Tuesday, May 23, 2023

ہندوستانی اخبار نویسی کے ابتدائی ایرانی پریس پر اثرات

 ہندوستانی اخبار نویسی کے ابتدائی ایرانی پریس پر اثرات

ڈاکٹر مہتاب جہاں

شعبۂ فارسی،دہلی یونیورسٹی،دہلی-110007

موبائل :9717412946

 ہند وایران کے تعلقات بڑے قدیم ہیں اور دونوں ملکوں کی تہذیبوں کو دنیا کی قدیم تہذیبوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

ہندوستانی معماری، مصوری، موسیقی، خطاطی، شاعری، غرض فنون لطیفہ کی تمام اصناف پر فارسی زبان و ادب اور ایرانی تہذیب و تمدن کے اثرات کو دیکھا جا سکتا ہے۔یہاں تک کہ مسلم حکمراں یعنی ترک حکمراں جن کی مادری زبان ترکی تھی مگر انہوں نے بھی فارسی زبان کو ہی اپنی سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا۔ہندوستان پر ان حکمرانوںکے عہد بہ عہد تسلط نے ہندوستان کے گوشے گوشے کو اپنی تہذیب و تمدن اور زبان سے شرابور کر دیا اور تمام اثرات کا ذکر مختلف سیکڑوں کتابوں میں ہوا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا۔ سات آٹھ سو برسوں میں ہندوستان کی علاقائی زبانوں میں فارسی کے الفاظ ایسے رچ بس گئے ہیں کہ ان کی شناخت ان ہی زبانوں کے طور پر ہونے لگی ہے اور یہ کسی بھی زبان کی ثرو تمند ی کی علامت ہے۔

 مگر اس مضمون کا موضوع اس کے برعکس ہے۔ یعنی اس مضمون کے ذریعے ہم آج ہندوستان کے ایران پر اثرات کاذکر کریں گے۔ کیا ہندوستان کی تہذیب و تمدن کا کوئی اثر ایران پر بھی پڑا؟ کیا سفیروں ، تاجروں، شاعروں اور حکیموں کے جو قافلے ہندوستان آئے، انہوں نے یہاں کا کوئی اثر قبول کیا؟کیا انہوں نے بھی ہندوستان کی تہذیب کو یا یہاں کی کسی اہم چیز کو پسند کیا؟ تو جب ہم نے تحقیق کی تو یہ بات اجاگر ہوئی کہ ملکوں کی ایک دوسرے کے یہاں آمد و رفت سے یہ قطعی لازمی امر ہے کہ وہ اس طرح کے اثرات کو قبول کرتے ہیں۔ یعنی ہندوستان کی تہذیب و تمدن اور یہاں کی خاص چیزوں کو ایران و افغانستان نے اپنی تہذیب سے ہمکنار کیا۔ مثلاٌ برزویہ طبیب جب ہندوستان آیا تو یہاں سے ایک مشہور کتاب ’پنچ تنتر‘ ایران لے گیا اور پہلوی زبان میں اس کا ترجمہ کیا۔ یہ عربی اور فارسی زبان میں کلیلہ و دمنہ کے نام سے منتقل ہو کر معروف ہو گئی اور اس ہندوستانی سنسکرت زبان میں تحریر کتاب کا اثر پوری فارسی دنیا نے قبول کیا۔ اس کے علاوہ اگر کھیلوں کا ذکر کریں تو’ شطرنج‘ کھیل جو اندرون خانہ ’ان ڈورگیم‘ میں شمار ہوتا ہے، اس کی اصل بھی ہندوستان ہے۔ یہ کھیل بھی ایران تک پہنچا اور وہاں کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں ایسا مدغم ہوا کہ یہ فرق بھی مٹ گیا کہ یہ کھیل در اصل ایران کا ہے یا ہندوستان کا۔

