Saturday, May 27, 2023

ڈاکٹرسخاوت شمیم کی شعری جہات

 ڈاکٹرسخاوت شمیم کی شعری جہات

محمدشاہد پٹھانؔ

شاید مجھے پڑھ لے کوئی آئندہ بصارت

میں ایک فسانہ ہوں ہواؤں پہ لکھا ہوں

سخاوت شمیم

ڈاکٹرسخاوت شمیم ؔ (سخاوت علی بیگ) کا شما ر ۱۹۶۵ء کے آس پاس بساطِ سخن پر وارد ہونے والے جدید ذہن و فکر کے تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔ اپنی تخلیقی زندگی کے پینتیس چالیس (۴۰-۳۵) برسوں میں انھوں نے غزل اور نظم پرمشتمل دو شعری مجموعے یادگار چھوڑے ہیں۔ پہلا شعری مجموعہ ’’روشنی تو ہونے دو‘‘ ۱۹۹۹ء میں، دوسرا ’’میرے دل کی بستی‘‘ ۲۰۰۹ء میں شائع ہوا۔ علاوہ ازیں ایک شعری مجموعہ ہندی رسم الخط میں ’’خوشبو کی لکیریں‘‘ (۲۰۰۵ء) کے نام سے بھی شائع ہو ا ہے۔ جس میں ’’روشنی تو ہونے دو‘‘ کی زیادہ ترتخلیقات اور ’’میرے دل کی بستی‘‘ کا کچھ کلام شامل ہے۔

ڈاکٹر سخاوت شمیم ۸؍جون ۱۹۵۱ء کو بمقام ٹونک پیدا ہوئے۔ اپنے کوائف بیان کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:

’’ہوش سنبھالا تو ادبی ماحول ملا۔ میرے والد محترم دلؔ ایوبی راجستھان کے بہترین شعرا میں شمار کیے جاتے تھے۔ تربیت کا سلسلہ دینی تعلیم اور اردو سے شروع ہوا۔ پھر وقت کے تقاضوں پر چل پڑا۔ ۱۹۷۳ ءمیں ایم -بی- بی- ایس ( M. B. B. S. ) اور ۱۹۷۸ء میں ایم۔ ایس۔ جنرل سرجری کی ڈگری لی اور تبھی سے راجستھان سرکار میں سرجن کی حیثیت سے ملازم ہوں۔ ۱۹۷۴ سے ۱۹۸۹ ءتک ڈیپوٹیشن پر ایران کے شہر ہمدان میں رہا جہاں بو علی سینا اور بابا طاہر کے مقامات ہیں۔شاعری کی شروعات سیکنڈری اسکول کے زما نۂ طالب علمی یعنی ۱۹۶۵ء سے ہوئی۔ استادِ محترم عبدالمنعم خان صاحب نے انگریزی پڑھانے کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق کو بھی جلا بخشی۔ شاعری پر اصلاح والد محترم دلؔ ایوبی صاحب سے لی۔ میرا کلام سب سے پہلے ’’آجکل‘‘ نئی دہلی (اکتوبر ۱۹۶۸ء) میں شائع ہوا، پھر ایسے ہی نامور جرائد و رسائل میں نظمیں و غزلیں اشاعت پذیر ہو تی رہیں۔‘‘ (روشنی تو ہو نے دو -ص:۱۴۔۱۹۹۹ء(

 ڈاکٹر سخاوت شمیم ؔکا تعلق راجپوتانہ کی واحد مسلم ریاست ٹونک سے ہے جس کی خاک سے کیفؔ ٹونکی، صولتؔ ٹونکی،سیفؔ ٹونکی شہزادئہ رومان اخترؔشیرانی، ساحلؔ ٹونکی، واثق ٹونکی، شفقؔ ٹونکی، جوہر ؔ ٹونکی، صائب ؔ ٹونکی، بسملؔ سعیدی، دلؔ ایوبی،مراد ٹونکی اور مخمور ؔسعیدی جیسے معتبرہائے قلم اٹھے جو بیسویں صدی کے شعری منظر نامے پر اپنی تخلیقی توانائی کے نقوش ثبت کرچکے ہیں۔ان شعر اکے بعد حسن اقبال،صابرحسین رئیس اور ارشد عبدالحمید ٹونک کی ادبی و شعری روایت کو فروغ دے رہے ہیں۔ڈاکٹر سخاوت شمیمؔ ۱۹۶۵ء سے اپنے انتقال (۲؍ اگست ۲۰۰۷ء) تک تخلیقی عمل انجام دیتے رہے۔ ان کا شعری سرمایہ اپنی منفرد حیثیت اور شناخت رکھتا ہے کہ اسے آرٹ کے ساتھ ساتھ سائنس شاعر کی سائنس کی بصیرت کا فیضان بھی پہنچا ہے۔ سخاوت شمیمؔنے غزل اور نظم دونوں اصناف میںطبع آزمائی کی ہے اوران کے دونوں مجموعاتِ سخن میں غزلیہ و نظمیہ شا عری شامل ہے۔

