Tuesday, July 11, 2023

مسلم دورِ حکومت کا ایک لاجواب قاضی

مسلم دورِ حکومت کا ایک لاجواب قاضی

محمد ابن وجیہ 

ایک دن خلیفہ ہارون رشید نے ایک عام آدمی کا حلیہ اختیار کیا اور اپنے شہر سے دوسرے شہر کا رُخ یہ دیکھنے کے لیے کیا کہ اس کی ریاست کے لوگ کیسے معاملہ کرتے ہیں۔اس کے لیے انھوں نے ایک اعلیٰ گھوڑے کا انتخاب کیا اور سفر کا آغاز کیا۔ وہ آگے بڑھتے گئے اور کچھ میل دور ’’بصرہ‘‘ پہنچے۔ وہاں انھوں نے سڑک کے کنارے ایک معذور ضعیف کو بیٹھا دیکھا جِسے دیکھ کر انھیں رحم آیا، پس انھوں نے اس ضعیف کی مدد کرنی چاہی اور اسے اپنی مدد سے گھوڑے پر سوار کیا۔ چلنے ہی والے تھے کہ انھوں نے ضعیف آدمی سے پوچھا:

’’بابا آپ کہاں تک جائیں گے؟ ‘‘

بوڑھے آدمی نے کہا: ’’بصرہ‘‘۔

خلیفہ بوڑھے آدمی کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ دونوں نے سفر شروع کیا اور جب منزل پر پہنچے تو بوڑھے سے کہا:

’’آپ کی منزل آگئی، اب اتریں۔‘‘

بوڑھے نے کہا : ’’میں اتروں؟ کیوں؟ میں کیوں اتروں؟ یہ میرا گھوڑا ہے‘‘۔

’’ناشکرے انسان! کیا میں تمھیں سڑک کے کنارے سے یہاں تک نہیں لایا‘‘۔خلیفہ نے حیران ہوکر جواب دیا۔

لیکن پھر سوچا کہ ہم دونوں ہی اس شہر میں اجنبی ہیں ، میں کیسے ثابت کروں کہ یہ گھوڑا میرا ہے اور اگر میں زبردستی اپنا گھوڑا لوں تو یہ مکار بوڑھا شور مچاکر بھیڑ اکٹھی کرلے گا اور بھیڑ میرے ہی خلاف کھڑی ہوجائے گی۔ پھر انھوں نے سوچا کہ اس کو کچھ رقم دے کر گھوڑا حاصل کرلیتا ہوں۔ پھر انھیں خیال آیا کہ یہ بے ایمان آدمی ایسا کسی اور کے ساتھ بھی کرسکتا ہے۔ غور کرنے کے بعد خلیفہ نے یہ فیصلہ کیا کہ میں قاضی کے پاس معاملہ لے جاتا ہوں ، اس سے یہاں کے قاضی کی قابلیت کا بھی اندازہ ہوجائے گا۔ خلیفہ نے بوڑھے سے کہا:

’’چلو قاضی کے پاس چلتے ہیں ۔‘‘ بوڑھا راضی ہوگیا۔

قاضی کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ قاضی کے پاس دو مقدمے پہلے سے ہی موجود تھے۔ ایک تیل فروش اور ایک قلی آپس میں لڑرہے تھے۔ ان کے پاس ایک تھیلی تھی جس میں سونے کے سِکّے تھے۔ دونوں اُسے اپنی ملکیت بتا رہے تھے۔ خلیفہ نے دیکھا تو دل میں سوچا ارے واہ! دیکھتا ہوں قاضی اس مسئلہ کو کیسے حل کرتے ہیں؟

قاضی صاحب نے تھیلی چھوڑ کر کل صبح آنے کو کہا۔

دوسرا مقدمہ ایک ادیب اور درزی کا تھا۔ ادیب کا کہنا تھا کہ درزی نے میری کتاب حکمت چرا لی ہے جب کہ درزی کا دعویٰ تھا کہ یہ کتاب میری ہے۔ قاضی صاحب نے ان سے بھی کتاب اپنے پاس چھوڑ کر کل صبح آنے کو کہا۔

اب خلیفہ کے مقدمے کی باری آئی ۔ خلیفہ نے قاضی صاحب کو پوری بات بتائی۔پھر قاضی صاحب نے ضعیف آدمی سے پوچھا کچھ کہنا چاہتے ہو؟ بوڑھے آدمی نے کہا: ’’میں نے اس گھوڑے کو بچپن سے پالا ہے ۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو بھائیوں کی طرح پیار کرتے ہیں اور کہنے لگااگر یہ گھوڑا مجھے نہ ملا تو آپ دیکھ ہی سکتے ہیں میں ایک بوڑھا معذور ہوں، مجھے اس کی ضرورت ہے تاکہ میں اس کو اپنا ذریعہ ٔمعاش بنائوں۔‘‘

