Monday, July 10, 2023

سیاہ حاشیے جو سرخی مائل زیادہ ہیں

 سیاہ حاشیے جو سرخی مائل زیادہ ہیں

پروفیسر عتیق اللہ

میں جب ’سیاہ حاشیے‘ کے افسانوی شذرات پڑھ رہا تھا تو معاً خیال گزرا کہ منٹو کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور اس کے استعمال کردہ تمام الفاظ جو اس کے مضامین یا خاکوں یا اور دوسری تحریروں میں موجود ہیں، سب کے سب کہانیوں میں شرابور ہیں۔ اکثر مضامین میں سے کہانیاں نکالی جاسکتی ہیں۔ اس کے مذاق، اس کی مسخرگی، اس کی وضاحتوں میں بھی دکھ کی ایک کالی لکیر کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ پڑھنے والوں میں بھی بعض ایسے حساس قاری بھی ہوتے ہیں جو آج کے دورانیے میں ستّر برس قبل کی کہانیوں کو پڑھ کر ناقابلِ برداشت اذیت کے احساس سے گزرتے ہیں۔ قاری کا جب یہ عالم ہے تو ان کہانیو ںکے لکھنے والے کا کیا حال ہوا ہوگا جس کے ہاتھ میں قلم تھا اور جو سفید کاغذ پر نیلی یا سیاہ روشنائی سے وہ انھیں قلم بند کررہا تھا۔ الفاظ کی چیخو ںکی گونج اس کے اردگرد کے سناٹوں کے سینے چیر دیتی ہوگی اور خود لکھنے والے کی رگوں میں دوڑتے ہوئے خون میں سوئیو ںکے ریزے حل ہوکر تمام اعصاب کو چھلنی چھلنی کردیتے ہوں گے۔

جہاں تک ’سیاہ حاشیے‘ کی کہانیوں کی تکنیک کے بارے میں بعض حضرات نے بہت محتاط اور بہت بے باکانہ طور پر اظہارِ خیال کیا ہے، ان کی بھی قدر و قیمت ہے اور جنھوں نے انھیں رجعت پسندانہ قرار دیا ہے، اس کی بھی ترقی پسند نقطۂ نظر سے ایک قدر ہے۔ ترقی پسند تنقید نگاروں نے فکشن کی حدود میں لامحدودیت، بیانیہ کے فنی تقاضوں، ادراکِ حقیقت کے متنوع متبادلات اور مواد و ہیئت کی اس یکجائیت کو کوئی معنی ہی نہیں دیے، جس کی بہترین مثال ترقی پسند افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی نے قائم کی تھی۔ جس طرح جدیدیت کے علم برداروں نے فکشن کے مباحث کو غیرضروری سمجھا، اس کی پیش  روی ترقی پسندوں نے کی تھی لیکن وہ بھی نظم میں ساری تخلیقی قوتیں صرف کرنے میں اپنی اہلیت کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسی دورانیے میں منٹو کے افسانوں نے اپنے لیے ایک الگ راہ کا انتخاب کیا، جو بہت ٹیڑھی میڑھی، کنکریلی، چھوٹے بڑے گڑھوں سے بھری ہوئی تھی۔ منٹو نے تو اپنی اخلاقیات کا ایک مضبوط قلعہ خود تعمیر کیا تھا۔ اسے جتنا فحش کہا گیا، اس کی کہانیاں اتنی ہی مقدس ہیں۔ پورا ایک اخلاقی نظام ہے جس کے اپنے رہ نما اصول ہیں اور جو منٹو کے ذہن کے اسٹرکچر کے مماثل ہیں۔ فکشن نگار کی ذہنی ساخت اور کہانی کی ساخت میں کوئی مغائرت نہیں ہوتی۔ منٹو کی اخلاقیات اس کی ذہنی ساخت کی زائیدہ و پروردہ ہے، ہم جسے اس کی کہانیوںکی ساخت سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھ سکتے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کہانی، کہانی کار کے حکم پر نہیں چلتی خود اپنے حکم کی غلام ہوتی ہے۔ کہانی کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس نے کسی ایک سنگِ میل کو منزل قرار نہیں دیا، بلکہ ہر سنگِ میل پر کئی راہوں کے باب کھلے ہوتے ہیں اور ہم یہ نہیں جانتے کہ کون سی راہ منزل کو جاتی ہے۔ سب سے ستم ظریفانہ اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کا سرچشمہ کبھی سوکھتا نہیں۔ ہر ایک اس سے سیراب ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے اپنی ساری تشنگی بجھا لی ہے اور سارے ممکنات آزما لیے ہیں جبکہ یہ بھی خودفریبی کے زمرے کی چیز ہے جس کے کئی نام ہیں۔ منٹو نے بھی کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لکھا اور وہ بھی ہر کہانی کے ساتھ خود کو بھی دریافت کرتا رہا اور اس کی اسی کوشش نے اسے شراب کے نشے میں بھی ہوش مند رکھا۔ اس نے ادارتیں بھی کیں، تراجم بھی کیے۔ تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ مقدمات میں عدلیہ کے چکر بھی لگائے اور سب سے اہم بات یہ کہ بیوی بچوں کے لیے اس کی فکرمندی بھی بہتوں کے لیے اعجوبہ ہوسکتی ہے لیکن یہ پہلو بھی کوئی انوکھا پہلو نہیں ہے۔ اس کی اخلاقیات ہی کا مظہر ہے جو اس کی اسی ذہنی ساخت کا ساختہ ہے جو اس کی کہانیوں کا بھی سرچشمہ ہے۔ اس کی کہانیوں میں اس کا غم و غصہ بے تحاشہ پھوٹ کر نہیں نکلتا ۔ منٹو نہیں بلکہ اس کی کہانیاں ازخود اس غم و غصے کے لیے سدِّ راہ بن جاتی ہیں۔ دفاع و مزاحمت کی یہ صورتیں ہر اس کہانی میں واقع ہوتی ہیں جہاں جذباتی شدتوں پر پابندی ہمارے اختیار میں نہیں ہوتی۔ یہ دفاع و مزاحمت منٹو کی تمام کہانیوں کو حشو و زوائد سے باز رکھنے کے آلات حرب و ضرب ہیں۔

