Wednesday, May 10, 2023

مرزا شوق اور مثنوی زہر عشق

 مرزا شوق اور مثنوی زہر عشق 

مجنوں گورکھپوری 

دنیا کی بے شمار عجیب باتوں میں سے عجیب ترین بات یہ ہے کہ جن واقعات کو رسماً وہ ناشائستہ اور غیر اخلاقی قرار دیتی ہے وہ وہی واقعات ہوتے ہیں جو یقیناً اپنی اثر آفرینیوں سے اس کے دل میں ایک ہلچل مچا چکے ہوتے ہیں۔ انہی جذبات کو ہیئت اجتماعی پامال کرنے کی کوشش کرتی ہے جو انسان کی ہستی کے اصلی اور فطری عناصر کہے جا سکتے ہیں۔

’’زہرِ عشق‘‘ کی مقبولیت میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ بلا امتیازِ خاص و عام کہا جاسکتا ہے کہ اردو زبان میں ’’نور نامہ‘‘ کے بعد جتنی یہ مثنوی پڑھی گئی ہے شاید ہی کوئی دوسری نظم پڑھی گئی ہو، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ آج شاید ہی کوئی بے باک حق شناس ایسا نکلے جو مجمعِ عام میں زہرِ عشق کا ذکر کرتے ہوئے اپنی €زبان میں ایک خفیف سی لکنت نہ پائے۔ مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بڈھا۔ بڑے سے بڑا نقادِ ادب ہو یا جاہل دہقانی۔ جب کبھی اس مثنوی کا ذکر کرے گا تو اس کو ایک جھجھک سی ضرور محسوس ہوگی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ساری تعریف کرنے کے بعد وہ کسی نہ کسی پیرا یہ میں اس کا اظہار بھی کردینا اپنا فرض سمجھے گا کہ وہ اس ’’حدیث عشق‘‘ کو مخربِ اخلاق سمجھتا ہے۔ حالی نے تو اس کو بار بار مرزا شوق کی اور مثنویوں کے ساتھ ’’اِم مورل‘‘ یعنی خلاف تہذیب بتایا ہی ہے۔ حیرت یہ ہے کہ جناب عبد الماجد دریا بادی نے جو معرکۃ الآرا مقدمہ لکھا اور جو اس کتاب میں شامل ہے، اس میں بھی جابجا اس €خیال کے اظہار کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مثنوی ایک حد تک شرمناک ہے اور مرزا شوق نے اس کو لکھ کر اپنے کو بدنام کیا۔ بڑی خیریت یہ ہے کہ جناب عبد الماجد نے اپنا مقدمہ ایسے مؤثر اور دل پذیر اسلوب میں لکھا ہے جو مثنوی کے شایانِ شان ہے اور اس کے پڑھنے سے بھی دل پر وہی اثر ہوتا ہے جو مثنوی کے پڑھنے سے ہوتا ہے۔ مقدمہ پڑھتے وقت پڑھنے والے کی رگ رگ میں بے چینی کچھ ایسی پیدا ہوجاتی ہے کہ ان کا دبی زبان سے یہ اشارہ کہ مثنوی میں جابجا عریانی ہے کھو سا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ اتنی ادبی یا اخلاقی جرأت اب تک کسی میں نہیں پائی گئی کہ وہ کھلم کھلا یہ کہے کہ ’’میاں‘‘’’زہرِ عشق‘‘ کسی کی محرومیوں کی داستان ہے، کسی کی خوں گشتہ حسرتوں کی روداد ہے۔ اخلاق و مذہب کی مداخلت یہاں ’’گول خانہ میں چو کھنٹی سی چیز ہے۔‘‘

انسان جب اخلاقیات، معاشیات، مذہبیات، سیاسیات اور تمام دنیا بھر کے واہیات خرافات سے عاجز ہو جاتا ہے تب وہ فنونِ لطیفہ سے سکون حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ فنونِ لطیفہ اس روحانی اضطراب کو آسودہ کرنے آئے جس کو کسی اور پہلو سے انسان آسودہ نہ کر سکا۔ یہ حقیقت روز بروز روشن ہوتی جاتی ہے چنانچہ فلسفۂ جدید کے مسلمات میں سے ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ فنونِ لطیفہ کو دراصل اخلاق و مذہب سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ شاعری کو فنونِ لطیفہ میں سر فہرست رکھا گیا ہے۔ اس کا تعلق انسان کے واردات قلب سے ہے۔ شعر نام ہے کسی جذبہ کے اظہار کا۔ شاعر کو اس سے بحث نہیں کہ ایسا ہونا چاہیے یا نہیں۔ وہ تو بس یہ جانتا ہے کہ دنیائے بشریت میں بالعموم ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ’’زہر عشق‘‘ کو شاعری کے ممتاز نمونوں میں شمار کرنا پڑتا ہے۔

زہر عشق کو عوام الناس کی شاعری کہنا چاہیے۔ اس کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ نہ تو کہیں فلسفہ کے نکات ہیں نہ تصوف کے رموز، نہ اس کی زبان میں غالبیت یا مومنیت ہے۔ نہ اس کے واقعات میں کوئی ندرت یا اجنبیت۔ معمولی واقعات جن کا تجربہ ہر خاص وعام کو ہو سکتا ہے معمولی مگر دل نشیں انداز میں بیان کر دیے گئے ہیں تاکہ ان سے کم و بیش ہر کوئی اثر قبول کرسکے۔ کسی ادبی کارنامہ کی یہ خصوصیت کوئی معمولی خصوصیت نہیں ہے۔ اس کی بدولت وہ ادبی کارنامہ عوام کے دلوں میں گھر کرکے غیر فانی ہو جاتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کسی ملک یا کسی زمانہ میں ایسے لوگوں کی آبادی ہو جو غالب کے حکیمانہ نکات یا میر کے تغزل کی قدر کرنے سے معذور ہوں یا جو میرؔ اثر کی مثنوی’’خواب و خیال‘‘ یا غنیمت کی مثنوی ’’نیرنگِ عشق‘‘ کے فلسفہ کو نہ سمجھ سکے۔ عوام کی سمجھ سے قطعاً یہ بات بالاتر ہے کہ میرؔاثر کو ایک عورت کی محبت میں مایوس ہونے کے بعد میرؔ درد کے ساتھ اس قدر غلو کیونکر پیدا ہوگیا۔ یا عزیز، شاہد سے محروم ہوکر ’’شاہد آفریں‘‘ میں کیسے محو ہوگیا، لیکن یہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے اور محسوس کر سکتا ہے کہ ایک نو عمر نا تجربہ کار لڑکی کو دفعتاً ایک مرد سے عشق کیونکر ہوسکتا ہے چاہے وہ شخص کتنا ہی اجنبی اور نامحرم کیوں نہ ہو۔ یہاں تو ’’محبت دل کا ایک سودا ہے جس کی جس سے بن آئی‘‘ کی عامیانہ منطق کام کرتی ہے۔ اس کو بھی ہر شخص آسانی سے سمجھ لے گا کہ وہی لڑکی اپنی نامرادیوں کا جلد سے جلد خاتمہ کردینے اور اپنے کو آئندہ دم گھٹا دینے والی صعوبتوں سے بچانے کی غرض سے خودکشی کیسے کرسکتی ہے۔ قصہ کوتاہ ’’زہرِ عشق‘‘ کی مقبولیت کا راز اس کی اولیت میں ہے اور اس کا شمارادبیات عامہ (Democratic Literature) ہیں ہے۔

