Monday, May 22, 2023

اردو شاعری میں مذاہب اور کلچر

 

اردو شاعری میں مذاہب اور کلچر

خلیق الزماں نصرتؔ

غور وخوض کے بعد یہ بات ذہن میں آئی کہ زبانوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں ۔

(۱)          آسمانی :جو تقدس مآب ہوتی ہیں۔صحیفوں کی زبانیں ہوتی ہیں ۔پیغمبروں اور نبیوں کے ذریعہ جو بنی نوعِ آدم کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل ہوتی ہیں۔ عبرانی سنسکرت اور عربی زبانوں کو ا ن میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔آسمانی زبانیں اپنے مذہبی تقدس کی بنا پر زند ہ رہتی ہیں ۔

(۲)          سلطانی :یہ وہ زبانیں ہوتی ہیں حکومتیں اور سرکار دربار جن کی سرپرست اور نگراں ہوتی ہیں ۔ہمارے ملک سمیت ماضی اور حال میں علی الترتیب فارسی اور ہندی زبانیں سلطانی زبان کے رتبے پر فائز رہی ہیں ۔ان زبانوں کا استعمال سرکار کے خزانے کے عامرہ اور طاقت کے زور سے چلتا ہے ۔اس لیے سرکاری دفاتر میں یہ زبانیں چلتی ہیں ،مگر وہیں تک محدود بھی رہ جاتی ہیں ۔

(۳)          عوامی :یہ وہ زبانیں ہوتی ہیں جنھیں قوموں کا تمدن باہمی ربط و ضبط اور ضرورتوں کا تبادلہ، تہذیبی، ثقافتی عائلی، خاندانی، شادی بیاہ موت و میت، انفرادی گھریلو، شہری محلہ واری، علاقہ واری اور اجتماعی تقاریب میں جنم دیتے ہیں ۔ان کو نہ تو آسمانی زبانوں کا تقدس حاصل ہوتا ہے ۔نہ سرکار دربار کی سرپرستی ملتی ہے ،لیکن عوامی زبان فطری اور منطقی طور پر خوب پھلتی پھولتی ہے۔

یہ زبان دیگر زبانوں کے اپنے مزاج سے ہم آہنگی صالح اور صحت مند اجزا جذب کرلیتی ہے اور عام رابطے کی مقبول زبان بن کر عوام پسندی اور رائج زبان کا تاجِ افتخار حاصل کرلیتی ہے۔اردو زبان بھی ایک ایسی مقبول زبان ہے جو عروس ہند کے ماتھے پر افتخار کا دمکتا جھومر ہے ۔

ماہر القادری کے مطابق:

اس کو قوموں کے تمدن نے کیا ہے پیدا

کون کہتا ہے کہ لشکر کی زباں ہے اردو

پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی کے خیال میں اردو، سنسکرت اور فارسی زبانوں کا مرکب ہے ۔سنسکرت میں ’’ار‘‘کے معنی دل اور فارسی میں ’’دو‘کے معنی ’۲‘ کے بتائے جاتے ہیں ۔اس وضاحت سے اردو زبان دو دلوں کے اتحاد کی نشاندہی کرتی ہے ۔

جناب بشیشور پرساد منور لکھنوی لکھتے ہیں:

’’اُردو زبان کو جنم دینے ،پالنے پوسنے اور پروان چڑھانے میںہندوستان میں بسنے والی جن جماعتوں نے حصّہ لیا ہے، ان میں مسلمان، کائستھ اور کشمیری پنڈت خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ کائستھوں کا اس انتظامی مشینری میں اتنا دخل تھا کہ پٹواری کے ادنیٰ ترین عہدے سے لے کر دیوان میں بھی بلکہ بعض حالتوں میںوزیر اعظم کے اعلیٰ ترین عہدوں کے فرائض انہوں نے انجام دیے۔‘‘

’’انتظامی حکومت کے سلسلے میں مسلمان حکمرانوں اور ان کے نائبان ِ سلطنت کے ساتھ مسلسل ربط و ضبط کا ایک خوشگوار نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف عربی، فارسی اور ترکی اور دوسری طرف سنسکرت ،برج بھاشا نیز دوسری دیسی زبانوںکے اختلاط سے اُردو زبان پیدا ہوئی ۔یہ وہ زبان تھی جو شاہی محلّات میں پلی اور ہندوئوں اور مسلمانوں نے اس کو یکساں طور پر اپنا نورِ دید سمجھ کر حتیٰ کہ کشمیری پنڈتوں اور کائستھوں نے اس کو مسلمانوں کی طرح اپنی مادری زبان قرار دیا۔‘‘ (اُردو زبان اور کائستھ، ص: ۶۵)۔

... اُردو زبان سنسکرت ، عربی، انگریزی، فارسی، عبرانی، زبانوں کی طرح ایک ایسی مافوق الورا زبان نہیں ہے جس کے تقدس نے ان کو اب تک زندہ رکھا ہے۔ بلکہ اُردو قوموں کے تمدّنی مسائل اور معاشرتی ضرورتوں کی دین ہے۔ اس کا تاسیسی دور فطری ہے۔ جب متعدد مذہبی اکائیوں اور ان اکائیوں کے اندر بھی متعدد اکائیوں کے مابین خیالات اور ضروریات کے تبادلے کا مسئلہ پیدا ہوا تو اُردو زبان کی تشکیل کی گئی۔ اس سے یہ بات کُھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اردو کو مسلمانوں کی زبان نہیں کہا جا سکتا ، جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ بھاری بُھول کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی اگر کوئی زبان ہو سکتی ہے تو وہ ان کے اپنے ایمان کے تقاضوں کے مطابق عربی ہی ہو سکتی ہے جو مقدس آسمانی کتاب قرآن کی زبان ہے۔ اُردو خالص ہندوستانی زبان ہے۔ وہ اسی آب و ہوا میں پیدا ہوئی ہے اور پروان چڑھی ہے۔ اس کے الفاظ و محاورات سیدھے سادے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ عوام کے اپنے جانے پہچانے بھی ہیں۔ مثلوں، مقولوں، اور کہاوتوںکا جو سرمایہ اردو زبان میں محفوظ کیا گیا ہے وہ ہماری دیہی عوامی زندگی سے ماخوذہے۔ کیونکہ دیہی زندگی میں خواندگی کا معیار صفر ہوتا ہے، لیکن تجربے کی آنچ ان کو اور بھی کٹھالی میں تپا پگھلا کر کُندن بناتی رہتی ہے۔ اس لیے ان کی سادہ ،عام فہم زبان نے اردو زبان کو ایک ایسی سادہ و پرکار عروس بنادیا ہے کہ ہر کوئی اس پر مر مٹتا ہے۔

اُردو کے متعلق مشہور محقق ڈاکٹر تارا چند فرماتے ہیں:

 ’’لوگ اردو کے متعلق کچھ کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ہندی زبان کا کوئی رُخ اور کوئی پہلوایسا نہیں ہے جسے اُردو ادب میں پیش نہ کیا گیا ہو۔ اُردو میں اپنشدوں کے ترجمے موجود ہیں۔سمرتیوں ،مہابھارت اور بہت سے پرانوںکے ترجمے اُردو میں مل سکتے ہیں۔ہندو مذہبیات اور فلسفۂ مذہب پر اُردو میں بڑی بڑی تصانیف ہیںجن میں دیومالا ہندوئوں کی عبادتوں اور جاتراؤں پر عالمانہ بحث کی گئی ہے۔ ان کے علاوہ ہندو آرٹ خصوصاً موسیقی پر کثرت سے اُردو کتابیں موجود ہیں ۔سنسکرت کی بہت سی کہانیوں اور ڈراموں کے اُردو ترجمے کیے گئے ہیں اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ انیسویں صدی کے آخر تک بہت سے ہندو اُردو کو اپنی زبان سمجھتے تھے۔ہندو شعرا اور نثر نگار بکثرت تھے ۔ شمالی ہند کے پڑھے لکھے ہندو نہ صرف معلومات کے لیے بلکہ ذوقِ سلیم کے تقاضے کے لیے اُردو کتابیں پڑھتے تھے ،اس زمانے میںہندو محض بے جا تعصب کی بنا پر اردو کو بھولتے جا رہے ہیں ۔حالانکہ اُردو نے ہندوئوں کی بڑی خدمت کی ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کیا۔ اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کے اس مُلک میں آنے کے بعد اُردو زبان نے جنم لیا ہے۔ اس لیے اس پر اسلامی روایات کا اثر سہواً ہو گیا ہے، لیکن اس کے بانی ہندو اور مسلمان دونوں ہی تھے۔ اس لیے اس جس طرح مُسلمان اردو پر فخر کرتے ہیں اسی طرح ہندوئوں کو بھی اس پر فخر کرنے کا حق حاصل ہے۔ کیونکہ اُردو کو بنانے اور سنوارنے میں ہم سب برابر کے حصّہ دار ہیں۔ بے شمار ہندو اہل قلم شاہجہاں کے زمانے سے اب تک اپنے جذبات، خیالات کے اظہار کا ذریعہ اُردو کو بناتے رہے ہیں۔‘‘

اُردو زبان کی تشکیل و تاسیس اور اس میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے مشترکہ حصّے کے بارے میں ڈاکٹر تاراچند نے اوپر جو کچھ کہا ہے اس کی مزید گواہی اردو کے ایک اور محقق اور اسکالر ڈاکٹرگوپی چند نارنگ کی درج ذیل سطور سے ملتی ہے:

’’اُردو زبان ایرانی اور ہندوستانی تہذیبوں کے سنگم کا وہ نقطہ ہے جہاں سے دونوں کے دھارے ایک ہو کر بہنے لگ جاتے ہیں۔ اردو کے چمن زار میں جہاں لالہ و یاسمن کی جلوہ طرازی ہے، وہاں ٹیسو اور سرس کے پھول بھی نظر آتے ہیں، ان کی آبیاری کسی ایک قوم کی رہین منّت نہیں بلکہ ہندو مسلمان دونوں نے مل کر اسے اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے۔ اُردو میں رواداری ،محبت اور اخوت کا جذبہ اتنا ہی قدیم ہے، جتنا کہ خود ہندوئوں اور عجمیوں کا سابقہ اردو میں اتحادویگانگت کی روایت کسی خلا کی پیداوار نہیں ہے۔ اس کی پشت پر ہزار سال کے ارتقا کی تاریخ ہے۔ اردو ادب نے باہمی علاحدگی اور نفرت کی خلیج کو پُر کرنے کی ہمیشہ سعی کی ہے اور یہ وہ رشتہ ہے جو کعبے کو شوالے سے اور ہندو کو مسلمان سے جوڑ رہا ہے، اور جوڑے ہوئے ہے۔ اردو کی ہی سوچ اور اس کی وسعت عبارت ہے ہندوستانی تہذیب سے جس کے ہاتھوں اُردو کا خمیر اُٹھا ہے‘‘۔ مسلماں گو فاتح تھے لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد وہ یہیں کے ہو گئے اور ان کے بے تکلف میل جول اور معاشرت،ادب اور حکومت کی باہمی شرکت کی وجہ سے اُردو زبان پیدا ہوئی جو اِن قوموں کے اتحاد و تہذیب کی بے نظیر یادگار ہے۔‘‘(اُردو کی تہذیبی قدروقیمت)

اُردو زبان کی تخلیق ،تشکیل اور تاسیس کے تعلق سے یہ ان فاضل ہندو واہلِ قلم اور محققین کی شہادتیں ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اس لیے یہ بلا تامل کہا جا سکتا ہے کہ اُردو کوئی غیر مُلکی زبان نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ہند کی آریائی زبانوںسے ہے۔ہندوستان میں اُردو کو بہت بڑی اہمیت صدیوں کی اس لسانی اور تمدّنی تحریکات سے حاصل ہوئی ہے۔ وسط ایشیا سے آریاؤں کی آمد سے مُسلمانوں کی فتوحات تک شمالی ہندوستان میں جس بولی کا راج رہا وہ مدھیہ پردیش کی کسی نہ کسی بولی پر مبنی تھی۔مسلمانوں کی فتح دہلی کے وقت شورشینی ، اپ بھرنش کی ایک جدید شکل اختیار کرچکی تھی اور آہستہ آہستہ عوام کی ڈگر سے دُ ور ہٹ رہی تھی ، عوام کی زبان کا دھارا برابر آگے بڑھ رہا تھا۔ سندھ و پنجاب میں پشپاچی اور مدھیہ پردیش میں شورشینی پراکر تین نئی اپ بھرنشوں (بگڑی بولیوں) کے لیے راستہ صاف کرچکی تھیں۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد لسانی تحریکیں اس قدر گڈمڈہوگئی تھیں کہ بیرونی اور اندرونی زبانوں کے دائرے عموماً ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں ‘‘۔

(اُردو کی تہذیبی قدرو قیمت: مالک رام)

’’اُردو ایک مخلوط زبان ہے۔ ہندوستان کی تہذیب کی جاندار روایات کو آگے بڑھانے میں جن عوامل کا ہاتھ ہے ان میں ایک اُردو زبان بھی ہے۔ اُردو ادب نے ’’ہندوستانیت ‘‘ کے وسیع مفہوم کو ہمیشہ مدنظر رکھا ہےاور اسے مختلف طریقوں سے ہم تک پہنچایا ہے، اس میں شک نہیں کہ اردو نے عربی اور فارسی سے بہت کچھ لیا ہے لیکن وہ فارسی کا وجودِظلّی نہیں۔ میرؔ۔میرؔحسن ۔غالب ؔاور جگرؔکی زبان خیّام یا حافظ کی زبان نہیںان کی اپنی زبان ہے جو ملک کے تاریخی اور تہذیبی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے۔‘‘(اُردو کی تہذیبی قدروقیمت:مالک رام)

مسلمانوں کے دورِ عروج میں جب ان کی سلطنت پورے ہندوستان پر پھیلی تھی، بالعموم فارسی زبان رائج تھی، اردو کا ابتدائی دور تھا ۔جب ہندوستان میں مسلمانوں کی سلطنت کو زوال آیااور ایک ایک کرکے ان کی ساری چھوٹی بڑی سلطنتیں انگریزوں کے قبضے میں چلی گئیں ۔انگریزوں کے تسلط اور انگریزی زبان کے ہمہ گیر اثرات کے زمانے میں اور فارسی زبان کے پس منظر میں چلے جانے کے بعد ہندو مسلم میں زبان اور رابطے کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا، اس وقت ہندو اور مسلمان دونوں نے مل کر اردو زبان کو منتخب کیا ۔

