Tuesday, July 11, 2023

فنکاری عجیب و غریب میوزیم

فنکاری  عجیب و غریب میوزیم

واعظ الرحمن/شیراز حسین عثمانی

اس سے پہلے کہ آپ کو ہندوستان کے کچھ عجیب و غریب میوزیم گھمائیں، ذرا یہ بھی تو غور کریں کہ میوزیم جانا کیوں اہم ہے؟ بدلتے وقت کے ساتھ میوزیم اب اس طرح کے نہیں رہ گئے ہیں کہ وہاں جو کچھ ہوگا وہ صدیوں پرانا ہی ہوگا اور کسی پرانے سِکّے کو دیکھ کر آپ تعجب کریں گے کہ اوہ تو پرانی کرنسی ایسی ہوا کرتی تھی۔کیا واقعی ایسے لباس انسان پہنتا تھا جنھیں پہن کر چلنا اب تو تقریباً نا ممکن ہے۔

ہم بتادیں کہ ایک ریسرچ کے تحت سائنسدانوں نے پتہ لگایا ہے کہ جب آپ میوزیم جاتے ہیں تو بہت ہی کم قیمت پر ایک تجربہ حاصل کرتے ہیں اور یہ تجربہ آپ کو کسی مادّی (Materialistic)چیز خریدنے سے زیادہ بہتر محسوس کراتا ہے۔

انسان کو تعلیم دینا میوزیم کا ایک بنیادی رول رہا ہے۔ کئی اسکول اور میوزیم اب اس طرح کے معاہدے کرچکے ہیں جہاں کچھ کلاسز میوزیم کے اندر ہی ہوا کرتی ہیں۔مطلب آپ کو پڑھایا جارہا ہے۔ اگر کسی سائنسی تجربے کے بارے میں یا آریہ بھٹ کے اصول تو ایک بالکل نئے انداز میں آپ کسی سائنس کے میوزیم میں اسے دیکھ سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ میوزیم ہمیں کہیں نہ کہیں کچھ نیا کرنے کا، کچھ بڑا کرنے کا حوصلہ بھی دیتے ہیں۔ ہم اپنے سماج میں کیا بدلائو دیکھ رہے ہیں؟ اور ہمارا معاشرہ کن حالات سے گزر کر یہاں پہنچا ہے؟ یہ بات ہم اکثر میوزیم میں محسوس کرسکتے ہیں اور زمانے کی یہ ’’ٹائم لائن‘‘ جو ہمیں دکھائی جاتی ہے ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہے جو کچھ کرنے اور Inspireکرنے کے لیے کارگر ثابت ہوتی ہے۔

پرکھوٹی مکتانگن، رائے پور

(Purkhouti Muktangan, Raipur)

آپ کو یہ نام پڑھنے میں ذرا وقت لگا ہوگا۔ اصل میں یہ وہیں کی عام قبائلی زبان سے نکلا ہوا نام ہے جس کا مطلب ہے ’’آزاد اور کھلا آنگن اپنے پرکھوں کا‘‘ چھتیس گڑھ کے فن کی خاص بات آپ کو اس کھلے ہوئے میوزیم میں دیکھنے کو ملے گی۔ دیواروں پر بنی جانوروں اور انسانوں کی کہانیاں، لوہے کو تپا تپاکر ، پیٹ پیٹ کر بنائے چہرے، انسان اور الگ الگ مکھوٹے اور آرٹ کے انسٹالیشن(Installations)دیکھ کر آپ سوچتے رہ جائیں گے کہ آپ نئے زمانے میں ہیں یا کسی صدیوںسال پرانی انسانی ثقافت کے آنگن میں آکھڑے ہوئے ہیں۔

وراثتِ خالصہ، آنند پور صاحب، پنجاب

 (Virasat-e-Khalsa, Anandpur Sahib, Punjab)

یہ میوزیم سکھ مذہب کی ثقافت اور تاریخی سفر کی اہمیت کو بہت ہی دلکش انداز سے ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہ ہندوستان میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے میوزیم میں سے ایک ہے۔ یہاں دیوار پر بنی ایک بڑی پینٹنگ جسے مورل (Mural) کہتے ہیں اپنے آپ میں کہانی دکھانے اور سنانے کی ایک اچھوتی تصویر ہے۔

انسانی دماغ میوزیم، بنگلورو، کرناٹک

(NIMHANS Brain Museum, Bengaluru, Karnataka)

انسان (NIMHANS) کے دماغی صحت کے مرکز کے basement میں جب آپ جائیں گے تو تقریباً ۳۰۰ طرح کے انسانی دماغ اپنی اپنی کہانیاں سنانے کے لیے آپ کا انتظار کررہے ہوں گے۔ یہ میوزیم basementمیں ہے اس لیے اسے دیکھنا اور پُر اسرار لگتا ہے ۔جب آپ میوزیم گھوم لیتے ہیں تو آخر میں آپ کے ہاتھوں میں ایک اصلی انسانی دماغ بھی پکڑایا جاتا ہے۔

مایونگ مرکزی میوزیم،مایونگ،آسام

(Mayong Museum, Mayang, Assam)