سیاہ حاشیے‘ جس کی کہانیاں 1948 میں مجموعے کی شکل میں سامنے آئیں۔ یہ دورانیہ ترقی پسند تحریک کے عروج کا تھا اور جس کی تہہ میں اس کے زوال کی ہمک بھی محسوس کی جانے لگی تھی۔ ترقی پسندوں نے ’رجعت پرستی‘ کا لفظ اس قدر استعمال کیا کہ وہ بہت جلد بے معنی (کلیشے) بن گیا۔ منٹو نے اپنا غم و غصہ، اپنا احتجاج اپنے مضامین میں درج کیا ہے۔ اس کی گفتار میں بھی اکثر باطن کی کڑواہٹیں اپنے لیے گنجائش نکال لیتی تھیں۔ منٹو محض اپنے دور ہی کا نہیں تمام ادوار کا فنکار تھااور تمام ادوار میں وہ Human concerned کے طور پر متعارف ہوتا ہے۔ اس کی ہم دردی بھی بیدردی سے کم نہیں تھی، جس نے اس کی ہڈیوں کے گودے کھالیے، اس کے ایک ایک عضو کو ناکارہ بنا دیا، وہ قطرہ قطرہ اپنے لہو کی دھونی دیتا رہا اور یہ سمجھتا تھاکہ یہ بیدرد حساسیت بالآخر اسے کس معدومیت کے اندھیرے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ’سیاہ حاشیے‘ سے قبل جو افسانوی مجموعے شائع ہوچکے تھے۔ ان کے بعد یعنی عین تقسیم وطن کا سانحہ رونما ہونے کے بعد ’سیاہ حاشیے‘ کی کہانیوں کو مرتب کرنے کا کیا جواز ہے۔ اگر انھیں filler یعنی بھرائی کہا گیا یا لطیفو ںکے نام سے انھیں یاد کیا گیا تو یہ اتنا غلط بھی نہیں ہے۔ اس مسئلے پر میں بعد میں بحث کروں گا۔ یہ بحث تو اسی وقت بامعنی ہوگی جب ہم ان شذرات کو کہانیوں یا افسانچوں سے تعبیر کریں۔ درج ذیل لطیفہ ہے یا افسانہ۔ پہلی بات تو یہ کہ اسے سب سے مختصر کہانی سے بھی یاد کیا گیا تھا:

’’ٹرین میں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے دو اشخاص میں سے ایک نے دوسرے  سے پوچھا ’’تم بھوت پر یقین کرتے ہو۔ دوسرے نے کہا ’نہیں‘ اور پہلا شخص غائب ہوگیا۔‘‘

ہم اسے لطیفہ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہر شخص وہ حسِّ لطیف نہیں رکھتا کہ لطیفے سے لطف اندوز ہو۔ لطیفے زیادہ Open ended ہوتے ہیں۔ جب کوئی لطیفہ سننے کے بعد یہ سوال کرتا ہے کہ بات سمجھ میں نہیں آئی تو لطیفہ گو کو اپنا سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ ہر کہانی کا دہانہ بھی کھلا ہوا ہوتا ہے۔ وہ جہاں ختم ہوتی ہے اس کے بعد اس کا لکھنے یا سنانے والا معدوم ہوجاتاہے اور آپ اس کے انجام کی کوئی اور توقع قائم کرلیتے ہیں جس سے کہانی کار کو کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ کہانی اور پلاٹ کی تخصیص قائم کرتے ہوئے ایک مثال اکثر دی جاتی ہے:

