Tuesday, July 11, 2023

کامیابی

کامیابی

ایم۔اے کنول ؔجعفری 

ہائی اسکول کا رزلٹ آچکا تھا۔ اپنا رزلٹ دیکھنے کے لیے ارشد سائبر کیفے پہنچ گیا۔ وہاں زیادہ بھیڑ نہیں تھی۔ اُس نے جیب سے اپنا رول نمبر نکال کر آپریٹر کو دے دیا۔ کمپیوٹر پر نمبر ڈالتے ہی رزلٹ کھل کر سامنے آگیا ۔آپریٹر نے پاس ہونے کی مبارک باد دیتے ہوئے سلپ نکال کراُس کے ہاتھ میں تھما دی۔ اُس نے مارک شیٹ کو کئی بار الٹ پلٹ کر دیکھا۔ہائی اسکول پاس کر لینے کا یقین ہونے پر اُس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔وہ اپنی کامیابی پر اُچھل پڑا۔پچیس برس بعد چہرے پر آئی کامیابی کی خوشی دیکھنے لائق تھی ۔ اُس نے آپریٹر کوسلپ نکالنے کا محنتانہ ا داکیا اورپھرکچھ اس انداز میں سینہ تان کر گھر کی جانب چل دیا ،جیسے کوئی معرکہ فتح کر کے آرہا ہو ۔

حامد نے اپنے بیٹے ارشد کا داخلہ بیسک پرائمری اسکول کی پہلی جماعت میں کرا یا تھا۔اسکول کے راستے میں ایک فیکٹری پڑتی تھی۔اس کے گیٹ پر وردی پہنے ایک شخص اپنے کندھے پر بندوق لٹکائے پہرہ دیاکرتا تھا۔فیکٹری کے اندر جانے والے شخص کو اس سے اجازت لینے کے علاوہ میز پر رکھے رجسٹر پر اپنے دستخط بھی کرنے پڑتے تھے۔ اُسے وردی پہنے گیٹ مین اچھا لگتا تھا۔

گزشتہ برس ارشد اپنے والد کے ساتھ عیدالفطر کی نماز پڑھنے عید گاہ گیا تھا۔ راستے کے دونوں کناروں پر کئی لوگوں نے بچوں کے لیے کھلونوں کی دُکانیں سجا رکھی تھیں۔اُن میں پستول اور بندوقیں بھی تھیں۔ وہ بندوق خریدنا چاہتا تھا،لیکن اس کے پاس بندوق کے لیے پیسے نہیں تھے۔نماز سے واپسی میںاُس نے والد سے اپنی خواہش کا اظہار کیا ۔

حامد نے بیٹے کی خوشی کے لیے اُسے بندوق خرید کر دے دی۔ بندوق پاکر وہ بہت خوش ہوا۔ اُس نے اپنے دوستوں کو بندوق دکھائی۔سب نے بندوق کو پسند کیا۔ وہ اکثر بندوق سے کھیلتا اور اپنے دوستوں کو بھی کھیلنے کے لیے دے دیتا۔ ارشد اکثر کندھے پر بندوق ڈال کر اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا ہوتا۔

ارشدایک روز گھر کے باہر کھڑ ا  بسکٹ کھا رہا تھا۔ تبھی ایک کتا اُس کی طرف لپکا۔ اُس نے جھٹ کندھے سے بندوق اُتاری اور کتے کی طرف تان دی۔کتا برابر بھونکے جا رہا تھا۔ اُس کے پاس بندوق میں چلانے والے کارک یا پٹاخے نہیں تھے۔وہ تو کافی پہلے ختم ہو گئے تھے۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا ،’ کیا کرے؟‘اُس نے کتے سے بچنے کے لیے بندوق کی نال ہاتھ میں پکڑی اور پوری طاقت سے اُس کی بٹ کتے کے منہ پر مار دی۔ کتا بٹ کی چوٹ برداشت نہیں کر سکا اور بھونکتا ہوا بھاگ گیا۔

کتا تو بھاگ گیا،لیکن بندوق ٹوٹ گئی۔ یہ بندوق کئی مہینے سے اُس کے پاس تھی۔ راشد کو بندوق ٹوٹنے کا بڑا ملال ہوا۔اُس نے بندوق ٹوٹنے کا واقعہ والد سے بتایا۔

