Tuesday, June 20, 2023

احمق کون؟

احمق کون؟

 شیخ بشیر احمد

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ شہر سے دور ایک پسماندہ گائوں تھا۔ رقبہ کے لحاظ سے وہ جتنا بڑا تھا، اتنا ہی اس کی آبادی کم تھی۔ لوگ ان پڑھ، محنتی اور جفاکش تھے، مگر تھے بڑے سیدھے سادے اور مخلص بھی۔ کوئی کھیتی باڑی کرتا تھا، کوئی اپنے آبائی پیشے جیسے ترکھان، مستری، لوہار، بھنکر اور کمہار طبقے سے جڑا تھا اور کوئی بھیڑ بکریاں پالتا تھا۔

گائوں میں ایک چھوٹی سی ندی بہہ رہی تھی۔ اس میں سال بھر ہمیشہ پانی رہتا تھا۔ پانی شیشے کی طرح صاف و شفاف تھا اور لذت و لطافت میں میٹھا پن تھا۔ گائوں میں اب تک پانی کی پائپ لائن نہیں بچھائی گئی تھی، لوگ ندی پر جاکر پانی سے کپڑے دھوتے، نہاتے اور گھر میں لاکر خود بھی پیتے اور مال و مویشیوں کو بھی پلاتے تھے اور ساتھ ہی اپنے کھیت کھلیانوں کو سیراب کرتے تھے۔

گائوں میں ایک امیر آدمی رہتا تھا۔ اس کے پاس کافی دھن ودولت اور زمین تھی اور ایک بڑا خوبصورت عالیشان مکان بھی تھا۔ مکان کے سامنے ایک خوشنما باغیچہ بنوایا گیا تھا۔ اس میں جا بجا پھولوں کی کیاریاں تھیں اور ان کناریوں میں سال بھر رنگ برنگے دل لبھانے والے پھول کھلے ہوتے تھے۔

امیر آدمی نے اس باغیچہ کی دیکھ ریکھ کے لیے ایک نوکر رکھا تھا۔ وہ کئی سالوں سے کام کرتا چلا آیا تھا۔ ہٹا کٹا،تنومند اور جسیم تھا۔ ساتھ ہی محنتی، فرض شناس اور سادگی پسند بھی تھا۔ اس نے باغیچے میں طرح طرح کے پودے اگائے تھے۔ خاص طور پر ان پھولوں میں ’’گل آفتاب‘‘، گل لالہ‘‘، ’’گلاب‘‘، ’’سوسن‘‘، یمررزل‘‘، ’’عشق پیچان‘‘ اور ’’سورج مکھی‘‘ وغیرہ جیسے پھول ہوتے تھے۔چونکہ مالک نے گھریلو کام کاج کے ساتھ ساتھ باغیچے کو خوبصورت و دلکش بنانے کی ذمہ اس کے کاندھوں پر ڈال دی تھی اور وہ بھی اپنا کام بخوبی انجام دے رہا تھا۔لہٰذا صبح سویرے وہ بستر سے اٹھ کر پہلے ندی پر جاکر ہاتھ منہ دھوتا تھا۔ پھر وہاں سے دو گھڑے پانی بھر کر ایک ڈنڈی کے دو سروں پر جیسے ترازو کے دو پلڑے کی صورت کندھے پر اٹھاکر مالک کے گھر لے جایا کرتا تھا۔

ایک گھڑا سالم تھا اور دوسرے میں عیب یعنی ایک خفیف سا سوراخ بالکل سوئی کی نوک سے تھوڑا بڑا۔ گھر پانی پہنچانے تک عیب دار گھڑے سے ایک پتلی سی دھار بہتی رہتی تھی، جس کی وجہ سے گھڑے میں آدھا پانی رہ جاتا تھا۔ اتفاق سے ایک دن وہاں ایک دیہاتی گزرا اور وہ یہ دیکھ کر اس کے احمق پن پر مسکرانے لگا، اس کو ناہنجار نوکر پر ترس آیا۔ جب رہا نہ گیا تو اس نے نوکر سے پوچھا:

’’بھئی! تم اتنی محنت کرتے ہو، پتہ ہے راستے میں کتنا پانی ضائع کررہے ہو جب کہ لوگ پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔ قدر کرنی چاہیے۔ مجھے تمھاری اس نادانی پر رحم آتا ہے۔ اپنے مالک سے دوسرا گھڑا خریدنے کے لیے کہو نا۔‘‘

’’ہاں بھئی! میں تیرا احسان مند ہوں کہ تم نے میری حالت پر ترس کھایا اور مجھے پانی ضائع ہونے کا احساس بھی دلایا۔ مجھے پتہ ہے مگر۔۔۔‘‘

