Wednesday, May 31, 2023

ڈیڑھ لاکھ کی نیند

 ڈیڑھ لاکھ کی نیند

فلکی ناز

نیند ایسی چیز ہے کہ قسمت والوں کو ہی ملتی ہے۔ اسے سونا بھی کہتے ہیں۔ یہ اللہ کی ایک نعمت ہے جو کہ کچھ ہی لوگوں کو میسر ہوتی ہے۔ سونا دونوں شکلوں میں قیمتی ہوتا ہے۔ اسی لیے چاہے وہ نیند کی شکل میں ہو یا پھر گولڈ گہنے کے طور پر۔ جب انسان بستر پر لیٹ کے آنکھیں بند کر لیتا ہے تو وہ پرسکون حالت میں ہوجاتا ہے اور وہ کسی اور ہی دنیا میں چلا جاتا ہے دماغ سے۔ جسم اس کا زمین پہ ہوتا ہے۔ وہ خوابوں کی دنیا میں چلا جاتا ہے۔ کبھی اپنے آپ کو افلاطون سمجھتا ہے تو کبھی ہیرو اور کبھی کمزور سمجھتا ہے، بے بس ہوجاتا ہے، طرح طرح کے اچھے بُرے خوابوں کو دیکھتا ہے۔ جسم چار پائی پر ہوتا ہے اور دماغ جھومتا پھرتا ہے جانے کہاں کہاں۔ خیر یہ تو ہوا سونا جس کو نیند کے نام کا چشمہ پہنا دیا جاتا ہے۔ وہ نیند میں کبھی کسی کی شادی، کبھی موت، کبھی لڑائی، کبھی جنگل میں گھومتا ہوا، کبھی شیر سے لڑائی، کبھی دشمنوں کا خوف، کبھی پیار محبت، کبھی عشق، کبھی دشمن، کبھی نفرت، سبھی کچھ سونے کے بعد آنکھوں میں فلم کی طرح ریل چلتی رہتی ہے جو آنکھ کھلتے ہی اپنے آپ کو اسی بستر پر پاتا ہے۔ ہر ایک انسان ساتھ ہوتا ہے۔ نیند ایسی چیز ہے جسے امیر، غریب، چھوٹا، بڑا، عورت، مرد ہر ایک مذہب کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ نیند میں اگر محبت کو دیکھتا ہے تو مسکراتا ہے، ہنستا ہے اور اگر ڈراؤنا خواب دیکھتا ہے تو چیختا چلاتا ہے ، ڈر سے اٹھ جاتا ہے۔ سونا دونوں ہی طرح کا ہمارے لیے بیش قیمت ہے، چاہے وہ نیند کی شکل میں ہو یا پھر گہنے کی۔ ہمارے لیے تو قیمتی ہے۔ جو آسانی سے میسر نہ ہو اسے قیمتی ہی کہا جاتا ہے۔ نیند بھی کیا چیز ہوتی ہے، یہ تو سونے والوں سے ہی پوچھئے ۔ ان کو جب نیند آتی ہے تو سب سے پہلے ہاتھ منہ پر رکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں، اگر سامنے کوئی بیٹھا ہے تو اس سے معذرت کرکے چلے جاتے ہیں۔ آدمی کو کچھ نظر نہیں آتا سوائے ایک عدد کونے کے جس پر چٹائی ہی کیوں نہ بچھی ہو ۔ بیچارے محنت کش لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم تو نہیں۔ نیند کولوگ موت کہتے ہیں۔ خواب کا نام زندگی ہے، احسان ، یوسف ، جدائی۔

