Wednesday, May 31, 2023

ایک ناکام ترجمہ

 ایک ناکام ترجمہ

وسیم احمد علیمی

’’ہر لسانی اظہار ایک قسم کا ناکام ترجمہ ہے۔‘‘

(فرانز کافکا)

سردیوں کی خاموش اور لمبی رات تھی ۔اس نے دسویں کروٹ لی یا شاید گیارہویں۔دیر تک سوچتے رہنے کی وجہ سے نیند روٹھ سی گئی تھی اور وہ کروٹ پر کروٹ بدل رہا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ پانچ برس پہلے جب اس کا ترجمہ ’’دنیا کی پندرہ عظیم تحریریں‘‘ شائع ہوا تھا تب رسم اجرا کے دوران ادیبوں،شاعروںاور نقادوں نے کس طرح اپنے مثبت اور منفی تاثرات سے محفل کوگرماکر بے حد دلچسپ بنا دیا تھا۔دیگر بحثوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے ترجمہ کے ثانوی اور غیر تخلیقی ہونے پر بھی زور دیا تھا۔جلسے کی مکمل روداد اس کے ذہن میں ایک خوب صورت اور متاثر کن رپورتاژ کی طرح آگے بڑھ رہی تھی ۔

اکثر مقررین نے ترجمہ کو ثانوی درجے کی ادبی خدمت اور غیر تخلیقی ادب قرار دیا تھا۔ان کے نزدیک ترجمہ کوئی قابل قدر کام نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مستقل فن ہے۔ہر وہ ادیب جو دو زبانوں کا ماہر ہے ،آسانی سے ایک زبان کو دوسری زبان میں منتقل کر سکتاہے ،یہ کوئی جوئے شیر لانا نہیں ہوا اور اب تو مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)نے ترجمے کا کام اور بھی آسان کر دیا ہے،چٹ اِدھر سے آلو ڈالو،پٹ اُدھر سے پاپڑی بن کر تیار ۔مشین ترجمہ کر سکتی ہے،شاعری نہیں،نہ مشین فکشن لکھ سکتی ہے۔

’’میں آپ لوگوں سے اتفاق نہیں رکھتا‘‘۔ ایک نوجوان ادیب نے کہا۔

’’میں نے خود کبھی کوئی قابل قدرادبی ترجمہ نہیں کیا لیکن میرا ماننا ہے کہ یہ اتنا بھی آسان نہیں جتناحلوہ لوگ اسے سمجھتے ہیں۔ساڑھے تین ہزار صفحات پر مشتمل عظیم ناول In Search of Lost Time کے خالق مارشیل پراؤسٹ نے تو کہا ہے کہ اچھا لکھنے کے لیے ترجمہ کر نا بے حد ضروری ہے۔ترجمے کی تخلیقیت پر سوال اٹھاناخود ادب،تحریر،لفظ اور زبان پر سوال قائم کرنے کے مترادف ہے۔

جو اچھا تخلیق کار نہیں وہ سلجھا ہوا مترجم بھی نہیں ہوسکتا، مترجم ہونے کی اولین شرط خود کو پہلے تخلیقی مزاج سے ہم آہنگ کرنا ہے‘‘۔

’’کم از کم شاعری کا ترجمہ تو ناممکن ہے اور اس کی جرأت بھی بے جا ہے‘‘ ایک بوڑھے شاعر نے اپنی رائے ظاہر کی۔

شرکائے بحث میں ایک جواں سال نقاد بھی تھا۔وہ بلا کا ذہین اور انتہائی متاثر کن شخصیت کا مالک تھا۔اپنی تقریر میں اس نے کسی ادیب،شاعر،ناقداور مفکر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انتہائی پر جوش اور مدلل انداز میں اپنی بات پیش کی :