اس کا سبب یہ تھا کہ اس وقت تک اردو کے علاوہ کسی اور زبان میں اتنی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی تھی کہ وہ ملک کی مشترکہ زبان (Lingua Franca)بن سکتی اور یہ عوامی زبان بن گئی۔اس لیے اردو خالص ہندوستانی زبان ہے ۔وہ اسی آب و ہوا میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی۔زبانوں کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ زبانیں اپنی تہذیبی علامتوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں ۔

اردو زبان کو جس تہذیب نے جنم دیا ہے وہ ایک مخلوط ہندوستانی تہذیب تھی۔ابتدائی اردو کے بارے میں کئی نظریے ہیں۔ اردو دکن میں بھی اپنی ابتدائی دور میں تھی اس کو دیکھ کر دکن کو ہی اردو کا خطّہ کہا جاتا ہے ۔اس کی ایک وجہ گولگنڈہ اور بیجاپور کی قطب شاہی اور عادل شاہی حکومتیں شمالی ہندوستان کے مقابلے میں فارسی کے ماحول سے زیادہ آزاد تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کے شعرا دکن میں ہندوستانیت کا کافی ذکر آیا ہے ۔ ڈاکٹر رضی عالم لکھتے ہیں:

’’مذہب فرد اور معاشرہ کی تربیت کرتا ہے۔ایک بامقصد زندگی گزارنے کے لیے شعور بخشتا ہے ۔ دنیا اور آخرت کے لیے ایک قاعدہ اور مرتب لائحۂ عمل پیش کرتا ہے۔نیک و بد کی تمیز اور شعورکو جلا بخشتا ہے‘‘ کافی اسکالروں نے اپنے اپنے طور سے مذہب کی تعریفیں کی ہیں۔اس لیے تو تہذیب یافتہ زبانوں میں اس کی پیروی کی گئی ہے۔

ہندستان کی تہذیب توبہت پرانی ہے مگر آریاؤں کے آنے کے بعد سے جس تہذیب نے جنم لیا اس کا تذکرہ ہندوستان میں رائج ہے، اس کے پہلے کی معلومات پر زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے، اس کا خاص ماخذ موہن جوڈارو اور ہڑپا کی کھدائی ہے جس سے کوئی خاص جانکاری نہیں ملتی ہے ۔آریاؤں کے آنے کے بعد کا اثر ہندوستان کی تہذیب پر بہت گہرا پڑا ہے اور اسی کی چھان بین کر کے کتابوں میں ذکر ملتا ہے۔ ہندوستان میں بھی مسلمان آئے۔ان میں کچھ تو تجارت کی غرض سے، کچھ تبلیغ کے لیے آئے۔ ان دونوں کے میل جول سے جو ماحول بنا اس کا ذکر اردو زبان میں ملتا ہے۔ اردو میںہندو مسلمان کے تہوار وں کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے ۔

قلی قطب شاہ ۱۵۸۰ء میں تخت پر بیٹھا جس کا یہ شعر تو آج بھی برمحل کے طور پر استعمال ہوتا ہے:

پیاباج پیالہ پیا جائے نہ

پیا باج یک تل جیا جائے نہ

قلی قطب شاہ کے اشعار میں ہندوستانی ماحول کا ذکر جابجاملتا ہے ۔ان میں ہندواور مسلمان کے تہذیبی تال میل کا ذکر ہے ۔ان کے مطالعے سے ہندوستانی فضا کا جیتا جاگتا روپ سامنے آجاتا ہے۔ اس زمانے میں زیورات کیسے ہوتے تھے ۔لباس کا ملا جلا نقشہ نظر کے سامنے آجاتا ہے۔سندور ہندوستانی تہذیب کا ایک حصہ ہے ۔اسے ہند ومسلمان دونوں استعمال کرتے تھے:

پلک کانٹے نین باندیا نہ جاوے خیال تیرے کن

رقم اس خیال موپیشانی کوں سندو کر ساقی

بسنت کا موسم بڑا پیارا موسم ہوتا ہے ۔اس کا سواگت کرتے ہوئے قلی قطب شاہ کہتے ہیں:

بسنت کھیلیں ہمن ہور ساجنا یوں

کہ آسماں رنگ شفق پاباہے سارا

ان کے اشعار میں جابجا ہندوستانی پھولوں، کھیلوں تہواروں اور رسم ورواج کا ذکر ہے ۔دیوی دیوتائوں کے حوالے ہیں۔کہنے کا مطلب ابتداہی سے اردو شاعری میں ہندوستانیت ہے ۔ڈاکٹر سیدہ جعفری لکھتی ہیں:

’’دکن میں ایرانی اور ہندوستانی تہذیبی عناصر کے میل سے جس تمدن کا خمیر اٹھا تھا وہ لباس کی تزئین ،تراش خراش، رہن سہن کے طریقوں ، طرز تعمیر آداب و معاشرت اور طرز فکر کے اعتبار سے ایک مخلوط تہذیب کا آئینہ دار تھا…قلی قطب شاہ نے اپنی شاعری میں جہاں اپنے مذہبی خیالات کا اظہار کیا ہے وہاں ہندوستانی طرز ِفکر اور ہندوستانی کلچر کا اثرنمایا ں کیا ہے۔یعنی محمد علی قطب شاہ اپنی فکر میں خالص ہندوستانی طرز ِ فکر کا اظہار کرتا ہے ۔‘‘

دکن کے ہی علی صاحب میاں جنہوں نے ہند و مسلم اتحاد پر زور دیتے ہوئے طنز کے تیر چلائے ہیں:

اپنا گلّا ہے، ہاتھ بھی اپنے

اپنی کمر ہے لات بھی اپنے

ہندو مسلم نفاق کیا بولوں

ہونٹ بھی اپنے دانت بھی اپنے

ابراہیم عادل شاہ کی ایک تخلیق ’’نورس ‘‘میں ایسے گیت ہیںجو ہندو دیومالاسے منتج ہیں، شیو،پاروتی، سرسوتی، اندر وغیرہ کا ذکر باربار ملتا ہے ۔ جمیل جالبی کے مطابق قابل ذکر بات یہ ہے کہ اردو کی پہلی مثنوی کا عنوان ہی کدم رائو پدم رائو ہے۔ اس کو فخر دین نظامی نے لکھا تھا۔اردو شعرا نے اس وسعت نظر کا مظاہرہ کیا جس کی نظیر عالمی ادب میں بھی نہیں مل سکتی۔ ایک مذہب کے ماننے والوں نے دوسرے مذہب کے مذہبی بزرگوں کو اپنی روایت کا جز بنایا اور دوسرے مذہب کے ماننے والوں نے پہلے مذہب کے رہنماؤں کو خراج عقیدت پیش کیا۔اس کے علاوہ شیخ و برہمن کی باتیں اردو شاعری میں بھری پڑی ہیں :

شیخ ہو یا برہمن معبود ہے سب کا وہی

ایک دونوں کی منزل پھیر کچھ راہ کا

(نامعلوم(

نہ مسجد میں نہ بت خانے میں دیکھا

جو جلوہ دل کے کاشانے میں دیکھا

)رنگین (

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ مرے آگے ہے کلیسا مرے پیچھے

)غالبؔ(

لڑتے ہیں جاکے باہر یہ شیخ اور برہمن

پیتے ہیں میکدے میں ساغر بدل بدل کر

)مائلؔدہلوی(

زاہد وہی ہے کعبہ میں بت خانہ میں وہی

پھر وہ خدا ہی کیا جو کہیں ہو کہیں نہ ہو

)قیصرؔدہلوی(

جو سمجھیں حسن بتاں کو ایمان انہیں رہ کفر دیں ہیں یکساں

پہنچتے کعبے کو ہیں مسلماں ہمیشہ چین و فرنگ ہو کر

)ذوق(

کعبے میں جو ہے شیخ وہی بت کدہ میں ہے

نا حق کا تیرے دل میں یہ بھٹکائو پڑ گیا

)بہادر شاہ ظفر (

علامہ اقبال نے تو یہاں تک کہہ دیا:

زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا

اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

شمال میں جب ولی دکنی آئے تو انہوں نے بھی اس طرح کے اشعار کہے:

جودھا جگت کے کیوں نہ ڈریں تجھ سے اے صنم

ترکش میں تجھ نین کے ہیں ارجن کے بان میں

میر:

کفر کو چاہئے اسلام کی زینت کے لیے

حسن زنار ہے تسبیح سلیمانی سے

 اسی بات کو تو لالہ ٹیک چند بہار نے کہا تھا:

وہی اک ریسماںہے جس کو ہم تم تار کہتے ہیں

کہیں تسبیح کا رشتہ کہیں زنار کہتے ہیں

اگر جلوہ نہیں ہے کفر کا اسلام میں ظاہر

سلیمانی کے خط کو دیکھ کیوں زنار کہتے ہیں

راجہ نول رائے وفا:

شیخ کچھ فرق ہے تیرے ہی نظر آنے میں

ورنہ ہے ایک وہی کعبہ و بت خانے میں

یہ تو چند مثالیں ہیں ورنہ دونوں مذاہب کے شعرا نے یکجہتی کے اشعار کہے ہیںجنہیں یکجا کیا جائےتو لاکھوں صفحات کی کتاب ہو جائے گی۔

انشا:

سانولی تن پر غضب دھج ہے بسنتی شال کی

جی میں ہے کہہ بیٹھئے اب جے کنھیا لال کی

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ انشا مسلم دربار سے منسلک تھے۔

نظیر اکبر آبادی اپنی شاعری میں پہلی بار ہندوستانی پرندوں، اڑنے والے کیڑے مکوڑوںکا جگہ جگہ پر اتنا استعمال کیا جتنا سب نے مل کر نہیں کیا ہوگا۔ ان میں سے چند کے دیہاتی نام میں درج کرکے آپ کو بتا سکتا ہوں۔ اس کے لیے میں نے فرہنگ نظیر از شریف احمد قریشی سے مدد لی ہے۔ ابابیل، ابلقا، اگن، بگیری، پدی، بھنوری، جھینگر، چنڈول، کونچ، ممولا، ٹڈی، چمگاڈر، پسو، سارس، بیربہوٹی، ٹٹو، چھپکلی، کھٹمل،کیچوا،گلہری وغیرہ باجے گاجے کے نام۔ بانسری، بین، تاشہ، جھانجھ، ڈفلا، ڈگڈگی، ڈھپلی ڈھولک، سارنگی، طبلہ، جھلنی، ڈمرو وغیرہ۔نظیر نے ہندوستانی کہاوتوں اور محاوروں کو بہت زیادہ استعمال کیاہے۔

دیکھئے آدھے اساڑھ تو دشمن کے برسے۔آئی ہوا بھی لے کر بادل کو ہر نگر سے۔ آدھے اساڑھ تو اب دشمن کے گھر سے برسےاساڑھ کی بارش بہت زیادہ ہوتی ہے۔ نظیر کا مزاج اس سے بھی سیراب نہیں ہو پاتا ہے:

بات کو ہنسنے کو دے دے جھڑکیاں تر سائیںگے

پانڈے جی پچتائیں گے وو ہی چنے کی کھائیںگے

میر ے کہنے کا مقصد نظیر نے اپنی شاعری میں ہندوستانی الفاظ کا استعمال کر کے ہندی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔مذکورہ بالا الفاظ کا استعمال بتانے کا مقصداجتمائی زندگی کا یہ باہمی تعلق سرسری ا ور اتفاقی نہیں ہے۔ یہ ہندوستانی کلچر ہے جس میں ہم جی رہے ہیں۔

ایک اچھی بات اور یاد دلادوں کہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے ووٹر لسٹ میں اپنی مادری زبان اردو ہندی لکھوائی تھی۔ گزشتہ دو تین صدیوں کا ہندوستانی اردو لٹریچر ہر فرقہ کی مشترکہ کوششوں اور ذہنی صلاحیتوں کی کمائی ہے اور وہ ہندوستانی تہذیب، سماج اور مزاج کا ایک تلازمہ بن گئی ہے۔اس میں ہندوستان کے ماضی کی ادبی اور سماجی تاریخ ہے۔ اردو زبان میں ہندوستانیوں کے بدلتے شعور کی عکاسی، حیات نو کی دھڑکنیں، فکر و جذبے کا آہنگ اور ہردور کے انقلاب کے لہو کی گرمی شامل ہے ۔اردو کی ترقی میں ہندو مسلم دونوں کا ہاتھ ہے ۔

ڈاکٹر سید مجاور حسین رضوی اردو شاعری میں قومی یکجہتی کے عناصر میں ص ۴۵۰ پر لکھتے ہیں:

’’ اردو شعرا نے اس وسعت نظر کا مظاہرہ کیا جس کی نظیر عالمی ادب میں بھی نہیں مل سکتی۔ ایک مذہب کے ماننے والوں نے دوسرے مذہب کے مذہبی بزرگوں کو اپنی روایت کا جز بنایا اور دوسرے مذہب کے ماننے والوں نے پہلے مذہب کے رہنماؤں کو خراج عقیدت پیش کیا‘‘

منشی شنکر لال ساقی:

تحقیق سے پتہ چلا کہ سب سے پہلے غیر مسلم نعت گو شاعر منشی شنکر لال ساقی تھے۔ان کی نعت کے یہ اشعار دیکھیں:

جیتے جی روضۂ اقدس کو نہ آنکھوں نے دیکھا

روح جنت میں بھی ہو گی تو ترستی ہو گی

نعت لکھتا ہوں مگر شرم مجھے آتی ہے

درگا سہائے سرور جہاں آبادی نے کہا:

اے آبرودِ گنگا اف ری تری صفائی

یہ تیرا حسنِ دل کش ‘یہ طرز دل ربائی

گنگا کے تقدس کے لیے دونوں مذاہب والوں نے اپنے اپنے طور سے خراج پیش کئے ہیں:

جگدیش ناتھ بیتاب:

جنبش کہکشاں ہے سیال آسماں ہے

نورخ بتاں ہے شمشیر آسماں ہے

گنگا رواں دواں ہے

اک بحر بے کراں کو

مہاراجہ بہادر برق نے اپنی طویل نظم یہ ہندوستان جنت نشاں کے ایک بند میں گنگا کے تعلق سے کہا ہے:

گنگ و جمن ہیں کوثر و تسنیم کا جواب

ہے جن کے آگے چشمۂ حیواں بھی آب آب

سیل رواں کی دید کے قابل ہے آب وتا ب

ہے شور موج میں اثر نغمۂ ر باب

باہر بیان سے ہیں جو ان میں صفات ہیں

تر دامنوں کے حق میں یہ آب حیات ہیں

تو ایک صوفی صفت مسلم شاعر محسن کاکوروی نے گنگا کے تعلق سے ایک شعر ایسا کہا کہ شاہکار بن گیا:

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا گنگا جل

 مذہب اسلام میں عدل و انصاف پر کافی زور دیا گیاہے۔ کربلا کی جنگ نے اسلام پر بڑا اثر ڈالا ہے۔ اب تک لاکھوں صفحات اس تعلق سے لکھے جاچکے ہیں۔ اردو شاعری بھی اس کے اظہار کے قدم سے قدم ملاکر چل رہے۔ انیس اور دبیر جیسے کئی شاعروں نے تو اپنی پوری زندگی اسی کام میں لگا دی۔اردو کا کوئی ایسا شاعر نہیں ملے گا جس نے کربلا کے واقعہ کو اپنی شاعری میں استعمال نہیں کیا ہوگا،کم سے کم استعارے کے طور پر ہی سہی اس کا سہارا ضرور لیا ہوگا۔

دواکر راہی اور اردو کے دوسرے ہندو شعرا نے کربلا کے حالات نظم کئے، واقعۂ کربلا پر مسلمانوں نے شعر کہے تو ہندوؤںنے بھی اشعار کہے اور عوام سے خوب داد وصول کی ہے ۔

مولانا محمد علی جوہر :

قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

رگھو بیر سنگھ دواکر راہی:

وقار خون شہیدان کربلا کی قسم

یزید مورچا جیتا ہے جنگ ہارا ہے

شگون چند روشن:

تونے شہید ہو کے جفا کو مٹا دیا

روشن ہے تیرے نام سے نام وفا حسین

کربلا کے واقعات لاکھوں ہندو شعرا نے بھی اپنے اپنے طور سے لکھے ہیں۔

منشی چھنو لال دلگیر:

کہنے لگی سکینہ صغریٰ پکار کر

اٹھ کر پدر کے زانو سے آؤ ذرا ادھر

بیمار کو بھلا دیا کیوں تم نے اس قدر

یہ آج کیا ہے تم جو ملاتی نہیں نظر

تم نے سفر سے پہلے ہی توڑی کمر مری

کیوں آج صبح آ کے نہ پوچھی خبر مری

 رامائن ہندوئوں کی مقدس کتاب ہے۔ ہندوستان کے قابل قدر تاریخ داں اجے مالوی نے اس کے بارے میں اپنی تحقیقی کتاب ’’ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز‘‘ میں معلومات اس طرح دی ہیں:

’’ہندوستانی ادبیات میں دو رزمیہ صحائف ہیں ایک رامائن اور دوسرا مہابھارت ہے۔ رامائن سناتن دھرم کا پہلا رزمیہ صحیفہ ہے جو مہابھارت سے قبل دوسری یا تیسری صدی میں وجود میں آ چکا ہے۔اس میں چوبیس ہزار اشلوک تخلیق کیے گئے ہیں۔

سناتن دھرم کا زیادہ تر تبلیغی ادب اردو زبان میں ہے۔ یہ ذخیرہ اتنا بڑا ہے کہ ہندو مذہب سے متعلق ہندوستان کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں ہندو مذہب کا سرمایہ اگر سب سے زیادہ بھی نہیں ہے تو کسی سے کم بھی نہیں ہے بلکہ بیشتر زبانوں سے زیادہ ہے۔

رامائن کا ترجمہ سب سے پہلے اکبر کے زمانے میں عبدالقادر بدایونی نے فارسی میں کیا۔ اس کے بعد ہندومسلم دونوں شعرا نے اس کے اردو میں ترجمے کئے۔ اب تو دنیا کی کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو گیا ہے ۔اس کہانی کا چرچا ہندوستان ہی کیا تقریباً ساری دنیا میں ہو گیا ہے۔‘‘

’’اردو کا مزاج ہمیشہ سے ہی سے سیکولر رہا ہے اور مذہبی رواداری اس کے خمیر میں داخل ہے۔ ہندو شعرا اور علما کے شانہ بشانہ مسلم شعرا اور ادبا نے بھی رام کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق اردو زبان میں ۱۰۱رامائن اب تک شائع ہو چکی ہیں۔ اردو زبان کی پہلی رامائن شنکر دیال نے شائع کی تھی۔ یہ رامائن ۱۸۶۴ءمیں منشی نول کشور لکھنؤ نے طبع کی تھی۔‘‘  (ڈاکٹر اجے مالوی کتاب، ص:۳۳ (

چکبست نے رامائن کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔اس میںسے چند اشعار پڑھ لیں:

دونوں کے دل بھر آئے ہوا اور ہی سماں

گنگ و جمن کی طرح سے آنسوہوئے رواں

ہرآنکھ کو نصیب یہ اشکِ وفا کہاں

ان آنسوؤں کا مول اگر ہے تو نقدِ جاں

ہوتی ہے ان کی قدر فقط دل کے راج میں

ایسا گہر نہ تھا کوئی دسرت کے تاج میں

وحشیؔ کانپوری کی بے مثال نظم’’دروپدی چیرہرن‘‘کا یہ واقعہ ہر ایک ہندوستانی کو ازبر ہے، آخری بند دیکھئے:

ساری کھنچنے لگی دیوی کی ادھر طاقت سے

تھان پر تھان ادھر کھلنے لگے سرعت سے

دشمنِ ننگ بہت برسرِآزار ہوا

چیر بڑھتی ہی گئی تن نہ نمودار ہوا

آخرش چیر کے بڑھنے کا یہ طومار ہوا

وہ جو دربار تھا اک کپڑے کا بازار ہوا

رامائن کا ایک منظوم ترجمہ راجستھان کے مولوی بادشاہ حسین رعنا لکھنوی نے ۱۹۳۵ءمیں کیا تھا۔ پچاسوں منظوم رامائن میں اس کے چند اشعار آپ کے مطالعہ کے لیے پیش کر رہا ہوں،جس میں بن باس کی واپسی کا منظر کچھ اس طرح بیان کیا ہے:

الغرض چودہ برس کے بعد سارا قافلہ

کام سارے کر چکا اور راجدھانی کو چلا

اپنے اپنے فرض کو ہر ایک نے پورا کیا

ہوگیا بن باس کی سب آفتوں کا خاتمہ

راست بازی جاں خوشی کی پھر کہانی بن گئی

پھر اک نئے سرے سے ایودھیا راجدھانی بن گئی

 کئی کتابوں کے مطالعہ کے بعد اجے مالوی نے ہندو شاعروں کے ساتھ ساتھ مسلم شاعروں کے بھی نام دیے ۔اسی کتاب سےاب ایک حوالہ مسلم شاعروں کی بھی لے لیں ۔ طالب الہ ا ٓبادی نے ایک اشلوک کو اس طرح پیش کیا ہے۔جب رام ، راون کی بہن شوپر نکھا کی ناک کاٹنے کا حکم دیتے ہیں تو وہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکشمن ا س حکم کی تعمیل اس طرح کرتے ہیں،اسے پڑھیں:

پلک جھپکتے ہی تیزی سے بڑھ کے لکشمن نے

پکڑ کے بال وہیں ناک کان کاٹ لیے

کٹی جو ناک تو وہ ننکا کے چلّائی

یہی مچا تی ہوئی شور ایک طرف بھاگی

ابھی میں بھائی کو اپنے یہاں بلاتی ہوں

کٹی ہے ناک تو تم کو مزہ چکھاتی ہوں

ایک طرف اگر مسلم شاعروں نے ہندوئوں کے مذہبی بزرگوں اور دیوی دیوتائوںکے بارے میں نظیں لکھی ہیں تو دوسری طرف ہندو شاعروں نے بھی اپنی نظموں سے مسلمانوں کے پیر اور پیغمبروں کی خوب تعریفیں کی ہیں۔ طوالت کے خوف سے میں چند مثالیں ہی دے پائوں گا، اقبال نے نانک کے عنوان سے یہ نظم لکھی :