مرزاؔ شوق نے جہاں تک اس وقت معلوم ہے چار مثنویاں یادگار چھوڑی ہیں۔ یعنی ’’بہارِ عشق‘‘ ’’زہرِ عشق‘‘ ’’فریبِ عشق‘‘ اور ’’لذتِ عشق‘‘ ان میں سے پہلی تین مثنویوں میں تو مرزا نے اپنے کو ہیرو مانا ہے، لیکن ’’لذتِ عشق‘‘ کا ہیرو ایک شاہزادہ ہے۔ یہ مثنوی یقیناً میر حسن کی ’’بدرِمنیر‘‘ کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جناب عبدالماجد صاحب کن شواہد کی بنا پر یہ کہتے ہیں کہ ’’فریب عشق‘‘ اور’’ لذتِ عشق‘‘ کی زبان شوق کی زبان نہیں ہے۔ اگر چاروں نظموں کا مطالعہ بالاستیعاب کیا جائے تو ان میں کم از کم زبان کے لحاظ سے تو ضرور ایک قسم کی روانی پائی جائے گی۔ حضرت احسن لکھنوی نے اپنے مضمون میں تو یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ ’’لذت عشق‘‘ ایک دوسرے شاعر کی لکھی ہوئی ہے۔ بہت ممکن ہے ان کا خیال صحیح ہو اور انھوں نے تاریخی دلائل پر یہ خیال قائم کیا ہو، لیکن کم از کم زبان میں کوئی ایسی بات نہیں جس کی بنا پر یہ کہا جائے کہ ’’لذتِ عشق‘‘ مرزا کی تصنیف نہیں ہے۔ ہاں اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ’’ فریبِ عشق‘‘ اور ’’لذتِ عشق‘‘ کی زبان اتنی پختہ اور کسی ہوئی نہیں جتنی کہ ’’زہرِعشق‘‘ اور ’’بہارِ عشق‘‘ کی ہے مگر اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ’’زہر عشق‘‘ اور’’بہارِ عشق‘‘ بعد کی تصنیفیں ہیں اس لیے زبان زیادہ چست اور رواں ہے۔ ’’فریب عشق‘‘ میں تو جابجا انہی خیالات کا اظہار اسی زبان میں کیا گیا ہے جو’’ زہرِ عشق‘‘ یا ’’بہارِ عشق‘‘ میں بھی ملتے ہیں۔ مثلاً ’’فریبِ عشق‘‘ کے شروع میں لکھتے ہیں۔

داغ الفت ہر اک کے دل میں ہے

عشق انساں کے آب و گل میں ہے

اس میں ڈوبا ہوا ہے سر تا سر

خالی اس سے نہیں ہے کوئی بشر

اسی کو ’’زہرِ عشق‘‘ میں یوں دیکھیے:

سختی ساری بتوں کے دل میں دی

اُلفت انساں کے آب و گل میں دی

عشق سے کون ہے بشر خالی

کر دیے جس نے گھر کے گھر خالی

زبان قطعاً زیادہ شستہ اور رواں ہے ۔

بہر حال اس قسم کی متعدد مثالیں ملیں گی جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان چاروں مثنویوں کا مصنف ایک ہی شخص ہے۔

سب سے پہلے حالی نے اس طرف توجہ دلائی کہ شوق کی مثنوی ’’بہارِ عشق‘‘ میر اثر کے ’’خواب و خیال‘‘ کو پیشِ نظر رکھ کر لکھی گئی۔ جناب مولوی عبدالحق سکریٹری انجمن ترقی اردو نے اپنے مقدمہ ’’مثنوی خواب و خیال‘‘ میں حالی کی تائید کی ہے اور دونوں مثنویوں سے اقتباسات پیش کرکے شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ دونوں مثنویوں میں اکثر اشعار نمایاں طور پر متوارد ہیں اور خاص کر سراپا کے تو بیشتر اشعار حرف بحرف ملتے ہیں۔ میرا بھی خیال ہے کہ مرزا کو ’’خواب و خیال‘‘ کے پڑھنے کے بعد ہی مثنوی نگاری کا شوق ہوا۔ ’’خواب و خیال‘‘ کو انھوں نے قابل رشک نمونہ سمجھ رکھا تھا۔ یہ سمجھ کر خود مثنویاں لکھنا شروع کیں۔ چنانچہ ’’خواب و خیال‘‘ کے بعض عناصر کی جھلک ’’بہارِ عشق‘‘ میں آئی اور بعض کی ’’زہرِ عشق‘‘ میں۔ اگر چہ ’’زہرِ عشق‘‘ میں ایسا شاید ایک شعر بھی نہیں جس کو سرقہ یا توارد کہا جاسکے۔ تاہم معنوی حیثیت سے اس میں بھی ’’خواب و خیال‘‘ کا خاصا پر تو ہے۔

ماہ جبیں (میں نے اس کو لڑکی کا نام سمجھ لیا ہے) کی داستان محرومی کو میں نے بھی اسی عمر میں پڑھا جس میں عموماً لوگ پڑھا کرتے ہیں ۱۶/۱۷کا سن جوانی کی راتیں مرادوں کے دن۔ اس سے زیادہ خطرناک اور اس سے زیادہ پرکیف زندگی کی کوئی منزل نہیں۔ رگ رگ میں ایک خروش، ریشہ ریشہ میں ایک اپچ۔ جس کی طرف طبیعت مائل ہوگئی بلا سوچے سمجھے اسی طرف کے ہو رہے اور پھر خدا نہ کرے کہ کسی کو اس عمر میں شعر و سخن سے ذوق ہو۔ پھر تو سرشاری کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔

’’زہرِ عشق‘‘ کا چرچا اکثروں کی زبان پر تھا۔ دو تین اشعار سنے سنائے میری زبان پر بھی چڑھ گئے تھے۔ سنا کرتا تھا کہ نہ جانے کتنوں نے اس کو پڑھ کر زہر کھا لیا اور کتنے ’’ہیرو‘‘ کی طرح اقدام خودکشی کرکے رہ گئے۔ خود میرے محلہ میں ایک ادھیڑ بزرگ تھے جو اپنے عہد شباب میں ’’زہرِ عشق‘‘ پڑھ کر ایسا باؤلے ہوگئے تھے کہ کنویں میں گرنے کی نیت باندھ چکے تھے۔ احباب آڑے وقت کام آئے اور کہانی کا حاصل یہ ہوا کہ حضرت بھی اپنی سخت جانی سے جیتے رہ گئے اور اب تک بہ وجوہ احسن جی رہے ہیں۔ خدا ان کو جیتا رکھے۔

اس طرح کے واقعات سن کر مجھ پر بھی ’’زہر عشق‘‘ کا جن سوار ہوا۔ اُس وقت تک مثنوی کا چھپنا ممنوع تھا۔ بڑی تلاش اور سرگردانی کے بعد ایک قلمی نقل ہاتھ آئی۔ پڑھا اور متاثر ہوا، لیکن میں اس عمر میں بھی اوروں کے مقابلہ میں زیادہ ٹھوس دل رکھتا تھا۔ آنکھیں میری بھی نم ہوگئیں مگر کسی طرح میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ لوگ اس کو پڑھ کر جان دینے پر کیوں تل جاتے ہیں۔ جب خود بطل قصّہ نے جان نہیں دی تو کسی اور کے دل کو ایسی کیا لگ جاتی ہے کہ وہ جامۂ ہستی سے بیزار ہوجاتا ہے۔

’’زہر عشق‘‘ کی قدرو قیمت اسی کے دو سال بعد میرے ایک انگریز پروفیسر نے میرے ذہن نشین کی۔ پروفیسر موصوف نہ جانے کتنی زندہ اور مردہ زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور مجھ سے اردو، فارسی اور عربی میں مدد لیا کرتے تھے۔ صورت ایسی تمسخر انگیز پائی تھی کہ اکثر کالج کے لڑکے اپنے کو مجبور پاتے تھے کہ ان کے ساتھ مذاق کریں۔ ایک دن کسی مسخرے نے بتا دیا کہ آپ ’’زہرِ عشق‘‘ پڑھیے۔ دوسرے دن میں پڑھانے گیا تو حضرت کی میز پر مثنوی کا ایک گندا نسخہ پڑا پایا۔ اس وقت مثنوی کے چھپنے کی اجازت پھر مل چکی تھی۔ پروفیسر صاحب مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے ’’تم لوگ ہو بڑے کمبخت‘‘ یہ مثنوی اور اس کس مپرسی کی حالت میں۔ آج یورپ میں یہ لکھی گئی ہوتی تو شاعر کی قبر سونے سے لیپ دی گئی ہوتی اور اب تک اس مثنوی کے نہ جانے کتنے رنگ برنگ کے ایڈیشن نکل چکے ہوتے۔ برافروختگی کے عالم میں پروفیسر صاحب کی ہیئت کذائی دیکھنے کے قابل ہوا کرتی تھی لیکن میں ان کی مخلصانہ رائے سے اس وقت اتنا متأثر ہوا کہ ان پر ہنسنا بھول گیا۔ اس کے بعد میں نے مثنوی کو پھر پڑھا۔ اُسی وقت سے یہ خیال دل میں لیے ہوئے تھا کہ ’’زہرِ عشق‘‘ کا ایک یادگار ایڈیشن نکلنا چاہیے۔ اب تک اس خیال کو عمل میں نہ لاسکا۔ خدا خدا کر کے اب اس کی نوبت آئی ہے۔ وہ بھی اس مجبوری کے ساتھ کہ دل کھول کر اپنا حوصلہ پورا نہیں کر سکتا۔ ورنہ آج میں بھی اُس وفا سرشت پری کا ایک زر کارتابوت نکال دیتا۔

شوقؔ کی دو مثنویوں کو بڑی شہرت حاصل ہوئی’’ بہارِ عشق‘‘ اور ’’زہرِ عشق‘‘ جہاں تک زبان کی سلاست، الفاظ کی ترتیب اور محاورات کے رکھ رکھاؤ کا تعلق ہے ’’بہارعشق‘‘ کو شوقؔ کی ہر مثنوی پر فوقیت حاصل ہے لیکن اثر کے اعتبار سے’’ زہرِ عشق‘‘ کو جو مرتبہ حاصل ہے وہ کسی مثنوی کو حاصل نہیں ’’زہر عشق‘‘ اس بنا پر شوقؔ کا شاہکار ہو کر رہ گئی ہے۔

شوقؔ کسی خاص صورت حال کو مع اُس کے جزئیات کے بیان کرنے کا جو ملکہ رکھتے تھے اُس کے نمونے تو جابجا ان کی ہر مثنوی میں ملیں گے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جو شخص صرف اپنی اوباشیوں کے کارنامے قلم بند کرتا آیا ہو وہ انسان کے صحیح جذبات کو ایسے عام فہم اور دل نشین انداز میں بیان کرنے کی قدرت کہاں سے لایا۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ’’بہارِ عشق‘‘ اور ’’فریبِ عشق‘‘ بوالہوسی کے کارنامے ہیں۔ اسی سبب سے پڑھنے والوں کے دل پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو وہی جو ’’کوک شاستر‘‘ یا ’’عیش زندگی‘‘ پڑھ کر ہوتا ہے اور اس قسم کا اثر کبھی دیرپا نہیں ہوتا۔ شعر کو مؤثر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جن جذبات کا اظہار ان میں کیا گیا ہے، وہ جذبات ایک لطافت لیے ہوں چاہے ان میں اخلاقی سنجیدگی ہو یا نہ ہو۔ ’’بہارِ عشق‘‘ اور ’’فریبِ عشق‘‘ میں بجائے لطافت کے اچھی خاصی کثافت ہے، لیکن ’’زہر عشق‘‘ کے جذبات میں ایک گھلاوٹ ہے، ایک خود گزاشتگی ہے، ایک دردمندی جو دل کی عمیق ترین تہوں میں اپنے اثرات چھوڑ جاتی ہے اور پھر اس میں نہ صرف عشقیہ یا ازدواجی جذبات کا اظہار حسنِ اسلوب کے ساتھ کیا گیا بلکہ ماں باپ کے جذبات کی ترجمانی بھی اسی کمال کے ساتھ کی گئی ہے۔ صنعتی نقطۂ نظر سے ’’زہرعشق‘‘ اگر ’’بہارِ عشق‘‘ سے کم مرتبہ پر ہے تو اس خصوصیت کے لحاظ سے وہ نہ صرف شوق کی اور مثنویوں سے بلکہ اردو زبان کی اکثر مثنویوں سے منزلوں آگے ہے۔ ’’زہر عشق‘‘ میں دو مواقع ایسے ہیں جہاں والدین اور بالخصوص ماں کے دل کی حالت بیان کی گئی ہے۔ ایک تو جب ماہ جبیں کو پہلی بار دیکھنے کے بعد صاحب افسانہ پر خواب و خور حرام ہوجاتا ہے اور ان کی حالت جملہ علاماتِ عشق کی آئینہ دار بن جاتی ہے۔ والدین کو تشویش ہے۔ ماں کے غم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ سمجھا بجھا کر حالات دریافت کرتی ہے، خوشامد کرتی ہے، روتی ہے، بلائیں لیتی ہے، جلی کٹی سناتی ہے۔ غرض سو طرح کوششیں کرتی ہے کہ بیٹا اپنے دل کا بھید کچھ بتائے اور اپنی حالتِ زار کو سنبھالے۔ شوقؔ کی زبان میں ذرا سنیے:

دیکھے ماں باپ نے جو یہ انداز

روح قالب سے کر گئی پرواز

پوچھا مجھ سے یہ کیا ہے حال ترا

کس طرف ہے بندھا خیال ترا

سچ بتا دے کہ دھیان کس کا ہے

دل میں غم میری جان کس کا ہے

زرد چہرہ ہے ارغواں کی طرح

ٹکڑے پوشاک ہے کتاں کی طرح

نہیں معلوم کون ہے وہ چھنال

کر دیا میرے لعل کا یہ حال

میرے بچے کی جو کڑھائے جان

سات بار اس کو میں کروں قربان

اللہ آمیں سے ہم تو یوں پالیں

آپ آفت میں جان یوں ڈالیں

دن کو دن سمجھی اور نہ رات کو رات

تلخ کی تیرے پیچھے سب اوقات

پالا کس کس طرح تمھیں جانی

کون منت تھی جو نہیں مانی

روشنی مسجدوں میں کرتی تھی

جاکے درگاہ چوکی بھرتی تھی

اب جو نام خدا جوان ہوئے

ایسے مختار میری جان ہوئے

ہم تو یوں پھونک پھونک رکھیں قدم

آپ دیتے پھریں ہر ایک پہ دم

ہم یہاں رنج و غم میں روتے ہیں

آپ غیروں پہ جان کھوتے ہیں

یوں تو برباد تو شباب نہ کر

مٹی ماں باپ کی خراب نہ کر

کیسا دو دن میں جی نڈھال ہوا

دائی بندی کا کیا یہ حال ہوا

آئینہ تو اُٹھا کے دیکھ ذرا

ست گیا دو ہی دن میں منہ کیسا

یوں ہی گر ہو گیا تو سودائی

دور پہنچےگی اس کی رسوائی

ایسے دیوانے کو بھرے گا کون؟

شادی اور بیاہ پھر کرے گا کون؟

بیٹے کو ایسی حالت میں مبتلا دیکھ کر ماں کے جو خیالات اور جذبات ہو سکتے ہیں، ان کی اس سے بہتر سچی تصویر مشکل سے کہیں اُتری ہوگی۔ تصنّع اور تکلف کا کہیں کوئی شائبہ نہیں۔ البتہ زمانۂ ماحول اور معاشرت کی رعایت بے ساختہ ہوگئی ہے۔ سو یہ ایک قدرتی بات تھی۔ یہ رعایت شوق کی ہر مثنوی میں نمایاں ہے اور اسی نے زیادہ تر لوگوں کو دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔ جس زبان اور جن خیالات کو لوگ بازاری اور مبتذل سمجھتے ہیں وہ واجد علی شاہی معاشرت کے لوازمات ہیں۔

دوسرا موقع جہاں ماں کے دل کے ٹکڑے نکال کر رکھ دیے گئے ہیں وہ ہے جبکہ ماہ جبیںؔ کا جنازہ اپنے مدفن کو روانہ ہوا ہے۔ عبدالماجدؔ صاحب نے اپنے مقدمہ میں اس کا اقتباس درج کردیا ہے اور اس کو دُہرانے کی ضرورت نہیں۔

میرے ایک دوست کا اعتراض ہے کہ کبھی ماں بیٹے میں عاشقی کے باب میں اس طرح بے باکی اور بے تکلفی کے ساتھ گفتگو نہیں ہوسکتی۔ ماں کبھی اپنے جوان بیٹے کے سامنے یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتی:

نہیں معلوم کون ہے وہ چھنال؟

کر دیا میرے لعل کا یہ حال

ماں انتہائی رنج اور غصہ کی حالت میں یہ سب کچھ کہہ سکتی ہے وہ تو خیر لکھنؤ کی ایک تیز و طرار ماں تھی۔ ایک معمولی دیہاتی ماں بھی بیٹے کی ایسی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر اس طرح کی زبان درازیاں کرسکتی ہے جو عموماً مذاق سلیم کو گراں گزرتی ہیں۔

حالیؔ نے نہ جانے کس واعظانہ دھن میں ’’زہر عشق‘‘ کو بھی ’’بہار عشق‘‘ اور ’’فریب عشق‘‘ کی طرح شوقؔ کی ہوس کاریوں کا ایک دفتر سمجھا ہے۔ یہ تو ایک خونیں داستان ہے۔ ایک وفا پرست لڑکی کی نامرادیوں اور قربانیوں کی جس میں مرد اپنی ساری ہوسناکیاں لیے ہوئے ایک ہلکی سی گرد کی طرح دب کر رہ گیا ہے۔ عورت کی ہستی تمام افسانہ پر چھائی ہوئی ہے اور مرد کی ہستی کا کہیں پتہ نہیں۔

قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’فریب عشق‘‘ ’’بہار عشق‘‘ اور ’’زہر عشق‘‘ کا ہیرو ایک ہی شخص ہے۔ میں حالیؔ کی طرح یہ کہنے کی جرأت نہیں رکھتا کہ یہ حضرت خود مرزا شوق تھے حالانکہ اس خیال کی تردید بھی مشکل سے ہوسکتی ہے۔ بہر حال وہ جو کوئی بھی ہوں مگر ہیں انہی لکھنوی تماش بینوں میں سے جو الّھڑنا دان لڑکیوں کو فقرے میں لے آنے اور پھر ان سے دغا کرنے میں ماہر فن سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے نہ جانے کتنے ایسے بائیں ہاتھ کے کھیل، کھیل ڈالے تھے۔ نہ جانے کتنی بھولی لڑکیوں کو عشق بازی کا فریب دے چکے تھے۔ اور وںکا تو حال معلوم نہیں۔ تین کی داستانیں محفوظ ہیں۔ ایک کو ’’فریب عشق‘‘ میں دق ہوا اور وہ بیچاری چارپائی پر پڑکر اور ایڑیاں رگڑ کر جاں بحق تسلیم ہوئی۔ دوسری نے ’’زہر عشق‘‘ میں زہر کا ایک گھونٹ پی کر اپنی ساری مشکلیں آسان کرلیں۔ تعجب ہے کہ تیسری نے ’’بہار عشق‘‘ کے مزے کیسے لوٹے اور صاحب افسانہ نے آئندہ کے لیے اپنی جولانیوں کو روک کیوں دیا۔ شاید عمر کا تقاضا تھا اور اب زیادہ بے راہ روی کی سکت ان میں باقی نہ تھی۔     ان تینوں بلاکشانِ محبت میں سب سے زبردست شخصیت ’’زہر عشق‘‘ والی مہ جبیں کی ہے۔ مہ جبیں ایک سوداگر کی لڑکی ہے۔ لکھنا پڑھنا جانتی ہے۔ کوئی بازاری عورت نہیں۔ جیسا کہ اکثر اہل تنقید نے سمجھ رکھا ہے۔ پڑھنے والوں کو شروع ہی میں بتادیا گیا ہے کہ سوداگر عالی خاندان اور دولت مند تھا۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس ’’خرابِ وفا‘‘ کو کوئی آبرو باختہ کوٹھے والی سمجھیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بچپن سے اس کی طبیعت کی افتاد کچھ غیر معمولی سی تھی۔ اس کے مزاج میں ایک رنگینی اور اس کے دل میں ایک گھلاوٹ فطرتاً موجود تھی۔ ہمجولیوں کے ساتھ آسمان کی بہار دیکھنے کی عادت تھی۔ رگوں میں ایک سیماب وشی تھی۔ ریشہ ریشہ میں ایک خروش محبت تھا جس کو اپنے مرکز کی جستجو تھی۔ وہ مرکز سامنے کے کوٹھے پر ملا۔ اس میں شک نہیں کہ مہ جبیں کو صحیح مرکز نہیں ملا، مگر ایسوں کو صحیح مرکز ملتا بھی کم ہے۔ بہر حال مہ جبیں نے اس کو صحیح مرکز سمجھا پھر کیا تھا قدرتاً جو ہونا چاہیے تھا وہی ہوا:

موج اُلفت اُسے ڈبونے لگی

ایک اُلجھن سی دل کو ہونے لگی

آخر کار ’’زما عقل و زما جان و زمادل‘‘ کہہ کر ٹوٹ پڑی۔ جوانی کا جوش، محبت کا خروش۔ دو آتشہ کی ماتی مہ جبیںؔ میں آگا پیچھا سوچنے کی تاب کہاں تھی۔ دل سے مجبور آغاز و انجام پر کیا غور کرتی۔ اس کی سرشت محبت سے ہوئی تھی۔ وہ محبت کے لیے بنی تھی اور محبت کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھ گئی۔

ماہ جبیںؔ ایک طرف اگر معصوم تھی تو دوسری طرف تیز و طرار بھی تھی۔ اس نے خود پہلے مرد کو محبت نامہ بھیجا۔ مرد کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے ایک طول طویل دفترِ شوق اس کے جواب میں روانہ کیا۔ ماہ جبیں ؔکو اس کی افتادگی میں بڑا مزا آیا۔ پھر دوسرے خط میں حضرت کو خوب بنایا۔ اس کو اگر آپ کہنا چاہتے ہیں تو بازاری پن کہہ لیجیے، مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ ماہ جبیں اپنے دل کا پورا جائزہ لے چکی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کا حسین پڑوسی اس کی نگاہوں میں کھب کر دل میں گھر کر چکا ہے۔ اب اس نقش کو دل سے مٹایا نہیں جاسکتا۔ عشق کی ولولہ خیزیاں اور جوانی کی اُمنگیں اس کے دل میں ایک اُبھار پیدا کرتی ہیں ۔ وہ اپنے کو مجبور پاتی ہے کہ اپنے محبوب سے کچھ چھیڑ چھاڑ بھی کرے۔ دل کا سودا کر لینے کے بعد اب کوئی بات ایسی رہی نہیں جو اس کو اس چھیڑ سے باز رکھتی۔ جس شخص کو وہ حریم دل میں جگہ دے چکی تھی، جس سے وہ چوری چھپے راتوں کو ملنے کا ارادہ کر چکی تھی، اس سے اگر اتنی بے باکی برتی تو کون سی حیرت کی بات ہے۔

ماہ جبیں وفا و محبت میں پختہ مغز تھی ۔ اس نے جو دعویٰ کیا اُس کو آخری سانس تک نباہ دیا۔ اس کو احساس تھا کہ دنیا کے نقطۂ خیال سے وہ ایک گناہ کر رہی ہے۔ شاید آخرت میں بھی گناہ ہی شمار کیا جائے، لیکن ذرا محبت کا عزم و استقلال دیکھیے گا کس اعتماد و غرور کے ساتھ کہتی ہے۔

گو کہ عقبے میں روسیاہ چلی

لیکن اپنی سی میں نباہ چلی

جاں باز لڑکی کو معلوم تھا کہ اس کا گناہ محبت کا گناہ ہے اور اس قابل ہے کہ اس کا احترام کیا جائے۔

