Thursday, May 18, 2023

باغی شاعر کی منتخب رومانی نظمیں


باغی شاعر کی منتخب رومانی نظمیں

ڈاکٹر تسلیم عارف

 ۱۹ ویں صدی کے اَواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوستان میں دو عظیم شخصیتوں نے جنم لیا ۔ ایک نے بنگال کی سوندھی مٹی اور انقلابی دھرتی پر ۲۵؍ مئی ۱۸۹۹ء کو اپنی آنکھیں کھولیں۔ یہ قاضی نذر الاسلام تھے، جو اپنی جَلو میں غیر معمولی شعری و ادبی صلاحیت، باغیانہ فطرت اور ولولہ انگیز طبیعت لے کر پیدا ہوئے اور عُنفُوانِ شباب میں پہنچ کر ’بدروہی کوی قاضی نذرالاسلام ‘کے نام سے اپنی شناخت مستحکم کرلی۔ دوسری شخصیت سیّد سجاد ظہیر کی ہے، جو ۵؍ نومبر ۱۹۰۵ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ حالانکہ گفتگو مجھے نذر الاسلام کے حوالے سے کرنی ہے لیکن سجاد ظہیر کا ذکر یہاں اِس لیے ناگزیر ٹھہرا کہ جب میں قاضی نذر الاسلام کی حیات اور اُن کی ادبی نگارشات کا بالاستیعاب مطالعہ کررہا تھا تو دونوں میں کئی باتیں مشترک پائیں۔ مثلاً دونوں ایک ہی عہد کے پروردہ رہے، دونوں نے اپنی اپنی زبان میں شعر و ادب کا وقیع سرمایہ چھوڑا، دونوں عوام اور ترقی پسندی کے حامی رہے، دونوں نے اپنے اپنے طور پر ملک کی آزادی کے لیے جدو جہد کی اور پابند سلاسل ہوئے ، دونوں نے ہی ٹھاٹ باٹ اور شان و شوکت کی زندگی تج کر مشقت کی زندگی گزاری۔

قاضی نذر الاسلام کی پوری زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ وہ اپنے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک حالات کے گہرے چرکے سہتے رہے۔ بچپن ہی سے بلا کے ذہین تھے۔ محض۲۲ برس کی عمر میں اُنہوں نے ’بدروہی‘ نظم تخلیق کر کے شہرتِ دوام حاصل کی ۔حالانکہ ’بدروہی‘ کی اشاعت سے قبل ۱۹۱۹ء میں انہوں نے اپنی پہلی نظم ’مکتی‘  لکھی تھی جو شائع ہونے کے باوجود شہرت کا سبب نہ بن سکی لیکن ’بدروہی‘ قاضی نذر الاسلام کی معرکہ آرا نظم ثابت ہوئی جس کی ہفتہ وار ’بجلی‘ کے ۶؍ جنوری ۱۹۲۲ء کے شمارے میں اشاعت ہوئی۔ اس نظم کی اہمیت اور شہرت کا اندازہ گوپال ہالدار کے ذیل کے اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:

’’ بدروہی — نہایت عمدہ نظم ہے.... دراصل بنگال کی ادبی و قومی زندگی میں اس نظم کی حیثیت ایک سنگِ میل کی ہے۔ اُس وقت کی زندگی کے پس منظر کو ذہن میں رکھیں تو معلوم ہوگا کہ بغاوت ، وقت کی آواز تھی۔ لہٰذا ’بدروہی‘ ایک ایسی نظم تھی ، لوگ جس کے منتظر تھے۔ اِس نظم کی تخلیق نذر الاسلام جیسے شخص اور شاعر ہی کا حصّہ تھا۔ یہ نظم اُن کی اُفتادِ طبع کے عین مطابق تھی۔ وہ خود ایسے باغی تھے جو تمام قیود اور پابندیوں سے فی الفور نجات چاہتے تھے۔ وہ قومی آزادی اور آزادیٔ نفس کے لیے بے قرار تھے۔ اُن کی دِلی آرزو تھی کہ کشادگیِ ذات کے وفورِ جذبہ ، تمام تر حسن کے ساتھ زندگی میں جاری و ساری ہوجائیں۔ اُنہیں اس بات کا ہلکا سا احساس تھا کہ انفرادی اور قومی آزادی کے جذبوں کا اِتّصال ، انسانی حقوق کے جذبہ میں ہے لیکن اُنہیں اِس کا کوئی واضح عقلی ادراک نہیں تھا اور نہ عوام ہی اِس کا، اِس سے بہتر ادراک رکھتے تھے۔ سبھی تعلقی انتشار میں مبتلا تھے۔ تاہم یہ ماننا پڑے گا کہ سبھی بنیادی طور پر ایک صالح آدرش اور مخلص جذباتی ہیجان کی گرفت میں تھے، جسے بہر طور سوراج سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ کوئی واضح نظریہ نہ رکھنے کے باوجود ’بدروہی‘ ایک عوامی نظم تھی اور نذر الاسلام عوام کا اپنا شاعر تھا۔ سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ اس نظم نے نذر الاسلام کے لیے اظہارِ ذات کی ایک نئی راہ کھول دی۔‘‘