قوم نے پیغامِ گوتم کی ذرا پروا نہ کی

قدر پہچانی نہ اپنے گوہرِیک دانہ کی

پھر اٹھی آخر صدا تو حید کی پنجاب سے

ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے

حضرت محمدؐ کے بارے میں ہزاروں ہندوشاعروں نے نعتیں کہی ہیں ۔درشن سنگھ دگل کے چند اشعار پڑھتے چلیں:

روح انسان کو حقیقت سے ملانے والے

مرحبا نغمہؐ توحید سنانے والے

بخت درشن پہ بھی اک بار نظر ہوجائے

بگڑی تقدیر زمانے کی بنا نے والے

چرنجی لال نور:

خدا جو ہے مسلمانوں کا وہی ہے نور اپنا بھی

جو منکر ہے انہیں کافر بتایا ہے محمدؐ نے

گوپی ناتھ امن:

ہم سب کے محسن جناب رسول پاک

تعلیم جن کی اب بھی ہے زندہ و تابناک

پنڈت رتن ناتھ سرشار نے اپنی ایک مثنوی میں ایک شعر استعمال کیا ہے وہ پڑھنے کے  لائق ہے:

ہم لوگ برہمنان کشمیر

اولاد حضور شاہ و شبیر

مہاراجہ چندو پرساد شاداں کے یہاں اس قبیل کے بہت اشعار ملتے ہیں جن سے ان کی عقیدت کا بھی پتہ چلتا ہے:

ہے احمد بے میم کا دربار مقدس

جو عرش خدا ہے وہ ایوان مدینہ

کافر نہ کہو شاد کو ہے عارف و صوفی

شیدائے محمدؐ ہے وہ شیدائے مدینہ

 

حضور سرور عالم کی شان صل علیٰ

کہ کائنات میں ان کا کوئی جواب نہیں

اگر ہندو شاعرو ں نے بابا گرونانک پر نظمیں لکھیں تو مسلمان شعرا نے بھی اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے:

کنور مہندر سنگھ بیدی سحر:

اس طرح آخر ہوا دنیا میں نانک کا ظہور

فرش تلونڈی میں اترا عرش سے رب غفور

اٹھ گیا ظلمت کا ڈیرہ بڑھ گیا ہر سمت نور

معنوی انوار سے پھیلی شعاعیں دور دور

 سیماب اکبر آبادی:

مسلماں قبر میں دفنائیں ہندو آگ میں پھونکیں

مگر تو اک نقش جاوداں ہے اوج عظمت کا

ساغر مہدی:

ہر ایک شب کے لیے ہے ہر ایک سحر کے لیے

ترا پیام ہے دنیا کے ہر بشر کے لیے

مہا بھارت ہزاروں سال پہلے دو مختلف نظریے کی مکمل جنگ تھی، اس سے ایک ایسا نظام ملا جو سکون اور آرام دہ ثابت ہوا۔حق اور باطل کی جنگ میں حق کی جیت ہوئی۔ اس کی داستان کو اردو کے شعرا نے منظوم بھی پیش کیا ہے۔ ہندی سے قبل مہا بھارت کا فارسی ترجمہ بادشاہ اکبر نے کروایا تھا اور اس کا اردو ترجمہ مغلوں کے آخری دور میں کیا گیا۔اس کے بعد اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کے پچاسوں ترجمے شائع ہوئے۔اس کے منظوم ترجمے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ان تمام لوگوں نے زبان کو مذہبی خانوں میں نہیں بانٹا۔ انہوں نے سوچا کہ سنسکرت زبان اتنی عام نہیں ہے۔اسے لوگ کلاسیکل زبان کے طور پر پڑھتے ہیں، اردو زبان کے لوگ بھی گیتا سے واقف ہو جائیں۔ٹی۔ این۔شریواستو ،شان ا لحقی حقی اور ابھی حال میں انور جلال پوری نے بھی منظوم ترجمے کئے ہیں اس میں ۱۷۰۰ اردو اشعار ہیں۔ قدیم ترجمے میں سے ایک ترجمہ افسر سنبھلی کا ہے اس کے چند اشعار دیکھتے چلتے ہیں۔بھگوت گیتا کا شمار ہندوئوں کی مقدس کتابوں میں ہو تا ہے۔حکیم خلیفہ کا ترجمہ ان میں قابل ذکر ہے۔اس طرح کی ہندی کتابوں کا ترجمہ قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے کیا جاتا ہے، صرف چند بند ثبوت کے طور پر دے رہا ہوں۔

افسر سنبھلی :

کورو اور پانڈو

پہلا ادھیا ئے

دھرت راشٹر نے پوچھا

کرو کشیتر میں آئے جب بہر جنگ

وہاں تھا لڑائی کا کیا رنگ ڈھنگ

مرے پورو اور پانڈو نے وہاں

کیا جو کچھ اس کو تو کر دے بیاں

سنجے نے کہا

صف آرا تھا جب لشکر پانڈو واں

اٹھا دریودھن راجا کورو وا ں

گروسے کہا دیکھ آچاریہ

ہیں آمادۂ جنگ کیا آریہ

کھڑی پانڈوؤں کی ہیں فوجیں تمام

یہ پورو د روپد کا ہے انتظام

بہادر ہیں یہ ہفت اقلیم کے

برابر ہیں یہ ارجن اور بھیم کے

ایک دوسرے واقعے کو حکیم خلیفہ نے اپنی کتاب میں اس طرح بیان کیا ہے:

اس طرف مظلوم یہ مضطر تھے غم سے چور تھے

اور کو رو اس طرف خوش تھے بہت مسرور تھے

وہ سمجھتے تھے کہ پانڈو جل گئے ہوں گے ضرور

ان کو کیا معلوم تھا موت ان سے ہوگی اتنی دور

پھر رہے تھے گوکہ وہ صحرا بہ صحرا رات دن

تھے مگر وہ فیصلے سے اپنے پھر بھی مطمئن

نظیر ایک حقیقی شاعر ہیں جو خالص ہندوستانی ہیں۔ نظیراکبر الہ آبادی اردو ادب میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب، ہندوستانی زبان، انوکھے موضوعات اور اسلوب وزبان کے ساتھ ابھرے، ان کی شاعری میں میلوں، ٹھیلوں، بازاروں تہواروں، تقریبوں ، شادی بیاہ کی عکاسی ہے۔نظیر ہی ایک ایسا شاعر ہے جس نے ہندوستان کی چھوٹی موٹی سبھی خصوصیات کو اپنی شاعری میں داخل کیا ہے ۔انہیں ہندوستانی ہونے پر فخر ہے ۔انہیں اپنی زبان پر بھی فخرہے ۔اپنی شاعری کے لیے ایسی زبان کو انہوں نے چنا ہے جو اس زمانے میں ہندوستان کی زبان تھی ۔وہ ہندومسلمان دونوں کی مشترکہ تہذیب کے دلدادہ تھے ۔بلکہ یہ کہنا درست ہے کہ ہند و شعرا نے بھی ہندو ستانیت کے اتنے اشعار نہیں کہے ہوںگے جتنے نظیر نے کہے ہیں۔

