Monday, July 10, 2023

قاضی عبدالستار اور اردو فکشن

 

قاضی عبدالستار اور اردو فکشن

محمد فیصل خان


تاریخی ناول نگاری کی اپنی ایک روایت ہے ، فکشن کو تاریخ سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں مختلف ادیبوں اور فنکاروں نے کی ہیں۔ فکشن جس کا انحصار تخیل پر ہوتا ہے ،یہ عہد جدید میں بشکل ناول ہمارے سامنے آیا۔اس کے معنیٰ جدید کے آتے ہیں،اس میں تخیل کے ساتھ حقیقت کی آمیزش کی گئی اور حقیقت نگاری کوبھی بنیاد بنایا گیا ۔ اردو ناول کی تاریخ میں اس روایت کی ابتدا انیسویں صدی کے اواخر میں عبدالحلیم شرر کے توسط سے ہوئی جو قرۃ العین حیدر ، عصمت چغتائی ،عزیز احمد ، عبداللہ حسین اور انتظار حسین سے گزر کر قاضی عبدالستار پر مستحکم ومضبوط ہوتی ہے ۔ قاضی صاحب کی انفرادیت اس طور پر ہے کہ جہاں عبدالحلیم شرر نے تاریخی ناول نگاری میں عرب کے کرداروں اور وہاں کے واقعات کو فوقیت دی ہے، وہیں قاضی عبدالستار نے دونوں تہذیبوں یعنی عرب اور عجم (ہندوستان)کی تاریخی حقیقت نگاری کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ۔ قاضی صاحب نے تاریخ پر جب قلم اٹھایا تو صرف اس کے فنی اصولوں پر ہی توجہ مرکوز نہیں رکھی بلکہ اپنے دلکش اسلوب ، تاریخی شعور ، اس عہد کی فضا ، بے مثل منظر نگاری اور ان سب سے بڑھ کر گٹھے ہوئے زبردست مکالمے اور ڈائیلاگ سے قاری کو ایسا گرویدہ بنالیا کہ وہ ناولوں کے مطالعے میں دلچسپی لینے لگے ۔ قاضی عبدالستار نے تاریخی ناول نگاری کی روایت میں جن قیمتی موتیوں کا اضافہ کیا ہے ان کی چمک دمک کبھی مدھم نہیں پڑے گی ۔ ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے تاریخ کو فکشن بنایا مگر اس خوبی اور خوش اسلوبی کے ساتھ کہ وہ فکشن اب ادبی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔ ’’پروفیسر عبدالمغنی ‘‘قاضی عبدالستار کے تاریخی ناولوں کا مطالعہ کرنے کے بعدلکھتے ہیں:

’’تاریخی ناول نگاری میں یقیناً ان (قاضی عبدالستار) کا ایک خاص مقام ہے اور اس جہت سے ان کا شمار صفِ اول کے ناول نگاروں میں ہونا چاہیے ۔ انہیں اپنے فن اور اس کی مخصوص صنف میں وہ روایت ملی جس کے قابل ِ ذکر بانی عبدالحلیم شرر ہیں اور اس کو وسیع طور پر ترویج دینے والے صادق سردھنوی ، لیکن نسیم حجازی نے اس روایت میں توسیع واضافہ کرکے اس کو ایک عظیم فن کا اعتبار ومعیار بخشا۔ اسلم راہی اور عنایت اللہ التمش اسی راہ پر چلے جو نسیم حجازی نے روشن کی ، لیکن قاضی عبدالستار اپنی فن کاری میں کسی کے مقلد نہیں کہے جاسکتے....وہ بس ایک اعلیٰ پایے کے ناول نگار ہیں۔‘‘

(’’نذر قاضی عبدالستار ‘‘مرتب پروفیسر محمد غیاث الدین مشمولہ ’’قاضی عبدالستار بحیثیت ناول نگار‘‘ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی۲۰۰۶ء ،ص: ۲۰۴۔۲۰۳)

