Wednesday, May 24, 2023

منفرد ساحر

 

منفرد ساحر

مضمون نگار: ف س اعجاز

25-B، زکریا اسٹریٹ، کولکاتہ-700073

موبائل: 9830483810

 بیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے انجمن ترقی پسند مصنّفین نے وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق اردو نظم و نثر میں ایک حقیقت پسند بیانیہ کی کھپت پیدا کی اور نئی نسل کو جدید عالمی سیاست سے باشعور کرتے ہوئے نئے سماجی نظریات سے بھی وابستہ کردیا ۔ کلاسیکی شاعری میں محاوروں و استعاروں کا جو شاہانہ چلن رائج تھا وہ عوامیت پسندی کے سانچے میںڈھلنے لگا۔ تب سے ادب کے لیے اب لازمی ہوگیا کہ وہ عوامی ہو۔ الطاف حسین حالی پہلے سے ہی اپنے بیان کو وسعت دینے کے لیے اسلوب وہیئت میں تبدیلیوںکے متمنی و متلاشی تھے۔ اٹھارہویں صدی میں ان تبدیلیوں کے آثار نظیر اکبر آبادی اور انیسویں صدی وبیسویں صدی کے اتّصال پر اکبر الہ آبادی کے بیانیہ میں دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن ترقی پسند تحریک نے بیسویں صدی میں ان تبدیلیوں کی واضح صورت گری کے لیے ایک باضابطہ منشور کا اعلان کردیا۔ آخر ان تبدیلیوں نے بڑی آہستگی سے ادب میں اپنے قدم جمالیے۔ جوش ملیح آبادی نے کہا:

دورِ حاضر کے تغیّر پہ نظر تک نہ ہوئی

انقلاب آبھی گیا تم کو خبر تک نہ ہوئی

فراقؔ نے بھی کہا:

دیکھ رفتارِ انقلاب اے دوست

کتنی آہستہ اور کتنی تیز

ترقی پسند نظریہ کی تعمیر کے ساتھ ترقی پسند شاعروں کی ایک بڑی کھیپ تیار ہوئی جس میں اپنے اپنے مزاج کی مستحکم شناخت رکھنے والے شعرا تھے جن میں روایتی ، جدیداور جدید تر اسلوب کو اپنا کر شہرت پانے والے کئی نام ہیں۔ ایسے شعرا بھی تھے جنہوں نے ادب کو اشتراکیت کے پرچار کا وسیلہ بناکر عارضی نام کمایا۔ دیرپا شہرت پانے والوں میں علی سردار جعفری کا نام نمایاں ہے جن کاکلاسیکی تنقید اور تحقیق میںآج بھی بڑا مقام ہے۔ لیکن انقلاب اور رومان کو ساتھ لے کر چلنے والوں میں مجاز، فیض، ساحرلدھیانوی، کیفی اعظمی اور مخدوم محی الدین سرفہرست ہیں۔ بہرحال ایسی کوئی فہرست حتمی اور مکمل نہیں کہی جاسکتی ۔ البتہ ساحر لدھیانوی کی شاعری کا ذکر ہو تووہ ان کی زندگی پر بات کئے بغیر پورا نہیں ہوتا۔

ساحر کی انفرادیت بڑی منفرد ہے۔شاعری میں بھی اور ان کے کردار میں بھی ۔ اس پر کئی زاویوںسے گفتگو ہوتی رہی اور آج بھی ہوتی ہے۔ کوئی اپنے تجربات وحوادث دنیا کو کس طر ح لوٹا سکتاہے۔ ساحر کے مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ کا مشہور انتسابی شعرکسی شاعر کے بات کہنے کا ایک نادر طریقہ تھا جس سے اس کی جمالیاتی تجربیت کا اندازہ ہوتاہے۔ جبکہ شاعر کی حسّیات جتنی گہری ہیں اس قدر بلند نہیں کہی جاسکتیں ۔ وہ بہ یک وقت زندگی اور عوامیت میں اس کی شمولیت کا ثبوت ہیں۔ یہی ساحر کی فن کاری ہے جو ’’ تلخیاں‘‘ سے لے کر ’’آؤکہ کوئی خواب بُنیں‘‘ اور گیتوں کے مجموعہ’’ گاتا جائے بنجارہ‘‘ تک میں نمایاں ہے۔ چونکہ ساحر کے زیادہ تر فلمی گانے بھی ادب کی میزان کو چُھوتے ہیں اس لیے ان کی شاعری اور گانوں پر اکثر ایک ساتھ بات ہونے لگتی ہے۔ فلمی صنعت سے وابستہ شاعروں میں یہ بھی ان کی انفرادیت ہے۔

