Wednesday, May 31, 2023

فاصلے ایسے بھی ہوں گے

فاصلے ایسے بھی ہوں گے
ڈاکٹر محمد الیاس

 

آج دن بھر کام کرکے وہ بڑی تھکن محسوس کر رہا تھا اور جلدی سونے کی تیاری میںتھا کہ اچانک موبائل کی گھنٹی نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس نے موبائل اُٹھاکر کان سے لگایا۔دوسری طرف سے بات کرنے والا شخص اس طرح بےتکلفانہ لہجہ میں بات کر رہا تھا گویا بہت پرانی جان پہچان ہو ۔

دعا سلام کے بعد وہ بولا’’یار وسیم! تونے مجھے ہی نہیں پہچانا، میں وہی شمیم ہوں جو اسکول میں تیرے ساتھ پڑھتا تھا،تیرے ساتھ لنچ باکس شیئرکرتا تھااور تیرے ساتھ کرکٹ بھی کھیلا کرتا تھا۔‘‘

’’ہاں کچھ کچھ یاد آیا بہت طویل عرصہ کے بعد فون کیا،کیسے یاد آگئی آج۔‘‘

’’میں نے سنا ہے بہت اچھی تنخواہ پر تجھے امریکہ میں ملازمت مل گئی ہے ،اگرایسا ہی کوئی اور چانس ہو تو ذرا یاد رکھنا۔ ‘‘

’’ہاں ٹھیک ہے شمیم ،مگر پھر کسی وقت بات کریںگے، آج میں بہت تھک گیا ہوں۔‘‘

اچھا ٹھیک ہے کہہ کر اس نے گفتگو کا سلسلہ منقطع کر دیا۔

وسیم اپنی کامیابی پر بڑا مسرور تھا۔کمپیوٹر انجینئرنگ کرنے کے بعد اسے امریکہ میں بہت اچھی تنخواہ پر ملازمت مل گئی تھی ۔اس کے والد اس دنیا میں نہیں تھے لیکن ان کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجتے تھے۔ ’’بیٹا وسیم! اس مادہ پرست دنیا میں کامیاب اسی کو سمجھا جاتا ہے جو دولت کمانے میں کامیاب ہو ،دنیا کے اکثر لوگ کسی نہ کسی شکل میںدولت کی دیوی کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘ اور اس کی خوشی کی وجہ بھی یہی تھی کہ آج اسے وہ کامیابی حاصل ہو گئی تھی جس کی توقع اس کے والدین اس سے کرتے تھے۔اب تو اسکول کالج کے زمانے کے تمام دوست احباب اس کے متلاشی اور اس سے بات کرنے کے خواہاں رہتے تھے حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کی عمر جتنی بڑھتی رہتی ہے اس کا حلقۂ احباب اتنا ہی گھٹتا رہتا ہے۔ آخر کار چند ہی ایسے رہ جاتے ہیں جو دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں مگر اتفاق سے اگر لوگوں کے مفادات آپ سے وابستہ ہوجاتے ہیں تو پھر دوستوں کی کوئی گنتی نہیں رہتی، ایسا ہی اس کے ساتھ بھی تھا ۔یہاں کے شب و روز کے اوقات کچھ اور وہاں کے شب وروز کے اوقات کچھ اور ناواقف لوگ کبھی بھی فون کر کے اس کی نیند خراب کر دیتے پھر اُسے بتانا پڑتا کہ ہندوستان میں جب شدت کی دھوپ ہوتی ہے تو امریکہ میں لوگ محوِ خواب ہوتے ہیں ۔

وہ جب سے امریکہ آیا تھا یہاں کے شب و روز بہت اچھے گزر رہے تھے۔ آسائش کے دورمیں وقت کا پتہ کہاںچلتاہے۔ برسوںکا عر صہ کس طرح گزر گیا کچھ پتہ ہی نہیںچلا۔ اس کے والد اور خاندان کے کئی بزرگ دنیا سے جاچکے تھے۔جب جب بھی اس طرح کی ناخوشگوار اطلاعات ملتیںتو وہ اپنی تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کراپنے وطن کودوڑا چلا آتا،غم کا موقع ہوتا یا خوشی کااس کے اپنوںکی محبت کی کشش اسے اپنے وطن کھینچ ہی لاتی۔کتنا اچھا ماحول تھاجب اس کے والد،ان کے حقیقی بھائی،خاندانی بھائی سب یک جا بیٹھ کر مشورے کیا کرتے تھے۔رات کو کھاناکھا نے کے بعدکبھی چائے،کبھی کافی ،کبھی شربت کا دور چلتامگران سب چیزوں سے زیادہ ،ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہواؤں میں محبت کی شیرینی گھلی ہوئی ہے۔ بزرگوںسے وراثت میںملی ہوئی ایک وسیع وعریض حویلی جس کے چاروں طرف کمرے بنے ہوئے تھے، سب کے درمیان میں ایک صحن جہاں سب بیٹھاکرتے تھے۔چار بھائیوں کے اپنے اپنے کنبے کی رہائش گاہ تھی یہ حویلی۔کیا تیراہے کیا میراہے اس طرح کا کوئی مسئلہ ہی نہیںتھا۔

