Monday, May 29, 2023

دو علم دوست شخصیتں

دو علم دوست شخصیتں

مولاناعبدالماجد دریا بادی اور مولانا علی میاں ندوی

پروفیسر محمد سلیم قدوائی

کسی بھی عظیم شخصیت کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اس کی اپنی تحریروں اور تصانیف کے بعد سب سے زیادہ اہمیت اس کے معاصرین کے مشاہدات کی ہوتی ہے جنہوں نے اس کو دیکھا ہو اور اس کے ساتھ وقت گزارا ہو۔ مولانا عبد الماجد دریا بادی (۱۹۷۷۔ ۱۸۹۲ء) کے نامور ہم عصرو ں میں مولانا ابو الحسن علی ندویؔ (۲۰۰۰۔۱۹۱۴ء) جو علمی دنیا میں علی میاں کے نام سے جانے جاتے ہیں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ عمر کے تفاوت کے باوجود دونوں میں نہایت نزدیکی اور گہرے تعلقات تھے۔ دونوں کے درمیان کئی چیزیں مشترک بھی تھیں مثلاً دونوں ممتاز عالم دین، صاحب طرز ادیب، بلند پایہ مصنف، تذکرہ نگار اور دانشور تھے۔ مولانا دریابادی کے علی میاں کے بزرگوں خاص طور سے ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر عبدالعلی سے خصوصی روابط تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک ندوہ اور اس کے ذمہ داروں سے مولانا دریابادی کا خاص تعلق تھا۔ علی میاں کے بقول مولانا دریا بادی کو علامہ شبلی سے خصوصی تعلق اور ندوہ کے مقاصد سے ہم آہنگی بلکہ ندوہ کے تخیل کی عملی تصویر ہونے کی بنا پر اعزازی ندوی تسلیم کیا گیا تھا۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگاکہ علی میاں مولانا دریا بادی کو کس نظر سے دیکھتے تھے؟ ان کے باہمی تعلقات کی نوعیت کیا تھی؟ اور علی میاں کے نزدیک ان کا کیا مقام تھا؟ زیر نظر مضمون میں ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔

علی میاں تو مولانا دریا بادی کے نام اور ان کے اخبار ’’سچ‘‘ سے بچپن میں ہی آشنا ہوگئے تھے لیکن دونوں کی پہلی ملاقات اور باقاعدہ تعارف مولانا حبیب الرحمن شیردانی کی لکھنؤ آمد کےموقع پر ندوہ میں ہوئی جب علی میاں کی عمر ۱۳۔۱۴ سال کی تھی۔ اسی زمانے میں مولانا دریابادی کے بھتیجے حکیم عبدالقوی علی میاں کے ہم سبق اور دوست بنے اور ان کے ذریعہ مولانا دریا بادی کی تحریروں اور تصانیف کے نام اور حوالے علی میاں کے کان میں پڑے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کو مولانا دریا بادی کے گھر جانے اور ان سے ملنے کے مواقع کثرت سے ملنے لگے۔

سچ اخبار:  مولانا دریا بادی کے اخبار ’’سچ‘‘ کے پرچے ندوہ کی طالب علمی اور مولانا دریابادی سے روز افزوں تعلقات کی بنا پر علی میاں کے مطالعہ میں مستقل آنے لگے اور رہنمائی کرنے لگے۔ اس کا اعتراف کرتے ہوئے علی میاں نے لکھا: ’’سچ‘‘ اس ذہن و شعور کی تشکیل میں بیش قیمت مدد کرتا رہا، جس کا اپنے بعد کی اردو عربی تصنیفات، ہندوستان اور ہندوستان کے باہر دعوتی کاموں میں بنیادی حصہ رہا۔ یہ وہ احسان ہے جس کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ (پرانے چراغ حصہ دوم مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ص:۱۴۹)

