Tuesday, July 11, 2023

ٹرّم ٹوں بھئی ٹرّم ٹوں

ٹرّم ٹوں بھئی ٹرّم ٹوں

ڈاکٹر بانو سرتاج

 

کردار ایک کسان۔ ایک پنڈت۔ کسان کی پتنی۔ کسان کا چھوٹا بچہ۔ چند بچے جو ٹٹہری، کوے، بیل اور چوہے کے مکھوٹے لگاکر جانوروں اور پرندوں کے کردار نبھائیں گے۔

مقام:       گائوں

وقت:      شام کا

(پردہ اٹھتا ہے۔)

(پیچھے پردے پر گائوں کا منظر۔ چھوٹے چھوٹے مکانات اور گلیوں،سڑکوں پر گائوں والے چلتے پھرتے نظر آرہے ہیں۔ اسٹیج پر داہنی طرف ایک بڑا پیڑ ہے۔۔۔ ایک کسان کا داخلہ۔ اس نے ہاتھ پر رسی لپیٹی ہوئی ہے۔ جس کا دوسرا سرا ایک ٹٹہری کی گردن میں بندھا ہوا ہے۔ ٹٹہری پائوں میں بندھی ہوئی رسی کی وجہ سے اچھل اچھل کر چل رہی ہے۔ کسان چلتے چلتے رکتا ہے۔ سامنے سے اس کی پتنی آتی ہے۔

کسان:                  پاروتی! کہاں جارہی ہو؟

پاروتی:        ابھی آتی ہوں۔ اپنا ببوا کھیلنے جاتا ہوں بول کر نکلا تو ابھی تک اس کا پتہ نہیں۔۔۔ شام ہورہی ہے۔ابھی پکڑ کر لاتی ہوں۔۔۔(تیز تیز چلتی ہوئی نکل جاتی ہے)

ٹٹہری:       (روتی ہوئی کسان سے)

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

تم نے مجھ کو پکڑا کیوں؟

ننھی سی اک چڑیا ہوں

روئی کا جیسے گالا ہوں

غلطی مجھ سے کیا ہوئی

رسی سے جو باندھی گئی

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

کسان:      (ٹٹہری کو گھور کر)

چڑیوں کی تو لیڈر ہے

ڈاکے ڈالا کرتی ہے

دانے کھاکر بھٹوں کے

نقصان فصل کا کرتی ہے

آج سزا میں تجھ کو دوں گا

آسانی سے تو نہ چھوڑوں گا

ٹٹہری:     (روتی ہے)

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

ہاتھ جوڑ کر معافی مانگوں

چاہتی ہوں کہ یہاں سے بھاگوں

دانے نہ اب میں کھائوں گی

نہ کسی کو کھانے دوں گی

غصہ غصہ معاف کرو

مجھ دکھیا کو آزاد کرو

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

(پنڈت جی کا داخلہ)

کسان:                  پائے لاگو مہاراج!

پنڈت جی:(خوش ہوکر) جیتے رہو۔ (ٹٹہری کی طرف دیکھ کر) کیوں بھائی! اس ننھی سی چڑیا کو کیوں باندھ رکھا ہے۔ بے زبان پرندہ ہے۔ بددعا لگ جائے گی۔

کسان:                  اس نے اپنی سہیلیوں کے ساتھ میری فصل خراب کردی ہے۔ بھُٹے کھوکھلے کردیے ہیں۔ شیطان کی خالہ ہے پوری۔

پنڈت جی: یہ کیا بات ہوئی؟ بھگوان جیسے انسان کو رزق دیتا ہے ویسے ہی چرند پرند کو بھی دیتا ہے۔ فصل میں اس کا بھی حصہ رہتا ہے۔

کسان:      (غصہ سے) پنڈت جی! آپ تو اپنے مریدوں کے گھر حلوہ پوری کھاتے ہیں۔ آپ محنت کرنا کیا جانیں؟ محنت تو ہم کسان کرتے ہیں۔

پنڈت جی: (ناراض ہوکر) کچھ تو شرم کرو۔ منہ سنبھال کر بات کرو۔ ٹٹہری مار خان! تم نے کب مجھے حلوہ پوری کھلایا؟

