Wednesday, May 31, 2023

گھر میں بھوت

گھر میں بھوت

انگریزی کہانی :  رَسکِن بونڈ

مترجم: استوتی اگروال

رسکِن بونڈ پیدائش:۱۹ مئی ۱۹۳۴ء{ایک اینگلو انڈین مصنف ہیں۔اُن کی اہم کتابیں’دی روم آن دی روف‘،’آ فلائیٹ آف پجنز‘،’دی بلو امبریلا‘ہیں۔بونڈ نے ۵۰۰ سے زائد مختصر کہانیاں،مضامین اور ناول لکھے ہیں،جن میں بچوں کے لیے ۵۰ کتابیں شامل ہیں۔اُنھیں ۱۹۹۲ء میں’اَوَر ٹریز اِسٹِل گِرو اِن دہرہ‘کے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ، ۱۹۹۹ ء میں پدم شری اور ۲۰۱۴ء میں پدم بھوشن سے نوازا گیا۔رسکِن بونڈ لینڈوُر،مسوری میں مقیم ہیں۔

یہ دادی کا فیصلہ تھا کہ ہمیں دوسرے گھر میں منتقل ہوجاناچاہیے۔یہ سب اُس بھوت کی وجہ سے تھا،ایک شرارتی بھوت، ہم سب کا جینا حرام کر رہا تھا۔

ہندوستان میں،زیادہ تر بھوت پیپل کے درختوں میں رہتے ہیںاور وہیں ہمارا بھوت پہلے رہتا تھا۔وہ ایک پرانے پیپل کے درخت کی شاخوں میں رہتا تھاجو احاطے کی دیوار سے اُگ رہا تھا۔وہ ہماری طرف کے باغ میں اور دوسری طرف کی سڑک پر پھیل گیا تھا۔

کئی برسوں تک وہاںبھوت ہنسی خوشی،بغیر کسی کوگھر میں پریشان کیے رہتا رہا۔میرے خیال میں سڑک کے ٹریفک نے اُسے مکمل طور پر مصروف رکھا تھا۔کبھی، جب تانگا گزرتا تھا،وہ گھوڑے کو ڈرا دیتا تھا،جس کی وجہ سے گھوڑا گاڑی تیز رفتاری سے غلط سمت میں چلی جاتی تھی۔کبھی کبھار،وہ کار یا بس کے انجنوں میں گھُس جاتا تھااورفوراً ہی کچھ خرابی ہو جاتی تھی۔

وہ صاحبان کے سروں سے ٹوپیاں گِرانا پسند کرتا تھا۔وہ ہوا کے جھونکوں پر الزام لگاتے اور تعجب کرتے کہ اتنی اچانک سے ابھری اور اُسی تیزی سے چلی بھی گئی۔باوجود اِس کے بھوت اپنے آپ کو محسوس کر سکتا تھااور کبھی کبھی سُن بھی سکتا تھا،وہ انسانی آنکھوں سے اوجھل تھا۔رات میں لوگ پیپل کے درخت کے نیچے سے گزرنے میں گریز کرتے تھے۔کہا جاتا تھا کہ اگر آپ پیڑ کے نیچے جمائی لیں گے،توبھوت آپ کے گلے سے نیچے اُتر کر آپ کا ہاضمہ خراب کر دے گا۔دادی کا درزی، جسپال،جو کبھی بھی وقت پر کام نہیں کرتا تھا،اپنی تمام مصیبتوں کا ذمہ دار بھوت کو ٹھہراتا تھا۔ ایک بار، جمائی لیتے وقت جسپال اپنے منھ پر انگلیاں پھیرنا بھول گیا تھا--لازماً پیپل کے درختوں کے نیچے جمائی لینا۔۔۔اور بھوت کا بغیر کسی مشکل کے اندر داخل ہو جانا۔اس کے بعد سے جسپال کا پیٹ ہمیشہ خراب رہتا تھا۔