سخاوت شمیم ؔکی شعری کائنات میں روما نیت ،عصری حسیت اور سائنسی بصیرت کا تخلیقی مثلث تشکیل پاتاہے۔ انھوں نے اپنے رومانی و عشقیہ جذبات کے والہانہ اظہار کے ساتھ ہی عصرو ماحول کے آشوب واضطراب پر بھی نگاہ مرکوز رکھی ہے۔ شمیمؔ نے اپنے تجربات ومشاہدات کے اظہار کے دوران تخلیقی وجدان کے ساتھ ساتھ سائنسی بصیرت سے بھی کام لیا ہے۔ کائنات ِہستی کی مختلف تجربی وحسی کیفیات کو شعری ضابطے میں لاتے وقت شمیم ؔ مبالغہ سے زیادہ منطقی طریقِ کار اپناتے ہیں جودر حقیقت ان کی سائنسی معروضیت کا رہینِ منت ہے۔رومانیت شمیمؔکی شاعری کا اہم عنصر ہے۔ان کی رومانی شاعری میں ایک جیتاجاگتا محبوب اپنے حسن وجوبن اور دلبرانہ اداؤںکے ساتھ جلوہ گر ہو تا ہے۔ وہ محبت کیے جانے کے لائق ہی نہیں بلکہ خود بھی محبت کاآرزومندہے۔ وہ کسی کو اپنا شیدا وشیفتہ ہی نہیں کرتا بلکہ خود بھی کسی پر شیفتہ ہو نے کا اشتیاق رکھتا ہے۔ شمیم ؔنے غزلیہ شاعری میں اپنے جنسی اورعشقیہ جذبات واحساسات کا اظہارجدید عشقیہ شاعری کے حقیقت پسندانہ اسلوب میں کیا ہے ۔ ان کے رومانی اظہارات میں مجاز ومادیت کی فضا نمو پذیر ہے جس کا سلسلہ حسرت ؔ موہانی،فراق ؔ گورکھ پوری سے لے کر جدید غزل اور مابعد جدید غزل تک پہنچتا ہے۔ اس تعلق سے چند اشعار دیکھے جاسکتے ہیں:

دل نواز یادوں کے جب چراغ جلتے ہیں

میرے دل کا ویرانہ جگمگا نے لگتا ہے

جب بھی میں گزرتا ہوں ان حسین گلیوں سے

میرے پیچھے اک سایہ ساتھ آنے لگتا ہے

تیرے بدن کی آنچ ہے یا دوپہر کی دھوپ

زفلوں کے سائے کو بھی پسینہ سا آگیا 

یاد محبوب کی مرنے نہیں دیتی ورنہ

کون اس دور میں جینےکی دعا مانگےہے

غزل کے ساتھ ہی ڈاکٹر سخاوت شمیم ؔ کی متعدد نظمیں بھی رومانوی اندازِ فکر کی ترجمان ہیں۔یہ ٹونک کی رومانی فکر و فضا کا اثر بھی ہے اور خود شاعر کی افتادِ طبع کافیضان بھی۔ پابند اور آزاد ہر دو ہیئت میں انھوں نے اپنے رومانی تجربات و احساسات کااظہا ر کیا ہے۔ شمیم ؔکی رومانی منظومات میں ’’اُمنگ‘‘، ’’پیشین گوئی‘‘، ’’بے وفا‘‘، ’’شامِ ملاقات‘‘،’’وصل کی رات‘‘، ’’پیکرِ خیال‘‘،’’ سرابوں کا سفر‘‘،’’میرے ہمدم میرے دوست‘‘،’’ زمانہ ہوا ہے‘‘ اور’’ہجر کی رات‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔سخاوت شمیم کی نظموں میں اخترؔ شیرانی جیسی رومانی کیفیت ،فکری وسعت اور جذبات نگاری نہیں تاہم ان کا رومانی تموج اخترؔ شیرانی کے رومانی طرزِ سخن کی یاد دلاتاہے۔ یہاں چند منظومات(معرا) کے اقتباسات پیش ہیں جن کے مطالعہ سے شمیم ؔ کی متذکرہ شعری جہت کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