ان کی شاعری میں شہنشاہیت، جاگیرداری اورسامراجیت کے خلاف احتجاج نمایاں ہے، لیکن اپنی محبوبہ کو مُردہ شاہوں کے مقابر سے گریز کا مشورہ دینے کے باوجود اپنی نظم ’’تاج محل ‘‘میں دنیا کے ساتویں عجوبہ تاج محل کی تعریف میں وہ خود کو معماروں کی صنّاعی ، فنِ سنگ تراشی اور گلکاری کے اعتراف سے نہیں روک پائے جنھوںنے ایک شہنشاہ کے لیے اُس کی محبوب بیوی کی یاد میں اِس محل کو تعمیرکیا ۔ نظم کے جو مصرعے شاعر کی تلخی یا تلخ نوائی کے لیے مشہور ہیں وہی اس عمارت کے منقش درودیوار اور محراب و طاق اور صحنِ چمن کی آراستگی کی داد بھی دیتے نظر آتے ہیں۔ جدید انگریزی نقاد Carlo Coppola اپنے ایک غیر مطبوعہ حوالے میں ساحر کی شاعری کوکمیونزم کی تشہیر سے تعبیر کرتاہے اور کہتا ہے کہ جب بائیں بازو کی پارٹیوں نے نظم تاج محل کی اس لیے تنقید کی کہ یہ عظیم الشان مقبرہ بہرحال مزدوروں کے ہاتھوں کی ہی محنت کا نتیجہ ہے اس لیے بادشاہ کے بنوائے ہوئے اس محل کی تعظیم کی جانی چاہیے۔ یہ شکایت بعض کمیونسٹوں نے بھی کی تھی جس کے بعد ساحر نے نظم کا مصرع ’’سینۂ دہر پہ ناسور ہیں کہنہ ناسور ‘‘ میں ترمیم کرکے یوں کردیا ’’دامن دہر پہ اُس رنگ کی گلکاری ہے ‘‘۔ اور یہ مصرع اگلے مصرع کے ساتھ بخوبی کھپ گیا جو یوں تھا ’’جن میںشامل ہے ترے اورمیرے اجداد کاخوں‘‘۔

بہر حال ان باتوں میں زیادہ وزن نہ بھی ہو توان سے اتناتو معلوم ہوجاتاہے کہ ساحر بھی کئی دوسرے شعرا کی طرح اپنی تخلیق میںندرت اور نزاکت کاخیال رکھتے ہوئے ضرورتاً ترمیم کرلیاکرتے تھے اوریہ بات جگ مشہور ہے کہ ساحر یہ نظم کہنے سے پہلے نہ توآگر ہ گئے نہ انہوں نے تاج محل دیکھا۔ یعنی یہ نظم اُن کے عینی مشاہدے کے بجائے اُن کے کسی خیالی مفروضہ اور اشتراکیت سے متاثر کسی سوچ پر مبنی تھی۔

اس طرح ساحر نے اپنی کئی عشقیہ نظموں میں سرمایہ دار انہ اورجاگیردارانہ نظام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے جابجا اپنی محبوباؤں کو بھی ایسی روش اختیار کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایسی سوچ کے اسباب ساحر کے حالاتِ زندگی میں مضمر ہیں۔