لیکن اُس نے ہمارے خاندان کو تنہا چھوڑ دیا تھا، جب تک کہ پیپل کا درخت کاٹا نہیں گیا۔اس میں کسی کا قصور نہیں تھا،سوائے اس کے کہ دادا جی نے محکمۂ تعمیرات(پبلک ورکز ڈپارٹمنٹ) کو پیڑ کاٹنے کی اجازت دی تھی۔پیڑہماری زمین پہ تھا اور وہ سڑک کو چوڑا کرنا چاہتے تھے۔درخت اور دیوار کا تھوڑا سا حصہ راستے میں تھا، دونوں کو الگ کرنا تھا۔کسی بھی صورت میںمحکمۂ تعمیرات پر ایک بھوت غالب نہیں آ سکتا۔

مشکل سے ایک دن ہی گزرا تھاکہ ہمیں علم ہوگیا، پیڑ سے محرومی کے سبب،بھوت نے ہمارے بنگلے میں رہائش اختیار کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔چونکہ ایک اچھا بھوت بھی اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے برا ہو سکتا ہے،اس لیے وہ جلد ہی گھر میں ہر طرح کی شرارتوں پر آمادہ ہو گیاتھا۔

شروعات میںدادی جب بھی عینک اتارتیں ،وہ اُسے چھپا دیتا۔

’’مجھے اچھی طرح یاد ہے میںنے اسے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا تھا۔‘‘وہ بڑبڑائیں۔تھوڑی دیر بعد وہ ایک جنگلی سؤر کی تھوتھن(snout) پر متوازن طور پر پائی گئی،جس کے بھرے ہوئے سر نے برآمدے کی دیوار کو سجایا تھا۔گھر میں اکلوتا لڑکا ہونے کی وجہ سے ،اِس حرکت کا الزام پہلے مجھ پر لگایا گیا،لیکن ایک دو دن بعد جب عینک پھر غائب ہو گئی ، اورصرف طوطے کے پنجرے کے تاروں سے لٹکی ہوئی ملی، توطے پایا کہ کوئی اور شے یہ کام کر رہی ہے۔

اب پریشان ہونے کی باری دادا جی کی تھی۔ ایک دن صبح وہ باغیچے میں گئے۔انھوںنے دیکھا کہ اُن کے قیمتیs) (sweet peaکچلے اوربکھرے ہوئے زمین پر پڑے تھے۔اُس کے بعد تکلیف اُٹھانے کی باری انکل کین کی تھی۔وہ بہت گہری نیند میں سوتے تھے اور اگر وہ ایک بار سونے چلے جاتے تو انھیں یہ پسند نہیں تھا کہ کوئی نیند سے جگا دے۔جب وہ ناشتے کی ٹیبل پر آئے تو دیکھ کر ایسا لگا جیسے وہ سوئے ہی نہیں ہیں،سب نے پوچھا کیا وہ ٹھیک محسوس کر رہے ہیں؟

’’کل رات میں ایک جھپکی تک نہ لے سکا۔‘‘انھوں نے شکایت کی۔جب بھی میں سونے کی کوشش کرتا، چادریںکھیچ لی جاتیں۔مجھے اُنھیں فرش سے اُٹھانے کے لیے کم از کم مجھے ایک درجن بار اُٹھنا پڑا۔‘‘وہ مجھے بری طرح سے گھورنے لگا۔

’’کل رات تم کہاں سو رہے تھے نوجوان؟‘‘

’’دادا جی کے کمرے میں۔‘‘میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔

’’یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔‘‘داداجی نے کہا۔’’میں گہری نیند نہیں سوتا۔اگر وہ نیند میں سے اُٹھتا ،تو میں جاگ جاتا۔‘‘

’’یہ پیپل کے درخت والا وہی بھوت ہے۔‘‘دادی نے کہا۔’’وہ ہمارے گھر میں آ گیا ہے۔پہلے میری عینک،پھر قیمتی پھول اور اب کین کی چادریں! ‘‘