انہیں کچھ کھانے کو ملے یا نہ ملے مگر زمین پر جگہ ملتے ہی نیند کا لطف ضرور ملتا ہے۔ انہیں دنیا میں کیا ہورہا ہے، کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ مزدور بیچارہ تو سڑک کو ہی اپنا گھر سمجھتا ہے نیچے زمین اور کھلا آسمان ، اُس بیچارے کو تو کھلے آسمان میں بھی دن میں تارے ہی نظر آتے ہیں۔ ان کو مکھی مچھروں سے دوستی کرنی پڑتی ہے اور بارشوں میں بھی ان کی عادت ہوجاتی ہے۔ سردی کو تو وہ آرام سے گلے لگا کر کمبل سمجھ کر لپٹا لیتے ہیں اور زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں جاگ کر نہیں سو کر۔ وہ بیچارے خوابوں کو ہی حقیقت سمجھ کر جی لیتے ہیں۔ اور تو اور گرمیوں کی تپتی گرم ہوائیں ان میں جینے کی آس پیدا کر کے انرجی کا کام کرتی ہیں۔ نیند کی پلکیں تو بھائی ہم نے بہت دیکھی ہیں۔ کچھ تو بس میں بیٹھے اگر غلطی سے انہیں سیٹ مل گئی تو جہاں سے چڑھے یہ آنکھ بند کر کے سوتےہیں اپنی منزل مقصود پہ ہی آنکھ کھولتے ہیں۔ اب تو بس میں کچھ بھی ہوجائے اس مائی کے لال کو کوئی جگا نہیں سکتا۔ چاہے وہ بس کاہارن ہو یا سیٹ کے پاس کھڑی کوئی ضعیف عورت ہی کیوں نہ ہو۔ یا کوئی جیب کترا ہی کیوں نہ رہا ہو یا پھر کوئی پھیری والا، سرمہ والا، سرمہ بھوپالی ہی کیوں نہ ہو، لیکن جیسے ہی منزل آتی ہے اور وہ صاحب بنا کسی کے کہنی مارے ہی جاگ جاتے ہیں۔ ایک بار کی بات ہے۔ ایک صاحبہ ہماری ملنے والی ہیں، وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کہیں جارہی تھیں۔ موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھی تھیں۔ ان کو ٹھنڈی ہوا کھانے کی وجہ سے نیند آگئی۔

اسی طرح ٹرین میں بھی لوگ سونے کے بڑے پکّے ہوتے ہیں۔ ادھر ٹرین چلی اُدھر انہوں نے بستر لگایا اور تھوڑی ہی دیر میں خراٹوں کی آوازوں سے دوسروں کی نیندوں میں تو کیا باتوں میں خلل ڈالنے لگتے ہیں۔ خراٹے بھی طرح طرح کے ہوتے ہیں۔ کوئی سُڑ میں کوئی بےسُڑے، کوئی منہ سے، کوئی ناک سے، کوئی سیدھا بجاتے ہوئے، لیکن بھائی کیا ٹائم سیٹ کر رکھا ہوتا ہے کیا ہی گھڑی کی سوئیاں بتاتی ہیں وہ بھی کبھی رک جاتی ہیں۔ اگر ان میں بیٹری نہ ہو تو، مگر کیا مجال جوان صاحب کو ٹرین اگلے اسٹیشن تک بھی لے جائے۔ جہاں کا ارادہ کیا ہوتا ہے وہیں اترتے ہیں، پورا بوریا بستر ساتھ لے کر۔ وہ اپنی منز ل پر ہی آنکھوں کو تکلیف دیتے ہیں اور آنکھوں کو مسلتے ہوئے رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ انہیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا کہ ٹرین نے کب ہارن بجایا، کون کون لوگ سفر کر رہے ہیں اور ٹرین میں چاہے بچے کتنا ہی چیخیں انہیں کیا لینا۔ چاہے چوری ہوئی ہو یا چھیڑ چھاڑ کا معاملہ ہو یا کوئی شرابی گھس گیا ہو لیکن بھائی ان سے کیا لینا دینا ہمیں، کوئی مسئلہ سلجھانے کو تھوڑے ہی بیٹھے تھے، ان کا مقصد ایک جگہ سے اپنی منزل تک جانا تھا۔