 معماری کا ذکر کریں تو زیادہ تر ایران کے اثرات ہی ہندوستان پر مرتب ہوئے، مگر یہاں پر کچھ چیزوں کا ذکر لازمی معلوم ہو تا ہے۔ دونوں ہی کے طرز تعمیر میں یکسانیت نظر آتی ہے۔ یہاں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ شاید یہ دو تہذیبیں اپنے وقت کی دو الگ الگ تہذیبیں ہوتے ہوئے بھی مماثلت رکھتی تھیں یا شاید ایک ہی تہذیب تھی جو جدا ہو کر دو الگ تہذیبوں کے روپ میں دنیا میں رونما ہوئیں۔ مماثلت کا ذکر کریں تو مثلاًہم فارسی باستان یا قدیم ایران کے طرزتعمیر میں اور ہندوستان کی معماری کے نمونوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ یعنی قدیم ہندوستان کی عمارتوں کی اگرہم تجزیاتی تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ یہاں جانوروں ، پھولوں اور پرندوں کے نقش زیادہ نظر آتے ہیں۔ مثلاٌ ہاتھی ، گھوڑے شیر، مور، باز ،کبوتر اور دوسرے اسی طرح کے جانور اور پرندے۔ ہندوستان چونکہ مسلم حکمرانوں سے پیشتر ایک ہندو مذہب کو ماننے والا ملک تھا۔ جہاں جانور اور دیوی دیوتاؤںکی تصویر یں ممنوع نہیں تھیں ۔ کیونکہ یہ مجسمے کئی اعتبار سے مذہبی نقطۂ نظر سے بھی بہت اہمیت کے حامل تھے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہاتھی ، بندر، مور وغیرہ ہندوستان کے مندروں، عمارتوں اور ان کے کھنڈرات میں ان تمام نمونوں کو دیکھا جا سکتا ہے اور آج بھی تزئین اور زیبائش کے لیے اس طرح کی تصاویر تحریر و کندہ کی جاتی ہیں۔اب اگر ہم ایران کا بغور جائزہ لیںتووہاں بھی اس طرح کے نمونوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً پرسی پولیس( تخت جمشید) اور کوہ بیستون ( بے ستون، کوہِ عشق شیریں و فرہاد) کی باقیات میں بھی گھوڑے، شیر، پرندے اور انسانوں کے مجسموں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایران کی پینٹنگ یا مصوری اپنے آپ میں بہت غنی ہےاور ہندوستان کی مصوری اور ایران کی مصوری میںایک تضاد ہے۔ہندوستان نے ایرانی مصوری سے بہت کچھ سیکھا اور اپنایا ہے مگر ایران نے بھی کچھ نہ کچھ ہندوستان سے لیا ہے۔ مثلاًمصوری میں ایران نے ہندوستان سے رنگ آمیزی سیکھی ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایران جا کران طریقوں کو بروئے کار لائے ہیں۔ جو انھوں نے ہندوستان میں دیکھے تھے۔ یعنی کتھئی رنگ کس طرح سے بنایا جائے۔ یہ طریقہ ہندوستان کا ایران تک پہنچا۔ یعنی ہندوستان کے لوگ یا مصور کتھئی (براؤن رنگ) بنانے کے لیے پان کا کتھا استعمال کیا کرتے تھے۔ جو ہمیں ہندوستان میں پائے جانے والے درختوں ، پیڑوں سے دستیاب ہوتا ہے۔ اگر ایرانی مصوری کا بغور جائزہ لیا جائے تو وہ زمین یا مٹی کا رنگ زردی مائل بناتے تھے یا اورینج کلر زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