)امنگ(

گل رنگ چہرہ چشمِ نگوں لب پہ کپکپی

رُخسار پر رواں کوئی موجِ لطیف سی

دھڑکن بھی تیز جسم میں کچھ ارتعاش بھی

سینے کے زیروبم سے قیامت اٹھی ہوئی

اظہارِ مدعا ہیں سراپا وہ اس گھڑی

اے دل سمجھ لے آج کوئی بات ان کہی۔

)یشین گوئی(

رات آئی ہے تری زلف کی خوشبو کو لیے

ذہن جاگا ہے تری یاد کی دستک سن کر

کلیاںچٹکی ہیں تبسم کی ادا کے بدلے

پھول مہکے ہیں تیرے حسن کا پیکر جیسے

غنچے لگتے ہیں کہ اب بول اٹھیں گے شاید

پھر بھی افسوں یہ رہے گا تو رہے گا کب تک

صبح آئے گی امیدوں پہ غضب ڈھائے گی

آج کی رات بھی شاید تو نہیں آئے گی۔

)بے وفا(

بھول جانا کسی ساتھی کا نہیں ہے ممکن

اور ساتھی بھی ہو ایسا کہ جہاں میں شاید

آج تک کوئی ہواہے نہ کوئی ہو سکتا

تیرا اس طرح بدلنا یہ بتاتا ہے مجھے

بے وفا تجھ کو محبت کا سلیقہ ہی نہیں

پیار کہتے ہیں کسے اور محبت کیا ہے

تجھ کو آتا ہی نہیں تو نے یہ سیکھا ہی نہیں

مجھ سے وعدے جو کئے تو نے بھلا کر ان کو

چین مل جائے زمانے میں نہیں ہوسکتا

میں نے اقرارِ وفاتجھ سے کیا ہے ظالم

ذہن میرا تری آواز نہیں کھو سکتا۔

سخاوت شمیم ؔکے دوسرے شعری مجموعے’’ میرے دل کی بستی‘‘ میں بھی عشقیہ منظومات شامل ہیں مگر ان نظموں میں محبوب کے حسن و جمال کے تذ کرے اور عرضِ وصال کی بنسبت فراق و ہجر کا بیان زیادہ ہوا ہے۔ اس نوعیت کی نظموں میں’’ میرے ہمدم میرے دوست‘‘، ’’تمنّاؤںکی سیج پر ‘‘، ’’ ہجر کی رات‘‘ ’’دوست‘‘ ،’’تجھ سے جدا ہوئے‘‘ وغیرہ خاص کر قابل ذکر ہیں۔

’’ تمنّاؤں کی سیج پر‘‘ نظم میں شاعر نے محبوب کو اپنے ساتھ گزاری ہو ئی ساعتوںکی یاد دہانی کرائی ہے نیز عہدِ گزشتہ کی رسم و راہ کوقائم رکھنے کی التجا کچھ اس طرح کی ہے:

خواب اب کرچیاں بن کے چبھنے لگے

رات بھی سرد ہے اجنبی کی طرح

دل جو پہلو میں رہتا تھا خوشیاں لیے

سو گیا ہے تمّناؤں کی سیج پر

تجھ سے ملنے بچھڑنے کا وہ سلسلہ

صرف ماضی کی اک داستان بن گیا ہے

تم کہاں ہم کہاں

پھر بھی اے جانِ جاں

ہو سکے تو محبت کو رکھنا جواں

نظم ’’میرے دل کی بستی‘‘میں بھی شاعر نے فراقِ یار کے درد و کرب کا بڑی شدّت سے اظہار کیا ہے۔ اس نظم میں شاعر نے اپنی بھولی بسری یا دوں کو مختلف حسی پیکروں میںبیان کرنے کی سعی کی ہے:

میرے دل کی بستی

ترے موسموں کو

ترسنے لگی ہے

کبھی بارشیں تھیں محبت کی دل پر

کبھی گرمیاںتھیں محبت کی پیہم

کبھی قرۃ العین تھی دید تیری

کبھی چاندنادل میں ہو جائے جیسے

زمانہ ہوا ہے

مرے دل کی بستی

ترے موسموں کو ترسنے لگی ہے۔‘‘

اسی طرح نظم’’ہجر کی رات‘‘ میں بھی شاعر نے اپنے محبوب کی محبت اور رفاقت کے سنجوئے ہوئے خوابوں کا دل پذیر اظہار کیا ہے۔ اس نظم میں محبوب کے فراق ِدوام کا احساس نمایاں ہے:

دھیر ے دھیرے

مرے ہونے کا یہ احساسِ گراں

ہجر کے گوشۂ تنہائی پہ چھا جا تا ہے

تیری یادوں کا نشہ

تیرے تصور کی مہک

تجھ سے ملنے کی تمنّاؤں میں کھو جا تی ہے

میرے پاس اپنی ہی بے مایگی رہ جاتی ہے

خواب جو کل کے لیے دیکھے تھے

معدوم ہو ئے

محل جوہم نے بنا یا تھا

زمیں بوس ہوا

صرف سرمایۂ جاں حاصلِ ہستی ٹھہرا

ڈاکٹر سخاوت شمیم ؔ ویسے تو بنیادی طور پر سائنس کے طالب علم تھے اور انھوں نے پیشہ(Occupation) بھی ڈاکٹری (Surgeon) کا اختیار کیا، مگر شعرو ادب کا ذوق انہیں وراثت میں ملاتھا ۔ اس پر ٹونک کے شعری و ادبی ماحول نے مزید اضافہ کیا۔ شمیم ؔ نے اپنے والد ماجددِلؔ ایّوبی (پ:۲۱ستمبر ۱۹۲۹ء۔م:۳ اپریل ۱۹۹۰ء) ہی سے اصلاح لی،جوخود صاحبِ اسلوب شاعر تھے۔شمیم ؔ نے فارسی بھی اپنے والد سے ہی سیکھی ۔چنانچہ فارسی کے شعری سرمایے کے مطالعہ سے (خصوصاً قیامِ ایران کے دوران) ان کے یہاں ’’ فارسی زدگی‘‘ کا رجحان نہیں ابھرابلکہ اس عظیم شعری سرمایے سے انھوں نے اخلاقیات اور عشق و تصوّف کی اقدار کی سطح پر تخلیقی استفادہ کیا ہے۔ ڈاکٹرسخاوت شمیم ؔکو فارسی شعرا کے سیکڑوں اشعار زبانی یاد تھے لہٰذا موقع و محل کی منا سبت سے دورانِ گفتگو وہ اکثر فارسی کے اشعاراستعمال کر تے تھے۔ ڈاکٹر شمیم ؔسے ان کے آخری ایامِ حیات (جے پور ) میں راقم الحروف کی متعدد ملاقاتیں ہو ئیں، ہر نشست میںوہ کسی نہ کسی حوالے سے فارسی ادب اور شاعری کا ذکر چھیڑدیتے اور حافظؔ، خیّامؔ، (رباعیات) بیدلؔ اور غالبؔ کے متعدد اشعار سناتے اور ایک ایک شعر کے متعدد معانی کی نشاندہی کر تے ۔فارسی کے ساتھ ہی انگریزی ادب سے بھی شمیم ؔ صاحب کو لگاؤ تھا، علاوہ ازیں کبھی کبھی بنگلہ زبان کے شعرا پر بھی وہ گفتگو کرتے ۔ غرض کہ ڈاکٹر سخاوت شمیمؔ ایک وسیع المطالعہ اور وسیع النظرتخلیق کار تھے۔ شمیم ؔ اردو فارسی ادبیات کے گہرے مطالعہ کے ساتھ ساتھ دورِ جدیدکی سائنسی ایجادات اور میڈیکل لائن کی نئی نئی تحقیقات و تدابیر کے جدید طریقوں سے باخبر تھے۔ راقم الحروف سے اکثر شمیمؔ صاحب دنیا کے بعض ترقی یافتہ ممالک کی سائنسی تحقیقات وایجادات کا ذ کر کرتے اور خاص کر امریکہ کے اجتہادی اقدامات کی تعریف کیا کرتے تھے۔ ادب اور سائنس کی اس قدر معلومات رکھنے والے اہلِ قلم اردو میں واقعی کمیاب ہیں۔ سائنسی مطالعہ نے انہیںمنطقی و معروضی اندازِ نظر اور نکتہ رس بصیرت عطا کی تھی، جس کا فیضان ان کی شاعری میں بھی دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر سخاوت شمیم ؔنے اپنی میڈیکل لائف کے دوران ایک سرجن(Surgeon) کی حیثیت سے ہزاروں مجروح(Injured) انسانوں کے آپریشن کیے، ان میں سے متعدد شدید زخمی اور نیم جاں افراد کی جان بچانے میں وہ کامیاب رہے، مگر کئی افراد ان کی آنکھوں کے سامنے(علاج کے دوران) راہئ ملکِ عدم بھی ہوئے۔ اس طرح کے متعدد واقعات(قیام ایران کے دوران) کا ذکر مرحوم نے راقم الحروف سے کیا تھا۔ زخمیوں کی چارہ گری کے دوران زندگی اور موت کی مختلف کیفیات اور مناظر کا شمیمؔ نے گہرائی سے مشاہدہ کیا تھا ،چنانچہ ایک تخلیق کار کی حیثیت سے شمیم ؔنے سرجری کے مشاہدات و تجربات کو شعری پیرایہ عطا کیا ہے۔ اس سلسلے میں خاص کر حقیقتِ وجود اور مشاہداتِ مرگ کی مختلف کیفیات و مظاہر کے متعلق حسبِ ذیل غزلیہ اشعار قابلِ مطالعہ معلوم ہو تے ہیں۔خود شمیم ؔ صاحب کے انتقال (۲ ؍اگست ۲۰۰۷ء) کے بعد ان اشعار کی صداقت اور معنوی بلاغت میں کسی قدر اضافہ ہو گیا ہے :