’’میرے نزدیک ترجمہ یا دوسری کوئی بھی ادبی تخلیق یکساں اہمیت کی حامل ہے۔اگر میں تقابلی جائزہ پیش کروں تو ترجمہ ایک حد تک دوسری ادبی تخلیق سے کہیں زیادہ مہتم بالشان نظر آتا ہے، کیوں کہ ایک عام تخلیق کار کسی حدود اور متن کی پابندی کیے بغیر اپنے فن کا اظہار کرتاہے جبکہ ایک مترجم کے سامنے بنیادی متن ہوتاہے اور وہ اپنے فن کا اظہار کمال ہوشیاری سے اس متن کی حدود میں رہ کر ہی کرتا ہے، اس لیے مترجم زیادہ احترام کے قابل ہے کہ حدود میں رہ کر فن کا اظہار آزادانہ طور پر لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے اور رہی بات مشینی ترجمے کی تو میرا تمام نکتہ شناسوں کو چیلنج ہے کہ مترجم موصوف کے انتخاب کردہ ادب پاروں میں سے کسی بھی ایک تحریر کا مشین کی مدد سے شایان شان ترجمہ کرکے دیکھ لیں۔ سب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اس حوالے سے سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہر مترجم ادیب اور مصنف بھی ہے، لیکن ہر ادیب اور مصنف ، مترجم بھی ہو یہ ضروری نہیں۔‘‘

جواں سال نقاد کی گفتگو سے محفل میں جان سی پڑ گئی ۔ نوخیز مترجم جو اپنی ہی برسوں کی محنت پر دیگر ادیبوں کی آرا سے پشیمان ہوا بیٹھا تھا اچانک پر جوش ہوکر تالیاں بجانے لگا۔اس کی تالیاں اس قدر ولولہ انگیز تھیں کہ اگر اس وقت اس کی ہتھیلیوں کے بیچ دو جہان بھی آجاتے تو وہ پیس کر راکھ کر دیتا۔ پوری محفل تالیوں سے گونج اٹھی۔

ابھی کچھ آن پہلے جن کہنہ مشق شاعروں اور عمر رسیدہ ناقدوں نے ترجمہ کو ایک ہلکا پھلکا آرٹ بتایا تھا ،سب خجالت سے پانی پانی ہو رہے تھے ۔

اختتام کے بعد چائے نوشی کے دوران ایک مشہور افسانہ نگار جو خود شریک محفل تھے آگے بڑھ کر جواں سال نقاد کو داد دیتے ہوئے گویا ہوئے :

’’آپ نے بے حد پر استدلال اور جوش بھری گفتگو کی، آپ کی عمر میں ، میں بھی ایسا ہی تھا،جوش اور ولولے وقتی اور عارضی ہوتے ہیں ،میرے نزدیک یہ قابل تسلیم نہیں کہ ترجمہ تخلیق سے زیادہ مشکل فن ہے۔‘‘

’’سر!               ممکن ہے آپ یہ تسلیم نہ کریں لیکن ادیبوں کی بڑی جماعت نے پہلے ہی اسے تسلیم کر لیا ہے۔ادبی دنیا کافکا کے قول ’’All language is but a poor translation‘‘(ہر لسانی اظہار ایک قسم کا ناکام ترجمہ ہے۔)کو بے حد احترام کی نظر سے دیکھتی ہے اور تسلیم کرتی ہے۔ آپ کے افسانے بھی تو آپ کی نفسیاتی کش مکش کے ناکام ترجمے ہی ہیں ‘‘ نقاد نے اپنا موقف واضح کرنے کی کوشش کی ۔

’’اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ ہم جیسے تخلیق کار ترجمہ نہیں کرسکتے تو ۔۔۔۔‘‘ افسانہ نگار نے اپنی آواز کو بھاری اور لہجہ کو تحکمانہ کرتے ہوئے کہا:

 ’’تو آپ مشکل ترین متن کا انتخاب کریں ،میں ترجمہ کے لیے تیار ہوں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ آپ کے مترجم موصوف بھی کسی تخلیقی صنف میں کامیاب طبع آزمائی کر کے دکھائیں۔۔۔۔اگر میر ا ترجمہ خام ہوا اور ان کی تخلیق پختہ تو میں دستخطی تصدیق کے ساتھ لکھ کر دیتا ہوں کہ دوبارہ کبھی کوئی تخلیق لکھنے سے توبہ کر لوں گا‘‘۔

’’کچھ نہیں لکھیں گے ؟ واقعی ؟ ‘‘ نقاد نے حیرت کا اظہار کیا۔

’’سر!اس قدر سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی ،لیکن جب آپ نے عہد کر ہی لیا ہے تو چلیں تاریخ میں اس ادبی سانحے کو مزید دلچسپ بنانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔

نقاد نے دور کھڑے اپنے ہم عمر مترجم کو آواز لگادی جو اپنے رفیقوں کے ساتھ چائے نوشی کے آداب بجا لاتے ہوئے اس خوش گوار لمحے کے ایک ایک پل کو موبائل کے کیمرے میں قید کر رہا تھا ۔