 اس کے علاوہ ہندوستانی فلسفہ یعنی ہندو فلسفے نے بھی ایران پر اپنے اثرات مرتب کئے ہیں ۔ سہراب سپہری ایران کا ایک جدید شاعر گزرا ہے۔ اس کی پوری شاعری میں ہندوستان کے فلسفہ کے رنگ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جدید ایران میں سنیما پر ہندوستان کا خوب اثر دکھائی دیتا ہے۔ ہندوستان کی بالی ووڈ انڈسٹری ایرانیوں کے ذہنوںپر چھائی ہوئی ہے۔ یہاں کے ہیرو و ہیروئنوں کو ایرانی خوب جانتے اور پہچانتے ہیں اور پسند کرتے ہیں اور یہ بات باعث تعجب بھی نہیں ہے کہ ایران نے ہندوستان کے اثرات کو قبول کیا ہے۔ یہ ذہنوں کی کشادگی اور تہذیبوں کی فراخ دلی کا سبب ہے۔ ایران نے جس طرح یورپ اور دیگر ممالک مثلاً فرانس، پیرس، انگلینڈ، سوئٹزر لینڈ وغیرہ کے مختلف اثرات کو قبول کیا ہے۔ ایرانی فرینچ لٹریچر اور کلچر کو سب سے مہذب مانتے ہیں۔ وہاں کے مصنفوں اور شاعروں کے تراجم فارسی زبان میں کئے گئے اور فارسی شہ پاروں کے فرانسیسی زبانوں میں۔ قاچاری اور پہلوی دور میں کئی طرح کے نا مساعد حالات میں بڑی بڑی اہم شخصیات کو ایران چھوڑ کر یورپ کے ممالک میں جلاوطنی یا راہِ فرار اختیار کرنی پڑی اور اس طرح وہ ان کے ادب اور تہذیب سے روشناس ہوئے۔

 اس مختصر تمہید کے بعد اب اس مضمون کے اصل موضوع کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ ایران نے ہندوستان کی تہذیب و تمدن سے کئی طرح کے اثرات کو قبول کیا۔ پھر صحافت کیسے متاثر نہ ہوتی جو کسی بھی ملک کے سماج و عوام کا آئینہ اور خبر دہندہ ہوتی ہے۔ ایران کی ابتدائی روزنامہ نویسی، اخبار نویسی پر ہندوستانی اخبار نویسی کے براہِ راست اثر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جس کو ایرانیوں نے بھی بڑی ایمانداری سے قبول کیا ہے۔ ہندوستان میں بنگال،کلکتہ سے ایک ہفت روزہ اخبار شائع ہوتا تھا، جس میں ہندوستان کے بڑے بڑے مصنّفین اور ایران کے اکابرین نے بھی اپنی نگارشات شائع کرانا شایان شان تصور کیا۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان میں کئی اخبار شائع ہوتے تھے اور کلکتہ بنگال سے بھی کئی اخبار نکلتے تھے۔ جیسے آزاد، مفتاح انظر اور حبل المتین۔ حبل المتین سب سے اہم اخبار تھا۔ یہ اخبار ۱۸۹۳ ءمیں کلکتہ سے سید جلال الدین کاشانی مؤید الاسلام کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا۔ یہ اخبار ۲۴ صفحات پر مشتمل ہوتا تھا اور اس اخبار کے نمائندے ایران،مصر، روس اور خلافت عثمانیہ میں موجود تھے۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کے لوگوں میں ایک طرح کی بے خوفی اور بے باکی ہے۔ ڈرتے نہیں ہیں جو کہنا ہے کہتے ہیں بھلے جان پر بھی کیوں نہ بن آئے۔ لہٰذا حبل المتین جو کلکتہ سے شائع ہوتا تھا زیادہ بے باک اور آزاد تھا۔ ایران کے بحرانی دور اور اس کے سیاسی انتشارات اور عوام پر ہو رہی زیادتیوں کے بارے میں، ایرانیوں کی قید و بند و گرفتاریوں سے متعلق جو ایران میں اس وقت ہو رہی تھیں، ان تمام خبروں کو یہ اخبار بہت دلیری سے چھاپ رہا تھا۔در اصل اس وقت یہ اخبار ایرانیوں کا رہنما تھا اور ان کو بیدار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کر رہا تھا۔سید جلال الدین کے مضامین بے حد متاثر کن تھے۔ کسی طرح کی جانبداری ان میں نہ تھی۔ اس لیے بہت مقبول تھے۔ آج کے دور کے اخباروں کی مانند اس وقت بھی حبل المتین اخبار میں مختلف نوعیت کے مضامین مثلاًسیاسی، سماجی، ادبی ہوتے تھے اور ایک حصہ مذہبی مضامین کے لیے مخصوص تھا۔ یہ اخبار بلاشبہ جمال الدین افغانی کے افکار و خیالات کے زیر اثر تھا۔ جنہوں نے پورے عالم اسلام کواپنے انقلابی افکار سے متاثر کیا اور ہندوستان سے لے کر عربستان تک استعماری قوتوں سے بر سر پیکار اس عہد کے مسلم دانشوروں اور صحافیوں کو اپنا گرویدہ بنایا۔ مصر کے مشہور دانشور محمد عبدہ ، ایرانی دانشور ملکم خان مدیر قانون ہندوستانی علما اور دانشور شیخ الہند محمود الحسن ، مولانا برکت اللہ بھوپالی اور ملا عبدالقیوم وغیرہ ان کے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔ اس اخبار میں ہندوستان کی موجودہ سیاسی سر گرمیوں کے بارے میںبھی اطلاعات بہم پہنچائی جاتی تھیں، لیکن خاص طور سے یہ موجودہ ایران میں آزادی اور حکومت وقت کے سیاسی جبر و استبداد اور اس کی غلط پالیسیوںکے بارے میں مفصل خبریں اور تبصرے شائع ہوتے تھے۔