حیات جس کے لیے آدمی پریشاں ہے

اسی حیات کو مرکر تلاش کرتا ہے

موت کی وادیاں بلاتی ہیں

زندگی ہوگئی بسر چلیے

 

دور سے آیا ہوں اور دو ر ہی جانا ہے مجھے

سوچتا ہوں کہ تیرے پاس ٹھہرتا جاؤں

 

تنگ آگئے کشاکشِ دنیا سے جب کبھی

ہاتھوں سے دل کو تھام لیا اور سو گئے

دنیا پکارتی رہی، پر راہئ عدم

آئے کبھی پلٹ کے نہ اک بار جو گئے

ڈاکٹرسخاوت شمیم ؔنے اپنی میڈیکل لائف کے مشاہدات و تجربات بیان کر تے ہوئے کئی عمدہ نظمیں یادگار چھوڑی ہیں، انھوں نے سائنسی موضوعات اور علاج کی تدابیر کو شعری پیکر فراہم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہیں۔اس نوعیت کی منظومات میں’پلاسٹک سرجری‘،’ خون کا سودا‘ ،’ فنگر پرنٹس‘، ’آنکھ کا جالا‘،’روحِ رواں‘،’دردِ دل‘،’ حسنِ بیمار‘(روشنی تو ہونے دو میں) اور ’ادراک‘ اور’درِ افلاک پر دستک‘ (مرے دل کی بستی میں) وغیرہ شامل ہیں۔ ان نظموں کے موضوعات و مسائل اپنی ماہیت میں منفرد ہیں، چنانچہ شمس الرحمن فاروقی نے ان نظموں کو ’’ آئندہ کے لیے نشانِ راہ‘‘سے تعبیر کیاہے۔ (روشنی تو ہونے دو-ص:۱۱(

’’دردِ دل‘‘ نظم سخاوت شمیم ؔ کی ایک اہم اور معنی خیز نظم ہے۔ اس میں شاعر نے اپنے جن جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے وہ در حقیقت بڑی حد تک امیر ؔ مینائی کے درجِ ذیل شعر :

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

کے ترجمان و تفسیر معلوم ہو تے ہیں۔ اس نظم میں اصلاً شاعر کاا دبی و شعری نقطۂ نظر بروئے کار آیا ہے اور سماج و معاشرے کے متعلق اس کے تعمیری، افادی افکار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ شاعر کا ’’دردِ دل‘‘ اپنے اندر قوم و ملک اور نسلِ انسانی کے دردو غم کو بھی اپنے اندر چھپائے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔ اُس نظم کے درجِ ذیل بند قابلِ مطالعہ ہیں :

میرے سینے میں بسا ہے کسی مایوس کا غم

میرے ہونٹوں پہ سجا ہے کسی مظلوم کا درد

میری آہوں میں چھپی ہے کسی مجبور کی لے

میری ہستی سے عیاں ہے کسی معصوم کا درد

میرے افکار پہ ہے مہر غمِ ہستی کی

میرے احساس پہ ہے کرب کا عالم طاری

میری آنکھوں میں ہے اُس غارِ ہلاکت کا سماں

زندگی آج بھی انساں پہ جہاں ہے بھاری

نظم ’’پلاسٹک سرجری‘‘ میں شاعر نے ایک دوشیزہ کی پلاسٹک سرجری سے پہلے اور بعد کے تاثرات قدرے منطقی انداز میں بیان کیے ہیں۔نظم کے حصّہ اوّل میںایک بدصورت اور مایوس و مبہوت دوشیزہ کی ذہنی و جذباتی کیفیت کا بیان ڈاکٹر شاعر کچھ اس طرح کر تا ہے :

میرے افکار کی دنیا میں نہ تھی خود داری

ذہن اپنے ہی تصور سے ہوا تھا عاری

اپنی ہستی کا تصور جو کبھی آتا تھا

ایک نشتر سا رگِ جاں میں اتر جاتا تھا

بار بار اپنے ہی چہرے پہ نظر جاتی تھی

اور بگڑی ہوئی ہیئت پہ ٹھہر جاتی تھی

نظم کے دوسرے حصے میں شاعر نے پلاسٹک سرجری کی اہمیت و افادیت سے متعلق زیر علاج لڑکی کے دلی جذبات واحساسات کا اظہار کیاہے اور انسانی زندگی میں اس سائنسی طریقِ تدبیرکی ضرورت و افادیت واضح کی ہے۔ نظم کے اس حصّے میںلڑکی کی ذہنی و حسی رُوداداس طرح بیان کی ہے:

تیری تجویز پہ مٹنے کا ارادہ لے کر

آخرش آئی ترے پاس تمنا لے کر

اک تمنّا کہ جو موہوم سی لگتی تھی مجھے

ایک نعمت کہ جو محروم سی لگتی تھی مجھے

تو نے پھر سحر کیا عالمِ بے ہوشی میں

کیا سے کیا مجھ کو کیا عالمِ بے ہوشی میں

پلاسٹک سرجری کے بعد چہرے کی ماہیت اور اس کی شباہت و ملاحت میں جو بدلاؤ آیاہے، اور اس کے ایک دوشیزہ پر جو نفسیاتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، ان کا اظہار شاعر نے اس طرح کیا ہے :

کبھی خوش فہمیِ بیحد مجھے ہو جاتی ہے

کبھی بدلی ہو ئی حالت پہ ہنسی آتی ہے

دل میں اٹھتے ہیں کبھی چاہ کے ارمان بہت

الغرض ہو گئے اب جینے کے سامان بہت

میری خاموش امنگوں کو زباں بخشی ہے

ڈاکٹر تو نے نیا روپ عطا کر کے مجھے

نظم ’’خون کا سودا‘‘ شاعر نے پیشہ ور خون بیچنے والوں سے متاثر ہو کر لکھی ہے۔ اس میں شاعر نے ایک ڈاکٹرکی حیثیت سے خون کی اہمیت و معنویت ظاہرکرتے ہو ئے پیشہ ور خون بیچنے والوں کو تنبیہ کی ہے کہ چند سکّوں کے عوض خون کا سودا کرنا ایک فعلِ قبیح ہے، جبکہ غریبوں اور مجبوروں کی جان بچانے کی غرض سے خون نذر(Donate) کرنا درحقیقت انسانیت کی خدمتِ عظیم ہے ۔ یوں تویہ پوری نظم قابلِ مطالعہ ہے مگر یہاں نظم کے صرف چند بند بطورِ مثال پیش کیے جاتے ہیں:

چند سکوں کے عوض اپنی کفالت کے لیے

خون کا سودا بہت مہنگا پڑے گا یارو

تم کو معلوم ہے یہ خون کہاں جاتا ہے

ان امیروں ہی کے کنبے کو دیا جاتا ہے

جن سے تم کو ہے شکایت کہ لہو پیتے ہیں

مار رکھا ہے ہمیں اور یہ خود جیتے ہیں

 

جب نکلتا ہے کوئی کام کسی کا تم سے

خو ن کیا چیز ہے تم جان بھی قرباں کر دو

جب کہ اپنوں کا لہو میچ نہیں ہوتا ہو

مشکلیں بڑھ کے ذرا ان کی بھی آساںکر دو

 شمیم کے دوسرے شعری مجموعے’’مرے دل کی بستی‘‘ (۲۰۰۹ء) میں شامل منظومات میں ’’ادراک‘‘ اور ’’ درِ افلاک پہ دستک‘‘ وغیرہ نظمیں بھی یکسرنئے موضوعات پر مشتمل ہیں۔’’ادراک’’ نظم فیملی پلاننگ سے متعلق ہے۔ اس نظم میں شاعر نے اپنے سائنسی نقطۂ نظر سے عہدِ قدیم اور عہدِ جدید کے سماجی و معاشی حالات و معمولات کی نشاندہی کرتے ہوئے آج کے تناظر میں فیملی پلاننگ کی ضرورت اور افادیت واضح کی ہے۔نظم کے شروع اور آخر میں اس شعرکو دہرایا گیا ہے :

ہر نئے دَورکے ہوتے ہیں مسائل اپنے

جن کا ادراک بہر حال ضروری ہے بہت

 نظم کے بقیہ آٹھ اشعار مثنوی کی ہیئت میں ہیں۔نظم کے آخری حصّے میں شاعر اپنے قارئین سے اس طرح مخاطب ہوتا ہے :

آج وہ بات نہیں آج وہ حالات نہیں

زندگی کے لیے درپیش وہ خطرات نہیں

وہ وسائل بھی نہیں جن کو کہیں لامحدود

کام ہو ایک تو انسان ہزاروں موجود

عمر لمبی بھی ہوئی لوگ بھی کثرت سے بڑھے

مسئلے جتنے ہیں سب اپنی جہالت سے بڑھے

اپنے موضوع پر واقعتاً یہ ایک عمدہ و معنی خیز نظم ہے ۔ میرے خیال سے ہرقوم وملت کے لوگوں کو شاعر کے مشورے پر توجہ دینی چاہیے۔

اسی طرح ’’درِ افلاک پہ دستک‘‘ نظم میں شاعر نے سائنس دانوں کے خلائی اسفار کی کامیابیوں کا ذکر کر تے ہوئے خلائی ماحول اور مختلف سیاروں سے حاصل سائنسی مشاہدات و تجربات پر روشنی ڈالی ہے۔ انسان کا خلا میں جا کر حیرت انگیز سائنسی وتحقیقی معلومات حاصل کر نا اور اس کی روشنی میں نئی نئی ایجادات و تدابیر عمل میں لانا اجتہادی اقدام ہے ، جو یقینا قابلِ ستائش ہے۔ نظم کے کچھ اقتباسات اس طرح ہیں :