( باغی شاعر، از: گوپال ہالدار، مترجم: نشاط قیصر، قاضی نذر الاسلام [مونو گراف]، ناشر : ساہتیہ اکادمی، ۱۹۸۴ء، ص: ۴۱)

یہ بات بالکل درست ہے کہ ایک مخصوص شعری فکر اور تخئیل، کسی فن کار کو مشہور و مفتخر تو ضرور کرتی ہیں، لیکن اِس کی وجہ سے اُس کے دیگر فنّی اوصاف پردۂ خفا میں جا پڑتے ہیں۔ اس تناظر میں جب ہم قاضی نذر الاسلام کے شعری رویے کا جائزہ لیتے ہیں تو شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ انقلابی اور باغیانہ شاعری نے اُن کی شعری زنبیل میں موجود دیگر شہ پاروں کو پسِ پشت ڈال دیا۔ اگر باغیانہ تیور پر مشتمل اشعار سے صرفِ نظر کیا جائے تو اُن کی شعری کائنات میں ذاتی زندگی کے مشاہدات و تجربات، اُن کے مذہبی عقائد و نظریات، ترقی پسند افکار و خیالات، زندگی کے تلخ حقائق ،نسوانی جذبات و احساسات کا اظہار، اشتراکی لب و لہجہ اور رومان و محبت کے مضامین بھی ملتے ہیں۔ میں یہاں نذر الاسلام کی اُن منتخب نظموں سے ڈسکورس قائم کررہا ہوں، جن میں عشق کی دھیمی آنچ اور غِنائی کیفیت موجود ہے۔ سیّد سجاد ظہیر نے اپنی تصنیف ’روشنائی‘ میں غِنائیہ اور عشقیہ شاعری کی بابت لکھا ہے :

’’ایسی شاعری جس میں سچّی محبت کی کسک ہو یا جس میں انسان کی ناکامیوں اور محرومیوں کا اظہار کر کے ، اُس کا تزکیۂ نفس کیا جائے ، جو ہم میں درد مندی اور پاکیزگی پیدا کرے ، جس میں انسانی خصائل کو بہتر بنانے کی غرض سے افراد اور معاشرت پر تنقید ہو، جس سے ہماری زندگی کی زینت بڑھے اور انسانی جذبات میں بلندی اور لطافت پیدا ہو، ہرگز ایسی نہیں ہے، جسے ردّ کیا جائے۔ ایک ترقی پسند یا انقلابی کے لیے ایسی شاعری ،اتنی ہی ضروری اور مفید ہے، جتنا کہ دوسرے مہذب انسان کے لیے۔‘‘

شاعر بڑے حسّاس ذہن و دل کا مالک ہوتا ہے۔ اُس کی شخصیت جذبۂ محبت سے سرشار رہتی ہے۔ اُس کے سینے میں جو دل دھڑکتا ہے، اُس میں بلا تفریق مذہب و ملت ، ہر کسی کے لیے درد اور پیار ہوتا ہے۔ شاعر خواہ کسی بھی زبان کا ہو، محبت کرنا اور محبت کا درس دینا اُس کی سرشت میں شامل ہے، اُس کی نگاہیں بڑی تیز ہوتی ہیں اور مشاہدہ عمیق۔ شاعر کا محبوب کبھی گوشت پوست کا انسان ہوتا ہے تو کبھی ربِّ کائنات ، کبھی وطن تو کبھی کوئی اور۔۔۔۔ قاضی نذر الاسلام کے یہاں ہمیں بعض نظمیں ایسی ملتی ہیں، جن کی قرأت سے بآسانی یہ اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ اُن کا محبوب گوشت پوست کا انسان ہے۔ اُن کی رومانی نظموں کو اگر بغور پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ وہ اپنی آخری سانس تک، ایک ایسے پیکر یا وجود کے متلاشی رہے، جسے اُنہوں نے اپنی تخئیلِ گیتی کا ملکہ بنا رکھا تھا۔ اس ضمن میں یونس احمر کی رائے سے میری بات کی توثیق ہوجائے گی۔ یونس احمر لکھتے ہیں :