بیسویں صدی کے نصف آخر کی بات ہے ،اس نے جب ہوش سنبھالا تھا تو یہی ماحول دیکھا تھا ۔قریبی عزیز و اقارب کو جب کوئی پیغام بھیجنا ہوتا یاکسی تقریب کے لیے ان کو دعوت دینی ہوتی تو رقعہ رسانی کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں تھا ،ٹیلی فون کی سہولت صرف متمول ترین لوگوں کے پاس ہوا کرتی تھی ایسے میں کتنا اشتیاق رہتا تھا بزرگوں کو ایک دوسرے کے خطوط کا ۔کسی عزیز کا خط آگیا تو سمجھو گھر میں عید کا سا ماحول بن گیا ۔جب کسی کا خط آتا تھا تو اکثر دادی کہتی تھیں کہ آج تو صبح سے ہی کوا گھر کی دیوار پر بیٹھا بول رہا ہے ۔میں نے تو اسی سے اندازہ لگا لیا تھا کہ ضرور آج کسی کا خط آئے گایا کوئی مہمان آئے گا۔غرض یہ کہ محبتوں کا ایک ایسا نیٹ ورک تھا جس کے تار دلوں سے دلوں کو جوڑے رہتے تھے ۔

گھر کے بزرگ رفتہ رفتہ دنیا سے رخصت ہوتے گئے، اب وسیم کے والدبھی دنیا میں نہیں تھے ،ایک ماںاور چھوٹے بھائی بہن جن کی یاد اسے افسردہ کر دیتی تھی ۔اکثر اپنی ڈیوٹی سے فراغت پانے کے بعد جب تک ماں سے بات نہ کر لیتا اسے تسکین نہیں ہوتی تھی اسی کے ساتھ دوسرے خاندانی بھائی بہن بھی اس کے رابطے میں رہتے تھے کبھی کسی سے دعا سلام،کبھی کسی کی خیریت،کبھی کسی سے گفتگو ۔اپنے افراد خاندان سے گفتگو کرکے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے واقعی وطن کی فضاؤں کی سیر کر لی ہو۔اس کے اپنے بھی اس سے اسی طرح بات کرتے جیسے ان کے الفاظ سے محبت مترشح ہو رہی ہے اور وہ اس کی آمد اور اس کے دیدار کے متمنی ہیں ۔ایسے میں ماں اور بیٹاایک دوسرے کی جدائی کو کیسے برداشت کر رہے تھے یہ وہی جانتے تھے۔

رفتہ رفتہ وسیم کی ماں اور خاندان کے بڑے دنیا سے رخصت ہوتے گئے۔اب رہے تو وسیم کے حقیقی بھائی بہن اور اس کے ہم عمر اس کے خاندانی افراد جن کے جذبات میں جدت، رجحانات میں ندرت تھی اور خیالات مختلف تھے اکیسویں صدی میں جوانی کی عمر کو پہنچنے والے اپنے لیے زیادہ اور دوسروں کے لیے بہت کم فکر کرتے اور اپنے اپنے ہمسفر کے ساتھ کیف و مستی میں محو ہو گئے۔ اب حالات اتنے بدل گئے تھے کہ اگر وسیم اپنے وطن کو فون کر لیتا تو کسی سے بھی گفتگو ہو جاتی ۔اِدھر کے لوگوں کو اب اس کی یاد کم ہی آتی تھی۔ کبھی کبھی اس کے حقیقی بھائی بہنوں کو ضرور یاد آجاتی تھی ۔اب نئے دور اور نئی تہذیب میں جو بچے عالمِ وجود میں آئے وہ کتابوں سے زیادہ موبائل میں اپنی بینائی اور اپنا مستقبل خراب کرنے والے تھے ۔اگرکبھی کوئی اپنا آجاتااور ان کو یہ بتایا جاتا کہ بیٹا یہ تمہارے چاچا ہیں یا یہ تمہاری پھوپی ہیںبہت دن بعد ان کی تشریف آوری کا شرف ہمیں حاصل ہو پایا ہے، تو چند لمحوں کے لیے با دلِ نخواستہ موبائل سے نظر یں ہٹا کر لبوں پرمصنوعی مسکراہٹ لاکرمؤدب ہو کر سلام کر لیتے اور پھر اپنے اسی شغل میں منہمک ہو جاتے ۔یہ جدت پسند لوگوں کے ہوشیار بچوں کا حال ہے ۔یہ کسی انسان کے نہیں بلکہ مشین یا کسی الیکٹرانک آلہ کے ساتھی ہیں،اسی کے ساتھ کھیلتے ہیں،اُسی سے دل بہلاتے ہیں،جب راستوں میں پیدل یا گاڑیوں میں چلتے بھی ہیں تو ان کے کانوں میں ایئر فون ٹھونسا ہوا ہوتا ہے اور کسی نہ کسی سے باتیں کرتے ہوئے چلتے رہتے ہیں راہگیروں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید کوئی پاگل ہے جو خود بخود باتیں کرتا ہوا جا رہا ہے اور اِن کا باتوں میںانہماک یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ ٹرین کی پٹری پار کرتے ہوئے کبھی کبھی یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ٹرین قریب ہی ہے اور ان کی جان اَن دیکھے دوستوں کی نذر ہو جاتی ہے اور دوسری طرف کے شخص کو اس کی آخری چیخ سنائی دے جاتی ہے ۔یہ اپنے بزرگوں یا اچھے انسانوں کی صحبت سے محروم ہیں۔