افسانہ کی دنیا میں اب تک مجھے صرف تین ایسی ممتاز ہستیاں نظر آئی ہیں جن کو اپنی افتادگی پر ناز رہا ہے اور جن کی پستی میں میں نے ایک جلال محسوس کیا ہے۔ ایک تو روسی فسانہ نگار ٹولسٹاے ؔکی مشہور و معروف ہیروئن ایناکرینیناؔ ہے۔ یہ ایک بیاہی عورت تھی۔ گھر کی خوش حال تھی۔ شوہر سے کچھ نا آسودہ نہ تھی۔ لیکن دل کی منطق ہی کچھ نرالی ہے۔ اینا ور انسکیؔ نامی ایک خوبصورت نوجوان کو دیکھتی ہے۔ دل میں ایک نئی تڑپ پیدا ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ ور انسکیؔ کے پیچھے باؤلی ہوجاتی ہے۔ گھر بارتج دیتی ہے۔ سارے عیش و آرام سے منہ موڑ کر محبوب کے ساتھ ماری ماری پھرتی ہے۔ ور انسکیؔ کے ساتھ جو ناجائز لگاؤ اس کو تھا اس کا ثمرہ ملتا ہے۔ ور انسکیؔ کی طرف سے کچھ بے اعتنائی اور بیگانگی شروع ہوتی ہے، لیکن اینا پر ورانسکی کا جن اسی طرح سوار ہے۔ ور انسکیؔ سے آخر کار وہ چھٹ جاتی ہے۔ کوئی دوسرا یار و مددگار نہیں اور نہ اس کو کسی کی ضرورت۔ ساری دنیا تیرہ و تار ہو رہی ہے مگر اینا کو اگر غم ہے تو ور انسکی کا۔ دنیا اس کو ایک عصمت فروش بے شرم عورت سمجھ رہی ہے، مگر وہ اپنے کیے پر نادم نہیں ہے۔ اس کو یقین ہے کہ اس نے جو کچھ کیا اچھا کیا۔ ورانسکی کا جوگ لے کر وہ ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے اور جب اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ ورانسکی اب اس کی چیز نہیں تو ورانسکی کا نام لے کر جان دے دیتی ہے مگر مرتے دم تک اپنی لغزشوں پر ناز رہا۔ یہ تھی محبت اور یہ تھا محبت کا وقار۔

دوسری عورت ’’شاہنامہ ‘‘کی منیژہؔ ہے۔ محلوں میں پلی، بادشاہ زادی ایک جہانیاں جہاں گشت پر فریفتہ ہو کر کوہ و صحرا کی خاک چھانتی پھرتی ہے۔ نہ شاہانہ وقار کی لاج ہے۔ نہ محل کے ناز و نعم کی پروا۔ بس ایک دھن ہے اور وہ محبت کی دُھن ہے۔ ایک غیرت ہے اور وہ محبت کی غیرت ہے۔ رستم جب اس سے پوچھتا ہے کہ  ’’تو کون ہے ؟‘‘ تو ایک طرف اگر اس کو یہ غرور ہے کہ کہتی ہے :

منیژہ منم دخت افرا سیاب

برہنہ نہ دیدہ تنم آفتاب

تو دوسری طرف اس بات پر بھی کچھ کم ناز نہیں ہے :

براے یکے بیژنِ شور بخت

فتادم زتاج و فتادم زتخت

تیسری عورت یہ ماہ جبیں ہے جس کے حوصلۂ عشق کا صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایک کمسن لڑکی کی بساط ہی کیا۔ اللہ رے ہمت و استقلال، مرنے کا پورا نقشہ درست کرچکی ہے۔ زندگی اس کے لیے بے اصل و بے معنی ہوچکی ہے۔ کل صبح نہ وہ ہوگی نہ اس کی دنیا۔ اس کو خوب معلوم ہے :

ہوچکا اب جو کچھ تھا ہونا

کل بسائیں گے قبر کا کونا

لیکن اس کے تیور جہاں تھے وہیں رہے۔ ماتھے پر ہراس و سراسیمگی کی کوئی علامت نہیں۔ نہ اس کو دنیا چھوٹنے کا غم ہے اور نہ عقبیٰ کی باز پرس کا ڈر۔ہاں اگر کوئی غم ہے تو یہ ہے :

حسرت دل نگوڑی باقی ہے

اور یہاں رات تھوڑی باقی ہے

وہ رہ رہ کر گھبرا اٹھتی ہے تو بس اس خیال سے:

خاک تسکین جان زار کریں!

اب وصیت کریں کہ پیار کریں

یہ تھا محبت کا جنون اور یہ تھی اس کی محویت جس نے دونوں جہاں کو نقوش باطل کی طرح مٹا کر رکھ دیا تھا۔ محبت کی راہ میں مٹ جانے والی ’’ماہ جبیں‘‘ کل اس دنیا سے رخصت ہونے والی ہے۔ موت سر پر کھیل رہی ہے۔ دنیا اور اس کی نت نئی رنگینیاں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ محبوب سامنے ہے۔ ملاقات کی آخری رات ہے۔ دل میں آرزوؤں کا ایک محشر برپا ہے، مگر یہ محبت کا اعتماد اور محبت کا استقلال ہی تھا جس نے اس کے حواس بجا رکھے اور ’’منزل اول‘‘ کی سختیوں کو آسان کردیا۔ یہ اس کے جذبات کا خلوص اور اس کا عاشقانہ اعتماد تھا جس نے اس کو اس قابل رکھا کہ وہ €زندگی اور موت کے اسرار پر عبور پاجائے اور حدوث و فنا کے فلسفہ کو اس دل آویز اسلوب میں بیان کرجائے:

جائے عبرت سرائے فانی ہے

مور و مرگ نوجوانی ہے

ہر گھڑی منقلب زمانہ ہے

یہی دنیا کا کار خانہ ہے

اس راز کو جیسا ماہ جبیں نے کھول کر رکھ دیا شاید کسی ولی سے بھی ممکن نہ تھا۔ کہاں ہیں وہ حامیانِ اخلاق، کہاں ہیں وہ علم برداران تہذیب و عمرانیت جو ماہ جبیں پر ہوسناکی اور نفسانیت کا اتہام لگاتے ہیں۔ کیا ہوسناکی اور اتہام کی یہی علامتیں ہیں؟ کیا بازاری عورتیں زندگی کی بے ثباتی اور موت کی ہمہ گیری یوں ہی سمجھایا کرتی ہیں؟ اس سے انکار نہیں کہ ماہ جبیں کو یہ خیال بھی ستا رہا ہے:

پھل اٹھایا نہ زندگانی کا

نہ ملا کچھ مزا جوانی کا

دل میں لے کر تمہاری یاد چلے

باغِ عالم سے نامراد چلے

اور اس خیال سے وہ رہ رہ کر بے چین ہوجاتی ہے۔ کبھی کہتی ہے:

پھر کہاں ہم کہاں یہ صحبت یار

کولو پھر ہم کو بھینچ بھینچ کے پیار

اور کبھی:

لہر پھر چڑھ رہی ہے کالوں کی

بو، سنگھا دو تم اپنے بالوں کی

کبھی محبوب کے گلے میں بانہیں ڈال دیتی ہے۔ کبھی اس کی گود میں بیٹھ جاتی ہے۔ وہ سب کچھ کرتی ہے مگر یہ عین بشریت ہے۔ ماہ جبیںؔ کوئی فرشتہ نہ تھی۔ ولی نہ تھی۔ خدا رسیدہ نہ تھی۔ اخلاق و مذہب کی علمبردار نہ تھی۔ وہ عورت تھی اور عورت کا دل رکھتی تھی۔ اپنے دل کی چوٹ کو کیسے بھول جاتی۔ اپنی حسرتوں کو دل سے کیسے نکال پھینکتی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس نے اپنے نج کے واردات قلب کو وسعت دے کر اس قدر عالمگیر کیونکر بنا دیا اور ’’غمِ عشق‘‘ میں ’’غم ہستی‘‘ کا رنگ کہاں سے بھر دیا۔