ہمارے لیے تو نیند نام کی چیز ایک قیمتی چیز ہے، نیند تو جب اسکول جاتے تھے تب آتی تھی۔ جس دن اسکول کی چھٹی ہوتی تھی ہم رات کو بستر پر لیٹتے اور خوابوں میں ایسے کھو جاتے تھے کہ صبح کب ہوئی پتہ ہی نہیں لگتا تھا۔ وہ تو ہماری پیاری امی جان کی آوازیں کانوں تک پہنچ کر بتاتی تھیں کہ بیٹا اٹھ جاؤ دیکھو سورج نکل آیا ہے اور ہم یہ کہہ کر چادر تان لیتے تھے کہ میری پیاری امی سورج تو روز ہی نکلتا ہے، اس کا تو کام ہی یہ ہے، لیکن ہماری ماں اس معاملے میں بہت سخت تھیں کہ صبح اٹھوں، نماز پڑھوں اور کام میں لگ جاؤں۔ یہ سورج روز کیوں نکلتا ہے، ہمارے گھر ہی کیوں آتا ہے اور کسی کے گھر کیوں نہیں نکلتا۔ ہماری طرح سورج مہاراج کبھی تو چھٹی کر لیا کرو۔ اس دن ہم امی سے خوشامد کرتے تھے کہ امی پلیز آج تو سونے دیجئے، مگر نہیں مانیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رزق میں برکت نہیں ہوتی، آتا ہوا رزق واپس چلا جاتا ہے۔ ہاں دو پہر کا کھانا کھا کر ضرور قیلولہ کرنا چاہیے۔ کیا مجال کہ ہم اٹھنے کے بعد دو پہر کو دوبارہ سو جائیں۔ نیند کچھ لوگوں کے لیے ایسی ہے، جہاں بیٹھے سو گئے، باتیں کرتے کرتے سوگئے، حد تو یہ ہے کہ رکشا میں بھی لوگ سوجاتے ہیں، نماز پڑھتے پڑھتے سوجاتے ہیں، کچھ میوزک سنتے سنتے سوجاتے ہیں، لیکن ہم ان سب سے آگے ہیں، ہماری نیند ہماری دشمن ہے، جیسے اگر ہم جہاز میں بیٹھ کر جاتے ہیں تو نہیں سو پاتے کیونکہ ہمیں لگے گا کہ کہیں کوئی بادل ہم سے ناراض نہ ہوجائے کہ ہم نے اسے دیکھا ہی نہیں۔ اوپر سے ہوائی جہاز کی کھڑکی سےجھانک کر اپنی زمین کو دیکھنے میں کتنا فخر ہوتا ہے، کتنا خوبصورت نظارہ ہے۔ کبھی جہاز سے زمین پاس نظر آتی ہے، کبھی دور سے پیڑ، ندی نالے، گاڑیاں جیسے چھوٹے چھوٹے کھلونے سے لگنے لگتے ہیں، نہ جھرنے دیکھتے ہیں نہ پانی ، نہ اونچی اونچی عمارتیں سب، مانو قدرت نے کیاریاں بنادی ہوں۔ اونچے اونچے لحیم شحیم پہاڑ جانے کہاں کھو جاتے ہیں ہم انہیں ڈھونڈ نے کی غرض سے کھڑکی سے ایک پلک بھی نہیں جھپکاتے۔ ٹرین میں یوں نیند نہیں آتی کہیں پلٹ نہ جائے یہی سوچتی رہ جاتی ہوں کہ اب پلٹی تب پلٹی جیسے ہم اسے پلٹنے سے بچاہی لیںگے۔ یا پھر ایک اچھے چوکیدار کا رول نبھاتے ہیں ساری رات جاگ کر، میں ہی اسے روک لوںگی بنا پیسوں کے، کہیں کوئی چور نہ گھس آئے بار بار اٹھ کر سامان چیک کرتی ہوں، کب صبح ہو جاتی ہے پتہ ہی نہیںچلتا۔

