Tuesday, May 30, 2023

اردو شاعری پر رومانوی تحریک کے اثرات

 اردو شاعری پر رومانوی تحریک کے اثرات

(نظم کے حوالے سے)

محمد اسلم

دُنیا کے ہر خطے ،ہر تہذیب اور ہر کلچر میں موجود ہے ۔ یہ کائنات زندہ ہے اور اس کا نظام جامد ہے۔کائنات کو تو ہم مشین سے تشبیہ نہیں دے سکتے۔ کیونکہ اس کا ہر ذرہ ایک مکمل اکائی ہے، اسی لیے اس کائنات میںتبدیلی کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے ۔ کائنات کی یہ تبدیلی ایک مثبت پہلو ہے ،نہ کہ منفی۔اسی طرح اس کائنات میںکوئی چیز بھی مکمل نہیں بلکہ ہر چیز اپنی تکمیل کے چکر میں سرگرداں ہے ۔ ادب یا آرٹ کا کوئی بھی نظریہ مکمل نہیں ہوتا ، ہر نظریے میں کچھ نہ کچھ نا مکمل ہونے کا احساس ضرور ہوتا ہے یہی اس کی خوبصورتی ہے۔ رومانیت میں انسان اپنے وجود کی اہمیت سے آگاہ ہو ا، رومانوی رویے نے خود آگاہی اور خود شناسی کے جذبات سے آگاہ کیا ، اسی لیے John Clubbe اورErnest J. Lovell رومانیت کے بارے میں لکھتے ہیں:

"The annihilation of self was the romantic experience."

(English Romaniticism Page.3)

ہر ادیب اور نقاد مختلف نظریے کے بارے میں ایک فلسفی کی طرح غور و فکر کرتا ہے اور پھر کسی نتیجے پر پہنچتا ہے۔ رومانیت انسان کی لاشعوری کیفیت کے ایک خاص اظہار کا نام ہے ۔جو پامال راستوں کو ترک کر کے ایک تخلیقی جذبہ کے تحت نئی قدروں کی تلاش میں منہک ہونے کا عمل ہے جس کے متعدد زاویے ہیںاور مختلف جہتیں ہو سکتی ہیں۔شعرو ادب میں رومانیت لامحدود احساسات و جذبات کے اظہار کا رویہ ہے ۔یورپ میں اٹھارہویں صدی کے اوائل تک انسان کے بارے میںعام تصور یہ تھا کہ انسان کی امتیازی خصوصیت اس کی عقل ہے،لیکن اس صدی کے آخر میں اس تصور نے جنم لیا کہ انسان کی فطری خصوصیت اس کے احساسات ہیں۔لہٰذا اسی تصور نے جذبات کی بے ساختگی اور ذہنی اپچ کے تصورات کو بھی جنم دیا، جس کے بارے میں محمد حسن لکھتے ہیں :

 ’’رومانیت اس اصول پرستی، عقلیت اور میانہ روی کے خلاف صاعقہ بردوش بغاوت ہے ۔کلاسیکی انسان ، دنیا،اس کی زندگی اور حسن کو جن خانوں میں بانٹ کر اور اصولو ں میں تقسیم کر کے مطمئن ہو گیا تھا ،روماینت نے اس پر ایک کاری ضرب لگائی۔ یہ تحریک صرف چند سر پھرے نوجوانون کا جذباتی ابال نہیں تھی بلکہ ایک اقتصادی، سیاسی اور مجلسی نظام کا نتیجہ تھی۔یہ نظام ان پرانے اصولوں کا پوری طرح پابند رہنے کو تیار نہیں تھا ،جنہیں ایک تغیرپذیر سماج میں تغیر دُشمن جاگیردارانہ ہاتھوں نے تعمیر کیا ہو۔‘‘

 اردوادب میں رومانوی تحریک ،ڈاکٹر محمد حسن،ص :۱۰

انگریزی ادب میں کلاسیکیت کی واضح اور مستقل روایات موجود تھیںجن کے ردِعمل کے طور پر نئے رجحانات کی حامل رومانیت کی تحریک منظر عام پر آئی ۔ اس طرح یورپی خصوصاً انگریزی ادب میںکلاسیکی نظریات اور رومانوی نظریات کے عکس وجود میں آئے ۔