’’مگر کیا؟ خواہ مخواہ اپنے آپ کو اتنی تکلیف دے رہے ہو کہ ماتھے پر پسینہ آگیا ہے ، اپنے مالک سے دوسرا گھڑا لانے کو کیوں نہیں کہتے؟‘‘ دیہاتی نے ہمدردی جتاتے ہوئے بولا۔

پہلے نوکر چپ رہا پھر کچھ توقف کے بعد مسکراتے ہوئے گویا ہوا:

’’تم اس راستے کو ذرا غور سے دیکھو کہ کتنے ہی خوبصورت رنگ برنگے پھولوں کے پودے کھل اٹھے ہیں، جنھیں دیکھ کر دل کی باچھیں کھل اٹھتی ہیں۔ مجھے گھڑے میں سوراخ ہونے کا پتہ تھا۔ میں نے اس کا فائدہ اٹھایا کہ راستے میں جگہ جگہ اچھے اور بہترین قسم کے بیج بو دیے ہیں، اس خیال سے کہ جب مالک صبح سویرے اٹھ کر ہوا خوری Morning Walk  کے لیے اس راستے سے گزرتے ہیں تو ان کا دل کتنا باغ باغ ہوتا ہوگا۔ میرے بھائی! تم اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے ہو۔ دراصل میں اپنے مالک کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔ اب یہ بتائو، تمھاری نظروں میں کیا میں واقعی احمق ہوں؟‘‘

پیارے بچو! اس سے یہی سبق ملتا ہے کہ کسی کا عیب اچھالنے کے بجائے اس کے اندر چھپی خوبیوں اور اچھائیوں کو بھی تلاش کرلینا چاہیے۔


Tengapura, Nawab Bazaar, Srinagar-190002

Mob.: 9858989900

بین الاقوامی کرکٹ میں رویندر جڈیجہ کے ۵۰۰ وکٹ

  بین الاقوامی کرکٹ میں رویندر جڈیجہ کے ۵۰۰ وکٹ

عبیر الٰہی

رویندر جڈیجہ بین الاقوامی کرکٹ میں پانچ سو وکٹ حاصل کرنے والے بالروں میں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔بائیں ہاتھ سے اسپین بالنگ کرانے والے اس کھلاڑی نے اندور میں کھیلے گئے ٹسٹ میں آسٹریلیا کی پہلی اننگ میں افتتاحی بلے باز ٹریوس ہیٖڈ کو ایل بی ڈبلیو کرکے ایسا اپنے ۲۹۸ ویں بین الاقوامی میچ میں کیا۔ بین الاقوامی کرکٹ میں وہ پانچ سو یا اس سے زیادہ وکٹ حاصل کرنے والے ہندوستان کے ساتویں اور کل ملاکر۳۸ ویں بالر ہیں۔

آسٹریلیا کے خلاف چار ٹسٹ میچوں کیسیریز کے اختتام تک رویندر جڈیجہ نے جو۲۹۹ بین الاقوامی میچ کھیلے ہیں ان کی۳۵۰ اننگو ں میں ۲۵۵۶۶ بالوں پر۱۴۹۱۰رن دے کر۵۸ء۲۹ کی اوسط اور ۷۲ء۵۰ کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ ۵۰۴ کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا ہے۔ وہ ۱۳ مرتبہ ایک اننگ میں پانچ یا اس سے زیادہ اور دو مرتبہ ایک میچ میں دس کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایک اننگ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ کارکردگی ۱ء۱۲اوور میں۴۲ رن دے کر سات وکٹ ہے جو انھوںنے آسٹریلیا کے خلاف دہلی میں فروری ۲۰۲۳ء میں ہوئے ٹسٹ میچ میں انجام دی تھی۔ اس ٹسٹ میں وہ۱ء۳۳ اوور میں۱۱۰ رن دے کر دس کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب رہے تھے جو ایک ٹسٹ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ کارکردگی ہے۔

رویندر جڈیجہ نے ابھی تک جو۶۴ ٹسٹ میچ کھیلے ہیں ان کی ۱۲۲اننگو ں میں۱۵۷۱۸ بالوں پر۶۳۹۵رن دے کر۲۲ء۲۴ کی اوسط اور۵۳ء۵۹کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ۲۶۴ کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا ہے۔ وہ بارہ مرتبہ ایک اننگ میں پانچ یا اس سے زیادہ اور دو مرتبہ ایک میچ میں دس کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایک اننگ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ کارکردگی ۱ء۱۲اوور میں۴۲ رن دے کر سات وکٹ ہے جو انھوںنے آسٹریلیا کے خلاف دہلی میں فروری ۲۰۲۳ء میں ہوئے ٹسٹ میچ میں انجام دی تھی۔ اس ٹسٹ میں وہ۱ء۳۳ اوور میں۱۱۰ رن دے کر دس کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب رہے تھے جو ایک ٹسٹ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ کارکردگی ہے۔

