Monday, May 29, 2023

قطب مشتری اور کلام انیس میں تنقیدی تصور ایک مطالعہ

 

قطب مشتری اور کلام انیس میں تنقیدی تصور ایک مطالعہ

سرور مہدی

 

اردو تنقید نگاری کی اولین کتاب کی حیثیت سے مولانا الطاف حسین حالی کی کتاب’’ مقدمۂ شعروشاعری ‘‘کو جانا جاتا ہے ۔ حالی نے یہ کتاب پہلے ’’شعروشاعری‘‘ نام سے لکھی تھی جس کی اشاعت ۱۸۹۳ ء میں ہوئی ۔ انھوں نے اس کتاب پر ایک مفصل مضمون لکھا تھا جس میں فن شعرگوئی ، اس کی خصوصیات اور اس کی اصناف پر گفتگو کی تھی۔ پھر یہ مقدمہ اتنا مشہور ہوگیا کہ اسے تنہا ہی ’’مقدمۂ شعروشاعری ‘‘ کے نام سے شہرت مل گئی۔ اور’’مقدمۂ شعرو شاعری ‘‘اردو تنقید کا اولین نوشتہ قرار پایا ۔اس کتاب سے پہلے جن کتابوں میں تنقید کے نقوش ملتے ہیں وہ تذکرے ہیں ۔ تذکرہ نویسوں نے تذکرے لکھتے ہوئے ماقبل و معاصر شعرا کے تعارف اور نمونۂ کلام کے ساتھ ذاتی پسند و ناپسند یا تحسین شعری کے متعلق جو گفتگو کی، اس کی وجہ سے تذکرے تنقیدکے شروعاتی نقوش قرار دیے جاتے ہیں۔ اردو تذکروں کی اپنی ایک مکمل تاریخ اور طویل فہرست ہے ۔ جن میں میر تقی میر کا ’’نکات الشعرا‘‘ قیام الدین قائم کا ’’مخزن نکات‘‘ فتح علی حسینی گردیزی کا ’’ریختہ گویاں‘‘ میر حسن کا ’’تذکرہ شعرائے اردو‘‘ اور مصحفی ؔکے تین مشہور تذکرے ہیں۔ اکثر محققین کے مطابق میر تقی میرؔ کا تذکرہ ’’نکات الشعرا‘‘ اردو شعرا کا پہلا تذکرہ ہے اور مرزا علی لطف ؔکا ’’گلشن ہند‘‘ اردو زبان میں لکھا گیا شعرائے اردو کا پہلا تذکرہ ہے جبکہ مشہور ترین تذکرہ محمد حسین آزادؔ کا ’’آب حیات ‘‘ ہے جو اپنی رنگین بیانی اور واقعات گوئی کے باعث الگ ہی شان رکھتا ہے۔ تذکروں کی تاریخ سے پہلے دکن میں بہت سے شعرا نے اپنی شعری تخلیقات میں فن شعرگوئی کے بارے میں اپنی آرا کا اظہار کیا ہے ۔ دکنی شعرا میں نقد شعر کی روایت پر بات کی جائے تو مقیمی ، ابن نشاطی ، غواصی ،نصرتی اور ملا وجہی وغیرہ کے کلام میں ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ چونکہ ہماری اردو شاعری اور نثر دونوں کا آغاز ہی دکن میں ہوا ہے ، اس لیے دکنی شعرا کے کلام میں موجود ان تصورات کو تنقید کا خشت اول کہنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔ دکنی شعرا کا تصور شعر وہ بنیادی پتھر ہے جس پر اردو تنقید کی عمارت کھڑی ہوئی۔ نقد شعر کا یہ تصور دکن کے شعرا کی مثنویات اور دیگر کلام میں جابجا بکھرا ہوا ہے۔دکنی شعرا نے تاریخ سخن ، در باب سخن، انصاف دادن شعرو ترکیب کردن سخن، بیان تالیف کتاب، در شرح شعر گوید ، در بیان آواز دادن ہاتف وغیرہ عنوانات کے تحت یا تعلّی آمیز اشعار میں تنقیدی اشارے کئے ہیں ۔ مقیمی نے ’’ چندر بدن و مہیار‘‘ میں جو اشعار کہے ہیں ان میں یہ اشعار کتنے معنی خیز ہیں:

زباں کا اتا ہوں سچا جوہری

کروں نت سخن سوں گہر گستری

شعر کا تلازم گہر دار ہے

سنورنا طبیعت کو ناچار ہے

 غواصی اپنی مثنوی ’’ سیف الملوک و بدیع الجمال‘‘ میں تعریف سخن کے عنوان سے لکھتے ہوئے سخن کو ازلی قرار دیتا ہے اور کائنات میں اس کے مختلف رنگ و روپ کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ شعر ملاحظہ ہوں:

جکچ راز پردے میں ہیں غیب میں

جو کچھ ہیں چھپے بھید لاریب کے

وتے سب بچن میں سماتے اہیں

بچن میچ تھے بہار آتے اہیں

 اسی طرح غواصی سخن کو حمد و نعت اور منقبت یعنی حصول ثواب کا ذریعہ گردانتا ہے ۔ اسے ’’ کن ‘‘ اور ’’ قلم‘‘ سے جوڑتا ہے، عرش و کرسی سے نسبت دیتا ہے ، نیکی و بدی اور صلح و جنگ کا سبب جانتا ہے اور مبتدی و منتہی قرار دیتا ہے ۔ ابن نشاطی کی مثنوی ’’ پھول بن‘‘گواہ ہے کہ اسے پیشکش کا فن خوب آتا ہے اور معنی کو خوبصورت الفاظ نیز صنائع و بدائع سے باندھ کر پیش کرنے میں طاق ہے ۔ اس نے اپنے تصور شعر میں معنی کے ساتھ صنعت کو اہمیت دیتے ہوئے کہا ہے:

اگرچہ شاعری کا فن ہے عالی

ولے کیا کام آوے بات خالی

دکن کے بعد دہلوی شعرا کے یہاں بھی ایسے تنقیدی تصورات مل جائیں گے جن میں شاہ ظہورالدین حاتمؔ کا نام مشہور ہے جنھوں نے اپنے ’’ دیوان زادہ‘‘ پر مقدمہ لکھتے ہوئے زبان اور شاعری سے متعلق اظہار خیال کیا ہے ۔ لکھنؤ میں ناسخؔ و آتشؔ کے علاوہ مرثیہ گو شعرا نے تعلّی اور نقد شعر کے موضوعات کو سمیٹتے ہوئے اس طرح کے مضامین سے مرثیوں کے چہرہ کو زینت دی ہے ۔ آتشؔ کا یہ شعر آج بھی زبان زد خاص و عام ہے :