ساحر کے باپ ایک بڑے گُجّر زمیں دار تھے جنہوں نے کئی شادیاں کیں۔ صرف ایک عبدالحئی (ساحر لدھیانوی ) بیٹا ان کی آخری زوجہ سردار بیگم سے پیدا ہوا۔ نرینہ اولاد کے لیے ہی وہ شادی کے بعد شادی کرتے آرہے تھے تاکہ وارث بیٹا مل جائے۔ ساحر کی شعوری زندگی اپنے زمیں دارباپ کے خلاف کشمکش سے شروع ہوتی ہے۔ سردار بیگم کو اپنے شوہر کو اس طرح چھوڑنا پڑا کہ وہ شادی سے مالی اثاثوں کا کوئی دعویٰ نہ کریں گی۔ اسی طرح بیٹے کو ماںسے اُس کے شوہر کی طرف سے وراثت سے محرومی اور جاگیرداری سے نفرت کا احساس منتقل ہوا۔ حالات نے ساحر کو زمیں دارانہ سوچ کا باغی بنادیا۔یہاں تک کہ زندگی کی ڈگرپر ساحر کے ہر فیصلے پرماں کاکردار حاوی ہوتا گیا۔ نفسیاتی اصطلاح میں یہ ایڈی پس کمپلیکس (Oedipus Complex)کی علامت تھی۔ ایسی نفسیاتی صورت میں مرد کی زندگی میں دیگر عورتوں کے ساتھ تعلق میںکسی طرح کا خلل واقع ہوناممکن ہے۔ چنانچہ جتنے عشق ساحر کے مشہور ہوئے ان میں سے ایک بھی شادی تک نہ پہنچ سکا اوراپنی ہرناکام محبت (بشرطیکہ ہر تعلق کو محبت کہا جاسکے )کو ضرورت سے زیادہ مشہور کرکے فرضی یا حقیقی مسرت حاصل کرنا ساحر کا شیوہ بن گیا۔ کالج کے زمانے میںیا رباشی اور ہم جماعت طالبات کا قرب حاصل کرنا خواہ اس کانتیجہ بدنامی اور رسوائی ہی کیوںنہ ہو، ساحر کا مشہور ہونے اور دکھاوے کا ایک طریقہ تھا۔کسی نہ کسی حسینہ کے ساتھ اپنے رومانس کو ہوادے کر انہیں بڑی تسکین ہوتی تھی۔ ان کی شخصیت کے اس پہلو پر ماہنامہ انشاء کے ’’ادیبوں کی حیاتِ معاشقہ‘‘ کے اوّل ایڈیشن اوراس کے بعد دوسرے البم ایڈیشن میں شامل کردہ مضامین کامطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ ان میں افسانہ نگار اور شاعر اوم کرشن راحت کا ۱۹۸۸ءمیںلکھا ہوا مضمون ’’معاشقوں کا جادوگر ساحر لدھیانوی‘‘ سچائی کے قریب معلوم ہوتاہے۔ راحت صاحب ساحر کے ہم کالج دوست تھے اور راست گو تھے ساحر کو تعلیم کی خوبی نے تونہیں ہاں شاعری اورکالج یونین میں تقریر کی عادت نے نوجوانوں میںمقبول بنادیاتھا۔ اس طرح وہ دوسروں کی نظروں کامرکز بن گئے اور خود اپنی ذات میں انہیں دلچسپی پیدا ہوگئی ۔ یوں خود مرتکز ہونے کے ساتھ ان کی انا بھی بلند ہوتی گئی ۔ البتہ ایک خوبی کبھی نہ بدلی۔ اپنے قومی نظریات میں وہ ہمیشہ منکسر رہے۔ ویرتا اور بہادری کے ان کے لکھے ہوئے گیت ملک میں ہر طرف عام شہریوں اور فوجیوں میں جیسے پہلے مقبول تھے ویسے ہی آج بھی ہیں۔