’’بادشاہ مرگیا اور پھر ملکہ مرگئی‘‘

بادشاہ مرگیا یہاں تک یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو عین ممکنات کے زمرے میں آتا ہے، لیکن فوراً ملکہ کی موت ذہن کو شکوک میں مبتلا کردیتی ہے۔ ضرور اس موت کے پیچھے کسی کی سازش کارفرما ہے۔ اس واقعے کو ازسر نو تنظیم دینے کام پلاٹ کا ہے جو موت کے اسباب و وجوہ سے آگاہ کرتا ہے۔ ظاہر ہے بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ جو اسباب فکشن نگار بتاتا ہے وہ بھی ممکن ہیں اور کچھ ایسی گنجائشیں بھی ممکنات کی راہ نکالتی ہیں جیسے ملکہ کی موت تو بادشاہ کی موت کے صدمے سے واقع ہوسکتی ہے یا وہ لاولد تھے، اس لیے وزیر نے سازش کی یا ملکہ بادشاہ کی دوسری بیوی ہو اور اس کے بیٹے کے علاوہ دوسرا بھی کوئی بیٹا ہو جو پہلی بیوی سے بھی ہوسکتا ہے۔ بادشاہ دوسری بیوی کے بیٹے سے زیادہ شفقت رکھتا ہو جس کے باعث پہلی بیوی کا بیٹا بادشاہ کی موت کے بعد کسی طرح سازش کرکے ملکہ کو زہر پلا دیتا ہے اور وہ مرجاتی ہے۔ اسباب ایک ہزار ہوسکتے ہیں جنھیں اغلب بھی کہا جاسکتا ہے اور ممکنہ بھی اور یہ ایک فطری واقعہ بھی ہوسکتا ہے۔ دونو ںطرح کی صورتیں عالمی تاریخ کے ہر دور میں واقع ہوتی رہتی ہیں۔ اس کا ایک ہی مطلب ہے ہر رونما ہونے والا واقعہ، حقیقی بھی ہے اور افسانے میں اس کی صورت کچھ اور ہوجاتی ہے اور یہ کہ ہر خیالی واقعہ افسانے میں ڈھلنے کے بعد حقیقی واقعے کا تاثر دیتا ہے کیونکہ وہ کسی کے ساتھ بھی واقع ہوسکتا ہے:

دنیا کے واقعات ہیں دنیا کے ساتھ ساتھ

جو آج ہورہا ہے وہی بارہا ہوا

ایک اور دو سطروں پر مبنی کہانی بھی سن لیں۔ اسے میں پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں۔ اجین ایک بہت قدیم شہر ہے۔ کالیداس اور بھرترہری اور وکرمادتیہ کا شہر  یہ لوک کہانیوںکا بھی بہت بڑا مرکز رہا ہے۔ وکرم اور بیتال سے کون واقف نہیں ہے۔ اسی شہر میں یہ قصہ بھی مشہور ہے کہ ایک جہاں دیدہ عورت قصہ گوئی میں بہت شہرت رکھتی تھی، لیکن ایک کہانی سنانے کے سونے کے ایک سو سکے لیتی تھی۔ ایک شخص کو نئی نئی کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا۔ اس نے جب اس عورت کے بارے میں سنا تو بے چین ہوگیا اور کسی نہ کسی طرح سو سکّے جمع کیے اوراجین کی راہ لی۔ راستے میں ایک ڈاکو مل گیا اس نے اسے لوٹنا چاہا تو اس نے اپنے سفر کی وجہ بتائی اور یہ منت کی کہ مجھے بخش دے۔ میں جب کہانی سن کر واپس آؤں گا تو مجھے لوٹ لینا۔ ڈاکو نے جب یہ بات سنی تو اسے دلچسپی پیدا ہوئی، اور اسے بھی کہانی سننے کا اشتیاق پیدا ہوگیا۔ ڈاکو نے اس وعدے پر اس مسافر کو چھوڑ دیا کہ وہ واپسی پر وہی کہانی اسے بھی سنائے گا۔ وعدہ کرکے مسافر جہاں دیدہ عورت کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے اپنا مقصد بتایا تو عورت نے سونے کے سکوں کی بات کہی۔ مسافر نے فوراً سکوں سے بھری ہوئی تھیلی اس کے آگے رکھ دی۔ قصہ گو عورت نے کہانی سنائی کہ:

’’جب دوسری بار تم کسی سے ملتے ہو تووہ آدمی پھر وہ نہیں رہتا جو پہلی بار ملنے پر تھا۔‘‘

کہانی ختم ہوگئی اور کہانی سے سیر ہوکر مسافر نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ ڈاکو بہت خوش ہوا۔ اس نے مسافر کی آؤ بھگت کی اور پھر اس سے کہانی سنانے کے لیے کہا۔ مسافر نے جواباً کہانی سنائی کہ:

’’جب تم دوسری بار کسی سے ملتے ہو تو وہ آدمی پھر وہ نہیں رہتا جو پہلی بار ملنے پر تھا۔‘‘

ڈاکو نے کہانی سنی تو وہ اٹھا اور مسافرکو گلے لگا لیا اور بہت سے تحفے تحائف دے کر اسے رخصت کردیا۔ کہانی میں قلب ماہیت کا ایک پہلو بھی بین السطور ہے اور کہانی ختم ہونے کے بعد سننے والا استعجاب میں پڑجاتا ہے کہ ارے ایسا بھی ہوتا ہے! دراصل کہانی جہاں دیدہ عورت کی ڈیڑھ سطر پر لطف کا سارا سامان مہیا نہیں کرتی، ڈاکو کا کردار اسے انتہائی لطیف بنا دیتا ہے اور لطف ہی سے لطیف اور لطیفہ بنا ہے۔

یہ کہانی اور دوسرے قصے اور لطیفے سنانے کا ایک محل تھا اور وہ یہ کہ نہایت اختصار کے ساتھ بھی کہانیاں سنانے کا چلن تھا اور کہانی کے لیے طوالت اور اختصار کا کوئی جامع تصور ابھی تک متشکل نہیں ہوا ہے۔ ’سیاہ حاشیے‘ کے انتساب میں خود ایک کہانی پنہاں ہے۔ منٹو نے جس شخص کے نام اپنی تصنیف معنون کی ہے وہ ایک واقعہ ہے اور واقعہ کو کس طرح کہانی کی شکل دی جاسکتی ہے، اس کے ہزار طریقے ہیں۔ ہر کہانی اپنی تکنیک اور اپنی شعریات لے کر پیدا ہوتی ہے۔ اسے بس ہمیں دریافت کرنا ہوتا ہے۔ اس معنی میں سنائی جانے والی کہانی اور لکھی جانے والی کہانی میں نمایاں اور ضمنی افتراق کا پیدا ہونا لازمی ہے۔

منٹو نے ان الفاظ میں کتاب کو اس اجنبی شخص سے منسوب کیا ہے جس سے اتفاقاً اس کی مڈبھیڑ ہوئی ہوگی۔ وہ کہاں ملا تھا نہ تواس جگہ کے بارے میں وہ بتاتا ہے اور نہ یہ کہ پھر کیا ہوا؟

اس آدمی کے نام جس نے اپنی خوں ریزیو ںکا ذکر کرتے ہوئے کہا:

’’جب میں نے ایک بڑھیا کو مارا تو مجھے ایسا لگا مجھ سے قتل ہوگیا ہے۔‘‘

اس کے بعد ہی افسانچے ساعتِ شیریں ’سیاہ حاشیے‘  کا آغاز ہوتا ہے:

’’اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مہاتما گاندھی کی موت پر اظہار مسرت کے لیے امرتسر، گوالیار اور بمبئی میں کئی جگہ لوگوں میں شیرینی بانٹی گئی۔‘‘