چھ دسمبر۱۹۸۸ء کو سوراشٹر کے شہر نواں گام کھید میں پیدا ہوئے رویندر جڈیجہ نے ابھی تک جو ۱۷۱ ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے ہیں ان کی ۱۶۶اننگو ں میں۸۶۱۱ بالوں پر۷۰۶۲ رن دے کر۳۶ء۳۷ کی اوسط اور ۵۶ء۴۵کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ۲۶۴ کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا ہے۔ وہ آٹھ مرتبہ ایک اننگ میں چار یا اس سے زیادہ کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایک اننگ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ کارکردگی دس اوور میں ۳۶ رن دے کرپانچ وکٹ ہے جو انھوںنے ویسٹ انڈیزکے خلاف اوول میں۱۱جون ۲۰۱۳ء کو ہوئے میچ میں انجام دی تھی۔

رویندر جڈیجہ نے ابھی تک جن ۶۴ ٹوئنٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی میچوں میں شرکت کی ہے ان کی ۶۲اننگو ں میں۱۲۳۷بالوں پر۱۴۵۳رن دے کر۴۹ء۲۸ کی اوسط اور ۲۵ء۲۴ کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ۵۱ کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا ہے۔ وہ ایک بھی مرتبہ ایک اننگ میں چار یا اس سے زیادہ کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب نہیں رہے ہیں۔ ایک اننگ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ کارکردگی چار اوور میں ۱۵ رن دے کرتین وکٹ ہے جو انھوںنے اسکاٹ لینڈکے خلاف دوبئی میں۵ نومبر۲۰۲۱ء کو ہوئے میچ میں انجام دی تھی۔

بین الاقوامی کرکٹ میں ہندوستان کی جانب سے سب سے زیادہ وکٹ حاصل کرنے والے بالر انل کمبلے ہیں جنہوں نے ۱۹۹۰ء  اور۲۰۰۸ء کے درمیان جو۴۰۳ بین الاقوامی میچ کھیلے ہیں ان کی۵۰۱ اننگو ں میں۵۵۳۴۶ بالوں پر۲۸۷۶۷ رن دے کر۰۹ء۳۰ کی اوسط اور ۸۹ء۵۷ کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ۹۵۶ کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا ہے۔ وہ ۳۷ مرتبہ ایک اننگ میں پانچ یا اس سے زیادہ اور آٹھ مرتبہ ایک میچ میں دس یا اس سے زیادہ کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایک اننگ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ کارکردگی ۳ء۲۶اوور میں۷۴ رن دے کر دس وکٹ ہے جو انھوںنے پاکستان کے خلاف دہلی میں فروری ۱۹۹۹ء میں ہوئے ٹسٹ میچ میں انجام دی تھی۔ اس ٹسٹ میں وہ۵۱اوور میں۱۴۹رن دے کر۱۴ کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب رہے تھے جو ایک ٹسٹ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ کارکردگی ہے۔ وہ بین الاقوامی کرکٹ میں چوتھے سب سے زیادہ وکٹ حاصل کرنے والے بالر ہیں۔

ہربھجن سنگھ ہندوستان کے لئے بین الاقوامی کرکٹ میں دوسرے سب سے زیادہ وکٹ حاصل کرنے والے بالر ہیں۔ اس آف اسپنر نے۱۹۹۸ء اور۲۰۱۶ء کے درمیان جو۳۶۷بین الاقوامی میچ کھیلے تھے ان کی۴۴۴ اننگو ں میں۴۱۶۷۱ بالوں پر۲۳۱۴۳ رن دے کر۵۴۔۲۳ کی اوسط اور۶۰۔۵۸ کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ ۷۱۱ کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا ہے۔ وہ۲۸ مرتبہ ایک اننگ میں پانچ یا اس سے زیادہ اور پانچ مرتبہ ایک میچ میں دس یا اس سے زیادہ کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایک اننگ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ کارکردگی ۵۔۴۱اوور میں۸۴رن دے کر آٹھ وکٹ ہے جو انھوںنے آسٹریلیا کے خلاف چنئی میںمارچ ۲۰۰۱ء میں ہوئے ٹسٹ میچ میں انجام دی تھی۔ اس ٹسٹ میں وہ۱۔۸۰ اوور میں۲۱۷ رن دے کر۱۵ کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب رہے تھے جو ایک ٹسٹ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ کارکردگی ہے۔

