Monday, May 22, 2023

دوسری صاحب دیوان شاعرہ: ماہ لقا چندا کا رنگ تغزل

 

دوسری صاحب دیوان شاعرہ: ماہ لقا چندا کا رنگ تغزل

ڈاکٹر سلمیٰ رفیق

اورنگ آباد جو شمال اور جنوب کا سنگم رہا ہے۔ہر دور میں یہاں نا مور شخصیتیں پیدا ہوئیں اور جو لوگ باہر سے آئے وہ بھی اس کی تہذیب و تمدن میں اس طرح رچ بس گئے کہ ان کی شناخت کرنا آسان نہیں رہا۔ اٹھارہویں صدی کے آخر ی دور میں جب آصف جاہی حکومت قائم ہوئی اور ایک بار پھر دکنی تمد ن نکھرنے لگا اور جہاں امرا اور رؤسا کی قد آور شخصیتیں سامنے آئیں وہیں شعرو ادب کی رونقیں بھی اپنے کمال کو پہنچیں ۔اسی ماحول کا غالباً نتیجہ تھا جس میں ماہ لقا جیسی شاعرہ اپنے تمام تر جمال و کمال کے ساتھ ابھریں۔ماہ لقا کو ایک عرصے تک پہلی صاحب دیوان شاعرہ تسلیم کیا گیا۔ محمد عبد الحئی نے ’’ تذکرہ شمیم سخن میں،ٖفصیح الدین بلخی نے ’’ تذکرہ نسوان ہند‘‘ میں اور فصیح الدین رنجؔ نے ’’ بہارستان ناز ‘‘میں انھیں اردو کی پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ لکھا ہے۔ بعد کی تحقیق نے ثابت کر دیا کہ پہلی صاحب ِدیوان شاعرہ لطف النسا امتیاز ہیں اگرچہ یہ اولیت صرف ایک سال کی ہے پھر بھی ان کا شمار صفحہ اول پر لکھا جائے گا۔ اس طرح ماہ لقا دوسری صاحب ِدیوان شاعرہ قرار پائیں ۔دکن کو یہ امتیاز حا صل ہے کہ پہلا صاحب ِدیوان شاعر اور پہلی صاحب ِدیوان شاعرہ اسی خطۂ ارضی میںپیدا ہوئے۔ ماہ لقا کی تعلیم و تربیت اور نشو نما اٹھا رہویں صدی کے نصف آخر میں اورنگ آباد میںہوئی لیکن عروج و کمال انیسویں صدی کے ربع اول میں حیدر آباد میں اس وقت ہوا جب آصف جاہی حکومت کو استحکام ملا۔

مولوی غلام صمدانی خان گوہر کی تحقیق کے مطابق ماہ لقا چند ا ؔ ۱۷۶۷ ء میں پیدا ہوئیں اور ۱۸۲۴ ء میں وفات پائیں۔ مولوی غلام صمدانی خان گوہرؔ لکھتے ہیں  :

’’دیوان چندا ؔ مخزونہ سینٹرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ مخطوطات مشرقی عہد نظام علی خان میں مرتب ہوا تھا۔اس زمانے میں ارسطو جاہ مدارالمہام سلطنت آصفیہ تھے۔ یہ دیوان دراصل راجہ اور نبھا کی ایما پر سید نصیر الدین خان قدرت نے مرتب کیا تھا اور ماہ لقا کی خواہش پر طویل دیباچہ بھی لکھا تھا۔ارسطو جاہ نے اس دیوان کو دیکھ کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔دیوان کے مرتب ہونے کا سنہ ’’ ھو اللطیف الاعظم‘‘۱۲۱۳ ھ سے برآمد ہوتا ہے۔ یہی وہ نسخہ تھا جس کو ایک تقریب میں ماہ لقا نے کپتان مالکم کو بتاریخ یکم اکتوبر ۱۷۹۹ ء یکم جماد ی الاول ۱۲۱۴ ھ کو نذر کیا تھا۔اس نسخہ میں ایک سو پچیس(۱۲۵) غزلیں ہیں...‘‘