تاریخی ناولوں میں بہت زیادہ تخلیقیت کی گنجائش نہیں ہوتی ہے اس لیے کہ تاریخ نے جو کچھ بیان کیا ہے اسی کو آپ فکشن بناسکتے ہیں ۔ وہ کھلا ہوا میدان ، وہ کھلی ہوئی ہوائیں ، وہ کھلی ہوئی فضائیں جو آپ کو آزاد اور طبع زاد ناولوں میں ملتی ہیں وہ یہاں نہیں ہوتیں، شاید اسی لیے چاہے وہ نسیم حجازی ہوں یاصادق حسین ان دونوں کے ناولوں میں جو Historical Realityہے وہ وہی ہے ، لیکن جو Fiction Realityہے اس میں فرق ہے ۔ ان میں ہر ایک کے فکشن کا رنگ اپنے تفکر ات وخیالات ، مزاج وماحول اورتخیلاتی پرواز کے لحاظ سے پروان چڑھتا ہے ۔ اسی طرح قاضی عبدالستار کے تاریخی ناولوں کا رنگ بھی بالکل جداگانہ ہے ، وہ اپنے مخصوص رنگ اور دلفریب انداز ِ بیان سے پہچانے جاتے ہیں ۔ قاضی صاحب نے تاریخی ناولوں کے ذریعے جو شناخت قائم کی ہے اس میں دو طرح کی تاریخیں ملتی ہیں۔ ایک وہ ناول جو اسلامی تاریخ کا احاطہ کرتے ہیں مثلاً ’’صلاح الدین ایوبی ‘‘ اور ’’خالد بن ولید‘‘ جب کہ دوسرے ناولوں کا پلاٹ اور کہانیاں ہندوستان کی سیاسی تاریخ، مغلیہ سلطنت کی شان وشوکت اور اس کے نشیب وفراز سے تیار کی گئی ہیں، ان میں ’’دارا شکوہ ‘‘ اور ’’غالب‘‘ کا شمار ہوتا ہے ۔یہاں دونوں طرح کے ناولوں پر گفتگو کی جائے گی اور ناولوں کا انتخاب اشاعت کے اعتبارسے کیا جائے گا۔

صلاح الدین ایوبی قاضی عبدالستار کا پہلا تاریخی ناول ہے ۔ اس ناول کو سب سے پہلے سلیمان اریب نے رسالہ ’’صبا‘‘ کے پورے شمارے میں شائع کیا تھا جو اُس وقت مذکورہ رسالہ کے ایڈیٹر تھے ۔ بعد ازاں مکتبہ جامعہ نئی دہلی سے غلام ربانی تاباں نے اس ناول کو پہلی مرتبہ ۱۹۶۴ ء میں کتابی شکل میں شائع کیا۔ اس ناول کی اہمیت کا اندازہ یوںبھی لگایا جاسکتاہے کہ اس کے لکھنے پرقاضی عبدالستارکواس وقت کے صدرجمہوریہ ’’جناب فخرالدین علی احمد‘‘کے ہاتھوںاردوفکشن کاپہلا’’غالب ایوارڈ‘‘۱۹۷۳ء میںنوازاگیا۔یہ ناول اسلامی تاریخی کے اس سنہرے باب اور ان صلیبی جنگوں کا احاطہ کرتا ہے جو آج سے تقریباً نوسوسال قبل رونما ہوئی تھیں۔ قاضی عبدالستار نے صلاح الدین ایوبی لکھ کر اسلامی مشاہیر کے ایک ایسے ہیرو کو اپنے ناول کا موضوع بنایا جو اپنی بہادری ، دلیری اور میدان جنگ میں اپنی جانبازی کے لیے مشہور ہے۔اس ناول سے نہ صرف اس دور کی تاریخ آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے بلکہ اس عہد کے عربوں کی تہذیب وثقافت ،کلچر اور اسٹائل سب کچھ واضح اورعیاںہوجا تا ہے اور بہت سے قارئین اسلامی تہذیب وکلچر کے ساتھ ساتھ اس دور کی فضا اور ماحول سے بھی باخبرہوجاتے ہیں۔

ناول صلاح الدین ایوبی صرف اس لیے نہیں مشہور ہے کہ اس میں تاریخ کے صفحات کا خیال بڑی باریک بینی سے رکھا گیا ہے اور اس میں مختلف مقامات پر معروف مغربی مؤرخ ’’سیٹنلے لین پول‘‘کی کتاب ’’سلطان صلاح الدین ایوبی ‘‘ کا حوالہ مع صفحہ نمبر درج ہے ۔ اس میں شک نہیںکہ اس سے مصنف کا علمی شغف اور اس کے مطالعے کی وسعت النظری کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ان تمام چیزوں سے قطع نظرناول میں جس طرح عربوں کی تاریخ وتمدن ، اسلامی فضا وماحول ، ان کے عادات واطوار اور رہن سہن کے ساتھ ایسے اسلوب، جملے ،مکالمے، ڈائیلاگ اور اندازِ بیان جوہر کسی ناول یا مصنف کی تحریروں میں بآسانی نظر نہیں آتے اس میں موجود ہیں جو اس کی اہمیت اور عظمت کو واضح طورپرثابت کرتے ہیں ساتھ ہی اس کو دیگر تخلیق کاروں کی تخلیقات سے خاصا منفرد بناتے ہیں ۔ ’’ڈاکٹر انوار احمد‘‘اس سلسلے میںرقم طرازہیں:

’’اس (صلاح الدین ایوبی ) میں مصنف کی وہ تخلیقی قوت سامنے آتی ہے جو علم ، معتقدات ، اپنے عصر کے سوال اور تخیل کو وحدت میں ڈھال کر ایک ایسانگار خانہ تشکیل دیتی ہے جس میں ایک خاص دور کی عرب تاریخ وتہذیب، مسلمانانِ برصغیر کے لیے ایسے غازیوں کی فتح مندیوں سے بڑھی ہوئی دلچسپی کا نفسیاتی سبب ، غیر معمولی انسانی اوصاف رکھنے والے شخص کی بشریت ، کامرانی پرسایہ فگن موت ، محلاتی سازش ، محکوم کی ذہنی اور ثقافتی مغلوبیت کے مختلف پہلو اور تاریخ کا رخ موڑ سکنے کی اہلیت رکھنے والے وہ لمحے جو کسی کی بھی گرفت میں نہ آسکے ، ایک ایسے پرشکوہ اور رفیع الشان اسلوب میں اپنا حسنِ معنیٰ دکھاتی ہے جو آج اردو کے بہت کم افسانہ نگاروں کو نصیب ہے ۔‘‘

(’’اسلوب جلیل قاضی عبدالستار کا گرلینڈ اسٹائل ‘‘ مصنف ڈاکٹرطارق سعید۔مشمولہ ’’قاضی عبدالستار کے تین ناولٹس ، ایک ’’تنقیدی مطالعہ ‘‘ حوری نورانی مکتبہ دانیال وکٹوریہ ہارون روڈ ۱۹۹۳ء ،ص: ۱۰)

ناول کے پلاٹ کا تانا بانا دوسری اور تیسری صلیبی جنگوں سے بناگیا ہے ۔ناول کا آغاز دوسری صلیبی جنگ سے ہوتا ہے اور تیسری صلیبی جنگ جوکہ صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں لڑی گئی تھی ، کا منظرنامہ پیش کرتے ہوئے صلاح الدین کی شہادت پر ختم ہوجاتا ہے ۔ ناول کے کچھ حصے میں شعور کی رو تکنیک کا استعمال ہوا ہے جب کہ کچھ حصے فلیش بیک میں لکھے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ بیانیہ اور خطوط کے انداز میں بھی کچھ حصے موجود ہیں ۔ لہٰذا تکنیکی لحاظ سے اس ناول میں کئی تجربے کیے گئے ہیں۔

مذکورہ ناول میں صدیوں پرانے واقعات کی عکاسی اس خوبصورتی سے کی گئی ہے کہ اس میں آج کے دور کے ہندوستان کی طبقاتی کشمکش ظاہر ہورہی ہے جو بلا شبہ فن کارکی فنی گرفت کاایک اعلیٰ نمونہ ہے اورساتھ ہی اس بات کا بھی احساس نقادوں کے دلوں میں پیدا کراتا ہے کہ مصنف ماضی میں گزرے ہوئے واقعات کو حال میں زندہ کرنے کی زبردست قدرت رکھتا ہے ۔ قاضی عبدالستار نے جس ڈرامائی انداز سے ناول کی فضا تشکیل دی ہے اور جو خطیبانہ اسلوب اختیار کیا ہے وہ قابل رشک ہے ۔ قاضی صاحب اپنی سحر بیانی سے قاری کے ذہن ودماغ پر دیر پا نقش چھوڑ جاتے ہیں جو ان کا کمال ہے ۔ناول سے یہ عبارت دیکھیں:

’’بادل جب برستا ہے تو یہ نہیں سوچتا کہ اس کی بوندوں سے عدن کی سیپیوں میں موتی جنم پائیں گے یا دمشق کے نرکل میں زہر پروان چڑھے گا۔ وہ برستاہے ۔ اس لیے کہ برسنا اس کی فطرت ہے ۔‘‘

(’’صلاح الدین ایوبی ‘‘ مصنف: قاضی عبدالستارمکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی، مطبوعہ ۱۹۶۸ء،ص: ۱۰۶)

داراشکوہ قاضی عبدالستار کادوسراتاریخی ناول ہے جو پہلی مرتبہ ۱۹۶۷ء میں منظر عام پر آیا ۔یہ ناول اپنی گوناگوں خصوصیات کی بنا پر ادبی حلقوں میں قاضی صاحب کی شہرت کا سبب بنتا رہا ۔ اس کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۷۴ء میںقاضی صاحب کو داراشکوہ پر ملک کے مؤقر شہری اعزاز ’’پدم شری‘‘ سے سرفراز کیا گیا ۔ یہی نہیں بلکہ مذکورہ ناول موجودہ دور میں ملٹری کورس اور گورنمنٹ ڈگری کالج کے معروضی امتحان کا نصابی حصہ بھی ہے جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ قاضی عبدالستار اردو فکشن کی ایک معروف شخصیت ہیں لیکن خصوصی طور پر تاریخی ناول نگار کی حیثیت سے ان کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔ قاضی صاحب نے کئی تاریخی ناول لکھے ہیں جن میں انہوں نے اسلامی تاریخ، عربوں کی تاریخ ، ہندوستانی تاریخ اور مغلیہ تاریخ سبھی کو موضوع بنایا، حالاںکہ ان میں سے ہر ایک موضوع پر لکھا گیا ناول اپنے رنگ ڈھنگ اور اندازِ بیان کے لحاظ سے انفرادیت رکھتا ہے ، مگر جو شہرت اور عظمت داراشکوہ کے حصے میں آئی وہ دوسرے ناولوں کو نصیب نہیں ہوئی۔ مغلیہ دورکی زبان ،اس عہدکے رسم ورواج اورسیاسی صورتِ حال کوسمجھنے کے لیے داراشکوہ کامطالعہ ناگزیرہے۔داراشکوہ اردو ناول کی تاریخ میںعموماًاورتاریخی ناول نگاری کی روایت میںخصوصاًاس لیے زندئہ جاویدرہے گاکہ اس کی بدولت ایک خاص عہدکامغلیہ دور،یہاںکی تاریخ وتمدن، تہذیب وثقافت اوراس عصرکی سیاسی وسماجی زندگی کانقشہ ہماری نظروںکے سامنے پورے جاہ وجلال کے ساتھ اپنی موجودگی کاپتہ دیتاہے۔

داراشکوہ قاضی عبدالستارکابے مثال تاریخی ناول ہے، اس میں مغلیہ سلطنت کی ایک تاریخ ساز جنگ کا منظرنامہ پیش کیا گیا ہے ، جو دو بھائیوں کے درمیان اقتدار کے حصول، تخت طائوس کی خواہش اور حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینے کی غرض سے لڑی گئی تھی ۔ مذکورہ ناول سترہویں صدی عیسوی میں تقریباً چھٹی دہائی گزر جانے کے بعد دارا کی سرپرستی میں قندھار فتح کرنے کی ناکام کوشش اور شاہ جہاں کی علالت کے بعد شہزادوں کا آپس میں ’’ساموگڑھ‘‘ کے تاریخی میدان میں ٹکرانے کی تصویر کو ادبی اور فنی پیکر میں ڈھال کر اس طرح پیش کرتا ہے کہ عہد شاہ جہانی اور مغلیہ سلطنت دونوں کی شان وشوکت ،جاہ وجلال، تہذیب وتمدن ، رسم ورواج اور اس عہد کی جنگی منظر کشی وغیرہ سبھی کچھ سامنے آجاتا ہے اور قاری واقعات کے سحر انگیز بیانیے میں ایسا کھوجاتا ہے کہ خود کو اس عہد کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے ۔ اس کے علاوہ فن کار نے جس باریک بینی کے ساتھ بادشاہوں کے آداب اوران کے طور طریقے ، ملبوسات اور دیگر کھانے پینے کی اشیا وغیرہ کوبیان کیا ہے اس پر بے ساختہ آفریں کہنے کو دل چاہتا ہے ۔