دوستو! آسام ہندوستان کے خوبصورت اور سرسبزوشاداب  شہروں میں سے ایک ہے۔ آپ اگر وہاں کے رہنے والوں سے ملے ہوں گے تو یہ جانتے ہی ہوں گے کہ ان کے کھانے پینے اور رہنے کے انداز دلّی یا اترپردیش کے رہنے والوں سے کافی مختلف ہیں۔ اسی لیے آسام اپنے آپ ایک دلچسپ حصہ بن جاتا ہے۔ مایونگ آسام کا ہی ایک گائوں ہے جو سالوں سے اپنے کالے جادو کے لیے مشہور ہے۔جی! آپ صحیح سمجھے ۔ یہ میوزیم کالے جادو کا میوزیم ہے۔ یہاں پرانے تانترک علم سے جڑی کتابیں، تاریخی دستاویز ہونے کے علاوہ جادو میں استعمال ہونے والے سامان کو بھی دیکھا جاسکتاہے اور یہی نہیں اگر آپ بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو وہاں کے انتظام والے جادو کا نمونہ بھی دکھاتے ہیں۔

سُلبھ بین الاقوامی ٹوائلٹ میوزیم ،دہلی

(Sulabh International Museum of Toilet, Delhi)

اس کا ذکر آپ ممکن ہے کہ بہت پہلے اُمنگ میں پڑھ چُکے ہوں۔ اس میوزیم میں صاف صفائی اور ٹوائلٹ کے استعمال پر خاص زور دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی کئی تاریخی ٹوائلٹبھی آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے میں رومن سلطنت کا سونے کا بنا ہوا کموڈ بھی دیکھنے کی چیز ہے۔(جی ہاں! ہنسنے کی چیز بھی ہے۔)

INS کُرسُرا سبمارین میوزیم، وشاکھاپٹنم

(INS Kursura Submarine Museum, Vishakhapatnam, AP)

اُمنگی ساتھیو! اگر کبھی آپ کا وشاکھاپٹنم جانا ہو تو اس میوزیم کو ضرور دیکھیے گا۔ یہ سبمارین میوزیم کیا کسی بلڈنگ میں ہے؟ نہیں! جناب یہ میوزیم خود ایک سبمارین میں موجود ہے۔ ۳۱ سال سمندروں کے راز جاننے کے بعد بڑے بڑے سمندری سفر اور مہم جوئی کے کارناموں سے گزر کر ۲۰۰۱ء میں ۳۱ سال کی سروِس کے بعد ہندوستانی سرکار نے اس سبمارین کو ایسے آرام کرنے کو کہا کہ ہر جگہ واہ واہ ہوگئی۔پورے ایشیا کی یہ پہلی اور دنیا کی دوسری سبمارین ہے جو میوزیم میں بدل گئی ہے۔ رام کرشنا بیچ پر موجود یہ میوزیم اپنے آپ میں انوکھا میوزیم ہے۔ سمندری زندگی اور سبمارین سے جڑی اس میں بہت معلوماتی اور دل کو تھام  لینے والی چیزیں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ یہاں کام کرنے والوں کے بنکر، ٹوائلٹ، کچن، کمیونیکیشن کے کمرے وغیرہ دیکھ کر دل میں اس سمندری زندگی اور اس سبمارین کی زندگی کو لے کر ایک الگ ہی اُمنگ پیدا ہوتی ہے۔

پتنگ کائٹ میوزیم ،احمدآباد، گجرات

(Patang Kite Museum, Ahmedabad, Gujrat)

پتنگ کا میوزیم ہے جو کہ احمدآباد میں موجود ہے مگر کیوں کہ پتنگ بازی سے پچھلے کچھ عرصے میں بہت سے انسانوں اور پرندوں کے حادثات پیش آئے ہیں اسی لیے ہم یہاں یہ بتاتے چلیں کہ اس میوزیم کا ذکر کرکے ہم پتنگ بازی کو کسی بھی طرح سے بڑھاوا دینے کی بات نہیں کررہے ہیں۔ باقی آپ خود ہی سمجھ دار ہیں تو کبھی احمد آباد جانا ہو تو یہاں ایک نگاہ ضرور ڈالی جاسکتی ہے۔

ہندوستانی میوزیم، کولکاتا

(Indian Museum, Kolkata, West Bengal)

یہ ہندوستان کا سب سے بڑا اور سب سے پرانا میوزیم مانا جاتا ہے۔ یہ میوزیم ۱۸۱۴ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہاں پر آپ کو مغل زمانے کی تصویریں نظر آئیں گی، پرانے ڈھانچے مصر کے انداز میں محفوظ کیے گئے ہیں اور طرح طرح کے جواہرات بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ آج کے وقت میں میوزیم میں ۳۵ گیلریاں موجود ہیں جو الگ الگ چھ حصوں میں تقسیم ہوئی ہیں۔ آرٹ، آرکیالوجی، زولوجی اور بوٹنی وغیرہ۔ یہاں پر لائبریری بھی موجود ہے اور ساتھ ہی میوزیم کی اپنی ایک دکان بھی ہے جس میں سے آپ میوزیم سے جڑی چیزیں خرید سکتے ہیں۔کولکاتا کا یہ میوزیم ہندوستان کی تاریخ میں ایک بے حد اہم میوزیم مانا جاتا ہے اور سچ بتائیں ہم تو اسے ایک بار میں گھوم ہی نہیں پائے۔ یہاں ہم آپ کو کہیں گے جب بھی آپ کسی میوزیم میں جائیں تو اس کے بارے میں ایک دن پہلے تھوڑا پڑھ لیجیے تاکہ میوزیم پہنچ کر آپ بالکل اجنبیت محسوس نہ کریں اور آپ کے وقت کی بھی بچت ہو۔

