی۔

۱۹۴۷ ء تک انگریزوں کی حکومت قائم رہی، مسلمانوں کو غلامی کی زندگی بسر کرنی پڑی مگر ایسے نازک وقت میں مسلمانوں میں ایسی اہم شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے پوری قوم کو صحیح راستے پر لانے کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کی خو ب خد مت کی۔ سر سید احمد خاں، علامہ اقبال وغیرہ نے پو ری قوم کو تخیلا تی دنیا سے با ہر کیا۔

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جو زبان دہلی اور اس کے قرب و جوار میں پلی بڑھی وہ پھیلتے پھیلتے دور دراز علا قوں میں چلی گئی۔ شروع میں اسے اردو کے نام سے جانا گیا جب دکن اور گجرات میں پہنچی تو دکنی اور گجری کہلا ئی۔ گجرات، راجپوتا نہ اور دو آبہ کی بولیاں اس زبان سے کافی متاثر ہوئیں۔ پنجاب میں داخل ہوئی تو لا ہوری کہلا ئی۔ انگریزوں کے زمانے میں اسے ہندوستانی کہا گیا۔ بعض محققین اردو کو آ ریوں کی قدیم زبان سمجھتے ہیں۔ اردو لفظ اصل میں ترکی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی لشکر کے ہیں۔ فوج کے پڑا ئو کو لشکر کہتے ہیں۔ اسی منا سبت سے اس زبان کو اردو کہا جا تا ہے۔ جب اس زبان کو مغلوں کی سر پرستی حاصل ہوئی تو اس زبان میں ادب لکھا جانے لگا اور عہد شاہ جہانی میں اس زبان کو اردوئے معلی بھی کہنے لگے مگر اس زبان کا اصل نام اردو ہی ہے۔ اب اردو کی ادبی تخلیقا ت کی تلاش میں دکن اور گجرات کی جانب مشاہیر ادب اپنی نظریں چار کرنے لگتے ہیں۔


rrr



شعبۂ اردو ،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ (یوپی) 

موبائل : 9759238472


4 comments:

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...