 کلاسیکیت نے یورپ میںگزشتہ کئی صدیوں میں کچھ ایسے اصول وضع کر لیے تھے جن میں نہ حرکت تھی اور نہ حسن و جمال کی رعنائی ، اور نہ ہی زندگی کی گہما گہمی۔چنانچہ اس بیزار کن یکسانیت سے عاجز آکر کچھ اذہان میں یہ بات آئی کہ اضافی جذبات ، عقل کے تابع فرمان اور کلاسیکی مطلق اصولوں کے زیر نگیں نہیں رہ سکتے اور ایک قوت ایسی ہے جو انہیں ان سے سرتابی پر مجبور کرتی ہے اور کبھی کبھی انسان کا جی چاہتا ہے کہ پاسبانِ عقل کے تسلط سے آزاد ہو جائے ۔ لہٰذاان اصولوں سے بغاوت کے لا محدود جذبات و احساسات کی شدت نے انسان کو ایک نئی جہت سے روشناس کروایا ۔ اسی نئی جہت کا نام رومانیت ہے ،اس حوالے سے دیکھا جائے تو اردو شعرو ادب میں وہ کلاسیکی جامد ماحول تو موجود نہیں تھا جیسا رومانیت کے احیا کے موقع پریوروپی ادب بالخصوص انگریزی ادب میں دیکھنے کو ملتا ہے،لیکن پھر بھی اردو ادب میںکچھ فارسی ادب سے آمدہ اور کچھ بتدریج ساختہ ایسے اصول موجود تھے جن کی بنا پر صرف ہیئت کی طرف غیر معمولی توجہ دی جارہی تھی اور اسے اعلی ٰ تخلیقی اصول سے برتا جا رہا تھاجس کے مطابق موضوع اور ہیئت کی متوازن وحدت ہی فنی کامیابی کی ضمانت تھی ۔ان اصناف ِ سخن میںغزل ، قصیدہ اور مثنوی قدیم کلاسیکی مطلق اصولوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے ۔ جس کے بعد ردِ عمل کا ہونا ایک فطری عمل تھا اور پھر یہی ہوا کہ حالی ؔ کی’’مقدمۂ شعرو شاعری ‘‘اس کلاسیکی جمود کے خلاف ردِ عمل کے طورپر ایک انقلاب کی صورت میں برپا ہوئی ،جو عمل سے زیادہ طاقتور تو نہیں تھی جیسا کہ فطرتاًہونا چاہیے تھا، لیکن یہ طبعاً انقلاب کے بجائے اصلاحِ شاعری کے سماجی مقاصد کے حصول اور توازن اوراعتدال پر زور دیا گیا ۔جو کہ رومانیت کی روح کے منافی نہ سہی لیکن اس کے مطابق بھی نہیں ہے۔ اصلاح شاعری کی تحریک کے دوران حالیؔ اوران کے معاصرین نے بار بار نیچرل شاعری کے تصور کے ساتھ ساتھ اخلاقی مضامین کے ادا کرنے اور قومی مقاصد کو پیش کرنے پر زیادہ زور دیا۔ اس سلسلے میں حالی ؔ مقدمۂ شعرو شاعری میںلکھتے ہیں:

 ’’ شعرسے جس طرح نفسانی جذبات کو اشتعال ہوتا ہے۔ اسی طرح روحانی خوشیاں بھی زندہ ہوتی ہیںاور انسان کی روحانی اور پاک خوشیوں کا اس کے اخلاق کے ساتھ ایسا صریح تعلق ہے جس کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔شعر اگر چہ براہ ِ راست علم اخلاق کی طرح تلقین اور ترتیب نہیں کرتا لیکن ازروئے انصاف اس کو علم ِاخلاق کا نائب مناب اورقائم مقام کہہ سکتے ہیں۔‘‘ 

(مقدمہ شعرو شاعری ،ص: ۱۲۰)

 انجمن پنجاب لاہور سے نیچرل شاعری کی جو تحریک اُٹھی تھی اسے ہم رومانوی کے زمرے میں داخل کر سکتے ہیں کیونکہ اس تحریک نے مضامینِ فطرت کو نظم کی صورت میںپیش کرنے پر زور دیااور ساتھ ہی پُر تصنع صنائع بدائع کے خلاف خلوص اظہارپر زور دے کر بالواسطہ طور پر جذبہ و احساس کے اظہار کو وقعت دی، تاہم انھوں نے اخلاقی و اصلاحی مقاصد کی اتنی ترویج کی کہ رومانیت کا جمالیاتی پہلویکسر دب گیا ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حالیؔنے اس بات پر بھی اصرار کیا ہے کہ شاعر کو اپنے مافی الضمیر کا اظہار آزادی سے کرنا چاہیے اور قدیم اصولوں سے بھی متجاوز کرنے کی تلقین دی ۔حالانکہ خود حالیؔ اور ان کے معاصرین نے پرانے مطلق اصولوں کو مسترد نہیں کیا بلکہ ہر جگہ اصلاح کرنے کی کوشش کی ، شاعری پر ایسے نئے اصولوں کا اطلاق کیا جو پُرانے اصولوں سے کم جامداور سخت نہ تھے ۔شاعری کے ان نئے اصولوں سے جو شاعری ہمیں ملی اسے ہم مقصدی شاعری کے نام سے جانتے ہیں۔جس میں مقصدی شاعری کے سوائے اس حد تک کہ غزل کی کلاسیکیت اور قدیم شعری روایات سے بغاوت کا عنصر ملتا ہے، لیکن کہیں اس میں رومانیت کی اصل روح نظر نہیں آتی بلکہ ایک طرح سے قدیم شعری جاذبیت کو بھی ختم کر دیا ۔ اس ردِ عمل کی بنیاد اصلاح شاعری کے دور میںبھی کسی حدتک پڑ چکی تھی جس کے آثار کسی حد تک شررؔ اور شبلی ؔ کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔رومانی تحریک دراصل اس بے معنی کے خلاف صدائے احتجاج تھی جو پہلی جنگِ عظیم کے دوران ابھرنے والے متنوع جذبات و احساسات نے مزیدبلند آہنگ کیا ۔چنانچہ بیسویں صدی میں جب غیر ملکی ادب کا رجحان زیادہ فروغ پذیر ہو نے لگا تو اس عرصے میں نئی نسل کے بعض نوجوان جو یورپ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے وہاں کے فکر و افکار اور نظریات سے بھی متاثر ہوئے تھے۔ انگریزی ادبیات ، دوسری زبانوں کے ادب کے مطالعے اور دوسرے ممالک کی آزادی کی تحریکوں نے یہاں کے لوگوں میں ہمت اور اُمید کی ایک کرن بخشی ۔