اب آتی ہے باری سب سے بڑھیا سواری کار کی۔ کار بھی ہماری دشمن ہے۔ مزا تو بہت آتا ہے مگر نیند نام کی چیز نہیں آتی۔ سونے پر سہاگہ اگر میں غلطی سے کنڈکٹر سائڈ میں بیٹھ گئی تو اور نیند کوسوں دور بھاگ جاتی ہے۔ ’ملکھا سنگھ کی طرح‘ کیونکہ ہم کو ڈرائیور کی طرح ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ سامنے اسپیڈ بریکر کو دیکھنا، اگر بنگلور میں گاڑی چلا رہے ہوں تو آپ بھول جائیے کہ سونا کس بلا کا نام ہے، ڈرائیور کو کبھی جوس کا ڈھکن کھول کر دینا، کبھی پانی دینا۔ یہ سب ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے کنڈکٹر کا کام ہوتا ہے جو ہر کوئی انجام نہیں دے پاتا اور سب سے ضروری کام ہوتا ہے باتوں میں لگا کر رکھنا کہ کہیں ڈرائیور صاحب کو نیند نہ آ جائے۔ ویسے ہم ممبئی سے بنگلور ایک دن میں بھی پہنچ چکے ہیں سوچئے کیا ہال ہوا ہوگا ڈرائیور اور کنڈکٹر کا جو انہوں نے اپنی نیندوں کو آنکھوں میں قید کرکے گاڑی کو منزل تک پہنچائی ہوگی، گاڑی میں ایک سہارا اللہ کا ہوتا ہے۔ دوسرا میوزک کا جو دونوں کو نیند سے دور رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ مجھے تو رات میں جاگنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ پوچھئے کیوں...؟ وہ اس لیے کیونکہ کمبخت موبائل نے ہمیں نیند سے دور کر دیا ہے۔ جب تک یوٹیوب پر ہم کوئی ویڈیو یا کام کی چیز دیکھ یا سن نہ لیں، ہمیں تو نیند نہیں آتی ہے۔ اس لیے پہلے ٹی وی ایڈیٹ باکس کہا جاتا تھا اور اب موبائل، لیکن موبائل ہمارا دوست اور دشمن دونوں ہی ہے، جولوگ دور ہیں ان سے ملاتا بھی ہے اور ان سے جدا بھی کر دیتا ہے۔ گھر میں جتنے لوگ ہوتے ہیں اتنے ہی موبائل بھی ہوتے ہیں۔ ہر ایک اسی میں لگا رہتا ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ گھر میں ایک کمرے سے میاں بیوی سے فون کر کے پوچھتا ہے بیگم کیا کر رہی ہو (آواز نہ آنے پر) اس سفر میں نیند میں ایسی کھوگئی، مانو ساری رات تھک کر سوگئی، راہی معصوم رضا:

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی غالب

موبائل بھی کتنا بھوکا ہوتا ہے، ہمارے سارے جی بی (GB) کھا جاتا ہے ساتھ ہی ہمارا قیمتی وقت بھی کھا جاتا ہے۔ ہماری نیند بھی تو اسی کمبخت موبائل نے کم کی ہے، ورنہ وہ بھی کیا دن تھے، جب ہم چادر تان کر سوتے تھے:

آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا

آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی

 (اقبال اشہر)

کچھ بیچارے لوگوں کو تو بنا دوالیے نیند کی گولیاں ان کی زندگی کا سہارا بن جاتی ہیں۔ اگر وہ دوا نہ لیں تو پھر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔انسومینیا (Insomnia) نام کی بیماری ہو جاتی ہے۔ آنکھوں کے چاروں طرف کالے حلقے پڑ جاتے ہیں۔