افسانہ ہو یا افسانچہ یا کوئی ناول ہر صنف کے ساتھ بیانیہ کی تکنیک بدل جاتی ہے۔ منٹو نے ایک بے نام قاتل کے نام سے ’سیاہ حاشیے‘ کو منسوب کیا۔ کیوں؟ فکشن کے قاری کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہوتااور نہ ناول یا افسانے کے کرافٹ کے لیے یہ کوئی مسئلہ ہوتا ہے کہ کہانی کسی حقیقی واقعے یا واقعات پر مبنی ہے کہ اس میں خیالی واقعات Imagined Events کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ حقیقی صداقت بھی ایک بھرم ہی ہے۔ اسی لیے فکشن نگار صیغۂ ماضی میں واقعات کو بیانیہ پیرائے میں کہانی کا روپ دیتے ہیں۔ Truth-value اور Fictional value میں باریک سی لکیر کا فرق ہے۔ بڑھیا کو مارنے والا بھی انسان ہے اور آج کے ’ہندوستان ٹائمز‘ کی خبر ہے کہ ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو مارنے والا بھی انسان ہے جو اتنے قتل کے بعد خودکشی کرلیتا ہے۔ کہانی یا خبر پڑھنے والا یہ بھول جاتا ہے کہ یہ محض خبر ہے اطلاع ہے بلکہ جب اس واقعہ کو کوئی فکشن نگار کسی ناول یا افسانے کی شکل میں منقلب کرتا ہے تو اس کے بیان کرنے کا انداز مختلف ہو نہ ہو وہ ہمیشہ کے لیے انسانیت کے لیے ایک ایسے واقعے کی شکل لے لیتا ہے جو قاری کے ذہنوں میں سوال در سوال پیدا کرتا اور انسان کو حیوانیت کے درجے پر دیکھ کر خود کو کوسنے لگتا ہے کیونکہ اس کا شمار بھی بدبختی سے انسانوں ہی میں ہوتا ہے۔ ’ساعتِ شیریں‘ میں ہندوستانی نژاد منٹو جواب پاکستانی باشندہ ہے۔ وہ مہاتما گاندھی کی موت پر گھی کے چراغ جلانے والوں کی خبر کو فکشن میں کیوں بدلنا چاہتا ہے۔ دراصل یہ وہی anti-thesis ہے جو ٹھنڈا گوشت ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک، موذیل کے علاوہ اور دوسری بہت سی کہانیوںمیںان تضادات کو انسان اور صورت حال کے باطن کے اندر سے کھینچ لانے کی کوشش کرتا ہے اور خود بھی لہولہان ہوجاتا ہے۔ جو کچھ واقع ہے جو کچھ حقیقت ہے سب Situational ہے۔ مہاتما گاندھی کا قتل خود ایک تضاد ہے، جو شخص زندگی بھر عدم تشدد کی تشہیر کرتا رہا اور ایک مجسم سنت کی طرح جس نے زندگی گزاری وہی ایک دن تشدد کا شکار ہوجاتا ہے۔ امرتسر اور گوالیار یا بمبئی ہی نہیں اور دوسرے کئی مقامات پراس قتل کی خوشیاں منائی گئیں۔ تقسیم وطن کے ذمہ دار تو وہ نوآبادکار تھے جو ایک ایسا زہر کا بیج بوکر گئے تھے جس نے پورے ہندو پاک کی سیاست کو مستقل کینسر کے عذاب میں مبتلا کرکے اور آزادی کا لولی پاپ ہاتھوں میں تھما کر ہمیں ہمیشہ کے لیے ان سرحدوں پر تعینات کردیا جن کا لہو رنگ کبھی ہلکا ہونے کا نام نہیں لیتا۔

منٹو نے ’مزدوری‘ میں غربت زدہ انسانوں کی لوٹ کھسوٹ کی واردات کو ڈرامائی انداز میں بیان کیا ہے۔ 1947-48 میں جو فسادات رونما ہوتے رہے اور تقسیم کے بعد بھی جیسے 1984 کے فسادات جو سکھوں کے خلاف تھے۔ اس میں بھی اسی قسم کی لوٹ مار ہوئی اور جگہ جگہ سکھوں کو بے دردی سے مارا اور جلایا گیا۔ یہ تمام خبریں ہیں اور سب میں واقعیت ہے۔ اخباروں کی ان رپورٹوں کے آج تراشے بھی نہیں ملتے لیکن خبر اور خبر میں فرق ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کون سی خبر یادداشتوں میں چسپاں ہوکر رہ جاتی ہے اور ایک حساس فنکار کے لیے وہ محض اطلاع نہیں ہوتی بلکہ اس کی آگاہیوں کو غذا فراہم کرنے والا ذریعہ بن جاتی ہے۔ افسانے کے چوکھٹے میں چست بیٹھ کر اس کی قلب ماہیت کچھ اس طور پر ہوجاتی ہے کہ پھر اس کا ٹھکانہ اجتماعی لاشعور ہی ہوتا ہے۔ کشمیری فلاکت زدہ مزدور ٹانگ میں پولیس کی گولی لگنے کے باوجود وہ گری ہوئی اناج کی بوری کو زخمی حالت میں پیٹھ پر ڈال کر پھر بھاگنے لگتا ہے او رپھر دو قدم چل کر لڑکڑا کر زمین پر گر جاتا ہے۔ پولیس پکڑ کر تھانے لے جاتی ہے۔ وہاں وہ فریاد کرتا ہے کہ ’’حضرت آپ مجھے کیوں پکڑتی ہے… میں تو غریب آدمی ہوں… چاول کی ایک بوری لیتی… گھر میں کھاتی… آپ ناحق مجھے گولی مارتی۔‘‘ پھر بھی پولیس اس کے کرب کو محسوس کرنے سے باز رہتی ہے۔ دھماکہ وہاں ہوتا ہے اور ہمارے حواس کو بھک سے اڑا دیتا ہے۔ جب وہ حسرت سے بوری کی طرف دیکھتا ہے اور ہاتھ پھیلا کر کہتاہے ’’اچھا تو حضرت تم بوری اپنے پاس رکھو… میں اپنی مزدور مانگتی… چار آنے‘‘۔ دراصل افسانہ اور افسانے کی واقعیت یہاں فکشن کا روپ اختیار کرلیتی ہے اور اس میں سے ایک نئی کہانی پھوٹ نکلتی ہے۔  یہ تو خبروں یا لطیفوں کی بات ہوئی۔ میں نے یہ بھی لکھا ہے کہ منٹو کے ادبی مضامین میں بھی کئی کہانیاں گوشہ نشین ہیں۔ اوپر، نیچے اور درمیان (اشاعت 1954) میں پس منظر کے نام سے جو مقدمہ شامل ہے، اس میں منٹو نے ایک جگہ لکھا ہے:

’’حکومت سوچ رہی ہے کہ طوائفوں اور رنڈیوں کے لیے راوی کے پاس ایک بستی بنا دے تاکہ شہر کی غلاظت دور ہو۔ کیوں نہ ان شاعروں، افسانہ نگاروں اور ادیبوں کو بھی ان میں شامل کرلیا جائے۔‘‘

مجھے معاً غلام عباس کے ’آنندی‘ کا خیال آگیا۔ اسی عنوان کے تحت ان کا پہلا افسانوی مجموعہ 1948 میں شائع ہوا تھا۔ اس کا پلاٹ بقول ان کے ٹالسٹائے کے ایک افسانے سے اخذ کردہ ہے۔ منٹو اپنے ادبی سفر کے ابتدائی مرحلے میں روسی فکشن سے بہت متاثر بھی ہوئے تھے، لیکن اس موضوع و مسئلے کو پلاٹ بنا کر کوئی کہانی نہیں لکھی تھی۔ محولہ اقتباس بھی اوپر، نیچے اور درمیان کے اس مقدمے سے اخذ کردہ ہے جسے انھوں نے پس منظر کے عنوان سے موسوم کیا ہے۔ اس اقتباس میں شہر سے باہر رنڈیوں، طوائفوں کی بستی بسانے ہی سے پوری غلاظت دور نہیں ہوسکتی، اس لیے سماجی اخلاقیات کا تقاضایہ بھی ہے کہ ادیبو ں اور شاعروں کو بھی شہر کی حدود سے باہر کردیا جائے۔ یہاں منٹو نے افلاطون کی زبان میں بات کی ہے جو شعرا کو مخربِ اخلاق کہا کرتا ہے۔

کرامات‘، ’جیلی‘، ’ہمیشہ کی چھٹی‘ جیسی کہانیاں طول طویل افسانوں پر بھاری ہیں۔ یہ افسانچے منٹو کے طویل افسانے ہی ہیں جو آخری سطر سے شروع ہوتے ہیں۔ اب یہ دو ڈھائی سطور پر مبنی ’سوری‘ نام کی کہانی کیا کہتی ہے:

’’چھری پیٹ کو چاک کرتی ہوئی ناف کے نیچے تک چلی گئی۔ ازار بند کٹ گیا۔ چھری مارنے والے کے منہ سے دفعتاً کلمہ تاسف نکلا۔ ’چ چ چ چ ... مسٹیک ہوگیا۔‘‘

افسانہ نگار نے یہ نہیں بتایا کہ لڑکی کس مذہب کی تھی اور مارنے والا کس مذہب سے تعلق رکھتا تھا،لیکن ہم ’مسٹیک ہوگیا‘ سے سمجھ جاتے ہیں کہ مارنے والا کون تھااور جس کے پیٹ میں چھری اتاری گئی تھی وہ کون تھی؟ مارنے والے کا ضمیر کہاں جاکر عذاب کا ایک تھپّڑ بن جاتا ہے۔ یہی Dichotomy  داد و پہلوان اور بابو گوپی ناتھ یا خوشیا میں ہے جس کے باعث ہم انسان سے ایک پرامید رشتہ قائم کرلیتے ہیں۔