والد نے کہا: ’’کوئی بات نہیں ۔گاؤں میں جب نومی کا میلہ لگے گا، تب اُسے دوسری اور مضبوط بندوق خرید کر دیں گے۔اب وہ اپنا دل پڑھائی میں لگائے،تاکہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہو سکے۔‘‘

 نئی بندوق ملنے کی اُمید میںراشد بہت خوش ہوا۔اُس نے پڑھائی کے لیے محنت کا یقین دلایا۔یہ سن کر والد بھی خوش ہوگئے۔وہ اس لیے بھی پڑھنا چاہتا تھا کہ بڑا ہو کر اُسے گیٹ مین بننا تھا،جس کے پاس ہر وقت بندوق ہوتی ہے۔

ارشدپڑھائی لکھائی میںکمزور تھا۔ اس کے باوجود وہ ہر درجہ پاس کرتا ہوا ہائی اسکول تک پہنچ گیا ۔ ہائی اسکول کو عصری تعلیم کی پہلی سیڑھی مانا جاتا ہے۔اُس نے سن بھی رکھا تھا جو طالب علم ہائی اسکول میں کامیاب ہو جاتا ہے ، اُس کے لیے آگے کی پڑھائی آسان ہو جاتی ہے۔گارڈ کی نوکری کے لیے ہائی اسکول کی سند کا ہونا لازمی تھا۔

نوید،ساجد اور راحت سے اس کی دوستی تھی۔ایک روزدوپہر میں چھٹی کے بعد اسکول سے لوٹتے ہوئے ارشد نے دوستوں سے گارڈ بننے کی خواہش کااظہار کیا ۔اس پرتینوں نے حیرت سے اس کی جانب کچھ اس طرح دیکھا،جیسے اُس کی زبان سے کچھ غلط نکل گیا ہو۔

نوید نے کہا:’’ دوست!یہ تو ادنیٰ سی خواہش ہے ۔ اَرے بھائی بی اے یاایم اے کرنے کی بات کرو۔ گریجویشن کے بعدکسی اَچھے عہدے پرفائز ہوکر دفتر میں کام کرنے یا اسکول میں پڑھانے کا ارادہ کرو۔ کوئی بڑا خواب دیکھو ۔ بڑا خواب دیکھنے والوں کو آگے چل کر بڑا بننے اور ملک و ملت کی خدمت کرنے کا موقع ملتا ہے۔‘‘

ارشد کی خواہش پرساجد نے طنزیہ الفاظ میں کہا:’’ بی اے،ایم اے کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے ۔یہ ہائی اسکول ہی پاس کر لے تو بڑی بات ہے۔ہائی اسکول اور اس کے بعد کے امتحانات ہنسی کھیل نہیں ہوتے۔ بہت محنت درکار ہوتی ہے۔امتحان کی تیاری میںرات دن ایک کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا ہے۔وہ رات بھر جاگ کر پڑھتے رہتے تھے۔ رہی بات گارڈ یا گیٹ مین بننے کی،تو یہ نوکری بھی اسے تب ہی مل پائے گی ،جب یہ ہائی اسکول پاس کرلے گا۔‘‘

’’میں ہائی اسکول کیوں نہیں پاس کر سکتا؟ کیا میں اتنا کمزور ہوں کہ ہائی اسکول بھی نہ کر سکوں ؟‘‘ ارشد نے سوال کیا۔

’’تم پڑھائی میں بہت کمزور ہو۔ اب تک تو لوکل امتحان تھے۔ان میں سب پاس ہو جاتے ہیں۔ ہائی اسکول بورڈ کا امتحان ہوتا ہے۔ سینٹر بھی دوسرے اسکول میں جاتا ہے۔آگے پیچھے دوسرے اسکول کے لڑکے بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہاں ٹیچر نہ تو نقل کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے لڑکے سے کچھ معلوم کرنے دیتے ہیں۔‘‘ ساجد نے باریکیاں بتانے کی کوشش کی۔

’’تم دیکھ لینا! میں ہائی اسکول پاس کروں گا اور گارڈ بھی بن کر  دکھاؤں گا۔انشاء اﷲ!!‘‘ارشد نے اپنے ارادے کا دم دارمظاہرہ کرتے ہوئے کرارا جواب دیا۔