 پہلی جنگِ عظیم کے دوران یا اس کے فوراً بعد برِ صغیر میں اقتصادی اور معاشرتی حالات بہت نازک تھے ۔ سیاست میں مختلف تحریکوںکی بنا پر ایک ہلچل سی پیدا ہوئی تھی اور استعاریت کے خلاف لوگوں میں نفرت کے جذبات موجود تھے ۔ آزاد اور حالیؔکی اصلاحی شاعری ان حالات میں اپنا اثر کھو چکی تھی ۔ اس کے برعکس باغیانہ رجحانات فروغ پا رہے تھے ۔بغاوت کے یہ رجحانات ایک طرف تو معاشرتی سطح پر رسوم و رواج کے بندھنوں کو توڑنے کے در پر تھے، تو وہیں دوسری طرف سیاسی سطح پر انگریزوں کے خلاف برِ صغیر کی آزادی کے لیے عوام کو جدو جہد پر اُکسا رہے تھے ،آزادی کی یہ لگن رومانوی تحریک کا محض ایک پہلو تھی۔رومانیت کے اس دوسرے پہلو کے پیچھے انگلستان میں چلنے والی فن برائے فن کی تحریک کا بھی کافی ردِ عمل رہا ہے ۔یہ تحریک فرانسیسی علامت پسندی کے زیرِ اثر پروان چڑھی اور شروع شروع میں فن کے دیگر شعبہ ہائے علم سے بالخصوص اخلاقی مقاصد سے آزادی کی علمبردار تھی، لیکن جلد ہی آسکر وائلڈ اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں سے تصنع اور زوال پسندی کا شکار ہو گئی ۔

 اردو شاعری میںیوں تو رومانیت کی کوئی باقاعدہ روایت کبھی موجود نہیںرہی لیکن قدیم و جدید ادبی سرمائے میں اس کے کچھ عناصر بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بعض اساتذہ کے یہاں مختلف اصنافِ سخن خصوصاً مثنوی اور غزل میں تخیل کی حسن کاری اس حد تک ہے کہ ان میں سے رومانوی عناصر کا عکس ملتا ہے ۔کلاسیکی غزل کا سوزوگداز اور حزنیہ رنگ بھی اسی کا نمونہ ہے۔نظیر اکبر آبادی کی روایت شکنی اور غالب کی انفرادیت بھی رومانیت کے زمرے میں شمار کی جاسکتی ہے۔ انجمن پنجاب لاہور کے زیر اثر اصلاح ِ شاعری کی تحریک میں بھی رومانیت کے کچھ اثرات ملتے ہیں۔گویا اردو شاعری میںمنتشر بھی سہی، لیکن ایسے عناصر ضرور موجود ہیںجو رومانیت کے ضمن میں آتے ہیںساتھ ہی جو اردو شاعری میں رومانوی تحریک کے احیا میں معاون ثابت ہوئے۔

 انیسویںصدی کے اوائل میںبہت سے شعرا کے یہاں رومانیت کے ابتدائی نقوش دیکھنے کو ملتے ہیں ان شعرا میںاسماعیل میرٹھی ،نادر کاکوروی، درگا پرشاد سرورجہاں آبادیؔ، شوق قدوائی ، سید محمد ضامن کنتوری،عظمت اللہ خان وغیرہ اہم شعرا ہیں جنہوں نے روایتی شاعری سے انحراف کر کے انگریزی نظموں کے طرز پر اردو شاعری کے میدان کو وسعت عطا کی۔ ان میں سے بہت سے شعرا نے ولیم بلیک، ورڈزورتھ، ٹامس مور،لارڈ ٹینی سن ، بائرن، شیکسپیئر جیسے لافانی شعرا کی نظموں کے طرز پر اپنی نئی نظموں کا انتخاب کیا، ساتھ ہی بہت سے شعرا کی نظموں کو اردو میں بھی ترجمہ کر کے اسے بامِ عروج تک پہنچایا۔ملاحظہ ہوں چند شعرا کی نظموں کے چند اشعار:

 خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں

 اجالا زمانے میں پھیلا رہی ہوں

 بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں

 پکارے گلے صاف چِلا رہی ہوں

 اُٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں

 اسماعیل میرٹھیؔ

 آئہ ! او ننھے سے کیڑے فارش صحرا ہے تو

 دشت میں اک سرخ چھوٹا سا گل رعناہے

 صفحۂ ہستی پہ اک نقشِ تحیر زا ہے تو

 شعلہ زا حسن کی چھوٹی سی اک دُنیا ہے تو

 سرورؔ جہاں آبادی

 انیسویں صدی کی مسافت سے بیسویں صدی کے اوائل تک بہت سے شعرا کے یہاں کسی نہ کسی حد تک رومانیت کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں،جوپہلے پہل اقبال ؔ کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔اقبالؔ کی شاعری میںفارسی اور اردو کی عظیم کلاسیکی روایت کا نچوڑ، فطرت پسندی، آزادی اور تغیّرکا شدیدرومانوی احساس اور اسلامی فکری عناصرکی ترکیب نے ان کے عظیم تخیل کی گرفت میں آکر اردو شاعری میں ایک ایسی روایت کی بنیاد ڈالی، جس کی ابتدا اور انتہا دونوں انہی کے ہاتھوںسے ہوئی ۔ ان کا کلام ایک ایسا بحرِ بیکراں ہے جس میں غوطہ لگانا آسان کام نہیں۔بقول ڈاکٹر یوسف حسین خان ’’اقبال کی شخصیت اس قدر ہمہ گیرہے کہ اس پر مشکل ہی سے آپ کوئی ادبی لیبل لگا سکتے ہیں ۔‘‘اقبال کا بار بار اپنے درخشندہ ماضی کی طرف جھانکنا بھی ان کے رومانوی مزاج کا غماز ہے۔وہ اپنے تابناک ماضی سے کائنات کی مظہر کسی ایسی تجلی کی جستجو میںہیں،جو آج کے انسان کی ہیئت کو بدل ڈالے، ماضی میں ان کی نظر کے سامنے مردِ کامل کا باوقار اور پُر نور چہرہ ہے۔ پھر ایسے مردِ مومن کے خدو خال ہیں جن کے خون نے انسانی اقدار کو دُنیا میں عام کرنے کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا ،یہ جاہتے ہوئے بھی کہ قوت ِ عمل رائیگاں نہ جائے ۔چنانچہ اقبال کی شاعری کے ہر دھارے میں مستی کا ایک دریا موجود ہے۔ جس سے تخیل کی جدت سامنے آتی ہے۔ ان تمام تر خوبیوںکے باوجود انہیں ہم رومانوی رجحانات کا حامل قرار دیتے ہیں ۔ ان کی شاعری جس روش پر بھی چلے تو ان کی چال میں ایک مستانہ وقار ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اپنے لیے ایک نہایت ہی مختصر مگر معنی خیز لفظ ’’قلندر ‘‘ کا استعمال زیادہ پسند کرتے ہیںجس میں رومانوی مزاج کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ملاحظہ ہو ایک شعر :

 تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا

 کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر

 اقبال کی شاعری میں عقل و عشق ، بے باک اور طوفانی جذبات سے محبت کرنے کا رجحان، تب و تابِ آرزو، عمل پیہم، خودی کا وجدان، مردِمومن کا تصور، فطرت اور شعورِ ماضی وغیرہ یہ تمام باتیں ان کے رومانوی رجحانات پر دلالت کرتی ہیں۔ملاحظہ ہوں ان کے چند اشعار:

 روح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس

 ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثل جرس

 جس کے اس عام جلوے میں بھی یہ بے تاب ہے

 زندگی اس کی مثال ماہیِ بے آب ہے

 جلوئہ حسن کہ ہے جس سے تمّنا بے تاب

 پالتا ہے جسے آغوش تمنّا میں شباب

 آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال

 اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں

 اردو شاعری میں رومانیت کا سب سے واضح اور دل آویزرجحان اختر شیرانیؔکے کلام سے ہوتا ہے ۔رومانیت کی بنیادی خصوصیات کو جس قدراختر شیرانیؔنے اپنی شاعری میںنمایاں کیا ہے اور پھر جس طرح ان خصوصیات کا فنکارانہ انداز میں اظہار کیا ہے، وہ اردو شعرا میں صرف انہی کا حصّہ ہے جس کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹرمحمد حسن لکھتے ہیں:’’اختر رومانوی شاعر ہیں اور کچھ نہیں۔‘‘اختر شیرانیؔ کی شاعری میں مشرقی ادب کے جذب و کیف کی تابندہ روایات کی جھلک بھی اور مغربی ادب کی رومانیت کا پرتو بھی نظر آتا ہے۔ تو اس طرح ان کی شاعری میںمشرق و مغرب کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے ۔ملاحظہ ہوں ان کے چند اشعار:

 اے عشق ہمیں لے چل اک نور کی وادی میں

 اک خواب کی دُنیا میں اک طور کی وادی میں

 حوروں کے خیالاتِ مسرور کی دُنیا میں

تاخلد بریں لے چل!

اے عشق کہیں لے چل!

 مگر مری نگہ شوق کو شکایت ہے

 کہ اُس نے تم کو فقط ایک بار دیکھا ہے

 دکھادو ایک جھلک اور بس نگاہوں کو

 دوبارہ دیکھنے کی ہے ، ہوس نگاہوں میں

 اختر شیرانیؔ کی شاعری میں مشرقی ادب کے جذب و کیف کی تابندہ روایات کی جھلک بھی ہے اور مغربی ادب کی رومانیت کا پرتو بھی اور اس طرح ان کی شاعری مشرق و مغرب کا ایک حسین امتزاج ہے۔ان کی تمام تر زندگی ایک شانِ بے نیازی ، بے راہ روی، بے اعتدالی، بے اصولی، جذبات اور تصور پرستی کا حسین مرقع ہے ،یہی وہ امتیازی خصوصیات ہیں جو ایک شاعر کے رومانوی ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ان کی شاعری کے رومانوی ماحول ان کی مے نوشی اور آوارہ مزاجی نے انہیںدُنیائے شعر وادب کا رومانوی شہزادہ بنا دیا تھا لہٰذا ان کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے گوپال متل لکھتے ہیں :