آف اسپنرروی چندر اشون نے ۲۰۱۰ء سے اب تک جو ۲۷۰      بین الاقوامی میچ کھیلے ہیں ان کی۳۵۰اننگو ں میں۳۲۱۶۶بالوں پر ۱۸۰۷۴ رن دے کر۹۳۔۲۵ کی اوسط اور ۱۴۔۴۶ کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ ۶۹۷ کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا ہے۔ وہ ۳۲ مرتبہ ایک اننگ میں پانچ یا اس سے زیادہ اور سات مرتبہ ایک میچ میں دس یا اس سے زیادہ کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایک اننگ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ کارکردگی ۵۔۱۳اوور میں۵۹ رن دے کرسات وکٹ ہے جو انھوںنے نیوزی لینڈ کے خلاف اندور میںاکتوبر ۲۰۱۶ء میں ہوئے ٹسٹ میچ میں انجام دی تھی۔ اسی ٹسٹ میںوہ ۷۔۴۱ اوور میں ۱۴۰رن دے کر۱۳ کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا جو ایک میچ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ ہے۔ وہ بین الاقوامی کرکٹ میں ہندوستان کے لئے تیسرے سب سے زیادہ وکٹ حاصل کرنے والے بالر ہیں۔

کپل دیو ہندوستان کے لئے بین الاقوامی کرکٹ میں سب سے زیادہ وکٹ حاصل کرنے والے تیزبالر ہیں۔ کل ملاکر وہ چوتھے سب سے زیادہ وکٹ حاصل کرنے والے بالر ہیں۔دائیں ہاتھ کے اس تیز بالر نے۱۹۷۸ء  اور۱۹۹۴ء کے درمیان جو ۳۵۶ بین الاقوامی میچ کھیلے تھے ان کی۴۴۸ اننگو ں میں۳۸۹۴۲ بالوں پر۲۹۸۱۲ رن دے کر ۸۳۔۲۸ کی اوسط اور۶۶۔۵۶ کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ ۶۸۷ کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا ہے۔ وہ ۲۴ مرتبہ ایک اننگ میں پانچ یا اس سے زیادہ اور دو مرتبہ ایک میچ میں دس یا اس سے زیادہ کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایک اننگ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ کارکردگی ۳۔۳۰اوور میں۸۳ رن دے کرنو وکٹ ہے جو انھوںنے ویسٹ انڈیز کے خلاف احمد آباد میںنومبر ۱۹۸۳ء  میں ہوئے ٹسٹ میچ میں انجام دی تھی۔ پاکستان کے خلاف چنئی میں جنوری ۱۹۸۰ء میں۴۔۴۲ اوور میں ۱۴۶ رن دے کر گیارہ کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا جو ایک میچ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ ہے۔

اس فہرست میں پانچواں مقام ظہیر خان کا ہے۔ بائیں ہاتھ کے اس تیز بالر نے ۲۰۰۰ء  اور۲۰۱۴ء کے درمیان جو ۳۰۹ بین الاقوامی میچ کھیلے تھے ان کی۳۷۹اننگو ں میں۲۹۲۳۴بالوں پر۱۸۹۹۶ رن دے کر ۱۴۔۳۱ کی اوسط اور ۹۲۔۴۷کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ ۶۱۰ کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا ہے۔ وہ بارہ مرتبہ ایک اننگ میں پانچ یا اس سے زیادہ اورایک مرتبہ ایک میچ میں دس کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایک اننگ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ کارکردگی ۳۔۲۰اوور میں۸۷ رن دے کرسات وکٹ ہے جو انھوںنے میر پور،ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کے خلاف میںجنوری ۲۰۱۰ء  میں ہوئے ٹسٹ میچ میں انجام دی تھی۔ اسی ٹسٹ میںوہ ۳۔۳۹اوور میں ۱۴۹رن دے کردس کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا جو ایک میچ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ ہے۔

جواگل سری ناتھ ہندوستان کی جانب سے بین الاقوامی کرکٹ میں چھٹے سب سے زیادہ وکٹ حاصل کرنے والے بالر ہیں۔ دائیں ہاتھ کے اس تیز بالر نے ۱۹۹۱ء اور۲۰۰۳ء کے درمیان جو ۲۹۶ بین الاقوامی میچ کھیلے تھے ان کی۳۴۸اننگو ں میں۲۷۰۳۹بالوں پر۱۶۰۴۳ رن دے کر۱۱۔۲۹کی اوسط اور ۰۷۔۴۹کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ ۵۵۱ کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا۔ وہ ۱۳ مرتبہ ایک اننگ میں پانچ یا اس سے زیادہ اورایک مرتبہ ایک میچ میں دس کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ایک اننگ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ کارکردگی ۲۷اوور میں۸۶رن دے کرآٹھ وکٹ ہے جو انھوںنے کولکاتہ میںپاکستان کے خلاف میں فروری ۱۹۹۹ء میں ہوئے ٹسٹ میچ میں انجام دی تھی۔ اسی ٹسٹ میںوہ ۴۶اوور میں۱۳۲رن دے کر۱۳کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا جو ایک میچ میں ان کی سب سے اچھی بالنگ ہے۔

 بائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے رویندر جڈیجہ نے۲۹۹ بین الاقوامی میچوں میں۵۰۴کھلاڑیو ں کو آئوٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ۲۴۳ اننگوں میں۱۰۔۳۳کی اوسط اور۰۹۔۱۷کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ تین سنچریوں اور۳۱ نصف سنچریوں کی مدد سے ۵۵۶۲ رن بنائے ہیں۔ وہ ۱۳ مرتبہ صفر پر بھی آئوٹ ہوئے ہیں اور ان کا سب سے زیاد اسکور آئوٹ ہوئے بغیر۱۷۵رن ہے جو انھوںنے ۳۲۴ منٹ میں ۲۲۸ بالوں پر۱۷ چوکوں اور تین چھکوں کی مدد سے سری لنکا کے خلاف موہالی میں مارچ  ۲۰۲۲ء میں بنایا تھا۔ان کی اس شاندار اننگ کی بدولت ہندوستان نے۲۔۱۲۹ اوور میں آٹھ وکٹ پر ۵۷۴ رن بناکر ااپنی اننگ ڈکلیر کردی تھی اور سری لنکا کو پہلی اننگ میں۶۵ اوور میں۱۷۴رن پر آئوٹ کردیا تھا۔ فالوآن کے بعد سری لنکا کے سبھی کھلاڑی اپنی دوسری اننگ میں۶۰اوور میں۱۷۸رن بناکر آئوٹ ہوئے تھے جس کی وجہ سے ہندوستان نے اس میچ میں ایک اننگ اور ۲۲۲ رن سے جیت حاصل کی تھی۔ اس ٹسٹ میں رویندر جڈیجہ نے ۳۶ اوور میں۸۷رن دے کر نو کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا۔ شاندار آل رائونڈ کارکردگی کے بعد انہیں مین آف دی میچ ایوارڈ ملا تھا۔

 

1407, Qasim Jaan Street,

Ballimaran, Delhi-110006

 

 

لائٹ، کیمرا اور ایکشن

  لائٹ، کیمرا اور ایکشن

کردار اداکاری

وامق ضیا

آداب ننھے ساتھیو! ’’بچوں کا ماہنامہ اُمنگ‘‘کی جون کی قسط میں میں آپ کا استقبال کرتا ہوں۔ ہم ایک بار پھر سے آپ کے لیے سنیما اور تھیٹرسے جڑی مزیدار باتیں لے کر آپ کے پسندیدہ سلسلے ’’لائٹ، کیمرااور ایکشن‘‘میں حاضر ہیں۔ آپ کے خطوط ہمیں ملتے رہتے ہیں اور ان سے ہمیں اور بہتر کرنے کا حوصلہ ملتا رہتا ہے۔ خطوں کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ آپ مستقبل میں بھی یوں ہی ہمارا مضمون پڑھتے رہیں گے اور ہماری حوصلہ افزائی بھی کرتے رہیں گے۔ اگر آپ کو ہمارے سلسلہ وار مضامین اور ’’بچوں کا ماہنامہ اُمنگ‘‘کے اور مضامین پسند آتے ہیں تو یہ رسالہ اپنے دوستوں کو تحفتاً ضرور دیں اور انھیں اُمنگ پڑھنے کی رائے بھی دیں۔