ساحر کے شخصی طبعی عناصر ان کے فنی محاسن کے ساتھ یوں گُندھے ہیں کہ ان کی شخصیت اورفن کو ایک دوسرے سے الگ کرنا مشکل ہے۔ وہ دوستی کرسکتے تھے، رومانس کرسکتے تھے، خوش وقت رہنے کی حدتک ہر تعلق کے ساتھ آگے بڑھ سکتے تھے اور کسی نئے تعلق کو رسوائی کی دہلیز تک پہنچا کر ایک نئی ناکامی کاشہرہ ان کی رومانی / ذہنی آسودگی کا ’’ شاندار ‘‘ سبب بنتا تھا۔ ایسی فنّی سرمستی کسی اور شاعر کے لیے نشاط انگیز نہیں بنی۔ بقول نور لکھنوی:

اپنی ناکامی سے مجھ کو کام ہے

ہو انہیں راحت مجھے آرام ہے

المیہ یہ کہ ساحر کا کوئی فسانۂ محبت انجام تک نہیں پہنچا اور ہر ایسے افسانے کو وہ ایک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑتے رہے ـ:

تعارف روگ ہوجائے تو اُس کو بھولنا بہتر

تعلق بوجھ بن جائے تو اُس کو توڑنا اچھا

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن

اُسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

تعلق بنانے میں اگر ساحر کی خودپسندی محرک بنتی تھی تو وہی کسی نہ کسی طور سے تعلق شکن ثابت بھی ہوتی تھی اوراپنے اس رویے کووہ زعمِ بے جا ماننے کو تیارنہ تھے اور اس کے باوجود اپنی زندگی کو کامیاب سمجھتے تھے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں:

مجھ کو کہنے دو کہ میں آج بھی جی سکتاہوں

عشق ناکام سہی، زندگی ناکام نہیں

ساحر ایک بے چین تخلیق کارتھے جس کا دماغ ہمیشہ پریشان کن خیالات میںگھرا رہتاتھا۔ ’’واسنا‘‘ فلم کی ایک نظم کے یہ دو بندملاحظہ کیجئے ، کتنی شدت ، کتنی تڑپ لیے ہوئے ہیں:

عشق بے چین خیالوں کے سوا کچھ بھی نہیں

حسن بے روح اجالوں کے سوا کچھ بھی نہیں

زندگی چند سوالوں کے سوا کچھ بھی نہیں

ہر سوال ایسے سُلادو کہ نہ کچھ یاد رہے

¡

مِٹ نہ پائے گا جہاں سے کبھی نفرت کا رواج

ہونہ پائے گا کبھی روح کے زخموں کاعلاج

سلطنت ظلم خدا وہم مصیبت ہے سماج

ذہن کو ایسے سُلادو کہ نہ کچھ یاد رہے

ساحر کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ایسے گانے لکھیں جو نہ صرف سچویشن میں گزشتہ منظر سے مربوط ہوں بلکہ کہانی کو آگے بڑھانے میں بھی مددگار ہوں اور ڈرامے اور کرداروں کی پرتیں کھولیں۔ جیسے شیکسپیئرکے ڈرامے میں ماحول، کردار اور مکالمے سب مل کر منظر کوخوب اجاگر کردیتے ہیںکچھ ایسی ہی صفت ساحر کے معیاری فلمی گیتوں میںپائی جاتی ہے۔ ساحرنے فلمی شاعری میںبھی احتجاج ، مذمت اوررومان کے لیے مختلف موزوں ترین رنگوں، لفظوں اور لہجوں کا استعمال کیا۔ انہو ں نے اقبال کا اسلوب بھی آسان بناکر پیش کیا ۔ ان کے گیت’’آسماں میںہے خدا اور زمیں پہ ہم ‘‘ اور’’چین وعرب ہمارا ہندوستاں ہمارا / رہنے کوگھر نہیں ہے ساراجہاںہمارا ‘‘ سدا بہار فلمی نغموں میں شمار کئے جاتے ہیں اور ’’ترے پیار کا آسرا چاہتاہوں / وفا کررہا ہوں وفا چاہتاہوں‘‘ میں اقبال جیسے بلند مرتبہ شاعر کی زبان کی ترسیل کوسادہ اور آسان بناڈالا۔’’ توہندو بنے گانہ مسلمان بنے گا / انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا ‘‘ (فلم دھرم پتر ) میںبھی اقبال کا اسلوب نمایاں ہے۔ یہ فنّی اوصاف ساحر کے گیتوں کا درجہ بلند کرکے انہیںلازوال کرگئے۔