 بندش الفاظ جڑنے میں نگوں سے کم نہیں

 شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا

 مرثیہ گو شعرا میں ایسے موضوعات کو صرف سخن کرنے والوں میں میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ کا نام سر فہرست ہے۔ تاہم مقالہ کے عنوان کے پیش نظر ہم دکن کے عظیم المرتبت شاعرملا وجہیؔ اور اردو مرثیہ گوئی کے ماہ کامل میر انیس ؔکے تصور شعر یا تنقیدی شعور پر ہی توجہ مرکوز کریں گے۔

 دکنی شاعر ملا وجہیؔ اپنے عہد کا نامور اور قادر الکلام شاعر تھا ۔ اس نے اپنی مثنوی ’’ قطب مشتری‘‘ اور اپنی تمثیلی داستان ’’ سب رس‘‘ کے ذریعہ اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ملا وجہی نے ابراہیم قطب شاہ ، محمد قلی قطب شاہ ، محمد قطب شاہ اور عبداللہ قطب شاہ کا زمانہ دیکھا تھا ۔ محمد قلی قطب شاہ کا عہد وجہی کا دور کمال تھا۔ قلی قطب شاہ نے اسے ملک الشعرا کے عہدہ سے سرفراز کیا۔ وجہی نے بادشاہ کے عشق کو مثنوی کی شکل میں پیش کرکے کرداروں کو آسمانی سیاروں کے نام عطا کرتے ہوئے قلی قطب شاہ کی اصل عشقیہ کہانی سے گریز کرلیا اور ایک کامیاب فن پارہ تخلیق کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام دکنی مثنویات میں سب سے زیادہ شہرت قطب مشتری کے حصہ میں آئی۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قطب مشتری گولکنڈہ کی سب سے پہلی مثنوی ہے ۔ اس کا مصنف وجہی ؔایسا زودگو اور قادرالکلام شاعر تھا کہ باعتبار ادعائے خود اس نے بارہ یوم میں ایسی جامع الصفات مثنوی تصنیف کرڈالی ۔ قطب مشتری میں تصنیف و تالیف کے قواعد، محاسن اشعار اور خوبیِ کلام کو زیر بحث لاکر اس نے اپنی دانائی کا ثبوت دیا ہے ۔ وہ اردو ، تلگو، فارسی اور عربی زبانوں کا عالم تو تھا ہی،اس کی تنقیدی بحث سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لفظ و معنی کے باہمی ربط پر بھی گہری نگاہ رکھتا ہے ۔ اسی ذاتی جامعیت اور مرزا غالبؔ سے نام کی مماثلت( چونکہ وجہیؔ کا نام بھی اسداللہ ہے) کی وجہ سے ہی اسے دکنی غالب کہا گیا۔ وجہی ؔواقعی ایک یگانۂ روزگار اور ایک عبقری شخص تھا۔ مختلف زبانوں ، مختلف علاقوں کے محاورات اور متعدد علوم و فنون سے واقفیت کا ثبوت اس کے کلام سے ملتا ہے ۔ قطب مشتری میں اس نے نغموں کے سریلے بول شامل کرکے نغموں سے اپنی دلچسپی اور دیومالائی قصوں کو نظم کرکے روایات سے اپنی آشنائی کا پتہ دیا ہے ۔ قطب مشتری کی ان تمام خوبیوں پر الگ الگ باب میں بحث کی جاسکتی ہے ۔ سر دست قطب مشتری میں شاعری کے تعلق سے جو اصول و ضوابط پیش کئے گئے ہیں ، ان پر نظر ڈالتے ہیں۔ دکن کے تمام شعرا نے شعر یا سخن پر جو آرا و نظریات پیش کئے ہیں ان میں وجہی کے بیان کردہ شعری نظریات سب سے زیادہ مفصل ہیں ۔ اپنی تفصیل ، پختگی اور پراثر لہجہ کے باعث دنیائے نقد و تحقیق میں اس کی آواز با ر بار سنائی پڑتی ہے۔

 وجہی نے مثنوی قطب مشتری ۱۰۱۸ہجری مطابق ۱۶۰۹ عیسوی میں تصنیف کی ۔ اس مثنوی میں وجہی نے شعریات سے متعلق باتیں ’’در شرح شعر گوید ‘‘کے عنوان کے تحت کی ہیں۔ مولوی عبدالحق مرتب مثنوی قطب مشتری اس کی خوبیوں میں شعریات یا نقد سے متعلق تبصرہ کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔

 ’’ گو یہ مثنوی اعلیٰ پایہ کی نہ ہو ، تاہم اس میں بعض باتیں بڑی خوبی کی ہیں۔ نمونے کے طور چند ایک کا یہاں ذکر کرتا ہوں۔ اس کتاب میں وجہی نے ایک باب در شرح شعر کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس میں وہ بتاتا ہے کہ شعر کی اصل خوبی کیا ہے اور اس میں کیا کیا جوہر ہونے چاہئیں۔ ‘‘

 وجہی کے شعریات سے متعلق بیان کو پڑھتے ہوئے یہ ضرور غور کرنا چاہیے کہ حالی، شبلی اور مسعود حسن رضوی ادیب کی تنقیدی کتب میںکتنے حصے ایسے ہیں جنھیں وجہی نے سترہویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہی ذکر کردیا تھا۔ اس کا متن دیکھئے:

کتا ہوں تجھے پند کی ایک بات

کہ ہے فائدہ اس منے دھات دھات

جو بے ربط بولے تو بیتاں پچیس

بھلا ہے جو اک بیت بولے سلیس

ان اشعار میں وجہی نے سلاست شعر کی بات کی ہے۔ شعرا کو تنبیہ کی ہے کہ زیادہ شعر کہنے سے گریز کریں اور ترغیب دلائی ہے کہ وہ سلیس اشعار کہیں خواہ وہ تعداد میں کم کیوں نہ ہوں۔ انیسویں صدی میں جب اردو میں باقاعدہ تنقیدی کتابیں تصنیف ہوئیں تب بھی سلاست کو ایک اہم شعری عنصر کے طور پر جگہ دی گئی۔ اس سلسلہ میں مسعود حسن رضوی ادیب لکھتے ہیں:

 ’’مشکل الفاظ استعمال نہ کئے جائیں انہی لفظوں سے کام لیا جائے جن سے زبان مانوس اور کان آشنا ہیں ۔ کلام کی اس خوبی کا نام سلاست ہے۔‘‘

 عام طور پر سادگی اور سلاست کو مترادف تصور کیا جاتا ہے، لیکن یہ دو جداچیزیں ہیں۔ البتہ سادگی کو بھی ناقدین شعر نے ایک اہم عنصر مانا ہے اور سادگیِ مضمون، سادگیِ زبان دونوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔جیسا کہ مرقع کے مؤلف نے ذکر کیا ہے اور اس قول سے محمد حسین آزاد کے نظریۂ سلاست کا حوالہ بھی ملتا ہے۔

 ’’ اردو نثر کے ارتقا میں مولانا محمد حسین آزاد ایک اہم حیثیت کے حامل ہیں۔ وہ ایک صاحب اسلوب انشا پرداز ہیں۔ مولانا آزاد نے سادگی کو خارج کردیا لیکن سلاست کو برقرار رکھا۔‘‘

 اگلے اشعار میں وجہی نزاکت اور لفظ و معنی کے باہمی رشتے پر روشنی ڈالتا ہے ۔ نزاکت خیال یا نازک خیالی کو ہماری شاعری میں بالخصوص غزل گوئی میں ایک خاص اہمیت دی گئی ہے۔ نازکی یا نزاکت کو کس خوبصورت طریقے سے وجہی نے ان دونوں مصرعوں میں پیش کیا ہے۔:

ہنر ہے تو کچھ نازکی برت یاں

کہ موٹا نہیں باندھتے رنگ کیاں

 اردو کے تمام غزل گو شعرا کے اشعار کی تنقید کے دوران نازک خیالی کا لفظ کانوں میں با ر بار پڑتا ہے خصوصی طور پر حکیم مومن خاں مومنؔ کی تمام تر شاعری کو نزاکت خیال کی عمدہ مثال میں پیش کیا جاتا ہے۔ مومنؔ کے ساتھ ساتھ غالبؔ کا بھی نازک خیالی میں بڑا نام ہے ۔ البتہ غالبؔ کے یہاں کبھی نازک خیالی کے ساتھ الفاظ کی پیچیدگی بھی شامل ہوتی ہے اورکبھی سہل ممتنع سے کام لیتے ہیں، لیکن وجہیؔ کے اس شعر میں خیال کی نازکی مذکور نہیں ہے بلکہ وہ بندش کی نزاکت کی بات کررہا ہے۔ بندش سبک اور چست ہو تو قاری کو بے اختیار اپنے سحر میں لے لیتی ہے۔ آگے کے اشعار میں لفظ اور معنی کے باہمی ربط پر وہ مسلسل گفتگو کرتا ہے۔ لفظ و معنی کی بحث ایک قدیم بحث ہے ۔ کچھ نے الفاظ کو اہمیت دی ہے اور کچھ نے معنی پر زور دیا ہے ۔ جیسے مولانا الطاف حسین حالی نے لفظ کی اہمیت کا اقرار کرتے ہوئے بھی معنی کی طرف میلان کیا ہے اور شبلی نے لفظ کو اولیت و اہمیت دی ہے۔ دونوں ہی اکابرین نے ابن خلدون کے الفاظ و معنی والے مباحثہ کو لیا ہے جس میں ابن خلدون لفظ کو ظرف اور معنی کو پیالہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ پانی کو چاہے سونے کے پیالے میں بھرلو، چاہے چاندی کے پیالے میں بھرلو اور چاہے کانچ، بلور اور سیپ کے پیالہ میں اور چاہے مٹی کے پیالے میں۔ پانی کی ذات میں کچھ فرق نہیں آتا مگر سونے یا چاندی کے پیالے میں اس کی قدر بڑھ جاتی ہے اور مٹی کے پیالے میں کم ہوجاتی ہے۔ابن خلدون نے اس نظریہ میں لفظ و معنی دونوں کو سامنے رکھتے ہوئے لفظ کو اہمیت دی ہے ۔ حالی نے اسے بیان کرتے ہوئے لفظ کی اہمیت کو قبول توکیا ہے لیکن معنی کی طرف ان کا میلان ظاہر ہوتا ہے جبکہ شبلی نے ابن خلدون کے نظریہ کو ہی قبول کیا ہے ۔ فرماتے ہیں:

 ’’ شاعری کا کمال یہی ہے کہ مضمون ادا کن لفظوں میں کیا گیا ہے اور بندش کیسی ہے۔‘‘

 لفظ و معنی کی ابحاث کے بین بین ایک متوازن راہ یہ بھی ہے کہ لفظ بھی چست ہوں اور مضمون بھی عالی ہو۔ وجہی ان دونوں کے باہمی ربط کی بحث میں اس متوازن راستہ کا نقیب جان پڑتا ہے:

ووکچ شعر کے فن میں مشکل اچھے

کہ لفظ ہور معنی یہ سب مل اچھے

اسی شعر کو لفظ میں لیائیں تو

کہ لیایا ہے استاد جس لفظ کوں

اگر فام ہے شعر کو تجھ کو چھند

چنے لفظ لیا ہور معنی بلند

 وہ لفظ اور معنی کو باہم متوازن رکھنے پر زور دیتا ہے اور اس سلسلہ میں اساتذہ کے کلام سے استفادہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جسے اشعار کا علم اور سمجھ ہے ، وہ لفظ بھی چنے ہوئے اختیار کرتا ہے اور معنی میں بھی بلندی کو چنتا ہے ۔ لفظ و معنی کو باہم نہ برتنے والوں پر وہ تیکھا طنز بھی کرتا ہے:

یو سب شعر کہتے یو سب شعر نیں

کہ بولاں کدھر ہور معنی کہیں

 ربط اور نظم و ضبط ایک اچھی تخلیق اور فن پارہ کی خصوصیت ہے۔ تسلسل اور ربط ہی بیانیہ شاعری میں واقعات کو آراستہ و پیراستہ کرتے ہیں۔ اچھی تخلیق کے مختلف حصے ربط و تسلسل کے عمل سے ایک ہوکر فن پارہ کو جامع بناتے ہیں ۔ عدم تسلسل کے نتیجہ میں واقعات میں بکھراؤ پیدا ہوتا ہے اور فن پارہ چست نہ ہوکر ڈھیلا ڈھالا محسوس ہوتا ہے ۔ وجہی بھی یہی کہتا ہے کہ کسی فن پارہ کی دل کشی کا ذریعہ تسلسل ہے۔ جسے گفتگو کو منظم کرنا نہیں آتا وہ اچھا شاعر نہیں ہوسکتا :