مولانا دریابادی کی پہلی تحریر جو علی میاں کوپڑھنے کو ملی وہ خلافت کا نفرنس کا استقبالیہ خطبہ تھا جو ۱۹۲۷ء میں لکھنؤ میں دیا گیا تھا۔ اس کے بارے میں علی میاں نے لکھا:

‘’سیاسی اور دینی سے زیادہ اس پر ادبی رنگ غالب تھا اور وہ بجائے سیاسی دستاویز کے ایک ادبی دستاویز بن گیا تھا۔ بڑے لطف و ذوق سے پڑھا اور دل نے پہلی بار ان کے (دریا بادی کے) قلم اور زور بیان کا لوہا مانا(ص:۴۶۔۴۵) مولانا دریا بادی کے سفر نامۂ حج پر اظہار خیال کرتے ہوئے علی میاں نے لکھا: ’’یہ نہ صرف ان کی تحریروں بلکہ لاتعداد سفر حج کی کتابوں میں امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مولانا کی پہلی کتاب تھی جس کو بڑے شوق اور انہماک کے ساتھ پوری پڑھی۔ پڑھتا تھا اور مولانا کے زور قلم اور ایسے طرز تحریر پر جس میں ادبی اور واردات قلبی کا نہایت حسین اور دلآویز امتزاج ہے جھوم جھوم جاتا تھا۔‘‘   (ایضاً ۱۴۶)

مولانا دریابادی کی تفسیر قرآن کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار علی میاں نے ان الفاظ میں کیا :

ان کی تفسیر کا اصل امتیاز صحف سماوی اور مذاہب کا تقابلی مطالعہ اور ان شخصیتوں، مقامات اور تاریخی ادوار کی جدید جغرافیائی و تاریخی معلومات کی روشنی میں تحقیق اور قرآن مجید کے مشکل مقامات کا حل پیش کرنا تھا جن کے بارے میں جدید علوم مستشرقین کے اعتراضات اور جدید مطبوعات نے مختلف سوالات کھڑے کردیے ہیں۔‘‘

(ایضاً، ص:۱۵۰۔۱۴۹)

مولانا دریا بادی کے اسلوب تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے علی میاں نے لکھا : ’’ایک فطری ادیب اور صاحب قلم کی پہچان یہ ہے کہ موضوع کتنا سادہ، سنجیدہ اور خشک و پر تقدس ہو، وہ اپنے قلم کی جولانی، خیال کی رعنائی اور طرز ادا کی دلآویزی کو روک نہیں سکتا۔۔۔ خلافت وندوہ کے خطبات کا ثقہ و متین ماحول ہویا فلسفۂ اجتماع یا فلسفۂ جذبات کی سنگلاخ  زمین اور پر خار وادی ہو یا تفسیر و تصوف کا پر عظمت اور نازک میدان جہاں ہر ہر قدم پر ہوشیار اور نگاہ روبرو کی آواز اور بڑے ادیبوں کے کان میں ’’قدم سنبھال کے رکھیو یہ تیرا باغ نہیں‘‘ کی صدا آتی ہو، اس کا قلم گل کاری اور گلفشانی سے باز نہیں رہتا۔ یہی رنگ مولانا عبد الماجد دریا بادی کی خصوصیت ہے کہ ان کی کوئی تحریر زبان کی چاشنی سے خالی نہیں اور یہی اسلوب ان کی شخصیت بن گیا ہے، ان کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔‘‘

(ایضاً، ص:۱۲۷)
مولانا دریا بادی کی ترجمہ نگاری کی داد دیتے ہوئے علی میاں نے لکھا: ’’حد یہ ہے کہ لیکی کی کتاب (HISTORY OF EUROPEON MORALS)کے ترجمہ ’’تاریخ اخلاق یورپ‘‘ میں بھی (جو اپنے موضوع، اپنی فنی اصطلاحات، اردو کی تنگ دامنی اور ترجمہ کی مشکلات کی وجہ سے نہایت مشکل کام تھا) وہ پوری طرح کامیاب ہوئے اور پوری کتاب میں کہیں ثقالت و خشکی اور ترجمہ پن نظر نہیں آیا‘‘۔ (ص:۱۴۸)