مترجم نے پھر ایک کروٹ لی۔ یقیناً یہ پندرہویں کروٹ تھی ۔رات مزید گہری اور شانت ہو چلی تھی ،جیسے جیسے تاریکی گہری ہو رہی تھی، اسی طرح اس کے ذہن میں مذکورہ واقعے کا ایک ایک سین صاف و شفاف ہوتا جا رہا تھا ۔یادیں اندھیرے اور تنہائی میں زیادہ پر کشش اور پر اسرار ہو جایا کرتی ہیں ۔اسے خوب شدت سے یاد آیا کہ کیسے اس نے ،نقاد نے اور افسانہ نگار نے بے حد احمقانہ طور پر اس بے بنیاد شرط پر دستخط کیے تھے کہ جو مترجم ہے وہ کوئی تخلیق پیش کرے گا اور جو افسانہ نگار ہے وہ کسی ادبی متن کا ترجمہ کرے گا اور رہا نقاد تو اس کو اختیار ہے وہ جو چاہے کرے ۔افسانہ نگار نے اصرار کیا تھا کہ ترجمہ کے لیے وہ دونوں پیشگی ہی کسی ادبی متن کا انتخاب کردیں تاکہ بعد میں اس کی خود انتخابی کو بہانہ بنانے کی گنجائش باقی نہ رہے ۔

اور پھر متفقہ طور پر عظیم انگریزی ناول نگار جوزف کونریڈ کی کہانی The Secret Sharerکا انتخاب ہوا تھا۔

آج پانچ برس بعد مترجم کروٹیں بدل بدل کر اس واقعہ کو کیوں یاد کر رہا ہے ؟کیا ان تینوں کی وہ بے تکی شرط ادبی دنیا میں کوئی انقلاب برپا کر سکی ؟مترجم،افسانہ نگاراور نقاد۔۔۔۔ادب کے تین دیوانوں کا کیا بنا؟

اب مترجم کی سانسیں گہری ہو رہی تھیں،یادوں کا پردہ دھیرے دھیرے دھندلا ہونے لگا تھا،شاید اس نے آخری کروٹ لے لی تھی ۔نیند کسی سست زہر کی طرح اس کے اعضا کو کمزور کر رہی تھی ، اس کے ذہن میں آج شام رسم اجرا میں کی گئی افسانہ نگار کی تقریر کسی ڈوبتے ہوئے سورج کی طرح اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی ۔ افسانہ نگار نے اعتراف کر لیا تھا :

’’معززسامعین!

آج کی شام نہایت یاد گار ہے،آج ہم لوگ ایک ساتھ تین کتابوں کی رسم رو نمائی میں شرکت کر رہے ہیں ۔یہ تینوں کتابیں آج سے ٹھیک پانچ سال پہلے ادب کے تین احمقوں کے درمیان طے پانے والی ایک بے تکی شرط کا نتیجہ ہیں ۔ایک غیر دانشمندانہ شرط جس نے مترجم کو افسانہ نگار،افسانہ نگار کو مترجم اور نقاد کو وہ بنا دیا جواس نے نہیں چاہا تھا ۔

 ایک مترجم جس نے دنیا بھر کے ادب پاروں کی ورق گردانی کی ہو ،جس نے ادب کے بڑے بڑے سورماؤںکے لفظ لفظ پر گھنٹوں مراقبے کیے ہوں اورجس نے کم از کم دو زبانوں سے ایک ساتھ سیرابی حاصل کی ہو، وہ خودجب کوئی ادب پارہ تخلیق کرنے بیٹھے گا تو کیا قیامت ڈھائے گا، اس کا اندازہ آپ لوگ ہمارے مترجم موصوف کے تازہ ترین پہلے افسانوی مجموعہ ’’مدھم روشنی کا غبار ‘‘کے مطالعے سے اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ پانچ برس بیت گئے۔ میں نے ہی ان کو چیلنج کیا تھا کہ ترجمہ کر لینا اور بات ہے مگر تخلیق کے لیے الگ قسم کی ریاضت درکار ہوتی ہے، لیکن میں غلط تھا۔ترجمے کی شعریات مجھ پر اس وقت منکشف ہونا شروع ہوئیں جب میں شرط کی تکمیل کے لیے خود ترجمہ کرنے بیٹھا ۔آج اگر جوزف کو نریڈ کی چالیس صفحات پر مشتمل بونا فائیڈ کہانیThe Secret Sharer(1912)’’گھر کا بھیدی ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ ہو کر آپ کے ہاتھوں میں ہے تو اس ادبی تخلیق کے پیچھے بھی وہی پانچ برس پرانی بے ڈھنگی سی شرط ہے اور میں اپنے اس ترجمہ کو زور دے کر ’ادبی تخلیق‘ ہی کہوں گا کیوں کہ ہر خیال ایک کورے کاغذ پر رقم کیے جانے سے پہلے تخلیق کار کے لاشعور میں ترجمہ کے مرحلے سے ہی گزرتاہے ۔