’’بعض بنگالی نقادوں کا خیال ہے کہ پرمیلا دیوی، یعنی اُن کی بیوی ہی اُن کے سپنوں کی ملکہ تھی اور جب وہ اُنھیں مل گئی تو اُن کی تلاش و جستجو بھی ختم ہوگئی۔ اِس کی حمایت میں وہ قاضی صاحب کی مشہور نظم ’پجارن‘ کو پیش کرتے ہیں ،جس میں اُنہوں نے پرمیلا دیوی کو خطاب کرکے دل کی باتیں کہی ہیں لیکن جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، بات کچھ اور ہی ہے۔ بلاشبہ پرمیلا دیوی سے اُنھیں بے پناہ محبت تھی اور وہ اُن کو اپنا سب کچھ سمجھتے تھے مگر اُن کے دل میں جو چنگاری ابتدائے جوانی سے بھڑکی تھی، وہ کسی طرح سرد نہ ہو سکی ۔ پرمیلا دیوی کو حاصل کرنے کے بعد بھی وہ کچھ کمی محسوس کرتے تھے۔ ایک ایسی نامعلوم کسک تھی جو بار بار اُن کے ذہن کو کرید جاتی۔ اُنھیں خود نہیں معلوم تھا کہ وہ کون بنتِ مریم ہے ،جو اُن کی دبی ہوئی راکھ میں چنگاری پیدا کرجاتی ہے ۔ اُن کے دل کی گداختگی ، سبک سجل گیتوں کے چشمے بہاتی تھی، اُٹھتے بیٹھتے، سوتے، جاگتے ،وہ گیتوں کی دنیا میں کھوئے رہتے تھے۔‘‘

 (نذرل گیتی، از: یونس احمر، مشمولہ: رسالہ ’مغربی بنگال‘، مدیر: سوکھیندو کمار داس، یکم و ۱۵؍جون ، ۲۰۰۵ء)

قاضی نذر الاسلام تا نفس آخراپنے محبوب سے وصل کے منتظر رہے۔ اُنہیں یہ فکربھی لاحق تھی کہ اپنے ہم دم ودم ساز سے ملنے کے لیے نہ جانے کتنے ایام اور کتنے آنسوئوں کی قربانی دینی ہوگی؟ اس اضطراری کیفیت کی بھرپور عکاسی اُن کی نظم ’ازلی محبوبہ‘ میں ملتی ہے۔ نظم کا پہلا بند ملاحظہ کیجیے:

نہ جانے کب ملو گی تم؟

ابھی نہ جانے کتنے دن یونہی گزارنے پڑیں؟

نہ جانے کتنے اشک پلکوں سے اُتارنے پڑیں؟

نہ جانے زندگی کے کتنے دائو ہارنے پڑیں

نظم کے دو اور بند دیکھئے، جن میں شاعر اپنی آرزوئے محبت اور اُمیدِ وصل کو کس خوب صورتی سے بیان کررہا ہے۔ لفظوں کی برجستگی اور بیان کی روانی نے نظم کی تاثیر میں مزید اضافہ کردیا ہے:

تمہاری آرزو لیے:

ہر ایک لمحہ میں نے اشک کے دیے جلائے ہیں

فراز آسماں پہ تاروں کے کنول کھلائے ہیں

لہو کی بوند بوند سے کئی چمن سجائے ہیں

ہوا کی موج موج پر:

مرا چراغِ زندگی جلا ہی کیا ، بجھا ہی کیا

بس اک اُمیدِ وصل تھی کہ جس نے حوصلہ دیا

یہ آنکھ بھی کھلی رہی ، یہ دل بھی ڈولتا رہا

مرے خیال کی پری ، نہ جانے کب ملو گی تم؟

(مترجم : اجمل اجملی)