 ’’اختر شیرانی کے لیے تو بعد میں باہر کی دُنیا بالکل ہی بے حقیقت ہو گئی تھی اور ان کے ذہنی ہیولوں نے ان کے لیے ٹھوس شکلیں اختیار کر لی تھیں۔ جس سے وہ خواب ہی میں نہیں بلکہ عالمِ بیداری میں بھی ہم کلام رہتے تھے ۔میں کبھی ملنے چلا جاتا تو مجھ سے پوچھتے کیاتمہیںکوئی آواز آرہی۔ پھر کہتے رات اس نے مجھے پوری غزل لکھوا دی۔وہ بولتی جا رہی تھی اور میں لکھتا جا رہا تھا۔ اسے خلل حواس کا نام دیا جا سکتا ہے لیکن یہ خارجی ماحول پر داخلیت کی فتح تو ہے ۔‘‘   (لاہو ر کا جو ذکر کیا ،گوپال متل،ص: ۵۲)

 رومانیت کی اس تحریک میں ایک اوراہم نام حفیظ جالندھری کا ہے،جن کی ’’شاہ نامہ اسلام‘‘ کا شمار آج تک ادب کی شہکار کتابوں میں ہوتا ہے ۔جو کہ رومانیت کے رجحان کا ایک آئینہ دار ہے۔ اس سے پہلے حفیظ کے منفرد انداز کے گیتوں اور ان کی ہلکی پھلکی چھوٹی بحر کی نظموں میں بھی خالص رومانیت جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جن میں سادگی سے کہیں کہیںحسنِ فطرت کی عکاسی کی ہے ، کہیں ارضِ وطن سے والہانہ شیفتگی ہے تو کہیں جذبۂ حسن و عشق کی معصومیت کا اظہار بھی ہوتا ہے اور ہر جگہ ان کا اسلوب دلکش ہے ۔ ان تمام تر خوبیوں کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:

 ’’حفیظ کی رومانیت ان معصوم حیرتوں سے عبارت ہے جو ان کے دل میں گردو پیش کے حسن کو دیکھ کر پیدا ہوتی ہے۔ ان کی نظموں میں فطرت کا جمال ایک نغمۂ سرمدی بن کر اُبھرا ہے ۔ وہ فطرت کی آغوش میں سر رکھ کر ان حیات آفریںلوریوں کو سنتے ہیںاور فطرت کے نغمے سے قلب و روح کو تازگی عطاکرتے ہیں۔ چنانچہ حفیظ کے شباب کی سرکشی، استغنا ،اور انانیت در حقیقت ان کے رومانی مزاج کا حصّہ ہے۔‘‘    (اردو ادب کی تحریکیں، انور سدید ، ص:۴۴۵ )

حفیظ کی شاعری پر ٹیگور اور اقبالؔ کے اثرات ضرور مرتب ہیں ،لیکن و ہ کسی کے مقلّد نہیں ہیںاور رومانوی شعرا میں ان کا سب سے اپنا ایک الگ مقام ہے،جو اخترشیرانی، مجاز، میراںجی، ن۔م راشد اور جوش ؔ سے بہت مختلف ہے۔ ملاحظہ ہو ں ان کی نظم کے چند اشعار:

 ہوا بھی خوش گوار ہے

 گلوں پہ بھی نکھار ہے

 ترنم ہزاروں ہے

بہار پر بہار ہے

 کہاں چلا ہے ساقیا

ادھر تو لوٹ ادھر تو آ

 ارے یہ دیکھتا ہے کیا

اُٹھا سبو سبو اُٹھا

 سبو اُٹھا پیالہ بھر

پیالہ بھر کے دے ادھر

رومانوی شاعری میں جوش ملیح آبادی کا نام نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔جنہیں شاعرِ شباب ، شاعرِ انقلاب کے القاب سے بھی جا نا جا تا ہے ۔ان کی شاعری کا نمایاں پہلو جلال اور جمال کا وصف ہے ، جو اکثر رومانوی اور منظریہ کا عکس ہیں۔ان کی نظموں کا شاعر حسن کا شیدائی ہے اور اس کے رومان پر ور جذبات ان کے تخیل کی پیداوار ہے۔ جوش ؔ کی فطرت پر ست طبیعت ورڈزورتھ اور والٹر اسکاٹ سے ملتی جُلتی ہے ۔جس طرح ورڈزورتھ اپنی نظم Lake Districtمیںفطرت سے ہم نوا ہوتا ہے، اسی طرح جوش نے ملیح آباد میں ایک قصرِ سحر تعمیر کروایا تھا تاکہ قدرت کے اس دلکش حُسن کا روزبہ روز لطف اُٹھا سکے۔ اسی طرح ان کی رومانیت ان کی عشقیہ نظموں میں بھی موجود ہے مثلاًجوانی کی رات، جمال و جلال، شام کا رومان اور برسات کی چاندنی ، جنگل کی شہزادی وغیرہ اہم ہیں۔ ملاحظہ ہوں ان کی نظم جنگل کی شہزادی کے کچھ اشعار:

پیوست ہے جو دل میں تیر کھینچتا ہوں

اک ریل گاڑی کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں

گاڑی میں گنگناتا مسرور جا رہا تھا

اجمیر کی طرف سے جے پور جا رہا تھا

تیزی سے جنگلوں میں یوں ریل جا رہی تھی

لیلیٰ ستار اپنا گویا بجا رہی تھی

خورشید چھپ رہا تھا رنگین پہاڑیوں میں

طائوس پر سمیٹے بیٹھے تھے جھاڑیوں میں

تھیں رخصتی کرن سے سب وادیاں سنہری

ناگاہ چلتے چلتے جنگل میں ریل ٹھہری

 جوش کی رومانیت ایک محرک جذبہ ہے، اسی لیے ڈاکٹر محمد حسن نے جوش کے متعلق لکھا ہے کہ’’ جوش جمالیات اور تلاشِ حسن سے زیادہ جذبات کے پرستار ہیںاور اگر جوش فلسفیانہ خیالات کو بھی بیان کرتے ہیں تو جذبے کے ساتھ مگر جوش کی رومانیت مثالی رومانیت ہے ‘‘۔ وہ رومانیت میں مثالی دنیا اور مثالی انسان کے متلاشی ہیں۔جوش نے اپنی شاعری کے آہنگ اور اسلوب سے اردو شاعری کے دامن کو وسعت عطا کی ۔اسی سلسلے میں شمیم حنفی اپنے مضمون ’’جوش کی یاد میں‘‘ میں رقمطراز ہیں:

’’جوش کی شاعری ایک نئی روایت کا حرفِ آغاز بھی تھی اور اس کا اختتامیہ بھی ۔ اس نے ہمیں بشارتیں بھی دیں اور بے چینیاں بھی۔ اس نے کسی بڑے فکری اجتہاد سے زیادہ اہم نیم فکری اور جذباتی بغاوت کا دل اور دانشوری کی اُس روایت سے کسی نہ کسی سطح پر خود کو مربوط رکھا جس کی داغ بیل سائنسی عقلیت نے ڈالی تھی ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جوش نے ہمارے بعض تہذیبی ایقانات کو ایک ایسی زبان دی جو پُرانی ہوتے ہوئے بھی نئی تھی۔‘‘

(شمیم حنفی ۔تاریخ تہذیت اور تخلیقی تجربہ، ص :۱۲۳)

رومانوی اردوشاعر میں ساغر نظامی ؔ نے اپنے رومانی طرز کا برملا اظہار کیا ہے ۔ان کے یہاں درد کی کیفیت بھی رومانوی روپ دھار لیتی ہے ۔ ساغر نظامی کی شاعری میںعورت کی ذات کے متعلق جن خیالات کا اظہا کیا گیا ہے وہ رومانیت کی عمدہ مثال ہے۔ ان کے خیال میں عورت خالقِ کائنات کی بنائی ہوئی سب سے اعلیٰ تخلیق ہے جس میں حسن و عشق کا جذبہ ایک بہترین پیداوار ہے۔ اپنی شاعری میں جہاں ایک طرف قوم پرستی اور انسانی بھائی چارے کا درس دیتے ہیں ،تووہیں دوسری طرف رومانیت اور عورت کے حُسن پر اپنی پوری قوت صرف کر دیتے ہیں۔ نظم ’’اوشا‘‘میں ایک خوبصورت عورت سے مخاطب ہو کر اپنے جذبات کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں:

تجھے معلوم ہے میں کس لیے مصروف ہوں اوشا

مجھے دن رات مصروف عمل پاتی ہو اے اوشا

تو تم یہ دیکھ کر سکتہ میں رہ جاتی ہو اے اوشا

کہ شاید میں تمہیں اس غم میں دل ہی سے بھلا بیٹھا

کسی کے مست و رنگین گیسوئوں میں دل پھنسا بیٹھا

مگر یہ جہد مضراب رباب کامیابی ہے

عمل دیباچہ باب کتاب کامیابی ہے

رومانوی شاعری کی قوت کو جلا بخشنے میںاگلا مقام میراجیؔ کا آتاہے۔ اردو اد ب میں ترقی پسند تحریک ایک نئے نظامِ اقدار کی ترویج میں مشغول تھی، لیکن اسے کے باوجودادبا و شعرا ہمیشہ رومانوی فکر کے ساتھ ہم آہنگ رہے ،جس کی وجہ سے ان کا تعلق روایتی اور سماجی زندگی سے تھا ۔ادب کے اس نئے رجحان کو بعض شاعر روایتی طور پر بیان کر رہے تھے اور بعض کا تعلق حلقۂ ارباب ذو ق سے تھا ۔ لہٰذا انہی شعر ا میں میراجی کا نام سرِ فہرست ہے ۔ میراجی کی شاعری تہذب کی ماضی کی طرف مراجعت کو ظاہر کرتی ہے ۔ ان کے ہاںپہلی بار دھرتی کا لمس اور اس کی خوشبو بڑے بھر پور انداز میں ظاہر ہوتی ہے۔ انھوں نے نہ صرف ہندوستان کے ارضی مظاہر کو اپنی نظموں میں سمویا ہے ،بلکہ تلمیحات اور استعارات کے سلسلے میں بھی زیادہ تر وہی اثرات قبول کئے جن کا تعلق اسی کرئہ ارض سے ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اگر ہم انگریزی رومانوی شعرا کو دیکھیں تو وہ اپنی شاعری میںاساطیری فضا کو شعوری طور پر تخلیق کرتے ہیںجیسے کولرج اوربائرن کے اثرات ہمیں اردو کے اس شاعر کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ان کے گیتو ں اور نظموں میںسارا ماحول رومانوی ہے یہاں تک کہ ان کی اپنی زندگی بھی رومان سے بھری ملتی ہے ،اسی لیے شاعر کا سپنا اندھیارے سانپوں ، دلدل اور سمندر کی دُنیا ہے ۔ میراجی نے بہت سی علامت ہندی اساطیری سے اخذ کی ہیں۔’’ نظم سمندر کا بلاوا‘‘ ان کی اہم نظم ہے۔ جس میں پہلی بار اردو شاعری کو انگریزی شاعری کے لمس سے ہمکنار کیا گیا ہے ۔ لہٰذ ااس نظم کی وہی حیثیت ہے جو کولرج کی نظم The Rime of the Ancient Mariner اور بائرن کی نظم Child Harold,s Pilgrimage کی ہے ۔ دونوں شاعر سمندر کی عظمت کے قائل ہیںکیونکہ اس پر انسان کا بس نہیں چلتا۔ ملاحظہ ہو ان کی نظم سمندا کا بلاوا کے چند اشعار:

یہ سر گوشیاں کہہ رہی ہیں اب آئو کہ تم کو بلاتے بلاتے میرے

دل پہ کہری تھکن چھا رہی ہے

کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں مگر یہ انوکھی صدا آرہی ہے

بلاتے بلاتے تو نہ کوئی اب تک تھکا ہے نہ آئنہ شاید تھکے گا

میرے پیارے بچے مجھے تم سے کتنی محبت ہے دیکھو اگر یوں کیا تو

بُرا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی ہو گا...خدایا..خدایا...

کبھی ایک سسکی ، کبھی ایک تبسم کبھی صرف تیوری

مگر یہ صدائیں تو آتی رہی ہیں

اردو ادب میں جدید شاعری کا سفر انجمن پنجاب لاہور سے شروع ہوا تھا ،آہستہ آہستہ اردو نظم مختلف تبدیلیوں کی مسافت کو طے کرتے ہوئے شاعری کے ایسے دور میں پہنچی جو ہیئت و مواد کے اعتبار سے مختلف تھا۔ انگریزی شاعری کے اثرات نے نوجوان نسل کے شعرا کی فکر سے آمیز ہو کر اپنے تاریخی شعور سے نئی بصیرت کے حامل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ نو جوان شعرا شعرو ادب سے براہِ راست تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے مغربی شعروادب سے گہر ااثر قبول کیا ۔یہی اثر ن۔م راشد کی ہیئت، اسلوب بیان اور فکرمیں نظر آتا ہے ۔انگریزی رومانوی شاعری کا اثر راشد کی ابتدائی نظموںکے اسلوبِ بیان سے ملتا ہے اور اسی اثر کے تحت وہ آزاد نظم کی طرف مائل ہوئے ۔ان کی نظموں پر ولیم بلیک اور بائرن کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ان نظموں میںبادل ، خواب کی بستی ، خواب ِ آوارہ،رخصت ، ایک رات وغیراہم نظم ہیں، مگر راشد نے اپنی دانش سے اس فکر میں تجدید کی ہے ۔ نظم ستارے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

نکل کر جوئے نغمہ خلد زارِ ماہ انجم سے

فضا کی وسعتوں میں ہے رواں آہستہ آہستہ

یہ سوئے نوحہ آباد جہاں آہستہ آہستہ

نکل کر آرہی ہے اک گلستان ترنم سے

کیے جاتے ہیں فطرت کو جواں آہستہ آہستہ

رومانوی شاعری میںاحسان دانش ؔ کی رومانوی نظمیںبے حد مقبول ہیں۔انہوں نے حقائق سے بھری ہوئی تلخ حقیقت کے جذبات کو شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ سما ج کے پسے ہوئے طبقے سے انہیں بے حد لگائو تھا ، بھوک کی شدت سے نکلنے والی آہ سن کر بعض دفعہ تڑپ اُٹھتے ہیںاس لیے انہیں شاعرِ مزدور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ان کی رومانیت میں قلبی جذبات و احساسات کا رنگ اسی خلوص و درد مندی کا سرمایہ ہے ۔ہاں یہ بات الگ ہے کہ انہوں نے کسی مغربی شاعر سے براہِ راہ اثر قبول نہیں کیا، بلکہ سماج میں پنپنے والے درداور مصائب کو جس انداز سے بیان کیا ہے ،اسے پوری طاقت کے ساتھ رومانوی شکل میں پیش کیا ہے ۔ان کی مشہور نظم ’’گورستان‘‘خطاب و رومانیت کی بہترین تصویر ہے :