(حیات ماہ لقا،مولوی غلام صمدانی خان گوہر،نظام المطابع،حیدر آباد (دکن)،۱۹۰۶ء،ص: ۱۲۱)

ماہ لقا کا زمانہ اردو زبان کے لیے ارتقائی دور سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔جب شمال میں میر تقی میرؔ ،مرزا رفیع سودؔا، میردرؔد اور شاہ نصیرؔ وغیرہ اردو کو معیار اور وقار عطا کر رہے تھے اور دکن میں میر ذوالفقار علی صفاؔ اور مرزا علی لطف اپنے جوہر دکھا رہے تھے۔ ماہ لقا کے سوانحی حالات کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ وہ بلند پایہ شعرا اور ادیبوں کی تخلیقات سے بھی استفادہ کرتی تھیں۔اسی طرح اس دور کے علمی اور ادبی ماحول نے بھی ماہ لقا کی جبلی صلا حیتوں کو جلا بخشی۔ ان کی غزلوں میں ان کا اپنا منفرد مقام اور اعلیٰ شاعرانہ خصوصیات دیکھنے کو ملتی ہیں اگرچہ رنگ و آہنگ میں اس دور کا مروجہ مزاج جھلکتا ہے اور حسن و عشق کے معاملات کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ماہ لقا کی غزلوں کے موضوعات عموماً وہی ہیں جو اس دور میں رائج تھے لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماہ لقا نے جس خوش اسلوبی کے ساتھ غزل کی تکنیک کو برتا ہے وہ انھیں اس دور کی خواتین شاعرات میں ممتاز کرتی ہے، لیکن غالباًان کے نام کے ساتھ طوائف لفظ نے بھی ان کے مقام و مرتبہ پر قدغن لگائی۔محمد عبدالحئی لکھتے ہیں :

’’چندا طوائف باشند ئہ دکن عالمگیر ثانی بادشاہ دہلی کے عہد میں تھیں ۔شیر محمد خان ایمان سے مشورئہ سخن رکھتی تھیں۔ تیر اندازی و نیزہ بازی میں مثل مذکور کے مہارات کامل رکھتیںاور شعرا کی قدر کرتی تھیں۔کئی سو سپاہی اور چند شاعر اس کے نوکر تھے۔عورتوں میں سب سے پہلے اردو میں اسی عورت نے اپنا دیوان جمع کیا تھا...‘‘

(تذکرہ شمیم سخن،محمد عبد الحئی ،منشی نول کشور، لکھنو، ۱۸۹۱ء، ص:۸ )

اسی طرح فصیح الدین بلخی کا بیان ملا حظہ کیجیے:

’’بعض تذکرہ نویسوں نے اس کے تذکرہ میں کوتاہ قلمی سے کام لیا ہے۔مثلاًً مولف ’’ سخن شعرا‘‘ نے اس کو حیدر آباد کی طوائف اور شاعرہ لکھنے پر ہی اکتفا کیا ہےاور اسی طرح دوسرے تذکروں میں بھی اس کا ذکر محض اختصار کے ساتھ ہے۔اس کی امتیازی خصوصیات کا کمتر ذکر کیا ہے۔‘‘

(تذکرہ نسوان ہند،فصیح الدین بلخی ،شمسی پریس، پٹنہ سٹی۔۱۹۵۶ء، ص: ۲۲)

ان کی بہت سی غزلوں پر اساتذہ کا گمان ہوتا ہے۔مثال کے طور پر غالبؔ کی غزل جس کا مطلع ہے:

جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں

خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

اسی زمین میں ایک غزل ماہ لقا چنداؔ نے بھی لکھی تھی جس کا مطلع ہے:

ہلال مہ نو کو کم دیکھتے ہیں

وہ ابرو کا تیرے جو خم دیکھتے ہیں

 ادب اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے۔ ادب میں اس دور کے واقعات اور تاریخی شواہد موجود ہوتے ہیں جس کے باعث وہ ادب پارہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ماہ لقا چنداؔ کے مختصر دیوان میں بھی ہمیں اس دور کی کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ارسطو جاہ کا ذکر دو بار ملتا ہے۔ایک جگہ اس کی مدح سرائی ہے جہاں قصیدہ کا رنگ معلوم ہوتا ہے۔ملاحظہ ہو :