ہم نے جب بھی درِ افلاک پہ دستک دی ہے

اک نہ اک رازِ دروں بہرِ قیادت آیا

جس کی ہمراہی میں طے ہم نے کیا ہے یہ سفر

یہ سفر جس کی کوئی حد ہے نہ کوئی آخر

آسمانوں سے پرے بھی نہیں جس کی منزل

کرئہ ارض کی پہچان ہے جس کی دہلیز

سخاوت شمیمؔ کی شاعری میں قومی ترقی اور وطن دوستی کا رجحان بھی نمایاں ہے’’ روشنی تو ہونے دو‘‘ شعری مجموعے میں ’’ نغمہ ہائے وطن‘‘ کے تحت ’’وفا کی راہ‘‘، ’’خیر مقدم‘‘، ’’وطن کے نا م پر‘‘،’’ ہم‘‘، ’’سلامت روی کا دور‘‘وغیرہم نظمیں شامل ہیں۔ان میں’’ حب الوطنی‘‘، ’’تحفظ آزادئ وطن‘‘او ر قومی اتحاد و سا لمیت کے جذبات کا مخلصانہ اظہار دیکھنے کوملتا ہے۔نظم ’’وفا کی راہ‘‘ میں شاعر نے اس امر کا اعلان و انکشاف کیا ہے کہ ’’ عروسِ آزادئ ہند‘‘ ہماری اجتماعی جد و جہد اور باہمی اخلاص و اتفاق سے معمور مجاہدانہ کاوشوں کا ہی ثمرہ ہے۔ ہمارے بزرگ قومی رہنماؤں ،سیاست دانوں اور اہالیٔ قلم وفا کی راہ پر گامزن ہو کر ہی نگارِ آزادی سے ہم کنارہوئے ہیں۔ قومی ، وطنی اور مُلکی و ملی ترقی میں ہم سب نے کاندھا سے کاندھا ملا کر سفر کاا رادہ باندھا ہے۔ آئندہ بھی ہم سب کو باہمی اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہو گی اور اسی اخلاص و ایثار کی راہ پر چل کرعرصہ گاہِ حیات میں ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یہاں اس نظم کے چند بند پیش کیے جاتے ہیںجن سے نظم کے بنیادی مباحث پر روشنی پڑ سکے گی :

جلے جو شمع کی مانند ملک کی خاطر

اندھیرا دور ہوا روشنی نظر آئی

کئی برس کی غلامی کا طوق اترا تو

فسردہ چہروں پہ کچھ زندگی نظر آئی

ہمیں نصیب ہے جو کچھ بہارِ آزادی

ہزار خونِ شہیداں کی اک فضیلت ہے

اسی طرح ’’وطن کے نام پر ‘‘ نظم میں بھی شاعر نے ا ہلِ وطن کو اپنے وطن کی حفاظت اور آزادی کی سلامتی کے لیے ہر طرح کا ایثار و عمل پیش کرنے کو آمادہ رہنے کی تاکید کی ہے۔ شاعر کے نزدیک تمام باشندوں کو وطن کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لیے متحد و مستعد رہنے کی ضرورت ہے۔ نظم میں شاعر کچھ اس طرح گویا ہو تا ہے :

بدل گئی ہے بہت آج وقت کی رفتار

وطن کے نام پر کرنا ہے جان و دل کو نثار

ہمارے عزم و شجاعت کی آزمائش ہے

ہماری طاقت و ہمت کی آزمائش ہے

شمیم ؔصاحب نے پابند منظومات کے ساتھ ہی معریٰ اور آزاد نظمیں بھی کہی ہیں۔ اس طرح کی نظموں میں فنکا ر کی آزادئ اظہار کے ساتھ ہی موضوعاتی تنوع و تازگی کا احساس بھی ہوتا ہے۔’’ میرے دل کی بستی‘‘ میں شامل اس قسم کی نظموں میں’’ ٹائم مشین‘‘،’’ اکائی‘‘،’’ گریز پا‘‘، ’’سراب‘‘، ’’دوست‘‘، ’’شب گزیدہ‘‘،’’ نا رسائی‘‘، ’’ روشنی تو ہونے دو‘‘،’’ تم‘‘،’’ تجدید‘‘ ، ’’پڑاؤ‘‘، ’’ قانون کی موت‘‘، ’’ سکوت یخ بستہ موسموں کا ‘‘،’’سد مکرّ ر‘‘، ’’۱۸ ویں سال گرہ کے موقع پر‘‘، ’’وصل کی رات‘‘، ’’ مگر یہ زندگی‘‘، ’’خوابوں کی تھکن‘‘، ’’کشمکش‘‘ ، ’’ میرے ہمدم میرے دوست‘‘، ’’ خزا ؤںکی نمائندہ‘‘، ’’شور درشور‘‘، ’’خودآگہی‘‘، ’’ ہجر کی رات‘‘ اور’’چین کی بنسی‘‘ وغیرہم قابلِ ذکر ہیں۔