’’آشا نراشا‘ بے حد خوبصورت نظم ہے جس میں شاعر نے بڑی فنکاری سے اپنا مدعائے دل بیان کیا ہے۔ شاعر کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ ایک ایسے وجود کا آرزو مند ہے، جسے وہ کبھی پا نہ سکے گا لیکن وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہے۔ وہ ا س بات سے بھی آشنا ہے کہ اُس کے اور اُس کے محبوب کے درمیان فراق کا ایک وسیع و عریض سمندر ہے، جس کے ایک سرے پر وہ اور دوسرے پر اُس کا محبوب ایستادہ ہے۔ باوجود اس کے وہ اپنے بے قرار دل اور بےچین روح کی تسکین کے لیے متمنی ہے کہ ملاقات نہ سہی، چند ثانیے کے لیے اُس کا محبوب اپنا آنچل ہوا میں لہرا کر پوری فضا کو معطر کردے۔ نظم کے چند مصرعے ملاحظہ کیجیے:

تمہیں نہ پا سکوں گامیں

مجھے یہ علم ہے مگر

نہ جانے دل کو کیا ہوا ہے پھر بھی بے قرار ہے

اسیرِ اضطرار ہے

پیار کا شکار ہے

 

مجھے یہ علم ہے کہ میرے اور تمہارے درمیاں

فراق بن کے موجزن ہے ایک بحرِ بے کراں

میں اِس کنارے مضطرب

تم اُس کنارے مضطرب

اگرچہ یہ یقین ہے کبھی نہ مل سکیں گے ہم

مگر یہ شوقِ دم بہ دم

یہ کہہ رہا ہے کم سے کم

تم اپنا آنچل ایک بار اُسی طرف کنارے سے

ہوائوں میں اُڑا بھی دو

فضائوں کو جگا بھی دو!                                                                         (مترجم: اجمل اجملی)

ہماری مشرقی شعری روایت میں بالخصوص اگر کلاسیکی شعرا کے کلام کا مطالعہ کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاعر یا عاشق اکثر اپنے دل و دماغ میں محبوب کا خیالی پیکر تراش لیتا ہے۔ غیر وجود حیثیت رکھنے والے پیکر سے محبت کی ہزارہا مثالیں شاعری میں موجود ہیں۔ یہاں محبت کے لیے ایک دوسرے سے شناسائی کی ضرورت نہیں ہے نیز سمعی اور بصری رابطہ نہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے دل میں محبت کا سیل رواں ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے۔ دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لیے جزولاینفک بن جاتا ہے۔ اکثر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ مخالف جنس کے صرف نام سے ہی عشق ہوجاتا ہے ۔ خلوت میں محبوب کے نام کا ورد ، عاشق کے قلب کو سُرور بخشتا ہے۔بس اُمید کی ڈور ہی ایک دوسرے کو مضبوطی سے باندھے رکھتی ہے۔ یہ اُمید ہی ہے ،جو معاملاتِ عشق میں دونوں کو اولوالعزمی بھی عطا کرتی ہے۔ واقعی ایسی محبت اپنا ایک انوکھا اختصاص رکھتی ہے۔ قاضی نذر الاسلام نے بھی اِنہی کیفیات کو مصرعوں کی صورت عطا کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

یہ جستجو بھی خوب ہے

یہ آرزو بھی خوب ہے

میں صرف نام جانتا ہوں

تم بھی نام جانتی ہو، پر کبھی ملے نہیں

یہ چاکِ دل سِلے نہیں

مرا وجود سچ سہی ، پہ مجھ سے بے خبر ہوتم

اسی طرح مرے لیے

اگرچہ زندگی ہو تم

پر ایسی روشنی ہو تم

کہ جو نظر نہ آسکی

مرا جہانِ بے بصر

کبھی نہ جگمگا سکی

مرے دہکتے سینے میں اُمید کی شعاعیں ہیں!