 اس کے ساتھ ساتھ ایرانی عوام کے جذبات و احساسات کا ترجمان تھا یہ اخبار۔ وہ زمانہ ایران کے لیے بڑا سخت تھا۔ ناصر الدین شاہ قاچار دشمن تعلیم و معارف و آزادیٔ قلم و افکارتھا۔ پورا ایرانی معاشرہ جہالت وتوہمات کا شکار تھا۔ ایران میں اس وقت جو بھی بادشاہ وقت کے خلاف آواز اٹھاتا تھا وہ گرفتار کر لیا جاتا تھا یا اخبارات وغیرہ میں احتجاج کرتا تب بھی یہی حال ہوتا اور ایسے نا مساعد حالات میں ایران کے دانشوروں اور آزادی خواہوں کو مجبور ہو کر باہر سے اخبارات شائع کرنے پڑے جن کی تعداد تقریباً ۲۲ تھی۔ عبدالرحیم ذاکر حسین اپنی کتاب مطبوعات سیاسی ایران در عصر مشروطیت میں رقمطراز ہیں:

’’در آخر قرن نوزدھم میلادی مجموعاٌ در حدود ۲۲ روزنامہ فارسی توسط آزادی خواھان و روشنفکران ایران در کشورھای مختلفہ از لندن گرفتہ تا قاہرہ و ھندوستان بچاپ رسید۔ ہندوستان مرکزمھم چاپ اینگونہ جراید بود۔ و روز نامہ حبل المتین از جراید دیگر داخل ایران بنفوز بیشتری داشت۔ نویسندگان این روزنامہ ہر ھفتہ در بیست صفحہ در کلکتہ منتشر میشد۔ ایرانی مخصوصاٌموید الاسلام ’ حبل المتین‘ از شرائط موجود در ہندوستان استفادہ کردہ۔ مدت ھا بدون ھیچگونہ دخالت روزنامہ ھای خود را منتشر می ساختند و از حکومت ایران انتقاد می کردند۔‘‘

(عبدالرحیم ذاکر حسین، مطبوعات سیاسی ایران در عصر مشروطیت انتشارات دانشگاہ تہران، ص: ۴۲)