ماہ جبیں کو اکثر لوگ بے حیا کہتے ہیں جس کے دیدہ کا پانی ڈھل گیا ہے۔ اگر محبت بے حیائی ہے۔ اگر دل باختہ ہونے کی دلیل ہے تو پھر مجھے کچھ کہنا نہیں ہے، لیکن ذرا دم بھر کے خود سوچیے۔ محبت کا نشہ لڑکی کے رگ وپے میں ساری ہے۔ موت کا اندھیرا چھا رہا ہے۔ کائنات کی فضاسوگوار ہے۔ اس عالم میں بھی اس کو اپنی عزت نفس کا خیال ہے۔ چنانچہ محبوب سے جو وصیت کررہی ہے اس کے ممتاز اور اہم ٹکڑے یہ بھی ہیں:

ضبط کرنا اگر ملال رہے

میری رسوائی کا خیال رہے

کہے دیتی ہوں جی نہ کھونا تم

ساتھ تابوت کے نہ رونا تم

میری میت کا دھیان رکھیے گا

بند اپنی زبان رکھیے گا

تذکرہ کچھ نہ کیجئے گا مرا

نام منہ سے نہ لیجیے گا مرا

آپ کاندھا نہ دیجیے گا مجھے

سب میں رسوا نہ کیجیے گا مجھے

ساتھ چلنا نہ سر کے بال کھلے

تا کسی شخص پر نہ حال کھلے

ذکر سن کر مرا نہ رو دینا

میری عزت نہ یوں ڈبو دینا

اور اگر ماہ جبیں اب بھی بے حیا تھی تو بے حیا سہی۔

’’زہر عشق‘‘ کو اردو ادب میں وہی مرتبہ دینا چاہیے جو جرمن ادب میں فلسفی فسانہ نگار گئیٹے کے Sorrows of Werther کو ملا ہے۔ سنا ہے کوئی صاحب گئیٹے کے اس افسانہ کا ترجمہ اردو میں ’’آلام ورتھر‘‘ کے نام سے کرچکے ہیں یا کررہے ہیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو اور اردو ادبیات میں ایک نئے شہادت نامۂ عشق کا اضافہ ہوجائے۔ واقعات اور تربیتِ واقعات کے لحاظ سے ’’زہر عشق‘‘ اور ’’آلام ورتھر‘‘ میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔ سوا اس کے کہ دونوں میں زندگی کا انجام یکساں ہے۔ ’’زہر عشق‘‘ میں ایک دنیا اور دنیا کی آزمائشوں سے بے خبر لڑکی اپنے جذبات عشقیہ سے مغلوب ہوکر خودکشی کرتی ہے۔ اور ’’آلام ورتھر‘‘ میں ایک نوجوان مرد جو علاوہ عشق کی مایوسیوں کے اور طرح طرح کی ناکامیوں اور محرومیوں کے ہاتھوں زندگی سے بیزار ہوجاتا ہے اور آخر کار جان دے کر دنیا کے تمام جھگڑوں سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔ لیکن اثر کے اعتبار سے ’’زہر عشق‘‘ اور ’’آلام ورتھر‘‘ دونوں ایک پایہ کی چیزیں ہیں۔ دونوں کے پڑھنے سے کم از کم وقتی طور پر انسان زندگی اور موت کی تفریق بھول جاتا ہے۔ موت کا ہَول نہ صرف دل سے نکل جاتا ہے بلکہ بے ساختہ دارورسن کا اشتیاق پیدا ہوجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جرمنی کے نوجوان سپاہی جب جنگ کے میدان میں جاتے تھے تو ’’آلام ورتھر‘‘ کو ساتھ رکھتے تھے اور اسی کو پڑھتے ہوئے تیغ و تفنگ کی نذر ہوجاتے تھے۔ اس کی نفسیات کا سمجھنا دشوار نہیں ’’آلام ورتھر‘‘ کے پڑھنے سے انسان اپنے اندر مرنے کا ایک حوصلہ پانے لگتا ہے۔ ’’زہر عشق‘‘ کے پڑھنے کا بھی یہی اثر ہوتا ہے۔ اس کی کبھی ’’آلام ورتھر‘‘ کی طرح آزمائش نہیں کی گئی ورنہ میرا خیال شاید غلط نہ ثابت ہوتا۔

چلتے چلتے میں مرزا شوقؔ کی مثنوی نگاری کے متعلق کچھ اور کہنا چاہتا ہوں۔ یہ میں کہہ چکا ہوں کہ مرزا واقعات کو بالتفصیل بیان کرنے میں زبردست قدرت رکھتے تھے۔ جس منظر یا جس واقعہ کا وہ نقشہ کھینچتے ہیں ، خوب کھینچتے ہیں۔ شاعرانہ شان کو قائم رکھتے ہوئے ان کا اندازِ بیاں نہ صرف عام فہم ہے بلکہ کافی حد تک عامیانہ ہے۔ یہ خواص کے لیے عیب ہے، مگر اس کی قدر عوام سے پوچھیے۔ محبت کے نکات اور زندگی اور موت کے رموز کو لکھنؤ کے گلی کوچوں کی زبان میں سمجھاجانا شوقؔ ہی کا کام تھا۔ ’’زہر عشق‘‘ میں نہ تخیل کی بلند پروازیاں ہیں۔ نہ انوکھی ترکیبیں ہیں۔ نہ دور از کار استعارے ہیں۔ سیدھے سادے خیالات ہیں۔ معمولی جذبات ہیں۔ روز مرہ کی بول چال ہے۔ کسی طرف سے بھی شاہراہ عام سے ہٹ کر کوئی راہ نہیں نکالی گئی ہے۔ اسی خصوصیت نے مثنوی کو عامیانہ بنایا اور اسی نے غیر فانی۔ اسی نے شوقؔ کوبدنام کرکے زندہ رکھا۔