ٹھنڈا گوشت‘ میں اور کیا ہے۔ انسان جو مردہ خور حیوان بن جانے کے بعد بالآخر اسے اپنے ضمیر ہی میں پناہ لینی پڑتی ہے۔ معاً مجھے اس صدی کی اولین دہائی میں رونما ہونے والے سانحہ کی وہ حاملہ لڑکی یاد آگئی۔ سرِ راہ جس کی اجتماعی عصمت دری کی جاتی ہے، اس کا پیٹ چاک کیا جاتا ہے۔ اس کی شرم گاہ میں تلوار گھونپی جاتی ہے اور ہر مجرم  آزاد ہے۔ ’آرام کی ضرورت‘ کیا ہے۔ یہ محالیہ Paradox ہی ہے۔ اس معنی میں منٹو کی ہر چھوٹی بڑی کہانی ایک ایسے پیراڈکس کا نمونہ ہے جو صاحبِ ضمیر کے لیے ناقابل برداشت صدمے سے کم نہیں ہوتا۔

’’دیکھو یار تم نے بلیک مارکیٹ کے دام بھی لیے اور ایسا پٹرول دیا کہ ایک دکان بھی نہ جلی۔‘‘ (الہنا)

اور افسانہ ختم۔ یہاں سے وہ پلاٹ شروع ہوتا ہے، جس کا خالق کوئی اور نہیں اس کا قاری ہوتا ہے۔ پٹرول پمپ کا آدمی دانستہ اتنی زیادہ ملاوٹ کرتا ہے کہ وہ ان وحشیوں اور درندوں کے کرتوتوں سے واقف ہے اور کئی انسانی جانوں اور مالی نقصانات سے بچانے کی وہ ایک راہ یہ نکالتا ہے۔ بےایمانی اس تناظر میں ایمانداری سے بڑی ایمانداری اور نیکی میں بدل جاتی ہے۔ افسانے کو اس کے خارج میں نہیں باطن میں اتر کر دیکھے بغیر پلاٹ کا اصل تصور بھی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ ’رعایت‘ کو پڑھ کر ’کھول دو‘ میں جو ستم ظریفی سرایت پذیر ہے، معاً اس کی یاد آجاتی ہے، حیوانیت اور گھاٹے کا سودا کی ستم ظریفی میں جو بے پناہ شدت ہے، اس کی برقیاتی لہر ہڈیوںتک کو جھلس دیتی ہے۔ یاد آتا ہے وہ ’ٹیٹوال کا کتا‘ جو انسان کے دھوکے میں مفت مارا جاتا ہے۔ کتے کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ دشمن کی طرف کا تو نہیں، وہ بے چارہ، انسانی تعصبات سے لاعلم، پتھر دل انسانوں کی درندگی سے نابلد کبھی اِدھر کا بنا دیا جاتا ہے اور کبھی اُدھر کا۔ پاکستانی فوجی اپنی رسی اس کے گلے میں باندھ کر پھر واپس ہندوستانی سرحد کے پار دھکیل دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں اب وہ کتا، مسلمان تھا۔ ہندوستانی فوجی کی طرف سے گولی چلتی ہے اور ’کتا‘ بےموت مارا جاتا ہے۔ جسے ہندوستانی اپنی فتح اور پاکستانی فوجی شہید قرار دیتے ہیں۔ اس افسانے سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا خیال تو آہی جاتا ہے، لیکن سیاہ حاشیے کی ’حیوانیت‘ میں چھوٹی بیٹی اور اپنی گائے کو بچانے کے لیے دوسری جوان بیٹی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کا انجام ’ٹیٹوال کے کتے‘ کی طرح ہوتا ہے کہ ’کھول دو‘  کی سکینہ کی طرح۔ افسانہ نگار کو ان کے اینٹی کلائمیکس پر سے پردہ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

افسانہ چھوٹا بہت چھوٹا، چھوٹے سے چھوٹا جیسے ’دعوتِ عمل‘ یا ‘خبردار‘ یا  ’الہنا‘ وغیرہ ہیں اور خود منٹو کے طویل افسانے ان میں افسانے کی وہ ساری تعریفیں جو تعلیمی اداروں سے ہوتی ہوئی بیانیہ کی ان تعریفوں تک پہنچتی ہیں اور ان پہچان کے عناصر کی نشاندہی کرتی ہیں جن میں کہانی اور پلاٹ کو ایک دوسرے سے ممیز کرنے اور انھیں کوئی نیا نام دینے کی طرف رجحان نے فکشن کو سمجھنے کی کئی راہیں وا کردی ہیں۔ باوجود اس کے فکشن اور فیکٹ کی مقدار کا تعین کیا جاسکتا ہے نہ فکشن سے فیکٹ کو اور فیکٹ کو فکشن سے الگ کوئی معنی دیے جاسکتے ہیں۔ افسانوی ادب کی یہی گرامر ہے۔ منٹو کے ان افسانچوں میں آپ کو یہ ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی کہ یہ واقعہ رونما ہوا تھا تو کب اور کہاں۔ کہیں کہیں مقام کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔ منٹو اسباب سے بھی ہمیں آگاہ نہیں کرتا کہ اس وقوعے (Happening) کے پیچھے کون سے وجوہ کارفرما تھے۔ بیان کرنے والا جس طرح ’لاموجود‘ ہے اسی طرح narratee کی تلاش بھی  بے سود ہے۔ ضمیر اشارہ Dieties بھی موہوم ہیں۔