ترجمہ:’’ ۱۹ویں صدی کے آخر میں مجموعی طور پر تقریباً ۲۲ (بائیس )فارسی اخبارات ایران کے آزاد خیال اورآزادی کے متوالوں کے ذریعے مختلف ملکوں قاہرہ ، مصر،لندن اورہندوستان میں شائع ہوئے ۔ہند وستا ن اس طرح کے جرائد کا خاص مرکز تھا اور روزنامہ حبل المتین نے دوسرے جرائد کے مقابلے میں ایران پر زیادہ اثر ڈالا۔ اس اخبار کے لکھنے والے ہر ہفتے ۲۰ صفحوں کا اخبار کلکتہ سے شائع کرتے تھے۔ ایرانیوں میں خاص طور سے مؤیدالاسلام نے حبل المتین سے موجودہ شرائط پر ہندوستان میں استفادہ کیا ہے۔ مدتوں تک بغیر کسی مداخلت کے اپنے اخباروں کوشائع کرتے رہے اور ایرانی حکومت پر تنقید کرتے تھے۔‘‘

 آزادی کے متوالوں نے لندن ،مصر اور ہندوستان سے فارسی زبان میں روز نامے شائع کیےجن کا خاص مقصد حکومت ایران پر تنقید کرنا تھا، مگر مرزا علی اصغر خان سے ۱۹۰۰ ءمیں باہر سے آنے والے ان اخبارات کی ایران میں پابندی لگا دی، مگر خاص نشانہ تین اخبار تھے۔ یعنی مصر سے ثریا، کلکتہ سے آزاد اور حبل المتین۔ ان تینوں اخباروں میں حکومت کے خلاف بڑے سخت اور تنقیدی مضامین شائع ہوتے تھے۔ حبل المتین کو ۱۹۰۷ء میں مؤید الاسلام کے چھوٹے بھائی سید حسن کاشانی نے تہران سے بھی چھاپنا شروع کیا۔ در اصل یہ کلکتہ کا تہران ایڈیشن تھا جو کئی بارحالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے بند بھی ہوتا رہا اور حکومت کے خلاف مضامین لکھنے کے لیے سید حسن کاشانی کو قید و بند کی صعوبتیں بھی اُٹھانی پڑیں۔

 ۱۹۰۹ ءمیں کچھ شمارے رشت (ایران) سے بھی شائع کیے، لیکن پھر ہندوستان میں بھی حبل المتین کی اشاعت میں بے شمارمشکلیں درپیش آئیں اور ۱۹۱۳ ءمیں یہ اخبار اردو اور بنگلہ زبان میں بھی شائع ہوا اور ۱۹۱۵ء میں انگریزی زبان میں بھی چھپا، لیکن پھر عتاب ایسا نازل ہوا کہ اسے ۱۹۱۶ء میں پورے آٹھ برسوں کے لیے بند کر دیا گیا، لیکن پھر جیسے ہی بندش ہٹی ۱۹۳۳ء میں پھرسے شائع ہونا شروع ہو گیا۔ ۱۹۳۰ءتک مؤید الاسلام کی موت تک یہ اخبار نکلتا رہا۔ آخری دنو ںمیںان کی بیٹی فرخ سلطان بھی اس اخبار کی معاون مدیر رہیں۔

 حبل المتین میں ایران کے بڑے بڑے مشہور ادیبوں اور علما کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ مثلاً چند کے نام قابل ذکر ہیں۔ زین العابدین مراغہ ای، طالبوف، میرزا حسن خان بدیع، محمد تقی بہار، مرزا محمود غنی زادہ، ابو القاسم لاہوتی، جعفر خامنہ ای، زیادہ تر مضامین سیاسی نوعیت کے ہوتے تھے۔ ہلکے پھلکے اور غیر معیاری مضامین کو بالکل بھی اس اخبار میں جگہ نہیں دی جاتی تھی۔ ایک واقعہ ملک ا لشعرا بہار سے اس ضمن میں وابستہ ہے۔ وہ خود بیان کرتے ہیں یخیٰ آرین پورکی از صبا تا نیما جلد اول کے دیباچہ میں۔وہ تحریر کرتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے ایک قصیدہ اور ایک مضمون حبل المتین کے لیے بھیجا۔ سید جلال الدین نے جواب میں مضمون کو رد اور قصیدہ کو قبول کرنے کی وجہ کچھ اس طرح تحریر کی۔’’ اشعار شما در کمال خوبی بود و درج شد، اما مقالہ بسیاربد و غیر قابل درج است۔‘‘ (ترجمہ: آپ کے اشعار بہت خوب ہیں۔درج کر لیے گئے اشاعت کے لیے، مگر آپ کا مضمون بہت بُرا ہے اور قابلِ اشاعت نہیں۔ )