جسے بات کے ربط کا فام نیں

اسے شعر کہنے سے کچھ کام نیں

 اندازپیشکش کسی شے یا قول کو خوبصورت بنادیتا ہے۔ پیشکش نہ صرف الفاظ کے انتخاب، ربط اور نزاکت پر منحصر ہے بلکہ بہت سی لفظی اور معنوی خوبیوں سے عبارت ہے۔ انہی لفظی اور معنوی صفات کو علم بیان اور علم بدیع میں جگہ دی جاتی ہے ۔ جنھیں عرف عام میں صنائع و بدائع کہا جاتا ہے۔ وجہی الفاظ کے انتخاب کی اور ربط وغیرہ کی باتیں کرتے کرتے ایسے اشارے کرتا ہے جنھیں بیان صنعت گری پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ پھروجہی جس بات کو کہنا چاہ رہا ہے اس بات کو کہنے کے لیے محبوب کو سنوارنے کی مثال دیتا ہے جس سے یہ بات مزید واضح ہوتی ہے اور اسے تقویت پہنچتی ہے کہ وجہی جس خوبی اور آرائش کی بات کررہا ہے وہ صنائع و بدائع ہی ہے۔ ہندی زبان میں صنائع و بدائع کو ’’النکار‘‘ کہتے ہیں جس کے معنی ہی ’’ زیور‘‘ کے ہوتے ہیں جن سے خواتین بالخصوص عروس کی تزئین کی جاتی ہے۔ اس مثال سے صنائع و بدائع کا ہی تصور پیدا ہوتا ہے:

اگر خوب محبوب جوں سور ہے

سنوارے تو نورُ‘ علیٰ نور ہے

 جدت کی تلاش تنقید نگار فی زمانہ کرتے آئے ہیں۔ نیز جدت مضمون اور جدت ادا دونوں ہی پہلوؤں سے اردو میں تنقید کی اولین کتابوں نے گفتگو کی ہے ۔ ہم یہاں وجہیؔ کا نظریہ پیش کرنے سے پہلے اردو کے ناقدین کا شعر سے متعلق کچھ اصول ذکر کرتے ہیں ۔ شبلی نے شاعر ی کے لیے شعر العجم میں جو لازمی عناصر بیان کئے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

 محاکات ، تشبیہیں اور استعارے ، تخئیل،جدت و طرز ادا،سادگی،واقعیت اور تاثیر۔ان لوازمات میں شبلی نے جدت اور طرز ادا کو خاص مقام دیا ہے ۔ اس خوبی کے متعلق شبلی اس طرح لکھتے ہیں:

 ’’ شاعری کے لیے یہ سب سے مقدم چیز ہے بلکہ اہل فن کے نزدیک جدت ادا ہی کا نام شاعری ہے، ایک بات سیدھی طرح سے کہی جائے تو ایک معمولی بات ہے اسی کو اگر جدید انداز اور نئے اسلوب سے ادا کردیا جائے تو یہ شاعری ہے۔‘‘

 مسعود حسن رضوی ادیب جدت کے متعلق درج ذیل الفاظ میں گفتگو فرماتے ہیں :

 ’’ شاعری میں جدت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ اگر شاعر کسی خیال کو دوسروں سے زیادہ پرزور یا پراثر انداز سے ادا کرے ،منتشر خیالات کو کسی خاص ترتیب سے پیش کرے... فرسودہ مضامین کو یوں باندھے کہ ان میں تازگی کی کیفیت پیدا ہوجائے تو ان سب صورتوں میں اس کے کلام کو جدت کی صفت سے متصف سمجھنا چاہیے۔‘‘

 جس خوبی کو اولین تنقیدی کتب شاعری کے لیے ضروری تصور کرتے ہیں اور اچھی شاعری کے اوصاف گردانتے ہیں اسے ملا وجہی ؔنے سترہویں صدی کے آغاز میں ہی بیان کیا تھا ۔مسعود حسن رضوی کے بقول چونکہ جدت مضامین کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے اس لیے اثر، ترتیب اور تازگی کے نقطۂ نظر سے ہی جدت کو پرکھا جائے اور شبلی نے بھی جدت کو کم و بیش جدت ادا ہی کہا ہے لیکن وجہیؔ کا زمانہ اردو ادب میں تصنیفات کا پہلا زمانہ تھا اس لیے اس نے جدت مضمون پر کافی زور دیا ۔ نئے نئے موضوعات کی تلاش بھی بڑا سخت مرحلہ ہوتا ہے ۔ دیوانگی کے کتنے ہی صحرا سے گزرنا پڑتا ہے، تپش اور آبلہ پائی کے کتنے ہی امتحانات سے گزر کر جدت مضمون کا گہر ہاتھ آتا ہے۔نئی بات کہنے میں ایک مشکل یہ درپیش ہوتی ہے کہ اکثر نئی بات کہنے والا اس بلندی پر پہنچ جاتا ہے کہ قارئین کی عام نگاہیں وہاں تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اس لیے جب وہ کوئی نکتہ بیان کرتا ہے تو وہ ترسیل کا حق ادا نہیں کرپاتا اور فن پارہ متنازع بن جاتا ہے یا ایسی گتھی قرار پاتا ہے جسے حل کرپانا مشکل ہوتا ہے ۔ اس لیے فن کا کام جہاں ذہن کی گرہیں کھولنا ہے وہیں قاری کے دل میں اترجانا اور اسے شوق سے معمور کردینا ہے ۔ کامیاب فنکار وہی ہے جو بے کم و کاست اپنے تجربات قاری تک منتقل کردے۔ ملا وجہی کے یہ اشعار جدت سے متعلق نقطۂ نظر کی کامیاب وضاحت کرتے ہیں:

دیوانہ ہوں میں اس رنگی بات کا

کہ ہر دل میں جیو ہو کرے ٹھار آ

کہاں بات وہ چنچل ہور چلبلی

کہ دل کو نہواں سوں کرے گدگلی

سخن گو و ہی جس کی گفتار تھے

اچھل کر گرے آ دمی ٹھار تھے

 فن پارہ کی قدروقیمت معین کرنے میں ناقد کی بڑی اہمیت ہے۔ اصل میں فن پارہ ہی کیا ، دنیا کے کسی شعبہ میںتنقید کی خاص اہمیت ہے۔ تنقید کسی بھی عمل کو اچھا سے اچھا بنانے کے لیے کارآمد ہوتی ہے۔ رحیم نے اپنے دوہے میں ایک عام ناقد کو اپنے قریب جگہ دینے کی بات کی ہے۔ وجہی اچھی طرح جانتا ہے کہ غیر جانبدارانہ تنقید شعروادب کی تخلیق کے لیے ضروری ہے۔اس لیے وجہی تفہیم اشعار کو نہایت درجہ اہمیت دیتا ہے ۔ کیونکہ صحت مند تنقید یا تفہیم ہی خالق کو بھی بہترین تخلیق کے لیے راستہ بتاتی ہے:

شعر بولنا گر چہ اب روپ ہے

ولے فامنا کیے تے خوب ہے

نہ کر بات توں ناسمج آمنا

بہت مشکل ہے بات کو فامنا

 اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ وجہی نے ایک معرکۃ الآراء مثنوی کی تخلیق کرتے ہوئے نقد کے گراں بہا تصورات بھی پیش کئے ہیں۔ سلاست، سادگی، اختصار، نزاکت، جدت ، طرز ادا، ترسیل اور تفہیم پر اس نے اپنے اشعار میں چار سو برس قبل جو باتیں کہی تھیں وہ ہماری تنقیدی کتب میں قدرے تفصیل کے ساتھ بار بار پیش ہوتی رہیں۔

 دکن میں اکثر شعرا کے یہاں قدرے اجمالی شعری تصور موجود ہے، لیکن وجہی کے یہاں یہ کچھ تفصیلی اور یکجا ہے۔ دہلوی شعرا نے بھی طرز اور اسلوب شاعری سے بندھا ہوا بیان اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔ تاہم یہ ایک مکمل تفصیلی موضوع ہے ۔ دبستان لکھنؤ جو لفظوں اور بندشوں کی تراش خراش نیز صنائع کے برتنے سے ہی عبارت ہے، وہاں بھی ایسے تعلّی آمیز اشعار اور تصور شعرو نقدکی کمی نہیں ہے، لیکن جس طرح دکن میں وجہی ؔکا اس میدان میں معاملہ جداگانہ ہے اسی طرح لکھنؤ میں انیسؔ کی انفرادیت ہےاور خاص بات یہ بھی ہے کہ انیسؔ کی وفات تک اردو کی پہلی تنقیدی کتاب ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ منصہ شہود پر نہیں آئی تھی بلکہ انیسؔ کے انتقال کے بیس برس بعد اس کتاب کی اشاعت عمل میں آئی ہے۔ اس لیے انیسؔ کے تصور نقد اور تنقیدی شعور کو سمجھنا اہم ہے۔ جن کا ان کے بعض مراثی خصوصاََ ’’ نمک خوان تکلم ہے فصاحت میری‘‘ میں بیان ہوا ہے۔

 میر انیسؔ ہماری زبان کے وہ قادر الکلام شاعر ہیںجن کی شاعری پر کثیر جہتی گفتگو کی گئی ہے تاہم تاحال یہ احساس زندہ ہے کہ ان کی شاعری کے ابعاد و جہات و اوصاف کا مکمل احاطہ ممکن نہیں ہوسکا ہے۔مرثیہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یوں ہی مختلف اصناف کا سنگم ہے پھر انیسؔ جیسے ذہین،فطین،عالم،مشاق اور چابکدست شاعر نے اس کی حدود کو مزید لامتناہی کردیا۔یہی وجہ ہے کہ انیسؔ کی مرثیہ گوئی پر مباحث جاری ہیں اور ہنوز ناتمام معلوم ہوتے ہیں۔ جس طرح کلام غالبؔ اپنی تہہ داری کے وصف کی بنا پر شرح و توضیح کے مراحل عبور کرتا ہوااپنی معجزانہ شان کا اقرار کرواتا رہا،اسی طرح کلام انیسؔ اپنی پرکاری کے باعث نقدوتحقیق کی کسوٹی پر کھرا ا ترتا ہوا، مزید نکھرتا ہوا اعجاز بیانی اور ہمہ دانی کا کلمہ پڑھواتا رہا۔انیسؔ کی فطرت نگاری، منظر کشی، جزئیات نگاری، جذبات نگاری، کردار نگاری،واقعہ نگاری، مکالماتی شان، امیجری، ڈرامائی عناصر، اخلاقی اقدار، حفظ مراتب، تاریخ دانی، ہندوستانی عناصر، اسلوبیات و صوتیات، انسانیت دوستی، درویشانہ و فقیرانہ شان،رزمیہ شاعری، فصاحت و بلاغت، روزمرہ، محاورے، زبان وبیان، تشبیہات و استعارارت، محاکات، مرثیہ خوانی وغیرہ مختلف موضوعات پر صاحبان تحقیق اور ارباب نقدنے ٖخامہ فرسائی کی ہے۔ان تمام شاعرانہ محاسن کے ساتھ جو انیسؔ کو آفاقی شاعر بناتے ہیں اور عالمی ادب میں خاص مقام عطا کرتے ہیں،ان کے بعض مراثی میں شاعری سے متعلق بالعموم اور رثائی شاعری سے متعلق بالخصوص تنقیدی خیالات بھی ملتے ہیں۔ہرچند کہ تذکروں سے تنقید کی راہ ہموار ہوئی ہے تاہم انھیںباضابطہ تنقید نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ان میں شعرا کے نمونۂ کلام کے ضمن میں تحسین شعری یا تنقیص کے مبہم رویے پائے جاتے ہیں،کسی قانون یا اصول نقد کے تحت کلام کو جانچا یا پرکھا نہیں گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تنقید کے مقدمہ میں یا زمین سازی میں تذکروں کی اہمیت سے انکار کیا جاسکتا ہے۔ہرگز نہیں ،بلکہ مقصود کلام یہ ہے کہ ان تذکروں میں تنقید کی اصول سازی نہیں کی گئی ہے۔مسرت انگیز حیرت تب طاری ہوتی ہے جب ادب کا قاری دیکھتا ہے کہ اردو کی پہلی کتاب سے تقریباََ تین صدی قبل ملا وجہی نے اپنی شہرۂ آفاق مثنوی ـ’’قطب مشتری‘‘ مصنفہ ۱۶۰۹ء میں شعر گوئی سے متعلق اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار کیا ہے اور ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ سے کم از کم دو دہائی یا اس سے بھی قبل انیسؔ نے مراثی میں اپنے رچے ہوئے تنقیدی شعور کا جابجا اظہار کیا ہے۔نیز ابتدائی ناقدین میں انہی خیالات و نظریات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ حالیؔ، شبلیؔ اور مسعود حسن رضوی ادیبؔ تک کے ناقدین انہی نکات سے خوشہ چینی کرتے ہوئے نظرآتے ہیں:

 میر انیسؔ ایک بامطالعہ شخصیت تھے۔ عربی اور فارسی کا کماحقہٗ علم تھا۔ مشرقی شعریات بشمول عربی و فارسی تنقید تک بھی رسائی ضرور رہی ہوگی پھر تجربات انسان کو کیا کچھ نہیں عطا کرتے جبکہ ساری عمر دشت مرثیہ گوئی کی سیاحی میں بسر ہوئی ہو۔ لہٰذا انیسؔ نے بڑے طمطراق سے تعلّی آمیز بندوں کے ساتھ کئی کئی بند شعرگوئی بالخصوص مرثیہ گوئی سے متعلق لکھے ہیںجو تنقیدی نقطۂ نظر سے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ شارب ردولوی کے لفظوں میں تو ان اصولوں کو مرثیہ کی تنقید میں بوطیقا کی اہمیت نصیب ہے۔ ان کا بیان ملاحظہ ہو:

 ’’ میر انیسؔ زبان کے ان نکات سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کے مرثیہ کی جمالیات اور فن کے اپنے کچھ اصول تھے۔ جس میں فن،زبان،اظہار، حسن ادا سب شامل ہے اور آج تک ان اصولوں کو کلاسیکی مرثیہ کے مطالعہ میں بوطیقا کی حیثیت حاصل ہے۔‘‘

فصاحت و بلاغت عربی و فارسی تنقید کا ایک روشن باب ہے بالخصوص عربی معاشرہ میں یہ خوبیاں ہمیشہ زیر بحث رہیں۔ اردو تنقید میں شبلی نعمانی نے ’’ موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ‘‘ میں ان پر خاطر خواہ گفتگو کی ہے، لیکن شبلی سے پہلے ان کے ممدوح اور پسندیدہ شاعر انیسؔ نے اپنے مرثیہ ’’ نمک خوان تکلم ہے فصاحت میری‘‘ میں فصاحت و بلاغت سے متعلق جو باتیں کہی ہیں وہ بھی پڑھنے اور سمجھنے سے تعلق رکھتی ہیں:

ہے کجی عیب مگر حسن ہے ابرو کے لیے

تیرگی بد ہے مگر نیک ہے گیسو کے لیے

سرمہ زیبا ہے فقط نرگس جادو کے لیے

زیب ہے خال سیہ چہرہ گلرو کے لیے

داند آنکس کہ فصاحت بہ کلامے دارد

ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامے دارد

 اردو میں تنقیدی کتابوں کی آمد سے پہلے انیسؔ کے فصاحت سے متعلق یہ خیالات نہایت درجہ قابل توجہ اور لائق پذیرائی ہیں۔ کیونکہ انیسؔ نے یہاں بذاتہ الفاظ کی فصاحت پر گفتگو نہیں کی ہے جو کہ راہ فصاحت کا ابتدائی سنگ میل ہے بلکہ جملے یا کلام کی فصاحت کا بیان کیا ہے جو کمال فصاحت کی منزل ہے۔ ’کجی‘ کا رشتہ ’ابرو‘ سے جوڑنا،’تیرگی‘ کو’ گیسو ‘کے لیے فال نیک سے تعبیر کرنا،’نرگس جادو‘ کی زیبائش ’سرمے‘ میںتلاش کرنا،اور’خال سیہ‘ کا رشتہ ’چہرہ گلرو‘ سے استوار کرنا۔۔۔فصاحت کلام کی انتخابی روش کا اعلان کرتے ہیں۔ان مثالوں کے بعد انیسؔ استعاروں کی نقاب اتار کرصاف لفظوں میں اعادہ کرتے ہیںہر فصیح شاعر کہ جو اپنے کلام میں فصاحت رکھتا ہے ، اس رمز سے آشنا ہے کہ سخن برموقع اور نکتہ در مقام ہی فصاحت کا سبب ہے۔ انیسؔ کے اس بند کے بعد فصاحت سے متعلق شبلی کی یہ تعریف ملاحظہ فرمائیں اور طے کریں کہ شبلی کے نظریۂ نقد نے انیسؔ سے کتنا اکتساب کیا ہے:

 ’’کلام کی فصاحت میں صرف لفظ کا فصیح ہونا کافی نہیں ، بلکہ یہ بھی ضرور ہو کہ جن الفاظ کے ساتھ وہ ترکیب میں آئے ان کی ساخت،ہیئت،نشست، سبکی اور گرانی کے ساتھ اس کو خاص تناسب اور توازن ہو، ورنہ فصاحت قائم نہ رہے گی۔‘‘

 فصاحت کلام کی مذکورہ تعریف کے ساتھ شبلیؔ نعمانی میر انیسؔ کے ابیات کی مثالوں کے ذریعہ مزید وضاحت پیش کرتے ہیں کہ ’صحرا‘ اور’ جنگل‘ نیز ’شبنم‘ اور ’اوس‘ باہم مترادف ہوتے ہوئے بھی مناسب اور متوازن لفظی فضا میں ہی فصیح معلوم پڑتے ہیں۔

 عربی تنقید میں فصاحت سے متعلق خاطر خواہ گفتگو ہوئی ہے اور کیوں نہ ہو جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ عرب کے زبان داں اپنی فصاحت پر تفاخر کیا کرتے تھے۔ عربی تنقید میں فصاحت کے لیے کیا شرائط ہیں یا نہیں ہیں وہ تو کافی تفصیل طلب ہیں لیکن شبلی نے کیا کچھ بیان کیا ہے اور جو بیان کیا ہے وہ انیسؔکی بیان کردہ خصوصیات فصاحت سے کتنا مختلف ہے ۔ جب ہم انیس کے ایسے بند اور شبلی کی فصاحت کی تعریف کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ شبلی نے انیسؔ کی بیان کی ہوئی تعریف کو ہی لیا ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ شبلی نعمانی میر انیسؔ کو اتنا ہی پسند کرتے تھے۔ اس ضمن میں شارب ردولوی کا قول ملاحظہ ہو:

 ’’شبلی انیس کے سخن فہم ہیں لیکن یاد رہے کہ وہ ان کے طرفدار بھی ہیں۔ اور اس طرفداری میں انھوں نے انیس کی فصاحت کا جو تصور پیش کیا ہے وہ غیر مشروط ہے۔ ۔۔شبلی کو اس اس فصاحت کا سراغ خود انیس کے بار بار کے دہرائے ہوئے بیانات سے ملا۔ شبلی کا قصور صرف اتنا ہے کہ تعریف کے جوش میں انھوں نے انیس کے بیانات کو جوں کا توں تسلیم کرلیا۔‘‘

 انیسؔ گہر ہائے الفاظ کے پارکھی ہیں۔ اس دائود دست شاعر کے ہاتھوں میں الفاظ موم ہوجاتے ہیں کہ جس طرح چاہیں صرف کریں اور اس لقمان گوش شاعر سے الفاظ گویا کلام کرتے ہیں کہ وہ ان کی خصوصیات اور امتیازات سے آگاہ ہوکر ہر نامے کا علاحدہ عنوان قائم کرسکیں:

بزم کا رنگ جدا، رزم کا میداں ہے جدا

یہ چمن اور ہے لفظوں کا گلستاں ہے جدا

فہم کامل ہو تو ہر نامے کا عنواں ہے جدا

مختصر پڑھ کے رلادینے کا ساماں ہے جدا

دبدبہ بھی ہو،مصائب بھی ہوں،توصیف بھی ہو

 دل بھی محظوظ ہوں رقت بھی ہو تعریف بھی ہو

 مذکورہ بالا بند کا عام تنقید سے کیسا گہرا تعلق ہے ، اس پر اگلی سطور میں گفتگو ہوگی۔ سردست اس بند کی بیت پر نظر کی جائے تو مرثیہ گوئی سے متعلق پورا ضابطہ موجود ہے۔ اجزائے ترکیبی کی مناسبت سے مرثیہ کو کبھی دبدبہ آمیز زبان و اسلوب درکار ہوتا ہے(آمد،رجز،جنگ) تو کبھی وصف بیانی کی احتیاج ہوتی ہے (چہرہ،سراپا) تو کہیں رقت آمیز گفتگو مطلوب خامہ ہوتی ہے (رخصت،شہادت ، بین)۔ علاوہ ازیں قارئین و سامعین کے ادبی ذوق کی تسکین اور حواس جمالیات کے حظ اٹھانے کے مواقع فراہم کرنا بھی مرثیہ گویان کے پیش نظر ہونا چاہیے۔ عام تنقید کے حوالے سے بند کے مصرع اولیٰ و ثانی ایک قاعدہ کلیہ پیش کرتے ہیںجسے شبلیؔ جیسے انیسؔ کے صاحب ادراک و نظر قاری نے اپنی تنقیدی کتب میں تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ الفاظ صرف ِعبارت ہونے کے بعد کیفیت پیدا کرتے ہیں یا الفاظ بذات خود ایسی کیفیت رکھتے ہیں کہ جنھیں پہچانتے اور محسوس کرتے ہوئے ان کا مصرف کرنا چاہیے۔ ۔۔اس تناظر میں شبلی شعرالعجم میں جو نظریہ پیش کرتے ہیں اسے انیسؔ کے مذکورہ بند کے مصرع اولیٰ اور مصرع ثانی کے ساتھ پڑھئے تو مصارع انیسؔ کی خوشگوار تفہیم بھی ہوتی ہے اور شبلیؔ کے نظریہ نقد کے مصادر کے اشارے بھی ملتے ہیں کہ شبلی کا یہ نظریۂ بھی انیسؔ سے مستعار ہے یا پھر حسین اتفاق کہ شبلی کا الفاظ کی کیفیات سے متعلق سارا بیان انیسؔ کے ایک بند میں سمٹا ہو اہے۔ انیس ؔ کا بند پڑھ چکنے کے بعد اب شبلی کی سطور پر نظر کرتے ہیں:

 ’’الفاظ چونکہ آواز کی ایک قسم ہے اور آوازکی مختلف اقسام ہیں ۔ مہیب، پررعب، سخت،نرم، شیریں، لطیف۔ اسی طرح الفاظ بھی صورت اور وزن کے لحاظ سے مختلف طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض نرم، شیریں اور لطیف ہوتے ہیں۔ بعض سے جلالت اور شان ٹپکتی ہے۔ بعض سے درد اور غم انگیزی ظاہر ہوتی ہے۔اسی بنا پر غزل میں سادہ ،شیریں، سہل اور لطیف الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔قصیدہ میں زوردار اور شاندار الفاظ کا استعمال پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح رزم، بزم، مدح وذم، فخروادعا،وعظ و پند ہر ایک کے لیے جدا جدا الفاظ ہیں۔ شعرا میں سے جو اس نکتہ سے آشنا ہیں وہ ان مراتب کا لحاظ رکھتے ہیں۔‘‘

 اسی مرثیہ کے مسلسل بند جو انیسؔ نے چہرہ کے عنوان سے رقم کئے ہیں ، تنقیدی تصورات و میلانات کا چہرہ واضح کرتے ہیں۔ جس طرح وجہی اس شعر کو ہی اچھا اور قابل قدر سمجھتا ہے جو سامعین یا قارئین کے دل تک آسانی سے پہنچ جائے،انیسؔ بھی اسی سلاست اور سادگی کا ذکر کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ وجہی جس طرح فیروزؔ و محمودؔ کو یاد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ انتخاب الفاظ میں اساتذہ کی روش کو ملحوظ رکھنا چاہیے ، بعینہٖ انیسؔ بھی شرفاء کے روزمرہ کو استعمال کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی انیسؔ حسب موقع کلام کرنے کی تمنا کا اظہار کرتے ہیںجو کہ بلاغت کے مفہوم کو روشن تر کردیتی ہے:

روزمرہ شرفا کا ہو سلاست ہو وہی

لب ولہجہ وہی سارا ہو متانت ہو وہی

سامعیں جلد سمجھ لیں جسے صنعت ہو وہی

یعنی موقع ہو جہاں جس کا عبارت ہو وہی

 ان چاروںمصرعوںکے بعد انیسؔ جو بیت رکھتے ہیں اس کا عام تنقید سے بھی تعلق ہے لیکن آخری مصرع گفتگو کو مرثیہ کی جانب مبذول کرتا ہے اور پورا بند مرثیہ کی تمام جمالیاتی خصوصیات کا نشان بن جاتا ہے۔

