Tuesday, July 11, 2023

تنقید اور جمہوریت

 

تنقید اور جمہوریت

پروفیسر علی احمد فاطمی

۱۹۳۵ء  میں ادیبوں کی عالمی کانفرنس میں شرکت کرنے سجاد ظہیر جب پیرس پہنچے تو کانفرنس کی اہمیت اور جمہوریت سے وہ بے حد متاثر ہوئے، انھوں نے ممتاز مغربی ادیب و مفکر ایلیا ایرن برگ سے خصوصی ملاقات کی اور ہندوستان میں ترقی پسند ادیبوں کی انجمن بنانے کا ارادہ ظاہر کیا اور کچھ نصیحت و ہدایت چاہی تو برگ نے جن دو باتوں کی طرف خصوصی اشارے کیے ان میں ایک اہم بات یہ تھی کہ انجمن بالخصوص ادیبوں کی انجمن میں جمہوریت ناگزیر ہے کہ اس کے بغیر افکار و خیالات کا تبادلہ نہیں ہوپاتا۔ نئے نئے خیال نہیں آپاتے۔ ایک ادیب ہمہ وقت محض ہم خیالوں کے درمیان رہے اس سے زیادہ مضر اور خطرناک بات ادب کے لیے کچھ اور نہیں ہوسکتی۔ اردو کے ممتاز شاعر اور دانشور علی سردار جعفری نے بھی ایک بار کسی تقریر میں کہا تھا کہ ادب کی جمہوریت سماج کی جمہوریت سے بھی بڑی ہوتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ادب کی تمام اصناف میں تنقید کا عمل سب سے بڑا جمہوری عمل ہوتا ہے، لیکن اتنا ہی ذمہ داریوں اور سنگھرشوں سے بھرا ہوا ہے۔ تنقید اب مدرسے کی قیل و قال اور مکتبی قسم کے فکر و خیال تک محدود نہیں رہی۔ تنقید اس کے علاوہ بہت کچھ ہوگئی ہے جیسے ادب بہت کچھ ہوگیا ہے۔ بہت پہلے حسن عسکری نے اپنے ایک مضمو میں اچھی بات کہی تھی:

’’جو تنقید مدرسوں کا ایک کھیل ہے اور زندہ حقیقتوں سے دامن بچاکر خود اپنے آپ میں مگن رہتی ہے اس سے ادب پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہاں تو ہمیں صرف اس تنقید سے سروکار ہے جو زندہ تخلیقی سرگرمیوں سے کسی نہ کسی قسم کا تعلق ضرور رکھتی ہے ایسی تنقید چونکہ براہ راست تخلیقی سرگرمیوں کا حصہ بن جاتی ہے اس لیے اس کا فریضہ ہر زمانے میں مختلف ہوتا ہے۔‘‘

میرا خیال ہے کہ جس طرح سماج میں جمہوریت کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ادب میں تنقید کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر تنقید کا رشتہ صرف تخلیق تک محدود ہے اور نقاد تخلیق کار کی تمام باتوں سے متفق ہے تو پھر تنقید کی کوئی خاص اہمیت نہیں اور نہ ہی ضرورت جبکہ تنقید کی ضرورت ہوتی ہے۔ تخلیق بنیادی حوالہ ضرور ہوتی ہے اور وہ تخلیق میں اختلاف و اتفاق کے عناصر اجاگر کرتی ہے، لیکن اس کے ذریعہ دراصل وہ اپنے دور کے افکار و خیالات، احساس و شعور کی ایک منطقی ترتیب کے ذریعہ اپنے عہد کے حالات، مسائل وغیرہ کو بھی جانچتی پرکھتی ہے اور ان کو فکر و شعور کی ایک نئی شکل دے کر محض ادب کے ارتقا میں ہی نہیں بلکہ انسان اور انسانیت ، سماج اور معاشرت کے ارتقا میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ کچھ لوگ اس سے اختلاف کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں اور یہ ضروری بھی ہے کہ اسی سے طے ہوگا کہ آخر تنقید لکھنے کا مقصد کیا ہے اور اسے کون لوگ پڑھتے ہیں۔ اگر وہ محض یونیورسٹی یا تعلیمی اداروں تک محدود ہے تو پھر تنقید کی اہمیت، وسعت اور جمہوریت سب کچھ خطرے میں ہے، اگر وہ اس سے باہر نکل کر محض اشتہار یا بازار کا حصہ بن گئی ہے جیسا کہ آج کے عہد کے ممتاز مغربی دانشور ٹیری ایگلٹن نے لکھا ہے:

’’آج کل تنقید یا تو ادبی کاروبار کے رسم و راہ کا حصہ ہے یا تعلیمی اداروں کا اندرونی معاملہ۔ اس کا کوئی سماجی مقصد اور کام نہیں رہ گیا ہے۔ یہ بات صرف تنقید کی جمہوریت ہی نہیں ادب کی جمہوریت، وسعت اور عظمت کے خلاف جاتی ہے ، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ان دنوں کی صورتِ حال تشویشناک ہے۔ حالانکہ تشویش اور تفتیش سے نئے نئے راستے بھی کھلتے ہیں۔

حالیؔ کے مقدمہ اور سماجی و حقیقی تنقید اور سرسید کی تحریک نے یہ تاریخی کام تو انجام دیا ہے کہ بیسویں صدی بقول سید محمد عقیل ’’عقلیت پرستی نہ سہی مگر تعقل پسندی کے پیام لے کر آئی اور پھر زندگی اور ادب سب پر عقلیت پسندی کو اولیت حاصل ہونے لگی۔‘‘ اور اس صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی تک حسن، صداقت اور زندگی کی مادی حقیقتیں عقل کے حوالے سے جانچی پرکھی جانے لگیں۔سرسید، آزاد، حالی، شبلی وغیرہ نے اپنی تنقیدی کاوشوں سے ادب کو شاعری کے طلسم سے نکال کر نثر اور بالخصوص تنقید کی طرف متوجہ کردیا۔ تنقید کی ضرورت اور اہمیت اور جمہوریت پر کھلی بحث ہونے لگی۔ بعد کے نقادوں اور بالخصوص ترقی پسندوں نے اشتراکیت اور جدلیاتی مادیت، متبدل حسن و صداقت کے تصورات سے تنقید ادب کو کچھ اس طرح سے مالا مال کیا کہ تنقید فن نقد کی ایک نئی پہچان، نئی بصیرت و بصارت کے ساتھ ایوانِ ادب میں کچھ اس انداز سے داخل ہوئی کہ صاف محسوس ہونے لگا کہ اب دانشوری، آگہی، علمیت اور جمہوریت کے سارے راستے مسدود ہوگئے۔ اگر ایک طرف نیازؔ فتح پوری جیسا رومانی افسانہ نگار یہ کہہ رہا تھا:

’’لٹریچر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جذباتِ انسانی کو حرکت میں لانے میں معاونت کرتا ہے۔ اسی لیے اہم ترین اس کی جذباتی قیمت ہے۔ جو تصنیف ہمارے جذبات ابھارسکتی ہے وہ یقیناً ہمارے ادبیات میں داخل ہے خواہ اس کی اختلافی قیمت نہ ہو۔‘‘

تو دوسری طرف مجنوں گورکھپوری اس کے جواب میں یہ کہہ رہے تھے:

’’پہلے جو ہم ادب اور دوسرے فنون لطیفہ کی ماہیت اور غرض و غایت دریافت کرتے تھے تو اس کا محرک صرف ایک معصومانہ استعجاب ہوتا تھا جس کی تشفی کسی ایسے جواب سے ہوسکتی تھی جو حسین اور دلنشیں ہو، لیکن اب ہمارے جواب کو دلنشیںنہیں دماغ نشیں ہونا چاہیے، اس لیے کہ اب یہ سوالات عمرانیات (Sociology)کے ہوگئے ہیں۔‘‘

اس کی بنیاد پر مجنوں نے یہ معرکہ کا جملہ رقم کیا ’’حسن، خیر اور صداقت کو ایک آہنگ بناکر پیش کرنے کا نام ادب ہے۔‘‘