قاضی نے کہا تمھارے پاس کوئی گواہ ہے۔ بوڑھے نے جواب دیا ’’نہیںجناب اعلیٰ‘‘۔ تو پھر گھوڑا چھوڑ کر جائو کل میرے پاس آنا۔ قاضی نے کہا۔

اگلے دن خلیفہ ہارون رشید وقت سے پہلے ہی قاضی کے پاس باقی مقدمات کا  فیصلہ سننے کے لیے حاضر ہوگئے۔

سب سے پہلے تیل فروش اور قُلی کو بلایا۔ سکہ کی تھیلی تیل فروش کو دی اور قلی سے کہا تم نے وہ چیز حاصل کرنی چاہی جو تمھاری نہیں تھی اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ دیکھو قُلی تیل فروش کو مفت میں چھوڑ کر آئے۔

ادیب اور درزی کے مقدمے میں قاضی صاحب نے کتاب حکمت ادیب کو دے دی ،لیکن درزی نے کہا یہ کتاب میری ہے۔ قاضی نے کہا ’’تم جھوٹے ہو۔ اب تمھیں ادیب کو پانچ سونے کے سکے دینے ہوں گے‘‘۔ قاضی نے حکم دیا۔

بوڑھے اور خلیفہ کے مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے قاضی نے بوڑھے سے کہا ’’تم نے احسان فراموشی کیوں کی؟ اب تمھیں سزا کے طور پر اس شہر میں آنے والے ہر مسافر کی خدمت کرنی ہے۔‘‘

’’مسافر یہ گھوڑا تمھارا ہے۔ اللہ تمھیں تمھارے رحم کا اجر دے‘‘۔ قاضی نے خلیفہ سے کہا۔

خلیفہ ہارون نے قاضی کا شکریہ ادا کیا اوروہیں رُک کر سب کے جانے کا انتظار کرنے لگے۔ جب قاضی وہاں اکیلے رہ گئے تب وہ قاضی کے پاس گئے اور کہنے لگے یہ مقدمات آپ نے کیسے حل کیے؟

قاضی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا’’یہ سب بہت ہی آسان تھے۔ کیا آپ نے نہیں سنا کہ تیل فروش نے کہا یہ سکے میرے پاس کئی برس سے ہیں۔ میں نے ان سکوں کو رات پانی میں رکھا تو آج صبح تیل کے قطرے پانی پر تیر رہے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ سکے تیل فروش کے ہیں۔‘‘

عمدہ! خلیفہ نے جواب دیا لیکن کتاب حکمت کا فیصلہ کیسے کیا؟ ’’وہ بھی آسان تھا۔‘‘ قاضی نے جواب دیا۔

’’جب میں نے اس کتاب کو کھولا تو دیکھا کہ اس میں ادیب کے حقوق اور احکامات کے صفحے زیادہ استعمال شدہ تھے، بس تو نتیجہ یہ نکلا کہ یہ کتاب ادیب کی ہے۔‘‘

’’لاجواب! آپ کی حکمت کمال کی ہے۔ ‘‘خلیفہ نے کہا۔ ’’پر آپ کو گھوڑے کا کیسے پتہ  چلا؟‘‘

’’گزشتہ شب میںنے گھوڑے کو ایسی جگہ باندھا کہ تم دونوں اس کے پاس سے گزرو اور آج صبح جب بوڑھا آدمی گھوڑے کے پاس سے گزرا تو گھوڑا خاموشی سے بیٹھا رہا، لیکن جب آپ آئے تو گھوڑا ہنہنایا اور کھڑا ہوگیا جو کہ کوئی بھی جانور اپنے مالک کو دیکھ کر کرتا ہے۔‘‘

’’درست! ‘‘خلیفہ نے کہا ۔ ’’آپ کی حکمت بے جوڑ ہے۔میں خلیفہ ہارون رشید ہوں مجھے آپ جیسے انصاف پسند قاضی کی ضرورت ہے۔ آج سے میں آپ کو صدر قاضی بناتا ہوں۔‘‘

 

Asstt. Prof., Dept. of Ilmul Advia,

Sufia Unani Medical College, Hospital & Research Centre,

Chakia, East Champaran, Bihar - 845412

Mob.: 8294057006

 

No comments:

Post a Comment

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار

اردو صحافت کا سرفروشانہ کردار ڈاکٹر سمیع احمد اردو ایک زندہ اور متحرک زبان ہے ،اس نے ہمیشہ ملک کی تعمیر وترقی میں ایک متحرک کردار اداکیا۔ملک...