 مگر اس جواب سے ملک الشعرا محمد تقی بہار نے ہمت نہ ہاری اور لگاتار مضامین لکھتے رہےاور مختلف اخبارات میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے اور پھر لوگوں نے بھی بہت پسند کرنا شروع کر دیا۔آخر کار ۱۹۱۰ء میں بہار کا ایک قصیدہ جو سر ایڈورڈگرے کو مخاطب کر کے لکھا گیا تھا شائع ہوا اور یہ اس دور کا سب سے مشہور اور معروف قصیدہ مانا جاتا ہے۔

یک ھدیہ ناقدانہ

بہ جناب سرا ادواردگری

سوی لندن گذر ای پاک نسیم سحری

سخن از من گو بہ سر ادواردگری

کای خرد مندوزیریکہ نپروردہ جہان

چون تو دستور خرد مند و وزیر ھنری

ترجمہ: (۱) ایک ناقدانہ تحفہ،سر ایڈورڈ گرے کی خدمت میں(۲) اے پاک نسیم سحر لندن کی طر ف گزر،میری بات ،سر ایڈورڈ گرے کو کہہ دے (۳)کہ تجھ جیسا عقل مند، قانون داں ا ور ہنر مند وزیر دنیا (لوگوں ) کی پرورش و تربیت نہیں کر پا رہا ہے۔

 حبل ا لمتین کی شہرت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ایران کے ایک بہت مشہور انقلابی اور سماجی کارکن شاعر ابو القاسم لاہوتی کے ۱۹۰۵ء میں جب ان کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی،ایک غزل آزادی کے جذبوں سے بھری ہوئی لکھی تھی اور یہ حبل المتین میں شائع ہوئی تو وہ راتوں رات پورے ایران میں مشہور ہو گئے۔

 حبل المتین ، یہ وہ اخبار تھا جس نے ایران کے تمام اخباروں پر اپنا اثر مرتب کیا اور تمام اخبار نویسوں نے اس اخبار کے اسلوب تحریر اور طرز نگارش کی تقلید کی۔ جس طرح ایران نے دوسرے یوروپی ممالک کی صحافت میں پیروی کی مثلاً لفظ روزنامہ اخبار کے لیے استعمال سے پہلے اخبار کے لیے استعمال ہونے والے مرکب لفظ ’ کا غذ اخبار‘ سب سے پہلے فارسی میں استعمال ہوا اور اس کا ترجمہ انگریزی الفاظ ’نیوز پیپر‘ سے کیا گیا۔ یعنی کاغذِ اخبار ’ خبروں کا کاغذ‘ اور یہ ۱۷۸۸ء میں کلکتہ گزٹ میں فارسی میں بھی آشکار ہوا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اصطلاح ’کاغذ اخبار‘ ہندوستانی فارسی کے راستے ایرانی فارسی میں داخل ہوئی۔ مرزا صالح شیرازی جو پدر روزنامہ نگاری کہلاتے ہیں، انہوں نے بھی اس دو لفظی اصطلاح کو استعمال کیا ۔ اس کے علاوہ افغانستان میں بھی کاغذِ اخبار کا استعمال دیکھنے میںآیاہے۔