تنقید کی اہمیت اور جمہوریت کے پیش نظر جمہوری انداز سے ہی اس میں مختلف علوم و فنون کا داخلہ ہوا بالخصوص ترقی پسند فکر و نظر کے حوالے سے۔ کچھ حالات بھی ایسے تھے کہ زندگی کے حقائق و مسائل ادب میں رونما اور نمایاں ہونے کے لیے بیقرار تھے اور تنقید علمی اور جمہوری انداز سے بحث و تمحیص کے ذریعہ یہ ثابت کرنے میں مصروف تھی کہ حقیقت سپاٹ یا اکہری دکھائی د ینے والی چیز نہیںہے اس کی بے شمار پرتیں اور جہتیں ہیں، خارج و باطن، سپید و سیاہ، سپاٹ اور پیچیدہ۔ پھر یہ بھی کہ ایک حقیقت خواہ وہ کس قدر ژولیدہ اور پیچیدہ کیوں نہ ہو، ادیب کے طرزِ احساس اور فہم و ادراک تک پہنچتے پہنچتے اپنا روپ بدل لیتی ہے۔ اس روپ کی کئی قسمیں ہیں ۔ جمالیاتی اور نفسیاتی۔ سماجی اور ثقافتی بھی۔ جن پر ترقی پسند نقادوں نے کھل کر بحث کی۔ سجاد ظہیر، سردار جعفری، احتشام حسین، ممتاز حسین وغیرہ کے مضامین کو ملاحظہ کیجیے۔ تنقید کا ایک وسیع تناظر نظر آئے گا۔ تاریخی و تہذیبی، ثقافتی اور مارکسی بھی، لیکن زور حقیقت پر ہی رہا۔ سردار جعفری نے اپنی کتاب ترقی پسند ادب میں لکھا ہے:

’’حقیقت پسندی کے سوا آرٹ اور ادب کو پرکھنے کی اور کوئی کسوٹی نہیں ہے ، آپ چاہے جتنے خوبصورت الفاظ استعمال کریں چاہے جتنے مترنم فقرے اور مصرعے لکھیں چاہے جتنی اچھی تراش خراش کے ساتھ عبارت آرائی کریں وہ اس وقت تک دل پر اثر نہیں کرے گی جب تک وہ حقیقت اور سچائی کی ترجمان نہ ہوگی۔‘‘

یہ الگ بات ہے کہ تخلیق کی سطح پر اس حقیقت کی پیشکش اور تنقید کی سطح پر اس کی تلاش کے متعدد راستے نظر آتے ہیں۔ ایک ہی فکر کے حامل ترقی پسند نقادوں میں احتشام حسین نے تاریخ ، ممتاز حسین نے تشریک اور سید محمد عقیل نے تہذیب کے حوالے سے جانچ پرکھ کی اور عمرانیات کے متعدد ابعاد اور پہلوؤں سے تنقید مالا مال ہوئی۔ حُسن کے معیار بدلے، لیکن ایسا بھی نہیں کہ ترقی پسند تنقید کا جمالیات سے رشتہ منقطع ہوگیا۔ وہ تاثیر، انبساط اور لطف سے بھی وابستہ رہی، لیکن کہیں کہیں ضرورت سے زیادہ سماجیت یا خارجیت سے بظاہر اس کو زَک پہنچا۔ تنقید کی جمہوریت کے لیے یہ بھی ضروری تھا۔ ۱۹۵۰ء کے بعد محمد حسن، سید محمد عقیل، محمد علی صدیقی، قمر رئیس، شارب ردولوی وغیرہ نے گزشتہ تجربات کی روشنی میں توازن کے ساتھ اس سلسلے کو آگے بڑھایا ، لیکن اس درمیان سماج، ادب اور تنقید اپنے فطری اور فکری تقاضوں کے تحت تیزی سے تبدیلیوں سے بھی ہمکنار رہی اور تنقید میں نئی نئی بحثیں شامل ہونے لگیں۔ ان بحثوں کو شروع کرنے یا آگے بڑھانے کی ابتدا حسن عسکری اور کلیم الدین احمد کرچکے تھے۔ کلیم الدین احمد کا اپنا ایک الگ زاویۂ تنقید تھاجنھوں نے اپنی مخصوص فکر اور انتہا پسندانہ رویہ کی وجہ سے اپنی ایک الگ پہچان بنائی جو ایک بُت شکن کی تھی۔ انگریزی ادب کے اسکالر ہونے کی وجہ سے انھوں نے رچرڈ اور ایف۔آر۔ لبوس کی عملی تنقید کے طرز پر اعلیٰ لیکن بحث طلب تنقیدی کارنامے انجام دیے جو ایک الگ باب کی حیثیت رکھتے ہیں تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان کی تنقیدی نگارشات سے جمہوری تنقید کے ضمن میں ایک باب کا اضافہ ہوا۔ کلیم الدین احمد کی طرح انگریزی کے ہی ایک اور اسکالر اسلوب احمد انصاری  تن تنہا اپنے طور پر اضافے کرتے رہے۔ ابتداء ً ادب و تنقید جیسی کتاب لکھ کر جہاں ایک طرف ہیئت پرستی پر زور دیا وہیں دوسری طرف ادب اور زندگی اور ادب اور سماج جیسی کتابوں پر سوالیہ نشان لگائے۔ بعد میں جب انھوں نے فکشن کی طرف توجہ دی تو اپنے ہی بنائے دائروں کو توڑنے پر مجبور ہوئے۔