بقول محمد شہزاد ابراہیمی :

’’ یہ ناول (داراشکوہ) دنیا کی ایک بڑی سلطنت کے مشہور ولی عہد ’داراشکوہ‘ کے سیاسی عروج وزوال کی داستان پیش کرتا ہے ۔ اس میں سیاست اپنے عروج پر نظرآتی ہے ۔ یہ ناول جن حقائق پر مبنی ہے ان میں معمار ہند شاہ جہاں کی پالیسی ، اقتدار کے لیے شاہ جہاں کے چار بیٹوں میں رسہ کشی اور اس سے پیدا شدہ نتائج ، شاہ جہاں کا دارا کے ساتھ جانبداری کارویہ ، دارا کی جائز وناجائز طریقے سے تخت زر نگار کو غصب کرنے کی ناکام کوشش ، اس کا اسلامی روایات کو مسخ کرنے کا رجحان ، شاہ جہاں کی کمزور سیاسی بصیرت اور وہ حکمت عملی جس کی بدولت اورنگ زیب کا سلطنت مغلیہ کے تخت زرنگار پر متمکن ہونا یہ سبھی قابل ذکر ہیں۔ یہ وہی حقائق ہیں جن کے تحت ناول نگار اس عہد کی پوری تاریخ کو ناول کے پیرائے میں اجاگر کرتا ہے ۔ جن کے زیر اثر عہد شاہ جہاں کے واقعات وحادثات کی کڑیاں آپس میں مل گئی ہیں۔ ‘‘

(’’قاضی عبدالستار کے تاریخی ناولوں میں ہیرو کا تصور ‘‘مصنف ڈاکٹر محمد شہزاد ابراھیمی ۔موڈرن پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی ۲۰۰۸ء، ص: ۹۳۔۹۲)

جہاں تک انشا پردازای ، طرز ِ تحریر ، اسلوب نگارش اور اندازِ بیان کا تعلق ہے تو یہ کہنے میں گریز نہیں کہ اردو ناول کی تاریخ میں قاضی عبدالستار نے بہت سے لکھنے والوں کے قلم کے رنگ کو پھیکا کر دیا ہے اور جو شہرت ، بڑائی اور ناموری قاضی عبدالستار کے حصے میں داراشکوہ کی وجہ سے آئی وہ ان کو دوسرے ناولوں کے ذریعے نہیں مل سکی ۔بلا شبہ داراشکوہ قاضی عبدالستار کا ایک شاہکار ناول ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،اور اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ قاضی عبدالستار نے داراشکوہ کیا لکھا بلکہ تشبیہوں ،استعاروں ، محاورات ،گھن گرج الفاظ اور مغل دربار کی شان وشوکت سے لبریز ڈائیلاگ کے ذریعے اردو زبان وادب کے حق میں مسیحائی کی ہے ۔یہاں ناول سے صرف دواقتباسات پیش کیے جاتے ہیں:

’’ ساری رات وزارتِ عظمیٰ کے دفاتر کھلے رہے ۔ سوار اور پیادے دوڑتے رہے۔ توپ خانے کے کارخانے ،ہتھیاروں کی گڑ گڑاہٹ اور گھوڑوں کی ہنہناہٹ سے گونجتے رہے ۔ تمام شہر نیم بیدار رہے۔دروازوں کی آنکھیں اور دیواروں کے کان سب سرگوشیاں کرتے رہے ۔‘‘

(’’داراشکوہ‘‘ مصنف قاضی عبدالستار۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ،دوسرا ایڈیشن ۲۰۱۳ء، ص:۸۵)

’’ (دارا)لالہ کے بے محابا حسن کے ہولناک تقاضوں سے مسرور ہوا۔ آہستہ سے سرکو جنبش دی ۔ سرکی جنبش ابھی ختم نہ ہونے پائی تھی کہ اس نے بھر پور پاؤں کی ٹھوکر مارکر رقص کا آغاز کیا۔ جیسے جھلستی گرمیوں کے پہلے روزے کے افطار کی توپ دغ گئی ہو ۔ وہ بغیر ساز کے ناچ رہی تھی ۔ مشک کے ابرو ،نیلم کی آنکھیں ،یاقوت کے ہونٹ ، سیاہ ریشم کے گیسو ، سنگ مرمر کی برجیاں ، ہاتھی دانت کے نازک ستون ، سونے کی محرابیں ،چاندی کے مخروطی شہتیر اور بلّور کے گنبد سب اپنے غرور کے نشے میں ناچ رہے تھے ۔‘‘