’’مرا نہیں… دیکھو ابھی جان باقی ہے‘‘

’’رہنے دو یار...میں تھک گیا ہوں‘‘ (آرام کی ضرورت)

اب آپ سوچتے رہیے کہ یہ واقعہ کہاں رونما ہوا ہوگا؟ ’مرا نہیں‘ ... کہنے والا انسان بھی بے رحم ہے اور تھک گیا  ہوں کہنے والا انسان بھی بے رحم ہے، لیکن افسانے کا عنوان ’آرام کی ضرورت‘ تیر و نشتر کا کام کرتا ہے اور اس ستم ظریفی پر سے پردہ اٹھاتا ہے جس کے تناظر سے مصنف اپنے قاری کو بے خبر رکھنا چاہتا ہے۔ کیٹ ہمبرگر (Kate Humberger) نے The Logic of Literature میں ایک جگہ بظاہر بہت پتے کی بات کہی ہے کہ:

"Logic is the tool of understanding while poetics is the tool of vision."

’’منطق سمجھ بوجھ یا فہم و فراست کا آلہ ہے جب کہ شعریات وژن کا آلہ ہے۔‘‘

جہاں تک سمجھ بوجھ کا تعلق ہے جب اسے فلسفے کی زبان کے ساتھ وابستہ کریں گے تو منطق یقیناً ایک کارآمد آلہ ہے لیکن شعریات محض وژن کا آلہ نہیں ہے بلکہ ادب کو غیرادب سے ممیز کرنے کا آلہ ہے۔ حالانکہ یہ خیال ہی غلط ہے کہ فلسفہ کا تعلق صرف منطق یا منطق کا تعلق صرف فلسفہ سے ہے۔ منطق محض تعقل ہی  ہے اور فلسفے سے تخیل و وجدان کو خارج کرکے فلسفے میں فہم کے دائرے کو ہم تنگ کردیں گے۔ اسی بنا پر وجودیت کو فلسفہ ماننے سے فلسفیوں نے انکار کردیا۔ افلاطون کا تصورِ عینیت کیا منطق کی بنیاد پر استوا رہے یا سقراط جو ہمیشہ ’صداقت‘ کی تعریف اپنے معاصر حجتیوں سے پوچھتا رہتا تھا کسی مجرد مسئلے کو محض منطق کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ سقراط نے تخیل و وجدان کو شاعروں اور پیغمبروں کو سونپ دیا اور منطق کے سہارے صداقت، حسن اور خیر کی کوئی تعریف خود بھی طے نہیں کرسکا۔

منٹو کے افسانوں میں جو ابہام پیدا ہوتا ہے وہ صرف اس بنا پر کہ ہم زمان و مکاں کا تعین نہیں کرسکتے اور ان کو دو ڈھائی یا آدھ ایک صفحے پر دیکھ کر سرسری گزر جاتے ہیں۔ ترقی پسندوں کی فہم سے بھی یہ بالا ہے اورخود محمد حسن عسکری کی فہم سے بھی بالا ہے جن کی حاشیہ آرائی میں ان کا ذہن پوری طرح صاف نہیں ہے۔ انھیں یہ سمجھنا مشکل نظر آرہا تھا کہ منٹو نے جس کتاب کا دیباچہ لکھوایا ہے اس کے ساتھ کیسے انصاف کرسکوں۔ ان کا ذہن ترقی پسندوں اور منٹو کے درمیان گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھا جبکہ منٹو ترقی پسندوں کی کوتاہیوں کو بھی خوب سمجھتا تھا اور محمد حسن عسکری کے حدود بھی اس کی نظر میں تھے۔  ’سیاہ حاشیے‘ کے افسانوں کو ان دونوں کے مسائل کو ذہن سے جھٹک کر پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے سمجھنا تو دور کی بات ہے پڑھنے کا کلچر بھی زوال پذیر ہے۔

 

rrr

 

 

C-125،بسیرا اپارٹمنٹ، نور نگر ایکسٹینشن

جامعہ نگر، نئی دہلی-110025

موبائل: 9810533212

1 comment:

  1. نئی فکر دیتا ہوا بہترین مقالہ

    ReplyDelete

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...