کسی خیال کا لسانی شکل اختیار کر لینا بھی ایک نوعیت کا ترجمہ ہی ہے۔تخلیق ہو یا ترجمہ دونوں ہی خیال کو متن میں بدلنے کا ایک عمل ہے۔تخلیق کار اپنے احساسات، مشاہدات، تصورات، اپنی بصیرت،اپنی یادوں اور تخیل کو لفظ کے سانچے میں ڈھالتاہے تو ایک مترجم بھی کسی متن کو دوسری زبان میں منتقل کرنے سے پہلے تخلیق کے متعینہ مراحل سے گزارنے کی کوشش کرتاہے۔

معلوم ہے؟ پانچ سال پہلے جب ایک جواں سال نقاد نے اسی ہال میں ترجمہ کے تخلیق ہونے کی وکالت کی تھی تو اس کے موقف سے سب سے زیادہ شدت کے ساتھ کس نے اختلاف کیا تھا ؟میں نے اور آج میں ہی اس کے موقف کاسب سے بڑا تائید گزار ہوں، کیوں کہ میں نے خود کو مترجم کے احساس سے گزارا ہے۔پہلے تو میں بس ایک خاص زبان میں افسانے لکھ رہا تھا ،یہ ترجمہ کی برکت ہے کہ انتخاب اور ترجمہ کی نیت سے دنیا کے بڑے اورعالی شان ادب کی خاک چھان رہا ہوں ۔ دوسری طرف جناب نقاد نے میری کہانیوں کو The Half-Eaten Blanket(ادھ خوردہ کمبل ) کے عنوان سے انگریزی میں کیا منتقل کیا ، میری رسوائی کا شہرہ راتوں رات دوردور تک پھیل گیا۔ آج جو یہاں متعدد زبانوں کے شہسوار موجود ہیں،یہ بھی ترجمہ ہی کی برکت ہے۔

چونکہ جناب مترجم کے افسانے انتہائی تخلیقی ثابت ہوئے ہیں اور میرا پہلا ادبی ترجمہ قدرے خام ۔۔۔۔سو میں شکست خوردہ واقع ہوا ،لہٰذا شرط کے مطابق مجھے اب ادب تخلیق کرنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ابھی مجھے نہیں معلوم کہ ادبی احساس کے ساتھ کچھ نہ لکھتے ہوئے بھی زندہ رہنے کی اذیت کس قدر اندوہناک ہوگی؟ لیکن میں نے عہد کر لیاہے کہ آبلہ پائی کے باوجود اس گلشن ِ پر خار میں قدم بڑھاتا ہی چلا جاؤں تاکہ ہر چبھن کے ساتھ احساس تازہ ہو کہ ترجمہ بھی تخلیق ہی ہے اور میں نے تو تخلیقی ادب تحریر کرنے سے توبہ کرلی ہے‘‘۔

ترجمہ تخلیق ہے یا نہیں ،اول درجے کا فن ہے یا ثانوی درجے کا، یا سرے سے فن ہے ہی نہیں ،یہ الگ بحث ہے، لیکن افسانہ نگار کی تقریر کا ماحصل صرف اتنا ہے کہ ترجمہ نگاری کا کام ایک عجیب نوعیت کے پر اسرار درخت کے سایے تلے بیٹھنے جیسا ہے جس کی جڑ،پھول،پتے،پھل،چھلکے،گٹھلی اور گودے تک میں مزہ ہی مزہ ہے ۔ شاید اسی لیے اس کے سایے میں insomnia کے مارے ہوؤں کو بھی نیند آجایا کرتی ہے۔اب دیکھیے نا،جناب مترجم کو بھی افسانہ نگار کی تقریر یاد کرکے گہری نیند آگئی ۔

 

S2/22تیسری منزل،جوگابائی ایکسٹینشن،

جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی ،۱۱۰۰۲۵

موبائل نمبر: 7835961294

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...