راحت نے کہا:’’ بھائی! آپس میں تکرار کیوں کرتے ہو؟ کچھ بننے یا حاصل کرنے کی تمنا کوئی بھی کرسکتا ہے۔ خوشحال زندگی کے لیے مستقبل کا پلان بنانا ہر شہری کا حق ہے۔میرا بھی،تمھارا بھی اورارشد کا بھی۔ہمیں ایک دوسرے کے لیے دل سے دعا اور نیک خواہشات کا اظہار کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سب کی آرزواور تمناؤں کو پورا کر دے۔آمین! ثم آمین!!‘‘

راحت کے تبصرے کے بعد خاموشی چھاگئی۔کسی نے کوئی بات نہیں کی۔چاروں چپ چاپ آگے بڑھتے گئے۔جس کا گھر آجاتا وہ بغیر کچھ کہے سنے اپنے گھر میں داخل ہوجاتا۔پہلے نوید،پھر ساجد اورپھر راحت اپنے گھرجا چکے تھے۔ارشد کاگھر آخر میں پڑتا تھا۔کچھ دیر بعد وہ بھی اپنے گھرکے اندرچلا گیا ۔

ارشدنے اپنی کاپی کتابوں کا بیگ الماری میں رکھا۔اس کے بعد اس نے ہاتھ منھ دھویا، دوپہر کا کھانا کھایااورپھر چارپائی پرجاکر لیٹ گیا۔ دوستوں کی باتیں ابھی بھی اس کے دل و دماغ میںگونج رہی تھیں ۔ ساجد کے تلخ الفاظ اُسے بے چین کر رہے تھے۔کبھی اپنے اور کبھی دوستوں کے بارے میں سوچتے سوچتے اسے ہائی اسکول کا خیال آگیا۔اس امتحان کے بارے میں وہ سنجیدگی سے سوچنے لگا۔کیا ہائی اسکول کا امتحان اتنا مشکل ہے کہ وہ اس میں پاس نہیں ہو سکتا؟جب دوسرے طلبا امتحان دے کر کامیاب ہو سکتے ہیں،تو وہ کیوں نہیں ہو سکتا؟وہ بھی کامیاب ہوگا۔ضرور کامیاب ہو گا۔وہ ساجد کو ہر حال میں ہائی اسکول پاس کر کے دکھائے گا۔

ہر حال میں امتحان پاس کرنے کی اُمید پرارشد روزانہ اسکول جاتا۔ کلاس ورک کے علاوہ ہوم ورک بھی پورا کرنے کی کوشش کرتا۔کچھ دنوں کے بعد اسکیم جاری ہو گئی۔وہ پڑھائی میں زیادہ وقت دینے لگا ۔وہ ہر مضمون کی بھرپور تیاری کر رہا تھا۔

 امتحان شروع ہو گئے۔پہلا پیپر ہندی کا تھا۔ وہ رول نمبر کے مطابق کمرے میں اپنی سیٹ پر جاکر بیٹھ گیا۔ٹیچر نے لڑکوں کو کاپیاں تقسیم کیں۔لڑکوں نے کاپی کے اُوپر درج تحریر کے مطابق خالی مقامات پرضروری معلومات کا اندراج کیا۔ گھنٹہ بجتے ہی ٹیچر نے پیپر بانٹ دیا۔

پیپر پڑھنے کے بعد لڑکے سوالات کے جواب لکھنے میں مشغول ہوگئے۔ارشد نے بھی لکھنا شروع کر دیا۔آپ جانتے ہیں اس نے کاپی میں خوب لکھا۔وقت پورا ہوتے ہی ٹیچر نے کاپیاں جمع کیں اور لڑکے امتحان گاہ سے باہر آگئے۔اسکول سے باہر لڑکے اپنے ہاتھوں میں پیپر لے کرجواب ملا رہے تھے۔

ارشد ان کے درمیان نہیں رُکا اور سیدھا گھر آگیا۔اسی طرح اس نے پورا امتحان دے دیا۔طے تاریخ پر رزلٹ آیا،لیکن کاپیوں میں خوب لکھنے کے باوجود رزلٹ اُمید کے خلاف آیا۔وہ امتحان میں فیل ہو گیا۔اُسے فیل ہونے کا بڑا صدمہ تھا۔ ساجد کی بات پوری ہو گئی۔ اس کا چہرہ لٹکا ہوا تھا۔ چیلنج میں ناکامی کی وجہ سے وہ ساجد کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔        