ڈاکٹرسخاوت شمیم ؔ کی شاعری میں جدید غزل کے فکری و موضوعاتی جہات واسالیب عکس ریزہیں۔ ان کے تصوّرِ عشق میںمادّیت کا عنصرنمایاں ہے، ان کی سماجی و عصری حسیت اور وجودی معروضات میں حقیقت کی کار فرمائی ہے۔ عہدِ جدید کے تکلف زدہ اور صارفیت شعارمعاشرہ کے اطوار و معمولات کا شمیم ؔنے گہرا مشاہدہ کیاہے،لہٰذ ا اپنے تجربات کو شعری پیرایہ عطا کرنے میں وہ اکثرکامیاب ہوئے ہیں۔ حیات اور کائنات کے متنوع حقائق و مظاہر کو احتساسی سطح پر دیکھنے اور دکھانے میں شمیم ؔ کو قدرت حاصل ہے ۔ ان کی غزل میں حیات دانی اور حیات شناسی کا رجحان نمایاں ہے۔ شمیمؔ نے جدید شہری کلچر میں زندگی کر نے والے نئے انسان کے جذباتی اورذہنی میلانات کو اجاگر کر نے کی فن کارانہ سعی کی ہے۔ ان کی غزل میں نئے انسان کے وجود کا کیف و کم بھی ہے اور سماجی صورتِ حال کا انعکاس بھی۔ اپنے شعری بیانیے میں انھوں نے تازہ کار استعارات و علامات کا معقول استعمال کیا ہے۔ شمیمؔ کی غزل کا موضوعاتی تنوع قاری کا دامنِ توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے۔ادبی ذوق کے علاوہ سائنسی فکرو بصیرت رکھنے والے قارئین کے لیے بھی شمیمؔ کی شاعری میں سامانِ شوق موجود ہے۔ان کے یہاں ماضی اور حال کے ادراک کے ساتھ ہی مستقبل شناسی کا جذبہ وفکر بھی موجود ہے۔ حسب ذیل اشعار سے ہمارے خیال کی کسی قدر توثیق ہو سکے گی:

لوگ رہنے لگے ہیں کمروں میں

گم ہوا سائبان کا منظر

 

تیر چاروں طرف سے آتے ہیں

اور اپنا عدو نہیں کوئی

 

خواب آنکھوں میں نہ ہونٹوں پہ تبسّم کی لکیر

کیسی وحشت ہے یہ بستی پہ اثر کیسا ہے

 

درد کا چاند بجھ گیا لیکن

غم کے تارے تمام رات رہے

 

خموش جھیل میں پتھر نہ پھینکیے صاحب

کہ سطحِ آب کے نیچے رواں بہت کچھ ہے

 

اس قدر گر دش ِدوراں نے دیے ہیں چکّر

اپنے کمرے سے بھی آتی ہے سفر کی خوشبو

ڈاکٹر سخاوت شمیم ؔ سلامت روی کے ساتھ اپنے تخلیقی سفر پر گامزن رہے، ان سے وقیع اور ا وریجنل شاعری کی قوی امید تھی، وہ خود بھی اتنا کچھ کہہ گزرنے کے باوجود مزیدبہت کچھ کہنے کے آرزومند تھے۔ان کا درجِ ذیل شعر اسی احساس کاغماز ہے:

مجھ کو الفاظ مل سکے نہ شمیمؔ

گو نجتی رہ گئی صدا مجھ میں

یعنی بقولِ غالب:

کچھ اور چاہیے وسعت مِرے بیاں کے لیے

 تاہم ڈاکٹر سخاوت شمیم ؔ نے جتنا کچھ شعری سرمایہ(نظمیں)یادگار چھوڑا ہے، وہ جدیدشاعری میں امتیازاور اضافے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ان کی انفرادیت و عظمت کا اعتراف واجب ہے۔وہ تخلیقی ذہن اور روشن سائنسی فکر کے شاعربھی ہیں۔ان کے افکار کی تازگی اور بوقلمونی اکیسویں صدی کے شعرو سائنس پسند قارئین کو دعوتِ مطالعہ دیتی ہے:

مِرے وجود میں جینے لگا ہے چپکے سے

وہ ایک شخص جسے میں نے مار ڈالا ہے

 

گورنمنٹ گرلز کالج،گنگاپول، جے پور-302002

موبائل: 9372843907

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...