پیارے بچو! جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ جب سے اس سلسلے ’’لائٹ، کیمرااور ایکشن‘‘کا آغاز ہوا تب سے ہم سنیما اور تھیٹرسے جڑے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے رہے ہیں۔ کبھی ہم ان اداکاروں کی بات کرتے ہیں جو ہیرو (Hero) کے کردار میں نظر آئے ہیں اورہم نے آپ سے ان اداکاروں کے بارے میں بھی بات کی ہے جو منفی کرداروں (Villain) میں نظر آتے ہیں۔ ہم نے ہدایت کاروں کا ذکر بھی کیا ہے، یہاں تک کہ موسیقاروں، سنگیت کاروں اور گلوکاروں کی بھی بات کی ہے۔ ان سب کے علاوہ ہم نے تھیٹر سے جڑی کچھ عظیم شخصیات سے بھی آپ کی ملاقات کرائی ہے،لیکن آج ہم سنیما سے جڑے ایک ایسے پہلو کے بارے میں بات کریں گے جس کے بغیر کوئی بھی فلم ادھوری ہے، لیکن اس پہلو کے بارے میں زیادہ بات نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ پہلو زیادہ مشہور ہے۔ تو آج ہم سنیما کے ان اداکاروں کا ذکر کریں گے جو فلموں کے ہیرو (Hero) یا ہیروئن (Heroine) نہیں بنتے یعنی کہ مرکزی کردار نہیں ہوتے لیکن وہ اہم کردار ادا کرتے ہیں جو فلموں کی کہانی کا بے حد اہم حصہ ہوتے ہیں اور جن کے بغیر فلم کا تصور کرنا بھی ناممکن ہوتا ہے، ان اداکاروں کو کردار اداکار (Character Artist) بھی کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں فلم ’’منابھائی ایم بی بی ایس‘‘(Munna Bhai MBBS)اس فلم میں سنجے دت، ارشد وارثی اور گریسی سنگھ مرکزی کردار میں نظر آتے ہیں، لیکن اس فلم میں ڈا استھانا کا کردار بھول پانا مشکل ہے، یہ کردار ادا کیا تھا جناب بومن ایرانی (Boman Irani) نے۔ حال کے دور میں ڈا استھانا کا کردار سب سے اہم کرداروں میں سے ایک بن گیا اور بومن ایرانی اس دور کے سب سے اہم کردار اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ سنہ ۱۹۵۹ء  میں پیدا ہونے والے بومن نے ۴۱ سال کی عمر میں سنہ ۲۰۰۰ ء میں پردے پر اداکاری کی شروعات چند اشتہاری  فلموں (Ad Films) کے ساتھ کی، بچو! کریک جیک  بسکٹ میں ان کی اداکاری بہت مقبول ہوئی تھی اور آپ کے والدین کو وہ اشتہار آج بھی یاد ہوگا۔ بومن کے سنیمائی سفر کا آغاز سنہ ۲۰۰۳ء میں آئی جناب رام گوپال ورما کی فلم ’’ڈرنا منع ہے‘‘ سے ہوئی لیکن ان کو مقبولیت ملی اسی فلم ’’منابھائی ایم بی بی ایس‘‘ سے، جو سنہ ۲۰۰۳ء  میں ہی آئی تھی۔

ننھے بچو! آئیے اب آپ کو ایسے ہی چند اداکاروں کے بارے میں بتاتے ہیں جنھوں نے ایسے ہی کردار ادا کر کے سنیما کی تاریخ میں اپنا ایک اہم مقام بنایا۔

جگدیش راج (Jagdish Raj)

سنہ ۱۹۲۸ء میں پیدا ہوئے جناب جگدیش راج ہندی سنیما کے سب سے اچھے اداکاروں میں سے ایک گنے جاتے ہیں۔ جگدیش راج صاحب پولیس والے کا کردار ادا کرنے کے لیے مشہور ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی پیشہ ور زندگی میں تقریباً ۱۴۴ فلموں میں پولیس والے کا کردار ادا کیا تھا اور اسی عمل کے لیے ان کے نام کا اعلان Guinness Book of World Recordsکی جانب سے عالمی ریکارڈ کے طور پر کیا گیا تھا۔ جگدیش صاحب اس اعزاز کو حاصل کرنے والی چند اہم سنیمائی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ سنہ ۱۹۳۹ء میں فلم ’’ایک ہی راستہ‘‘ (Ek hee Raasta) سے اپنا سنیمائی سفر شروع کرنے والے جگدیش صاحب نے دیوار (۱۹۷۵ء), ڈان (۱۹۷۸ء), شکتی (۱۹۸۲ء) اور مزدور (۱۹۸۳ء) جیسی تاریخی فلموں میں کام کیا ہے۔

افتخار (Iftikhar)

صوبۂ پنجاب کے شہر لدھیانہ سے آنے والے عظیم اداکار سید افتخار احمد شریف کی پیدائش سنہ ۱۹۲۴ء میں ہوئی تھی ۔سنہ ۱۹۴۴ء میں آئی فلم ’’تکرار‘‘ سے اپنے فلمی سفر کا آغاز کرنے والے اس اداکار کو ہم سب افتخار کے نام سے جانتے ہیں۔ برِ صغیر کے سب سے جذباتی سانحات میں سے ایک یعنی کہ ہندوستان کے بٹوارے کے دور ان والدین سمیت ان کا خاندان پاکستان  چلا گیا تھا اور جناب افتخار نے روزی روٹی کی تلاش میں اپنے شہر کلکتہ (Kolkata) سے ممبئی (Mumbai) ہجرت کی۔ ممبئی میں اپنے دوست اور مشہور اداکار جناب اشوک کمار کی مدد سے انھوں نے اپنے فلمی سفر کو دوبارہ زندہ کیا، جہاں انھوں نے اشوک کمار جس کمپنی میں ملازمت کرتے تھے، اُسی بامبے ٹاکیز (Bombay Talkies) کی فلم مکدر (۱۹۵۰ء) میں کام کیا۔ اس کے بعد وہ لگ بھگ ہر تاریخی فلم میں نظر آئے جن میں سے اگر چند فلموں کا نام لیا جائے توہ وہ ہیں دیوار (۱۹۷۵ء)،زنجیر (۱۹۷۳ء)،ڈان (۱۹۷۸ء)،خاموشی (۱۹۶۹ء) اور سفر (۱۹۷۰ء)۔