اب سناتی ہوں وہ قصہ جس کی وجہ سے میرے قلم نے مجھے لکھنے پر مجبور کر دیا۔ بات ان دنوں کی ہے جب میرے شوہر سرکاری نوکری کرتے تھے۔ ان دنوں سرکار نے ایک مہم چلائی تھی کہ سارے سرکاری کرمچاری چاہے وہ چپراسی ہوں یا کمشنر سب کو اپنی ایک چھاپ دینی ہوتی تھی انگوٹھے سے اپنے آنے جانے کی اطلاع کریں گے یعنی ایک مشین پر انگوٹھا چھاپنا ہوتا تھا جیسے سرکاری دستاویز پر انگوٹھا چھاپا جاتا ہے۔ پہلے ان پڑھ لوگ لگاتے تھے بعد میں سب کو لگانا ضروری ہوگیا تھا۔ خیر ان کو صبح اور شام جانا پڑتا تھا۔ صبح انگوٹھا چھاپنے اور شام کوٹریننگ والے بچوں کا سپر ویژن تھا۔ تب ہم نوئیڈا سیکٹر ۴۷ میں رہتے تھے اور ان کو اندرا گاندھی اسٹیڈیم جانا ہوتا تھا۔ ہم دونوں ہی ساتھ جاتے تھے۔ اس دن بیٹا اپنی ٹریننگ پوری کرکے آیا تھا اس لیے میں ان کے ساتھ نہیں گئی۔ یہ دونوں وقت گاڑی سے جاتے تھے بلکہ کئی بار تو میں ان کے ساتھ صبح کھانا بنا کر لے جاتی تھی اور ہم لوگ وہیں بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ سارا دن وہیں گزارتے تھے، وہاں کافی لوگوں سے دوستی بھی ہوگئی تھی۔ بچوں کے ماں باپ سے وہاں ان کے ساتھ سی پی گھومنا، کہیں بھی جانا تھا پھر کسی نہ کسی کا برتھ ڈے منانا تھا اور شام کی چائے کے لیے سامان بھی لاکر رکھا تھا تاکہ خود بھی پئیں اور اوروں کو بھی پلائیں۔ یا کسی کو کوئی پرابلم ہوئی تو اس کو دور کرنا۔ عید پر کبھی اسٹیڈیم کے لوگوں کے لیے دہی بڑے اور سویوں کا زردہ بنا کر لے جانا ،سال میں دو بار بڑا مزہ آتا تھا۔ ایک پکنک سی ہو جاتی تھی۔ وہ لوگ بھی کچھ نہ کچھ بنا کر لاتے تھے اور ہم لوگ مل کر سب کو کھلاتے تھے۔ اس دن میں نہیں گئی تھی۔ جب وہ واپس آئے تو کہنے لگے گاڑی ٹکرا گئی، یہ اکثر یہ کام کرتے تھے تو زیادہ توجہ نہیں دی اور انہوں نے بھی بڑے آرام سے کہا۔ یہ کچھ کہنے ہی والے تھے کہ اچانک گھنٹی بجی دروازے پر۔ پہلے ایک گھنٹی بجی پھر دوسری، جب تک گیٹ کھولنے گئی گھنٹیوں کا طوفان برپا کر دیا گیا تھا، گیٹ کھولا تو دیکھا... یہ کیا؟ ایک آدمی کی جگہ کئی سارے لوگ۔ اس میں عورتیں بھی تھیں، میں سوچ میں لگ گئی کہیں آج ہولی تو نہیں، اُسی محلے کے لوگ اکٹھا ہو کر آتے ہیں لیکن وہ لوگ تو آپے سے باہر ہوگئے تھے۔ بدتمیزی اور گالیوں کی بوچھار شروع کردی۔ ہم نے ماجرہ پوچھا لیکن وہ لوگ آپے سے باہر تھے، کچھ سننے کو تیار نہیں تھے، انہیں بولنے نہ دیں۔ ان میں سے ایک صاحب تھوڑے نارمل سے لگ رہے تھے تو ان سے ساری کیفیت معلوم ہوئی۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ صاحب ہم نے کیا قصور کیا تھا، گاڑی تو ہمارے گھر کے سامنے پارکنگ میں کھڑی تھی اور اسے آکر ٹھوک دیا۔ پھر انہوں نے الگ لے جاکر سارا ماجرہ بتایا کہ جیسے ہی میں سائن کا انگوٹھا لگا کر واپس اپنے سیکٹر میں گھسا ہی تھا، گیٹ سے ذرا آگے ہی تھا تبھی دھڑام سے ایک زور دار آواز آئی اور میری آنکھ کھل گئی۔ میری آنکھ لگ گئی تھی، آنکھ کھول کر دیکھا تو میری گاڑی سے ایک گاڑی ٹکراگئی ہے اور پاس کی ایک دیوار جو دوسری کوٹھی سے لگی تھی اس دیوار کو توڑتی ہوئی دوسری گاڑی سے جاٹکرائی۔ جیسے ہی یہ ٹکر ہوئی میں گاڑی لے کر گھر کی طرف بھاگا تبھی ایک بائک پر ایک آدمی پیچھا کرتا ہوا آیا اور گاڑی کھڑی دیکھ کر لوگوں کو لے آیا۔ وہ لوگ بد تمیزی سے بات کر رہے تھے۔ باہر نکل... باہر نکل تبھی میرا بیٹا باہر آیا۔ میں نے اسے اندر کرکے باہر سے کنڈی لگادی۔ اگر ایسا نہ کرتی تو وہ لوگ غصے میں تھے یقیناً میرے بیٹے کو مارتے، تھوڑی دیر میں کسی نے پولیس بھی بلالی تھی اور RWA کا سکریٹری بھی وہاں آپہنچا تھا۔ ہمارا مالی بھی ہماری حمایت لے رہا تھا۔ کافی سمجھا رہا تھا کہ معاف کر دو، میں نے بھی معافی مانگی۔ انہوں نے یہ کہہ دیا کہ میں ہارٹ پیشنٹ ہوں، اس سے ان کو اور تاؤ آگیا پھر تو آپ کو بالکل نہیں چلانی چاہیے، وہ بس یہی کہے جارہے تھے کہ ایک لاکھ روپیہ دو۔ میرے بیٹے نے بھی اپنے دوستوں کو بلا لیا۔ ان کا ٹریننگ والا لڑکا اور پولیس والا بھی آگیا تھا۔ پولیس کہہ رہی تھی کہ ان کو پیسے دے دو ورنہ گاڑی اندر کر دوں گا۔ خیر ہماری طرف سے بھی کچھ لوگوں نے سمجھایا کہ چلو ہم آپ کا جتنا نقصان ہوا ہے پورا کر وا دیتے ہیں۔ گاڑی کو آپ ٹھیک کر دو۔ اس میں سے ایک عورت بولی دیکھو میری بہو جہیز میں لائی تھی ابھی کچھ مہینے پہلے۔ بعد میں ہمیں خیال آیا کہ ہم اسے پھنسا سکتے تھے کہ آپ کو پتہ نہیں کہ جہیز لینا اور دینا دونوں جرم ہے۔ اس سے ہمارے پیسے بھی بچ جاتے اور عزت بھی اور وقت بھی۔ خیر ایک لاکھ روپیہ سب ملا کر دینا پڑا دو گاڑی والوں کو، پولیس کو اور RWA والوں کو۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو جیسے ہی اپنی گاڑی کے پاس گئے تو دیکھتے ہیں اس کا تو جغرافیہ ہی بدلا ہوا ہے۔ بیچاری لاچار کھڑی تھی بے زبان سی۔ کہ تم لوگوں نے مجھے تو دیکھا ہی نہیں۔ اس کا چہرہ بدشکل ہو چکا تھا، مڈگاڑڈ ہلکا سا ٹکا رہ گیا تھا، پینٹ چھوٹ گیا تھا اسٹیرنگ وہیل ٹیڑھا ہوگیا تھا۔ سائلنسر بھی بھنو بھنو کر رہا تھا خیر اسٹارٹ تو ہوگئی تھی۔ پھر انہوں نے موٹر گاڑی کے ڈاکٹر کو فون کیا جو ان کے جاننے والے ہیں وہ کہیں بھی ہوتے ہیں پوری دہلی میں یا NCR میں ہماری گاڑی ہمیشہ ان کے پاس ہی جاتی ہے۔ چاہے کوئی بیماری کی مرمت کرنی ہو یا پھر چیک اپ یا Service کے لیے۔ وہ دوست آج کل گڑگاؤں میں ہیں۔ ان سے بات ہوئی سارا قصہ سنایا تو انہوں نے اپنا ڈرائیور بھیج کر نوئیڈا گاڑی منگوائی۔ گاڑی ابھی دھب دھب میوزک کے ساتھ گئی ہی تھی کہ ڈرائیور کا فون آیا صاحب گاڑی بہت بیمار ہے آگے نہیں چل سکتی، کمزوری آگئی ہے، پھر انہوں نے ٹچن والی گاڑی بھیجی اور اسے گاڑیوں کے اسپتال تک پہنچایا گیا۔ کئی دنوں کے بعد ہماری گاڑی دلہن کی طرح سج سنور کر واپس آگئی۔ بس ۴۵۔۵۰ہزار اور دینا پڑا۔ بس یہ شکر ہوا ان کوکچھ نہیں ہوا اور ان کے موبائل کو۔ تو اس طرح چکانی پڑی نیند کی قیمت، نیند واقعی بہت قیمتی ہوتی ہے:

’’تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب‘‘

وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب

 (مومن)

.......

C-2،لین نمبر-6، نزدجامع مسجد بٹلہ ہائوس،

جامعہ نگر، نئی دہلی-110025

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...