علی میاں کو جب ندوہ میں درس قرآن اور تفسیر کی ذمہ داری سپرد ہوئی تو ان کو ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ مولانا دریا بادی کی تحقیقات اور مطالعہ سے استفادہ کریں ۔ چنانچہ وہ پہلی بار دریا باد اسی مقصد سے گئے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے علی میاں نے لکھا: ’’مولانا نے قرآن کے ایک طالب علم کی حیثیت سے بھی اور دیرینہ تعلقات کی بنا پر بھی بڑی شفقت فرمائی اور میں وہاں سے بہت سے سوالات کے جواب اور بہت سا قیمتی مواد لے کر آیا۔ یہ اتفاق کئی بار پیش آیا کہ مجھے جب بھی کوئی ایسی مشکلات پیش آئیں تو میں دریا باد کا قصد کرتا یا مولانا کو خط لکھتا، مولانا ہمیشہ جواب شافی سے مدد فرماتے۔‘‘  (ص:۱۵۰)

جب الندوہ رسالہ کا احیا ہوا اور اس کی صدارت علی میاں کے ذمہ ہوئی تو انہوں نے اہل علم کی رہنمائی کے لیے ایک سلسلۂ مضامین ’’میری محسن کتابیں‘‘ کے عنوان سے شروع کیا اور ہندوستان کے مشاہیر کو اس موضوع پر لکھنے کی دعوت دی۔ مضمون نگاروں کی پہلی صف میں مولانا دریا بادی بھی تھے جنہوں نے دعوت قبول کی۔ اس کا ذکر علی میاں نے ان الفاظ میں کیا:

’’اس مضمون میں ان کی زندگی کے بہت سے اہم واقعات اور ان کے ذہنی، فکری ارتقا، انقلاب کی مختصر تاریخ آگئی ہے جس سے آئندہ مؤرّخوں اور ادیبوں کو بڑی مدد ملے گی‘‘ (ایضاً)

جب علی میاں اپنی عربی کتاب ’’ماذا خسرالعالم بانحطاط المسلمین‘‘ لکھ رہے تھے جس کا اردو ترجمہ ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘ کے نام سے شائع ہوا تو انہوں نے مولانا کے اخبار میں لندن یونیورسٹی کے شعبۂ فلسفہ کے صدر سی۔ایم جوڈ کی کتابوں کے اقتباسات دیکھے اور ان کتابوں کو پڑھا لیکن ان کے بہت سے مقامات جو خاص اصطلاحات، تاریخی واقعات اور ادبی تلمیحات پر مبنی تھے، سمجھ میں نہیں آئے تو انہوں نے اس بارے میں مولانا دریا بادی سے مدد چاہی اور مولانا دریا بادی نے ان کی پوری تشریح فرمائی اور علی میاں نے اپنی کتاب میں ان کے بہت سے اقتباسات شامل کئے اور ان سے فائدہ اٹھایا۔ مولانا دریابادی طنز نگار بھی تھے۔ ان کی طنز نگاری کےبارے میں اظہارخیال کرتے ہوئے علی میاں نے لکھا:

’’طنز نگاری اسالیب بیان اور اوصاف ادب میں نازک ترین اور دشوار ترین صنف رہے۔ اس میں وہی ادیب، صاحب قلم کامیاب ہوسکتا ہے جو صحیح معنوں میں زبان کا ادا شناس اور مزاج داں ہو... مولانا عبدالماجد دریا بادی کی حس اس بارے میں ذکاوت حس تک پہنچی ہوئی ہے اور زبان کے معاملے میں ان پر گرفت مشکل ہے۔ بعض مرتبہ ان کا ایک فقرہ ایک شذرہ کا اور ایک شذرہ پوری کتاب کا کام کرجاتا ہے اور کسی وقت ان کا ایک جملہ مخاطب یا مشارالیہ کے لیے ایسا بھاری پڑتا ہے کہ اس کا لکھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے اور اٹھانا بھی، بعض مرتبہ وہ کسی پرانے شاعر کے مصرع کو عنوان بناکر پورا کام کرجاتے ہیں اور وہ مصرع سب کچھ کہہ جاتا ہے اور ان کے حسن انتخاب کی بے اختیار داد دینی پڑتی ہے کہ وہ یہ مصرع کہاں سے لائے اور کس طرح اس کو نگینہ کی طرح انگوٹھی میں جڑ دیا۔ (ص:۱۵۴)

مولانا دریا بادی علی میاں کی دینی اور علمی ترقی کے دل سے خواہاں تھے۔ ا س کا اعتراف کرتے ہوئے علی میاں نے لکھا:

’’جب کبھی میرے کام کی کوئی چیز ان کی نظر سے گزرتی یا کوئی ایسی کتاب اور مضمون ملاحظہ فرماتے جو ان کے نزدیک میرے مطالعہ سے گزرنا چاہیے تو وہ کتاب یا مضمون کا تراشہ میرے پاس بھیج دیتے، جب میری دریا باد آمد کی خبر سنتے تو وہ تمام رسائل، مضامین اور کتابیں مہیا فرمالیتے جن کے متعلق بات چیت کرنی یا جن کے متعلق واقف کرانا چاہتے۔‘‘ (ص:۱۵۲)

مولانا علی میاں کے نزدیک مولانا دریا بادی کی خصوصیات اور کمالات میں سب سے بڑا جوہر ان کی اسلامی حمیت تھی۔ اس بارے میں انہوں نے لکھا:

’’ذات نبوی، اسلام، شریعت اسلامی کے لیے کوئی توہین آمیزمضمون، رسالہ یا کتاب یورپ و ایشیا میں کہیں نکلتی یا کوئی گستاخ، بے ادب کوئی تصویر شائع کردیتا تو سب سے پہلے مولانا ’’صدق‘‘ میں اس کا نوٹس لیتے۔ اس وقت ان کا خامۂ گہر بار شمشیر جوہر دار بن جاتا‘‘ (ص:۱۶۴)

مولانا دریا بادی کی شخصیت کے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے علی میاں نے لکھا:

’’مولانا اگر چہ فلسفہ و نفسیات کے ماہر تھے، ان کا عالمانہ تحلیل و تجزیہ کرچکے تھے اور ان پر فاضلانہ و ناقدانہ لکھ چکے تھے لیکن ان پر اچھی خاصی جذباتیت غالب تھی۔ رجائیت کا پہلو ہمیشہ قنوطیت پر غالب رہا۔ بعض مشاہیر و عظما کے بارے میں جن کی زندگی ملی و اجتماعی نقطۂ نظر سے قابل تنقید یا قابل اعتراض ہوتی، ان کا کوئی ایسا فعل یا واقعہ جس سے نیک شکون لیا جاسکتا تھا ان کی مدح و اعتراف کے لیے کافی تھا اور وہ ان کی وجہ سے ان کی تمام غلطیوں سے صرف نظر کرلیتے ۔‘‘  (ص:۱۷۲)

مولانا دریا بادی کی سب سے نمایاں خصوصیت اوقات کی پابندی تھی۔ مولانا کی منضبط زندگی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے علی میاں نے لکھا:

’’انضباط اوقات اور تنظیم کار کا جیسا نمونہ مولانا کے یہاں دیکھا مشکل سے کہیں اور پایا۔ مولانا کے یہاں صحیح معنوں میں وقت نپا تلارہتا۔  ہر وقت کے لیے ان کے پاس کام ہوتا۔ اس کی وجہ سے ان کے وقت میں بڑی برکت اور ان کے کاموں میں نہ صرف تنوع بلکہ اس کی مقدار بھی اتنی ہوتی جو اچھے اچھے کام کرنے والوں کے یہاں نظر نہیں آتی۔ وقت کی پابندی کی وجہ سے ہی مولانا کے مختلف النوع بلکہ متضاد کاموں کو کامیابی اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے پائے‘‘ (ص:۱۵۲)

علی میاں نے مولانا دریا بادی کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا: ’’مولانا جب کوئی رائے قائم کرلیتے تو اس کو آسانی سے ترک نہیں فرماتے اور اکثر اوقات مداخلت یا مشورہ اس معاملہ میں اور پختگی یا شدت پیدا کردیتا۔ مولانا عقیدت، تعلق، تنقید، تبصرہ سب ہی کے حدود مقرر کر رکھے تھے۔‘‘ (ص:۱۶۶)

علی میاں نے اپنے نام مولانا دریا بادی کے خطوط کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:

’’مولانا کے خطوط کا ایک بڑا ذخیرہ میرے مرقع خطوط کی زینت ہے۔ شاید ان کا کوئی مختصر سے مختصر اور سر سری طور پر لکھا ہوا خط بھی ضائع نہیں ہوا۔ شمار کیا تو یہ خطوط تعداد میں ۵۳ نکلے۔ ان میں میرے علمی استفسارات کے جواب بھی ہیں، کسی نئی کتاب یا مضمون کے شائع ہونے کی اطلاع بھی ہے، جس سے میرا واقف ہونا مولانا کے نزدیک ضروری تھا، میری حقیر تصنیفات یا مضامین پر اپنے تاـثر یاتنقید کا اظہار بھی اور کبھی کسی قدیم کتاب یا عربی تصنیف یا عربی مصنفین یا اہل قلم کے قلم سے نکلی ہوئی کسی نئی تحقیق کے متعلق استفسار بھی۔ تمام خطوط سے بزرگانہ شفقت، میری علمی و دینی ترقی کی خواہش اور اس بارے میں بزرگانہ رہنمائی سطر سطر سے جھلکتی ہوتی۔‘‘   (ص:۱۵۵۔۱۵۶)

علی میاں نے مولانا دریا بادی کی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے لکھا:

’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنے زمانہ کی نادرۂ روزگار صاحب کمال شخصیتوں میں سے تھے، ایک ادیب وہ صاحب قلم کی حیثیت سے بھی، قرآن کے ایک مفسر و خادم کے لحاظ سے بھی، قدیم و جدید کے ایک جامع عالم کے طور پر بھی اور اپنے وقت اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے اور فائدہ پہنچانے والے انسان کی حیثیت سے بھی، ایک کہنہ مشق صحافی اور ایک صاحب طرز ناقد طنز نگار کی بنا پر بھی، وہ ہر طرح قابل قدر اور اعزاز کے مستحق ہیں۔ میں نے ان کے متعلق مدراس کی تعارفی تقریر میں کہا تھا کہ ایک زمانہ آئےگا کہ اس نسل کے لوگ اس پر فخر کریں گے کہ ہم نے مولانا عبد الماجد دریا بادی کو دیکھا تھا اور ان کی باتیں سنی تھیں۔ اگر ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں میں صحیح قدر شناسی اور صحیح معنوں میں بے تعصبی ہوتی تو ان کو متعدد یونیورسٹیوں کی طرف سے ادب، فلسفہ اور دینیات میں اعزازی ڈگریاں ڈاکٹریٹ کی بہت پہلے پیش کی جاتیں۔‘‘   (ص:۱۵۴۔۱۵۵)

......

C-501،دوزووڈس اپارٹمنٹ، میور وہار۔ I

 نئی دہلی-2 11009

موبائل: 9953529424

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...