 ڈیوڈ ابراہم (David Abraham)

جناب ڈیوڈ ابراہم چیؤلکر (David Abraham Cheulka) کی پیدائش سنہ ۱۹۰۹ء میں ہوئی تھی۔ ہندوستان کے سنیما کے ابتدائی دور کے سب سے مشہور چہروں میں سے ایک اس اداکار کو ’’ڈیوڈ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اتنا عظیم اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ڈیوڈ ایک بے حد اچھے تقریب پیش کرنے والے بھی تھے۔ آج تک سنیما کے سب سے عظیم اعزاز میں سے ایک فلم فیئر (Filmfare) کو ابتدائی دور میں یہی ڈیوڈ پیش کیا کرتے تھے۔ سنہ ۱۹۴۱ء  کی فلم نیا سنسار (Naya Sansaar) سے اپنی پیشہ ور زندگی میں ۱۱۰ سے زیادہ فلموں میں کام کیا ہے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کے پہلے وزیرِ اعظم جناب جواہر لعل نہرو (Jawaharlal Nehru) نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ہندوستان میں ہونے والی کوئی بھی تقریب جناب ڈیوڈ کے بغیر ادھوری ہے۔ جناب ڈیوڈ نے اپنے دور کے تمام عظیم ہدایت کاروں کے ساتھ کام کیا ہے، یوں تو ان کی تمام فلموں میں سے چند کا انتخاب بہت مشکل ہے لیکن اگر ہم کو کچھ نام ان کے کام کا جائزہ لینے کے لیے بتانے ہوں تو وہ ہیں بوٹ پولش (۱۹۵۴ء)،باتوں باتوں میں (۱۹۷۹ء) اور گول مال (۱۹۷۹ء)۔

 نظیر حسین (Nazir Hussain)

سنہ ۱۹۲۲ء میں پیدا ہوئے اداکار جناب نظیر حسین، ایک بے حد دلچسپ شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اداکار تھے، ہدایت کا ر تھے اور مصنف تھے۔ فلمی دنیا میں آنے سے پہلے وہ برطانوی (British) فوج کا حصہ تھے اور اس نوکری کے دوران وہ ملیشیا (Malaysia) اور انڈونیشیا (Indonesia) میں تعینات رہے، انڈونیشیا میں انھیں قید بھی ہوئی اور وہ جنگی قیدی بھی بنے، اس کے بعد وہ جناب سبھاش چندر بوس سے متاثر ہوکر آزاد ہند فوج کا حصہ بھی بنے جہاں سے پھر وہ فلم میں آئے جہاں انھوں نے باقی کی زندگی بسر کی۔ سنہ ۱۹۵۰ء کی فلم پہلا آدمی (Pehla Aadmi) سے اپنے فلمی سفر کی شروعات کرنے والے نظیر صاحب نے ۵۰۰ سے زیادہ فلموں میں اداکاری کی ہے جن میں سے کچھ اہم فلمیں تھیں آرزو (۱۹۶۵ء)، دو بیگھہ زمین (۱۹۵۳ء)، دیوداس (۱۹۵۵ء) اور نیا دور (۱۹۵۷ء)۔

 اے کے ہنگل (A.K.Hangal)

جناب اوتار کشن ہنگل (Avtar Kishen Hangal) کی پیدائش سنہ ۱۹۱۴ء میں ہوئی تھی۔ کم عمری سے ہی وہ جنگ ِ آزادی کے ساتھ جڑے اور مجاہد ِ آزادی بنے اور آزادی ملنے تک آزادی کے لیے لڑتے رہے۔ اس کے بعد وہ رنگ منچ سے جڑ گئے لیکن ڈراموں میں بھی ان کی سیاسی شخصیت نمایاں رہی۔ وہ جناب بلراج سا  ہنی اور جناب کیفی اعظمی کے ساتھ تختی پسند ڈرامے کی تنظیم اِپٹا (IPTA) سے جڑگئے جس کے ساتھ وہ تاعمر جڑے رہے۔ انھوں نے اپنے فلمی سفر کا آغاز ۱۹۶۶ء میں آئی باسو بھٹاچاریہ  (Basu Bhattacharya) کی فلم تیسری قسم (Teesi Qasam) سے کیا تھا۔ اس وقت ہنگل صاحب کی عمر ۵۲ سال کی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے ایک سے بڑھ کر ایک عظیم فلموں میں کام کیا جیسے کہ آئینہ (۱۹۷۷ء)، شوقین (۱۹۸۲ء)، منزل (۱۹۷۹ء) اور سنہ ۱۹۷۵ء میں آئی تاریخی فلم شعلہ کا وہ مشہور مکالمہ ’’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی‘‘ہنگل صاحب نے ہی ادا کیا تھا۔