ان حالات نے تقریباً ہر ایک کو متاثر کیا ہے۔ مشترکہ خاندانوں کا تصور ہی پارہ پارہ ہو چکا ہے۔ہزاروں میل دور رہنے والے اپنوں کی یاد اور ان سے ملنے کا اشتیاق اب پہلے جیسا نہیں رہا ۔وسیم کا روز کا معمول تھا کہ جب تک وہ گھر والوں سے باتیں نہ کر لیتا اسے تسکین نہ ملتی تھی۔اب روز کا یہ کام ہفتوں میں اور پھر مہینوں میں انجام دیا جانے لگا ۔جب یہاں کے لوگوں کو اس سے ملنے کا اشتیاق ہی بہت کم ہو گیا تو اس نے وہاں کی شہریت حاصل کر لی مگر پھر بھی وطن کی محبت کبھی کبھی اسے تڑپاتی تھی، کوئی یاد کرے یا نہ کرے پھر بھی سب سے ملنے کو جی چاہتا تھا۔ اس کے چند کلاس فیلو جن میں سے کوئی برطانیہ میں ،کوئی سعودی عرب میں اور کوئی آسٹریلیا میں رہتا تھا وقتاً فوقتاً ان سے فون پر بات ہوتی رہتی تھی ۔ان میں سے ہر ایک وطن سے دور رہ کر وطن کی یاد میں مستغرق رہتا تھا اور جب کبھی ایک دوسرے سے گفتگو ہوتی تو ایک دوسرے سے اپنے وطن کی باتیں کرکے اپنا غم دور کر لیتے ،وسیم کو بھی اپنوں کی یاد بہت ستاتی تھی اسی لیے کئی سال کے بعد آج وہ اپنے وطن لوٹا تھا، گھر کے دروازے میں داخل ہونے کے بعد اندر کا منظر تو بالکل مختلف ہو چکا تھا۔ ایک لمحہ کو اسے ایسا لگا کہ یہ شاید کسی اور کا گھر ہے ۔اس کے بھائی بہنوں نے اس کا پر تپاک خیر مقدم کیا ۔وہ چاہتا تھا کہ گھر جاکر کچھ دیر آرام کرےگا، اپنے چھوٹے اور بڑوں سے ملاقاتیں کرےگا مگر یہاں کا منظر دیکھ کر جیسے اس کے ارمانوں پر بجلی گر گئی تھی۔بہت بڑی حویلی جس کے چاروں طرف کمرے اور درمیان میں بڑا سا صحن تھا اب اس میں دیواروں کا کراس بن چکا تھا، یہاں کے مکین اپنی اپنی دنیا میں محصور ہوچکے تھے۔کراس کے تین گوشوں میں رہنے والے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آج ہمارا کوئی اپنا ہم سے ملنے کے لیے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے آیا ہے ۔

 یہ وہی جگہ تھی جہاں خاندان کے بزرگ سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیا کرتے تھے۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ اس کی کامیابی میں ان دعاؤں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس کے ذہن میں گھر کی پرانی تصویر گھوم رہی تھی جس میںخاندان کے لوگ اپنے اپنے حصارمیں قید نہیں تھے ۔وہ جب کبھی موبائل پر بات کرتا تھا تو اس انتشار کا اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا جو دیکھنے کو ملا۔ سب کے سب خندہ پیشانی سے بات کیا کرتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ مسکراہٹیں ،وہ اس سے ملاقات کا اشتیاق سب نمائشی تھا۔وہ سوچتا رہ گیاکہ آج ہمارے ہاتھ میں ایک ایسا نیٹ ورک ہے جس سے ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے انسان سے چند لمحوں میں بات کرسکتے ہیں،اس کی تصویر دیکھ بھی سکتے ہیں مگر وہ نیٹ ورک جو محبت کے تاروں سے بنا ہوا تھا،دلوں سے دلوں کو جوڑتا تھا، سب تہس نہس ہو چکا ہے ۔

385،پیتل بستی ،مرادآباد یوپی

موبائل: 9412838085

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...