۱۹۶۰ء تک پہنچتے پہنچتےترقی پسند خیالات بعض متشدد رویوں کی وجہ سے ناپسندیدگی کا سبب بن گئے یا بنا دیے گئے۔ اس درمیان زندگی بھی بدلی، شب و روز بدلے، رہن سہن، رفتار و گفتار یہاں تک کہ جمالیاتی اور نفسیاتی احساسات میں تبدیلی آئی۔ بہت تیزی سے ایک نیا رجحان ظہور پذیر ہوا۔ اس رجحان میں امیدو نشاط کی جگہ تشکیک یاسیت وغیرہ جگہ پاگئے۔ اسی رجحان نے آگے بڑھ کر جدیدیت کا نام لے لیا جس کی پہلی شرط تھی کہ وہ تاریخی سلسلہ کو توڑنے کے بجائے محض جمالیات کو اہمیت دے۔ خطیبانہ لہجے کی مخالفت کرے ،جس کی وجہ سے داخلیت اور باطنیت نے زور پکڑا اور دیکھتے دیکھتے اردو کا تخلیقی ادب علامت، استعارہ، ہیئت، حرف و لفظ کے جال میں پھنستا چلاگیا۔ ڈاکٹر شارب ردولوی نے ایک مقالہ میں اردو میں اس کے اثرات دو نقادوں میں نمایاں طور پر تلاش کیے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی اور وزیر آغا، شمس الرحمن فاروقی شاعری کی گرامر،شعر میں لفظ کی دروبست کی اہمیت اور نزاکت پر ایمان رکھتے ہیں۔ان کے مضامین شعر غیر شعر اور نثر ۔ شعر کی ظاہری ہیئت شعر کی داخلی ہیئت۔ شعر کا ابلاغ ۔ ترسیل کی ناکامی کا المیہ وغیرہ میں یقیناً ان کی علمیت اور واقفیت جھلکتی ہے۔ انھوں نے شعر کی ہیئت اور لفظوں کی ساخت پر بات کی ہے اور مخصوص تناظر میں اسے ایک نئی مقبولیت دینے کی کوشش کی۔ ان کے نزدیک پیکر علامت وغیرہ ہی جدلیاتی حقیقت رکھتے ہیں۔ فاروقی نے اپنے تئیں شعر فہمی کا نیا انداز دینے کی کوشش کی، لیکن ہیئت پرستی اور جدلیت پرستی نے اسے بھی ایک مخصوص رنگ دے دیا، تاہم اس کے تاریخی رول سے انکار ممکن نہیں۔ بات جب اور آگے بڑھی تو بہت سارے انکشافات بھی ہوئے مثلاً ہمارے عہد کے ایک ممتاز ناقد عتیق اللہ نے لکھا:

’’اردو میں جدیدیت کے رجحان کا آغاز ۱۹۶۰ء سے ہوتا ہے۔ جدیدیت کسی ادبی یا فلسفیانہ رجحان سے عبارت نہیں تھی بلکہ اس کا خمیر بیک وقت کئی میلانات اور کئی اسالیب سے اٹھا تھا اس لیے اس کی تعبیروں میں بھی بڑی حد تک اختلاف پایا جاتا ہے۔‘‘

اور آگے لکھتے ہیں:

’’ہمارے یہاں محمود ہاشمی، وحید اختر، دیویندر اسر، باقر مہدی، شمیم حنفی، وہاب اشرفی اور عصمت جاوید نے دیگر رجحانات مثلاً نئے جمالیاتی اور نفسیاتی، عمرانی اور نومارکسی رجحانات کے علاوہ نئے نقادوں کا بھی اثر قبول کیا تھا جن کے مطالعے میں غیر ادبی حوالے اور مؤثر زائد کا حکم رکھتے ہیں۔‘‘

نقادوں کے ان ناموں میں دو نام نہیں ملتے۔ گوپی چند رنگ اور وارث علوی۔ کیونکہ یہ دونوں ایک الگ باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ گوپی چند نارنگ نے اردو میں اسلوبیاتی تنقید کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں وہ مغنی تبسم کی طرح اعداد و شمار اور مکتبی و نصابی قسم کی تنقید میں مصروف رہے کہ وہ جدید تنقید میں ایک الگ راہ بنانا چاہتے تھے، لیکن جب وہ جدیدیت کے حصار سے نکل کر مابعد جدیدیت کی طرف آئے اور ادب کو سماجی اور ثقافتی ڈسکورس سے وابستہ کیا تو ترقی پسند فکر سے قدرے مبتدل اور ارتقائی صورتوں کے حوالے سے ان کی شناخت بنیاد گزاروں میں ہوئی۔ ان کی کتاب ساختیات پس ساختیات، مابعد جدید تصورات وغیرہ کے خوب چرچے ہوئے جو آج بھی غور طلب اور بحث طلب ہیں۔ ان کی کتاب جو غزل اور فکشن کی شعریات سے متعلق ہے وہ ایک الگ قسم کے نارنگ کو پیش کرتی ہے۔ جو ان کے مشرقی اقدار و افکار کی غماز ہے۔ وارث علوی کی تنقید کو طرح طرح کے نام دیے گئے، لیکن وہ سب سے بے نیاز اپنی دُھن میں اپنی طرح کی تنقید کرتے رہے، جس کی وجہ سے اردو فکشن کی تنقید میں ممتاز شیریں اور وقار عظیم کے بعد بڑا نام بن کر اُبھرے لیکن بحث و مباحثہ، مزاحیہ و مجادلہ ان کی فکر کے اہم عناصر ہیںجس کی وجہ سے اکثر سنجیدہ تنقید غیر سنجیدگی کا شکار ہوئی، لیکن وہ تنقید جو محض ہیئت پرستی کا شکار ہوگئی تھی ایک بار پھر اس میں تبدیلی ہوئی اور معیشت و معاشرت کا حصہ بنی اور ایک مخصوص قسم کی دلچسپی و دلکشی بھی پیدا ہوئی۔ کوئی کتنا اختلاف کرے، لیکن وارث علوی کا نام بطور فکشن کے ناقد اعتبار و احترام کا ضامن ہے۔ اسی کے آس پاس دو معتبر نام اور ہیںجو نام و نمود اور اظہار و نمائش سے بے نیاز ہمہ وقت، ہمہ ذہن تنقیدی عمل میں مصروف ہیں۔ اول دیویندر اسّر اور دوم شمیم حنفی۔ دیویندر اسّر بنیادی طور پر ترقی پسند ہیں، تخلیق کار ہیں لیکن ادھر چند برسوں میں انھوں نے تنقید کی نئی تھیوریز کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور ادب و ثقافت کی عالمی تبدیلیوں کو بہت قریب سے سمجھا ہے۔ وہ تبدیلیوں کا خیر مقدم تو کرتے ہیں، لیکن ان کا انسان دوست اور ترقی پسند ذہن ایسی تمام تھیوریز کو آسانی سے قبول نہیں کرتا جو انسان اور انسانیت کے خلاف جاتا ہے وہ ادب کی آبرو کے ساتھ ساتھ انسانیت کی آبرو کے بھی قائل ہیں اسی لیے وہ جدید ترقی اور تبدیلی کے درمیان انسانی اقدار کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ شمیم حنفی ابتداء ً جدیدیت کی فلسفیانہ اساس تلاش کرتے رہے، لیکن ان کی یہ تلاش اجتماعی ہے، انفرادی نہیں کہ وہ تہذیب کی اجتماعیت کے قائل ہیں، ہر چند انھیں احساس ہے کہ تہذیب کا جو آشوب اور بحران گزشتہ صدی میں دکھائی دیا وہ کہیں اکیسویں صدی میں بھی نہ ہو اسی لیے وہ ادب کا مطالعہ ایک خاص تہذیبی زاویہ سے کرتے ہیں جس میں کبھی کبھی صدیوں کی تاریخ و تہذیب کی گونج سُنائی دیتی ہے۔ بعد کی کتابوں اور مضامین میں ثقافت و معاشرت کے مسائل اور تہذیب کی شکست و ریخت پر قابلِ قدر مضامین لکھے ہیں۔ ایک اہم نام وہاب اشرفی کا ہے جن کی تنقید کو آج مابعد جدید تناظر میں دیکھا جاتا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ وہ امتزاجی تنقید کے آس پاس ہیں کیونکہ ان کا تنقیدی سفر جدیدیت، ترقی پسندی اور مابعد جدیدیت کی تمام راہوں سے ہوکر گزرا ہے۔ انھوں نے عالمی ادب کو خوب پڑھا ہے، اس لیے وہ نو مارکسیت اور مابعد جدیدیت کے درمیانی رشتوں کو سمجھتے ہیں، لیکن اس کا اطلاق آج کے تخلیقی ادب پر کس ط رح ہو اور ان میں ان عناصر کو کس طرح تلاش کیا جائے اس کا جواب جب مابعد جدید اکابرین کے یہاں نہیں ملتا تو مقلدین سے کیا توقع لگائی جائے۔ تاہم وہاب اشرفی کی یہ بات تو لائقِ تحسین ہے کہ وہ ہر بڑے اور عمدہ نظریے کے کارآمد عناصر کو سمجھنے اور قبول کرنے کو تیار رہتے ہیں جو زمانے کے ساتھ چلتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہر زمانے کی سچائیاں ادب کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور نئے طور پر وضع ہوتی ہیں۔ ادھر انھوں نے مابعد جدیدیت اور تاریخ ادب پر جس نوع کی کتابیں لکھی ہیں وہ ان کی ہمہ جہتی کے ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ جدید اور مابعد جدید مباحث کی غیر ضروری تاویلیں اور از حد شوروغُل نے تنقید کی سنجیدگی اور ذمہ داری کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ اس کی سمت و رفتار بھی لڑکھڑائی ہے بلکہ گمراہ ہوئی ہے، ہر چند کہ دورِ حاضر میں عتیق اللہ، قاضی افضال حسین، قاضی جمال حسین، ابو الکلام قاسمی، نظام صدیقی، شافع قدوائی، انیس اشفاق وغیرہ اپنے اپنے فکر و شعور کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور تنقیدی مضامین لکھ رہے ہیں، پھر بھی شکایت تو ہے کہ آج کی تنقید، آج کی تخلیق سے وہ رشتے نہیں بنا پارہی ہے جو اس کو بنانا چاہیے۔