یہ اب آگے کیا کیاکرنے والا ہے،میں نے سوچا؟

آفتوں کا ایک سلسلہ جاری رہا۔گلدان میزوں سے گرنے لگے۔دیواروں سے تصویریں گر گئیں۔

حالات اُس وقت بگڑ گئے جب آنٹی مِنی رہنے کے لیے آ گئیں۔ایسا لگتا تھا کہ بھوت کو آنٹی مِنی سے نفرت ہے ۔وہ ایک بے چین،پُر جوش روح تھیں،ایک غضبناک بھوت کے لیے بالکل صحیح شکار۔پتہ نہیں۔۔کیسے، اُن کا ٹوتھ پیسٹ داداجی کی شیونگ کریم ٹیوب سے بدل گیا۔وہ سِٹنگ روم میں آئیں،منھ میں جھاگ بھرا ہوا تھا۔انکل کین نے چیخ کر کہا’’ اُسے ریبیزہو جائے گا اورہمیں اپنی زندگیاں بچانے کے لیے بھاگنا ہوگا۔‘‘

’’ہمیں اِس گھر کو چھوڑنا ہی پڑے گا۔‘‘دادی نے فیصلہ کیا۔’’اگر ہم یہاں زیادہ رکیں گے ،تو کین اور مِنی دونوں ڈِپریشن کا شکار ہو جائیں گے۔‘‘

’’آنٹی مِنی تو بہت پہلے سے ہی پاگل ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

’’تمھارے مطلب کی بات نہیں ہے!‘‘آنٹی مِنی نے غصے میں جواب دیا۔

’’ویسے بھی،میں گھر بدلنے پر راضی ہوں۔‘‘میں نے جھنجھلا کر کہا۔’’میں اپنا ہوم وَرک بھی نہیں کر پاتا۔ سیاہی کی بوتل ہمیشہ خالی رہتی ہے۔‘‘

’’کل رات سوپ میں سیاہی تھی۔‘‘ دادا جی نے شکایت کرتے ہوئے کہا۔

اور اِس طرح،کچھ دنوں اور کئی آفات کے بعد ،ہم ایک نئے گھر میں منتقل ہو نے لگے۔

فرنیچر اور بھاری بھرکم سامان سے لدی دو بیل گاڑیاںآگے بھیجی گئیں۔

پرانی گاڑی کی چھت پر بیگوں اور کچن کے برتنوں سے اونچا ڈھیر بن گیا تھا۔سب ٹھُنس کر گاڑی میں بیٹھ گئےاور داداجی نے ڈرائیور کی سیٹ سنبھال لی۔

ہم گیٹ سے بمشکل باہر نکلے ہی تھے کہ ہمیں ایک عجیب سی آواز سنائی دی،جیسے گاڑی کی چھت پر کوئی قہقہہ لگا کر خود سے باتیں کر رہا ہو۔

’’ کیا طوطا سامان سے باہر نکل گیا ہے؟‘‘دادا جی نے پوچھا۔

’’نہیں،وہ بیل گاڑی پر اپنے پنجرے میں ہے۔‘‘دادی نے جواب دیا۔دادا جی نے گاڑی روکی، باہر نکلےاور چھت پر ایک نظر ڈالی۔

’’وہاں کچھ نہیں ہے۔‘‘وہ دوبارہ اندر داخل ہوئے اورگاڑی اِسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔یقیناً میں نے طوطے کو بات کرتے ہوئے سنا ہے۔‘‘

داداجی نے سڑک پر کسی طرح گاڑی چلائی ہی تھی کہ پھر سے قہقہے شروع ہو گئے،اِس کے بعد ایک دھیمی سی آواز آئی۔ہم سب نے اُسے سُنا۔وہی بھوت خود سے باتیں کر رہا تھا۔

’’چلو چلتے ہیں،چلو چلتے ہیں!‘‘وہ خوشی سے چیخا۔’’ایک نیا گھر!میں اُسے دیکھنے کے لیے اور انتظار نہیں کر سکتا۔ہم سب خوب مزے کرنے والے ہیں!‘‘

اگروال جویلرس، سرونج-464228(ایم پی)

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...