راہِ محبت میں اُمید و نااُمید کی تکرار پر مبنی یہ انتہائی خوبصورت تخلیق ہے۔

آس‘ اُن کی بہترین رومانی نظموں میں سے ہے جس میں محبوب سے ملنے کی تڑپ اور کسی اَنہونی کا اندیشہ نظم کی تاثیر میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ نظم وصل کی رازداری کا لطف دیتی ہے۔ نظم میں شاعر اپنے محبوب سے ملنے کی راہیں تلاشتا ہے۔ وہ اُس سے وہاں ملنا چاہتا ہے، جہاں زمین اور آسمان ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ وہ جگہ بھی باغ کی طرح حسین ہے، جہاں فلک جھک کر زمین کے بوسے لے رہا ہے۔ شاعر کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ اگر وہاں ملاقات کی سبیل نہ نکلی تو گائوں کی لہر اتی راہوں پر اُن کا اِتّصال ضرور ہوگا۔ کھلی زُلف اور مچلتا دل لیے، شاعر کا محبوب بانہیں پھیلائے اُس کا منتظرہوگا۔ نظم کے دو بند ملاحظہ کیجیے:

اِسی جگہ ملیں گے ہم

اُفق میں دور باغ کی طرح حسین وہ جگہ

وہیں جہاں

زمیں کے بوسے لے رہا ہے نیل نبھ جھکا ہوا

اسی جگہ ملیں گے ہم

وہاں نہ مل سکے اگر

تو گائوں کی اجاڑ اجاڑ لہر کھاتی راہوں پر

لیے ہوئے دل تپاں

مری طرف بڑھو گی تم جوان بانہیں کھول کر

فسوں طراز رہ گزر

(مترجم : اجمل اجمل)

شاعر اس وصل کو اور معنی خیز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اُسے صبا سے خبر ملی ہے کہ اُس کا محبوب تو مانند گل، باغ کی زینت بنا ہوا ہے اور زندگی کی تمام رعنائیاں اس میں جذب ہو کر اپنا جلوہ دکھا رہی ہیں۔ مثلِ شمع ،محبوب جلوہ فگن ہے۔ ایسے لمحے میں شاعر خود سے مخاطب ہوتا ہے کہ تُو گر اُس سے ملنے کا خواہاں ہے تو سیدھا باغ کو چل، وہاں وہ رشک گل جلوہ نما ہے مگر شاعر کو اس بات کا بھی کھٹکا ہے کہ کہیں فلک کو اِس کی خبر نہ ہوجائے کہ وہ لذتِ وصل حاصل کرنے جارہا ہے، اس لیے وہ اپنے دل کے مچلتے جذباتِ وصل کو تہہ داری کے آداب سکھاتا ہے۔ شاعراس بات سے بھی متوحش ہے کہ اگر اُفق کی سرخیوں کو اِس کی خبر ہوئی تو وہ وصل کی راہ میں ہجر کی دیوار حائل کردیں گی۔ نظم کے آخری چند مصرعے شاعر کے سابقہ تجربات کے شواہد پیش کرتے ہیں:

کہاں گیا جنوں مرا؟

وصال کی طلب اگر ہو دل میں ،آ چمن میںچل

مگر یہ خوفِ بے کراں

اُفق کی سرخیاں نہ تجھ کو دیکھ لیں، ذرا سنبھل

ارے جنونِ نارسا

ایک نظم ’آدھی رات کا دکھ‘ کے زیرِ عنوان ہے۔ آدھی رات کا دکھ کیا ہوتا ہے، یہ ایک عاشق ہی جانتا ہے، جب رات ڈھلے کسی اپنے کی یاد سینے میں آ بیٹھتی ہے تو تاریک شب مزید تاریک ہوجاتی ہے لیکن اس اندھیری رات میںکسی کی یاد آنے سے آنکھوں میں اشکوںکے ستارے چمک اُٹھتے ہیں، درد کی شمعیں جلنے لگتی ہیں۔ رات کی خاموشی میں دل کے رونے کی آواز فضا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ شاعرنے محبوب کی یاد کو تیشہ چلنے سے تشبیہ دے کر پُر لطف کردیا ہے اور درد کو قوتِ گویائی عطا کردی ہے۔ ایک شعر دیکھیے:

یہ رات ہے کتنی اندھیاری آنکھوں میں ستارے چلتے ہیں

کیا بات کسی کی یاد آئی ، کیوں درد کے آرے چلتے ہیں؟

(مترجم : یونس احمر)

شاعر اس بات سے لاعلم ہے کہ اس آدھی رات کو کون نالۂ سعی کررہا ہے، کون اُس کا نام لے رہاہے جس کی ٹیس اُس کے دل میں اُٹھ رہی ہے۔ نذر الاسلام نے درد دل کو لذتِ حیات سے تعبیر کیا ہے۔یہاں یہ نکتہ بھی اہم ہے اور اپنے اندر وسعت لیے ہوئے ہے کہ جب کوئی اپنا، کسی کا نام لیتا ہے تو اُس کو یقیناً خبر ہوجاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے،جبھی تو شاعر کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے اُس کا نام لیا ہے اور اُس کی یاد آتے ہی اُس کی آنکھیں ڈبڈباگئیں۔ شعر دیکھئے:

وہ کون ہے جس کے نالے سے دل میرا تڑپ کر بیٹھ گیا

کیوں آنسو اُمڈ کر بہنے لگے ، کیا میرا کسی نے نام لیا

شاعر اپنی حیاتِ لاحاصل کی چوٹ کو چھپانے سے قاصر ہے۔ نظم کے اس موڑ پر شاعر کی بے کسی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ اُسے اپنے بیتے دنوں کی یاد آتی ہے جس کی پیاس پھولوں میں اور جس کا نشّہ نغموں میں باقی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اُن میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ تشنگیِ قلب اور پرانا کرب رہ رہ کر شاعرکو کچوکے لگاتے ہیں۔ نظم کے آخری شعر میں ان کیفیتوں کو شاعر یوں بیان کرتا ہے:

اُس دن بھی پیاسا مَن تھا مرا ، اُس دن بھی نشہ تھا آنکھوں میں

وہ پیاس ہے اب تک پھولوں میں ، وہ نشّہ ہے اب تک نغموں میں

جدائی کی گھڑی‘ اپنے موضوع اور خیال کے اعتبار سے ایک عمدہ رومانی نظم ہے جس میں شاعر اپنے محبوب کو جی بھر کر دیکھ لینے کا خواہاں ہے کیونکہ عنقریب وہ ایسے سفر پر گامزن ہوگا جس کی غرض و غایت سے وہ ناآشنا ہے۔ اُس کی آنکھوں میں نیند بھر رہی ہے اور بہت جلد وہ نیند کی بستی میں ہمیشہ کے لیے سونے چلا جائے گا۔ لہٰذا وہ متمنی ہے کہ اُس کا محبوب،بس اُسے دیکھتا رہے۔ شاعر اپنے محبوب کو بارہا یاد دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ اُس کی آنکھوں کا تارا بہت جلد بادلوں میں کھو جائے گا۔ شاعر اس بات کی پیش قیاسی بھی کرتا ہے کہ اب اُن آنکھوں سے آنسو ہی چھلکیں گے، دید کی خوشی کا لمحہ اب کبھی نصیب نہ ہوگا۔ تا عمر دید کے ارماں سینے میں ہی مچلتے رہیں گے۔ زندگی دوبارہ ملاقات کا موقع نہیں دے گی۔ شاعر چاہ کر بھی جدائی کی گھڑی کو ٹال نہیں سکتا کیونکہ یہ اُس کی دانست سے باہر ہے۔ بس اسے یہ گھڑی بطور نعمت عطا ہوئی ہے کہ وہ اپنے محبوب کو اور اُس کا محبوب اُسے، جی بھر کے دیکھ لے۔ نظم کے چند مصرعے دیکھئے:

جی بھر کے ذرا دیکھ جدائی کی گھڑی ہے

منزل ہے کہاں اور کدھر قصدِ سفر ہے

یہ پوچھ شبِ تار کی کچھ اُن کو خبر ہے

جی بھر کے ذرا دیکھ جدائی کی گھڑی ہے

پلکوں میں لیے نیند کی مستی کا شرارا

چھپ جائے گا بادل میں ترے نین کا تارا

آنکھوں میں ابھی سے ترے آنسو کی لڑی ہے

جی بھر کے ذرا دیکھ جدائی کی گھڑی ہے

آنکھیں تری ، آنسو سے چھلکتی ہی رہیں گی

اور دل کی تمنّائیں مچلتی ہی رہیں گی

پَر اُس کو ہے جانا کہ اَجل سر پہ کھڑی ہے

جی بھر کے ذرا دیکھ جدائی کی گھڑی ہے

(مترجم : یونس احمر)

اس نظم میں شاعر نے آنے والے ہجر کے کرب کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ یہ بھی کیا ظلم ہے کہ مستقبل میں پیش آنے والے دکھوں کو شاعر کا دل محسوس کرتا ہے اور اس کرب سے دوچار ہے، جب وہ اس جہانِ رنگ و بو سے چلا جائے گا اور اُس کا پریتم ، اُسے کبھی دیکھ نہ پائے گا۔ شاعر چاہتا ہے کہ محبوب اُس کی دید کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرے کیونکہ کسی بھی صورت وہ اب لوٹ کرآنے والا نہیں، موت کا بلاوا آچکا ہے۔