رہے نو روز عشرت آفریں جوش بہار افزا

گل افشاں ہے تیرا چمن میں دہر کے ہر جا

نہ پوچھو کوئی عیش و خرمی کو عہد میں اس کی

کہ جس کے فیض سے گھر گھر ہے دور ساغر صہبا

ارسطو جاہ وہ فرخ نژاد اہل عا لم ہے

کہ جس کے فضل و بخشش کا جہاں میں ہے علم برپا

اسی طرح یہ شعر بھی ملاحظہ ہو:

کسریٰ سے لے کر آج تلک چشم دہر میں

دیکھا نہ تجھ سا اور کوئی اہل جاہ شوخ

نظام الدولہ آصف جاہ کی کرم فرمائیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو رستم دوراں سے تعبیر کیا ہے اور اس کی قدر دانی کا اعتراف ان اشعار میں کیا ہے :

سخاوت میں کوئی ہم سر نہ ہوا اس کا زمانہ میں

وہی کرتا ہے پورا جس کے دل میں جو ارادہ ہے

خضر کی عمر ہو اس کی تصدق سے ایمہ کے

نظام الدولہ آصف جاہ جو سب کا مسیحاہے

سدا پلتے ہیں چنداؔ سے ہزاروں جس کے سایہ میں

نظام الدولہ و شاہ دکن ہے رستم دوراں

 ماہ لقا نے انعام اللہ یقین ؔ کے طرز پر اپنی غزلوں کو پانچ اشعار تک ہی محدود رکھا۔پانچ اشعار کی قید سے ان کی مذہبی عقیدت کا بھی اظہار ہوتا ہے ۔علیؓ سے عقیدت غالباً ماہ لقا چنداؔ کے دیوان کا سب سے نمایاںعنصر ہے۔ سات غزلوں کو چھوڑ کر باقی ساری غزلوں کے مقطعے منقبت کے ہیں حضرت علیؓ سے عقیدت مادی اور روحانی دونوں ہے ۔وہ اپنی دنیوی اور اخروی دونوں زندگیوں میں حضرت علیؓ کے وسیلہ کی طلبگار ہیں:

گنج کرم سے بخشے مولا کچھ اس قدر

چندؔا کو ہو نہ پھر کسی زر دار کی تلاش

حضرت علیؓہی چندا کا دین و ایمان سب کچھ تھے۔ انہی سے اسے اپنی ساری زندگی کا لطف محسوس ہوتا تھا :

یا علی تم سے ہے چندا ؔ کو یہ امید قوی

دین و دنیا میں رہے لطف سے آرام کے بیچ

ماہ لقا نے سادہ اور سلیس زبان کا استعمال کیا ہے۔پورے دیوان کے مطالعہ سے بھی کہیں پیچیدگی اور ابہام کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ان کی غزلوں میں موسیقی اور ترنم کا عنصر نمایاں ہے۔بہت سی بحریں غنائیت سے بھر پور ہیں اسی باعث دل و دماغ پر اچھااثر چھوڑتی ہیں:

گل کے ہونے کی توقع میں جیے بیٹھی ہے

ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے

کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوف خزاں

بلبل اب جان ہتھیلی میں لیے بیٹھی ہے

یہ اشعار بھی ملاحظہ ہوں:

ہلال مہ نو کو کم دیکھتے ہیں

وہ ابرو کا تیرے جو خم دیکھتے ہیں

حرم کو بنائے ہیں بس دیر دل میں

تجھے جب سے ہم اے صنم دیکھتے ہیں

نہیں تیری آتی ہے ایک بات ان میں

حسینوں کو تیری قسم دیکھتے ہیں

عشق الٰہی یا تصوف کے رموز جہاں ہمیں اس دور میں میر دردؔ کے یہاں اپنے عروج پر ملتے ہیںوہیں ماہ لقا کے مختصر سے غزلیہ دیوان میں بھی اس کی اچھی مثالیں مل جاتی ہیں۔ماہ لقا کی غزلیں افکار عالیہ سے بھرپور ہیں۔عشق کے جذبے کو وہ بہت اعلیٰ مقام پر رکھتی ہیں۔مقام الوہیت کی شناخت کے لیے یہ اشعار ملاحظہ ہوںجن میں تصوف کے نادر افکار پوشیدہ ہیں:

غور کیجیے تو ہیں پر نور جمادات و نبات

یہ تیرے جلوے کا ہے ذات بشر میں غوطہ

ادا شرط عبادت ہو سکے ہے کب بھلا اس کی

خودی کو اپنی جب بھولے خدا کی یاد تک پہنچے

بجز حق کے نہیں ہے غیر سے ہر گز توقع کچھ

مگر دنیا کے لوگوں میں مجھے ہے پیار سے مطلب

ماہ لقا نے محاوروں اور ضرب الامثال کا بر محل استعمال کیا ہے۔خواتین کی عام بول چال کی زبان میں جس طرح محاوروں کاا ستعمال کیا ہے وہ اس دور کے نسوانی لب و لہجہ کی ترجمان ہیں۔بے ساختگی اور بر محل استعمال ان کی غزلوں کا اہم عنصر ہے۔چند اشعار بطور نمونہ:

ہم جو شب کو ناگہاں اس شوخ کے پالے پڑے

دل تو جاتا ہی رہا اب جان کے لالے پڑے

کیوں طبیب اب نہیں کرتا ہے علاج دل ریش

کیا خوش آئی ہے ترے جی میں یہ بیمارکی طرح

صنعتوں کا استعمال بھی خوب خوب کیا ہے۔ان کے کلام میں ہمیں صنعتوں کا اچھا خاصا ذخیرہ ملتا ہے:

نامہ بر یوں ہے تیری راہ میں بلقیس ہے چشم

دیوے جس طرح سے ہد ہد سلیماں کو کاغذ

سو بار سنا جشن بھی جمشید کا ہم نے

لیکن نہیں دیکھا تیری محفل کے برابر

جو دیکھا یار کے عارض پہ میں نے خال تاباں کو

کہی پھبتی کہ یہ ہندو کرے ہے حفظ قرآن کو

اسی طرح سے شاعری میں پیکر تراشی کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔چنداؔ کے مختصر سے دیوان میں پیکر تراشی کی بھی مثالیں پائی جا تی ہیں :

باہر جو نکلے برقع سے وہ ر و ئے آ تشیں

چادر میں ابر کے وہیں منہ چھپائے برق

یہ شعر بھی پیکر تراشی کا اچھا نمونہ ہے:

تان کر ابروئے خمدار کو مت دیکھو ادھر

ڈرنے والے نہیں ظالم تیری تلوار سے ہم

 بیان کی ندرت اور انوکھا پن بھی ماہ لقا کی غزلوں کی ایک خاصیت ہے۔یہی ندرت اور انوکھا پن شاعر کے مقام کا تعین کرتا ہے۔غالبؔ کو غالبؔ اس کے کلام کی ندرت نے ہی رکھا ہے:

رہا ہم درس ہوں اس مدرسہ میں عشق کے برسوں

سبق تھا وامق و عذراکا وہاں طفل دبستاں کو

انگور کا دانہ ہے ہر اک آبلۂ پا

طے ہوتے ہیں کس لطف سے فرنگ خرابات

دل کو جوان بتوں سے کوئی آشنا کرے

تم منہ لگا کے غیروں کو مغرور مت کرو

ماہ لقا کے کلام کا ایک حصہ دانشمندی اور اعلیٰ اقدار پر مبنی ہے۔بڑا شاعر اعلیٰ اقدار کو نظر انداز کر کے دوام حاصل نہیں کرسکتا ہے چنانچہ ماہ لقا کے کلام میں بھی ہمیں ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں عقل و فہم کی کارفرمائی نظر آتی ہے:

کب طوطی تصویر ہوا طوطی گویا

جاہل کو نہ اعزاز ہو کامل کے برابر

جس نے کی تحقیق ہر دم چشم دل سے یار کی

مرد حق بیں اس جہاں میں ہے وہی صاحب شعور

اپنی خوبیوں اور خامیوں سے انسان بذات خودجتنا واقف ہوتا ہے دوسرا نہیں ہو سکتا ہے۔ اردو شاعری میں اپنی خوبیوں کا بیان اور تعلّٰی کی روایت بہت پرانی بھی ہے اور مستحکم بھی۔ماہ لقا چنداؔ کو بھی بجا طور پر اپنی شاعرانہ خوبیوں کا احساس تھاجو ہمیں ان کے اشعار میں بھی ملتا ہے۔ ماہ لقا پر جن ادیبوں نے قلم اٹھایا انھوں نے اس کے حسن اور حسن تمکنت کا عجب ہی انداز میں ذکر کیا ہے۔اس پر سب کو اتفاق ہے کہ خالق کائنات نے ماہ لقاچنداؔ کو خیرہ کرنے والے حسن سے نوازا تھااور ظاہر ہے خود چندا ؔکو بھی تا حیات اس پر ناز رہا۔ یہ اشعار ملا حظہ ہوں:

رو برو چندا ؔ کے ہوے کیا عجب

مشتری و زہری و پروین کو مات

گرمی وہ ہووے حسن میں چندا ؔکے یا علی

جلوے کے اس کے دیکھ کے بس لوٹ جائے برق

اسی طرح سے ماہ لقا کا دیوان جسے شفقت رضوی نے مرتب کیا ہے اس میںغلام حسین خان جوہر بیدری کی وہ مثنوی شامل ہے جو اس نے ماہ لقا کے سراپا کے بیان میں لکھی ہے۔ ذیل کے اشعار قابل تحسین ہیں:

بہتر نمود ز عشق مجازی

با شد چو حقیقی از مجازی

من ہم پئی نام و یاد گاری

از بہر بقائے فیض جاری

ماہ لقا کی غزلوں میں ان کی زندگی کی جھلکیاں بہت نمایاں ہیں۔ان کے حالات کی بھر پور عکاسی ہے۔ جس وقت اور زندگی کے جس دور میں وہ جن حالات اور کیفیات سے گزریں اس کو پیش کردیا۔کبھی وہ فطری طور پر صرف ایک عورت کے روپ میں نظر آتی ہیں ،محبت ،وفا اور خلوص کی متمنی۔ایک وفا شعار اور وفا پرست عورت۔ہر جائی پن سے بہت دور۔اس طرح کے جذبات،خیالات اور پاکیزہ احساسات ان کے اشعار سے عیاں ہیں۔ بطور نمونہ ذیل کے اشعار ملاحظہ ہوں:

کی کوہ کن نے کوہ کنی میں نے جان کنی

جانباز تو نے اور بھی مجھ سا سنا کہیں

ہر چند راہ عشق میں دل پائمال ہے

روز جزا میں رتبہ ہے اس انکسار کا

ان تمام باتوں کے با وجود ہم اس بات کو نہ تو فراموش کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس پر پردہ ڈالنا کسی طرح مناسب ہے کہ ماہ لقا چندا ؔ کوئی خاندانی پیشہ ور نہیں تھیں اور نہ ہی اس دنیا میں جہاں سے ان کو تعلق ہو گیا تھا اپنی خوشی سے گئی تھیں ۔ اب تک کی تحقیق نے اورراحت عزمی نے اپنے تحقیقی مقالے میںبہت تفصیل کے ساتھ واضح کر دیا ہے کہ گردش ایام کا اس خاندان کی خواتین کس طرح شکار ہوئیں اور یہ کہ ماہ لقا کوئی طوائف نہیں بلکہ ایک پاکیزہ نفس علم و فن کی ماہر تھیں۔البتہ اتنا سچ ضرور ہے کہ وقت اور حالات نے ماہ لقا چنداؔ کو جہاں پہنچا دیا تھا اور جہاں وہ اپنی زندگی گزر بسر کرتی رہی تھیں اس کا اثر کسی نہ کسی حد تک کم یا زیادہ قبول کرنا امر فطری ہے اور خود اس کو اپنے کلام میں پیش کرنا دیانت داری اوربڑے فنکار ہونے کی دلیل بھی۔ماہ لقا کے مختصر سے دیوان میں جہاں پاکیزہ مضامین اور اعلیٰ افکار پر مبنی اشعار بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں وہیں بعض اشعار ایسے بھی ہیں جن میں شوخی و بے باکی متجاوز ہو کر عریانیت کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے اور بلاشبہ یہ اس ماحول کا نتیجہ تھا جس میں وہ اپنی زندگی کے شب و روز گزار رہی تھیں۔ نمونۂ کلام:

سوتا ہے ساتھ اپنے وہ گل عذار ہر شب

صد شکر دیکھتے ہیں کیا کیا بہار ہر شب

جا بجا ہوتے ہیں اس بات کے دن کو چرچے

تم جو چھپ چھپ کے کہیں جاتے ہورات کے وقت

کب تک رہوں حجاب میں محروم وصل سے

جی میں ہے کیجیے پیار سے بوس و کنار خوب

ماہ لقا کی شاعری میں ذاتی حالات اور جذبات کی سچی نمائندگی ملتی ہے ۔ایک عورت اور اس کے فطری جذبے کی عکاسی کے لیے یہ شعر ملاحظہ ہو جو اس بازار میں رہنے کے باوجود دل کے نہاں گوشے سے نکل کر نوک قلم تک پہنچا اور ہمیشہ کے لیے ماہ لقا کی اصل فطرت کا غماز بن گیا:

ہم سے کرے ہے یار بیاں اپنی چاہ کا

حاضر ہیں ہم بھی گر ہو ارادہ نباہ کا

خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ ماہ لقا چنداؔ کی ذاتی زندگی کو غلط جان کر ان کے کلام کو نظر انداز کرنا ادبی دیانت کے خلاف ہے۔فن کو فنکارکی ذاتی زندگی سے الگ کر کے فن کی کسوٹی پر پرکھنا اور پھر اس کی قدر و قیمت کا تعین کرنا ہی ادبی امانت کا تقاضا ہے ۔جس سے غالباًکو تاہی کا ہی نتیجہ ہے کہ محمد شمس ا لحق نے ماہ لقا کی وفات کے تقریباًدو سو سال کے بعد’’ پیمانۂ غزل ‘‘ ۲۰۰۸ ءمیں مرتب کیا اور اس میں لکھتے ہیں :

 ’’ماہ لقا نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔یہ ہمیشہ سیکڑوں سپاہیوں کی باڈی گارڈ کے آگے اسلحہ لگائے ،گھوڑے پر سوار سیر و تفریح کو نکلاکرتی تھی۔اردو کی یہ پہلی صاحب دیوان شاعرہ ہے۔‘‘    ( پیمانۂ غزل،(جلد اول)محمد شمس الحق، پرنٹنگ پریس، راولپنڈی، ۲۰۰۸ء، ص: ۱۱۷)

 جبکہ دہائیوں پہلے بہت سی مستند کتب سے یہ ثابت ہوچکا تھا کہ ماہ لقا اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ نہیں ہے۔

 بلاشبہ ماہ لقا کے مختصر دیوان میں بہت کچھ ہے جو اس کو اردو شاعری میں ایک اہم مقام دلانے کے لیے کافی ہے۔ولیؔ اور سراجؔ کے بعد ماہ لقا اردو غزل میں ایک کڑی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ماہ لقا کی غزلوں میں ہمیں زبان کی صفائی زیادہ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ فصیح الدین ’ رنجؔ ’’بہارستان ناز ‘‘ میں بجا طور پر لکھتے ہیں:

’’ایسی شاعرہ اس وقت میں دید تھی نہ شنید تھی۔‘‘

(بہارستان ناز ،فصیح الدین رنجؔ،مجلس ترقی ادب،لاہور،۱۹۶۵)


ہاؤس نمبر-404، اسٹریٹ نمبر-14 ،غفار منزل

 جامعہ نگر، نئی دہلی-110025

 موبائل :9540844918

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...