رفتہ رفتہ وقت گزرتا رہا۔ہر سال اُس کے اور ساتھیوں کے درمیان ایک جماعت کا فاصلہ ہوتا رہا۔تینوں دوست جماعت در جماعت آگے بڑھتے ہوئے کہیں سے کہیں پہنچ گئے،لیکن وہ اپنی جماعت کے حصار کو توڑ پانے میں ناکام رہا۔ تین برس فیل ہونے کے بعد وہ ریگولر طالب علم نہیں رہا تھا،اس لیے اب پرائیویٹ فارم بھر رہا تھا۔

نویدکو پڑھائی مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ انٹر کالج میں ٹیچر کی نوکری مل گئی۔ ساجد ڈاکٹر بن گیا ۔ عوام کی خدمت کے جذبہ کے تحت اس نے شہر میں اپنا اسپتال کھول لیا۔تعلیم کے معاملہ میں راحت سب سے زیادہ سنجیدہ تھا۔ اُسے اس کا پھل بھی ملا۔وہ آئی اے ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کرکے ضلع کلکٹر بن گیا۔

عزم محکم اور نئے جذبے کے ساتھ وہ ہر برس ہائی اسکول کا امتحان دیتا اور اُمید کرتا کہ اس بار وہ ضرور بالضرور پاس ہو جائے گا،لیکن ہر سال آنے والا رزلٹ اس کا منھ چڑاتارہتا۔ بیٹا کفیل بھی ہائی اسکول میں آچکا تھا۔اس برس باپ اور بیٹے کا سینٹر ہی ایک نہیں تھا،بلکہ دونوں کی سیٹیں بھی ایک ہی کمرے میں آگئیں۔ امتحان کے دوران بیٹے نے باپ کی مدد کرنے کی کوشش کی،لیکن ارشد نے اسے منظور نہیں کیا۔نتیجہ میں بیٹا پاس ہو گیااور باپ کو ایک بار پھر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔

 ارشدنے ہائی اسکول کا امتحان پاس کرلیا۔ اُس کے دل کی مراد پوری ہو گئی۔اُسے ایک فیکٹری میں گارڈ کی نوکری بھی مل گئی۔ گارڈ بننے کا اُس کا خواب پورا ہو گیا۔ وہ گارڈ کی وردی پہن کرپنی بیٹی کا داخلہ کرانے اسکول گیا۔پرنسپل آفس کے باہر اُس کا ساجد سے آمنا سامنا ہو گیا۔

’’ارشد! یہ تم ہو۔وہ بھی گارڈ کی وردی میں!!‘‘ساجد نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’ہاں! میں ہی ہوں!! تمھارے طعنے نے مجھے گارڈ بنا دیا۔ میرا دیرینہ خواب پورا ہوگیا۔‘‘ارشد نے جواب دیا۔

’’ارشد! میرے طعنے کے پیچھے کوئی غلط منشا نہیں تھا۔تم کلاس میں سب سے کمزور تھے۔میں تو صرف اتنا چاہتا تھا کہ میرے الفاظ تمھیں چبھ جائیں۔تمھارے دل کو لگ جائیں،تاکہ تم پڑھائی میں جی جان سے جٹ جاؤ۔ تم نے یہ ثابت کر دیا کہ کوئی کام بھی مشکل نہیں ہے۔بس ہمت اور لگن ہونی چاہئے ۔ ‘‘

’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو ساجد! انسان کے لیے کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہے۔اگر وہ ٹھان لے تو سب کچھ آسان ہے۔ہمت اور حوصلے کے ساتھ قدم بڑھانے والے کو ایک نہ ایک روز منزل مل ہی جاتی ہے۔‘‘ ارشد نے مسکراتے ہوئے ساجد سے ہاتھ ملایا اور بیٹی کے ساتھ پرنسپل کے آفس میں داخل ہو گیا ۔

پیارے بچو!دیکھا آپ نے!! ارشد پڑھائی میں کمزور تھا۔وہ ہائی اسکول پاس کر کے ارڈ بننا چاہتا تھا۔حالانکہ منزل تک پہنچنے میں اُسے پچیس برس لگ گئے،لیکن کامیابی حاصل کرکے ہی دم لیا۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کام کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔ ہمت اور لگن کے ساتھ اُسے سر کیا جا سکتا ہے۔

 

127/2, Jama Masjid,

NEENDRU, Tehsil Dhampur,

Distt. Bijnor (U.P.) 246761,

Mob.: 9917767622

 

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...