قاضی نذر الاسلام کی نظم ’شاعر‘ بڑی معنٰی خیز ہے۔ یہ نظم اپنے بطن میں کئی اسرار لیے ہوئے ہے۔کہا جاتا ہے کہ انسان محبت میں لٹ جاتا ہے، برباد ہوجاتا ہے، تباہ ہوجاتا ہے لیکن کبھی کبھی وہ شاعر بھی بن جاتا ہے۔شاعر کوئی معمولی انسان نہیں ہوتا، اُس کی اہمیت کے لیے اتنا کافی ہے کہ اب انسانیت اور اُلفت کا درس دینے آسمان سے کوئی نہیں آنے والا، یہ کام اب شاعر کے ہی ذمہ ہے۔ اس نظم میں قاضی نذر الاسلام نے شاعر ہونے کا سارا کریڈٹ اپنے محبوب کو دیا ہے۔ نظم میں مظاہرِ قدرت سے شاعر لطف اندوز ہوتا ہے کہ اگر خدا نے اتنا حسین جہان خلق نہ کیا ہوتا تو اُس پر اِن مظاہر کی نوازش کیسے ہوتی؟نظم ’شاعر‘ کے چند مصرعے حاضر ہیں:

اسی باعث میں شاعر ہوں کہ تجھ کو پیار ہے مجھ سے

مری حسن آفرینی عکس ہے تیری محبت کا

اسی باعث ہوں قدرت کے مظاہر کو بھی میں پیارا

یہ بادِ صبح ، یہ نورِ سحر ، یہ شام کا تارا

یہ مشرق سے اُبلتا چشمۂ خورشید کا دھارا

نوازش مجھ پہ اُن کی ، فیض ہے تیری ہی اُلفت کا

مری ہستی نہاں تھی تیرے دامن کی پناہوں میں

ملی آخر نئی منزل مجھے تیری نگاہوں میں

ترے ہی دم قدم کی روشنی ہے میری راہوں میں

(مترجم : ش-حقّی)

قاضی نذر الاسلام کی شاعری میں جہاں ہمیں حوصلہ مندی، حالات سے نبرد آزمائی ،انقلابی دھمک ، اشتراکی نظریہ اور انسان دوستی کا پَر تو نظر آتا ہے، وہیں رومان پرور فضا بندی بھی ملتی ہے ۔ قاضی نذر الاسلام کا عشق اور اُن کا معشوق منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ وہ اپنی شاعری سے بیک وقت انقلابی راگ بھی الاپتے ہیں اور اپنی ذات کا نوحہ بھی سناتے ہیں۔ اُن کی نظموں میں محبت کی پاکیزگی ، عشق کی تڑپ، وارداتِ قلبی اور غمِ گیتی کا والہانہ اظہار بھی ملتا ہے۔ کلام سطحیت سے پاک ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نذر الاسلام کی نظمیں محبت و اُلفت کے لطیف اور غِنائیہ لب و لہجے کی آئینہ دار ہیں، تو بے جا نہ ہوگا۔ حبیب انصاری نے نذر الاسلام کی شاعری کے حوالے سے بڑی نپی تلی رائے دی ہے جس پر میں اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’نذر الاسلام نے باغیانہ شاعری کے علاوہ طربیہ شاعری بھی کی ہے۔ غزلیں بھی کہی ہیں اور رومانی گیت بھی لکھے ہیں۔ اِن سب اَصناف میں وہ اپنے رتبے سے گرنے نہیں پایا۔ اُس کے کلام میں موسیقی کی فراوانی ہے، اُس کے الفاظ نغمہ ریز ہیں اور خیالات حسن و عشق کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔‘‘

(نذرالاسلام اور اُس کا پیغام، از: حبیب انصاری، مشمولہ: رسالہ ’مغربی بنگال‘، مدیر: سوکھیندو کمار داس، یکم و ۱۵؍جون ، ۲۰۰۵ء)

 

اسسٹنٹ پروفیسر و کوآرڈی نیٹر، شعبۂ اُردو،

 ویسٹ بنگال اسٹیٹ یونیورسٹی، باراسات ، کولکاتا

نارتھ 24پرگنہ، کولکاتہ-700126

موبائل: 7003350449


No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...