 لفظ بھی چست ہوں مضمون بھی عالی ہوئے

مرثیہ درد کی باتوں سے نہ خالی ہوئے

 اب ’’موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ‘‘ میں بزبان شبلی بلاغت کی تعریف پڑھتے ہوئے انیسؔ کے مندرجہ بالا بند کے چوتھے مصرع کو پڑھئے:

 ’’ بلاغت کی تعریف علمائے معانی نے یہ کی ہے کہ کلام اقتضائے حال کے موافق ہواور فصیح ہو ، مقتضائے حال کے موافق ہونا ایسا جامع لفظ ہے جس میں بلاغت کے تمام انواع و اسالیب آجاتے ہیں۔‘‘

جدت و طرز ادا کی بات شبلی اور مسعود حسن ادیب دونوں نے ہی کی ہے ۔ان تنقیدی کتابوں سے پہلے یہ وصف وجہیؔ اور انیسؔ نے ذکر کردیا تھا ۔ انیسؔ کا بیان جدت کے موضوع پر ایک مصرع ہی زبان زد خاص و عام ہے ۔ جدت کے بارے میں وجہی پر گفتگو کرتے ہوئے ہم شبلی نعمانی اور ادیب دونوں کا قول نقل کرچکے ہیں۔اس لیے صرف انیسؔ کا وہ بند ہی نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں :

تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملادوں

قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملادوں

ذرے کی چمک مہر منور سے ملادوں

خاروں کو نزاکت میں گل تر سے ملادوں

گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں

ایک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

 ایک ہی پھول کو مختلف رنگوں یعنی طریقوں سے باندھنا جدت ادا ہی کا تو اشارہ ہے ۔ پھر ایک ہی پھول کا الگ الگ انداز سے بار بار پڑھنا یا سننا نہ صرف کہ گراں نہیں گزرتا بلکہ سننے یا پڑھنے والے کو مسرت سے ہمکنار کرتا ہے۔ یہی جدت ادا کا کمال ہے اور سچ پوچھئے تو اسی وصف کے باعث شعر گوئی کا سفر جاری ہے اور نیا کہنے کی گنجائش برقرار ہے ۔ اس بند کے شروعاتی چار مصرعے شاعری میں مبالغہ گوئی کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ ناقدین بھی اس بات کا اقرار و اعتراف کرتے آئے ہیں کہ مبالغہ آرٹ کا حصہ ہے، اس سے واقعیت اور صداقت متاثر نہیںہوتی بلکہ آرٹ کی دلکشی میں اضافہ ہوتا ہے ۔

خاص بات یہ ہے کہ موازنہ میں شبلی نے نہ صرف تصور نقد کے ان مطالب کو رقم کیا ہے جو انیسؔ نے اپنے مراثی میں ذکر کئے ہیں بلکہ اپنی کتاب شعرالعجم میں بھی محاکات ، تشبیہ ، استعارہ، حسن تعلیل اور دیگر اوصاف شاعری کی جو مثالیں لکھی ہیں وہ اکثر انیسؔ کے مراثی سے ہی منتخب کی ہیں۔ اس کے علاوہ تنقیدی نظریات پر بھی انیس ؔ کے تصورات کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔انیسؔ کے محاسن کلام کو دیکھتے ہوئے ان کا دعویٰ پوری طرح بجا ہے:

ہے لعل و گہر سے یہ دہن کان جواہر

ہنگام سخن کھلتی ہے دوکان جواہر

ہیں بدمرضع تو ورق خوان جواہر

دیکھے اسے ، ہاں ہے کوئی خواہان جواہر

بینائے رقومات ہنر چاہیے اس کو

سودا ہے جواہر کا نظر چاہیے اس کو

 آخر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دکن میں ملا وجہی اور مرثیہ گو شعرا میں میر انیسؔ نے صرف شاعری کو ہی گوناگوں خیالات کے موتیوں سے ہی مالا مال نہیںکیا بلکہ تنقید کے وہ تصورات دیے ہیں جن کو اردو ناقدین نے اپنایا اور آگے بڑھایا ہے۔ وجہی ؔچونکہ ابتدائی زمانے کا شاعر ہے اس لیے اس کے تصورات صرف سلاست، سادگی، ربط، اختصار اور جدت وغیرہ تک محدود ہیں، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت تک تنقیدی تصورات نے پر نہیں پھیلائے تھے۔ انیسؔکا زمانہ قدرے بعد کالیکن حالی کی ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘سے پہلے کا ہے تو ان کے تصورات فصاحت، بلاغت، تعقید لفظی ،جدت و طرز ادا، کیفیات الفاظ ، روزمرہ اور محاورے وغیرہ کو محیط کئے ہوئے ہیں۔ وجہیؔ اور انیسؔ کوئی باضابطہ نقاد نہیں تھے۔ اس لیے ان کے تصورات کو تنقیدی اصولوں پر پرکھا جاسکتا ہے اور پرکھا گیا ہے کیونکہ شبلی نے انیس ؔ کے بہت سے مطالب کو قبول کیا ہے، تاہم ان شعرا کے خرمن کے یہ تنقیدی خوشے متجسس طبیعت کے لیے دعوت نظارہ و فکرہیں۔

 

کتابیات:

(۱)        الطاف حسین حالی،مقدمہ شعر وشاعری ،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ۱۹۷۷ء

(۲۱)      شبلی نعمانی،شعرالعجم، انوارالمطابع لکھنؤ

(۳)        شبلی نعمانی، موازنہ انیس ؔو دبیرؔ، انوارالمطابع لکھنؤ

(۴)        شارب ردولوی، مرثیہ اور مرثیہ نگار، سمیع پبلیکیشنزدہلی، ۲۰۰۶ ء

(۵)        مسعود حسن رضوی، روح انیس،کتاب نگر لکھنؤ، ۱۹۸۱ء

(۶)        مسعود حسن رضوی، ہماری شاعری، وارث مطبع نول کشور لکھنؤ، ۱۹۵۹ء

(۷)        وہاب اشرفی، قطب مشتری اور اس کا تنقیدی جائزہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دلی، ۲۰۰۴ء

(۸)        ماہنامہ اردو دنیا، مارچ ۲۰۲۰ء

 

 

———————————

شعبۂ اردو ، ایچ ایس کالج، اڑکی کشن گنج،

مدھیہ پورہ-852220(بہار)

موبائل :9452259955

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...