(’’داراشکوہ‘‘ مصنف قاضی عبدالستار۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ،دوسرا ایڈیشن ۲۰۱۳ء، ص:۳۲)

غالب قاضی عبدالستار کا تیسرا تاریخی ناول ہے جو ۱۹۸۶ء میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آیا ۔ اگرچہ یہ ناول اردو کے مشہور شاعر مرزا غالبؔ کی زندگی پر مبنی ہے لیکن اُس دور کی تاریخ کو ناول میں جس چابک دستی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے یہ چیزیں ناقدین کو اسے سوانحی ناول نہ کہہ کر تاریخی ناول کہنے پر مجبور کرتی ہیں ۔حالاں کہ اسے ایک سوانحی ناول بھی کہا جاسکتا ہے ۔قاضی عبدالستار کو ۱۹۷۳ء میں ’’صلاح الدین ایوبی ‘‘ پر پہلا غالب ایوارڈ دیتے وقت صدرجمہوریہ ’’فخر الدین علی احمد صاحب‘‘ نے یہ فرمائش کی تھی کہ آپ مرزا غالب پر ایک ناول تحریر کریں۔ یہ ناول اسی حکم کی تکمیل کا نتیجہ ہے جس کا ذکر ناول کے شروع میں ’’گزارش احوال واقعی ‘‘ کے عنوان سے موجود تحریر میں کیا گیا ہے ۔ حالاں کہ مرزا غالب ؔکی زندگی کے ہر گوشے پر تقریباً اہل نظر کی نظر رہی ہے ، یہاں تک کہ سعادت حسن منٹو اور بیدی نے غالب ؔپر کہانی بھی لکھی ۔ جس میں منٹو کی کہانی پر فلم بھی بنائی گئی ۔ اس کے علاوہ بے شمار ادیبوں اور شاعروں نے ڈراموں ، کہانیوں، نظموں اور سوانح وغیرہ کی شکل میں غالبؔ پر کچھ نہ کچھ لکھا ہے اس کے باوجود قاضی عبدالستار کا یہ ناول اپنے اندر تاریخ کے ساتھ ادبیت اور قصہ پن کو سمیٹے ہوئے اپنی ایک انفرادیت اور الگ پہچان رکھتا ہے ۔

مذکورہ ناول معروف شاعر غالبؔ کی زندگی ، مغلیہ دور کی تہذیب وثقافت اور اس عہد کی سیاسی وسماجی زندگی پر محیط ہے ۔قاضی صاحب نے اس دور کے عروض وزوال کو غالبؔ کی آنکھوں سے دیکھا اور ان ہی کے نظریوں سے پرکھا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح ہزاروں سال سے حکومت کررہی مغلیہ سلطنت کا آفتاب غروب ہوا اور فرنگیوں نے حکومت کی باغ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی ۔ غرض یہ کہ غالب ناول کا مطالعہ مرزا غالبؔ کی زندگی کے ساتھ ساتھ اس عہد کی سیاسی ، سماجی ، تہذیبی ، اقتصادی ،معاشرتی ، ادبی اور ثقافتی تمام پہلوؤں سے آگہی فراہم کراتا ہے ۔ اس میں مغلیہ سلطنت کی تباہی ، غالب ؔکے معاشقے ، غالبؔ کی افلاس بھری زندگی ، معاصر شعرا سے ان کی چشمک ، اس دور کی ادبی وشعری مجلسیں اور غدرکے المناک واقعات کو بڑی حسن کاری کے ساتھ ایک منظم اور مربوط پلاٹ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے ۔ غالب ؔچوں کہ مغلیہ تہذیب کے پروردہ اور دہلی کی تباہی کے چشم دید گواہ رہے ہیں لہٰذا ناول حال سے شروع ہوکر فلیش بیک کے سہارے ماضی کی سیر کرتا ہوا اختتام کو پہنچ جاتا ہے ۔

ناول میںفن کارنے جن امور کو زیادہ اہمیت دی ہے ان میں مغلیہ سلطنت کی زوال آمادہ صورتِ حال کا نقشہ ، دہلی کی تباہی وبربادی اور غدر کے موقع پر ہوئے فسادات بھی شامل ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ معاملاتِ مذکورہ کو بیان کرتے وقت مصنف نے غالب کے نظریے کا بھی پورا خیال رکھا ہے ۔ غدر کی شروعات جب میرٹھ سے ہوئی تو غالب نے کچھ اس طرح طنز کیا:

’’ میرٹھ کی چھاؤنی سے وہ آندھی اٹھی کہ دلّی بے چراغ ہوگئی۔ ‘‘

(’’غالب‘‘ مصنف قاضی عبدالستار ۔

ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ۱۹۸۶ء، ص:۱۸۴)

ناول اپنے فنی اصولوں پر کھرا اترتا ہے ۔اسلوب میں انفرادیت ہے جو تخلیقی نثر کا بہترین نمونہ ہے ۔ تشبیہات اور استعارات کا موقع ومحل کے اعتبار سے عمدہ استعمال کیا گیا ہے ۔ منظر نگاری کے بے مثل نمونے پیش کیے گئے ہیں ، بیان میں ایسی ندرت ہے کہ ناول کا مطالعہ دلچسپ اور پرکشش ہوجاتا ہے ۔مختصر یہ کہ غالب ناول مرزا غالبؔ کی زندگی کے اتارچڑھاؤ کے ساتھ اپنے عہد کی سماجی ، سیاسی ، تہذیبی ، ثقافتی اور معاشرتی زندگی کی پیش کش میں کامیاب نظر آتا ہے اور یہی اس کی خوبی ہے ۔ حالاں کہ قاضی عبدالستار کے دیگر تاریخی ناولوں کے مقابلے اس کا رنگ کافی حدتک پھیکامعلوم ہوتا ہے ۔

خالد بن ولید قاضی عبدالستار کا چوتھا اور آخری تاریخی ناول ہے جو پہلی بار ۱۹۹۵ء میں منظر عام پر آیا ۔ صلاح الدین ایوبی کی طرح یہ ناول بھی عربوں کی تاریخ اور اسلامی مشاہیر کے ایک زبردست ہمت اور طاقت وقوت رکھنے والے ہیرو کو اپنا موضوع سخن بناتا ہے ۔ اس ناول میں جلیل القدر صحابیٔ رسول ، بہادر شہ سوار ، عظیم سپہ سالار اور تاریخ ساز فاتح خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات ِ زندگی کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے ۔جنھوں نے اپنی دلیری ، جواں مردی اور اسلام کے حق میں جاں نثاری سے دشمنوں کو میدانِ جنگ میں کئی مرتبہ دھول چٹائی ۔ بے شمار جنگوں میں اپنی فولادی تلوار کا جلوہ بکھیرنے والے شیر دل خالدؓ کو ’’سیف اللہ ‘‘ (یعنی اللہ کی تلوار ) کے لقب سے بھی نوازا گیا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ جنگ میں ان کی شرکت فتح کو یقینی بنادیتی تھی۔

ناول خالد بن ولید کا پلاٹ حضور ؐ کے آخری دور کی زندگی سے شروع ہوکر خالد بن ولید کی زندگی کے آخری لمحات سے قبل تک رونما ہونے والے واقعات کو سمیٹے ہوئے ہے ۔ ناول میں فلیش بیک کی تکنیک کا استعمال ہوا ہے اور کہانی حال سے شروع ہوکر ماضی اور پھر حال میں آکر ختم ہوجاتی ہے ۔ ناول کا آغاز آپ ؐ کے رحلت فرمانے کے بعد عرب اور اس کے اطراف کے علاقوں میں موجود قبائل کا اسلام سے انحراف کرتے ہوئے بغاوت کا پرچم اٹھانے سے ہوتاہے اور ان پر سیف اللہ کی فتح کے تناظرسے گزرکراختتام کوپہنچتا ہے ۔

ناول میں مختلف جنگوں کی منظر کشی کی گئی ہے جس سے عربوں کی صدیوں پرانی تاریخ اپنی پوری فضا اور ماحول کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی ہے ۔قاضی عبدالستار نے ناول کے ہیرو خالد بن ولیدؓ کی شخصیت کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور انہیں اس طرح پیش کیا کہ وہ اپنی بے شمار خصوصیتوں کے ساتھ منظر عام پر نظر آتے ہیں اور یہ عاشقِ رسول ، اسلام کے سچے سپاہی ، انتظامی نظم ونسق کے ماہر ، سخی ، مخلص ، دیندار ، جنگی رموز ونکات کے ماہر، مجاہد ، فاتح ، کمانڈر ،دیانت دار ،نیک نیت ، خطیب اور امام کی شکل میں پیش کیے گئے ہیں ۔بطورِمثال ناول سے ایک عبارت پیشِ خدمت ہے:

’’ خالد کو تم نہیں جانتے میں جانتا ہوں ۔ پوری دنیا میں ان سے بڑا ماہر فنون جنگ اور اقبال مند اور فتح نصیب جنرل موجود نہیں ہے کسی قوم کا کتنا ہی بڑا لشکر کیسے ہی سازوسامان کے ساتھ سامنے آئے خالد پر فتح نہیں پاسکتا۔ اس لیے ان سے صلح کرلو۔ اگر یہ منظور نہیں تو یہ سن لو میں تمہارے ساتھ خالد کا مقابلہ کرنے پر تیار نہیں ہوں۔‘‘

(’’خالد بن ولیدؓ ‘‘ مصنف قاضی عبدالستار ۔

ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی ۱۹۹۷ء ،ص:۶۳)

ناول اپنے فنی اصولوں کو پوراکرتے ہوئے تمام اجزائے ترکیبی کا پورا حق ادا کرتا ہے، لیکن جو چیز قاضی عبدالستار کے ناول میں سب سے زیادہ متاثر کن ہوتی ہے وہ ان کا اسلوب، طرز تحریر اور جادوئی انداز بیان ہے ۔ وہ جس جاہ وجلال اور خطیبانہ لب ولہجے میں گھن گرج الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے مکالمے اور ڈائیلاگ تحریر کرتے ہیں بلا شبہ یہ صرف انہی کا خاصہ ہے جس کی نہ ہی کوئی آج تک نقل کرسکا، اس لیے اگر انھیں اپنے اسلوب کا موجد اور خاتم دونوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ناول کی ایک مختصر عبارت مثال کے لیے پیش کی جاتی ہے ملاحظہ فرمائیں:

’’ جہاں شہرت واقبال کی سواری اترتی ہے وہیں حسد کے کتّے بھونکنے لگتے ہیں ‘‘

(’’خالد بن ولیدؓ ‘‘ مصنف قاضی عبدالستار ۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی ۱۹۹۷ء،ص:۱۶۷)

......

کتابیات

(۱)         ’’نذر قاضی عبدالستار ‘‘مرتب پروفیسر محمد غیاث الدین۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی۲۰۰۶ء ۔

(۲)        ’’اسلوب جلیل قاضی عبدالستار کا گرلینڈ اسٹائل ‘‘ مصنف ڈاکٹرطارق سعید۔ حوری نورانی مکتبہ دانیال وکٹوریہ ہارون روڈ ۱۹۹۳ء ۔

(۳)        ’’صلاح الدین ایوبی ‘‘ مصنف قاضی عبدالستار ۔مکتبہ جامعہ لمیٹڈنئی دہلی ۱۹۶۸ء۔

(۴)        ’’قاضی عبدالستار کے تاریخی ناولوں میں ہیرو کا تصور‘‘ مصنف ڈاکٹر محمد شہزاد ابراہیمی۔موڈرن پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی ۲۰۰۸ء۔

(۵)        ’’خالد بن ولیدؓ ‘‘ مصنف قاضی عبدالستار ۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی ۱۹۹۷ء ۔

(۶)        ’’داراشکوہ‘‘مصنف قاضی عبدالستار۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی(دوسراایڈیشن)۲۰۱۳ء۔

(۷)        ’’غالب‘‘مصنف قاضی عبدالستار۔ایجوکیشنل بک ہائوس،علی گڑھ۱۹۸۶ء۔

(۸)        ’’نیادور‘‘ لکھنؤ۔ماہنامہ مئی۲۰۱۹ء۔

(۹)        ’’فکرونظر‘‘علی گڑھ۔سہ ماہی دسمبر۲۰۲۱ء۔

(۱۰)       ’’اردودنیا‘‘نئی دہلی۔ماہنامہ مئی۲۰۲۳ء۔

 

———————————

طوبیٰ اپارٹمنٹ، فلیٹ نمبر-303، تھرڈ فلور، ہائوس نمبر448/237، اسکیم، ملاحی ٹولا، ٹھاکرگنج، لکھنؤ-226003

موبائل: 9918998144

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...