۱۹۴۶ء کی ملاحوں کی بغاوت پر لکھی ساحر کی نظم ’’ یہ کس کالہو ہے کون مرا ‘‘ فلم ’’دھرم پتر‘‘ میں شامل جب ملک میں فرقہ واریت کے خلاف احتجاج کے طورپر دکھائی گئی تو ڈرامے کا مور ل بہت اونچا ہوگیا۔ ایسی نظمیں ادب میں آئیں تو بعض نقّادوں نے ساحر اور ان جیسے دوسرے شاعروں کو اشتراکیت کے نعرہ با ز اور ساحر کوپامفلیٹیئر (پرچہ باز) قراردیا ، لیکن ساحر کو فلم بینوں کی بڑی تائید حاصل ہوئی اور وہ کسی ناموافق تنقید سے کبھی متاثر نہ ہوئے۔ہر فکر کو دُھوئیں میں اڑادینے والے وہ ایک زندہ دل اور پُر مزاح انسان تھے۔

ساحر کی لمبی نظم پرچھائیاں اردو شاعری میں ایک نیا تجربہ تھی۔ یہ فلیش بیک میں لکھی گئی بہ وقت جنگ مخالف رومانی ڈرامائی نظم ہے۔ نظم کے شروع میں شاعر نارمل زندگی او ر اطراف کے ماحول سے آسودہ ہے، لیکن عالمی جنگ کے بادل فضا میں چھاجاتے ہیں اورلطیف ماڈل کثیف بننے لگتا ہے۔ دو جواںسال پیارکرنے والے جنگ کی تباہ کاریوں کی بدولت ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ گھراور خاندان ٹوٹتے بکھرتے ہیں۔ زندگی کی اس شکست وریخت کوساحر نے فنٹاسی کی شکل میں کئی بدلتی بحروں اورمنظر ناموں میں مکمل کیاہے۔ ایک امن پسند پیار کرنے والے جواں سال جوڑے کی محبت عرصۂ کائنات میں اپنی یادوں کے ساتھ پنپتی ہے۔ ’’کبھی گمان کی صورت کبھی یقیں کی طرح‘‘ پرچھائیاں ان کے ذہن کے پردوں پر رینگتی ہیں۔ کبھی وہ جنگ کے گردو غبارمیں غائب ہوجاتی ہیں او رکبھی مطلع صاف ہوجاتاہے اوروہ گردوغبار سے باہر نکل آتی ہیں۔ جنگ کے اندیشوں میں مبتلا انسانوں کی بھوک ، افلاس کا کرب بڑی خوبصورتی سے نظم بند کیا گیا ہے۔ صرف محبت اور فطرت پسندی کوشاعر اِن دونعمتوں کو زندگی کی بقا کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔نظم نسلِ نو کے لیے ایک دعائیہ پیغام پر ختم ہوتی ہے۔ فطرت نگاری اس جنگی رومانی نظم کا بڑا جوہر ہے۔

ساحر لدھیانوی اُن شاعروں میں تھے جو جواہر لعل نہروجیسے آزادی کے ہیرو اور جمہوریت کے بنیاد گزاروں کے مدّاح تھے۔ نہرو کی موت پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ساحر نے نظم کہی تھی ’’جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے‘‘۔ (کیفی نے بھی ایک بہت عمدہ نظم کہی تھی ’’میری آواز سنو‘‘) ۔

ساحر اپنے خواب بُن کر اور نغمات کا جادوجگاکر جاچکا۔ وہ ایک سچا عاشق تھا۔ اُس کی تقدیر میںکئی محبتیں لکھی تھیں ، ناکام ہی سہی ۔

 

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...