مشہور محقق شریف احمد قریشی نے فرہنگ نظیر سے قبل ایک فہر ست دے دی ہے،جس سے پتہ چلتا ہے کہ نظیر نے اپنے کلام میں جہاں حضرت علیؓ کے نام اور القاب تقریبا ً ۴۰ہیں وہیں سری کرشن کے نام اور القاب برج راج، پرہنس، مکٹ دھرپال، شیام، کرشن وغیرہ جیسے ۷۷نام سے اپنے اشعار میں یاد کیا ہے ۔

جہاںنظیر نے آدم ،ارسطو،امیرحمزہ، حضرت سعدی جیسی کئی شخصیتوں کا ذکر کیا ہے، وہیں نارائن گنیش، ارجن، تلسی،پاربتی وغیرہ سیکڑوں ہندوؤں کے بھگوان دیوی دیوتاؤںکا ذکر کیا ہے ۔یہاں تک کہ پرندے پتنگے اور اڑنے والے کیڑے جو ہندوستان میں عام ہیں ان کابھی ذکر کیا ہے ۔نظم ’’ہولی ‘‘نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ہے۔ آخری بند ملاحظہ ہو:

ہرآن خوشی میں آپس میں سب ہنس ہنس رنگ چھڑکتے ہیں

رخسار گلابوں سے گلکوں کپڑوں سے رنگ ٹپکتے ہیں

کچھ آگ اور رنگ جھمکتے ہیں کچھ مے کے جام چھلکتے ہیں

کچھ کودے ہیں کچھ اچھلے ہیں کچھ ہنستے ہیں کچھ بکتے ہیں

یہ طورپہ نقشہ عشرت کا ہر آن بنا یا ہولی نے

ہولی منانے میں لوگ خوش ہوتے ہیں ۔یہ لوگوں کے دلوں کو خوب لبھاتا ہے۔جب ہولی کا باجا بجتا ہے تو ہولی ہے ہولی ہے کا ورد کرتے ہوئے لوگ ناچتے ہیں۔بازار ،گلی اور کوچوں میں شورمچارہتا ہے۔

نظم کے ایک دوسرے بند میں ہولی میں کس کس طرح خوشیاں مناتے ہیںاس کا ذکر ہے۔رنگ لگا کر ایک دوسرے سے لوگ گلے ملتے ہیں ۔ رنگوںاور گلالوں سے پچکاری بھر کر لوگ ایک دوسرے پر پھینکتے ہیں۔عجیب سا منظر ہوتا ہے جب یہ دیوانوں جیسے ہوجاتے ہیں تو گالیاں بھی دیتے ہیں۔ اس رسم کے موقعے پر اس کو برا نہیں سمجھتے ہیں ۔یہ مذاق جیسا ہوجاتاہے۔

ہولی پر ایک دوسری نظم میں بھی ’’ہولی کی بہار‘‘کے عنوان سے وہی بات کہی گئی ہے مگر نئے ڈھنگ سے:

جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں ، تب دیکھ بہار ہولی کی

اور دف کے شور کھڑکتے ہوں تب دیکھ بہار ہولی کی

نظیر نے اکثر ایسی بحروں کا استعمال کیا ہے جو گاکر بھی سنائی جا سکتی ہیں۔نظیر کا سب سے پسندیدہ موضوع ہولی ہے اس لیے انہوں نے دیگر نظموں کا انتخاب کیا ہے۔ دیوالی ہندوؤں کا بہت اہم تہوار ہے۔اس تہوار میں بہت خوشیاں منائی جاتی ہیں۔تیل اور گھی کے دیے جلائے جاتے ہیں ۔گھر کو رنگ ،رو غن سے سجایا جاتا ہے۔لوگ مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔

مگر خاص بات جوا بھی کھیلتے ہیں ۔اس عیب کو نظیر نے ایک سماجی خدمت گار اور سماج سد بھارک کی طرح پیش کیا ہے۔ ان کے تیکھے طنز کو دلچسپی کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے:

کسی نے گھر کی حویلی گرو رکھا ہاری

جو کچھ تھی جنس میسر بنا بنا ہاری

کسی نے چیز کسی کی چرا چھپا ہاری

کسی نے گھڑی پڑوسن کی اپنی لا ہاری

صرف نظیر ہی نے نہیں بے شمار اردو کے مسلم شاعروںنے ایسے اشعار کہے ہیں۔ ایک بار جب محرم او ر دسہرہ ایک ساتھ آیا تواکبر الہ آ بادی نے کہا تھا:

محرم اور دسہرہ ساتھ ہوگا

نباہ اس کا ہمارے ساتھ ہوگا

خدا ہی کی طرف سے ہے یہ سنجوگ

تو کیوں رکھیں نہ باہم صلح ہم لوگ

 اب آئیں ۱۸۵۷ء کے قریب کی باتیں کریں ۔غیر ملکی استعماری حکومت کے خلاف ۱۸۵۷ء کی تاریخی بغاوت سے عالمگیر جنگ اول اور دوم کے دوران اردو صحافت نے جنم لیا اور چوںکہ اس کے مزاج میں آزادی اور بغاوت کا خمیر شامل تھا۔اس لیے اس بار کھل کرنو خیز اردو صحافت نے غیر ملکی غاصب حکومت کے خلاف زبردست ذہن سازی کی اور عوامی شعور کو اتنا پائیدار و پختہ کردیا کہ وہ کسی کی غلامی کو قبول کرنے کا روا دار نہ ہوا ۔

اردو کے شاعر اور ادیبوں نے اپنے قلم سے انگریزوں کی مخالفت کی ۔سودیشی تحریک چلی تو شاعروں نے اس کی حمایت کی ۔بھارت میں بنی ہوئی چیزوں کاہی استعمال بھارتی کریں ۔یہی سودیشی تحریک تھی۔مولانا حسرت موہانی نے اس تحریک کو اپنے خون میں شامل کرلیا ۔اس تحریک کا ان پر یہ اثر ہوا کہ انہوں نے سو دیشی ا سٹور کھول لیا جس میں ہندوستان میں بنی ہوئی چیزیں بکنے لگیں :

وطن سے جن کو محبت نہیں وہ کیا جانیں

کہ چیز کون بدیشی ہے کیا سودیشی ہے

(محروم)

چکبست نے اپنی نظم وطن کا راگ میںعوام کو جگانے کے لیے جو repeat کا شعر استعمال کیا ہے وہ بر محل ہو گیا:

طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے

نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے

جدوجہد آزادی کا ہر وہ عمل چاہے وہ سودیشی تحریک، سوراج سائمن واپس جاؤ، جلیاں والا باغ سب کے لیے اردو کے شاعروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ۔تلک ،پٹیل ، بھگت سنگھ کی آواز پر اردو والوں نے لبیک کہا ہے ۔رام پرساد بسمل نے شاہ محمد بسمل عظیم آبادی کے اس شعر کو جاوداں کر دیا:

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

 دونوں قوموں کے شعرا میں قومی یکجہتی کا رجحان ابتدا سے تھا۔حالی نے اس وقت کہا:

بیٹھے بے فکر کیا ہو ہم وطنو

اٹھو اہلِ وطن کے دوست بنو

تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر

نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر

ہوں مسلمان ان میں یا ہندو

بودھ مذہب ہو یا کہ ہو برہمو

سب کو میٹھی نگاہ سے دیکھو

سمجھو آنکھوں کی پتلیاں سب کو

آغا محمد باقر لکھتے ہیں:

’’تحریک آزادی کے زمانے میں جب انگریزوں کو یقین ہو چلا کہ اب بہت جلد ہندوستان سے ان کا دانہ پانی اٹھنے والا ہے اور برٹش حکومت کی بساط ہندوستان سے اٹھنے والی ہے تو انہوں نے آخری حربے کے طور پرdivide and ruleیعنی لڑائو اور راج کرو کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کیا تو شاعروں اور ادیبوں کےاتحاد اور محبت کا پیغام کی باتوں پر لکھنا شروع کیا۔‘‘

نسیم امروہوی نے کئی دوسرے شاعروں کی طرح آپسی میل جول پر زور دیا ہے:

کہے یہ کون عدو گھات میں ہیں نادانو

یہ جنگ چھوڑو آپس کی اب کہا مانو

لڑا رہے ہیں جو موذی تم ان کو پہچانو

ان آستیں کے سانپوں کو دوست کیوں جانو

ہندو شعرا نے بھی قومیت کا جذبہ ابھارنے کے لیے نظمیں کہی ہیں-منشی بہاری لال مشتاق :

ہم ہیں ہندو تم مسلماں باہم ایک ہیں

جس طرح اعدا د جمنا اور زمزم ایک ہیں

فرط شادی فرط غم دونوں ہی یکساں جانستان

دوربینوں کی نظر میں شادی و غم ایک ہیں

لکشمی دت جوشی جودھ پور:

مسجدوں میں ہو رہی ہو جب اذان

مندروں میں آرتی اچھی لگے

جعفر ملیح آبادی:

دلوں میں حب وطن ہے اگر تو ایک رہو

نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو

ہمارا خون کا رشتہ ہے سرحدوں کا نہیں

ہمارے خون میں گنگا بھی ہے چناب بھی ہے

فراق گورکھپوری کی نظم ہنڈولے کبھی بھلائی نہیں جاسکتی ہے۔

تمام باتوں میں اہم بات انقلاب زندہ باد کا نعرہ بھی اسی اردو والوں نے دیا ہے ۔

اقبال نے قومیت کا جذبہ ابھارنے کے لیے ایک نظم ہندوستانیوں کو ایسی دی کہ آج تک حب الوطنی کے لیے اس سے اچھا شعر کسی زبان میں کہا نہیں جاسکا۔ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔

ہندوستان نے خلا اور چاند پر کئی راکٹ بھیجے ہیں۔ ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو بھی ایک راکٹ (PSLVC II) چاند میں جانے کے لیے چھوڑا گیا۔اسی طرح کا ایک راکٹ ایئر مارشل راکیش شرما کے ماتحت ۱؍اپریل ۱۹۸۴ء کو ۸دنوں کے لیے خلا میں روانہ کیا گیا تھا۔اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے راکیش شرما سے (جب وہ خلا میں تھے)پوچھا تھا ’’خلاء سے ہندوستان کیسا لگ رہا ہے ‘‘ تب راکیش شرما نے برجستہ اپنے جذبات اور اپنی خوشی کا اظہار اسی مصرع سے کیا تھا :

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

یہ نظم سب سے پہلے ’’زمانہ ‘‘کانپور میں ستمبر ۱۹۰۴ء کے شمارے میں شائع ہوئی ۔اس میں یہ شعر بھی تھا :

پنجاب کیا، دکن کیا بنگال کیابمبئی کیا

ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

آزاد ہندوستان کے پہلے دن ہی پارلیمنٹ میں پڑھا گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ قومی ترانہ کے جیسا استعمال ہوتا آرہا ہے ۔

حب الوطنی کی وضاحت علامہ اقبال نے کس طرح کھلے الفاظ میںاپنی اس نظم کے اس بند میں کیا ہے، دیکھیں:

چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا

نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا

تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا

جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا

وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے

میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے

میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

اور مخزن رسالہ فروری کا ایک متروک بند بھی پڑھ لیں:

گوتم کا جو وطن ہے جاپان کا حرم ہے

عیسیٰ کے عاشقوں کا چھوٹا یروشلم ہے

مدفون جس زمیں میں اسلام کا حشم ہے

ہر پھول جس چمن کا فردوس ہے ارم ہے

میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

اس ضمن میں اقبال کا وہ شعر بھی پڑھ لیں:

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا

ہر شاعر کی زباں پر وطن کی محبت دیکھ کر چکبست اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں۔اس کا اظہار چکبست نے یوں کیا ہے:

حب قومی کا زباں پر ان دنوں افسانہ ہے

بادالفت سے پر دل کا مرے پیمانہ ہے

جس جگہ دیکھو محبت کا وہاں افسانہ ہے

عشق میں اپنے وطن کے ہر بشر دیوانہ ہے

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے کے مصداق آزادی ملی ‘اس صدی میں صدیوں سے غلام چلے آرہے ہندوستانیوں نے قربانیاں دیں اور آزادی کی مشعل روشن کی گئی ، آزادی ملی مگر وہ آزادی نہیں تھی جس کی ہم نے تمنا کی تھی :

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

(فیضؔ)

کیوں ہم سے پوچھتے ہو کہ ساکن کہاں کے ہیں

ہندوستاں میں رہتے ہیں ہندوستاں کے ہیں

(محسن زیدیؔ)

اس طرح کے اظہار کا مقصد اردو شاعری نے سماج کے بدلتے ہوئے حالات پہ گہری نظر رکھی ہے ۔اردو شاعری میں ہندوستان کی داستان ہے ۔عہد بہ عہد مطالعہ کیجئے اور حالات سے واقف ہوتے جائیے۔حب وطن ، ہر شاعر میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ایک طرف چکبست نے کہا :

اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے

دریائے فیض قدرت تیرے لیے رواں ہے

تیری جبیں سے نور حسن ازل عیاں ہے

کیا زیب و زینت اوج عز وشاں ہے

’’حب وطن ‘‘پر حالی نے نظم کہی:

بیٹھے بے فکر کیا ہو ہم وطنو

اٹھو اہل وطن کے دوست بنو

تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر

نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر

مرد ہوتو کسی کے کام آؤ

ورنہ ‘کھائو‘پیو چلے جائو

آپس کے بھائی چارہ کا احساس ہندوستانیوں میں دلانے کے لیے یہ نظم بڑی کامیاب ہے ۔یہ کام حالی کے علاوہ اکبرؔ ، اقبالؔ، ظفر ؔعلی خاں، حسرت ؔموہانی ، تلوکؔ چند محروم ،مولانا محمد علی جوہرؔ سے ہوتے ہوئے ساغر نظامی سے ہم تک پہنچا۔

اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پنڈت سندر لال نے مہاتما گاندھی کوجو لکھا تھا وہ صدفی صد درست ہے :

’’اردو نہ مسلمانوں کی اور نہ کسی اور کی مذہبی زبان ہے اور نہ کبھی تھی وہ صرف اس ملک کے رہنے والوں کی جن میں ہندو مسلمان، عیسائی اور جین شامل ہیں قدرتی اور مادری زبان ہے۔ اس کو ترقی دینے میں ہندوؤں نے اتنا ہی حصہ لیا ہے جتنا مسلمانوں نے اور آج تک بہت سے ہندوؤں کو اس پر ایساہی فخر ہے جیسا کہ مسلمانوں کو ہے ۔‘‘

آج کے دور کے شعرا اور ادبا نے بھی یکجہتی کے تعلق سے اشعار کہے ہیں:

ا ک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

 

فلیٹ نمبر 4,B/ 15 فرسٹ فلور سائی نگر کالونی

بھیونڈی - 421303 (ایم ایس(

موبائل نمبر: 9923257606

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...