یہ کھلا عقدہ جہاں ہنگامہ زار مرگ ہے

عرش سے تافرش بحر بے کنار مرگ ہے

شمع محفل کے لیے ہے موت دامان نسیم

روح گل کو موت کا پیغام پرواز شمیم

بے قراری چھین لی جائے تو ہے پیارے کی موت

چھوڑ کر گردش کو رُک جائے تو سیارے کی موت

رومانوی شاعری میں ایک اہم نام فراق گوکھپوریؔ کا آتا ہے، جنہوں نے اردو شاعری کو ایک نئے اور انوکھے ذائقہ سے متعارف کروایا۔جنہوں نے نہ صرف نظموں میں ہی اس روایت سے اکتساب کیا، بلکہ غزل میں بھی ان اثرات کو نئے انداز سے متعارف کروایا ۔ فراق ؔ کی غزلیں اردو شاعری کی روایتی غزل کے باوجود جدید رنگ کی حامل ہیں۔اس سلسلے میں خلیق انجم اپنے مضمون ’’کلام فراق کے کچھ پہلو ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ انھوں نے نظمیں بھی کہیں اور رباعیاں بھی لیکن کلام ِ فراق میں ان کی حیثیت محض ثانوی ہے ۔ فراق کی شخصیت میں اپنے عہدکے دوسرے غزل گوشعرا سے زیادہ گہرائی اور گیرائی ہے ۔‘‘

(ایم ۔حبیب خان ،مرتبہ فراق گورکھپوری، ص: ۲۹۵ )

فراقؔ نے انگریزی رومانوی شاعری کی روایت سے خوب استفادہ کیا ۔ یہ اثر فراق کی شاعری میں قدرتی انداز میں جذب ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ فراق کا فطری شاعرانہ ذوق اور انگریزی شاعری کا گہرا مطالعہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہ وہ برس ہا برس تک انگریزی ادب کی تدریس میں مشغول رہے۔ان کی شاعر ی پر سب سے زیادہ گہرا اثر ورڈز ورتھ کا ہے، مظاہر فطرت سے جو لگائو انہیں ہے وہ Poet of Nature کا کمال ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثر نظمیںورڈز ورتھ کاا ثر لیے ہوئے ہیں۔ ان نظموں میںجگنو، ہنڈولا، شامِ عیادت، پرچھائیاں اہم ہیں ۔ نظم ہنڈولا سے کچھ اشعار ملاحظہ ہیں:

دیار ہند تھا گہوارہ یاد ہے ہم دم

بہت زمانہ ہوا کس کے کس کے بچپن کا

اسی زمین پہ کھیلا ہے رام کا بچپن

اسی زمین پہ ان ننھے ننھے ہاتھوں نے

کسی سمے میں دھنش بان کو سنبھالا تھا

اسی دیار نے دیکھی ہے کرشن کی لیلا

یہیں گھروندوں میں سیتا سلوچنا رادھا

کسی زمانے میں گڑیوں سے کھیلتی ہوں گی

یہی زمیں یہی دریا پہاڑ جنگل باغ

یہی ہوائیں یہی صبح و شام سورج چاند

یہی گھٹائیں یہی برق و رعد و قوس قزح

یہیں کے گیت روایات موسموں کے جلوس

اس طرح دیکھا جائے تو رومانی شاعری نے اردو شاعری کے دامن کو وسعت بخشی اورا سے محدود موضوعات سے نکال کر کئی موضوعات سے آشنا کروایا اس طرح اردو شعرا کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے کسی نہ کسی طرح سے اس تحریک کو جلا بخشنے میں اپنا کلیدی رول اپنایا اور اس طرح آج بھی اردو کے متعد شعرا رومانیت کے اس میدان میں برابر کے شریک ہیں۔جب حب الوطنی ، فطرت پرستی اور اقبال جیسے فلسفی شاعر نے اپنی فلسفی شاعری کے ذریعے اردو کی تنگ دامانی کے شکوہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا تو ایسے میں اردو شعرا نے انگریزی رومانوی شعرا کے زیرِ اثر شاعری شروع کی جس کے بدولت نئے موضوعات اور شاعری کی زینت بنے ۔ رومانوی شاعر ی کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ لذت اور صداقت دونوںکو یک جا کرتی ہے اور حسن کو بذاتِ خود صداقت سمجھ کر بے نقاب کرتی ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:

’’ فن کے میدان میں اصل شے اس کا جمالیاتی احساس ہے۔ اگر تخلیقی جمالیاتی معیار پر پوری طرح اُترنے سے قاصر ہے تو پھر معروضی اور خارجی واقعات ، مسائل اور نظریات کو اپنے دامن میں جگہ دے ، اس کی حیثیت ایک نظریاتی مینی فیسٹو سے مختلف نہیں ہو سکتی۔‘‘

(تنقید اور جدید اردو تنقید ، ص: ۱۸۸)

مختصراً اس رجحان کو تقویت پہنچانے میں اردو خبار اور رسالو ں مثلاً تیرہویں صدی، دل گداز ،مخزن ، صدائے عام ، نقاد اور ہمایوں نے زبردست کارنامہ انجام دیاہے۔ ان رسالوں کی بے پناہ خدمات اور کوششوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، یہ اس لیے کہ اگر یہ نہ ہوتے تو اتنی تیزی سے ادب ِ لطیف کایہ رجحان اتنی تیزی سے وسعت اختیار نہ کرتا اور نہ ہی ایک خاص مدت کے لیے اردو ادب کے شعری سرمائے کا معیار بنتا ۔ اس طرح سے رومانوی تحریک کا جائزہ لیا جا سکتا ہے جوکہ اپنی مثال آپ ہے ۔

شعبۂ اردو، بنارس ہندو یونیورسٹی، بنارس(یوپی)

موبائل :7298251804


No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...