باقی میوزیم میں دلّی کا ڈالس میوزیم، دلّی کا ریل میوزیم، لیجنڈس موٹر سائیکلنگ کیفے اور میوزیم،بنگلور ،کرناٹک ،سُدھاکار میوزیم، حیدرآباداور ممبئی کا آر بی آئی مونیٹری میوزیم بھی کچھ الگ ہی رنگ کے قابل ذکر میوزیم ہیں۔ اب پھر وہی بات دہرائیں گے کہ ابھی بھی کچھ اور بھی میوزیم ہیں جن کا ذکر رہ گیا ہے، تو اس کی وجہ وقت کی کمی سمجھ لیجیے اور ممکن ہو تو ہمیں لکھ کر بتائیں کہ آپ کا پسندیدہ میوزیم کون سا ہے؟

اچھا ہاں! ایک اور بات ۔ مانا یہ لائٹ کیمرا اور ایکشن کا کالم نہیں ہے مگر پڑوسی کالم ہونے کے اثر میں یہاں ایک دلچسپ فلم کا ذکر شامل کررہے ہیں۔ کچھ سال پہلے آئی ’’نائٹ ایٹ دی میوزیم‘‘ ایک ایسے میوزیم کی کہانی ہے جہاں سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی سب کچھ زندہ ہوجاتا ہے۔ بڑا سا ڈائناسور کا ڈھانچہ کسی پیارے پالتو کتے کی طرح یہاں سے وہاں بھاگتا رہتا ہے۔ موم کے پتلے چھوٹے بونے، ریڈ انڈین، پرانی بندوقچی، قدیم انسانی بُت سب کے سب زندہ ہوکر یہاں سے وہاں بھاگا دوڑی شروع کردیتے ہیں اور مسئلہ تب ہوتا ہے جب ان ہی میں سے ایک بدمعاشی پر اتر آتا ہے۔ میوزیم میں بڑی مشکل سے نوکری پانے والے ’لیری‘ اور اس کے دس سال کے بیٹے کے لیے مصیبتیں ایک نیا رُخ لے لیتی ہیں جب میوزیم سے کچھ جانور اور پتلے باہر یعنی آج کے زمانے میں سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ انھیں لیری(Larry)کیسے واپس لاتا ہے؟ اور بدمعاشی پھیلانے والے سے کیسے نپٹتا ہے؟ دیکھنے لائق تو ہے ہی مگر ساتھ ہی یہ میوزیم کی زندگی کو الگ انداز میں پیش کرنے والی فلم ہے جسے چھوٹے بڑوں کے ساتھ آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ انجوائے کیا جاسکتا ہے۔

آپ کو جاتے جاتے یہ بھی بتادیں کہ ہندوستان اور آس پاس کے ممالک سے لُوٹے گئے سامان پر یورپی اور امریکی میوزیم ہماری بے انتہا زرخیز وراثت پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ کچھ ممالک نے اپنے میوزیم میں موجود اشیا واپس اسی ملک کو لوٹانی شروع کی ہیں جہاں سے وہ لائی گئی تھیں جیسے حال ہی میں نیویارک کے میٹروپولٹن میوزیم (MET)نے ہندوستان کو ۱۵ مورتیاں واپس کیں جو ایک اسمگلر کے ذریعے ان تک پہنچی تھیں، مگر ابھی بھی ہماری بیش قیمت چیزیں باہر کے میوزیم میں قید ہیں۔ دوسری طرف ڈنیور آرٹ میوزیم Antique 4کمبوڈیا کو واپس لوٹائے ہیں۔نائیجیریا کو بھی Smithsonianکے Institution نے Benin Bronzesلوٹائے ہیں،مگر یہ واپس کرنے کا سلسلہ بہت مختصر اور دھیما ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ جیسے جیسے یہ وراثتی Antiqueہندوستان اور دوسرے ممالک کو مل رہے ہیں تو ان کی حفاظت ان کی اہمیت اور کہانی کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کیا ضروری اقدام سرکار اُٹھا رہی ہے ؟اور عوامی رول کیا بن رہا ہے؟

اچھا تو آج کی ملاقات کے لیے اتنا ہی ۔ جلد آپ سے پھر بات ہوگی تب تک اس کالم کو پڑھ کر تاریخ کے کسی نئے پرانے انداز کے میوزیم میں جانا ہو اور اپنے ذوق و شوق میں تبدیلی محسوس ہوئی ہو تو ایک خط اُمنگ کو ضرور لکھیے گا۔

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...