Tuesday, June 20, 2023

امتحان میں فیل ہوجانے والوں کے نام

 امتحان میں فیل ہوجانے والوں کے نام

گرگئے ہو تو اُٹھنا بھی سیکھو

نبیلہ مہوش

انگلش آنرزکی  ایک کتاب  پڑھنے کے دوران اس میں انگلش کا یہ جملہ مجھے بہت پسند آیا :

"BOTH JOY AND SORROW COME IN OUR LIFE"

اس جملے کے مفہوم کی روح میں اُ تر کر اگر ہر طالب علم غور و فکر کرنے کی عادت ڈالے تو اسے اپنی ’’ناکامی ‘‘ سے گھبرانے اور راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے اس کے اندر اپنی ہاری ہوئی بازی کو جیتنے کی جستجو پیدا ہو جائے گی۔ انسان ایک ایسی مخلوق ہے کہ ناکامی اس کو فکری گہرائی عطا کرتی ہے۔کامیابی کے ساتھ ناکامی بھی انسانی زندگی کا اہم جُز ہے۔ اللہ نے انسان کی زندگی کو صرف کامیابی یا صرف ناکامی سے منسوب نہیں کیا ہے۔بلکہ غم اور خوشی کی طرح کامیابی اور ناکامی بھی ہماری زندگی کے لازمی حصّے ہیں۔ کسی شاعر کے یہ اشعار بھی اسی قبیل میں شامل ہوتے ہیں :

دیکھو ایسا مت سمجھو

مجھ کو پسپا مت سمجھو

دکھ ہی اپنا ساتھی ہے

دکھ ہی اپنا ساتھی ہے

زندگی کی جد و جہد میں کبھی کوئی آگے بڑھ جاتا ہے اور کوئی پیچھے رہ جاتا ہے۔ کوئی غالب ہو جاتا ہے اور کوئی مغلوب ،مگر اس دنیا کے امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ کبھی کسی کے لیے حد نہیں آتی۔یہاں ہر پچھڑے ہوئے کے لیے دوبارہ آگے بڑھنے کا امکان ہے۔ضرورت صرف یہ ہے کہ آدمی زیادہ بڑے پیمانے پر عمل کر نے کے لیے تیّار ہو جائے۔ دیکھا یہ جارہا ہے کہ امتحان میں کم نمبر لانے کے سبب یا فیل ہوجانے کی وجہ سے طالب علم دل برداشتہ ہو کر حصولِ علم سے علیحدگی ٰ اختیار کر لیتا ہے،لیکن یہ راستہ یا طریقہ اس کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔اس طرح تو زندگی کی ہر جنگ میں ہار نے کے بعد حوصلہ کھونے کی بُری لت پڑجائے گی۔زندگی بڑی کٹھن اور دشوار راہوں سے گزرتی ہے اور ان مراحل سے نبرد آزما ہو نے کے لیے اللہ نے انسان کے  اندرحوصلہ عطا کیا ہے۔دنیا میں سبھی لوگ پہلی ہی کوشش میں کامیاب نہیں ہوجایا کرتے ہیں۔نصیب اور ذہانت کی بات ہے کہ کسی کو زیادہ اور کسی کو کم محنت سے منزل مل جاتی ہے۔ میرا یہ شعر شاید آپ کو حوصلہ دے :

چہرے پر قہاری رکھ

دل اپنا غفاری رکھ

منزل مل ہی جائے گی

کوشش اپنی جاری رکھ

آج کے دور میں مسلسل اور متواتر تگ و دواور کوششِ پیہم کو اپنا مشغلہ اور اپنا وطیرہ بنانا ہوگا۔گِر کر اُ ٹھنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ہمارے ایک استاد محترم مدھیامک میں کمپارٹمنٹل ہوئے۔ انہوں نے دوبارہ examدے کر میٹرک امتحان مکمل کیا۔وہ اپنی اس معمولی کامیابی سے مایوس اور دل برداشتہ نہیں ہوئے۔تعلیمی سلسلہ کو برقرار رکھا ۔ محسوس کیا کہ بہتر نتیجہ کر نے کے لیے بہتر محنت کی ضرورت ہے۔ اس لیے استادِ محترم نے اپنی اس معمولی کا میابی کو خاطر میں لائے بغیر اپنی محنت اور کوشش کی رفتار کو تیز کر دیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایم۔ اے کے ایکزام میں (اردو) گولڈ میڈلسٹ سے سرفراز کیے گئے۔ اگرانہوں نے اپنی کل کی معمولی کامیابی سے دل چھوٹا کرکے تعلیم کا سفر بند کردیا ہوتا تو ان کو نہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا اور نہ آج ہم ان کے حوصلہ کو پتوار بنا کر نسلِ نو کو ترغیب دینے کے لائق ہو تے۔دنیا کے کسی بھی امتحان میں ناکام ہو نے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ پھر اپنی کوشش کا سلسلہ بند کر دیا جائے لیکن ہم خود سے اپنے مقدّر کا فیصلہ کیوں کر نے لگیں ۔ ہمارا کام اپنے نصب ا لعین کی جانب متواتر اور مسلسل کوشش میں مستغرق رہنا ہے اور مسلسل سنجیدہ کوششیں مکمل نہیں تو کسی حد تک ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ہماری پہلی نا کامی زندگی کی تمام کوششوں کو ناکام بنا نے کا ضامن نہیں بن سکتی۔حوصلہ کو ریزہ ریزہ نہیں ہونے دینا ہے۔ آج بہت سارے لوگ ناکامی سے گزر کر ہی کامیابی کی بلندی پر براجمان ہیں۔یکلخت جو منزلِ مقصود پر پہنچ چکے ہیں ، ہمیں اُ ن کو نہیں دیکھنا ہے ۔ ہمیں اُ ن کو ترغیب کا ذریعہ بنا نا ہے جو FAIL ہوکر مایوسیوں کو اپنا ساتھی بنانے کے بجائے ازسرِ نو اپنی صلاحیت میں نکھار پیدا کرنے اور کوشش جاری رکھنے کے عمل سے ہمارے لیے مشعلِ راہ بنے ہوئے ہیں۔ہمیشہ اپنے اعتماد کو بحال رکھنا چاہیے۔  کیوں کہ معروف روسی فلسفی ’’ لیو ٹا لسٹائی ‘‘ کا قول ہے :

’’ ا عتماد ہی زندگی کی متحرک قوت ہے ۔‘‘

 آئیے ہم تہیّہ کریں کہ آج کی ناکامی ہماری کل کی جد و جہد اور سعیِ پیہم میں رکاوٹ اور رخنہ ثابت نہیں ہوگی اور ہم گر کر بھی اُ ٹھنے کا ہنر جانتے ہیں ، کیوں کہ :

گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں

وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے

 

C/o MD. Wakeel, B.L. No. 4, Holding No.5,

P.O. Kankinara, 24-PARGS (North)

Mob.: 9330126756

 

 

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...