کسان:      (تیوریاں چڑھاکر) تو لیجیے۔ زبان سنبھال کر بولتا ہوں۔ میں کسان ہوں۔ پہلے زمین تیار کرتا ہوں۔ پھر بیج بوتا ہوں۔ کونپلیں پھوٹنے پر گڑائی کرتا ہوں تب جاکر فصل تیار ہوتی ہے۔ تو یہ شیطان ٹٹہریاں اسے چٹ کرجاتی ہیں اور آ پ ان کی طرفداری کررہے ہیں۔

پنڈت جی:   (بھڑک کر) میں نے کیا کہا؟

کسان:      یہی کہ فصل میں ان کا بھی حصہ ہے۔ آپ کا اُپدیش سن کر میں نے ٹٹہری کو آزاد کردیا تو کل ہی یہ اپنی پلٹن کے ساتھ میرے کھیت پر ہلہ بول دے گی۔

پنڈت جی:   مورکھ ہو تم۔ دانے دانے پر کھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔

کسان:      (ہاتھ جوڑ کر) مہربانی کرکے آپ یہاں سے جائیں۔ میں اس ٹٹہری کو سزا دے کر رہوں گا۔ اسے پیڑ کی ٹہنی سے لٹکاکر پھانسی دوں گا۔

پنڈت جی:   میں جارہا ہوں۔ تم جیسے بے وقوف کے ساتھ سر کون پھوڑے؟ جاتے ہیں۔

کسان:      (ٹٹہری کو آنکھیں دِکھاتے ہوئے) چل! اب بول۔ بڑی لیڈر بننے چلی تھی۔ ٹھہر اب تجھے مزہ چکھاتا ہوں۔

(اچانک پس منظر سے چیخیں سنائی دیتی ہیں۔۔۔ ’’ببوا کے باپو، دوڑو۔۔ بھاگ کر آئو۔۔ ببوا گِر گیا ہے۔ کسان گھبرا کر اپنے ہاتھ کی رسی کھول کر پیڑ کی نچلی شاخ سے باندھتا ہے اور رسی کا دوسرا سرا ٹٹہری کی ایک ٹانگ سے باندھ کر دروازے سے باہر چلا جاتا ہے۔ اسی دروازے سے کوا کا مکھوٹا لگائے، کالے کپڑے پہنے ایک لڑکا داخل ہوتا ہے۔ ٹٹہری زور سے چیختی ہے)

ٹٹہری:

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

پھنس گئی ہوں مشکل میں بھاری

تم بھائی میں بہن تمھاری

راکھی کی لاج نبھائو تم

مجھ کو قید سے چھڑائو تم

کوا:        

نہ ہوگا مجھ سے یہ نہ ہوگا

کسان مجھے مارے گا ڈنڈا

بہنا مجھ کو معاف کرو

جھگڑا جھگڑا معاف کرو

(فوراً پلٹ کر چلا جاتا ہے) ایک موٹا بیل اسٹیج پر آتا ہے۔ ٹٹہری کے نزدیک جاکر ہاتھ کے اشارے سے پوچھتا ہے؟

بیل:       (اشاروں سے) کیا معاملہ ہے؟

            (زور سے) کیا ہوا بولتی کیوں نہیں؟ یہ پیڑ سے کیوں لپٹی ہوئی ہو؟ رو کیوں رہی ہو؟

ٹٹہری:    

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

مشکل میں میں پھنس گئی ہوں

جھولنے کھیلنے کے دن گئے

مرنے کے دن ہیں آگئے

رکھ لو تم راکھی کی لاج

کرو مورکھ کسان کا علاج

بیل:       (نفی میں سر ہلاکر) میں ایسا نہیں کرسکتا۔

کسان میرا مالک ہے

ظالم نمبر ایک ہے

مدد تمھاری کرنے پر

بیل نہیں بھرتہ کہلائوں گا

ہاں کسان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہوسکتا ہے میری بات مان کر وہ تمھیں آزاد کردے۔۔۔( تیزی سے پلٹ کر چلا جاتا ہے۔)

(ٹٹہری زور زور سے روتی ہے۔۔ کون ہے؟ کون رو رہا ہے؟ کہتا ہوا ایک چوہا اسٹیج پر آتا ہے۔ ٹٹہری کو پیڑ سے بندھا دیکھ کر فوراً اس کے پاس پہنچتا ہے۔)

چوہا:        ٹٹہری بہن؟ کس نے تمھارا یہ حال کیا ہے؟ جلدی بتائو۔

ٹٹہری:

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

دو بھائی تو چھوڑ کر بھاگے

تم آئے تو نصیب جاگے

بھائی کا تم فرض نبھائو

کسان سے مجھ کو تم بچائو

ظالم کسان آتا ہی ہوگا

آتے ہی مجھ کو پھانسی دے گا

چوہا:        نہیں ایسا کچھ نہ ہوگا۔ تم صبر سے کام لو۔ میں کچھ کرتا ہوں۔

(چوہا پیڑ کے چاروں طرف گھوم کر رسی کی گانٹھ تلاش کرتا ہے اور اپنے تیز دانتوں سے گانٹھ کھولنے لگتا ہے۔ اس دوران ہلکی موسیقی بجتی رہتی ہے۔ گانٹھ کھلتی ہے ٹٹہری پٹ سے زمین پر پسر جاتی ہے۔ پھر تیزی سے اٹھ کر کپڑے ٹھیک کرتی ہے۔ چوہے کے پاس جاکر اس کے ہاتھوں کو چومتی ہے۔)

ٹٹہری:     (نم آنکھوں سے)

ٹرم ٹوں بھئی ٹرم ٹوں

احسان تمھارا مانتی ہوں

جان بچاکر بھاگتی ہوں

چھوٹے ہوکر بھی تم نے

کام بہت بڑا کیا ہے

راکھی کی لاج رکھی ہے

انسانیت کی مثال دی ہے

(کسان اور اس کی پتنی کا داخلہ: ٹٹہری کسان کو دیکھتے ہی پیڑ کے پیچھے چھپ جاتی ہے۔ کسان کو ٹٹہری نظر نہیں آتی وہ حیرت سے کہتا ہے: ارے! کہاں گئی؟ میں تو اسے پیڑ سے باندھ گیا تھا۔)

چوہا:         (سامنے آکر) باندھ کر گئے تھے۔۔ اسے پھانسی پر چڑھانے والے تھے تم؟

کسان:      (ببوا کو پتنی کی گود میں دے کر) تم اسے اندر لے جائو۔ دودھ گرم کرکے پلائو۔ اسے کچھ نہیں ہوا۔ صرف دہشت سے بے ہوش ہوگیا ہے۔

               (کسان کی پتنی ببوا کو لے کر اندر جاتی ہے۔)

کسان:      اوہ! تو تم نے ٹٹہری کو آزاد کیا ہے؟

چوہا:        (سینے پر ہاتھ رکھ کر ڈرامائی انداز میں جھکتے ہوئے) جی ہاں! اوپر والے نے مجھ سے یہ عظیم کام کروایا ہے۔

کسان:      جانباز چوہے! میں تمھیں سلام کرتا ہوں۔ ٹٹہری اب آزاد ہے۔

(ٹٹہری خوشی سے رونے لگتی ہے۔)

کسان:      نہیں ننھی بہن روئو نہیں میں اب تمھیں کھیت میں آنے سے نہیں روکوں گا۔ کل تم اپنی ساری سہیلیوں کو لے کر کھیت میں آنا۔ جتنا چاہے اتنے دانے کھانا۔

ٹٹہری:     میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ ہم دانے برباد نہیں کریں گے، جتنی بھوک ہوگی اتنے ہی دانے کھائیں گے۔

(ٹٹہری اورچوہا خوشی سے ناچنے لگتے ہیں۔ کسان کا ببوا بھی آجاتا ہے۔ وہ ٹٹہری کا ہاتھ پکڑ کر اچھلنے کودنے لگتا ہے۔)

کسان:      (چوہے کو کندھے پر اٹھا لیتا ہے) سچ ہے کہ اوپر والے کی مہربانی سے اُگنے والے اناج میں سب کا حصہ ہوتا ہے۔ دیکھو سب کتنے خوش ہیں۔ انھیں خوش دیکھ کر ہم بھی خوش ہیں۔ اچھے کام کرنے سے خوشی ملتی ہے۔۔

(پس منظر سے موسیقی کے بول ابھرتے ہیں۔ اے مالک تیرے بندے ہم۔۔۔ پردہ گرتا ہے۔)

'Sartaj House' Jindran Nagar,

Near 1st MSEB Tower, Pandharkawada Road,

Yavatmal (Maharashtra) - 445001

Mob.: 9423418497

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...