 نروپا رائے (Nirupa Roy)

اب ہم ان عظیم اداکارہ کی بات کریںگے جنھیںساری دنیا جناب امیتابھ بچن کی ماں کے طور پر یاد کرتی ہے کیونکہ انھوں نے بچن صاحب کی زیادہ تر عظیم فلموں میں ان کی ماں کا کردار ادا کیا، آپ میں سے کئی لوگ تو پہچان بھی گئے ہو ں گے کہ ہم بات کر رہے ہیں میڈم نروپا رائے کی۔ دو بیگھہ زمین (۱۹۵۳ء) ہندوستان میں سنیما کی تاریخ کی سب سے عظیم فلموں میں سے ایک گنی جاتی ہے۔ اس فلم میں نروپا رائے نے جناب بلراج سا  ہنی کے کردار کی اہلیہ کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ میڈم نروپا کی پیدائش سنہ ۱۹۳۱ء میں ہوئی تھی۔ ۲۵۰ سے زیادہ فلمیں کرنے والی میڈم نروپا نے اپنے فلمی سفر کا آغاز سنہ ۱۹۴۶ء کی گجراتی فلم رنکدیوی سے کیا تھا، اس کے بعد وہ سنہ ۱۹۹۹ء تک فلموں میں کام کرتی رہیں۔ سنہ ۲۰۰۴ء میں اپنی عظیم فلمی پیشہ ور زندگی کے لیے انھیں فلم فیئر (Filmfare) نے لائف ٹائم اچیومنٹ (Lifetime Achievement) اعزاز سے نوازا تھا۔ ویسے تو ان کی تمام فلمیں خوبصورت ہیں لیکن دو بیگھہ زمین کے ساتھ ان کی جو چند فلمیں یاد کی جا سکتی ہیں وہ ہیں منی مجی (۱۹۵۵ء)، شہید (۱۹۶۵ء)، رام اور شیام (۱۹۶۷ء) اور دیوار (۱۹۷۵ء)۔

 قادر خان (Kader Khan)

جناب قادر خان کو تو شاید ہم سب ہی پہچانتے ہو ں گے اور جناب گووندا کے ساتھ نبھائے ان کے مزاحیہ کرداروں سے توشاید آپ سب نے لطف بھی حاصل کیا ہوگا، لیکن ایک عظیم اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ہنر مند مصنف اور مکالمہ نگار بھی تھے۔ ہندی سنیما کے کئی یادگار مکالمے جناب قادر خان نے ہی لکھے تھے۔ سنہ ۱۹۳۱ء میں ایک افغانی گھرانے میں پیدا ہونے والے جناب قادر خان ابتدائی دور میں ایک کالج میں پڑھاتے تھے اور پڑھانے کے ساتھ ساتھ وہاں ڈرامے بھی کرواتے تھے۔ وہیں سے ان کاہنر انھیں فلمی دنیا میں لے آیا جہاں انھوں نے ۳۰۰ سے زیادہ فلموں میں اداکاری کی اور ۲۵۰ سے زیادہ فلموں میں مکالمہ نگاری کی۔ انھوں نے سب سے پہلے منموہن دیسائی کی ہدایت میں بنی فلم روٹی (۱۹۷۴ء) کے لیے مکالمہ نگاری کی جبکہ ان کی اداکاری سب سے پہلے نظر آئی سنہ ۱۹۷۳ء میں آئی فلم داغ (Daagh) میں، اتفاقاً ان دونوں ہی فلموں کے مرکزی کردار میں جناب راجیش کھنہ موجود تھے۔ ان کے علاوہ جناب قادر خان کی کچھ یادگار فلمیں تھیں مقدر کا سکندر (۱۹۷۸ء)،مسٹر نٹورلال (۱۹۷۹ء)، آنکھیں (۱۹۹۳ء)، تقدیر والا (۱۹۹۵ء) اور باپ نمبری بیٹا دس نمبری (۱۹۹۰ء)۔

ننھے بچو! مجھے اُمیدہے کہ ان تمام اداکاروں کے بارے میں جان کر آپ کو اچھا لگا ہوگا اور آپ کے علم میں اضافہ ہوا ہوگا۔ ہمیں اُمید ہے کہ جب آپ ان لوگوں کو کسی فلم میں دیکھیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ آپ کتنے ہنرمند اداکاروں کا کام دیکھ رہے ہیں۔ ان تمام لوگوں کے بارے میں آپ اپنے والدین، بھائی بہنوں اور دوستوں کو بھی بتائیں گے۔ شکریہ۔

آپ آپ سے جولائی ماہ کی قسط میں ملاقات ہوگی۔ خدا حافظ

B-1, 2nd Floor, Thokar No.7, Shaheen Bagh,

Abul Fazal Enclave-II, Jamia Nagar, New Delhi-110025

Mob.: 9891522760

 

 

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...