البتہ فنّ فسانہ نگاری کے لحاظ سے ایک خامی مثنوی میں مجھے نظر آتی ہے اور وہ خامی شوق کی ہر مثنوی میں ہے۔ قصہ کو اتنا جلد اور اتنا اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو بے ربطی اور بے ترتیبی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ محبت کا اتنا جلد پیدا ہوجانا اور پھر اتنا جلد اس کا خاتمہ ہوجانا کچھ نامانوس سی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس دور کی اکثر مثنویوں میں یہ خامی ملے گی ۔ چنانچہ قلق کی مثنویوں میں بھی یہی بات ہے۔ یہ لوگ پورا قصہ نہیں بلکہ اس کا صرف ایک ٹکڑا لے کر منظوم کر دیتے تھے ۔ جس سے مثنوی کچھ بے تکی سی ہو جاتی تھی۔ آخر میں مجھے ان لوگوں کا شکریہ بھی ادا کرناہے جنھوں نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں ’’زہر عشق‘‘ کا یہ ایڈیشن نکالوں۔ سب سے پہلے تو وہی پروفیسر صاحب جنھوں نے اس کی اہمیت مجھے جتائی اور میں ان کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا۔ لیکن ’’ایوان اشاعت‘‘ کے قیام کے بعد سب سے پہلے جس نے مجھے اس کام کی طرف متوجہ کیا وہ جناب شاہ نذیر ہاشمی صاحب غازی پوری ہیں جو ’’ایوان‘‘ کے ساتھ بڑی ہمدردی رکھتے ہیں اور ہر طرح سے میری ذمہ داریوں میں حصہ لے رہے ہیں۔

جناب مولوی عبدالماجد صاحب دریا بادی کی یہ عنایت بھی کچھ کم نہیں کہ انھوں نے اپنے قابل قدر مضمون کو مثنوی کے شامل کر دینے کی اجازت دے دی۔ سب سے آخر میں مگر سب سے زیادہ مجھے نیاز ؔصاحب کا ممنون ہونا چاہتے  جن کی دلچسپیاں اور کوششیں اگر ساتھ نہ ہوتیں تو شاید میرے دل کی حسرت دل ہی میں رہ جاتی اور ’’زہر عشق‘‘ کی آج بھی وہی کس مپرسی کی حالت ہوتی۔ نیاز صاحب نے جناب احسن لکھنوی کا تاریخی مضمون شامل کرنے کی اجازت دی خود مثنوی پر تنقید لکھی۔ تصویروں کا انتظام کیا اور پھر مثنوی کی طباعت کی ذمہ داری لی۔ نیاز صاحب جس مستعدی اور خلوص کے ساتھ’’ ایوان‘‘ کے کاروبار میں عملی دلچسپی لے رہے ہیں اس کا میرے دل پر گہرا نقش ہے۔

مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باوجود سعی و جستجو کے ’’زہر عشق‘‘ کا کوئی پرانا قلمی نسخہ نہ مل سکا۔ مجبوراً چند معمولی قلمی نقلوں اور چھپے ہوئے نسخوں کو ملا کر تصحیح و ترتیب کے بعد مثنوی کو شائع کر رہا ہوں۔

مثنوی میں جو عنوانات ہیں ان میں کچھ ترمیم کی گئی ہے مثلاً عام نسخوں میں ’’رخصتی ملاقات کا پہلا موقع‘‘ رخصتی ملاقات کا ’’دوسرا موقع‘‘ اور پھر ’’رخصتی ملاقات‘‘ کے عنوانات ملیںگے۔

میں نے ان سب کو ملاکر ’’رخصتی ملاقات‘‘ کا ایک عنوان رکھا ہے۔ رخصتی ملاقات ایک بار ہوا کرتی ہے اور ایک ہی بار ہوئی۔ ماہ جبیں تین تین بار محبوب سے رخصت ہونے نہیں آئی تھی۔ میرا خیال ہے کہ’’ موقع‘‘ کا لفظ منظر یا رخ کے معنی میں استعمال کیا گیا، لیکن چونکہ اس سے پڑھنے والے کو دھوکہ ہوسکتا ہے اس لیے میں نے اس کو قلم زد کر دینا بہتر سمجھا۔

بعض نسخوں میں ’’چغلی کھانا ایک عورت کا دختر کے والدین سے‘‘ کی بھی ایک سرخی ہے، لیکن بعض نسخوں میں اس کا اشارہ تک نہیں ہے۔ میں نے بھی اس ٹکڑے کو نکال دیا ہے۔ اس میں نہ تو کوئی شاعرانہ خصوصیت ہے اور نہ وہ افسانے کا کوئی لازمی جز معلوم ہوتا ہے۔

میں نے اپنی تمام کوشش اس بات پر صرف کر دی ہے کہ مثنوی کو ہر طبقہ اور ہر مذاق کی چیز بنا کر پیش کروں اور ہر خاص و عام اس کو اپنے پاس رکھنے کے قابل سمجھے۔ اگر میں اس مقصد میں کامیاب ہوگیا ہوں تو اس سے بڑھ کر میرے لیے خوش نصیبی کی کوئی اور بات نہیں ہوسکتی۔ مجھے بڑا ڈر ’’مذاق سلیم‘‘ سے ہے کہ کہیں وہ میری اس کوشش کو بھی مبتذل اور ناشائستہ سمجھ کر مجھے اخلاقی مجرم نہ ٹھہرائے، لیکن قبل اس کے کہ مجھ سے باز پرس کی جائے اور میں اخلاق و مذہب کی میزان پر تولا جاؤں میں خود اس کا اعلان کردینا چاہتا ہوں :

عاشق و رند و نظر نازم و میگویم فاش

تابدانی کہ بہ چندیں ہنر آراستہ ام

جس کا جی چاہے آئے اور میری ہمنوائی کرے اور جس کا جی چاہے کانوں پر ہاتھ رکھ کر مجھ سے دور بھاگ جائے۔

بعض مبہم اور غیر واضح اصطلاحوں سے دنیا بری طرح بہک رہی ہے۔ انہی میں سے ’’مذاق سلیم‘‘ اور ’’عامیانہ‘‘ کی بھی اصطلاحیں ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ’’مذاق سلیم‘‘ کو حق کیا ہے کہ وہ عمومیت سے الگ اپنا راستہ نکالے۔ ادبیات عوام کی ملکیت ہے اور عمومیت اس کی اصل ہے، اس عمومیت میں جتنی لطافت اور پاکیزگی چاہیے پیدا کرلیجئے، لیکن اس کی ماہیت کو نہ آپ بدل سکتے ہیں اور نہ اس کا آپ کو حق حاصل ہے۔

ایوانِ اشاعت گورکھپور ،۱۳؍ستمبر ۱۹۳۰ء

ار مغانِ مجنون (جلد دوم) زندگی، شخصیت، فن،

مرتبہ: صہبا لکھنؤی ،شمیم رومانی

بہ شکریہ: مجنوں اکیڈمی کراچی (پاکستان)

طبع اول: ۱۹۸۴ء

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...