آج کی تنقید کی ایک مشکل یہ ہے کہ وہ تخلیق کے مقابلے تنقید زیادہ پڑھتی ہے۔ مغربی نقادوں کا ذکر کرتی ہے۔ طرح طرح کے فلسفیانہ الجھاوے پیدا کرتی ہے۔ آج کی تخلیق سے اس کا رشتہ کم کم ہی رہ گیا ہے۔ تخلیقی ادب سے رشتہ کم ہونے یا ختم ہونے کی وجہ سے تخلیقی جمالیات کا شعور نہ نقادخود پیدا کرسکا اور نہ ہی وہ قارئین میں پیدا کرپایا۔ لوگ انفاق کم کریںگے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تنقید تخلیق کی طرح ایک سماجی عمل ہے۔ وہ سماج اور معاشرہ کے لیے لکھی جاتی ہے اور تخلیق میں اسی کو تلاش کرتی ہے۔ محض زبان وبیان یا حرف و لفظ ، تشبیہ و استعارہ وغیرہ کی باتیں کر کے اور طرح طرح کی فلسفیانہ بے ربط موشگافیو ں کے ذریعہ آسان تنقید کو بلا وجہ مشکل میں ڈال دیتے ہیں اور تیزی سے خانہ بندی کرنے لگتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ خانہ بندی کی مخالفت کی جائے کہ علم کی مختلف شکلیں اور پرتیں ہوتی ہیں لیکن علم برائے علم یا ادب برائے ادب کا حامی بھی نہیں، اس لیے اگر میں اس کے پس پردہ الجھاوے اور گمراہی کی جو شکل دیکھتا ہوں اس کے خلاف ضرور ہوں، لیکن یہ اختلاف ہے مخالفت نہیں۔ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی لفظ فکر کے مربوط یا غیر مربوط نظام کے بغیر اپنا کوئی وجود نہیں رکھتا۔ یہ نظام بظاہر تجریدی ہوسکتا ہے لیکن اس کے پس پردہ عمرانیات، معاشیات وغیرہ اپنا کام کرتی رہتی ہیں اس لیے ان اصطلاحوں کی مخالفت تو نہیں ہونی چاہیے، لیکن ان کی مشروطیت و محدودیت پر کھلی بحث ہونی چاہیے جو ان دنوں جمہوری انداز سے نہیں ہورہی ہے اور جو ہورہا ہے اسے دہرایا جانا مناسب نہیں۔ ایسی ایسی تنقید لکھی جارہی ہے جو بقول جمیل جالبی:

’’ان تحریروں سے کھٹی ڈکاروں کی بو آتی ہے جیسے سڑے ہوئے گوشت کی بائولی ہنڈیا پک  رہی ہو۔‘‘

اسی طرح ہندی کے ایک شاعر نے ہندی تنقید سے بیزار ہوکر کہا: ’’میری جنگ ہندی کی ٹچّی آلوچنا سے نہیں ہے۔ اب بحث اقتدار سے ہوگی۔ سمے کھڑا ہے اب نقادوں کو طے کرنا ہے کہ وہ اس نئے اقتدار سے کس حد تک لڑنے کو تیار ہیں۔‘‘

باقر مہدی جیسے جیالے اور بانکے نقاد نے بھی کبھی بےباکانہ طور پر کہا تھا:

’’اقتدار کی کشمکش ادبی دنیا میں ایک محرک بن جاتی ہے۔ چقماق کے ٹکرائو سے چنگاری جنم لیتی ہے اور ایک طرف یہ کشمکش سوہانِ روح بن جاتی ہے تو دوسری طرف اس کی توجہ سے ادبی تخلیقات میں جان بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے اقتدار کی کشمکش سے نجات حاصل کرنا تخلیق کے دائرے سے نکل کر نروان کی طرف پہلا قدم ہوگا۔‘‘

آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب وقتی ہے ، لمحاتی ہے۔ کچھ لوگوں کی یہ منطق بھی ہے کہ زندہ ادب اور ادیبوں کے درمیان ہی اُتھل پتھل ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سچ ہو، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ مکالمہ اور مجادلہ میں فرق ہوتا ہے، اس لیے یہ بات غور طلب ہے کہ کسی بھی زبان و ادب سے مثبت و صحت مند قدروں کی پوشیدگی کا مطلب ہے اس کے لسانی و ادبی معاشرہ سے اس شعور و احساس کی پوشیدگی جو ادب کے ارتقا کے لیے ہی نہیں بلکہ معاشرہ کے ارتقا کے لیے بھی ضروری ہوا کرتا ہے۔ اس لیے نئی تحریر اور نئی تہذیب پر مسلسل گفتگو کرنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے، کیونکہ یہ مسئلہ صرف آج کے ادیبوں و شاعروں کی شناخت تک محدود نہیںبلکہ آج کی تہذیب اور سماج سے بیگانگی کو بھی ظاہر کرتا ہے جو صرف ہمارے معاشرہ کو ہی نہیں پورے عالمِ انسانیت کو خطرناک راستوں پر لے جاتا ہے۔ اسی لیے جب دیکھئے ادب کی موت یا تنقید کی موت کا اعلان کردیا جاتا ہے اس لیے کہ تنقید ایک تجزیاتی اور محاسباتی عمل بھی ہے جس سے قوتِ فکر اور شعور و آگہی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی لیے تنقید کے مرکز سے ہٹ کر جو علاقائیت، تانیثیت یا دلت شعور وغیرہ میں ڈوب گئی ہے اس میں ان جھلکیوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ گوپی چند نارنگ ایک گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہتے ہیں:

’’صرف ادب یا فن کی ایسی دنیا ہے کہ اس سے بڑی کوئی جمہوریت نہیں ہے۔ سچی اور کھری پوزیشن کسی بھی ادیب و شاعر کی آج بھی مخالفت اور اجتماع کے خواہ مقتدرہ ہو سیاسی نظام کا یا کسی اور کا —ادیب، شاعر اور ناقد کیا چاہتا ہے۔ اپنی آزادی، اپنے ضمیر کی آواز سے پوزیشن لینا، افسوس کہ ادب نے پوزیشن لینا چھوڑ دیا ہے۔‘‘

اور تنقید کا بالخصوص کہ اس کا کام بھٹکے ہوئے ادب کو راہ راست پر لانا بھی ہے۔ نئی اردو تنقید کی ایک مشکل یہ ہے کہ وہ زندگی کی شاہراہوں کو چھوڑ کر زندانیٔ کتب ہوگئی ہے۔ وہ زندگی کے حالات ، تجربات سے زیادہ کتابی فلسفوں میں پھنس گئی ہے۔ یہ بدعت شروع کی تھی جدیدیت نے، جس سے تخلیق بُری طرح متاثر ہوئی۔ اب تخلیق تو کسی طرح اس جال سے نکل آئی ، لیکن تنقید ابھی بھی بہت سارے کتابی تصورات میں پھنسی ہوئی ہے اور چونکہ اس تنقید کا تعلق ایلیڈ کلاس سے زیادہ ہے اس لیے وہ اپنے عوامی، قومی اور ثقافتی بہائو سے کٹ گئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان دنوں تنقید میںجو بحثیں چل رہی ہیں کیا وہ انسانی سماجیات و عمرانیات کے حوالےسے آگے بڑھ رہی ہیں۔ کم از کم اردو تنقید میں ایسا نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ان دنوں اردو تنقید کو دو طرح کے سنگھرش کرنے پڑ رہے ہیں۔ ایک تو اپنے وجود کی بقا کی۔ دوسرے عصری تخلیق سے دردمندانہ و دانشورانہ رشتہ استوار کرنے کا۔

گزشتہ ساٹھ -ستّرسال میں تنقید میں جو معروضیت اور جمہوریت کا دور دورہ رہا ہے اس سے اس کی رنگا رنگی اور ہمہ جہتی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن آج کی تنقید کے بارے میں خودآج کے نقاد عتیق اللہ نے لکھا ہے:

’’اس اشتہار بازی کے دور میں یہ پتہ لگانا بڑا مشکل ہے کہ کس ادیب یا اس کی تخلیق یا تصنیف کے بارے میں کس نقاد کی رائے یا تنقیدی رائے صائب اور کم از کم عصبیت سے پاک ہے اور کس کے تنقیدی فیصلوں کے بین السطور رفاقت نوازی، ا دارت نوازی یا مرتبہ نوازی جیسی اور بہت سی نوازیاں کر رہی ہیں۔‘‘

ان تمام کمیوں اور خرابیوں کے باوجود یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اردو تنقید نے گزشتہ چھ سات دہائیوں میں اپنی وجودی حقیقت اور صنفی وقعت میں بہرحال اضافہ کیا ہے۔ یہ جمہوریت کا ہی عمل ہے کہ ایک ہی وقت میں انکار اور اقرار، اثبات و نفی اور ردو قبول کے اعمال جاری رہے اور سمجھتے بھی رہے کہ تنقید میں مکمل قبولیت اور مکمل ردّ کی کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی اور یہ بھی کہ ہر رجحان اور تصور کے پس پردہ دوسرے مخالف رجحان بھی کام کرتے رہتے ہیں۔ ہر حال میں ماضی پیوست ہوتا ہے اور ہر نفی میں اثبات کا رنگ ہوتا ہے، کچھ اس طرح سے کہ ان کی شناخت مشکل ہوجاتی ہے۔ یقین ہے کہ تنقید کا شاندار ماضی کروٹ لے گا اور ادب و تنقید اپنے منصب پر لوٹ آئیںگے۔

...

 

 

B-518/1، کریلی، جی ٹی بی نگر، پریاگ راج(الہ آباد)

موبائل:  9415306239

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...