 روز نامہ’’ صور اسرافیل ‘‘دورۂ مشروطیت میں دھخدا نے مرزا جہانگیر خان شیرازی اور قاسم خان تبریزی کے ساتھ مل کر جاری کیا۔اس روزنامہ میں دھخدا کی موجودگی کو ان کی سیاسی فعالیت کے آغاز کے طور پر محسوب کیا جا سکتا ہے۔ روزنامہ صور اسرافیل کا شمار ایرانی آئین تحریک کے ابتدائی دور کے اہم ترین روز نامے کے طور پر ہوتا ہے۔ اس اخبار میں دھخدا نے دخو کے قلمی نام سے ’ چرند پرند‘ نامی طنزیہ کالم، ستون لکھے تھے۔ جو ان کی شہرت کا سبب بنے۔ وہ اپنے مضامین میں مثالی شجاعت و جسارت کے ساتھ استبداد و استکبار کے خلاف مبارزہ کرتے تھے، جس کا لوگوں کی روح و جان میں گہرا نفوذ ہوتا تھا اور وہ خوب سراہے جاتے تھے، مگر یہ سلسلہ زیادہ دن نہیں چل سکا۔ محمد علی شاہ قاچار کے سلطنت پر فائز ہونے کے بعد وہ صحافیوں کا زبردست مخالف ہو گیا۔ اس اخبار کے دو اہم صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جہانگیر خان اور قاسم خان کو محمد شاہ کے سپاہیوں نے باغ شاہ لے جا کر پھانسی دے دی۔ مرزا جہانگیر خان کی موت پر دھخدا نے صور اسرافیل کے آخری شمارے میں جو انہوں نے سوئیس سے جاری کیا تھا، اس میںایک دلسوز نظم بعنوان ’ ’ یاد آر ز شمع مردہ یاد آر‘ ‘ (ترجمہ: اس بجھی ہوئی شمع کو یاد کر)تحریر کی۔ یہ اخبار بھی حبل المتین کی طرح کئی بار بند کیا گیا اور اس اخبار کی عمر صرف ایک سال اور ایک ماہ تھی،مگر دس بار بند ہوا اور ۵۵ سے ۵۶ شمارے جاری ہونے کی جگہ اس میںبیشتر ۳۲ شمارے شائع ہی نہیں ہوئے۔ غرض اگر ہم بغور اس اخبار کا مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ہندوستانی صحافت اور اخباروں کا ایرانی ابتدائی صحافت اور اخباروں پر زبردست اثر پڑا اور دونوں میں مماثلت بھی زبردست پائی جاتی ہے۔

 جس طرح حبل المتین ایران میں بند ہونے کے بعد بھی مختلف طریقوں سے عوام کے ہاتھوں تک پہنچتا رہا۔ مثلاً یہ اخبار تیل کے کنستروں میں چھپا کر، آٹے کے تھیلوں اور چائے کے بستوں میں ایران کے عوام تک پہنچایا جاتا تھا۔ اس طرح صور اسرافیل بھی بچوں کے ذریعے جو دکانوں میں کام کرتے تھے ان کے ہاتھوں اس اخبار کی نشریات ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ دونوں کے اسلوب نگارش میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔

 

 مآخذ و منابع:

(۱)          ہندوستان میں فارسی صحافت کی تاریخ: اخلاق احمد آہن، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دھلی۶، ۲۰۰۸۔

(۲)          از صبا تا نیما، جلد دوم، یخیٰ آرین پور، انتشارات زوار، تہران ۱۳۸۵ عیسوی۔

(۳)          ہندوستانی پریس( ۱۵۵۶ تا۱۹۰۰)عیسوی لکھنؤ،۱۹۹۰۔

(۴)          تاریخ روزنامہ نگاری ایرانیان و دیگر پارسی نویسان ۔ جلد یکم، مرکز نثر دانشگاہی۔ ۱۳۷۷ میلادی۔

(۵)          عبدالرحیم ذاکر حسین، مطبوعات سیاسی ایران در عصر مشروطیت، انتشارات دانشگاہ، تہران۔

 

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...